skip to Main Content

روشنی

راحیل یوسف

۔۔۔۔۔۔۔۔

’’کہاں مرے ہوئے تھے اتنی دیر سے؟ تمہارے انتظار میں سوکھ کر کانٹا ہوگیا ہوں‘‘۔ راشد نے علی کی شکل دیکھتے ہی کہا۔
’’ارے یار وہ دراصل ابو کمرے میں آگئے تھے ان کے سامنے وہ کتاب نکالتا تو میری ہڈیوں کا سرمہ بن چکا ہوتا‘‘۔
علی نے ہانپتے ہوئے جواب دیا۔
’’اچھا چلو اب ذرا جلدی سے کتاب کی شکل دکھاؤ‘‘۔ راشد نے بے چینی سے کہا۔
’’یہ لو‘‘۔ علی نے وہ کتاب اس کی طرف بڑھائی جس کے سرورق پر بہت سے دائرے بنے تھے اور اوپر تحریر تھا ’’ہیپناٹائزم سیکھیے‘‘۔
’’واہ یار! یہ تو بڑے کام کی کتاب لگتی ہے۔ لیکن تمہیں یہ ملی کہاں سے؟‘‘ راشد نے کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے سوال کیا۔
’’بس یار۔۔۔ کیا بتاؤں۔۔۔ اسے حاصل کرنے کے لئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے اتوار بازار کے ہر ٹھیلے کو چھانا تب جاکر یہ ہاتھ لگی اور تو اور اس ٹھیلے والے کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ مجھے اس کتاب کی کتنی شدید ضرورت ہے اس لئے اس نے مجھ سے سو روپے اینٹھ لئے‘‘۔
’’تمہیں یقین ہے کہ اب ہم ایک ہی رات میں ہیپناٹائزم سیکھ جائیں گے‘‘۔ راشد نے قدرے بے یقینی سے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔ ہاں، دیکھو اس کی مشق میں صاف صاف لکھا ہے کہ اگر کوئی بارہ موم بتیاں جلا کر مسلسل ایک گھنٹے تک ان کے شعلے کو دیکھتا رہے تو اس کی آنکھوں میں وہ طاقت آجائے گی جس کے ذریعے وہ کسی کو بھی اپنا غلام بنا سکتا ہے‘‘۔ علی نے اس کو اطمینان دلایا۔
’’علی!۔۔۔ کاش یہ کتاب پچھلے سال ہمارے ہاتھ لگ جاتی تو ہم ساتویں میں ترقی پاس نہ ہوتے، بلکہ پورے اسکول میں ٹاپ کرتے۔ خیر کوئی بات نہیں جب نہ سہی اب سہی‘‘۔
’’بس کل پیپر سے پہلے میں سر کی آنکھوں میں دیکھ کر انہیں ہیپناٹائز کردوں گا، پھر ہم خوب دھڑلے سے نقل کریں گے اور ۔۔۔ اور پھر ہمیں ٹاپ کرنے سے کوئی نہیں روک پائے گا‘‘۔
علی نے کہا اور وہ دونوں کتاب میں درج مشق کرنے کی تیاری کرنے لگے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
علی اور راشد ہم جماعت ہی نہیں، بلکہ ہم محلہ بھی تھے۔ دونوں ویسے تو خاصے ذہین تھے، لیکن وہ اپنے دماغ کا استعمال پڑھائی میں ذرا کم ہی کرتے تھے۔ سارا سال اپنا وقت صرف کھیل کود اور شرارتوں میں برباد کرتے۔ ان کے گھر والوں اور اسکول کے اساتذہ نے انہیں بہت سمجھایا کہ کھیل کے ساتھ پڑھائی بھی ضروری ہے، مگر انہوں نے ان کی ہر کہی ان سنی کردی۔ اب امتحانات کے دوران بھی ان کی توجہ پڑھائی کے بجائے اُلٹے سیدھے علوم کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کی جانب تھی۔
اگلی صبح جب وہ اسکول پہنچے تو ان کی آنکھیں مسلسل موم بتی کا شعلہ دیکھنے کی وجہ سے سرخ ہورہی تھیں۔ ابھی پرچہ شروع ہونے میں کچھ دیر باقی تھی کہ کلاس میں موجود سر عامر کی نظر علی کی آنکھوں پر پڑی۔
’’علی! تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے؟ ساری رات ٹی وی دیکھ رہے تھے؟‘‘ انہوں نے علی کو ڈپٹ کر پوچھا۔
’’نہیں سر! دراصل میں رات بھر امتحان کی تیاری کررہا تھا‘‘۔
علی نے سر کی آنکھوں میں بغور دیکھ کر جواب دیا۔
’’اگر، شروع سال سے پڑھائی کرلیتے تو اتنی تکلیف اُٹھانے کی ضرورت نہیں پڑتی‘‘۔ انہوں نے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔
اُدھر علی کے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ پڑے اور اس نے قریب بیٹھے راشد سے سرگوشی کی ’’لو میں خواہ مخواہ ہی پریشان ہورہا تھا یہاں تو سر نے خود ہی میری آنکھوں میں جھانک لیا‘‘۔
راشد کے چہرے پر بھی خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ 
پرچہ شروع ہوتے ہی دونوں دوستوں نے اپنے کارتوس نکالے اور بے دھڑک نقل کرنے لگے۔ ایک گھنٹہ گزر گیا، چونکہ وہ کلاس کے درمیان میں بیٹھے تھے اس لئے اب تک سر کی نظر ان پر نہیں پڑی تھی۔ لیکن بکرے کی ماں آخر کب تک خیر مناتی۔
اچانک سر عامر کی آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی۔
’’علی اور راشد! غضب خدا کا تم لوگ اتنے دھڑلے سے نقل کررہے ہو۔ شرم کرو بے شرمو! لاؤ اپنی کاپیاں اور باہر نکل جاؤ‘‘۔ سر نے انہیں زور سے جھاڑا۔
’’سر پلیز سر! ہمیں معاف کردیں، اب ایسا نہیں ہوگا۔ ایک مرتبہ۔۔۔ صرف ایک مرتبہ ہمیں معاف کردیں‘‘۔ وہ دونوں گڑگڑائے۔
’’جاتے ہو یا پرنسپل صاحب کو بلاؤں‘‘۔ سر عامر نے ان کی ساری التجائیں ان سنی کردیں اور وہ دونوں بے چارگی سے اُٹھ کر باہر آگئے۔ ان کے پیچھے پوری کلاس کی طنزیہ نگاہیں اُن کا تعاقب کررہی تھیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
رات کو جب علی راشد کے گھر اس کے کمرے میں داخل ہوا تو وہاں کا منظر دیکھ کر اس کی آنکھیں مارے حیرت کے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ راشد کتاب کھولے بڑے انہماک سے پڑھائی میں مگن تھا۔
’’ارے یار، میں تمہارے لئے کیا بڑھیا نسخہ لے کر آرہا ہوں اور تم یہاں ان کتابوں میں مغز کھپا رہے ہو‘‘۔ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’بس رہنے دو۔۔۔ تمہارے پچھلے نسخے نے نہ صرف ہمیں ایک پیپر میں فیل بلکہ پوری کلاس میں بے عزت بھی کردیا ہے۔ اب جو رہی سہی عزت رہ گئی ہے اس کو تو بچالو‘‘۔ راشد نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے۔
’’ارے اب ایسا نہیں ہے۔۔۔ یہ دیکھو‘‘۔ اس نے راشد کو چمکارا اور ایک بوسیدہ سا صفحہ اس کے آگے کردیا۔ ’’پڑھو، پڑھو اس پر کیا لکھا ہے‘‘۔
’’روحوں کو تسخیر کیجئے۔۔۔؟ یہ کیا ہے؟‘‘ راشد کو بھی اب ذرا سی دلچسپی پیدا ہونے لگی۔
’’ارے یہ ایک منتر ہے آزمایا ہوا۔۔۔ اس کے ذریعے روح کو بلوا کر اپنے کام کروائے جاسکتے ہیں۔ ہم روح بلوا کر اس کے ذریعے اگلے پیپر کے سوالات معلوم کرلیں گے‘‘۔ علی نے مزید وضاحت کی۔
’’اس کی کیا ضمانت ہے کہ یہ اصل منتر ہے۔۔۔ تمہارا پہلا منصوبہ تو بری طرح ناکام ہوگیا تھا‘‘۔ راشد کوئی خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہ تھا۔
’’بھئی میں یہ منتر۔۔۔ پراسرار علوم کے ماہر پروفیسر جگن سے لے کر آرہا ہوں۔ وہ بھی پورے ہزار روپے میں۔ ارے اسے حاصل کرنے کے لئے تو میں نے اپنی پوری پونجی داؤ پر لگادی ہے‘‘۔ علی نے اس کے سامنے تفصیل رکھی۔
’’لیکن تم پچھلی بار بھی اتنے ہی پُراُمید تھے‘‘۔ راشد کے شکوک ابھی تک دور نہیں ہوئے تھے۔
’’پچھلیے بار کو گولی مارو۔ اب تو میں پروفیسر جگن کے ڈیرے پر ان لوگوں سے مل کر آرہا ہوں جو اس منتر کو آزما کر کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ بھئی خود سوچو ان لوگوں کو کیا پڑی جو بلاوجہ پروفیسر کی طرف داری کریں‘‘۔ علی نے اسے مطمئن کرنے کی مزید کوشش کی۔
’’دکھاؤ، ذرا میں بھی دیکھوں یہ منتر‘‘۔
اب راشد پوری طرح اس کی باتوں کے جال میں پھنس چکا تھا۔
’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ ابھی نہیں! پروفیسر جگن نے سختی سے ہدایت کی ہے کہ یہ منتر آدھی رات کو کمرے میں اندھیرا کرکے موم بتی کی روشنی میں پڑھا جائے، ورنہ یہ جلالی منتر ہے، پڑھنے والے پر اُلٹا اثر بھی کرسکتا ہے‘‘۔ علی اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا اور پھر وہ دونوں رات ڈھلنے کا انتظار کرنے لگے۔
خدا خدا کرکے گھڑی نے بارہ بجائے اور وہ دونوں کمرے میں اندھیرا کرکے موم بتی کی روشنی میں منتر پڑھنے لگے۔
’’یار علی! یہ منتر کچھ زیادہ ہی بڑا نہیں‘‘۔ راشد نے قدرے بے زاری سے کہا۔
’’چپ احمق سب ضائع کردیا۔ منتر کے بیچ میں کچھ نہیں بولنا تھا۔ اب اسے دوبارہ شروع کرنا پڑے گا‘‘۔ علی نے اسے جھڑکا اور وہ ایک بار پھر آغاز سے منتر پڑھنے لگے۔ اس دفعہ پورے منتر کے دوران انہوں نے آپس میں کوئی بات چیت نہیں کی۔ منتر ختم ہوچکا تھا اور ان دونوں کی آنکھیں روح کی راہ تک رہی تھیں۔
’’یار مجھے تو یہ منتر بھی فراڈ ہی لگتا ہے‘‘۔ راشد نے قدرے مایوسی سے کہا۔
’’نہیں نہیں! ایسا نہیں ہوسکتا‘‘۔ علی ابھی تک پُراُمید تھا۔
اچانک کمرے میں روشنی کا جھپاکا ہوا اور ایک پراسرار سی روشنی ہر طرف پھیل گئی۔ خوف کی ایک لہر ان دونوں کے جسم میں دوڑ گئی اور وہ ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ اسی وقت کمرے میں ایک دھندلا سا ہیولا نمودار ہوگیا۔۔۔
’’کک۔۔۔کک۔۔۔ کک کون؟‘‘ علی کی خوف کے مارے گھگھی بندھ گئی۔
’’میں۔۔۔ روح ۔۔۔ ہوں‘‘۔ ہیولے سے بھاری مردانہ آواز برآمد ہوئی۔
’’اچھی روح۔۔۔ ہمارا ایک کام کردو‘‘۔ علی خوف پر قابو پاتے ہوئے گویا ہوا۔
’’بولو‘‘۔
’’ہمیں انگلش کے پیپر میں آنے والے تمام سوالات بتادو‘‘۔ علی نے مدعا بیان کیا۔
’’کیا مطلب۔۔۔؟ تم لوگوں نے امتحان کی تیاری نہیں کی ہے‘‘۔ اس کے لہجے میں حیرت تھی۔ اب اس کے خدوخال بھی قدرے واضح ہوگئے تھے۔ وہ سیاہ چمکدار لباس میں ملبوس لمبے قد کا مالک تھا۔
’’ارے تیاری کرنی ہوتی تو پروفیسر جگن کو اتنے پیسے دے کر منتر خریدنے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔ علی جھنجھلا کر بولا۔
’’پہلی بات تو یہ ہے کہ میں کسی پروفیسر کے منتر پر نہیں آیا۔۔۔ دوسرا مجھے سخت حیرت ہے کہ تم جیسے ہونہار بچے بجائے پڑھ لکھ کر اپنے وطن کی خدمت کرنے کے اُلٹے سیدھے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ اس نے افسردہ لہجے میں کہا۔
’’یار مجھے تو لگتا ہے کہ تم نے منتر پڑھنے میں کچھ گڑبڑ کردی ہے‘‘۔ راشد نے علی کو ٹہوکا دے کر سرگوشی کی۔
’’آپ اگر ہمارا کام نہیں کرسکتے تو بہانے نہیں بنائیے‘‘۔ علی کو غصہ آگیا۔
’’غصہ نہ کرو۔۔۔ بلکہ اپنے گریبان میں جھانکو۔۔۔ میں نے قیام پاکستان کے بعد تم ہی جیسے طلبہ سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ تعلیم ہماری زندگی اور موت کا معاملہ ہے، اگر ہم نے بحیثیت قوم اپنے آپ کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ کیا تو ہمارا دنیا میں کوئی مقام نہ ہوگا‘‘۔
’’آپ نے۔۔۔ یہ تو قائداعظم کے الفاظ ہیں۔۔۔ آپ قائداعظم۔۔۔
وہ دونوں اُلجھ سے گئے۔ پھر موم بتی کی مدہم روشنی میں انہیں سامنے کھڑے شخص کا چہرہ دکھائی دینے لگا۔
’’یہ تو واقعی قائداعظم ہیں۔۔۔ پاکستان کے بانی!‘‘
وہ دونوں چیخ پڑے۔
’’ہمیں معاف کردیجئے قائداعظم۔۔۔ ہم غافل ہوگئے تھے‘‘۔ وہ دونوں گڑگڑائے۔
’’معاف تو میں کردوں گا مگر ایک شرط پر‘‘۔
وہ کیا۔۔۔؟‘‘
’’ویہ یہ کہ تم دونوں کو مجھ سے وعدہ کرنا پڑے گا کہ آئندہ دل لگا کر پڑھوگے اور اتحاد، تنظیم و یقین محکم کے زریں اصولوں کو اپنا کر ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کروگے۔ بولو کرتے ہو یہ وعدہ‘‘۔
’’ہاں۔۔۔ ہم وعدہ کرتے ہیں‘‘۔ وہ ہم آواز ہوکر بولے۔
اس کے ساتھ ہی ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا اور موم بتی بجھ گئی۔ جب راشد نے لائٹ جلا کر کمرہ روشن کی تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ دونوں کی آنکھیں خمار آلود تھیں، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ گہری نیند سے بیدار ہوئے ہوں۔
’’کہیں ہم نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا؟‘‘ راشد نے علی سے پوچھا۔
’’معلوم نہیں، لیکن مجھے یہ ضرور پتا ہے کہ اب ہم جاگ چکے ہیں‘‘۔
علی نے پُرعزم انداز میں کہا۔
’’راشد کتابیں نکالو۔ پیپر میں ابھی دو دن ہیں، انشاء اللہ ہم تیاری پوری کرلیں گے‘‘۔ پھر اس کمرے میں ایک روشنی اور بکھرنے لگی۔۔۔ علم کی شمع کی روشنی۔۔۔!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top