skip to Main Content

ساجھے کا گھو نسلا

محسن خان
۔۔۔۔

ایک تھی مینا اور ایک تھی بلبل ۔ دونوں ایک درخت پہ رہتی تھیں ۔ان میں بڑا میل ملاپ تھا ۔سگی بہنوں کی طرح ایک دوسرے کا خیال رکھتیں ۔ جب بھوک لگتی تو ساتھ ساتھ کھانے جاتیں ۔کھٹے میٹھے پھل اور کیڑے مکوڑوں سے پیٹ بھر جاتا تو ساتھ اڑتیں اور باتیں کرتی ٹھکانے پر لوٹ آتیں ۔ جب کوئی کام دھندانہ ہوتا تو اطمینان سے درخت پر بیٹھ کر اپنی چونچوں سے پروں کو سنوارتیں ۔گئے وقتوں کی باتیںکرتیں اور آنے والے دنوں کے خاکے بناتیں۔ جب نیند آنے لگتی تو دونوں پہلو سے پہلو جوڑ کر سو جاتیں ۔یہی ان کی خوش گوارزندگی کا معمول تھا۔
ایک دن دونوں درخت پر بیٹھی باتیں کر رہی تھیں ۔ بلبل نے کہا ۔ ” بہن انڈے دینے کا وقت آ رہا ہے، اب مجھے اپنا گھونسلا بنا لینا چاہےے ۔“
” یہ خوش خبری تو میں بھی تمھیں سنانے والی تھی۔ میرے بھی انڈے دینے کا موسم آ رہا ہے ۔“مینا نے کہا ۔
”اب تو ہماری خوشیاں دوبالا ہو جائیں گی ۔ ہم دونوں ساتھ انڈے دیں گے ۔ ان سے بچے نکلیں گے۔ ایک ساتھ بڑے ہو کر اڑانیں بھریں گے ۔کیسے اچھے دن آنے والے ہیں۔ “بلبل نے کہا۔
” میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے۔“ مینا نے کہا۔
”ہاں ہاں جلدی بتاﺅ۔ “ بلبل نے کہا۔
”دو گھونسلے بنانے کے بجائے کیوں نہ ہم لوگ ایک گھونسلا بنا لیں اور دونوں ایک ہی گھونسلے میں انڈے دیں ۔اس طرح زیادہ محنت بھی نہیں کرنا پڑے گی اور انڈے سینے میں بھی آسانی ہو جائے گی ۔“مینا نے کہا۔
”یہ تو بہت اچھا خیال ہے ۔“بلبل نے کہا۔
”ہم لوگ ایسی جگہ پہ گھونسلا رکھیں گے جہاںپتوں کا سایہ رہے تاکہ بچوں کو لو دھوپ نہ لگے ۔“مینا نے کہا۔
”اور ہمارے بچے دشمنوں سے بھی محفوظ رہ سکیں ۔ “ بلبل نے کہا ۔
”ہاں بہن تم نے بھی عمدہ بات سوچی۔ چلو اب ہم لوگ کسی اچھی اور محفوظ جگہ کاانتخاب کر لیں۔“ مینا نے کہا اور دونوں پھدک پھدک کے درخت کی شاخوں کا جائزہ لینے لگیں۔ خوب سوچنے سمجھنے کے بعد آخر کار انھیں ایک شاخ پسند آ گئی۔
دونوں میں یہ طے ہوا کہ مینا تنکے لائے گی اوربلبل گھونسلا بنائے گی، لہٰذا مینا دوڑ دوڑ کر تنکے لانے لگی اور بلبل ان لچکدار تنکوں کو توڑ مروڑ کے بڑے سلیقے سے گھو نسلا بنانے لگی اور جناب دیکھتے دیکھتے گھونسلابن کر تیار ہو گیا ۔
”پہلے میں گھونسلے میںبیٹھ کر دیکھوں گی۔“ بلبل نے کہا اور جلدی سے گھو نسلے میں بیٹھ کرچاروں طرف نگاہ دوڑاتے ہوئے کہا ۔ ”بڑا آرام دہ ہے ۔ یہاں سے سب طرف دیکھا بھی جا سکتا ہے ۔ “
جب بلبل نے گھونسلے میں بیٹھ کر دیکھ لیا تو اس نے مینا سے کہا۔” بہن اب تم بیٹھ کر دیکھو ۔“
مینا نے بھی گھونسلے میں بیٹھ کے سب طرف دیکھا اور بولی ۔ ”سارے جہاں سے اچھا ہے آشیاں ہمار ا۔ “ اور دونوں ہنسنے لگیں ۔
دو چار دن کے بعد بلبل نے انڈے د ے دیے ۔ اتفاق کی بات ہے کہ دوسرے ہی دن مینا نے بھی انڈے دے دیے ۔ اب دونوں باری باری انڈے سینے لگیں ۔بلبل آ ب و دانے کی تلاش میں چلی جاتی تو مینا گھونسلے میں بیٹھ کر انڈے سیتی۔ جب مینا کو بھوک لگتی تو وہ کھیت کھلیانوں میں چلی جاتی اور بلبل انڈے سیتی ۔شام کے وقت جب دونوں ساتھ ہوتیں تو بچوں کی پرورش اور ان کے مستقبل کی باتیں کرتیں ۔
بلبل کہتی:”میں بچوں کو بولنا سکھاﺅں گی۔“
مینا کہتی: ” میں اڑنا سکھاﺅں گی ۔“
بلبل کہتی:”میں کہانیاں سناﺅں گی۔ “
مینا کہتی:” میں لوریاں سناﺅں گی۔“
یہی سب باتیں کرتے کرتے دونوں سو جاتیں ۔
ایک دن بلبل گھونسلے میں بیٹھی انڈے سی رہی تھی ۔مینا کھانے کی تلاش میں گئی ہوئی تھی ۔ایک کوا آیا اور درخت کی شاخ پر بیٹھ کر اس نے بلبل سے کہا :” بہن تمہارا گھونسلا بہت خوبصورت ہے۔ “
”شکریہ بھائی کوے۔ ‘ ‘ بلبل نے کہا ۔
”کیا یہ گھونسلا تم نے بنایا ہے۔“کوے نے پوچھا ۔
”میں نے اور میری منہ بولی بہن مینا نے مل کر بنایا ہے۔ “بلبل نے جواب دیا ۔
”پھر تو تم دونوں کا اس گھونسلے پر برابر کا حق ہے۔ “ کوے نے کہا ۔
بلبل نے کہا،”ہاں بھائی اس گھونسلے میں ہم دونوں نے انڈے دیے ہیں جنھیں ہم باری باری سیتے ہیں ۔ کچھ دنوں میں انڈوں سے بچے نکلیں گے تو ہم ان کی پرورش بھی ساتھ ساتھ کریں گے۔“
بلبل کی بات سن کر کوا الجھن میں پڑ گیا ۔اس نے تو یہ سوچا تھا کہ جب بلبل دانے پانی کی تلاش میں نکلے گی تو میں انڈے لے اڑوں گا مگر یہاں تو انڈوں کے دو دو نگہبان تھے ۔ وہ ذرا دیر تک خاموش بیٹھا سوچتا رہا ۔ پھر اس کے دماغ میں ایک بات آئی اور اس نے بلبل سے کہا۔ گھونسلے میں دیر سے بیٹھے بیٹھے تمہارا جی اکتا گیا ہوگا،اگر تم سیر سپاٹے کے لئے جانا چاہتی ہو تو چلی جاﺅ میں کچھ دیر تمہارے ا نڈے سی لوں گا۔“
”بھائی میںابھی کچھ دےر پہلے ہی سےرسپاٹا کر کے واپس آئی ہوں۔“ بلبل نے کہا ۔
کوے نے نئی چال چلی ،اس نے کہا۔” تم دونو ںنے ذرا سمجھ داری سے کام لیا ہوتا تو آنے والی مصیبت سے محفوظ رہتیں۔“
”میں آپ کی بات سمجھ نہیں پائی۔“ بلبل نے کہا۔
تم لوگوں نے آشیانہ پتلی شاخ پر بنایا ہے اگر آندھی آگئی تو شاخ رہے گی نہ آشیانہ ہی رہ جائے گا۔اور میں دور آسمان میں دیکھ رہا ہوں زور کی آندھی آ رہی ہے۔ “کوے نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
”مجھے تو دکھائی نہیں دے رہی۔“ بلبل نے بھی آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم نیچے کی شاخ پر ہو۔ وہاں سے آندھی دکھائی نہیں دے گی۔ اوپر کی شاخ پر آکر دیکھو ۔“ کوے نے سوچا جیسے ہی بلبل اوپر کی شاخ پر آئے گی میں جلدی سے انڈے لے اڑوں گا۔
”اب آندھی آئے یا طوفان، میں انڈے چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتی ۔“ بلبل نے کہا۔
”کو اکچھ دیر تک سوچتا رہا، پھر اس کے ذہن میں ایک نئی ترکیب آئی، اس نے کہا۔
” بہن بلبل! کوئی کام کرنے سے پہلے چار لوگوں سے رائے مشورہ کر لینا چاہیے ، ساجھے کا گھونسلا بنا کر تم نے بڑی نا سمجھی کا کام کیا ہے۔“
”مشورہ تو کسی سے نہیں کیا مگر ہم دونوں نے خوب سوچ سمجھ کر اور ہر پہلو پہ غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے ۔“بلبل نے کہا ۔
کوے نے کہا ۔”اگر تم دونوں دور اندیشی سے کام لیتیں تو یہ نادانی کبھی نہ کرتیں۔ اب تم ہی سوچو تمھارے پروں کے رنگ ایک سے نہیں ہیں ۔ ذاتیں الگ ہیں۔ عادتیں جدا جدا ہیں ۔ بولیاں مختلف ہیں ۔یہاں تک کہ انڈے بھی ایک جیسے نہیں، جب تمھارے انڈوں سے بچے نکلیں گے تو وہ ایک جیسے نہیں ہوں گے ۔ایک دوسرے کی شکل دیکھ کراور آوازیں سن کرہی ڈر جائیں گے۔ جب بچے بڑے ہونگے تو ایک دوسرے کی بولیاں بولیں گے۔ ان کی عادتیں سیکھیں گے ۔ ان کی اپنی مادری زبان ہو گی نہ تہذیب ۔چوں چوں کا مربہ بن کے رہ جائیں گے ۔ برادری والے ان کا مذاق اڑائیں گے اور ان سے دور بھاگیں گے ۔زندگی گزارنے کے لیے ان کو جوڑے ملنے مشکل ہو جائیں
گے ۔تم میری باتوں پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرنا۔ابھی سویرا ہے ۔اپنا گھونسلا الگ کر لو۔ کل کو جب انڈوں سے بچے نکل آئےں گے تو دیر ہو چکی ہو گی ۔میں جو باتیں کہ رہا ہوں نیک نیتی سے کہہ رہا ہوں۔اگر میری باتیں بری لگی ہوں تو مجھے معاف کر دینا ۔ اور ہاں جاتے جاتے یہ بھی کہنا چاہتا ہوںکہ میں نے تم کو بہن کہا ہے ،لہٰذااس رشتے کی لاج رکھنا اور میری باتیں مینا کو نہ بتانا۔“ یہ کہہ کر کوا کائیں کائیں کرتا ہوا چلا گیا۔
شام کو جب مینا واپس آئی تو بلبل نے اسے کوے کی بات نہیں بتائی ۔دوسرے دن جب بلبل دانے پانی کی تلاش میں گئی ہوئی تھی اور مینا انڈے سی رہی تھی ، کواپھرآگیا۔کچھ دیر تک بدلتے موسموں اور پرندوں کے اخلاقی زوال کی باتیں کرنے کے بعد اس نے مینا سے کہا ۔ ”بہن تمہارا گھونسلابہت خوبصورت ہے ۔“
”شکریہ کوے بھائی۔“ مینا نے کہا ۔
”کیا تم نے خود بنایا ہے۔ “کوے نے پوچھا۔
”میں نے اور میری منہ بولی بہن بلبل نے مل کر یہ گھونسلا بنایا ہے ۔“مینا نے بتایا۔
کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد جب کوے نے سمجھ لیا کہ مینا اس سے مانوس ہو گئی ہے تو اس نے مینا سے بھی وہی سب باتیں کہیں جو بلبل سے کہیں تھیں ۔یہ بھی کہا کہ میں نے تم کو بہن کہا ہے ۔اس رشتے کی لاج رکھنا اور بلبل کو یہ باتیں نہ بتانا۔ یہ کہہ کر کوا کائیں کائیں کرتا ہوا چلا گیا ۔
کوا جو چنگاری چھوڑ کر گیا تھا وہ پھیلنے لگی،بلبل اور مینا ایک دوسرے سے کھنچی کھنچی رہنے لگیں،اب وہ وقت کا حساب رکھتیں،بلبل دانے دنکے کی تلاش میں جاتی،اور واپس آتی تو مینا اس کے چٹکی لیتے ہوئے کہتی ۔۔۔بہن تم کو تو میری بھوک اور پیاس کاخےال ہی نہیں ۔۔۔مینا لوٹ کر آتی تو بلبل اسے طعنے دیتی ، دونوں کو ایک دوسرے سے پہلی سی انسیت نہیںرہ گئی تھی۔
وہ دونوں اپنے دل کی بات ایک دوسرے سے کہنا چاہتی تھیں مگر ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بات کس طرح شروع کی جائے ۔آخر کار مینا نے ذرا تکلف کے ساتھ کہا ۔” اگر برا نہ مانو تو ایک بات کہوں ۔ “
”ہاںکہو۔“بلبل نے کہا ۔
” ہمارا اورہمارے بچوں کا ایک گھونسلے میں گزارا ہونا مشکل ہو گا۔ کیوں نہ ہم لوگ ہنسی خوشی الگ ہو جائیں۔ “ مینا نے کہا۔
” تم نے میرے دل کی بات کہہ دی ۔“ بلبل نے کہا ۔
”تو پھر تم کل سے اپنا گھونسلابنانا شروع کر دو جب تمہارا گھونسلابن کر تیار ہو جائے تو اپنے انڈے ا س میں رکھ لینا ۔ انڈے وہاں لے جانے میں میں تمھاری مدد کروں گی ۔“مینا نے کہا ۔
”نیا گھونسلا تو تم بھی بنا سکتی ہو میں کیو ں بناﺅں۔“ بلبل نے کہا ۔
میں نے اس گھونسلے کوبنانے میں زیادہ محنت کی ہے اس لیے اس پر میرا حق زیادہ ہے۔“ مینا نے کہا۔
” تم غلط بیانی کر رہی ہو،گھونسلا میں نے بنایا ہے ۔“ بلبل نے کہا ۔
”میں نے بھی لو دھوپ میں ایک ایک تنکا تلاش کرنے کے لیے کھیتوں اور کھلیانوں کی خاک چھانی ہے۔“ مینا نے کہا۔
” تنکے لانا آسان ہے مگر گھونسلا بنا پانا مشکل کام ہے۔ میں نے ایک ایک تنکے کو سجا سجا کے بڑے سلیقے سے گھونسلا بنایا ہے ۔“ بلبل نے کہا ۔
” اب جو بھی ہو میں تو اپنے انڈوں کے ساتھ اسی گھونسلے میں رہوں گی۔ “ مینا نے کہا اور پنجوں سے بلبل کے انڈے کنارے کرنے لگی ۔
بلبل نے جو یہ دیکھا تو آپے سے باہر ہو گئی اور شاخ سے پھدک کر گھونسلے میں جھپ سے بیٹھ گئی ۔
میناکو بھی رشتے کا پاس نہ رہااور اس نے بلبل کے سر پہ ٹھونگ ماردی ۔ بلبل کو بھی طیش آ گیااس نے اپنے پروں سے مینا کے منہ پہ ایک دھپ ماردی ۔جو گھونسلا دونوں نے بڑی لگن سے بنایا تھا دیکھتے دیکھتے جنگ کا میدان بن گیا ۔اس دھینگا مشتی میں گھونسلے کا توازن بگڑ گیا اور گھونسلا انڈوں کے ساتھ زمین پر گر گیا ۔ کوا پتوں کی آڑ میں بیٹھا یہ تماشا دیکھ رہا تھا ۔ وہ تو اسی موقع کی تلاش میں تھا ۔ بڑی پھرتی سے زمین پر اترا ، جلدی جلدی انڈے چٹ کیے اور کائیں کائیں کرتا ہوا یہ جا وہ جا ۔
اب درخت پر گھونسلاتھا نہ انڈے ۔ دونوں بہنوں کو اپنے کئے پر پچھتاوا ہو رہا تھا ، بلبل نے مینا سے کہا ،” بہن اس چالاک کوے نے ہمیں بدگمان کیا اور ہمارا آشیانا اجاڑ دیا ۔“
مینا نے کہا،”جو ہو گیا اسے بھول جانے میں ہی بہتری ہے، کوے سے ہمیں یہ سبق ملا کہ دوسروں کی باتوںپر خوب غور کر لینے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کر نا چاہیے۔“
مینا نے کہا،”ہاں بہن!تم نے صحیح کہا۔ اب ہم کسی کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے، سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا کرینگے۔“
دونوں بہنیں گلے شکوے بھلاکرپہلے کی طرح ساتھ رہنے لگیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top