skip to Main Content

روٹی کی بارات

عصمت چغتائی
۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تھی روٹی،گول مٹول….پیاری سی،جیسی کہ ہمارے دستر خوان پر ہوا کرتی ہے۔پھولی ہوئی،دونوں ورق الگ الگ،لال لال چتیّوں دار۔اسے چتیّوں پر بہت ناز تھا۔اسے اپنے باورچی سے بہت پیار تھا۔وہ بڑے چاؤ سے آٹا گوندھتا،چکنا گول پیڑا بناتا،پھر ہولے ہولے اسے چکلے پر پھیلا کر تھپتھپاتا اور ہتھیلیوں کے جھولے پر جھلا کر توے کی پیٹھ پر پھسلا دیتا۔جب روٹی پھول کر کپا ہوجاتی تو جھپاک سے اسے رنگ برنگی گھاس کی بنی ہوئی ٹوکری میں ڈال دیتا۔
مگر روٹی بڑی اداس رہا کرتی۔جس دسترخوان پر وہ جاتی،وہاں اس کی کچھ زیادہ قدر نہ ہوتی۔اس دسترخوان پر بڑے بڑے ٹھسے کے لوگ ڈٹے ہوتے ۔قورمہ،متنجن،کوفتے،کباب وغیرہ،خاص طور پر نک چڑھی بی فرنی سے تو بے چاری روٹی کا دم نکلتا تھا۔پستے ،بادام اور چاندی کے ورقوں کا جگمگاتا جوڑا پہنے، کیوڑہ میں بسی بی فرنی کسی کو خاطر ہی نہیں لاتی تھیں۔انہیں تو روٹی نگوڑی سے ایسی نفرت تھی جیسے وہ کوئی نیچ ہو۔
اس کے علاوہ اچار چٹنیاں،مربے وغیرہ تو یہ سمجھتے تھے،کہ روٹی کوئی فقیرنی ہے جس کی ان کے بغیر گزر ہی نہیں ہو سکتی۔آم کے مربے سے اگر روٹی کا دامن چھل جاتا تو وہ چراغ پا ہو جاتا۔اسے تو بس چاندی کے چمچہ کی خوب صورت ڈولی میں ٹھمکنا پسند تھا ۔
مالک کے دسترخوان پر روٹی کی بڑی سبکی ہوتی۔وہ مرغن کھانوں کے آگے اسے پوچھتا بھی نہ تھا کہ بی روٹی تمہارے منہ میں کَے دانت ہیں۔ویسے خود اس کے اپنے دانت مربے اور حلوے کھاتے کھاتے پھپھوند گئے تھے۔سب ڈگر ڈگر ہلاکرتے تھے۔ان ہلتے ہوئے دانتوں کے نیچے دب کر روٹی کو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی اس کا بدن کانٹوں میں گھسیٹ رہا ہے۔اسے تو باورچی کی بنّو کے دودھ کے دانت بڑے پسند تھے۔ ان ننھے ننھے دانتوں کے نیچے اسے بڑا آنند ملتا تھا۔
دسترخوان پر وہ پڑی پڑی سوکھا کرتی۔کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ مالک ایک نوالہ بھی نہ توڑتا،بس اپنے موٹے ہاتھ پونچھ کر اسے ایک طرف ڈال دیا کرتا۔
یوں میلی کچیلی جھوٹی روٹی کوڑے کرکٹ کے ڈبے میں پڑی رہتی،جہاں مکھیاں اور بڑے بڑے چیونٹے اس کا کلیجہ چھلنی کر دیتے۔
پیٹ میں جاکر تو اس کا اور بھی ناک میں دم ہو جاتا۔وہ بھیڑ ہوتی کہ اللہ توبہ۔ایک طرف میاں پلاؤ پھولے بیٹھے ہیں،تو دوسری طرف متنجن کے مزاج بھی نہیں ملتے۔ قورمہ اپنی ہی دھن میں مست،کوفتے اپنی اکڑ میں اینٹھے ہوئے۔گھی مصالحہ کی کیچڑ،لہسن دھنیا کی بساند،جائفل جاوتری کے بھبکے اور اوپر سے بی فرنی کے نو سو نخرے۔حالاں کہ پیٹ میں پہنچ کر سارا رنگ روپ لٹ جاتا۔چاندی کے ورق کا شاہانہ جوڑا سرمہ بن جاتا۔ادھ چبے پستے بادام پسلیوں میں چبھتے مگر وہ سب سے الگ تھلگ ناک اچکاتی رہتیں۔آم کے اچار اور دہی کے رائتے سے تو بی فرنی کے پر جلتے تھے۔گنواروں کی طرح یہ دونوں کوفتوں اور بوٹی کباب کے ساتھ مل کر بی فرنی کا ناطقہ بند کر دیتے۔
جب کبھی بھیڑ بہت بڑھ جاتی تو آپس میں جوتم پیزار شروع ہوجاتی۔وہ گھمسان مچتی کہ الٰہی توبہ۔پلاؤ قورمے کے کہنی مارتا، کوفتے، مگہارے بینگن کے ٹیپیں لگانے لگتے۔متنجن قلیہ کے گھونسہ جماتا۔ قلیہ بی فرنی کے نقوں میں تیر ڈالتا۔بس پھر شروع ہوجاتی لپاڈگی۔
مالک اپنا پیٹ پکڑ کر خوب دھمادھم کودتا۔اس کے پیٹ میں ایسا معلوم ہوتا،جیسے کہ ہاتھی باکسنگ کررہے ہیں۔
جب بات میاں معدے کے قابو سے باہر ہو جاتی تو وہ آہ و زاری شروع کردیتے کہ خدا کی پناہ۔پھر مالک سوڈا بائی کاربالک یا فروٹ سالٹ کی کمک بھیجتا۔ جونہی فروٹ سالٹ کے اکھڑ سپاہی ڈنڈا گھماتے ٹیئر گیس چھوڑتے دندناتے سب کے حواس گم ہوجاتے۔ جوتے کھا کر سب کے سب پست ہوجاتے۔
یہ دھما چوکڑی تو آئے دن ہی مچی رہتی تھی۔کیوں کہ مالک کھاتا بہت تھا۔
اس آئے دن کی پولیس ریڈ سے بے چاری روٹی کا تو ناک میں دم تھا۔
اس کا جی چاہتا کہ باورچی سے کہے”اللہ! مجھے بنّو کے لئے لے چلو،میں اس مارا ماری سے تنگ آ گئی ہوں۔بنو اپنے منے منے ہاتھوں سے نوالے بنائے گی میری زندگی آسان ہو جائے گی۔ میں اس کے پیٹ میں فروٹ سالٹ کے ڈنڈے تو نہیں کھاؤں گی۔مزے سے میں بنّو کے پیار بھرے معدے میں اس کی رگوں کے لئے خون بہاؤں گی،اور اس کی نرم و نازک ہڈیوں کو مضبوط کروں گی۔
ننھی بنو جب بڑی ہو جائے گی۔مہندی لگے ہاتھوں میں جھولا جھلا کر توے کی پیٹھ پر چڑھا دے گی مجھے!وہاں میں غرور سے پھول کر کپا ہو جاؤ ں گی۔وہ مجھے اپنے بچوں کے ہاتھوں میں تھما دے گی۔ وہاں آلو کی مزے دار ترکاری ہوگی اور میں، ہرے دھنیا کی چٹنی بھی بڑی خوش مزاج ہوتی ہے۔ہمارا خوب نباہ ہوگا۔“
اور ایک دن روٹی نے ایسی ترکیب لڑائی کہ وہ باورچی کی جیب میں بیٹھ گئی اچک کے۔مگر اسے نہیں معلوم تھا کہ باہر پھاٹک پر پہرے دار باورچی کی تلاشی لیتا ہے اور اگر جیب سے روٹی نکلے تو مار پڑتی ہے۔
باورچی کو مار بھی پڑی،اور نوکری بھی گئی اور اس مار پیٹ میں روٹی ریت پر گر گئی۔چوکیدار کے بھاری بوٹ نے اس کا پیٹ پھاڑ دیا اور وہ وہاں خاک اور دھول میں لتھڑی پڑی سسکیاں بھرتی رہی۔پھر مہتر نے سینکوں والی جھاڑو سے اسے جھاڑ کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔جہاں وہ سڑے ہوئے آم کے چھلکوں اور باسی بدمزاج اڑد کی دال کے ساتھ پڑی سڑتی رہی۔
اور ننھی سی بنّو روٹی کے انتظار میں تھک کر روتے روتے سو گئی۔خواب میں اس نے دیکھا روٹی کی بارات جا رہی ہے۔ گلاب جامنیں سہاگ گارہی ہیں،رس گلے تاشے بجا رہے ہیں،بالو شاہی نرت بہاؤ کر رہی ہے۔نیبو مجیرے بجا رہے ہیں اور دھنیا کی چٹنی دلہن کو سجا رہی ہے۔ روٹی سولہ سنگھار کیے پیتل کی تھالی میں بیٹھی ہے۔سرخ سرخ چتّیاں جگمگا رہی ہیں اور روٹی دور دیس کو جا رہی ہے۔ اپنے پیا کے دیس میں۔
مگر بنوں نہیں جانتی کہ بعض خواب الٹے ہوتے ہیں،یہ روٹی کی بارات نہیں اس کی میت ہے،جو گہوارے پر پڑی بھنک رہی ہے۔جہاں آم کے سڑاندے چھلکے اس کا مذاق اڑا رہے ہیں،اور اڑد کی بوڑھی بدبودار دال زہریلی ہنسی ہنس رہی ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top