skip to Main Content

رُومال

اشتیا ق احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ ایک آدمی گھر سے دس سیر گھی لے کر نکلا۔ اُس نے دو تین بھینسیں پال رکھی تھیں۔ جب کچھ گھی جمع ہوجاتا تو وہ اسے کنستر میں ڈال کر بازار میں بیچ آتا۔ اس کا نام کریم تھا۔ وہ بہت ایمان دار آدمی تھا، اس نے کبھی گھی میں ملاوٹ نہیں کی تھی۔
اس روز وہ گھر سے نکلا تو جلد ہی ایک دکان دار نے اُسے آواز دی۔
”کنستر میں گھی ہے بھائی!“ اُس نے پوچھا۔
”ہاں خالص دیسی گھی۔“ کریم بولا۔
”ذرا دکھانا۔“
اُس نے کنستر دکان کے فرش پر رکھ دیا۔ دکان دار نے ڈھکنا اٹھا کر گھی کو سونگھا اور چکھ کر بھی دیکھا۔ پھر بولا۔
”گھی تو واقعی اچھا ہے۔ کیا بھاﺅ دو گے۔“
”دو روپے سیر۔“ کریم نے کہا۔
”بھائی دو روپے سیر تو ہم بیچ رہے ہیں۔ یوں کرو کہ پونے دو روپے سیر لگا لو، سارا خرید لوں گا۔“
”نہیں جی! میرا گھی دو روپے سیر بک جاتا ہے۔ میں اس سے کم نہیں دوں گا۔“
”اچھا خیر! دو روپے ہی سہی۔“ دکان دار گھی خریدنے پر تیار ہوگیا۔
اس نے گھی تولا، اپنے برتن میں انڈیلا، خالی کنستر کا وزن کیا اور حساب کر کے کریم کو بتایا کہ کل گھی بیس روپے کا بنا ہے۔
”ٹھیک ہے۔“ کریم بولا۔
دکان دار نے پانچ پانچ روپے کے چار نوٹ نکالے اور کریم کو پیسے دیتے ہوئے بولا:
”لو گن لو! پھر نہ کہنا کہ کم دیے ہیں۔“
کریم نے نوٹ گنے اوربولا:”بالکل ٹھیک ہیں بھائی!“ یہ کہہ کر اس نے نوٹ جیب میں رکھنا چاہے، لیکن دکان دار بول اٹھا:
”لاﺅ، میں انہیں رُومال میں باندھ دوں۔“ یہ کہتے وقت اُس نے ایک میلا سا رُومال اپنی جیب میں سے نکالا اور کریم کے نہیں نہیں کرنے کے باوجود نوٹ اس کے ہاتھ سے لے کر رُومال میں باندھ کر اسے دے دیے۔ کریم نے رُومال جیب میں رکھا، کنستر ہاتھ میں لٹکایا اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ گھر پہنچ کر اُس نے رُومال اپنے صندوق میں رکھ دیا۔ ابھی اُسے نوٹ تڑانے کی ضرورت نہیں تھی۔
چند دن بعد جب اُسے کچھ پیسوں کی ضرورت پڑی تو اس نے وہ رُومال نکالا اور اُسے کھولا۔ دوسرے ہی لمحے اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ رُومال میں نوٹوں کی جگہ ردّی کاغذ کے چند ٹکڑے تھے۔ ا س کی آنکھیں حیرت کے مارے کھلی کی کھلی رہ گئیں، رنگ فق ہوگیا۔ بیس روپے اس زمانے میں کوئی معمولی رقم نہیں تھی۔ وہ فوراً گھر سے باہر نکلا اور دکان دار کی طرف دوڑا۔ دکان دار وہاں پر موجود تھا۔ کریم نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
”بھائی اس رُومال میں سے تو ردّی کاغذ کے ٹکڑے نکلے ہیں۔“
”کیا؟ کیسا رُومال اور کیسے کاغذ؟“ دکان دار نے حیران ہو کر کہا۔
”ارے تم بھول بھی گئے۔ میں چند دن پہلے دس سیر گھی تمہارے ہاتھوں بیچ کر گیا تھا۔ تم نے پانچ پانچ کے چار نوٹ اپنے رُومال میں باندھ کر مجھے دیے تھے۔“
”ارے ہاں! مجھے یاد آگیا۔ تم نے کیا کہا تھا۔ اس رُومال میں سے کاغذ کے ٹکڑے نکلے ہیں۔“
”ہاں تم نے میرے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ میں غریب آدمی ہوں۔ میرے پیسے مجھے دے دو۔“
”کیا بات کرتے ہو۔ میں نے تو نوٹ تمہارے سامنے رُومال میں باندھے تھے، کیا نہیں باندھے تھے؟“
”ہاں! یہ ٹھیک ہے، لیکن پھر رُومال میں سے کاغذ کے ٹکڑے کیوں نکلے۔“ کریم نے کہا۔
”اب میں کیا جانوں۔ ہوسکتا ہے، تم مجھ سے دوبارہ پیسے وصول کرنے کے لیے جھوٹ بول رہے ہو۔“
”بھائی! خدا سے ڈرو۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟“
”میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔“
جھگڑا بڑھتا گیا… وہاں کچھ لوگ اکٹھے ہوگئے… آخر ایک آدمی نے گھی والے کو مشورہ دیا کہ اُسے قاضی کی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے۔ اچھے زمانے تھے۔ قاضی نے کریم کا بیان بہت غور سے سنا۔ آخر میں اس سے سوال کیا:
”جب تم نوٹ جیب میں رکھنے لگے تو کیا دکان دار نے خود پیسے رُومال میں باندھ کر دینے کے لیے تم سے کہا تھا۔“
”جی ہاں! میں نے کہا بھی تھا کہ اس کی کیا ضرورت ہے، لیکن وہ نہ مانا اور آخر رُومال میں باندھ کر مجھے کاغذ دے دیے۔“
”بہت خوب! سپاہیو! اس غریب آدمی کو ساتھ لے جاﺅ اور دکان دار کو پکڑ کر لے آﺅ۔“
تھوڑی ہی دیر بعد دکان دار بھی عدالت میں حاضر ہوگیا۔ قاضی نے اُسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا:
”اس گھی والے نے تمہارے خلاف دعویٰ کیا ہے، لیکن میر ا خیال ہے کہ بے ایمانی تم نے نہیں کی۔ اس کے ساتھ دھوکا کسی اور نے کیا ہے۔ اس شخص نے وہ رُومال بھی ہمیں دکھایا ہے۔ یہ رُومال مجھے بہت پسند آیا ہے۔ میں گھی والے سے یہ رُومال بیس روپے کا خرید رہا ہوں۔ اگر تمہارے پاس اس قسم کا کوئی اور رُومال ہو تو میں وہ بھی بیس روپے کا خریدنے کو تیار ہوں۔ کیا تمہارے پاس کوئی اس قسم کا رُومال اور ہے؟“
”جی ہاں! بالکل ایسا ہی ایک رُومال اور ہے۔“ دکان دار نے خوش ہو کر کہا۔
”تو وہ لے آﺅ… میں اسی وقت تمہیں اس کے بیس روپے ادا کردوں گا۔“
دکان دار خوش ہوگیا۔ وہ اپنی دکان کی طرف دوڑا۔ قاضی نے کریم کو ایک طرف بیٹھ جانے کا اشارہ کیا اور خود دوسرے مقدمے سننے لگا۔ کریم بہت حیران تھا کہ یہ کیسا فیصلہ ہے۔ قاضی صاحب تو رُومال خریدنے لگے۔ انہیں رُومالوں کی ایسی کیا ضرورت آپڑی اور پھر یہ رُومال تو بالکل معمولی ہیں۔ شاید بازار سے ایک ایک آنے کے مل جاتے ہوں گے۔
کچھ دیر بعد دکان دار پھر عدالت میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں دوسرا رُومال تھا۔ قاضی نے رُومال اس سے لے کر دیکھا۔ دونوں رُومال ایک جیسے تھے۔ اس نے فوراً حکم دیا:
”دکان دار کو گرفتار کر لیا جائے۔“
سب حیران رہ گئے۔ کہاں تو قاضی صاحب اس دکان دار سے اور کریم سے رُومال خرید رہے تھے، کہاں وہ اس کی گرفتاری کا حکم دے رہے تھے۔ لوگوں کو حیران دیکھ کر قاضی صاحب مسکرا کر بولے۔
”حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس دکان دار کے پاس اس قسم کا دوسرا رُومال ہے یا نہیں؟ دراصل اُس نے کیا یہ تھا کہ ایک رُومال میں پہلے ہی ردّی کاغذ کے ٹکڑے باندھ کر رکھے ہوئے تھے۔ اس نے دوسرے رُومال میں نوٹ گھی والے کے سامنے باندھے، لیکن جو رُومال اسے دیا ، وہ ردّی کاغذ والا تھا۔“
یہ کہہ کر قاضی نے سپاہیوں کوحکم دیا:
”اس دکان دار کو چھ ماہ قید کی سزا دی جاتی ہے اور اس گھی والے کو اس کی دکان میں سے بیس روپے نکال کر دیے جائیں۔“
لوگ قاضی صاحب کی عقل مندی پر عش عش کر اٹھے اور کریم انہیں دعائیں دیتا ہوا خوش خوش اپنے گھر آگیا۔
٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top