skip to Main Content
دولت کا درخت

دولت کا درخت

جاپانی لوک کہانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے۔جاپان کے ایک گاؤں میں ایک غریب لکڑ ہارا رہتا تھا۔اس کے والدین وفات پا چکے تھے اور وہ بے چارا اکیلا رہتا تھا۔لکڑ ہارا بہت نیک اور رحم دل تھا۔ایک دن وہ جنگل میں سوکھی اور ٹوٹی ہوئی لکڑیاں تلاش کر رہا تھا کہ اس کے کانوں میں ایک عجیب سی آواز آئی۔اس نے غور کیا تو صنوبر کے درخت کی آواز تھی جس کے نیچے وہ کھڑا تھا، وہ کہہ رہا تھا:
’’میرارس لیس دار ہے،جو میری نازک شاخیں ٹوٹنے کی وجہ سے ٹپک رہا ہے۔‘‘
لکڑ ہارے نے دیکھاکہ اس کی شاخیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور اس میں سے رس نکل رہاہے۔اسے محسوس ہوا کہ درخت اپنا دکھ بیان کر رہا ہے۔اس نے اپنے لباس میں سے کپڑا پھاڑا اوردرخت کی کٹی ہوئی شاخوں پر پٹیاں باند ھ دیں۔شاخیں اپنی جگہ کھڑی ہو گئیں اور رس نکلنا بند ہو گیا۔لکڑ ہارا بہت خوش ہوا اور واپس جانے ہی لگا تھا کہ اچانک درخت سے سونے اور چاندی کے سکے برسنے لگے۔وہ حیران رہ گیا۔یہ سلسلہ کچھ دیر تک جاری رہا پھر درخت سے آواز آئی’’یہ تمہاری رحم دلی کا انعام ہے‘‘لکڑ ہارا ساری دولت سمیٹ کر گھر پہنچا۔
لکڑ ہارا اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ کھڑکی سے دوسرے لکڑ ہارے کا چہرہ نمودار ہوا۔یہ دراصل وہ لالچی شخص تھا جس نے صنوبر کے درخت کی شاخین توڑی تھیں۔اس نے کھڑکی سے سیکھ لیا تھا کہ کہ نیک دل لکڑ ہارا اپنی دولت گن رہا ہے۔لہٰذا حسرت سے بولا’’تمہارے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی چند دن پہلے تو فاقوں تک نوبت آئی ہوئی تھی۔‘‘نیک دل لکڑ ہارے نے اسے بتایا کہ یہ دولت فلاں علاقے کے صنوبر کے درخت نے دی ہے۔
’’کیا اس کی شاخیں کٹی ہوئی تھیں؟‘‘لالچی شخص بولا۔’’ہاں وہی درخت ہے‘‘نیک دل لکڑ ہارا بولا۔
’’اور مجھے چلنا چاہئے‘‘یہ کہہ کر وہ بھاگم بھاگ صنوبر کے درخت کے پاس پہنچ گیا جس کی سر سبز شاخیں اس نے توڑی تھیں ،جیسے ہی وہ درخت کے قریب گیا درخت سے آواز آئی’’میرا خون لیس دار ہے تم مجھے چھوؤ گے تو بے شمار دولت کے مالک بن جاؤ گے۔
بد خصلت لکڑ ہارے نے جوں ہی درخت کو چھوا اس میں سے سونے چاندی کے بجائے لیس دار مادہ گرنے لگا۔وہ دیکھتے ہی دیکھتے اس میں مکمل طور پر ڈوب گیا۔اس سے پہلے کہ وہ اس مادے کی موٹی تہہ میں جم جاتا ادھر سے نیک دل لکڑ ہارے کا گزر ہوا۔اس نے بڑی مشکل سے اس اسے باہر نکالاورنہ دولت کا لالچی زندہ ہی قبر میں چلا جاتا۔اس واقعے کے بعد لالچی لکڑ ہارے نے ایسی دوڑ لگائی کہ پھر کبھی مڑ کر بھی اس گاؤں میں نہ آیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top