skip to Main Content

سات دن کا غلام

شازیہ فرحین

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سات دن کا غلام آٹھویں دن کی غلامی کے لیے بھی تیار ہوگیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’یہ کیسی بلا ہے جس سے جان چھٹتی ہی نہیں۔‘‘ فراز نے غصے سے پیر پٹخا اور پھر وہ انتہائی پرتشویش نظروں سے بائیو کے جرنل کو گھورنے لگا۔
’’پڑھنے کا حوصلہ نہیں تو پڑھائی چھوڑدو۔‘‘ زوبی نے چاے انڈیلتے ہوئے فرمان جاری کیا۔
’’تم جیسی بہن سے تو اللہ بچاے۔‘‘ فراز نے پیچ و تاب کھاتے ہوئے جواب دیا۔ ’’اتنا نہیں ہوسکتا کہ بھائی کی تھوڑی مدد ہی کردو۔‘‘ فراز نے التجائیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
’’کر تو دوں لیکن اس کی فیس ہوگی۔‘‘ زوبی نے سنجیدگی سے کہا۔
’’دیکھو میں غریب آدمی ہوں، پھر بھی اگر تم نے یہ جرنل بنانے کی حامی بھرلی اور ایک ہفتے میں یہ مکمل کردیا تو تم جو مانگو گی وہ حاضر کردوں گا بس میری جیب کا خیال رکھنا۔‘‘
’’مجھے تو کھانا ہے ایک بڑا سا پیزا، لیکن اس کے ساتھ ایک کڑی شرط بھی ہے۔‘‘
’’اب وہ بھی بول ہی دو۔‘‘ فراز نے مری ہوئی آواز میں کہا۔
’’تمھیں ان سات دنوں میں میرا غلام بننا پڑے گا۔ میں جو حکم کروں گی اس کو بلا چوں چراں ماننا ہوگا بصورت دیگر میں جرنل نہیں بناؤں گی۔‘‘ زوبی نے بلیک میل کیا۔
’’ٹھیک ہے بہن صاحبہ آپ کی ہر شرط منظور ہے مگر کام میرا مکمل ہونا چاہیے وہ بھی احسن طریقے سے۔‘‘ فراز نے سر تسلیم خم کیا۔
’’تم ویسے اتنی اچھی تو کبھی نہیں تھیں۔‘‘ فراز نے انتہائی تشکر سے اسے دیکھا۔
’’اچھا اب باتیں نہ بناؤ پہلے مجھے ایک گلاس پانی پلاؤ۔‘‘ زوبی نے تحکمانہ لہجہ اختیار کیا۔
’’تم غالباً مجھ سے ایک سال چھوٹی ہو اور بڑوں سے پانی مانگنا بھلا کہاں کی شرافت ہے۔‘‘ فراز منمنایا۔
’’ٹھیک ہے خود ہی بناؤ یہ جرنل۔‘‘ زوبی نے جرنل اس کی طرف کھسکادیا۔
’’اچھا اچھا پیاری بہن ناراض نہ ہو میں ابھی چلا جاتا ہوں۔‘‘ فراز نے کھیل بگڑتا دیکھ کر فوراً حکم کی تعمیل کی۔
’’اچھا اب ایسا کرو سنک میں میری چاے کی پیالی رکھی ہے اسے دھو کر کیبنٹ میں رکھ دو اور ہاں ذرا صائمہ کے گھر جا کر میرا کیمسٹری کا رجسٹر بھی لے آؤ۔‘‘ زوبی نے کئی حکم دے ڈالے۔
’’یہ فاؤل ہے۔‘‘ فراز نے پیر زمین پر مارا۔
’’جاؤ بنوالو یہ جرنل کسی سے بھی۔‘‘ زوبی ہتھے سے اکھڑ گئی۔
’’اچھا اچھا کرتا ہوں بھئی ناراض کیوں ہوتی ہو۔‘‘ فراز نے موقع کی نزاکت سمجھتے ہوئے اسے چمکارا اور چاے کی پیالی دھونے باورچی خانے کی طرف بڑھ گیا۔
اگلی صبح فراز پر بہت بھاری تھی۔ سوکر اٹھتے ہی موبائل پر زوبی کا میسج منتظر تھا۔
’’فراز بھائی جلدی سے ایک کپ چاے میرے کمرے میں پہنچادو تمھاری سب سے مشکل ڈائیگرام تکمیل کے مرحلے میں ہے۔‘‘ 
فراز نے فوراً جواب دیا: ’’میں نے زندگی میں خود اپنے لیے چاے نہیں بنائی تو تم کیا چیز ہو۔‘‘ 
وہاں سے جواب آیا: ’’ٹھیک ہے اپنا جرنل واپس لے جاؤ۔‘‘ دھمکی بڑی جاندار تھی۔
’’اچھا اچھا بُرا نہ مانو میں کوشش کرتا ہوں۔‘‘ فراز نے حامی بھری اور کچن میں آگیا۔
’’امی چاے کیسے بناتے ہیں۔‘‘ امی ناشتہ بنانے میں مصروف تھیں۔
’’کیوں میرے بیٹے کو صبح صبح چاے کیسے یاد آگئی؟‘‘ امی نے پرتجسس نظروں سے اسے دیکھا۔
’’بھئی وہ بدتمیز زوبی کو دینی ہے وہ میرا جرنل بنارہی ہے اس لیے مجھے سات دن تک اس کی غلامی میں رہنا ہے۔‘‘ فراز نے سارا معاملہ امی کے گوش گزار کیا۔
’’اوہ‘‘ امی کی اوہ میں مسکراہٹ بھی تھی اور ترس بھی۔
’’امی آپ کو معلوم نہیں، وہ کتنی مشکل ڈائیگرامز ہیں۔ شومئی قسمت کہ آپ کی شہزادی کی ڈرائنگ اچھی ہے مگر وہ اتنی نک چڑھی اور سر چڑھی کیوں ہے اور تو اور اس کا دماغ کس قدر کاروباری ہے، سچ اگر جرنل کا معاملہ نہیں ہوتا تو میں اس کی چٹیا پکڑ کر اس قدر زور سے گھماتا کہ اسے نانی یاد آجاتیں۔‘‘ فراز نے غصے سے کیتلی چڑھائی چاے انڈیلی اور کپ لے کر اس کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
’’یہ لو!‘‘ انتہائی بیزارگی سے اس نے چاے کا کپ میز پر رکھا۔
’’کتنی بن گئی ہیں۔‘‘ فراز نے جرنل کی طرف دیکھا۔
’’فی الحال تو دو ہی بن پائی ہیں۔‘‘ زوبی نے کہا۔
’’یاد رکھنا، ہفتے کے دن مجھے جرنل مکمل چاہیے۔‘‘ فراز نے یاد دہانی کروائی۔
’’اور تم بھی یاد رکھنا کہ تم بھی سات دن تک میرے غلام ہو۔‘‘ زوبی نے فخر سے کہا۔
’’اچھا ذرا مجھے کرارے چپس لادو اور دو چار چیونگم بھی۔‘‘ زوبی نے مسکرا کر کہا۔
’’تو کیا میں تمھارا غلام ہوں؟‘‘ فراز نے غصے سے کہا۔
’’جی ہاں سات دن کے غلام، جاؤ شاباش جلدی کرو ورنہ یہ جرنل تو تم دیکھ ہی رہے ہو۔‘‘ زوبی کے لہجے میں سنجیدگی تھی۔
’’میں تمھیں کچا کھاجاؤں گا یا پکا۔‘‘ فراز سچ مچ غصے میں تھا اور زوبی مسکراتے ہوئے جرنل بنارہی تھی۔
کچھ ہی دیر بعد فراز نے اس کے آگے چیونگم اور چپس کے پیکیٹ لا کر رکھ دیے۔
’’اور ہاں آج کے دن کا شیڈول تو سنتے جاؤ۔‘‘
’’تو کیا ابھی کچھ اور بھی بدلے لینے ہیں۔‘‘ فراز نے بیزارگی سے کہا اور اس کے فرمان سننے لگا۔
’’گیارہ بجے تم مجھے حلوہ پوری کھلاؤ گے۔ اپنی پاکٹ منی سے۔ بارہ بجے میرے کمرے کے جالے جھاڑوگے کیوں کہ دیوار تک میرا ہاتھ نہیں جاتا ہے۔ پانچ بجے مجھے سیما کے گھر چھوڑ کر آؤ گے۔ سات بجے میری شاعری سنو گے بغیر منھ بنائے ہوئے۔ رات کے دس بجے تم آرام کرسکتے ہو۔‘‘
’’اور کچھ ، رات میں آپ کافی پینا پسند کریں گی؟‘‘ فراز نے جل بھن کر کہا۔ ’’ٹھیک ہے مجھے ساری شرطیں منظور ہیں لیکن شاعری والی شرط بہت مشکل ہے۔‘‘ فراز نے التجا کی۔
’’مگر میری بھی مجبوری ہے کوئی تو مجھے سنے ورنہ تم کب قابو میں آؤ گے۔‘‘ زوبی نے کہا اور جرنل بنانے چل دی۔
شام سات بجے فراز وعدے کے مطابق زوبی کے پاس موجود تھا۔
’’سناؤ۔‘‘ فراز بیزاری سے کرسی پر بیٹھ گیا اور موبائل پر ایک گیم ڈاؤن لوڈ کرنے لگا۔
’’شعر سن کر تمھیں داد بھی دینی پڑے گی۔‘‘ زوبی نے پھر حکم صادر کیا۔
’’اچھا اچھا تم شروع تو کرو۔‘‘ فراز نے کہا۔
زوبی کی شاعری سے زمانہ بدل گیا
موسم سنور گیا خطرہ چلا گیا
’’مطلب تم کہنا کیا چاہ رہی ہو۔‘‘ فراز نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کے بال نوچے، نہ مطلب نہ مقصد، نہ ردیف نہ قافیہ، تم شاعری چھوڑ کیوں نہیں دیتیں، تم مجھ پر اس قدر ظلم کیوں کررہی ہو، مجھ سے یہ ہضم ہی نہیں ہو پارہی اور خبردار دوسر شعر مت سنانا۔
’’ٹھیک ہے جرنل۔۔۔‘‘ زوبی نے ایک با رپھر دھمکی دی۔
’’اچھا بھئی سناؤ۔‘‘ فراز نے کہا۔
زوبی کی شاعری سے زمانہ بدل گیا
موسم سنور گیا اور خطرہ بھی ٹل گیا
’’کیا تم اسے بے تکے شعر کی تکرار کرکے مجھے پاگل کرتی رہوگی۔‘‘ فراز رو دینے کو تھا۔
’’دوسرے شعر کی آمد ہورہی ہے۔‘‘ لیکن پہلے شعر کی تم داد بھی تو نہیں دے رہے۔‘‘
’’اچھا اچھا واہ واہ مکرر مکرر۔‘‘ انتہائی مری ہوئی آواز میں فراز نے کہا اور جمائیاں لیتا ہوا بالآخر ایک گھنٹہ گزار ہی لیا۔
آج تیسرا دن تھا۔
’’فراز آج میرے ساتھ بازار چلنا ہے اور میرے کمرے کی جھاڑو بھی لگانی ہے اور ہاں میرا بنایا ہوا کیک خوب تعریف کرکے کھانا ہے۔
’’نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘ کسی بپھرے ہوئے ہیرو کی طرح فراز نے گردن ہلائی۔
’’میں سب کچھ برداشت کرلوں گا لیکن کیک نہیں کھاسکتا، میری بہن تم کیک نہیں پتھر بناتی ہو جو چھینی ہتھوڑے سے توڑنا پڑتا ہے اور تمھیں معلوم تو ہے میرے دانتوں میں درد ہے۔‘‘
’’پھر کون کھائے گا یہ کیک؟‘‘ زوبی نے ڈھٹائی سے کہا۔
’’تم بناتی کیوں ہو کیک بنانے کے تجربات تمھارے بس سے باہر ہیں۔‘‘
’’کیا کہا!‘‘ زوبی نے اسے گھورا اور اس کے آگے جرنل لہرایا۔
’’ اچھا اچھا کھالوں گا۔ کل تک شاعری کے زخم ہرے تھے آج کیک کا ظلم بھی سہہ لوں گا، مگر میری بہن جرنل ذرا اچھا بنانا۔‘‘
جرنل آدھا مکمل ہوچکا تھا فراز روز آکر دیکھتا۔ انتہائی نفیس ڈائیگرام دیکھ کر اس کا دل خوش ہوجاتا مگر زوبی کی زیادتیاں اب اس کے بس سے باہر ہورہی تھیں۔
امی ابو اس نئی صورتحال پر خوب محظوظ ہورہے تھے جبکہ زوبی تو گویا تختِ شاہی پر بیٹھی تھی۔
زوبی نے آج کے کاموں کی فہرست اسے تھمائی۔
میری کتابوں کی الماری جمانی ہے۔
الیکٹرک سوئچ بدلنا ہے۔
رس ملائی کھلانی ہے۔
کولڈڈرنگ پلانی ہے۔
ایک نئی نظم کی آمد ہوئی ہے اسے سننا ہے وہ بھی مکمل دلچسپی کے ساتھ۔
’’زوبی تم سے تو اللہ پوچھے گا کوئی اپنے بھائی کو اس قدر بھی تنگ کرتا ہے، فراز نے آخری لائن پڑھ کر اپنے دونوں گال تھپتھپائے اور منھ بسورتا ہوا کالج کے لیے نکل گیا۔
واپس آیا تو روبی کے کام یاد آگئے مگر تھکن اس قدر تھی کہ بستر سے اٹھا ہی نہیں جارہا تھا اور پھر خراب قسمت کہ اسے بخار نے جکڑ لیا۔
بخار شدت کا تھا۔ امی پریشان ہوگئیں، ابو کو فون کیا تو ابو سے مشاورت کے بعد دوا کھلائی، نتیجتاً کچھ دیر بعد بخار کی شدت تو کم ہوگئی لیکن کمزوری کے سبب وہ کچھ کرنے کے قابل نہ تھا۔
’’زوبی دو دن بعد مجھے جرنل جمع کروانا ہے تم کام تو کررہی ہو نا؟‘‘ فراز نے پوچھا۔
’’جب تم میرے کسی کام کو کرنے کے قابل نہیں تو میں کیوں کروں تمھارے کام۔‘‘ زوبی نے جھٹ سے کہا۔
’’مگر میں مجبور ہوں۔‘‘ فراز نے کراہتے ہوئے کروٹ لی۔
’’تو میں بھی مجبور ہوں۔‘‘ زوبی نے سرد مہری سے کہا۔
’’اس قدر سنگدل بہن میں نے کسی کی بھی نہیں دیکھی مروت تو نام کی بھی نہیں، دیکھ رہی ہو اس قدر طبیعت خراب ہے مگر تمھیں تو احساس ہی نہیں۔‘‘ فراز نے کہا۔
’’ٹھیک ہے نہیں بناؤ آئندہ سے میری اور تمھاری پکی والی لڑائی۔‘‘ فراز نے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں کہا۔
’’لاؤ دے دو میرا جرنل۔‘‘ فراز نے کہا اور دوسرے ہی لمحے زوبی نے جرنل لا کر اسے تھمادیا، جرنل آدھا مکمل تھا پچاس فیصد کام باقی تھا۔
’’دیکھا امی اپنی بے مروت بیٹی کو۔‘‘ فراز نے لیٹے لیٹے امی سے کہا اور دوائی کھا کر سو گیا۔
صبح اس کی طبیعت تھوڑی بحال تھی۔ آج کالج بھی جانا ضروری تھا۔ اس نے سوچا کالج جا کر خود تھوڑی بہت کوشش کرلوں گا یہ سوچتے ہوئے اس نے جرنل اٹھایا بیگ میں ڈالا اور کالج چل دیا۔
مگر ڈائیگرامز تو اس سے بن ہی نہیں پارہی تھیں دو تین بنائیں وہ بھی گزاراے لائق۔
گھر آیا تو کمزور کے سبب بخار نے پھر آن لیا اب کہ شدت اتنی تھی کہ آنکھ بھی نہیں کھولی جارہی تھی جرنل اس کے پاس ہی پڑا تھا۔ کل جمع کروانے کی آخری تاریخ تھی۔
پروفیسر انکسار صاحب کی شکل نظروں میں گھوم رہی تھی۔ کل کتنی سبکی ہوگی جب میں بھی نکمے طالب علموں کی قطار میں کھڑا ہوں گا، سب کتنا مذاق بنائیں گے اور سر کس قدر بے عزت کریں گے۔ یہی سوچتے ہوئے اس نے انگلیاں چٹخائیں اور سوگیا۔
صبح اٹھا تو جرنل کی پریشانی سر پر سوار تھی اسی لیے بے دلی سے تیار ہوا اور کتابیں سمیٹنے لگا۔
’’امی میرا جرنل کہاں گیا؟‘‘ وہ غصے سے دھاڑا۔
’’میں نے رات میں یہیں رکھا تھا۔‘‘ اس کا لہجہ تیز تھا۔
’’زوبی سے پوچھیں۔‘‘ فراز کی زوبی سے بات چیت بند تھی اسی لیے امی اس کے کمرے کی طرف گئیں۔ وہ بھی پیچھے پیچھے تھا۔
زوبی سفید کور جرنل پر چڑھا رہی تھی۔ نیند سے اس کی آنکھیں سرخ تھیں یقیناًپوری رات جاگ کر اس نے فراز کا جرنل مکمل کردیا تھا حتیٰ کہ آخری کام جرنل کا کور چڑھا کر وہ چپکے اسے اس کے کمرے کی طرف جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ امی اس کے کمرے میں آدھمکیں۔
فراز کی تو حیرانی ختم ہونے میں نہیں آرہی تھیں۔ نہ صرف جرنل مکمل تھا بلکہ انتہائی نفیس کام نے اس کا دل خوش کردیا تھا۔
زوبی بے پروائی سے جرنل اسے تھما کر بستر کے کونے پر ٹک گئی۔ فراز نے تشکر بھری نظروں سے اسے گھورا اور جرنل لے کر کالج روانہ ہوگیا، کچھ دیر بعد زوبی نے ایک پیغام وصول کیا۔
’’پیاری بہن زوبی!
میں اپنی حرکت پر انتہائی شرمندہ ہوں آئندہ سے میں تمھارا سات دن کا غلام نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کا غلام ہوں کیوں کہ مجھے اپنی پیاری بہن کے دل میں چھپے خلوص کی پہچان ہوگئی ہے۔‘‘
زوبی نے پیغام پڑھا اور اسے یوں لگا کہ جیسے قوس و قزح کے سارے رنگ اس کے کمرے میں بکھر گئے ہیں۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top