skip to Main Content

ذہانت کی آئس کریم

کہانی: Smart Ice cream
مصنف: Paul Jennings

ترجمہ: گل رعنا
۔۔۔۔۔۔۔

آئس کریم تو آپ نے مختلف اقسام کی کھائی ہوں گی مگر یہ آئس کریم کچھ انوکھی تھی……..

۔۔۔۔۔۔۔

میں ایک دفعہ پھر کلاس میں اول آیا ہوں۔ اس دفعہ میں نے سو میں سے سو نمبر حساب میں اور سو میں سے سو نمبر انگریزی اور اردو میں حاصل کئے ہیں۔ میں اپنی کلاس کا سب سے ذہین طالب علم ہوں۔ جماعت کا کوئی اور بچہ میرے قریب نہیں پہنچ سکتا۔
میں بچپن سے ہی بے حد ذہین تھا۔ جس روز میں ایک ماہ کا ہوا، اُس دن کا ذکر ہے کہ میری امی مجھے کھلاتے ہوئے گدگدی کررہی تھیں۔ ”یہ گدگدی بند کریں امی!“ میں نے تنگ آکر کہا اور وہ بستر سے گرتے گرتے بچیں۔ میں اپنی عمر سے بہت آگے تھا۔ جب میں نے صحیح ہجے کا انعام جیتا تو میری عمر صرف تین برس تھی۔ میں ایک انتہائی قیامت کا صحیح ہجے کرنے والا ہوں۔ کوئی بھی مجھے ہجے میں پیچھے نہیں چھوڑ سکتا۔
یہ حقیقت ہے کہ کچھ بچے مجھے پسند نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں مغرور ہوں۔ مگر میں ان کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ وہ سب جلتے ہیں، کیونکہ وہ مجھ جیسے ذہین نہیں ہیں۔ پھر جلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں خوبصورت بھی بہت ہوں۔
پچھلے ہفتے ایک بُرا واقعہ ہوا۔ ایک اور بچے نے بھی حساب میں سو میں سے سو نمبر حاصل کرلئے۔ یہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ کسی نے بھی آج تک اتنا اچھا کام نہیں کیا تھا جتنا میں کرتا ہوں۔ میں ہمیشہ اکیلا اول ہوتا ہوں، لیکن اس دفعہ جیری نے مجھے شکست دے دی۔ مجھے پکا یقین تھا کہ اُس نے یقیناً کوئی دھوکے بازی کی ہے اور اس دھوکے بازی کا کچھ نہ کچھ تعلق آئس کریم سے ضرور ہے۔ میں نے حقیقت کا پتہ لگانے کا فیصلہ کرلیا۔ میں کسی کو اپنے برابر آتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔
یہ سارا قصہ آئس کریم بیچنے والے سے شروع ہوا۔ اُس کا نام مسٹر پیپی تھا۔ اُس بے وقوف شخص کے پاس آئس کریم کی ایک وین تھی جسے وہ اسکول کے باہر کھڑا کرتا تھا۔ وہ مختلف قسم کی آئس کریم بیچتا تھا۔ اُس کے پاس ہر جانے پہچانے فلیور کی آئس کریم تھی، لیکن کچھ فلیور ایسے بھی تھے جن کا کسی نے نام تک نہیں سُنا تھا۔
وہ مجھے کچھ زیادہ پسند نہیں کرتا تھا۔ ایک دفعہ اُس نے مجھ سے کہا:
”قطار کے پیچھے واپس جاﺅ۔ تم دھکا دے کر آگے آئے ہو“۔
”تم اپنے کام سے کام رکھو!“ میں نے کہا ”اور سیدھی طرح آئس کریم دو!“
”نہیں!“ اُس نے کہا۔ ”میں تمہیں اس وقت تک آئس کریم نہیں دوں گا جب تک تم قطار کے پیچھے نہیں جاتے“۔
میں وین کے پیچھے گھوم کر گیا اور ایک کیل سے اُس کی پرانی سڑی ہوئی وین پر ایک لمبی خراش ڈال دی۔ اُس نے وین پر تازہ تازہ رنگ کرایا تھا۔ پیپی آیا اور ایک نظر وین پر ڈالی۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ”تم ایک بُرے لڑکے ہو!“ اُس نے کہا۔ ”ایک دن تم مصیبت میں گرفتار ہوجاﺅگے۔ تم خود کو بہت ذہین سمجھتے ہو۔ ایک دن یہی ذہانت تم کو لے ڈوبے گی“۔
میں اس بات پر خوب ہنسا اور آگے چل پڑا۔ میں جانتا تھا کہ وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ بہت نرم دل تھا اور ہمیشہ اُن بچوں کو مُفت آئسکریم دیتا تھا جن کے پاس پیسے نہ ہوں۔ بے وقوف کہیں کا!!!
اس آئس کریم کے متعلق بہت سی کہانیاں گردش کرتی رہتی تھیں۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ جب آپ خود کو بیمار محسوس کررہے ہوں تو یہ آئس کریم آپ کو ٹھیک کردیتی ہے۔ اساتذہ میں سے بعض اسے ”خوشی کی آئس کریم“ کہتے تھے۔ مگر مجھے اس بات پر یقین نہیں تھا۔ اس کو کھانے سے مجھے کبھی کوئی خوشی حاصل نہیں ہوئی۔ لیکن اس آئس کریم میں کوئی نہ کوئی عجیب بات تھی ضرور۔ اب پمپلز پیٹرسن کی مثال لیجئے۔ یہ اُس کا اصلی نام نہیں ہے۔ میں اُسے اِس نام سے اس لئے پکارتا ہوں، کیونکہ اس کے منہ پر بہت سے پمپلز یعنی کیل مہاسے تھے۔ بہرحال، پیپی نے مجھے پیٹرسن کو پمپلز پکارتے ہوئے سُن لیا۔
”تم واقعی ایک بدتمیز لڑکے ہو!“ اُس نے کہا۔ ”تم ہمیشہ دوسروں کو تکلیف پہنچاتے ہو۔ صرف اس لئے کہ وہ تمہیں پسند نہیں کرتے“۔
”دفعہ ہوجاﺅ پیپی!“ میں نے کہا۔ ”جاﺅ، اپنی آئس کریم کہیں اور جاکر بیچو“۔
پیپی نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بجائے وہ پمپلز سے مخاطب ہوا۔
”یہ کھاﺅ!“ اُس نے پیٹرسن کو ایک آئس کریم دیتے ہوئے کہا۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ اتنی بڑی آئس کریم دیکھی تھی۔ یہ جامنی رنگ کی تھی۔ پیٹرسن آئس کریم لیتے ہوئے جھجھک رہا تھا۔ اس کے پاس اتنی بڑی آئس کریم خریدنے کے لئے پیسے نہیں تھے۔
”اسے کھالو۔ میں اسے تمہیں بالکل مفت دے رہا ہوں! اس کے کھانے سے تمہارے کیل مہاسے ٹھیک ہوجائیں گے“۔
میں یہ سُن کر خوب ہنسا۔ آئس کریم کیل مہاسوں سے نجات نہیں دلا سکتی۔ اس سے آپ کے کیل مہاسوں میں اضافہ ضرور ہوسکتا ہے۔ تاہم جب اگلے روز پیٹرسن اسکول آیا تو اُس کے چہرے پر کیل مہاسے نہیں تھے۔ ایک بھی نہیں! میں یقین نہیں کرسکتا، لیکن یہ حقیقت تھی کہ آئس کریم نے اس کے کیل مہاسے ٹھیک کردیئے تھے۔
اس کے علاوہ بھی کچھ عجیب واقعات پیش آئے۔ ہمارے اسکول میں ایک بچہ ایسا تھا جس کی ناک بہت لمبی تھی۔ وہ جب چھینکتا تھا تو اُسے ایک میل کے فاصلے سے سُنا جاسکتا تھا۔ میں اُسے ”چھینکو“ کہتا تھا۔ وہ چھینکو کہلوانا پسند نہیں کرتا تھا۔ جب میں اُسے چھینکو کہہ کر پکارتا تو اُس کا چہرہ سُرخ ہوجاتا، لہٰذا میں جب بھی اُسے دیکھتا، یہی کہتا۔ وہ جواباً خاموش رہتا تھا۔ وہ ڈرتا تھا کہ میں اُسے مُکا مار کر گرادوں گا۔
پیپی چھینکو سے بھی ہمدردی رکھتا تھا۔ وہ ہر صبح اُسے ایک چھوٹی سبز آئس کریم مفت کھانے کے لئے دیتا تھا۔ اُس نے مجھے کبھی بھی مفت آئس کریم نہیں دی تھی۔ کنجوس آدمی!
خیر! آپ یقین نہیں کریں گے، مگر میں قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ سچ ہے! چھینکو کی ناک رفتہ رفتہ چھوٹی ہوتی چلی گئی۔ ہر روز یہ پہلے سے زیادہ چھوٹی ہوجاتی۔ آخرکار وہ بالکل عام ناک بن گئی۔ جب اس کا سائز درست ہوگیا تو پیپی نے اُسے سبز آئس کریم کھلانی بند کردی۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ اس آئس کریم کے کاروبار کو بند ہوجانا چاہئے۔ جس دن جیری نے حساب میں سو میں سے سو نمبر حاصل کئے تھے اُس روز وہ آئس کریم کھا رہا تھا۔
یہ ضرور آئس کریم ہی تھی جس نے اُسے ذہین بنادیا تھا۔ میں کسی کو بھی اپنے جیسا ذہین نہیں دیکھنا چاہتا۔ میں اسکول کا ذہین ترین بچہ ہوں اور ہمیشہ رہنا چاہتا ہوں۔ میں نے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے آئس کریم کی وین کا معائنہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
میں جانتا تھا کہ رات کو پیپی اپنی وین اپنے گھر کے پیچھے موجود چھوٹی سی گلی میں کھڑی کردیتا ہے۔ میں نے رات کے گیارہ بجے تک انتظار کیا۔ اس کے بعد میں خاموشی سے اپنے گھر سے نکلا اور پیپی کی وین کی طرف روانہ ہوا۔ میرے پاس لوہے کا راڈ، بالٹی بھر ریت، ایک ٹارچ اور کچھ ڈھکن کاٹنے کے اوزار تھے۔ جب میں وین کے پاس پہنچا تو وہاں اردگرد کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ میں نے لوہے کی راڈ کی مدد سے وین کا دروازہ کھولا اور اندر ٹارچ کی روشنی پھینکی۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی آئس کریم کے اتنے زیادہ ڈرم نہیں دیکھے تھے۔ وین میں سیب، کیلے، چیری، آم، فالسے اور تربوز کے علاوہ تقریباً پچاس اور فلیورز موجود تھے۔ وین کے آخری سرے پر چار ڈرم تھے جن پر تالا لگا ہوا تھا۔ میں وین کے اندر گیا اور اُن کا جائزہ لیا۔ میرا اندازہ درست نکلا۔ یہ اُس کے خاص فلیورز تھے۔ ہر ڈرم پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوا تھا:
”خوشی کی آئسکریم…. لوگوں کو خوش کرنے کے لئے“۔
”ناک ٹھیک کرنے کی آئس کریم…. لمبی ناکوں کے لئے“۔
”کیل مہاسوں کی آئس کریم…. کیل مہاسے دور کرنے کے لئے“۔
”ذہانت کی آئس کریم…. ذہین بننے کے لئے“۔
اب مجھ پر ساری حقیقت کھل چکی تھی۔ جیری نے ضرور ذہانت کی آئس کریم کھائی تھی، اسی لئے اُس کے حساب میں سو میں سے سو نمبر آئے۔ میں پہلے ہی جانتا تھا کہ مجھ سے زیادہ ذہین اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ میں نے پیپی کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے ڈھکن کاٹنے کی چھری لی اور چاروں ڈھکن کھول دیئے۔ پھر میں نے ریت لے کر وین میں موجود آئس کریم کے تمام ڈرموں میں ڈال دی، سوائے ذہانت کی آئس کریم کے۔ میں نے اس میں ریت نہیں ڈالی!
میں اپنے کارنامے پر خوب ہنسا۔ پیپی اب مزید آئس کریم اُس وقت تک نہیں بیچ سکتا جب تک کہ وہ ایک نیا فلیور متعارف نہیں کراتا ”ریت کی آئس کریم“۔
اب میں نے ذہانت کی آئس کریم کو دیکھا اور اس میں سے تھوڑی سی کھانے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ میں تو پہلے ہی اتنا ذہین ہوں جتنا آپ جیسے معمولی عقل رکھنے والے لوگ یہ آئس کریم کھا کر ہوسکتے ہیں۔ بہرحال میں نے اُسے آزمانے کا فیصلہ کیا۔ آخر اس میں حرج بھی کیا تھا۔ جب میں نے آئس کریم کھانی شروع کی تو میں رُک نہیں سکا۔ یہ بے حد مزے دار تھی۔ یہاں تک کہ میں نے آئس کریم کا پورا ڈرم خالی کردیا۔
اُس کے بعد میں وین سے نکل آیا اور گھر آکر بستر پر لیٹ گیا۔ مگر میں ساری رات سو نہیں سکا۔ سچ پوچھیں تو میں اپنی طبیعت کچھ خراب سی محسوس کررہا تھا۔ لہٰذا میں نے اپنی یہ ساری کہانی لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ اب مجھے یقین ہوتا جارہا ہے کہ میرا اندازہ غلط تھا۔ جیری ذہانت کی آئس کریم کھانے سے ذہین نہیں ہوا ہوگا!!!
اب یہ اگلا دن حے۔ مجھے کچھ حورحا حے۔ میں اپنے آپ کو بُحت ذادا ظہین مہسوس نحیں کررحا!! میں اس وقت ایک بُحت مشکل ثوال ہل کرنے کی کوشش کررحا حوں۔ ثوال یہ ھے کہ ایک اور ایک کیا حوتا ہے۔ مجھے سمجھ میں نحیں آرہا کہ ایک میں ایک جما کرکے کیا جواب آئے گا؟ کیا یہ تین ہوگا یا یہ چار حوگا؟؟؟

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top