skip to Main Content
دن کا موتی، رات کا تارا ۔۔۔ شیخ زید مسجد

دن کا موتی، رات کا تارا ۔۔۔ شیخ زید مسجد

محمدالیاس نواز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خلیج کا سفید موتی یادنیا کی حسین مسجدوں کی کہکشاں میں ایک خوبصورت ستارے کا اضافہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’خلیج کا سفید موتی یادنیا کی حسین مسجدوں کی کہکشاں میں ایک خوبصورت ستارے کا اضافہ‘‘۔ جس نے بھی یہ کہا ٹھیک ہی کہا ہے کیونکہ دن میں سورج کی روشنی میں اس عمارت کو دیکھا جائے توسفید سنگ مرمرسے ڈھکی یہ عمارت سفید موتی معلوم ہوتی ہے جبکہ رات میں یہی عمارت نیلی روشنی میں کسی تارے سے کم نہیں لگتی۔ہم ذکر کر رہے ہیں متحدہ عرب امارت کے بانی اور پہلے صدر الشیخ زید بن سلطان آل نیہان کی ابوظہبی میں اپنے نام سے بنائی ہوئی مسجد کاجو متحدہ عرب امارات کی سب سے بڑی مسجد ہے اور اسے مقامی لوگ ’’عظیم الشان مسجد‘‘کہتے ہیں۔شیخ زید مسجدکا شمار دنیا کی دس بڑی مسجدوں میں ہوتا ہے جسے مغلوں اور افریقی عربوں کی مسجدوں کے طرز تعمیر سے متأثر ہو کر ڈیزائن کیا گیا۔خاص طور پر اسکی تعمیر میں بادشاہی مسجد لاہور اور حسن الثانی مسجد کاسا بلانکا کا براہ راست اثر نظر آتا ہے۔اگرچہ مسجد کا بنیادی تعمیراتی ڈیزائن مراکشی ہے مگر اس میں بہت سے عالمگیر رنگ نظر آتے ہیں بشمول بیرونی دیوار کے جو ترکی کے روایتی فن تعمیر کا نمونہ ہے۔اسطرح 22,412مربع میٹر یعنی فٹبال کے پانچ میدانوں کے برابررقبہ پر تعمیر اس مسجد کواپنے طرز تعمیر کے لحاظ سے عرب،مغل اور افریقی طرز تعمیر کا خوبصورت اور بے مثل امتزاج کہا جا سکتا ہے جس میں40,960نمازی بہ یک وقت نماز پڑھ سکتے ہیں بشمول خواتین کے ،جن کیلئے مسجد میں دو ہال مختص کئے گئے ہیں۔17,000مربع میٹر مسجد کا صحن سفیدیونانی سنگ مرمر سے آراستہ ہے جبکہ اس پر بڑے بڑے پھول بوٹے بنائے گئے ہیں جنہیں دور سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے پھولوں والی سفید چادر بچھا دی گئی ہے۔مسجد کے صحن کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار ہے۔ان چاروں میناروں کی اونچائی 105 میٹرہے ۔مسجد کے مراکشی ڈیزائن کے 82 گنبد سفید سنگ مرمرسے مزین ہیں جن میں چھت پر بنے تین بڑے گنبد بھی شامل ہیں۔انڈے کی شکل کے ان تین گنبدوں میں سے درمیان والا گنبد دنیا کا سب سے بڑا گنبد ہے ۔اس گنبد کی اونچائی باہرسے 85میٹر، اندر سے70میٹرجبکہ بیرونی قطر32.8 میٹر ہے۔مسجد کا اندرونی حصہ بھی اتنا ہی حسین ہے جتنا کہ بیرونی حصہ۔بات ہورہی تھی مرکزی گنبد کی تو یہیں سے ابتدا کرتے ہیں۔اس گنبدکو آٹھ ستونوں پر آٹھ کونوں والے ستارے کی شکل میں اٹھایا گیا ہے جسکا نیچے کھڑے ہو کر مشاہدہ کیا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے مسجد کی چھت نے آٹھ کونوں والا تاج سر پر رکھا ہوا ہے۔یہ گنبد جن آٹھ ستونوں پر کھڑا کیا گیا ہے ،یہ ستون بھی اپنے اندر ایک خوبصورتی سمیٹے ہوئے ہیں۔ان میں سے ہر ایک ستون کی چار ٹانگیں ہیںیا یوں کہہ لیجئے کہ ہر ستون چار چھوٹے ستونوں پر قائم ہے اور ان ٹانگوں یا چھوٹے ستونوں کے نیچے کا فرش آٹھ نوکیلے پتوں والے پھول کی شکل کا ہے جس کی ایک پتی چھوڑ کر ایک پرستون ہیں۔ اس پھول جیسے فرش کے آس پاس قالین بچھا ہے مگر اس حصے کو قالین سے باہر رکھا گیا ہے ۔ ان چاروں ستونوں کے درمیان بھی فاصلہ ہے یعنی یہ آپس میں ملے ہوئے نہیں ہیں جبکہ ان چاروں ستونوں کے درمیان فرش کے اندر آٹھ پتیوں والے پھول کی شکل کی ہی لائٹ نصب کی گئی ہے جو بالکل فرش کے سطح کے برابر ہے۔ ان چھوٹے ستونوں پر صدف کے ساتھ ساتھ زبرجد اورلاجورد جیسے قیمتی پتھروں سے بیلیں بنائی گئیں ہیں جو روشنی پڑنے پر چمکنے لگتی ہیں۔باقی دونوں گنبد بھی اسی طرح کے ستونوں پر اُٹھائے گئے ہیں ۔اس طرح ان تمام ستونوں کی تعداد96ہوجاتی ہے۔جبکہ مسجد کے ڈھانچے میں 1000کالم بھی شامل ہیں جن پر سنگ مرمرکی2000تختیاں (penals)لگائی گئیں ہیں۔ان تختیوں پراس طرح بیلیں بنا ئی گئیں ہیں کہ تختیوں میں سے پھولوں اور بیلوں والا حصہ کاٹ کر نکال لیا گیا اور پھر ان میں نیم قیمتی پتھروں یعنی لاجورد، سرخ عقیق،نیلم یاقوت اور صدف کے پھول اور بیلیں بناکر جڑ دی گئیں ہیں جس کے بعد انکی رگڑائی اور پالش کا کام کیا گیا ۔ان بیلوں کی بہار خاص کر راہ داریوں کے ستونوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔جبکہ مرکزی ہال کے دائیں اور بائیں بنائے گئے کمروں کی دیواروں اور فرش پر بھی انہیں پتھروں کو کاٹ بیلیں بنائی گئیں ہیں مگر انکی خاص بات یہ ہے کہ انکو اندر نہیں جڑا گیا بلکہ اوپر لگایا گیا ہے جس سے دیکھنے والے کو یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید دیواروں پر،فرش پر اور دروازوں کے ارد گرد اصلی بیلیں چڑھائی گئی ہیں۔ مسجد کی آرائش کیلئے سونا،پتھر،بلور اور سرامکس جیسی قدرتی دھاتیں استعمال کئی گئیں ہیں تاکہ تعمیروتزئین دیر پا رہے۔شیخ مسجد میں 28اقسام کا سنگ مرمر استعمال کیا گیاہے۔مسجد کے ہال میں بچھا دنیا کا سب سے بڑا قالین اپنے ڈیزائن،پیمائش اور رنگوں کے لحاظ سے نرالا اور بے مثال ہے،اس میں پچیس سے زائد رنگ استعمال کئے گئے ہیں۔قالین کے تمام حصے مکمل طور پر ہاتھ سے تیار کئے گئے ہیں اور اسے ایک ایرانی ماہرِفن علی خالقی نے ڈیزائن کیا ہے جبکہ ایران ہی کی ایک ممتاز قالین ساز کمپنی نے اسے تیار کیا ہے۔اس قالین کی پیمائش 5,627مربع میٹر(60,570مربع فٹ)ہے اور اسے تیار کرنے میں 20ماہرفنکاروں، 1200کاریگروں اور30مزدوروں نے حصہ لیا۔ اس قالین کا وزن47ٹن ہے جس میں35ٹن اُون اور 12ٹن سوت استعمال کیا گیاجبکہ اس قالین پر30 ملین درہم لاگت آئی ہے۔مسجد کے مرکزی دروازے سمیت جس کی چوڑائی 7میٹر،اونچائی 12.2میٹراور وزن2.2ٹن ہے ،مسجد میں نصب تمام شیشے کے دروازوں کے فریم مسجد میں بنے نقش و نگار کے مطابق بنائے گئے ہیں نہ صرف یہ بلکہ رنگین شیشوں کے ٹکڑوں سے دروازوں کے شیشوں پر پھول بھی بنائے گئے ہیں۔ مسجد کی23میٹراونچی اور50میٹرچوڑی محراب والی دیوارپرگچ(پلاسٹر آف پیرس)اور سنگ مرمر کا اعلیٰ پائے کا کام کیا گیا ہے۔پلاسٹر آف پیرس کوسانچوں میں ڈھال کر ڈیزائن بنائے گئے اور پھر انکی رگڑائی کرکے آپس میں جوڑ کر ڈیزائن مکمل کرکے لگائے گئے جبکہ سنگ مرمر کے تقریباًایک ایک انچ کے ٹکڑوں کو جوڑ کر بڑے بڑے پھول بناکرانہیں پالش کرکے لگا گیاہے کہ جن پر روشنی پڑتی ہے تویہ کپڑے پر لگے ستاروں کی طرح جھلملاتے ہیں۔یاد رہے کہ طوبیٰ مسجد(گول مسجد)کراچی کی دیواروں پر بھی یہی کام کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اور بھی کمال کا کام کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ کھدی ہوئی نالیوں کی شکل کی بیلیں بنائی گئیں ہیں جن پر فائبر(شیشے جیسی پلاسٹک) لگا کر پیچھے سے لائٹیں لگائیں گئیں ہیں جن کے جلانے پر یہ بیلیں روشن ہوکر دل فریب منظر پیش کرتی ہیں اور لگتا یوں ہے جیسے یہ بیل بوٹیاں چمک رہی ہیں۔ان بیلوں میں مناسب فاصلے پر ایک ایک کرکے پھول بنائے گئے ہیں اور ہر پھول میں اللہ کا ایک صفاتی نام خطِ کوفی میں انتہائی مہارت اور دیدہ ریزی کے ساتھ بنایا گیا ہے۔اس طرح اس دیوار پر اللہ تعالیٰ کے ننانوے صفاتی ناموں(اسماء الحسنیٰ)کی نہایت خوبصورت خطاطی کرکے اس دیوار پر چن دیا گیا ہے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ایک تو چمکتی بیلیں خودبل کھا کر پھولوں کی شکل اختیار کر جاتی ہیں، اور پھر فن اپنی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے جب انہی بیلوں میں کہیں پانچ ،پانچ اور کہیں دس،دس مل کر ایک خاص ترکیب(Composition)کے ساتھ دائرے بناتے ہوئے بڑے پھول بناتے ہیں اور یہ چھوٹے پھول خود ان بڑے پھولوں کی پتیاں بن جاتے ہیں۔اس خوبصورت دیوار کے درمیان میں قدرے اونچی محراب بنائی گئی ہے جوکہ قبلے کے رُخ کی ترجمانی کرتی ہے۔اس محراب میں سنہرے شیشے کا انتہائی نفیس دھاری دار کام کیا گیا ہے۔مسجد میں تین قسم کے رسم الخط میں خطاطی کی گئی ہے۔خطِ نسخ،خطِ ثلث اورخطِ کوفی ۔مرکزی گنبد کے درمیان میں دنیا کا سب سے بڑا فانوس نصب ہے ۔ یہ ان سات فانوسوں میں سے ایک ہے جو جرمنی سے تیار کروائے گئے ہیں جبکہ شیشے کا کچھ کام اٹلی سے بھی کراوایاگیا ہے ۔9ٹن وزنی اس فانوس کے فریم کاقطر(گولائی) 10میٹراور اونچائی15میٹرہے ۔ اسٹیل اور تانبے کے اس فریم پر خالص سونے کی ملمع کاری کی گئی ہے اور اس پر چالیس ملین جرمن بلور (کرسٹل)لگائے گئے ہیں جو برف کے شفاف ٹکڑوں کا منظر پیش کرتے ہیں جبکہ اس پر 30ملین درہم سے زیادہ لاگت آئی ہے۔مسجدکے ماتھے کا یہ جھومراپنی مثال آپ ہے۔ اس بات کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے کہ دیوار، چھت،ستون،فرش،فانوس،گھڑیاں غرض ہر چیز پر بنے ڈیزائن آپس میں ملتے ہوں تاکہ کوئی چیز الگ اور بے جوڑ نہ لگے۔مسجد شیخ زید اسلام کی تعلیماتِ رواداری کا دمکتا ہوا عکس ہے کہ جس میں ہر قوم اور ہر مذہب کے لوگوں کوتعلیمی دوروں کیلئے آنے کی اجازتِ عام ہے۔یہ شاندار اور پر وقار مسجد یقیناً امارات کی دھرتی کا ایک مذہبی اور قومی امتیازی نشان ہے جوموجودہ اماراتی معاشرے کانہ صرف ایک تعمیراتی خزانہ ہے بلکہ متحدہ عرب امارت کے بابائے قوم شیخ زید بن سلطان کے ایک دیرینہ خواب کی تعبیر بھی ہے۔یہاں ہمیں یہ بتانا نہیں بھولنا چاہئے کہ دنیامیں اپنی طرز کی واحد اکائی اس مسجدکی تعمیر میں دنیا کی38 نامور کمپنیوں نے حصہ لیاجبکہ اٹلی،جرمنی،مراکش، انڈیا،ترکی،ایران،چین، یونان اور خود امارت کے 3000 سے زائد کاریگروں اور فنکاروں نے سخت گرمی میں کام کیا۔اور یہ تو ہم بھول گئے تھے کہ مسجدکے سامنے اوردونوں جانب راہداریوں کے بالکل ساتھ باغوں میں 7.874مربع میٹرپر تالاب بنائے گئے ہیں جن میں گہرے رنگ کی ٹائلیں لگائی گئی ہیں ۔ نورانی راتوں کے دوران خاموش پانی میں جب مسجد کا عکس پڑتا ہے توایسا لگتا ہے جیسے یہ خوبصورت عمارت آئینے میں اپنا ہی چہرہ دیکھ کر حیران ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top