skip to Main Content

سب سے پیارے محمد رسول اللہﷺ

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔

عامر اور ایوب اپنے والد کے کمرے میں داخل ہوئے۔انہوں نے دیکھا،ان کے والد کے ہاتھ میں ایک موٹی سی کتاب تھی اور وہ اس میں گم تھے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ اللہ ابا جان! عامر اور ایوب نے کہا.
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! انہوں نے کتاب سے نظریں ہٹا کر کہا،پھر بولے:
آؤ بھئی۔۔۔۔۔۔لیکن یہ کیا؟تم دونوں تو کچھ زیادہ ہی پریشان لگ رہے ہو۔
آپ کا اندازہ درست ہے ابا جان،ہم کچھ پوچھنے کے لیے آئے ہیں،لیکن آپ تو کتاب پڑھ رہے ہیں،خیر ہم پھر کسی وقت آجائیں گے۔
یہ کہہ کر وہ جانے کے لیے مڑے،اسی وقت انہوں نے اپنے والد کی آواز سنی:
ایک منٹ بھئی!
وہ دونوں ان کی طرف بڑھے اور انہوں نے دیکھا کہ ان کے والد کتاب بند کر چکے تھے،ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی،انہوں نے پیار بھرے لہجے میں کہا:
پہلے تو میں یہ جاننا چاہوں گا کہ تم پوچھنا کیا چاہتے ہو؟اس کے بعد فیصلہ کروں گا کہ مجھے کتاب کا مطالعہ جاری رکھنا چاہیے یا تمہاری باتوں کا جواب دینا چاہیے۔
ہم شدید الجھن میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ہم مسجد سے نماز پڑھ کر نکلے تو ہمارا ایک کلاس فیلو مل گیا،کہنے لگا: نماز پڑھنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔اب تو ہر بات کھل کر سامنے آگئی ہے،آپ تو ہمیں یہی بتاتے رہے ہیں نہ نہ کہ تمام عبادات میں سب سے پہلا نمبر نماز کا ہے ہے اور یہ کہ نماز کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑی جا سکتی۔یہاں تک کہ کرامر خاموش ہو گیا۔
ہاں بیٹا! سو فیصد یہی بات ہے،تمہارے جس دوست نے یہ کہا ہے کہ نماز پڑھنے کی کیا ضرورت ہے،وہ تمہارا دوست نہیں میرے بچو، بدترین دشمن ہے، تاہم میں جاننا چاہوں گا کہ اس نے یہ بات کیوں کہی۔
اس کا کہنا ہے: جب تمام مذاہب برابر ہے ہیں،حق ہیں،تب پھر نماز پڑھنا لازمی کیسے ہو گیا۔عیسائی تو نماز نہیں پڑھتے،بتوں کی پوجا کرنے والے ہندو بھی نماز نہیں پڑھتے تو مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی ایسی کیا ضرورت ہے؟
لیکن اس نے یہ بات کیسے کہہ دی کہ تمام مذاہب برابر ہیں، یعنی سب مذاہب ایک جیسے ہے؟ان کے والد نے حیرت زدہ ہو کر کہا۔
شاید انہوں نے اس قدر عجیب بات زندگی میں پہلی بار سنی تھی اور دیکھا جائے تو یہ بات حددرجہ خوفناک بھی تھی۔ایسے میں ایوب نے کہا:
اس کا کہنا ہے،یہ بات تو انڈیا کے ڈراموں اور قریب قریب ہر دوسری،تیسری فلم میں دکھائی جاتی ہے مثلا فلم کا ہیرو کسی مشکل میں مبتلا ہوجاتا ہے،وہ ہے بھی مسلمان پہلے وہ مسجد میں جاکر دعا کرتا ہے،پھر مسجد سے نکل کر مندر میں چلا جاتا ہے،وہاں بھی دعا کرتا ہے۔اس کے بعد گرجے کا رخ کرتا ہے،درجے میں بھی دعا کرتا ہے،پھر کہتا ہے کہ یہ سب مذاہب ایک جیسے ہیں،ان میں کوئی فرق نہیں۔
اف مالک! میں نے اس قدر خوفناک بات زندگی میں آج پہلی بار سنی ہے۔آو! بیٹھ جاؤ،اب میں اس کتاب کا مطالعہ نہیں کر سکتا،تمہارے ذہن کو صاف کرنا سو کتابوں کے پڑھنے سے زیادہ اہم ہے،بلکہ میں تو کہتا ہوں،اپنے کچھ دوستوں اور بھائی بہنوں کو بھی بلا لو۔عورتیں بھی اگر سننا چاہیں تو نہیں ساتھ والے کمرے میں بٹھا دو۔درمیان میں پردہ لٹکا دو،اس طرح وہ پردے میں رہ کر ساری بات سن سکیں گی۔
جی اچھا! ہم ایسا ہی کیے دیتے ہیں۔
ان کے والد کا نام شیخ ابرار احمد تھا۔دینی کتب کا مطالعہ ان کا شوق تھا،اس طرح وہ دوسروں کو بھی دین کی باتیں بتاتے رہتے تھے۔ان کی ہدایت کے مطابق عشائ کے بعد عامر ایوب کے دوست بھی پہنچ گئے۔ان کے باقی بھائی بہن بھی موجود تھے۔لڑکیاں اور عورتیں ساتھ والے کمرے میں بیٹھ گئیں۔اس کے بعد شیخ صاحب نے پہلے تو سب کو جمع کرنے کی وجہ بتائی۔عامر اور ایوب کے بیٹے سمجھ دوست نے جو کچھ کہا تھا،وہ سب بتایا۔پھر اپنی بات شروع کی:
آج کی باتیں بہت اہم ہیں۔آپ غور سے سنیں،درمیان میں کوئی سوال ذہن میں ابھرے تو پوچھ سکتے ہیں۔
دنیا میں جتنے رسول اور نبی آئے،سب نے ایک ہو تعلیم دی کے اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں،صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔انبیائ کی موجودگی تک تو ایمان لانے والے لوگ اس عقیدے پر قائم رہے،لیکن ان کی وفات کے بعد ان کی قومی شیطان کے بہکاوے میں آکر شرک میں مبتلا ہوتی چلی گئیں،یہاں تک کہ کائنات کے سب سے پیارے نبی نبی محمد کی پیدائش سے پہلے پہلے خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت موجود تھے۔وہ لوگ ان بتوں کو پوجتے تھے۔انہیں معبود سمجھتے تھے۔ اللہ کو بھی معبود مانتے تھے،اور ان بتوں کو بھی معبود مانتے تھے،حالانکہ وہ اپنے آپ کو دین ابراہیمی پر سمجھتے تھے۔
نبی کریم سے پہلے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تھے۔سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لئے جانے کے بعد عیسائیوں نے انہیں معبود بنا لیا،انہیں اللہ کا بیٹا کہنے لگے،یہ ان کا شرک تھا۔ان سے بھی پہلے بنی اسرائیل میں سیدنا موسی علیہ السلام آئے تھے۔ان کی وفات کے بعد بنی اسرائیل بھی شرک میں مبتلا ہوگئے۔انہیں یہودی کہا جاتا ہے،کچھ لوگ بتوں کی بجائے آگ کی پوجا کرنے لگے۔اس طرح دنیا میں ہر طرف چرچا پھیل گیا،شرک کا اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا۔یہ تمام انبیائ قوم،ملک،قبیلے یا علاقے کی طرف بھیجے گئے تھے۔
ان حالات میں اللہ تعالی نے پوری انسانیت کے ہادی و رہنما اپنے آخری رسول محمد کو پیدا فرمایا تاکہ شرک کے اندھیرے چھٹ جائیں۔
شیخ ابرار احمد بچوں کو آخری نبی کی حیات طیبہ کے متعلق تفصیل سے بتادیں،کیونکہ آپ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ایوب صاحب کی بیگم نے دوسرے کمرے سے مشورہ دیا۔
بالکل! بالکل! سب بچوں نے پرزور حمایت کرتے ہوئے کہا۔
اچھا!تو پھر سنو: پیارے نبی محمد 22اپریل 571 عیسوی،پیر کے روز مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔آپ سورج نکلنے سے تھوڑی دیر پہلے دنیا میں تشریف لائے،اسلامی تاریخ کے لحاظ سے آپ 9 ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔کتابوں میں پیدائش کی تاریخی اور بھی لکھی گئی ہیں۔
محمد بنو ہاشم کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔مکہ میں یہ سب سے زیادہ باعزت گھرانہ تھا۔آپ کے والد کا نام عبداللہ اور دادا کا نام عبدالمطلب تھا۔آپ کی پیدائش پر خاندان بھر میں خوشیاں منائی گئیں۔آپ کے دادا عبدالمطلب آپ کو گود میں لیے خانہ کعبہ میں آئے اور آپ کے لیے دعا کی۔دادا نے آپ کا نام محمد رکھا،جبکہ والدہ نے احمد نام رکھا۔دادا عبدالمطلب نے آپ کی پیدائش کے ساتھ میں دن پورے قبیلے کی دعوت کی،یہاں یہ خاص بات بھی سن لیں کہ آپ سے پہلے یہ نام کسی اور کے نہیں رکھے گئے تھے۔نہ محمد کسی کا نام تھا نہ احمد۔
بھائی واہ! یہ تو واقعی دلچسپ بات ہے۔عامر نے خوش ہو کر کہا،باقی بچوں نے بھی سر ہلا دیئے،تب شیخ ابرار احمد نے بات آگے بڑھائی:
آپ کے والد عبداللہ،آپ کی پیدائش سے تقریبا چھ ماہ پہلے ہی فوت ہوگئے تھے۔آپ کا سلسلہ نسب سیدنا اسماعیل علیہ السلام سے جا ملتا ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے تھے۔گویا آپ ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔آپ کا خاندان نیکی،شرافت،عزت خط،مہمان نوازی،سخاوت اور اثرورسوخ کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔
پیدا عشق بات تین چار روز تک تو آپ کی والدہ نے آپ کو دودھ پلایا،پھر آپ کے چچا ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے آپ کو دودھ پلایا۔اس کے بعد دودھ پلانے کی ذمہ داری حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہ کو سونپ دی گئی۔وہ دیہات میں رہتی تھیں۔وہ آپ کی پیدائش کے آٹھویں دن مکہ مکرمہ آئیں اور آپ کو اپنے ساتھ لے گئیں۔مکے کی عورتیں اسی طرح اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے دیہات کی عورتوں کو سونپ دیتی تھیں۔
اپ سیدہ حلیمہ سعدیہ کے گھر کیا پہنچے کہ وہاں ہر طرف،ہر چیز میں برکت نظر آنے لگی،جو جانور پہلے بہت مشکل سے اور بہت کم دودھ دیتے تھے،ان کے تھن دودھ سے بھر گئے یے،آپ وہاں دو سال رہے،دو سال بعد سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہ آپ کو واپس لائیں،لیکن ابھی وہ آپ کو واپس کرنا نہیں چاہتی تھیں،چنانچہ کچھ اور وقت رکھنے کی اجازت مانگی۔آپ کی والدہ نے اجازت دے دی۔اس طرح آپ پھر حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہ کے ہاں پہنچ گئے۔آخر یہ مدت بھی ختم ہوئی اور آپ کو آپ کی والدہ کے حوالے کردیا گیا،جلد ہی آپ کی والدہ بھی انتقال کر گئیں۔
اوہ! بچوں کے منہ سے افسوس زدہ لہجے میں نکلا۔
ہاں،اس کو اللہ کی مرضی کہتے ہیں،خیر آگے سنیں،والدہ کی وفات کے بعد آپ کے دادا عبدالمطلب نے آپ کی پرورش کی۔وہ اپنی اولاد سے بڑھ کر آپ سے محبت کرتے تھے۔ان کی نظر میں آپ کی بہت قدر تھی،عزت تھی۔آپ کو پیاری پیاری باتیں کرتے اور چلتے پھرتے دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔عبدالمطلب کے لیے خانہ کعبہ میں ایک خاص فرش بٹھایا جاتا تھا۔اس پر کسی کو بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی،لیکن عبدالمطلب آپ کو اس پر اپنے ساتھ بٹھا تے،وہ کہا کرتے تھے: یہ بچہ نرالی شان والا ہے۔
اور ابا جان! میں نے تو سنا ہے۔محمد کا مطلب بھی یہی ہے،جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو۔عامر نے جلدی سے کہا۔
بالکل! ابرار صاحب بولے۔پھر آپ کے دادا عبدالمطلب بھی وفات پا گئے اب آپ کی پرورش کا ذمہ آپ کے چچا ابو طالب نے لے لیا۔وہ غریب آدمی تھے لیکن انہیں بھی آپ سے بہت محبت تھی۔ہر طرح آپ کا خیال رکھتے تھے۔اللہ کی قدرت جوں ہی نبی کریم ان کے گھر میں آئے،اس گھر میں بھی برکت ہی برکت نظر آنے لگی۔
بھئی واہ! کی بچے یک آواز ہوکر بول اٹھے۔
اب آپ ایک حیرت انگیز واقعہ سنیئے۔ابوطالب تجارت کے لیے شام جاتے تھے۔اس مرتبہ انہوں نے اپنے بھتیجے یعنی محمد کو بھی ساتھ لے لیا۔اس وقت آپ کی عمر بارہ سال تھی۔تجارتی قافلہ بصری پہنچا۔وہاں ایک عیسائی راہب تھا۔اس کا نام بحیرا تھا۔اس کی نظر آپ پر پڑی تو چوک اٹھا،اس نے فورا آپ کا ہاتھ پکڑ لیا۔
اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوہ۔تمام بچے یہ سن کر گھبرا گئے۔
بھئی گھبرانا نہیں۔۔۔۔۔۔ابرار احمد صاحب مسکرائے،پھر کہنے لگے:
ہاتھ پکڑنے کے بعد بحیرا نے کہا: یہ دنیا کے سردار ہیں،پروردگار عالم کے رسول ہیں،اللہ انہیں عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گا۔
پھر اس نے آپ کی وجہ سے قافلے والوں کی دعوت کی،دعوت کے بعد ابو طالب سے کہا: اس بچے کو آگے نہ لے جائیں،یہیں سے واپس بھیج دیں،شام کے یہودی اگر ان کی نشانیوں کو دیکھ لیں گے تو ڈر ہے کہ انھیں جان سے نہ مار ڈالیں۔
ابو طالب نے عیسائی راہب کی بات مان لی اور آپ کو واپس مکہ معظمہ بھیج دیا۔
یا اللہ تیرا شکر ہے،میں تو ڈر ہی گئی تھی۔ایک بچی کی آواز ابھری۔
بھئی ابھی تو یہ کہانی شروع ہوئی ہے،آگے سنیے،جب محمد کی عمر 15 سال ہوئی تو مقامی ایک لڑائی پیش آگئی۔یہ لڑائی ذوالقعد کے مہینے میں ہوئی۔اس لڑائی میں ایک طرف تو قریش اور ان کے مدد گار لوگ تھے،دوسری طرف قبیلہ قیس کے لوگ تھے۔بہت گھمسان کی لڑائی ہوئی۔
آپ نے یہ نہیں بتایا ابا جان،یہ لڑائی ہوئی کیوں؟
بھائی یہی تو اصل بات ہے،وہاں تو بات بات پر لڑائی چھڑ جاتی تھی،بلکہ یوں کہہ لیں،بغیر بعد کی لڑائی شروع ہوجاتی تھی اور پھر ان لڑائیوں کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہ لیتا تھا،ہاں تو میں اس لڑائی کا ذکر کر رہا تھا۔اس لڑائی کا نام جنگ فجار ہے۔اس جنگ میں قریش کے ساتھ آپ کے سب چچا بھی شریک ہوئے۔آپ نے اس لڑائی میں اس حد تک حصہ لیا کہ اپنے چچا کو کو تیر پکڑ آتے رہے۔لڑائی میں دونوں طرف سے بہت سے لوگ مارے گئے۔آخر صلح ہوگئی۔اس جنگ کے بعد پانچ قبیلوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔اس معاہدے کا نام حلف الفضول ہے۔
آپ کا مطلب ہے،معاہدہ فضول تھا۔ایوب بول اٹھا۔
ابرار احمد صاحب ہنس پڑے۔پھر انہوں نے کہا:
نہیں بیٹے! بلکہ یہ معاہدہ تو بہت کامیاب رہا،اس معاہدے میں انکا قبائل نے یہ عہد وپیمان کیا تھا کہ مکہ میں جو بھی مظلوم نظر آئے گا،خواہم کے کا رہنے والا ہو یا کہیں اور کا،یہ سب اس کی مدد و حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور اس کا حق دلوا کر رہیں گے۔ایس حلف میں محمد نے بھی شرکت کی۔یہ معاہدہ امن کے لئے تھا،اس لیے آپ نبوت ملنے کے بعد بھی اس معاہدے میں شرکت پر فخر کیا کرتے تھے۔
اب آگے بڑھتے ہیں،آپ نے بچپن میں بکریاں چرائیں۔یہ بھی سن لیں بکریاں چرانا نبیوں کی سنت ہے،مطلب یہ ہے کہ دوسرے انبیائے کرام نے بھی بکریاں چرائیں۔
آپ جوان ہوئے تو تجارت شروع کی،لیکن آپ دوسروں سے بہت مختلف تاجر تھے۔کسی سے جھگڑا کرتے نہ بحث۔تمام معاملات نہایت ایمانداری سے طے کرتے ہیں،اس لیے دوسرے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے،چنانچہ آپ کی سچائی،دیانت اور امانت کی خبر دور دور تک پھیل گئی۔لوگ آپ کو صادق اور امین کہنے لگے۔آپ کی یہ شرط قریش کی ایک دولت مند اور باعزت خاتون سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا تک پہنچی۔ انہوں نے آپ کے ذریعے تجارت کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنا مال تجارت دے کر آپ کو شام بھیجا۔
بہت خوب!ایک زمانہ وہ تھا جب شام کے سفر سے آپ کو واپس بھیج دیا گیا تھا اور اب آپ خود سامان تجارت لے کر شام جارہے تھے۔عامر بول اٹھا۔
ہاں بالکل! اب اس ملک میں آپ تاجر کی حیثیت سے تشریف لائے تھے۔خوب نفع ہوا۔ واپس پہنچے تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ حیران رہ گئیں۔اس سے پہلے انہیں کبھی اتنا نفع نہیں ہوا تھا۔وہ آپ سے اور زیادہ خوش ہوئیں یہاں تک کہ آپ کو شادی کا پیغام بھیج دیا۔
دونوں خاندانوں کے بڑے جمع ہوئے اور یہ نکاح ہوگیا۔اس وقت محمد کی عمر 25 سال جبکہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ 40 سال کی تھیں۔جب آپ کی عمر مبارک پینتیس سال ہوئی تو مکہ میں زور دار سیلاب آیا۔ اس سے کعبہ کی دیواریں پھٹ گئیں۔قریش نے اس کو نئے سرے سے تعمیر کیا۔ پھر جب خانہ کعبہ میں حجر اسود رکھنے کی باری آئی،اس پر قریش کے سب قبیلوں میں جھگڑا شروع ہوگیا۔ہر کوئی چاہتا تھا،حجراسود وہ اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھے۔آپ کو معلوم ہی ہوگا یہ جنت کا پتھر ہے،طواف کے وقت اس کو چوما جاتا ہے یا اس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ہاں تو ان میں جھگڑا شروع ہوگیا،یہاں تک کہ خون خرابہ تک نوبت پہنچ گئی۔ایک بوڑھے قریشی نے لڑائی سے بچنے کی ترکیب یہ بتائیں کہ کل صبح جو شخص سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہو،اس سے فیصلہ کرالیا جائے۔اب جو انہوں نے دیکھا تو صبح سب سے پہلے محمد بیت اللہ میں داخل ہوئے۔
واہ مزہ آگیا۔سب بچے بول اٹھے۔
جی ہاں! ان لوگوں نے اپنا مسئلہ آپ کے سامنے رکھا۔آپ نے اس سن کر ایک چادر منگوائی،اس چادر کے درمیان میں حجر اسود کو رکھا اور ان سے کہا: اب ہر قبیلے کا سردار چادر کو پکڑے۔ایسا ہی کیا گیا،جب چادر میں رکھا ہوا حجراسود د8 جگہ کے قریب پہنچ گیا جہاں اسے لگانا تھا تو آپ نے خود اس کو اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا۔
سبحان اللہ! کیا فیصلہ کیا آپ نے،خون خرابہ ٹل گیا۔ایوب نے پرجوش انداز میں کہا۔
ہاں بالکل! آپ کو اللہ تعالی نے عقل ہی ایسی عطائ فرمائی تھی،گویا علم کا خزانہ عطا فرمایا تھا۔اسی لئے آپ عربوں کی جہالت بھری زندگی کو دیکھ دیکھ کر کرتے رہتے تھے اور بے چین ہو جاتے تھے۔وہ لوگ ایک اللہ کی عبادت نہیں کرتے تھے۔اصل دین سے ہٹ گئے تھے،وہ دین جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے ان تک پہنچا تھا،اس کو بھلا بیٹھے تھے تھے اور اب بتوں کی پوجا کرتے تھے۔یہ ان کا شرک تھا۔قرآن میں اللہ تعالی نے شرک کو سب سے بڑا ظلم قرار دیا ہے اور اعلان فرمایا ہے کہ میں شرک کو معاف نہیں کروں گا۔کعبے میں 360 بت رکھے ہوئے تھے۔محمد انہیں بتوں کی پوجا کرتے دیکھتے تو غمگین ہو جاتے،اسی وجہ سے آپ ان سے دور رہتے۔تنہائی میں آپ کو سکون محسوس ہوتا چنانچہ آپ مکہ سے باہر ایک غار میں چلے جاتے۔اس کا نام غارحرا ہے۔آپ کئی کئی دن اس غار میں گزارتے،اللہ کی نشانیوں میں غور و فکر کرتے اور اس کی یاد میں گم ہوجاتے۔اس سے غار میں اللہ تعالی نے آپ کو نبوت عطا فرمائی۔
لیکن کیسے؟کئی بچے بول اٹھے۔
بتا رہا ہوں بھئی،معلوم ہوتا ہے تم لوگ بہت زیادہ دلچسپی محسوس کر رہے ہو۔
جی بالکل! یہ بھی بھلا پوچھنے کی بات ہے۔کی بچے ایک ساتھ بولے۔
ہاں تو اس کی تفصیل یہ ہے،رمضان کا مہینہ تھا اور پیر کا دن۔آپ غار حرا میں اللہ کی یاد میں مصروف تھے کہ اللہ کا فرشتہ جبریل آیا۔اس نے آپ سے کہا:
پڑھئیے!…..…..
آپ نے فرمایا:
میں پڑھنا نہیں جانتا۔
اس نے پھر کہا۔آپ نے بھی دوبارہ وہی جواب دیا،تین بار ایسا ہوا،پھر فرشتے نے آپ کو پکڑ کر زور سے بھینچا اور کہا:
پڑھیے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔پڑھیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے۔جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا۔انسان کو وہ بات سکھائی جسے وہ نہیں جانتا تھا۔
اب آپ کے لئے پڑھنا آسان ہوگیا۔آپ نے یہ آیات پڑھیں،پھر گھر تشریف لائے،آپ پراس وقت گھبراہٹ طاری تھی اور آپ سردی محسوس کر رہے تھے۔آپ نے گھر میں داخل ہوتے ہی فرمایا: مجھے چادر اوڑھا دو۔
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نے آپ کو چادر اوڑھا دی۔اس سے آپ نے سکون محسوس کیا پھر آپ نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سارا واقعہ سنایا۔واقعہ سن کر وہ بولیں:
اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا،آپ صلہ رحمی کرتے ہیں،بے سہاروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں،تنگدست لوگوں کی مدد کرتے ہیں،مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور مشکل وقت میں حق کا ساتھ دیتے ہیں۔
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کے یہ جملے بتاتے ہیں کہ وہ بہت سمجھدار خاتون تھیں۔اس واقعے کے چھ ماہ بعد تک وحی نہ آئی،اللہ کی یہی مرضی اور حکمت تھی۔آپ کے دل میں وہی کا شوق پیدا ہو چکا تھا، آپ وحی کی طلب محسوس کرنے لگے تھے۔آپ چاہتے تھے کہ دوبارہ وحی آئے،آخر دوبارہ وحی کا سلسلہ شروع ہوا۔سورۃ مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں،ان آیات میں آپ کو صاف طور پر حکم دیا گیا یا کہ آپ لوگوں کو ان کے گناہوں سے ڈرائیں۔
فزیکلی بدل نہیں کریں اس طرح اس کام کی تبلیغ شروع ہوئی۔نبی کریم پہلے تین سال تک چپکے چپکے تبلیغ فرماتے رہے۔نماز گھروں میں یا پہاڑوں کی گھاٹیوں میں پڑھی جاتی رہی،اس طرح اسلام کا پیغام ایک سے دوسرے کو پہنچتا رہا۔لوگ آہستہ آہستہ مسلمان ہوتے رہے۔عورتوں میں سب سے پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا مسلمان ہوئیں۔مردوں میں سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔لڑکوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔غلاموں میں سب سے پہلے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔اس طرح نبی اکرم کی محنت سے تقریبا چالیس افراد اسلام لے آئے،گولا اسلام کی بنیاد شروع ہوگئی۔پھر اللہ تعالی نے آپ کو عام تبلیغ کا حکم فرمایا،بس اس کے بعد تو پھر آپ تمام عمر دین کی تبلیغ بھی کرتے رہے۔آپ نے اپنا آرام،سکون اور چین سب کچھ چھوڑ دیا یا۔جب آپ کو عام دعوت دینے کا حکم ملا تو آپ صفا پہاڑ پر چڑھ گئے،آپ بلند آواز سے بولے:
یاصباحاہ۔
یہ لفظ سب کو جمع کرنے کے لئے بولا جاتا تھا۔آپ کی آواز سنتے ہی قریش دوڑ کر آپ کی طرف آئے،آپ نے ان سے فرمایا:
اگر میں تم سے کہوں،اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کے لیے آرہا ہے تو کیا تم میری بات کو سچ مان لو گے؟
ان سب نے کہا:
ہاں! کیوں نہیں! ہم نے آپ کو ہمیشہ سچا پایا ہے۔
ان کا جواب سن کر آپ نے فرمایا:
تب پھر سنو! میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈرانے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔
آپ کا چچا ابو لہب بھی ان لوگوں میں شامل تھا۔آپ کی بات سن کر غضبناک ہو گیا۔اس کے ساتھ ہی سب لوگ ناراض ہو کر چلے گئے۔بس اسکے بعد تو پھر آپ پر ظلم و ستم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔یہاں تک کہہ کر ابرار احمد ایک سرد آہ بھر کر خاموش ہوگئے۔
یہ کیا بات ہوئی،ان لوگوں نے ظلم کیوں شروع کر دیا بھلا؟عامر نے حیران ہو کر کہا۔
عرب کے سردار یہ بات برداشت نہ کرسکے کہ ان کے طور طریقوں کو برا کہا جائے۔ان کے بتوں کی تردید کی جائے۔آپ کے ساتھ جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا،ان پر بھی ظلم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔انہیں مارا گیا،پیٹا گیا،بیڑیاں پہنائی گئیں،گرم ریت پر لیٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھے گئے،زنجیروں سے باندھ باندھ کر گرم تپتی زمین پر گھسیٹا گیا،قید میں رکھا گیا،کوڑے برسائے گئے اور پتھر مار کر لہولہان کیا گیا۔تمام مشرکین میں سب سے زیادہ ظلم ڈھانے والے ابو جہل اور ابو لہب تھے،جبکہ آپ کے چچا سیدنا حمزہ،سیدنا عباس اور ابو طالب تو آپ پر جان چھڑکتے تھے۔ان میں سے سیدنا حمزہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا۔قریش کے لوگوں نے مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی،ظلم کرنے کا کوئی طریقہ ایسا نہ تھا جو انہوں نے اختیار نہ کیا ہو،یہ لوگ پہلے نبی کریم کی جن خوبیوں کو مانتے تھے،ان سب کو بھی انہوں نے بھلا دیا،اسی کشمکش میں حج کے دن آگئے۔
قریش کے لوگ پریشان ہوگئے،گھبرا گئے کہ اب چاروں طرف سے لوگ حج کرنے کے لیے آئیں گے اور محمد ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں گے،ایسا نہ ہو کہ کچھ لوگ ان کی باتوں کا اثر قبول کرنے اور مسلمان ہوجائیں،چناچہ وہ طرح طرح کی تدابیر سوچنے لگے۔حج کے لئے لوگ جن راستوں سے آتے تھے تھے،وہ عمر استو پر بیٹھ گئے اور آنے والے لوگوں کو آپ کے خلاف باتیں سنانے لگے گے۔انہوں نے یہاں تک کہا کہ اس جادوگر کی باتوں میں نہ آنا۔
اف توبہ! کس قدر ظالم لوگ تھے۔عامر کی آواز ابھری۔
ہاں بیٹا! لیکن یہ بھی تو سنو کہ ہوا کیا،آپ بھی ہردیو کے پاس جاتے رہے ان سے کہتے رہے لوگو، لاالہ الاللہ کہو،کامیاب ہو جاؤ گے۔مطلب یہ کہ قریش مخالفت کرتے رہے،آپ اپنا کام کرتے رہے۔ان کا ظلم حد سے بڑھا تو نبوت کے پانچویں سال آپ نے کچھ صحابہ کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔
آپ کی تبلیغ سے روز بروز مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا تھا۔اس صورت حال سے قریش اور غضب ناک ہوئے۔انہوں نے ابو طالب سے کہا: ابو طالب! آپ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں،وہ یہ کام نہ کرے۔
ابوطالب نے ان کو نرمی کے ساتھ ٹال دیا لیکن رسول اللہ سے فرمایا: تمہیں جس بات کا حکم ہوا ہے اسے انجام دو۔میں تمہاری مسلسل حفاظت اور مدد کرو کرتا رہوں گا،البتہ میری طبیعت عبد المطلب کا دین چھوڑنے پر راضی نہیں۔
پھر نبوت کے چھٹے سال آل سیدنا حمزہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما مسلمان ہوگئے۔ان کا شمار قریش کی اہم شخصیات میں ہوتا تھا۔ان کے مسلمان ہونے سے مسلمانوں کی طاقت میں بہت اضافہ ہوگیا۔
سبحان اللہ! سب بچے بول اٹھے۔
اب قریش اس قدر تنگ آئے کہ نبی اے کریم اور آپ کے ساتھیوں سے تمام تعلقات ختم کر دیئے۔یعنی لین دین،خریدوفروخت ہر چیز ختم کردیں اور آپ کو ایک گھاٹی کے اندر رہنے پر مجبور کر دیا۔اس گھاٹی کا نام شعب ابی طالب تھا۔اس گھاٹی میں مسلمانوں نے تین سال گزارے۔یہ تین سال بہت دکھ بھرے تھے۔کھانے پینے تک کچھ نہیں ہوتا تھا۔مسلمانوں کے بچے بھوک اور پیاس سے بلبلاتے رہتے تھے،آخرکار قریش اس معاملے میں ہار گئے۔مسلمانوں کا صبر جیت گیا،وہ پھر سے مکہ آکر رہنے لگے لیکن گھاٹی کی مصیبتوں سے یہ لوگ حد درجے کمزور ہوگئے تھے،گھاٹی سے نکلنے کے کچھ ہی عرصہ بعد ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اور ابو طالب انتقال کرگئے۔آپ نے اس سال کو غم کا سال قرار دیا۔عربی میں اس کو عام الحزن کہتے ہیں۔اس وقت تک آپ کی عمر پچاس سال ہو چکی تھی اور یہ نبوت کا دسواں سال تھا۔آپ برابر تبلیغ کرتے رہے۔مکہ سے 60 میل دور ایک پہاڑی علاقہ تھا،اس کا نام طائف تھا۔آپ تبلیغ کے لیے وہاں بھی تشریف لے گئے۔آپ کے ساتھ سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے۔یہاں کے لوگوں نے قریش سے بھی زیادہ برا سلوک کیا۔آپ نے پھر بھی ان کے حق میں دعا کی اور واپس آگئے۔وہاں کے ایک شخص نے بھی کلمہ نہیں پڑھا تھا۔
ہائے افسوس۔ایک بچی نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
آپ پھر مکہ آگئے۔نبوت کے گیارہویں سال آپ کو بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی،وہ کامیابی یہ تھی کہ حج کے دنوں میں مدینہ سے کچھ لوگ مکہ آئے۔مدینہ کو ان دنوں یثرب کہا جاتا تھا۔آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔وہ مسلمان ہوگئے۔اس طرح مدینہ میں اسلام کا آغاز ہوا۔کہا جاتا ہے کہ اسی سال اللہ تعالی نے آپ کو معراج کرائیں۔جنت دوزخ اور آسمانوں کی سیر کرائی۔آپ کو یہ سفر مکہ سے شروع ہوا،پہلے آپ کو بیت المقدس لایا گیا،وہاں سے آسمانوں پر لے جایا گیا۔معراج جسم اور روح دونوں کی ہوئی۔بعض لوگ کہتے ہیں،یہ صرف روحانی سیر تھی،جی نہیں آپ کو جسم سمیت لے جایا گیا۔
اللہ اکبر! سب نے ایک ساتھ کہا۔
نبوت کے بارے میں سال یثرب سے آنے والی اور لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ان حضرات نے آپ کو مدینہ آنے کی دعوت دی۔اس طرح اللہ تعالی نے آپ کو مدینہ ہجرت کر جانے کا حکم فرمایا۔ادھر قریش نے آپ کو (نعوذ باللہ) قتل کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔اپنے لوگوں کی امانتیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کیں،سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔اس وقت آپ کے بستر پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ سوئے۔کافر آپ کو تلاش کرتے رہ گئے،لیکن ناکامی کے سوا کچھ نہ ملا،آپ نے غار ثور میں تین راتیں گزاریں،اس کے بعد آپ نے مدینہ کی طرف سفر شروع فرمایا۔
مدینہ منورہ میں آپ کی مکہ سے مدینہ کی طرف روانگی کی خبر پھیل چکی تھی۔ وہ لوگ آپ کے استقبال کی تیاریاں کرنے لگے۔روزانہ شہر سے باہر نکل کر اگر دور تک دیکھتے اور دوپہر کے وقت لوٹ آتے،آخر ایک دن طویل انتظار کے بعد لوگ اپنے گھروں کی طرف لوٹ گئے۔ایسے میں ایک یہودی ٹیلے پر چڑھا تو اس سے دور سے سفید کپڑوں والے کچھ لوگ آتے نظر آئے۔وہ اگرچہ یہودی تھا،پھر بھی اس نے چلا کر کہا:
لوگو! وہاں گئے جن کا تمہیں انتظار تھا۔
اس کی آواز لوگوں کے کانوں میں کیا پڑی کہ سب لوگ دور پڑے۔ہر شخص کی دلی تمنا تھی کہ اللہ کے رسول اس کے مہمان بنیں،لیکن یہ خوش نصیبی بھی سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئی۔
واقعی! یہ تو بہت بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔ایوب نے لمبا سانس کھینچا۔
یہاں سے آپ کی مدنی زندگی شروع ہوئی۔اس دور میں اسلام کو عروج ملا۔اللہ کی طرف سے فرائض اور احکام نازل ہوئے۔آپ نے لوگوں کو دین کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ معاملات سکھائے،اخلاق اور آداب سکھائے۔احکام پر عمل کرنا سکھایا۔
مدینہ میں تشریف لانے کے بعد اپنے سب سے پہلا جو کام کیا وہ تھا مسجد بنانے کا کام۔۔۔۔۔۔
آپ نے مسجد تعمیر کرائی،مسجد کے ساتھ کچھ مکانات بنوائے۔یہ مکانات کچے تھے۔ان میں آپ کی بیویوں کے لئے کمرے بنوائے گئے۔مسجد نبوی صرف مسجد نہیں تھی بلکہ پہلی اسلامی یونیورسٹی تھی۔یہاں اسلام کی تعلیم شروع ہوئی،یہ وہ مرکز تھا جہاں سے اسلام کی اس ننھی منی ریاست کا کام چلایا جاتا تھا۔مسلمانوں کے کاموں کے سلسلے میں مشورہ ہوتا تھا۔
مکے سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمان بےسروسامان تھے،اپنا گھر بار کاروبار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آئے تھے،انہیں سہارے کی بہت ضرورت بھی،چناچہ اس کے لئے اللہ کے رسول نے مکے اور مدینے کے مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ کرایا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مکہ سے آنے والے مسلمان کو مدینہ میں رہنے والے مسلمان کا بھائی بنا لیا۔اس طرح سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ایک دوسرے کی مدد کرنے والے بن گئے۔دکھ درد میں ساتھ دینے والے بن گئے۔انسانی تاریخ میں اس بھائی چارے کی کہیں مثال نہیں ملتی اور یہ ہمارے رسول کا بہت اہم قدم تھا۔پھر آپ نے غیرمسلموں سے معاہدہ کیا۔اس کو میثاق مدینہ کہتے ہیں۔اس کا مقصد تھا کہ سب مل جل کر امن سے رہیں اور مدینہ منورہ کی حفاظت کرنا بھی سب کے ذمے ہو۔اس طرح مدینہ ایک اسلامی ریاست بن گیا۔مدینہ میں آنے کے سولہ،سدرا ماہ بعد سن دو ہجری میں مسلمانوں کو خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ملا۔اس سے پہلے وہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے،رمضان کے روزے رکھنے اور زکوۃ ادا کرنے کا حکم ہوا۔عیدین کی نماز ادا کرنے اور صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔
اسی سال اللہ کے رسول نے اپنی پیاری بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کا نکاح سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کردیا۔اسی سال مسلمانوں پر جہاد فرض ہوا اور 17رمضان 2 ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا۔اس جنگ میں مسلمانوں کو شاندار فتح ہوئی۔قریش کا سردار ابوجہل مارا گیا،اور بھی بڑے بڑے سردار قتل ہوئے۔ستر کے قریب کافر مارے گئے،اتنے ہی گرفتار ہوئے،جب کہ چودہ مسلمان شہید ہوئے۔
تین ہجری میں بہت کی لڑائی لڑی گئی۔اس جنگ میں کچھ مسلمانوں کی غلطی سے اسلامی لشکر کو نقصان اٹھانا پڑا یہاں تک کہ نبی اکرم کی پیشانی پر زخم آیا۔آپ کے دو دانت شہید ہوئے۔تین ہجری ہی میں سیدہ فاطمہ کے ہاں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔5 ہجری میں غزوہ خندق پیش آیا۔اس میں کفار دس ہزار کا لشکر لے کر آئے۔نبی کریم نے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے مدینے کے گرد خندق کھودنے کا حکم دیا،کیوں کہ کافر بہت بڑی تعداد میں تھے۔عثمان شکور نے مدینہ کو گھیرے میں لے لیا،اللہ تعالی نے ایک زور کا طوفان بھیجو اور کافروں کو ایک بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑا،وہ بھاگ نکلے۔
خوب!مزہ آیا۔ایک بچی بولی۔
6 ہجری میں اللہ کے رسول اور مکے کے مشرکوں کے درمیان ایک صلح ہوئی۔اس کو صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔اللہ نے قرآن میں اس سلسلہ کو بہت بڑی کامیابی قرار دیا۔اس صلح کے بعد سیدنا خالد بن ولید،سیدنا عمرو بن عاص اور سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنھم اپنی خوشی سے مدینہ منورہ آئے اور مسلمان ہوگئے۔یہ تینوں بہت اہم شخص تھے۔سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما اسلام کے بہت بڑے سپہ سالار ہوئے۔ان کے ایمان لانے پر رسول کریم نے فرمایا:
مکہ نے اپنے جگر گوشوں کو ہمارے حوالے کر دیا ہے۔
محرم 7 ہجری میں خیبر کی لڑائی لڑی گئی۔یہ یہودیوں سے جنگ تھی۔مسلمانوں کو اللہ نے فتح عطا کی۔ان کاموں سے فارغ ہو کر اپنے ہمسایہ ملکوں کے بادشاہوں کو خط لکھے۔انہیں اسلام کی دعوت دی۔حروم کے عیسائی اور ایران کے آتش پرست بادشاہوں کو اسلام قبول کرنے کے لئے خط ارسال فرمائے۔
8 ہجری کا سال بہت اہم تھا۔کافروں نے وعدہ خلافی کی۔صلح کے معاہدے کو توڑ دیا۔اس لیے نبی کریم دس ہزار صحابہ کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ابھی آپ راستے میں تھے کہ قریش کے سب سے بڑے سردار اور اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابو سفیان نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام لے آئے۔مکہ والوں پر ایسا روپ طاری ہوا کہ وہ مقابلے کے لئے آئے ہی نہیں۔اس طرح مکہ فتح ہوگیا۔آپ نے اپنے بدترین دشمنوں کو معاف کر دیا۔اللہ نے آپ کو اسی لئے تو رحمت اللعلمین فرمایا ہے،یعنی آپ کو اللہ تعالی نے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
اسی سال غزوہ حنین ہوا،مسلمانوں کو فتح ہوئی۔9 ہجری میں تبوک کی مہم پیش آئی۔اس میں بھی لڑائی کے بغیر اللہ تعالی نے مسلمانوں کو شاندار کامیابی عطا فرمائی۔9ہجری ہی میں حج فرض ہوا۔اسی سال پورے عرب سے وفد بھیجے گئے۔یہ تمام وفد مدینہ پہنچے۔ان لوگوں نے جب اللہ کے رسول کو دیکھا تو پکار اٹھے:
اللہ کی قسم! یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہو سکتا۔
یہ سب لوگ مسلمان ہوگئے۔10 ہجری میں آپ حج کے لئے روانہ ہوئے۔آپ کے ساتھ ایک لاکھ سے زائد مسلمان تھے۔گویا انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر آپ کے ساتھ تھا۔اسی حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔آپ نے لوگوں کے سامنے ایک اہم ترین خطبہ دیا۔یہ خطبہ پوری کائنات کے انسانوں کے لئے تھا۔اس میں اپنے حقوق اور فرائض بیان فرمائے یے،زندگی گزارنے کے سنہری اصول بتائے۔اسی خطبے میں آپ نے یہ اشارہ بھی دیا کہ ان کے دنیا میں آنے کا مقصد پورا ہوگیا ہے مطلب یہ تھا کہ آپ کا اب دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آگیا ہے۔اس طرح آپ نے گویا رسالت کے فریضے کو مکمل کر دیا۔اللہ تعالی نے بھی اعلان فرمایا: آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا۔
11 ہجری ماہ صفر میں آپ کو سر میں درد محسوس ہوا وع۔پھر مرض بڑھ گیا،بخار رہنے لگا۔آپ سید عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر آگئے۔12 ربیع الاول پیر کے دن آپ نے سب کو بلا کر نصیحت کی۔غلاموں سے اچھا سلوک کرنے اور نماز کی پابندی کرنے کا حکم فرمایا۔آخری الفاظ آپ کی زبان مبارک سے یہ نکلے: اے اللہ، اے رفیق اعلی۔بس اس کے بعد آپ کی روح پرواز کر گئی۔وہ پیر کا دن،ربیع الاول کی بارہ تاریخ تاریخ اور ہجرت کا گیارہواں سال تھا۔اس وقت آپ کی عمر مبارک 63 سال چار دن تھی۔
ان الفاظ کے ساتھ ابرار احمد خاموش ہوگئے۔انہوں نے دیکھا سب بچوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔خود ان کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔پھر بولے: دوسرے دن آپ کو غسل دیا گیا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں دفن کیا گیا،یہ بدھ کا دن تھا اور رات کا وقت تھا۔
آپ کی چار بیٹیاں اور تین بیٹے تھے قاسم،عبداللہ اور ابراہیم رضی اللہ عنہم۔۔۔۔۔بیٹے بچپن ہی میں فوت ہوگئے۔بیٹیوں کے نام یہ ہیں: سیدہ زینب،سیدہ رقیہ،سیدہ ام کلثوم،سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھن۔سیداں زینب رضی اللہ عنہ کی شادی ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ سے ہوئی جن سے امامہ اور علی رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا سے عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے،سیدہ ام کلثوم کی کوئی اولاد نہ تھی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ام کلثوم،زینب،حسن،حسین اور محسن حسن رضی اللہ عنہ پہلا ہوئے۔آپ کی بیویوں کے نام یہ ہیں: سیدہ خدیجہ،سیدہ سودہ،سیدہ عائشہ،سیدہ حفصہ،سیدہ زینب بنت خزیمہ،سیدہ ام سلمہ،سیدہ زینب بنت جحش،سیدہ جویریہ،سیدہ ام حبیبہ،سیدہ میمونہ نہ اور سیدہ صفیہ رضی اللہ عنھن۔سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا آپ کی لونڈی ہیں جن کے بطن سے سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔
آپ شکل و صورت،چار ڈھال،غرض ہر لحاظ سے سب سے زیادہ حسین تھے۔چلنے اور بولنے کا انداز حد درجے دلکش تھا۔کائنات میں آپ جیسا دوسرا کوئی انسان پیدا نہیں ہوا،آپ کائنات کے آخری رسول ہیں،آپ کے بعد کوئی رسول نہیں آئے گا،البتہ سیدنا عیسی علیہ السلام ضرور آسمان سے نازل ہوں گے اس لیے کہ انہیں آسمان پر زندہ اٹھایا گیا تھا۔انہیں آپ سے پہلے نبوت مل چکی ہے،لہذا اب وہ آپ کے امتی کی حیثیت سے آئیں گے،کیوں کے قیامت تک اب صرف آپ کی نبوت چلے گی،اس لئے تمام سابقہ مذاہب اللہ تعالی نے منسوخ کردیے ہیں۔اب جب تک یہودی،عیسائی،ہندو وغیرہ اپنا اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان نہیں ہو جاتے،آپ کی نبوت پر ایمان نہیں لے آتے،ان کی نجات ممکن نہیں۔(ان سب کو جہنم میں جلنا پڑے گا….)لہذا یہ کہنا بدترین غلطی ہے کہ تمام مذاہب ایک جیسے یا برابر ہیں اور آپ کے اس دوست نما دشمن کی بات بالکل غلط ہے۔
آئیے!سب مل کر پوری انسانیت کے ہاتھیوں رہنما نبی کریم پر درود بھیجیں کہ اللہ کے فرشتے بھی آپ پر درود بھیجتے ہیں۔
اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی ال محمد کمابارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top