skip to Main Content

سایہ

پروفیسر محمد اسلم بیگ

۔۔۔۔۔۔

میں عجیب مشکل میں تھا۔
ایک طرف ہمارے والد مرحوم کے آخری وقت کی خواہش جو ہم تینوں بھائیوں کے نزدیک حکم کا درجہ رکھتی تھی، دوسری طرف میرے بھائیوں کی طرف سے مجھ پر اعتماد کا اظہار۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بیک وقت دونوں سے انصاف کیسے کروں،پھر بذاتِ خود میرے ایک فریق ہونے کی وجہ سے معاملہ اور زیادہ پیچیدہ ہو چکا تھا۔
والد صاحب کے ترکہ میں ہم تینوں بھائیوں کو گھر کے علاوہ دو بڑے سپراسٹور اور گاؤں کی ایک مربع زرعی زمین ملی تھی۔
ہمارے والد محترم نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ہم تینوں کو سامنے بٹھا کر اپنی ایک خواہش کا اظہار کیا تھا۔ وہ خواہش جسے وہ چاہتے ہوئے بھی خود پورا نہ کر سکے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اب ہم میں سے کوئی ایک تو اُن کی اِس خواہش کو پورا کرے۔ گاؤں کی زمین کو آباد کرنے، اسے سرسبز و شاداب بنانے کی خواہش!
ابا جان نے ساری زندگی سخت محنت کی تھی۔ ہماری امی جان کے انتقال کے بعد انھوں نے محض ہماری محبت میں دوسری شادی نہیں کی اور اپنی زندگی کو گویا ہماری اچھی تعلیم و تربیت کے لیے وقف کر دیا۔ ہمیں اچھی تعلیم دلانے کے لیے وہ گاؤں چھوڑ کر شہر چلے آئے تھے۔جب تک ان کی صحت نے اجازت دی، وہ کسی غمی خوشی کے موقع پر کبھی کبھی گاﺅں کا چکر لگالیتے تھے مگر ہم تینوں نے شاید ہی سال بھر میں ایک آدھ مرتبہ وہاں کا رخ کیا ہو!
خیر ہم بڑے ہوئے تو ہماری دلچسپی بھی کاروبار میں تھی۔ یوں کاروبار ترقی کرتا گیا اور زمین ویران ہوتی چلی گئی۔اب زمین کی حالت یہ تھی کہ دونوں اسٹورز اور زرعی رقبہ کی الگ الگ آمدنی میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ زمین کی سال بھر کی آمدنی صرف ایک اسٹور کی ماہانہ آمدنی سے بھی کم تھی۔ مزارعین نے اُس کے ساتھ وہی سلوک کیا تھا جو عموماً غیر حاضر زمینداروں کی ز مین کے ساتھ ہوتا ہے۔
ابا جان کو ساری زندگی اپنی زمین کو آباد نہ کرنے کا قلق رہا تھا،یہ بات پہلی بار انھوں نے ہمیں بے حد پرسوز لہجے میں اپنی زندگی کے آخری دنوں میں بستر علالت پر بتائی،پھر وہ اپنی خواہش ہمارے سپرد کر کے اپنے اللہ کے پاس چلے گئے۔
ہم تینوں بھائی اُن سے بے حد محبت کیا کرتے تھے۔ ان کی قربانیاں ہمارے سامنے تھیں۔زندگی میں بھی ہم نے ہمیشہ ان کی ہر بات پر سر تسلیم خم کیا تھا تو یہ تو ان کی آخری خواہش تھی،جسے ہم تینوں بھائی ضرور پورا کرنا چاہتے تھے مگر کیسے کریں، کون کرے، یہ سوالات پہاڑ کی طرح ہمارے سامنے آ کھڑے ہوئے تھے۔
ایک ماہ سے زائد عرصہ تو ابا جان کے بچھڑنے کے غم اور تعزیت کے لیے آنے جانے والوں سے ملاقاتوں میں ہی گزر گیا۔ دوسرا مہینہ شروع ہوا تو ہمارے بڑے بھائی نے جنھیںہم دونوں بھائی جان کہتے ہیں، باقاعدہ میٹنگ بلالی۔ میٹنگ کا ایجنڈا وراثت کی تقسیم اور ابا جان کی خواہش پورا کرنے کے لیے لائحہ عمل سوچنا تھا۔
تھوڑی سی گفتگو کے بعد ہی بھائی جان نے فیصلے کا اختیارمجھے دیتے ہوئے مجھ پر مکمل اعتماد کا اظہار کردیا جس کی تائید چھوٹے بھائی عبدالغنی نے بھی فوراً کردی۔ اس کے ساتھ ہی بھائی جان نے میٹنگ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
ہم بھائیوں میں بہت اتفاق اور اتحاد تھا اس لیے وراثت تقسیم کرنے کا تو کوئی مسئلہ نہ تھا۔ جائیداد تقسیم کیے بغیر بھی ہم تینوں کی شراکت میں دونوں اسٹور خوش اسلوبی سے چل سکتے تھے، مسئلہ ابا جان کی خواہش کے پورا کرنے کا تھا۔ ہم میں سے جو بھائی بھی اباجان مرحوم کی خواہش کے احترام میں شہر کی زندگی اور سہولیات چھوڑ کر گاؤں جا بستا، وہ بہت مشکل میں آ جاتا۔کیوں کہ ہم تینوں ہی شہر ی زندگی کے عادی ہوچکے تھے۔ تینوں کی دلچسپی بھی دکان داری میں ہی تھی۔ کاشت کاری میں کون جان ماری کرے! کہاں ائیر کنڈیشنڈ اسٹور میں بیٹھ کر نوٹ کمانا اور کہاں سورج کی تمازت اور زمین کی تپش میں اپنی جان کھپانا۔
سب سے پہلے میں نے عبدالعزیز بھائی جان کے حوالے سے سوچا۔
وہ مجھ سے دس سال اور عبدالغنی سے پندرہ سال بڑے تھے۔ چار بچوں، شہری بیوی اور پھر بلڈپریشر کی بیماری کے ساتھ وہ گاﺅں میں بھلا کیسے رہ سکتے تھے؟ نہ ہی زمینداری جیسا مشقت کا کام ان کے بس کی بات تھی، پھر ان کے بچوں کی تعلیم کا کیا ہوگا؟ نہیں، یہ نہیں ہوسکتا۔ وہ ہمارے والد کی جگہ ہےں۔ کم از کم ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم دونوں چھوٹے یہاں آرام سے رہیں اور بھائی جان کو مزارعوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔
جہاں تک میری بات تھی تو میرے بھی رگ و پے میں دکان داری رچ بس چکی تھی۔ کھیتی باڑی کا سوچ کر ہی مجھے ہول آرہا تھا۔ اگرچہ میرے بچے ابھی چھوٹے تھے لیکن کل وہ بھی اسکول جائیں گے۔ ممکن ہے اس میں خود غرضی کا عمل دخل بھی ہو، لیکن سچ بات یہ ہے کہ میں نے بہر حال اپنے آپ کو کاشت کاری کے لیے بالکل غیر موزوں ہی نہیں بلکہ نا اہل بھی قرار دے دیا۔
رہا چھوٹا عبدالغنی تو اگرچہ وہ ابھی بیوی بچوں والا نہیں ہوا تھا، لیکن صرف پچیس سال کی ناپختہ عمر!۔ اس میں اتنی سنجیدگی کہاں تھی کہ اکیلے غیر آباد اور ویران زمینوں کو نئے سرے سے آباد کرے، پھر وہ ہم دونوں سے زیادہ تعلیم یافتہ تھا۔ بھائی جان نے میٹرک اور میں نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی تھی جب کہ وہ بی اے ایل ایل بی تھا۔ چاہتا تو وکالت شروع کرسکتا تھا، لیکن دکان داری اس کی بھی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ اس نے وکیل بننے کی بجائے کاروبار کو ترجیح دی۔ ہاں اس کا ایک شوق ضرور تھا۔ اچھے سے اچھا موبائل سیٹ رکھنا اور نت نئی رِنگ ٹونز بدلنا۔ بہر حال لاڈلے چھوٹے بھائی ہونے کے ناتے وہ ہم دونوں کو بہت ہی پیارا تھا۔ اسے بھی اتنے بڑے امتحان میں میں کیسے ڈالا جا سکتا تھا؟
میں عجیب طرح کی مشکل میں تھا۔سوچ سوچ کر میری نیند متاثر ہوچکی تھی۔ اسی کیفیت میں ، مَیں ایک دن بیٹھا تھا کہ عبدالغنی کچھ گنگناتا،خوشی سے لہراتا ہوا میرے پاس آیا۔
”بھائی صاحب! مسئلہ حل ہوگیا ہے۔“ وہ مجھے بھائی صاحب کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اس سے پوچھوں، کون سا مسئلہ حل ہوا ہے کہ وہ پرجوش انداز میں بولا:”بھائی صاحب! میں نے ہریالی چن لی ہے۔“
”کیا مطلب؟ ….کون سی ہریالی چن لی ہے؟“
”آپ مجھے زمینوں پر جانے دیں، میں انھیں ہرا بھرا کروں گا۔“ وہ ایک عزم سے بولا۔
”عبدالغنی پیارے! اچھی طرح سوچ لو، یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔“
”اب سوچ کا وقت گزر گیا ہے پیارے بھائی صاحب …. اور جب معاملہ سوچ سے گزر جاتا ہے تو کام آسان ہوجاتا ہے۔“
اس کے چہرے پر مسکراہٹ شوخی اور خوشی کا امتزاج نظر آرہی تھی۔
”لیکن اچانک یہ فیصلہ تم نے کیسے کرلیا؟“
”بھائی صاحب! یہ ہریالی ہی مجھے ہرے گنبد تک پہنچائے گی ، بس آپ اور بھائی جان دکانیں سنبھال لیجیے ….“
میں نے اُس کی زبان سے پہلی مرتبہ سپر بلکہ سپر سے بھی بڑے اسٹور کو دکان کہتے ہوئے سنا تھا، ورنہ کوئی اور دکان کا لفظ استعمال کرتا تھا تو وہ غصے میں آجاتا تھا۔
عبدالغنی نے جس اعتماد سے یہ فیصلہ مجھے سنایا، اس سے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے یہ فیصلہ اس نے خود نہیں کیا بلکہ کسی نادیدہ قوت نے اس سے کرایا ہے….اور پھر وہ:
ہرا گنبد جو دیکھوگے زمانہ بھول جاﺅگے
زمانہ بھول جاﺅگے یہ دنیا بھول جاﺅگے
یہ دنیا بھول جاﺅگے دکانیں بھول جاﺅگے
جھومتا جھامتاوالہانہ انداز میں پڑھتے ہوئے چل دیا۔
میں حیرت سے اسے تکتا رہ گیا۔ آج وہ پہلے والا نہیں بلکہ کوئی اور ہی عبدالغنی نظر آرہا تھا۔ یہ بول بھی میں نے پہلی مرتبہ اُس کی زبان سے سنے اور پھر وہ اگلے دن اپنا ضروری سامان لے کر گاﺅں روانہ ہوگیا۔ ہم سے رخصت ہوتے ہوئے بھی یہی بول اس کی زبان پر تھے:
ہرا گنبد جو دیکھو گے زمانہ بھول جاﺅگے
….٭….
شام کو گاﺅں پہنچ کر اس نے پہلی رات سفر کی تھکن اتاری۔ اگلے دن مزارعوں سے ملاقات کی، زمینوں کا جائزہ لیا اور اس سے اگلے دن کام شروع کردیا اور پھر وہ تھا اور والد مرحوم کی چھوڑی ہوئی زمینیں۔ وہ دیوانوں کی طرح کام میں لگ گیا۔ مزارعین، جو اِس سے پہلے مفت کی روٹیاں توڑ رہے تھے، وہ بھی کمربستہ ہوگئے۔ وہ نہ خود چین سے بیٹھتا تھا اور نہ کسی اور کو بیٹھنے دیتا تھا۔ اسے اتنی فرصت بھی نہیں تھی کہ کبھی کبھی ہمیں فون کرکے اپنا حال احوال ہی بتادیتا۔ اس کی اور اس کے کام کی خبریں ہمیں دوسرے لوگوں سے ہی ملتی تھیں اور اگر ہم اسے فون کرتے تو دیر تک….
ہرا گنبد جو دیکھوگے زمانہ بھول جاﺅگے
زمانہ بھول جاﺅگے دکانیں بھول جاﺅگے
کی رِنگ ٹون ہمیں سنائی دیتی رہتی تھی۔ وہ مختصر بات کرکے اجازت لے لیتا تھا۔ اب ہمیں بھی یہ رِنگ ٹون سن کر اتنا مزا آتا تھا کہ ہم صرف اسی کو سننے کے لیے اسے فون کردیتے تھے۔ ٹون میں نہ تو میوزک کا شور شرابا تھا اور نہ ہی کسی قسم کا ہلا گلا، سادہ لیکن دل پر اثر کرنے والی۔
….٭….
تین سال یونہی گزر گئے۔ اس دوران میں اس نے مشکل سے عید بقر عید پر ہی یہاں کا چکر لگایا اور ہمارے ساتھ گنتی کے چند دن گزار کر رخصت ہوگیا۔ ہم نے اس سے بہت کہا کہ اب تمھاری شادی کردیتے ہیں لیکن وہ صاف انکار کرتا رہا۔
”بھائی صاحب! میری شادی زمینوں سے ہوگئی ہے۔ میری شادی ہریالی سے ہوگئی ہے۔ اگر میں شادی کے جھمیلے میں پڑ گیا تو میرا اصل کام رہ جائے گا۔ تین سال گزر گئے ہیں، مجھے دو سال اور دے دیں۔ یہ بھی جلد گزر جائیں گے۔ اس کے بعد آپ جو چاہیں کریں۔“اور پھر وہ اپنے پسندیدہ بول دہرانے لگتا۔ اس کی ہر بات کا اختتام یہی بول ہوتے تھے اور پھر وہ کچھ نہیں بولتا تھا۔
ایک سال مزید گزرا تو زمینوں کی کایا پلٹ چکی تھی۔ چار سال میں سوکھی جھاڑیاں لہلہاتی فصلوں میں تبدیل ہوچکی تھیں۔ مرجھائے ہوئے پودے اور ٹنڈ منڈ درخت موسمی پھلوں کے باغات بن چکے تھے۔ زمینوں کا جو حصہ گاﺅں سے آنے والی نیم پختہ سڑک سے ملحق تھا، وہاں کنارے کنارے موجود پرانے درختوں کی اس نے خوب آبیاری کی اور ان کے بیچ میں جلد بڑھنے والے نئے پودے بھی لگائے۔ اِس طرح گزرنے والوں کو سایہ ملنا شروع ہوگیا۔
میں والد مرحوم کی دانش کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ اگر وہ اپنی خواہش کا اظہار ہم سے اتنی تاکید سے نہ کرتے اور دل میں اسے دبائے دنیا سے چلے جاتے تو شاید زمینیں آج تک اسی طرح ویران ہی رہتیں، بلکہ آیندہ کئی نسلوں تک یہی صورت حال رہتی۔
ہمیں گاﺅں سے گندم اور موسم کے پھل ملنا شروع ہوگئے۔ یوں ہم شہر میں بیٹھ کر عبدالغنی کی محنت کا پھل کھانے لگے۔اب تک ہم اس کا حصہ اُس کے اکاؤنٹ میں جمع کراتے رہتے تھے، اب جب زمینوں نے بھی سونا اگلنا شروع کیا تو وہ بھی پوری ذمہ داری سے باقاعدگی سے اور ایمانداری سے ہمارا حصہ ہمیں پہنچانے لگا۔
اور پھر اس نے ہم دونوں سے فرمائش کردی کہ ہم دونوں بڑے بھائی اِس سال حج کر لیں، کیوں کہ اس کا اگلے سال حج پر جانے کا ارادہ ہے۔حج ہم سب بھائیوں پر بہت پہلے سے فرض تھا مگر ہم سے غفلت ہوتی رہی تھی۔اب عبدالغنی چاہتا تھا کہ اِس سال ہم دونوںحج کے فرض سے سبکدوش ہو جائیں اور وہ پیچھے سارے کام دیکھے گا۔ حج کے اخراجات اُس نے اپنے ذمے لینا چاہے تھے لیکن ہم نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے معذرت کر لی۔ حقیقتاً یہ اسی کی ترغیب کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بھائی جان کو اور مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ یہ سعادت عطا فرمادی۔
سوئے حرم رخصت کرتے ہوئے اس نے ہم سے التجا کی:
” اللہ کے گھر پر پہلی نظر پڑے تو میرے لیے دعا ضرور کیجیے گا کہ اللہ ربّ العزت میری دلی مراد بھی پوری فرمادیں۔“
دیارِ حرم پہنچنے کے بعد بھی اس کی مسلسل یہی فرمائش ہمیں ملتی رہی۔
خانہ کعبہ کا نظارہ ہمارے لیے ایک ایمان افروز اور مسحور کن تجربہ تھا۔ پہلی نظر ڈالتے ہوئے ہم نے جہاں اپنے لیے دعائیں کیں، وہاں اس کی دلی مراد پوری ہونے کی بھی درخواست کی۔ حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد ہم مدینہ منورہ پہنچے۔ شہرِ نبی میں داخل ہوتے ہی ہم نے ایک بات واضح طورپر محسوس کی کہ اس کے راستوں میں مکہ معظمہ کے مقابلے میں زیادہ سبزہ اور ہریالی ہے۔ اِس موقع پر ہمیں عبدالغنی پھر یاد آیا کہ وہ یہاں آئے گا تو یہ ہریالی دیکھ کر کتنا خوش ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے ہم گناہ گاروں کو روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سبز گنبد کی زیارت کا شرف بخشا۔ پھر آٹھ دنوں میں چالیس نمازیں مسجد نبوی میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اِن چالیس نمازوں کی برکت سے اللہ ربّ العزت نے ہمیں باقاعدہ نمازی بنادیا، ورنہ اس سے پہلے ہمیں نماز ادا کرنے کی ”فرصت“ کم ہی ملتی تھی۔ مجموعی طورپر حج کی سعادت نے ہماری زندگیوں میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ عبدالغنی کے لیے ہمارے دل سے دعائیں نکلیں اور ہمیں اس پر اور بھی زیادہ پیار آنے لگا۔ سچ ہے بعض مرتبہ چھوٹے بھی اپنے بڑوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
اس دوران میں اُس نے دونوں دکانوں کو بھرپور وقت دیا۔ واپس آئے تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس نے دونوں اسٹورز کی چھت پر ہریالی پھیلادی تھی۔ چھت کے نصف حصے کو کھلا چھوڑ کر وہاں بڑے بڑے گملے رکھوادیے تھے جن میں طرح طرح کے پودے اور خوش نما پھول بہار کا منظر پیش کر رہے تھے اور باقی نصف حصے پر باقاعدہ چھت بنا کر وہاں اپنی زمینوں کی اجناس گندم، مکئی، باجرہ، پسی ہوئی گندم (چکی کا آٹا) کے ڈھیر برائے فروخت لگادئیے تھے اور اسے” اپنے گاﺅں کے تحفے“ کا عنوان دے دیا تھا۔ ہماری و اپسی تک چھت کا یہ حصہ گاہکوں کی توجہ کا مرکز بن چکا تھا اور باقاعدہ فروخت شروع ہوچکی تھی۔
اسی طرح نیچے سڑک اور اسٹور کے داخلی دروازے کے درمیان دونوں طر ف اس نے دیدہ زیب پھولوں کے گملے رکھوادیے تھے جنھیں دیکھ کر ہر ایک کا دل وہاں سے گزر کر اسٹور میں داخل ہونے کو چاہتا تھا۔ گویا دونوں اسٹور تجارت اور زراعت کا حسین امتزاج بن چکے تھے۔
….٭….
ہمیں حج کی مبارک باد دینے کے بعد وہ پھر گاﺅں چلا گیا۔ اب گاﺅں سے اجناس اور پھل پھول تو آتے رہے لیکن وہ خود نہ آیا۔ اِس دوران میں اس نے ہم سب کو گاﺅں آنے کی دعوت دی۔ ہم بچوں سمیت گاﺅں پہنچے تو یوں لگاکسی نئی دنیا میں آگئے ہیں۔ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔ فصلیں لہلہا رہی تھیں۔ پھلوں کے درختوں کی شاخیں پھلوں کے بوجھ سے جھکی ہوئی تھیں، جیسے ہمیں بڑے ادب سے جھک جھک کر پھل کھانے کی دعوت دے رہی ہوں۔ ہم سے زیادہ ہمارے بچے لطف اندوز ہورہے تھے۔ وہ پہلی مرتبہ گاﺅں آئے تھے۔ درختوں سے براہِ راست پھل توڑ کر کھاتے ہوئے وہ خوشی سے جھوم رہے تھے۔
میرے بیٹے نے مجھے آہستہ سے کہا:”ابو! مجھے لگ رہا ہے کہ میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔“
واپسی کے سفر میں سب بچے اس بات پر متفق ہی نہیں بلکہ بضد بھی تھے کہ ہم آئندہ ہر چھٹیوں میں گاﺅں آیا کریں گے۔ واپس شہر پہنچ کر ہم نے اسے اپنی مہمان نوازی کے لیے شکریہ ادا کرنے کا فون کیا تو اس کی رِنگ ٹون میں بظاہر ایک لفظ کی لیکن حقیقت میں بہت بڑی تبدیلی محسوس کی:
ہرا گنبد جو دیکھوگے زمانہ بھول جاﺅگے
زمانہ بھول جاﺅگے زمینیں بھول جاﺅگے
یعنی دکانوں کی جگہ اب زمینوں نے لے لی تھی۔ گویا کل تک دکانوں سے بے نیازی برتنے والا عبدالغنی اب زمینوں سے بھی مستغنی ہوچکا تھا۔
….٭….
اور اب اس کی دلی مراد پوری ہونے ہونے کا وقت آگیا تھا جس کی تمنا وہ گزشتہ پانچ سال سے کر رہا تھا۔ اس کی زبان پر زیادہ تر:
ہرا گنبد جو دیکھوگے زمانہ بھول جاﺅگے
کے بول ہی ہوتے تھے۔ حج کے لیے روانہ ہونے کے بعد ہم نے جب بھی اسے فون کیا ہمیں حاجی کا ترانہ:
لبیک اللہم لبیک….لبیک لاشریک لک لبیک،ان الحمد والنعمة لک والملک، لاشریک لک۔
ہی سننے کو ملا۔ گویا اب اس کی سوچ کی سطح دکانوں اور زمینوں سے بلندہوچکی تھی۔ مادی چیزیں اب اس کے لیے قابلِ ذکر ہی نہیں رہی تھیں۔ اللہ کا گھر سامنے ہو تو اِن چیزوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟
اس نے ہمارے سفر ِحج کے دوران دونوں اسٹورز کی بہت دیکھ بھال کی تھی، چناں چہ ہم نے بھی زمینوں پر جانے کا پروگرام بنالیا۔ جوں ہی بچوں کو چھٹیاں ہوئیں، ہم بچوں سمیت ایک بار پھر گاﺅں پہنچ گئے۔ کھیتوں میں ہمیں ہر طرف اُس کی محنت کے اثرات اور ثمرات نظر آرہے تھے اور وہ اپنے کارندوں کی کارکردگی کا ایسا طریقہ کار وضع کر گیا تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں معمولی سی نگرانی سے بھی کام چلتا رہے۔ اس طرح ہم نے دیکھ بھال کم اور سیر وتفریح زیادہ کی۔ کھیتوں پر نظر ڈالتے ہوئے مجھے بارہا خیال آیا کہ والد مرحوم کی چاہت نے اِن کھیتوں کی ویرانی دور کی۔ عبدالغنی کی محنت نے انھیں سر سبز و شاداب کردیا اور اس کی حکمت عملی سے آئندہ کے لیے بھی ان کی زرخیزی اور ترو تازگی قائم رہنے کا خود کار نظام بن گیا ہے، پھر دونوں اسٹورز پر اس کے سجائے ہوئے ”اپنے گاﺅں کے تحفے“پر اجناس کی بلاتعطل سپلائی کی ضرورت نے ہم دونوں بھائیوں کو بھی پابند کردیا ہے کہ ہم اپنے کھیتوں سے اپنا رابطہ قائم رکھیں اور اُن کی پیداوار کو کم نہ ہونے دیں۔ مزید اطمینان مجھے اس بات پر ہوا کہ ہمارے بچوں کو بھی اُن سے دلچسپی پیدا ہوچکی ہے۔ اِس طرح یہ فصلیں آیندہ نسلوں تک کے لیے صدقہ جاریہ کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں۔
فریضۂ حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد وہ اللہ کے محبوب، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرام گاہ کی جانب رواں دواں تھا۔ ہم نے یہ معلوم کرنے کے لیے اسے فون کیا کہ اس کا کتنا سفر طے ہوچکا ہے تو ہمیں ایک نئی ٹون سننے کو ملی:
شکر ہے تیرا خدایا! میں تو اس قابل نہ تھا
تونے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا
تیری رحمت تیری شفقت سے ہوا مجھ کو نصیب
گنبدِ خضرا کا سایہ میں تو اس قابل نہ تھا
مدینہ منورہ میں داخل ہوتے ہی اس کا فون آیا:
”بھائی صاحب! آپ نے ٹھیک کہا تھا۔ یہاں مجھے مکہ معظمہ سے زیادہ ہریالی نظر آرہی ہے۔ شاید یہ ہرے گنبد کی برکت ہے۔“
”عبدالغنی! تم نے اباجان کی خواہش پراپنی آرام دہ زندگی کو قربان کیا، اللہ کی زمین کو سرسبز اور ہرا بھرا کردیا ، اب اللہ نے تمھیں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کی ہریالی دکھادی۔“
”اور اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق بھی عطا فرمائی تھی کہ اس کی مہربانی سے میں اللہ کی راہ چلتی مخلوق کو سایہ مہیا کرنے کے قابل ہوا۔ آپ بس دعا فرمائیں کہ اللہ پاک مجھے ہرے گنبد کا سایہ بھی نصیب فرمادیں۔یہ مبارک سایہ مجھے مل گیا تو گویا سب کچھ مل گیا۔“
یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔ نہ جانے وہ جذب کی کس کیفیت میں تھا۔
اور پھر وہ جتنے دن پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوہنے شہر میں رہا، یہی مقدس بول ہمارا استقبال کرتے رہے اور ہماری سماعتوں کو تسکین پہنچاتے رہے۔
مسجدِ نبوی میں چالیس نمازیں مکمل ہونے پر میں نے اسے مبارک باد دی۔ وہ بہت خوش تھا۔ اگلے دن اسے واپس آنا تھا۔ اس نے وارفتگی کے عالم میں بتایا کہ وہ اب روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا الوداعی دیدار کرنے جا رہا ہے۔
تھوڑی دیر بعد میں نے اندازہ لگایا کہ وہ اب تک یہ سعادت حاصل کرکے باہر آچکا ہوگا۔ میں نے اس کا نمبر ملایا۔ مجھے
شکر ہے تیرا خدایا میں تو اس قابل نہ تھا
کے ایمان افروز بول دیر تک سنائی دیتے رہے۔ سننے میں بہت مزا آرہا تھا۔ کچھ دیر مزید گزری تو مجھے خیال آیا کہ شاید روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری کے وقت اُس نے موبائل خاموش کردیا ہوگا اور واپس باہر نکل کر آواز کھولنا بھول گیا ہوگا۔ اس لیے میں نے کوشش جاری رکھی لیکن جواب میں یہی پاکیزہ بول مجھے سنائی دیتے رہے۔ میں فکر مند ہوگیا اور پھر میں نے احتیاطاً اسے اردو اور انگریزی میں پیغام بھیجا:
”عبدالغنی! تم فون اٹینڈ نہیں کر رہے ہو! کیا بات ہے؟“
تھوڑی دیر بعد مجھے ایک سرکاری نمبر سے پیغام ملا:
”ہمیں افسوس ہے کہ آپ کے بھائی عبدالغنی کا روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے باہر آنے کے بعد بیرونی صحن میں حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال ہوگیا۔“
مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ یقین اور بے یقینی کی ملی جلی کیفیت میںمَیں نے بھائی جان کو فون کردیا۔ ہم آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں باہمی مشورہ کرکے فارغ ہی ہوئے تھے کہ اسی نمبر سے مجھے دوسرا پیغام موصول ہوا:
”آخری لمحات میں کئی گئی وصیت کے مطابق انھیں جنت البقیع میں دفنادیا گیا ہے۔“
عبدالغنی کی شاید یہی دلی مراد تھی جسے دل میں چھپائے وہ اتنے عرصے سے دعائیں مانگ رہا تھا اور دوسروں سے بھی دعا کی درخواست کر رہا تھا۔ اسے ہمیشہ کے لیے ہرے گنبد کا سایہ مل چکا تھا۔ وہ بھی چند سچے عاشقوں میں سے ایک تھا جو اس سایہ تلے جانے سے پہلے ہی واپس نہ آنے کا پختہ عزم کرلیتے ہیں۔
ہرا گنبد جو دیکھو گے زمانہ بھول جاﺅگے
اگر طیبہ کو جاﺅگے تو آنا بھول جاﺅگے
ہم دونوں بھائی جہاں اپنے پیارے چھوٹے بھائی کے بچھڑنے پر غم زدہ تھے وہیں اس کی خوش قسمتی پر رَشک بھی کر رہے تھے۔
بعد اوقات چھوٹے بڑوں سے آگے نکل جاتے ہیں اور بعد میں لگائے گئے پودے جلدی پھل پھول جاتے ہیں۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top