skip to Main Content

دُھواں

عبدالرشید فاروقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس کے ابو جی کی انگلیاں کی بورڈ پر تیزی سے چل رہی تھیں۔ وہ کوئی کہانی لکھ رہے تھے۔ وہ بڑے غور سے اُنھیں دیکھ رہی تھی۔ اُس پیاری سی بچی کا نام ہادیہ رشید تھا۔ ہادیہ کی عمر چھ سال تھی۔ وہ پہلی جماعت میں پڑھ رہی تھی۔
اُس کے ابو جب بھی کچھ لکھنے بیٹھتے، وہ بھاگ کر اُن کے پاس چلی آتی تھی۔ وہ ہمیشہ اپنے ابو سے سوال کرتی تھی:
”ابو جی! آپ کمپیوٹر پر کیا کرتے ہیں؟“
وہ مسکرا کر اپنی پھول سی بیٹی کو دیکھتے اور اُس کے گال پر چٹکی لے کر کہتے:
”ہادیہ! میری اچھی بیٹی! میں کہانیاں لکھتا ہوں۔“
”کہانیاں …… ابو جی! یہ کہانیاں کیا ہوتی ہیں۔“
”بیٹی! کہانیاں ……زندگی ہوتی ہیں۔“ وہ مسکراکر کہتے۔
”زندگی…… یہ زندگی کیا ہے ……“ وہ حیرت کا اظہار کرتی۔ اُس کے ابو جی اِس سوال پر ہمیشہ چند لمحے کچھ سوچتے اور کہتے:
”ہادیہ! تم ابھی بہت چھوٹی ہو…… تم نھیں سمجھو گی، زندگی کیا ہے…… جب بڑی ہوجاؤ گی تو تمھیں خود بخود سمجھ آ جائے گی۔“
”اچھا جی……“ وہ یوں کہتی، جیسے اُن کی بات کا مطلب اُس کی سمجھ میں آگیا ہو۔ وہ تھوڑی دیر انھیں کام کرتے ہوئے دیکھتی …… پھر اُن کے کندھوں سے جھول جاتی تھی:
”ابو جی! آپ نے کہاں سونا ہے؟“
”کیوں ……؟“ وہ مسکراتے تو وہ اِٹھلاکر کہتی:
”مجھے آپ کے ساتھ سونا ہے۔“
”بیٹی! آپ اپنی امی جی کے ساتھ سو جاؤ…… مجھے ابھی بہت کام کرنا ہے۔ اِس لیے دیر میں سوؤں گا۔“ وہ اُس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہتے۔
”نھیں مجھے آپ کے ساتھ سوناہے۔“ وہ ہمیشہ ضد کرتی تھی۔
”آج امی جی کے ساتھ سوجاؤ۔ کل میرے ساتھ آجانا۔“
اُن کا یہ جملہ سن کر وہ بُرا سا منھ بناتی تھی۔ کبھی ضد پر قائم رہتی تو کبھی اُن کی بات مان کر امی جی کے ساتھ سوجاتی تھی۔
آج بھی سارے سوال اور جواب دُہرائے گئے تھے۔ ہادیہ نے ابو جی کی بات نھیں مانی تھی۔ وہ ہر حال میں اُن کے ساتھ سونا چاہتی تھی۔ ہادیہ کی تین بہنیں اور بھی تھیں لیکن وہ ابو جی کی سب سے زیادہ لاڈلی تھی۔ وہ چھوٹی ہونے کا خوب خوب فائدہ اٹھاتی تھی۔ اُس کے ابو جی بھی اُس پر جان چھڑکتے تھے۔ کبھی وہ ضد نہ چھوڑتی تو اُنھیں غصہ بھی آجاتا تھا۔ وہ اُسے ڈانٹ دیا کرتے تھے۔ اُس کے ابو جی نے لکھتے لکھتے گردن گھماکر قریب بیٹھی ہادیہ کی طرف دیکھا:
”بیٹی! ضد چھوڑ دو…… جاؤ، امی جی کے ساتھ سوجاؤ…… کل میرے پاس آجانا۔“
”جی نھیں …… آپ ہمیشہ مجھے ٹرخا دیتے ہیں۔“ اُس نے منھ بسورتے ہوئے کہا۔
”اچھی بیٹی! ضد نہ کرو، آج رات مجھے ہر حال میں اپنی کہانی مکمل کرنی ہے۔ مکمل نہ کر پایا تو وعدہ خلافی ہوجائے گی۔“ اُنھوں نے بے بسی سے کہا۔
”وعدہ خلافی…… کیسی وعدہ خلافی؟“ وہ جلدی سے بولی۔
”میں نے اپنے دوست کو کل صبح تک یہ کہانی لکھ کر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اب اگر میں اِسے اُدھورا چھوڑ کر تمھاری بات مان کر سوجاؤں تو…… بیٹی! اچھی بات نھیں ہوگی نا۔“
اُن کی بات سن کر وہ ایک لمحے کو خاموش ہوگئی، پھر بولی:
”ٹھیک ہے…… آپ اپنی کہانی مکمل کریں لیکن میری ایک بات آپ کو ماننا ہی ہوگی۔“وہ اُن کے سامنے سیدھی کھڑی ہوگئی۔
”کون سی بات……؟“
”آپ کل شام کو ہمیں گھمانے لے جائیں گے۔“
”تم بہت چالاک ہو۔“
اچانک اُن کی نظر دروازے کی طرف اُٹھ گئی۔دروازے کے آگے پردہ لگا تھا۔ انھیں نیچے کسی کے پاؤں دکھائی دے رہے تھے۔
”سعدیہ! چھپنے کا فائدہ نھیں ہے۔ مجھے تمھارے پاؤں نظر آ رہے ہیں ……باہر آجاؤ۔“
اُن کی بات سن کر پردے کے پیچھے چھپی، سعدیہ رشید جلدی سے باہر آگئی۔ وہ بُرے بُرے منھ بنا رہی تھی۔
”ابو جی! آپ بہت چالاک ہیں۔“
”وہ تو بیٹی، میں واقعی ہوں۔“وہ مسکرائے۔
”اب تم دونوں یہاں سے چلتی پھرتی نظر آؤ…… مجھے کام کرنا ہے۔“
”کل شام کا پروگرام تو پکا ہے نا……؟“ ہادیہ نے اُن کے گلے میں باہیں ڈال دیں۔
”ہاں …… پکا ہے۔ بھاگو یہاں سے……“
اور وہ واقعی وہاں سے بھاگ گئیں۔ اُن کے جانے کے بعد وہ ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔ اُن کی انگلیاں ایک بار پھر کی بورڈ کے بٹنوں کے ساتھ مصروف ہوگئیں۔
مئی کے آخری دن چل رہے تھے۔ دن میں سورج آگ برساتا تو رات کو موسم پرسکون ہوجاتا تھا۔ کبھی کبھی ٹھنڈی ہوا چلنے لگتی تھی۔ اُن کا شمار ملک کے اچھے لکھاریوں میں ہوتا تھا۔ اِن دِنوں ملک بھرکے لکھاری ایک خاص موضوع پر کہانیاں لکھ رہے تھے۔ کہانیاں بھجوانے کی کل آخری تاریخ تھی۔ اُنھوں نے اپنے ایک مدیر دوست کو ہر حال میں کہانی دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اِس وقت وہ اُسی وعدے کو ایفا کرنے کے لیے کام کر رہے تھے۔ رات کے ایک بجے تک وہ کہانی مکمل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
وہ ایک موڈی لکھاری تھے۔ موڈ نہ ہوتا تو کبھی کچھ نہ لکھتے تھے، لیکن …… اِس بار اُنھوں نے بنا موڈ کے ہی کہانی شروع کر دی تھی۔ اِس لیے اُس کی تکمیل میں زیادہ وقت لگ گیا تھا۔کہانی لکھ کر اُنھوں نے ایک طویل سانس لیا اور کمپیوٹر بند کرکے سونے کے لیے چلے گئے۔ اُن کے گھر کا صحن کافی وسیع تھا۔ صحن میں آکر اُنھوں نے سر اُٹھا کر آسمان پر موجود تاروں پر ایک نگاہ ڈالی اور ایک طرف بچھی اپنی چارپائی کی طرف بڑھے۔ وہ جیسے ہی اُس کے قریب پہنچے …… حیرت زدہ رہ گئے۔ چارپائی پر سفیدرنگ کا بلی کا ایک بچہ بڑے مزے سے بیٹھا تھا۔ اُس کی بڑی بڑی آنکھیں چاند کی روشنی میں بڑی ڈراؤنی دِکھ رہی تھیں۔ وہ اُنھیں دیکھ کر بالکل نہ گھبرایا بلکہ اور سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ اب وہ باقاعدہ اُنھیں گھور رہا تھا۔ جیسے اُسے اُن کا وہاں آنا ناگوار گزرا ہو۔ اُنھوں نے منھ سے شی شی کی آوازیں نکالیں لیکن بلی کا بچہ شاید بہت ضدی تھا۔ وہ اُن کی شی شی کو کسی خاطر میں نہ لایا۔ وہ بے اختیار اپنے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے کہ اب کیا کریں۔ اُنھوں نے نظر گھماکر سوئے ہوئے افراد کو دیکھا۔ وہ میٹھی نیند میں تھے۔ اُن کی بیگم صاحبہ گھوڑے بیچے سکون سے سو رہی تھیں۔وہ واپس بلی کے بچے کی طرف متوجہ ہوئے تو دھک سے رہ گئے۔ خوف کی ایک سرد لہر اُن کے پورے وجود میں پھیل گئی۔ وہ جھری جھری لے رہ گئے۔ بلی کا بچہ بستر پر نھیں تھا بلکہ اب وہاں ایک سفید پلاّ تھا۔ کتے کا گول مٹول بچہ…… روئی کے گال جیسا۔ وہ کانپ کر رہ گئے۔ پھر اُن کے منھ سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔ چیخ کی آواز سن کر اُن کی بیگم اور سارے بچے ہڑ بڑا کراُٹھ بیٹھے اور گھبرائی ہوئی نظروں سے اُدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ پھر جیسے ہی اُن کی بیگم کی نظر اُن پر پڑی …… اُن کے منھ سے ایک زور دار چیخ خارج ہوگئی:
”بھب…… بھب…… بھوت……“
”بھوت…… بھوت……بھوت……“ سب چلانے لگے۔ ایسے میں اچانک صحن روشنی میں نہا گیا۔ اُنھوں نے دیکھا۔ بجلی کے بورڈ کے پاس اُن کا بیٹا افضال کھڑا تھا۔
”امی جی! آپ بھی نہ…… یہ بھوت نھیں، ابوجی ہیں۔“ اُس کے چہرے پر جھلاہٹ تھی۔
”لیکن…… یہ چلائے کیوں تھے؟“ وہ بے حد گھبرائی ہوئی تھیں۔
”یہ تو ابو جی ہی بتائیں گے۔ بتائیے! آپ کیوں چلائے تھے؟“
”ہمارے گھر میں واقعی بھوت ہے……“
”کک……کیا……!!!“ سب ایک ساتھ چلا اُٹھے۔
”لل…… لیکن کہاں ہے بھوت؟“افضال رشید نے بُرا سا منھ بنایا۔
”یہ…… یہ…… دیکھو……“ اُنھوں نے اپنی چارپائی کی طرف اشارہ کیا۔ اُن کے سفید بستر پر وہ پلّا اب بھی مزے سے بیٹھا تھا اور اپنی گول گول آنکھوں سے، اُن سب کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
”عبداللہ صاحب!کہانیاں لکھتے لکھتے …… سچ پوچھیں تو آپ سٹھیا گئے ہیں۔“
”امی جی! آپ ایسے تو نہ کہیں …… ہمارے ابو جی تو بڑے عقل مند ہیں۔“ یہ سعدیہ رشید تھی۔
”بیگم صاحبہ! میں مذاق کے موڈ میں نھیں ہوں۔ یہ کتے کا بچہ…… تھوڑی دیر پہلے بلی تھی یا بلی کا بچہ تھا۔“
”رات بہت ہوگئی ہے…… آپ آرام کریں اور ہمیں بھی کرنے دیں۔“ وہ تڑ سے بولیں۔
”ابو جی آرام کیسے کر سکتے ہیں، اِن کے بستر پر تو کتے کا بچہ بیٹھا ہے۔“ ثنا رشید مسکرائی۔
”افضال! بیٹا…… تم میری بات کا یقین کرو، یہ کتّے کا بچہ…… پہلے بلی کا بچہ تھا۔میری آنکھوں کے سامنے اِس نے روپ دھارا ہے۔“ اُنھوں نے قدر اُونچی آواز میں کہا۔
”لیکن ابو جی! یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟“

”اب یہ تو مجھے نھیں معلوم، یہ کیسے ہوا، بہرحال میں غلط نھیں کہہ رہا ہوں۔ ہو نہ ہو، یہ ضرور کوئی بھوت ہے۔“
لفظ بھوت سن کر وہ سب ایک بار پھر کانپ اُٹھے۔ ایسے میں ایک باریک سی آواز اُن کی سماعتوں سے ٹکڑائی:
”میں واقعی بھوت ہوں۔“
پھر اُنھوں نے عجیب منظر دیکھا۔ کتے کا بچہ آہستہ آہستہ بڑھنے لگا تھا۔ پہلے وہ ایک بڑا کتا بنا…… پھر ایک بڑا سا بلا بن گیا۔ وہ سب خوف سے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ ہادیہ کی حالت تو سب سے پتلی تھی۔ وہ امی جی کی ٹانگوں سے چپکی کھڑی تھی۔اُن کے ساتھ ہی سائرہ آنکھیں پھاڑے تھی۔
”بھب…… بھوت بھائی! تم ہمارے گھر میں کیا کرنے آئے ہو؟“ سائرہ نے ہمت کرکے کہا۔
”تم مجھ سے ڈر کیوں رہے ہو…… اچھا رُکو…… میں تم جیسا بن جاتا ہوں۔ پھر تمھیں مجھ سے ڈرنھیں لگے گا۔“ بلے کے منھ سے نکلا۔ اُن کے دیکھتے ہی دیکھتے بلّے نے ایک پیاری سی، چھوٹی بچی کی صورت اختیار کرلی:
”کیا تم اب بھی مجھ سے ڈرو گے…… اب تومیں تم جیسی بن گئی ہوں۔“
”بچی بن گئی ہو…… لیکن تم ہو تو ایک بھوت…… اور بھوتوں سے ہر کوئی ڈرتا ہے۔ مہربانی کرو، یہاں سے چلی جاؤ۔ ہمیں اور نہ ڈراؤ۔“
بچی نے مسکرا کراُس کی طرف دیکھا…… پھر بولی:
”تم واقعی بہادر ہو…… ورنہ آج تک میرے سامنے کوئی یوں آکر کھڑا نھیں ہوا ہے۔“
”زیادہ باتیں نہ کرو، یہ بتاؤ…… تم ہمارے گھر میں کیوں آئی ہو؟“
”میں تم سب سے بدلہ لینے آئی ہوں۔“ بھوت بچی نے اچانک کہا۔
”بدلہ …… کیسا بدلہ……؟“ سبھی حیران رہ گئے۔
”تمھارے ابو نے برسوں پہلے میری امی کو ہلاک کیا تھا۔ میں اُس کا بدلہ لینے آئی ہوں۔“
اُس کی بات سن کرسب بچے گردنیں گھماکر اپنے ابو جی کی طرف دیکھنے لگے۔
”مجھے نھیں لگتا، میں نے کسی کو ہلاک کیا ہوگا۔ یوں بھی کسی کو جان سے مارنا اچھی بات نھیں ہے۔ یہ انتہائی بُرا کام ہے۔ اللہ پاک کو بالکل پسند نھیں ہے۔“ اُنھوں نے کہا۔
اُس کے خاموش ہوتے ہی ہادیہ جلدی سے بولی:
”دوست! میرے ابو جی بہت اچھے ہیں، بہت پیارے ہیں …… یہ ایسا بُرا کام نھیں کر سکتے ہیں …… تمھیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔“
”مجھے غلط فہمی نھیں ہوئی ہے……“ وہ جلدی سے بولی۔ ہادیہ نے کچھ سوچا، پھر کہنے لگی:
”تم میرے ابو جی کو معاف کر دو…… اِنھیں کچھ مت کہو…… میں ان سے بہت پیار کرتی ہوں …… تمھاری امی تو اللہ کے پاس چلی گئیں، اب تم چاہتی ہو…… میرے ابو جی بھی……“ ہادیہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اُس کے خاموش ہوتے ہی بھوت بچی چارپائی سے اُٹھی اور زمین سے چھ فٹ اُوپر فضا میں کھڑی ہوگئی۔پھر اُس کے ہونٹ ہلے۔ وہ کہہ رہی تھی:
”میں جا رہی ہوں …… ہادیہ! تم اپنے ابو جی سے خوب خوب پیار کرنا…… میں تمھارے ابو سے بدلہ نھیں لوں گی۔ میں نے اِنھیں معاف کر دیاہے۔ میں نے سوچا تو کچھ اور تھا لیکن …… تمھاری بہادری اور ابو جی سے پیار نے مجھے اِنھیں معاف کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ میں جا رہی ہوں …… اور ہاں! تم کل شام کو اِن کے ساتھ باہر ضرور جانا…… کسی اچھے سے تفریحی مقام پر……“
بھوت بچی نے کہا۔ پھر وہاں دُھواں سا اُٹھا…… جب چھٹا تو وہ غائب تھی۔

O

جواد پھرکی چپ ہوا تو دونوں اُس کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر وسیم احمد کی کڑکتی، گرجتی آواز ہال میں گونجی:
”یہ کیا تھا……“
”کہانی ……“ اُس نے جلدی سے کہا۔
”ہے نا مزے کی……“
”یار! تم ایسی کہانیاں لکھتے ہو……؟“ یہ ارسلان نصیر تھا۔
”تم دونوں بہت اچھے مدیر ہو…… اسی لیے تمھارا رسالہ ٹاپ پر جا رہا ہے…… میں نے یہ کہانی خاص تمھارے رسالے کے لیے لکھی ہے۔تمھیں پسند آئی نا…… میں جانتا تھا۔ تمھیں میری کہانی بہت پسند آئے گی۔“ جواد پھرکی نے ہاتھ میں پکڑے کہانی والے کاغذ میز پر رکھ دیے۔
”اوہ……پھرکی ……“
”پھرکی نھیں …… میرا پورا نام جواد پھرکی ہے۔“ اُس نے بُرا سا منھ بناتے ہوئے کہا۔
”اوکے…… کیا تم سمجھتے ہو، تمھاری یہ کہانی بچے پڑھیں گے!!“ وسیم احمد نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
وہ کچھ نہ بولا۔
”تم ایک کام کرو اور وہ کام تم بہت اچھا کر سکتے ہو……“ ارسلان نصیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”کون سا کا م میں ……؟“ جواد پھرکی نے دلچسپی سے پوچھا۔
”کسی سکول کے باہر بچوں کو آلو چنے بیچا کرو……“
”کیا مطلب……؟“ جواد پھرکی اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ غصے سے اُس کا چہرہ ٹماٹر ہوگیا تھا۔
”ہم تمھاری یہ اُوٹ پٹانگ کہانی نھیں چھاپ سکتے…… سوری۔“ وسیم احمد نے کہا۔
”مطلب…… آپ بھوتوں والی کہانیاں نھیں چھاپتے؟“ جواد پھرکی اُٹھ کھڑا ہوا۔ اُس نے میز پر پڑے کاغذ اُٹھالیے تھے۔
”تم غلط سمجھے…… ہم بھوتوں کی کہانیاں شائع کرتے ہیں ……“ ارسلان نصیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”تمھاری یہ کہانی مزے دار نھیں ہے…… اِس میں کچھ خاص نھیں ہے۔ اوٹ پٹانگ ہے یہ۔“
”اوٹ پٹانگ…… بھوت بھی تو اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں …… ویسے یہ ایک سچی کہانی ہے۔“
”ہوگی لیکن ہمیں پسندنھیں ہے۔“ وسیم احمد نے جلدی سے کہا۔
”میں نے سنا تھا…… انسان بہت تعاون کرنے والے ہوتے ہیں، لیکن آپ مجھ سے بالکل تعاون نھیں کر رہے ہیں۔ یہ کہانی میری بچی نے لکھی ہے، میں نے نھیں …… وہ چاہتی ہے، آپ اِسے شائع کریں۔“ جواد پھرکی نے آخری کوشش کے طور پر کہا۔
”یہ کہانی آپ نے لکھی ہے یا آپ کی بچی نے…… ہمارے ہاں یہ ناقابل اشاعت ہے…… کسی اور جگہ کوشش کرلیں۔“
”ٹھیک ہے…… میں چلتا ہوں …… اور ہاں! آپ کے مشورے پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا۔“
وہ دفتر کے دروازے کی طرف پلٹا۔ اُسی وقت بند دروازہ کھلا اور ایک پیاری سی بچی مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔ وہ جوادپھرکی کے قریب آ کھڑی ہوئی۔
”چلیں ابا جان! میں نے آپ سے کہابھی تھا……یہ بڑے رسالے کے مدیر میری کہانی شائع نھیں کریں گے۔“
بچی نے وسیم اور نصیر کی طرف غضب ناک نظروں سے دیکھا۔ پھر اُس نے جواد پھرکی کا ہاتھ پکڑ لیا۔یکایک دفتر میں دُھواں سا اُٹھا اور دونوں غائب ہوگئے……

OOO

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top