skip to Main Content
روشنی کا سفر

روشنی کا سفر

فریال یاور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام صاحب یہ سارا منظر بڑے صبر سے دیکھ رہے تھے اور لڑکوں کی نماز ختم ہونے کا انتظار کررہے تھے مگر ان کا غصہ آسمان تک جا پہنچا تھا۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام مسجد نے اذان ظہر سے کچھ دیر پہلے، مسجد کی چٹائیاں درست کیں اور پھر صحن میں بنی چھوٹی ٹنکی کی طرف چلے کہ وضو کرکے نماز کی تیاری کریں مگر یہ کیا۔۔۔ نل کھولتے ہی وہ حیرت میں ڈوب گئے۔ ٹنکی بالکل خالی تھی۔ بہرحال انہوں نے جلدی سے ایک بالٹی پانی کنویں سے بھر کر نمازیوں کے وضو کا بندوبست کیا۔ ٹنکی کا خالی ہونا امام صاحب نے ایک اتفاق سمجھ کر نظر انداز کر دیا ،مگر دوسرے دن پھر یہی واقعہ پیش آیا تو امام صاحب کی حیرت کی جگہ غصے نے لے لی۔ انہیں غصہ ان لڑکوں پر آرہا تھا جو صبح امام صاحب کے حکم پر پانی بھرتے تھے۔
’’دیکھو تو ذرا سامنے اتنے باادب اور تمیز دار بنتے ہیں اور مجھ سے اتنا بڑا دھوکہ کہ پانی کی ٹنکی نہیں بھری، کل خبر لوں گا۔ مگر نہیں پانی تو انہوں نے میری نظروں کے سامنے ہی بھرا تھا۔ پھر بھلا دھوکہ کیسے؟‘‘ امام صاحب نے خود ہی اپنے دل میں آئے شک کو ختم کیا۔
امام صاحب کا معمول تھا کہ نماز فجر کے بعد لڑکوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتے اور فارغ ہونے کے بعد لڑکے محلے کے کنویں سے پانی لا کر مسجد کی ٹنکی نمازیوں کے وضو کے لیے بھرتے تھے۔ اگلے دن جب لڑکے قرآن پاک پڑھ کر فارغ ہوئے تو انہوں نے کنویں سے پانی لا کر مسجد کی ٹنکی بھری۔ کچھ دیر بعد امام صاحب نے خود جا کر ٹنکی کا ڈھکن اٹھا کر ٹنکی بھرنے کا اطمینان کیا۔ مگر ظہر سے پہلے ٹنکی حسب معمول خالی ملی۔ اب تو امام صاحب کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ صبح ان کی نظروں کے سامنے بھری جانے والی ٹنکی نماز سے پہلے ہی کس طرح خالی ہوجاتی ہے۔ بالآخر امام صاحب نے معاملے کی تہہ تک پہنچ جانے کی ٹھان لی۔
آج جب ظہر کی اذان سے ذرا پہلے مسجد سے اذان کی آواز سنائی دی تو امام صاحب فوراً مسجد کی جانب روانہ ہوئے۔ مسجد پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ لڑکوں نے وضو کیا۔ چار پانچ صفیں بنائیں۔ نماز کے لیے کھڑے ہیں۔ ان میں سے ایک لڑکا امامت کے لیے آگے بڑھتا ہے اور تمام لڑکوں کو نماز پڑھا رہا ہے۔ امام صاحب یہ سارا منظر بڑے صبر سے دیکھ رہے تھے اور لڑکوں کی نماز ختم ہونے کا انتظار کررہے تھے مگر ان کا غصہ آسمان تک جا پہنچا تھا۔ نماز ختم ہوتے ہی انہوں نے لڑکوں کو بازؤں سے پکڑ پکڑ کر مسجد سے باہر نکالنا شروع کیا۔ ساتھ ہی ڈانٹتے بھی جاتے۔ ’’تمیز تو ہے نہیں چلے ہیں نماز پڑھنے، ٹانگیں توڑ دوں گا اگر آئندہ ادھر کا رخ بھی کیا تو۔ ناک میں دم کر دیا ہے۔ سارا ٹنکی کا پانی بھی ختم کر دیتے ہیں اور چٹائیاں الگ خراب کرتے ہیں۔‘‘
امام صاحب کی ڈانٹ ڈپٹ سے گھبرا کر چند لڑکوں نے اپنے اپنے گھروں کی طرف ڈر کر دوڑ لگادی مگر چند ایک نے تمیز کے ساتھ امام صاحب سے نماز ادا کرنے کی اجازت مانگی مگر ابھی امام صاحب کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تھا، اس لیے اجازت ملنا تو دور کی بات۔ امام صاحب نے ان کی بات بھی نہیں سنی۔ بچے بظاہر تو خاموشی کے ساتھ سر جھکا کر گھر کی جانب روانہ ہوئے مگر ان کے ذہنوں میں یہ سوال تھا کہ’ ہم نے تو کوئی بدتمیزی نہیں کی صرف نماز پڑھی ہے اور بس۔ پھر امام صاحب کو اتنا غصہ کیوں؟‘
اب پھر سے وہی معمولات تھے۔ فجر کی نماز کے بعد لڑکے قرآن کی تعلیم حاصل کرتے اور فارغ ہونے کے بعد محلے کے کنویں سے پانی لا کر مسجد کی ٹنکی بھرتے اور ظہر کی نماز ادا کرنے کے لیے آنے والے نمازی اس پانی سے وضو کرتے۔ امام صاحب کو بھی اطمینان ہو گیا مگر یہ اطمینان عارضی ثابت ہوا جب ایک دن نماز کی ادائیگی کے بعد امام صاحب گھر کے لیے روانہ ہوئے تو ڈاکیے نے انہیں ایک خط دیا۔ خط پر بھیجنے والے کا نام پتا درج نہ تھا۔ بس قرآن کی ایک آیت لکھی تھی جس کا ترجمہ تھا۔ ’’اور جو لوگ اپنے رب کو دن رات پکارتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو ان کے حساب میں کسی چیز کا بار تم پر نہیں ہے اور تمہارے حساب میں کسی چیز کا بار ان پر نہیں ہے اس پر بھی اگر تم انہیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہوگے۔‘‘
خط پڑھتے ہی امام صاحب نے سمجھ لیا کہ اس آیت کے ذریعہ کدھر نشاندہی کی گئی ہے اور یہ کس کی حرکت ہو سکتی ہے۔ اس خیال کے ساتھ ہی امام صاحب سیدھا اس لڑکے کے والد کی طرف گئے اور وہ خط انہیں دکھایا۔ ساتھ ہی سارا واقعہ بھی سنایا۔ لڑکے کے والد نے سکون سے ساری باتیں سنیں اور خط کا مطالعہ بھی کیا۔ پھر امام صاحب سے مخاطب ہوئے۔
’’امام صاحب! کیا آپ کے خیال میں پانی اور چٹائیاں اتنی اہم ہیں کہ بچوں کو نماز سے روکا جائے؟ آپ تو سمجھدار نمازی آدمی ہیں۔ آپ کو تو نماز کی بچوں کو تلقین کرنی چاہیے اور باجماعت نماز کا بچوں کو پابند کرنا چاہیے۔ آپ کو تو چاہیے تھا کہ بچوں کے اس نیک عمل پر بچوں کی تعریف کرتے نا کہ انہیں ڈانٹتے اور جہاں تک بات پانی اور چٹائیوں کی ہے اس کا بھی حل ہے۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے بیٹے کو بلوایا۔ بیٹا کمرے میں داخل ہوا تو امام صاحب کو دیکھ کر ایک لمحے کو ٹھٹکا مگر پھر سلام کرکے ایک طرف بیٹھ گیا۔
’’بیٹے اگر آپ کو اس چھوٹی مسجد میں نماز پڑھنی ہے تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ نماز کے بعد اس ٹنکی کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بھریں اور جب چٹائیوں کی ضرورت ہو تو اس کے لیے چندہ جمع کرکے دیں۔‘‘ 
’’مجھے منظور ہے ابا جان۔‘‘ بیٹے نے بخوشی والد صاحب کی عائد کی گئی ذمہ داری قبول کرلی۔

*۔۔۔*

بستی کے بچے قطار بنائے اسکول کے میدان میں جب اسمبلی کے لیے جمع ہوئے تو ہیڈ ماسٹر کے ساتھ علاقے کی پولیس چوکی کے انچارج بھی تشریف لائے۔ بچوں نے پولیس کو دیکھ کر آپس میں سرگوشیاں شروع کر دیں مگر تلاوت قرآن پاک کے ساتھ سرگوشیاں بند ہوگئیں۔ تلاوت قرآن کے بعد درس دیا گیا۔ درس سے فارغ ہونے کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب نے سامنے قطار میں کھڑے لڑکے ’حسن‘ کو اسٹیج پر آنے کو کہا۔ لڑکوں نے جب حسن کا نام سنا تو حیران رہ گئے۔ 
’’حسن؟ یہ تو بڑا نیک لڑکا ہے ہم سب کے ساتھ تو بہت اچھی طرح پیش آتا ہے۔‘‘
’’ارے یہ سب دکھاوے کے لیے ہوگا۔ ضرور کوئی چوری کرکے آیا ہوگا۔ جبھی تو تھانیدار صاحب آئے ہیں۔‘‘ لڑکے آپس میں سرگوشی کررہے تھے۔ مگر حسن خاموشی سے چلتا ہوا اسٹیج پر گیا اور ہیڈ ماسٹر صاحب کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ 
’’شاباش! حسن بیٹے تم نے ہم سب کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے شاباش!‘‘ یہ کہتے ہوئے ہیڈماسٹر صاحب نے حسن کے کندھے تھپتھپائے اور لڑکوں سے مخاطب ہوئے۔ 
’’بچو! کل جو کارنامہ حسن نے انجام دیا میں یہ پسند کروں گا کہ وہ آپ کو بھی بتاؤں تاکہ آپ بھی حسن کے اس واقعے سے سبق حاصل کریں۔ ہوا یوں کہ کل حسن نے ساحل سمندر پر ایک کشتی کھڑی دیکھی جس پہ ایک لکڑی کی مورتی رکھی تھی اور وہ بھی بغیر لباس کے۔ بچو! آپ کو تو پتا ہے کہ مورتی بنانا اور رکھنا ہمارے مذہب میں سختی سے منع ہے اور اسلام بے حیائی اور بری باتوں سے بھی روکتا ہے۔ اس لیے حسن نے قریبی پولیس چوکی جا کر چوکی انچارج کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ چوکی کے انچارج نے فوری طور پر مورتی اتروانے کا حکم دیا۔ کیونکہ ایک غیرت مند اور با حیا مسلمان کے لیے ایسا منظر ناقابل برداشت ہوتاہے۔ بچو! ہم سب کو چاہیے جہاں کوئی بھی برائی دیکھیں تو اسے روکنے کی کوششیں کریں۔ آپ جیسے چھوٹے بچے اگر نیکی کا کام کریں گے تو بڑے بھی اپنی برائی پر شرمندہ ہو کر نیک کام کریں گے۔‘‘

*۔۔۔*

کلاس میں آج غیر معمولی ہلچل تھی۔ آج لڑکوں کو اپنے نئے ریاضی کے استاد کا انتظار تھا۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ پتا نہیں یہ نئے استاد کیسے ہوں گے؟ کچھ ہی دیر میں ریاضی کے استاد تشریف لے آئے اور لڑکوں کا انتظار اور تجسس ایک ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ جب استاد صاحب نے مسکرا کر پوری جماعت کو’ ’السلام علیکم‘ ‘کہا۔
’’وعلیکم السلام!‘‘ پوری جماعت نے ایک ساتھ جواب دیا۔ 
’’میرا نام ہے محمد آفندی اور میں آپ کا نیا ریاضی کا استاد ہوں۔‘‘ استاد صاحب نے بلاتکلف اپنا نام بچوں کو بتایا پھر لڑکوں سے باری باری ان کے نام معلوم کیے۔ کچھ دیر تعارف کے بعد استاد آفندی نے ریاضی پڑھانا شروع کی۔ ان کا انداز بہت دلنشین تھا۔ لڑکے بہت جلد ہی استاد آفندی سے مانوس ہو گئے۔ ہر روز ان کا بڑی بے تابی سے انتظار کیا جاتا۔ استاد آفندی ایک بڑے بااخلاق اور صاحب علم انسان تھے۔ بچوں کو ریاضی کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے واقعات اور مثالوں سے ان کی اخلاقی تربیت بھی کرتے۔ لڑکے بھی ان کی باتوں کا خوب اثر لیتے اور ان کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی کوششیں کرتے۔
ایک دن استاد آفندی کلاس میں آئے تو انہوں نے بچوں کو یوں مخاطب کیا۔’’ میرے بچوں آپ میرے لیے بہت قیمتی ہیں۔ میرے پاس میرا جو بھی علم اور اخلاق ہے وہ میں آپ کو دینے کی کوششیں کرتا ہوں۔ اخلاق اور عادتیں تو آپ کی بھی بہت پیاری ہیں مگر کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اسکول کے باہر بھی اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں اور اخلاق کے ان اصولوں پر عمل کریں جن کے لیے ہم نے ایک تنظیم براے اخلاق بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ پھر انہوں نے اس تنظیم کے اہم اصول بھی خود ہی بتائے۔
۱۔ جو کوئی اپنے بھائی سے لڑے گا یا جھگڑا کرے گا اس پر ایک پیسہ جرمانہ ہوگا۔
۲۔ جو کوئی اپنے والد یا والدہ سے بدتمیزی سے پیش آئے گا اس پر ۱۰ پیسے جرمانہ ہوگا۔
۳۔ جو کوئی اپنے کسی ساتھی سے لڑے گا اس پر ۵ پیسے جرمانہ ہوگا۔
۴۔ اگر اس تنظیم کا صدر سکریٹری یا کوئی اور ذمہ دار ان میں سے کوئی بدتمیزی کرے گا تو جرمانہ دوگنا ہوگا۔
۵۔ جو طالب علم ان باتوں کی پابندی نہیں کرے گا۔ جماعت کے باقی طالبعلم اس سے بات چیت اور میل جول نہیں رکھیں گے۔ جب تک کہ وہ معافی نہ مانگ لے۔
اس کے بعد تمام لڑکوں کی حمایت سے حسن کو اس تنظیم کا صدر بنا دیا گیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بہت سارے طالب علم اس تنظیم کے رکن بن گئے۔
جو لڑکے کسی اصول کی خلاف ورزی کرتے ان پر جرمانہ ہوتا اور جب یہ جرمانے کی رقم جمع ہوجاتی تو اسے کسی بھلائی کے کام پر خرچ کر دیا جاتا۔ یہ اسی تنظیم کے اصول تھے کہ جس کی بدولت حسن نے ساحل پر کشتی میں جب مورتی رکھی دیکھی تو اسے اتروایا۔ ساتھ ہی صدر ہونے کی وجہ سے حسن نے تنظیم کے تمام ساتھیوں کو یہ تجویز دی کہ تمام ساتھی ظہر کی نماز باقاعدگی سے اسکول کے قریب چھوٹی مسجد میں ادا کریں۔ نماز سے کچھ دیر پہلے تمام لڑکے ایک ساتھ مل کر کھانا کھاتے پھر اس چھوٹی مسجد میں نماز ادا کرتے۔ جہاں پانی بھرنے کی ذمہ داری حسن کے والد نے حسن اور اس کے ساتھیوں کے ذمہ لگائی تھی۔
یہ تھے امام حسن البناء شہید ؒ جن کے والد کا نام احمد عبدالرحمن الساعتی احمد البناء تھا۔ جو مصر کی ایک بستی ’’محمودیہ‘‘ میں رہائش رکھتے تھے۔ شفیع احمد البناء گھڑی سازی کے ذریعہ روزی حاصل کرتے اور باقی وقت قرآن و حدیث پڑھنے اور پڑھانے میں صرف کرتے۔ ان کے پاس دینی اور تاریخی کتابوں کی ایک بڑی لائبریری بھی تھی۔ حسن البناء کا گھرانہ دیہاتی رہن سہن رکھنے والا اور اسلامی ماحول سے آراستہ تھا اور حسن کے والد اپنے بیٹے کو صحابہ کرام اور دوسرے بزرگان دین کی شجاعت بہادری عدل و انصاف کے قصے سناتے۔ انہیں بھی ویسا ہی بننے کی ترغیب دیتے۔ حسن البناء جب سات سال کے ہوئے تو والد صاحب نے انہیں اور ان کے چھوٹے بھائی عبدالرحمن البناء کو ابتدائی تعلیم کے لیے بستی کی ایک درسگاہ میں داخل کروادیا۔ یہاں کے استاد ایک نیک عالم دین تھے۔ استاد صاحب بچوں کو دینی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق سے بھی آراستہ کرتے۔ اگر کوئی طالب علم کوئی اچھا کام کرتا تو استاد صاحب اس کی تعریف کرتے اور کوئی اچھا انعام اس طالب علم کو دیتے۔
حسن البناء بچپن ہی سے نماز روزے کی پابندی کرتے تھے۔ تہجد کی نماز ادا کرنے کے بعد چھوٹے بھائی عبدالرحمن کو نماز فجر کے لیے جگاتے اور نماز کے بعد صبح پانچ بجے سے چھ بجے تک قرآن کریم کی تلاوت کرتے ۔ چھ سے سات بجے تک تفسیر و حدیث کا مطالعہ کرتے پھر مدرسے چلے جاتے۔ حسن البناء نے مڈل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ٹیچرز ٹریننگ کورس مکمل کیا۔ ٹیچر ٹریننگ کا امتحان حسن البناء نے بہت اعلا نمبروں سے پاس کیا اور پورے اسکول میں اوّل اور پورے ملک میں پانچویں نمبر پر آئے۔ اس کے بعد اعلا تعلیم کے لیے حسن البناء نے مصر کی قاہرہ یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔ ۱۹۲۷ء میں حسن البناء نے قاہرہ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ دوران تعلیم ہمیشہ حسن البناء برائی کو روکنے کی کوششیں کرتے اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر مختلف طریقوں پر غور کرتے کہ کس طرح لوگوں تک اچھی دینی باتیں پہنچائی جائیں۔ دوران ملازمت انہوں نے پابندی کے ساتھ تبلیغ کا کام شروع کیا۔ وہ دن کے وقت اسکول میں ملازمت کرتے اور شام کو لوگوں سے ملاقات اور درس دیتے۔ 
لوگ جوق در جوق اس تحریک سے وابستہ ہونے لگے۔ اس تحریک کا مقصد مصر کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنانا تھا۔ حسن البناء نے قائد اعظم کے دورۂ مصر کے دوران قائد اعظم سے ایک ملاقات میں تحریک پاکستان کی بھی تائید کی۔ اور قائد اعظم کو قرآن پاک کا ایک خوبصورت نسخہ تحریک پاکستان کی تائید کے طور پر پیش کیا۔ یہی نہیں بلکہ قائد اعظم کے دورۂ مصر کے بعد بھی حسن البناء نے تحریک پاکستان کی ہمیشہ حمایت کی۔ حسن البناء نے جو تحریک اخوان المسلمون کی صورت میں شروع کی، آج ایک اسلامی حکومت کی صورت میں مصر میں برسراقتدار آگئی تھی لیکن اسلام کے دشمنوں نے ناصرف ان کی حکومت ختم کی بلکہ ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے۔ لیکن وہ اب بھی جدوجہد کر کے مصر کو ایک اسلامی مملکت بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ اللہ ان کی مدد فرماے۔آمین۔ اخوان المسلمون کی صورت میں حسن البناء کا شروع کیا ہوا یہ روشنی کا سفر آج بھی مصر اور عالم اسلام کو روشن کر رہا ہے۔ حسن البناء کو ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء کے دن اس وقت کی حکومت نے انہیں اپنی راہ کی رکاوٹ سمجھتے ہوئے شہید کردیا۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top