skip to Main Content

دوستی

مناظر عاشق ہرگانوی
۔۔۔۔۔۔۔

شبانہ اس گوریا کو پہچان گئی تھی۔چھوٹی سی، ننھی منی پھر پھر اڑنے والی گوریا۔
شبانہ اسے روز دیکھتی۔ جب صبح اٹھ کر پڑھنے بیٹھتی تو وہ ”چوں چوں “ کر کے ایک خوبصورت سا گیت گاتی ہوئی کھڑکی پر آکر بیٹھ جاتی۔ شبانہ اسے دیکھ کر کہتی:
”اوہو، تو آپ آگئیں۔ میں نے کہا آداب عرض۔“
گوریا ”چوں چوں“ کر کے آداب عرض کا جواب دیتی۔ پھر ممی کے ڈریسنگ ٹیبل پر جاکر بیٹھ جاتی۔ پھدک پھدک کر آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتی اور چونچ مار کر خود کو چومتی۔
شبانہ کو ہنسی آجاتی۔ سوچتی، کتنی پاگل ہے گوریا۔ اپنے آپ کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی ہے بچاری! اس کے گھر میں ڈریسنگ ٹیبل ہی کہاں ہوگی جو اپنا چہرہ دیکھتی۔
کبھی کبھی پھدکتی ہوئی وہ شبانہ کے بالکل قریب آجاتی۔ اس کی کتاب پر بیٹھ جاتی۔ تب بھی وہ ”چوں چوں“ کا گیت ہی گاتی رہتی۔ ایک دن شبانہ نے اسے ہاتھوں میں اٹھا لیا تو وہ سہم گئی۔ شبانہ کے ہاتھوں میں گدگدی ہو رہی تھی۔ وہ سمجھ گئی کہ گوریا ڈر رہی ہے۔ اس نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہا:
”ارے گوریا رانی ڈرومت، تجھے چھوڑ دوں گی۔ مجھے گانا سنائے گی نا؟“
اس نے اسے چوم کر چھوڑ دیاتھا اور گوریا پھدکتی ہوئی آئینہ میں جاکر اپنا چہرہ دیکھنے لگی۔
ایک دن بڑ ا برا ہوا۔ شبانہ چپ چاپ بیٹھی پڑھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ ابھی تک گوریا آئی کیوں نہیں؟ دھوپ کے پیسے روشندان سے گر
کر ایک کونے میں بکھر گئے تھے۔ اسکول جانے کا وقت قریب آتا جارہا تھا۔ یکایک ”چوں چوں“ کی آواز سن کر شبانہ چونک پڑی۔ گوریا آگئی تھی اور آداب عرض کر رہی تھی۔
”آج بڑی دیر کردی۔ اب تک کیا کر رہی تھیں؟“
شبانہ نے اس سے پوچھا۔ اسی وقت اسے اس کا ٹوٹا ہوا پیر نظر آگیا۔ ”ارے یہ چوٹ کیسے لگی؟ آؤ میں دوا لگادوں۔“ اور اس نے اسے کھڑکی پر سے اٹھا لیا۔ اس دن گوریا بالکل نہیں ڈری۔ ہتھیلیوں پر آکر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ شبانہ اسے پیار کرتی ہے۔ وہ اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
شبانہ اسے ممی کے پاس لے گئی۔ ممی کسی کام میں لگی ہوئی تھیں۔ شبانہ نے کہا ”دیکھو ممی، اس بچاری کو کتنی چوٹ لگی ہے۔ جانے کیسے؟“
ممی نے اسے دیکھا پھر ڈرائنگ روم میں آکر ٹنکچر کا پھاہا بنا کر لگادیا۔ گوریا چپ چاپ دوالگواتی رہی۔ دوا لگا کر ممی پھر کچن میں واپس لوٹ گئیں۔
شبانہ نے اس سے کہا،”دیکھو میری ممی کتنی اچھی ہیں! خیر، اب جب تک تمہاری چوٹ ٹھیک نہیں ہوجائے تمہیں دوالگوانے روز آنا ہوگا۔ اس میں ٹال مٹول نہ ہو۔ ورنہ پریشانی اٹھاؤگی۔“
گوریا نے اسے ”تھینک یو“ کہا اور ہتھیلی سے اڑ کر ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں ذرا اپنا چہرہ دیکھ کر وہ اڑ گئی۔
کچھ دنوں تک گوریا روز آتی رہی۔ شبانہ اسے ٹنکچر کا پھاہا بنا کر لگا دیتی۔ وہ تھینک یو کہتی اور چلی جاتی۔ ایک دن جب وہ آئی تو مزے سے پھدک پھدک کر چل رہی تھی۔ اس کی چوٹ اچھی ہوگئی تھی۔ اس نے کھڑکی پر کھڑی ہو کر کہا تھا:
”تھینک یو ویری مچ، میری ننھی نرس۔“
شبانہ یہ سن کر پھولی نہیں سمائی۔ لیکن اسی دن شام کو شبانہ یکایک بیمار پڑگئی۔ اسکول سے لوٹی تو بڑی تھکی تھکی سی معلوم ہورہی تھی۔ پھاٹک کھولنے پر روز کی طرح اس نے اپنی ممی کے استقبال کا جواب مسکرا کر نہیں دیا۔ اور نہ یہ بتایا کہ اسے سارے سوال صحیح حل کرنے پر پانچ میں پانچ نمبر ملے تھے۔ جی ہی نہیں کر رہا تھا کچھ بتاتی کیسے؟ ٹامی اچھل کر جب اس سے لپٹ کر پیار جتانے لگا تو اس نے دھتکار دیا ورنہ روز وہ اس کے گلے سے لپٹ جاتی تھی اور ڈانٹ پلاتی تھی۔ ”آج میرے اسکول کیوں نہیں آیا مجھے لینے، دیکھ میں اکیلی آئی ہوں۔“
لیکن اس دن اس نے کچھ نہیں کہا۔ کسی طرح بھاری بستے کو اٹھائے ہوئے وہ برآمدے تک آئی۔ ممی نے چہرہ اترا ہوا دیکھا تو پوچھ بیٹھیں ”کیا ہوا شبانہ؟“ وہ بولی کچھ نہیں۔ صرف ممی سے لپٹ گئی۔ انہوں نے اسے چوما تھا اور چونک پڑی تھیں” ارے تیرا بدن تو تپ رہا ہے۔ بخار ہے تجھے؟“ ممی نے اس کی آنکھوں میں دیکھا، گیلی تھیں۔ وہ متفکر ہوگئیں۔ فوراً شبانہ کو کمرے میں لے جاکر لٹا دیا۔ پھر کمبل اوڑھا کر اس کے پاپا کو آفس فون کیا۔ اور جب تک وہ آتے، اس درمیان انہوں نے دودھ دیا اور اس کی گڑیا کو اس کے پاس لاکر لٹا دیا۔ شبانہ چپ چاپ ایک کروٹ پڑی رہی۔
پاپا آئے ان کے ساتھ ڈاکٹر انکل بھی تھے۔ انہوں نے شبانہ کو دیکھتے ہی کہا، ”کیا ہوا ہماری شبانہ کو؟ ارے کچھ نہیں ہوا۔ دیکھیے نا کتنی خوش
ہے رانی بٹیا۔ بس ذرا تھک گئی ہے۔“ اور انہوں نے اس کے گلابی گالوں کو چوم لیا۔ پھر تھرمامیٹر نکال کر بخار ناپا، کافی تھا۔ وہ تھوڑے فکر مند ہوگئے۔ بیگ سے دوا نکال کردی۔ شبانہ نے ایک خوراک پیتے ہی منہ بنایا، دوا کڑوی تھی۔
پھر ڈاکٹر انکل دروازے پر جاکر پاپا کو بتانے لگے”فکر نہ کریں۔ معمولی بخار ہے، دوا دے دی ہے، ٹھیک ہوجائے گی۔ لیکن دیکھئے اس پر زیادہ ”اسٹرین“ نہ پڑے، جہاں تک ہو ،اس سے بات چیت کم کیجئے۔ کوئی اس کے پاس زیادہ نہ بیٹھے۔ اور ہاں، دوا وقت پر دینے کا خیال رکھیئے گا۔“ اور پھر گھوم کر ایک نظر شبانہ کو دیکھتے ہوئے وہ چلے گئے۔
اس دن کے بعد سے شبانہ بالکل اکیلی رہ گئی۔ تپتا ہوا بدن لیے چپ چاپ پڑی رہتی۔ اسکول کی کتابیں پڑھنے کو ڈاکٹر انکل نے منع کردیا تھا۔ کھلونے سے بھی کب تک کھیلتی۔ تھک جاتی تو انہیں ایک طرف پٹک کر لیٹ رہتی۔ دائیں طرف اسٹول پر رکھی دوا کو دیکھ کر اسے گھبراہٹ ہوتی۔ اف کتنی کڑوی دوا ہے، وہ سوچتی، ممی جب بھی آتیں، اسے دوا پلاتیں، موسمی کا رس دیتیں اور جاتے وقت اس کے منہ چوم لیتیں، پھر کہتیں”لیٹی رہنا شبانہ“ اچھی ہوجاؤگی تو تمہارے لیے ایک بڑھیا فراک بنوادوں گی۔“
شبانہ بدبداتی ”تھینکس ممی“! اور انہیں جاتے ہوئے دروازے کے دوسری طرف دیکھتی رہتی۔ پاپا شام کو آتے اور اپنے ساتھ غبارے لاتے۔ لیکن افسوس کوئی بھی اس کے پاس دیر تک نہیں بیٹھتا۔ اور تو اور وہ باتیں کرنے والا رامو چاچا بھی جب کمرہ جھاڑنے آتا تو صرف اتنا ہی پوچھتا ”کیسا جی ہے شبو بٹیا؟“ وہ کہتی اور رامو چاچا ہنس دیتا۔ پھر وہ جانے لگتا تو شبانہ کہتی ”بیٹھو نا رامو چاچا، مجھ سے باتیں کرو۔“
”کروں گا، ضرور کروں گا،اپنی بٹیا سے باتیں۔ اچھی ہوجاؤ۔ تم پھر ہم چڑیا گھر بھی چلیں گے۔“اور وہ انگوچھا کاندھے پر ڈالتا ہوا باہر چلا جاتا۔
شبانہ کو گوریا کی یاد آجاتی، کتنے دن ہوگئے، نہیں آئی۔ کوئی گانا بھی نہیں سنا اس کا۔ ایک دن اس کی طبیعت کچھ اچھی تھی۔ گڑیوں سے الگ ہو کر وہ روشندان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ تبھی اس پر گوریا آبیٹھی۔ شبانہ اسے فوراً پہچان گئی۔ گورا بھی اسے دیکھتے ہی گانے لگی۔ شبانہ روٹھ گئی۔
”چپ، میں تم سے نہیں بولتی۔ میں بیمار ہوں اور تو مجھے دیکھنے تک نہیں آئی۔ کہاں تھی اب تک؟“
گوریا اڑ کر اس کے پلنگ کے پائینتی پر آبیٹھی اور اس کی طرف اس طرح دیکھنے لگی، جیسے کہہ رہی ہو”مجھے معاف کردو، شبانہ سچ مجھے پتا نہیں تھا۔ میں تو جانے کب سے تمہیں کھوج رہی ہوں۔ تمہارا اس کمرے میں ”ٹرانسفر“ ہوگیا، لیکن مجھے معلوم ہی نہ تھا۔ وہ تو کہو میں یکایک روشندان پر آبیٹھی جو تم نظرآگئیں۔“
شبانہ اسے دیکھتی رہی، پھر بولی، ”خیر۔ لیکن اب آجایا کرو۔ تم ہی تو میری دوست ہو، میرے پاس کوئی نہیں آتا۔ ممی اور پاپا بھی اب بہت کم آتے ہیں۔ میں دن بھر اکتا جاتی ہوں تم آکر میرا دل بہلایا کرو۔ “
اس دن گوریا تھوڑی دیر تک گیت گا کر چلی گئی۔ لیکن اس کے بعد وہ روز آنے لگی۔ ممی کے دوا پلا کر جانے کے بعد وہ روشندان سے اڑ کر پلنگ پر آبیٹھتی اور گانے لگتی۔ تھوڑی دیر بعد پھر سے اڑجاتی۔ پھر دن میں کئی بار آتی اور جاتی۔ شبانہ کا جی بہلا رہتا۔
ایک دن اس نے دیکھا، گوریا کے ساتھ ایک اور گوریا آئی، وہ دونوں تھوڑی دیر تک ادھر ادھر دیکھتی رہیں۔ پھر چلی گئیں۔ پھر وہ تھوڑی تھوڑی دیر پر آتی رہیں۔ شبانہ نے دیکھاکہ ان کی چونچ میں روئی، لکڑی اور ٹکڑے اور تنکے دبے رہتے تھے، اور وہ اسے لے جاکر وارڈ روب پر رکھ رہی تھیں۔ شبانہ سمجھ گئی کہ وہ اپنا گھونسلہ بنا رہی ہیں اور ان میں ایک نر گوریا ہے، وہ بہت خوش ہوئی ،اس نے سوچا چلو، اب ان کو کہیں جانا نہیں ہوگا۔ یہ یہیں رہیں گے۔ پھر کتنا اچھا ہوگا جب ان کے پاس کوئی بے بی گوریا آئے گی۔ یہ اسے مل کر پھدکنا، اڑنا اور چگنا سکھائیں گے اور وہ اسے دیکھا کرے گی۔
جب گھونسلا بن چکا تو گوریا اور مسٹر گوریا دونوں اس کے پاس آکر گیت گانے لگے۔ جب شبانہ سوجاتی تو دونوں لنچ کے لئے باہر چلے جاتے اور جب وہ جاگتی تو اسے گیت سناتے۔ رات میں وہ اسے ”گڈنائٹ“ کہہ کر اپنے گھونسلے میں جا چھپتے۔ اسی طرح کتنے ہی دن گزر گئے۔ اب شبانہ کی طبیعت ٹھیک ہو رہی تھی۔ لیکن بخار نے ابھی پوری طرح پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔
ایک دن دوپہر کے وقت اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دیکھا ،رامو چاچا وارڈ روب کی صفائی کر رہا ہے اور دھیرے دھیرے وہ ان کے گھونسلے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ روشندان پر گوریا اور مسٹر گوریا سہمے ہوئے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ شبانہ سمجھ گئی کہ وہ ڈر رہے ہیں کہ اب ان کے گھونسلے کو باہر پھینک دیا جائے گا اور ان کی ننھی بے بی اڑ کر بھاگ نہ سکے گی۔
رامو چاچا گھونسلے کے پاس ہی تھا کہ شبانہ چلائی:
”ارے مت چھوؤ، رامو چاچا، وہ میرے دوست کا گھر ہے۔ میں نے انہیں یہاں بنانے کی اجازت دی ہے۔“
”اچھا بیٹی اچھا۔“ وہ سیڑھی سے نیچے اتر آیا، پھر بولا”پہلے کیوں نہیں بتایا شبانہ بیٹا کہ یہ تمہارے دوست ہیں۔“
جب رامو چاچا چلا گیا تو دونوں گوریا اڑ کر پلنگ پر آبیٹھے۔ شبانہ نے محسوس کیا جیسے وہ کہہ رہے ہوں”تھینک یو۔“
شبانہ نے اور غور سے سنا۔ وارڈ روب سے ہلکی ہلکی ”چیں چیں“ کی آواز آرہی تھی۔ ضرور بے بی گوریا بھی ”تھینک یو“ کہہ رہی ہوگی۔)

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top