skip to Main Content
دمشق کی فتح

دمشق کی فتح

بلال حنیف

………………………

۱۴ھ تک مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ اب مسلمان شام کی سرحدوں کی عبور کرنا ہی چاہتے تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ کی فوج کے ہاتھوں روم کے بادشاہ ہر قل کے قریبی ساتھی کاموس اور عزرئیل کے قتل کے بعد ہرقل کی تشویش میں حددرجہ اضافہ ہو چکا تھا۔ اس نے اپنی رعایا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:
’’اے میری قوم کے لوگو! میں نے تمہیں پہلے عربوں(مسلمانوں) کی بہادری سے آگاہ کر دیا تھا لیکن تم نے میری باتوں کو مذاق میں ٹال دیا اب وہ الٹے میرے قتل کے درپے ہوگئے ہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے والی حمص کو طلب کیا اور اسے بارہ ہزار رومیوں پر سردار بنا کر محاذ جنگ ’’بعلبک‘‘ روانہ کیا۔
والی حمص نے اپنی جنگ حکمت عملی کے تحت ’’اجنادین‘‘ کی فوج کو قاصد کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا کہ وہ ان تمام راستوں اور گھاٹیوں پر پہرہ بٹھا دیں جہاں سے مسلمانوں کو کمک پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
حضرت خالد بن ولید نے موقع پاتے ہی دمشق کا محاصرہ کر لیا۔ مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر رومیوں پر تابڑ توڑ حملے کیے۔ جنگ کے بیسویں روز رومیوں کا حال بد سے بدتر ہو تا جا رہا تھا۔ بادشاہ کی طرف سے امداد کی امید ختم ہوتی جا رہی تھی۔ بالآخر رومیوں نے حضرت خالد بن ولید کی طرف سونا چاندی اورتحفے تحائف کے ساتھ صلح کا پیغام بھیجا۔ لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ نے جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ فرمایا۔ اچانک آپ نے اہلِ دمشق کو تالیاں بجانے اور فتح کے نعرے لگاتے دیکھا۔معاملہ سمجھنے پر معلوم ہوا کہ رومیوں کی کمک پہنچنے والی ہے۔ اس پر آپؓ نے خوفزدہ ہونے کے بجائے فرمایا لاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم (یعنی تمام طاقت و قوت اﷲ عزوجل کے ساتھ ہے)
حضرت خالد بن ولیدؓ نے مسلمانوں کو ہوشیار کیا اور تیاری کا حکم دے دیا۔ بس پھر کیا تھا ہر بہادر اسلام ننگی تلواریں ، برچھے سنبھالے گھوڑوں کی پیٹھ پر سوار ہوگیا۔
غازی اسلام حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو اطلاع دی اور کہا یا امین میرا ارادہ ہے کہ تمام لشکر کے ساتھ دشمن پر بھرپور حملہ کر دوں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ آپؓ نے فرمایا میری یہ رائے نہیں ہے کہ ہم آگے بڑھ کر حملہ کر دیں۔ کیونکہ اہل دمشق خالی جگہ دیکھ کر یہاں قبضہ کر لیں گے۔ میری رائے ہے کہ ہم اپنے لشکر میں سے ایک جری اور بہادر فنون حرب کے ماہر شخص کو منتخب کرکے مقابلہ کے لیے روانہ کر دیں۔ اس پر حضرت خالدؓ نے فرمایا یاامین الامت ہماری فوج میں ایک ایسا شخص ہے جو موت سے بے خوف ، فن ہرب کا ماہر اور بہادروں پر بازی لے جانے والا ہے۔ آپؓ نے دریافت کیا وہ کون ہے؟ انہوں نے کہا حضرت ضراربن ازورؓ ۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے خوش ہو کر فرمایا بے شک تم نے تجربہ کاراور بہادر سپاہی کو منتخب کیا ہے۔
اس پر حضرت ضرارؓ کو طلب کیا گیا۔ آپؓ نے فرمایا ابن ازور میرا ارادہ ہے کہ میں تم کو 500ایسے جانبازوں کا سالار بنا کر دشمن پر حملہ کے لیے روانہ کروں جنہوں نے اپنی جانیں جنت کے عوض اپنے رب کو فروخت کر دی ہیں۔
حکم سنتے ہی حضرت ضرارؓ خوشی سے جھوم اٹھے اور فرمایا اگر آپؓ اجازت دیں تو میں تن تنہا ہی اس کام کو انجام دے سکتا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے جان بوجھ کر مشکل میں پڑنے سے منع فرمایاہے۔ بہتر یہی ہے کہ جن سواروں کو تمہارے ساتھ منتخب کیا ہے انہیں ساتھ لے جاؤ۔
اتنے میں حضرت ضرارؓ اپنے لشکر کے ساتھ بیت لہیا کی طرف روانہ ہو گئے۔ بیت لہیا ( یہ وہ مقام ہے جہاں آزر بت تراشا کرتے تھے) پہنچ کر آپؓ نے اپنی فوج کو منظم کیا۔ اتنے میں رومیوں کا لشکر پہاڑی سے اترتا دیکھا ۔
حضرت ضرارؓ نے اپنے لشکر کو قریب ہی ایک کمیں گاہ میں چھپا دیا۔ جیسے ہی رومیوں کا لشکر قریب پہنچا۔ سب سے حضرت ضرارؓ نعرہ تکبیر لا کر لشکر پر کود پڑے۔ مسلمانوں نے اپنے سپہ سالار کے نعرہ تکبیر کا بھرپورجواب دیتے ہوئے اس زور سے تکبیریں کہیں کہ مشرکین کے قلوب کانپ اٹھے۔
حضرت ضرارؓ نے مشرکین کے سپہ سالار کو تلاش کیا اور نہایت بے جگری سے اس کے گھر بنے حصار پر حملہ آور ہوگئے۔ آپؓ نے علم اور صلیب لئے ہوئے سواروں کو جنم رسید کر دیا۔ علم اور صلیب کے گرتے ہی والی حمل وروان کو اپنی شکست کا یقین ہوگیا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ آپؓ نے جیسے ہی اسے رخ پھیرتے دیکھا تو اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔ رومیوں نے جب یہ دیکھا تو انوہں نے پیچھے سے بڑھ کر حضرت ضرارؓ کو گھیرے میں لے لیا۔ کافی دیر تک آپؓ رومیوں کے حملوں کا مقابلہ کرتے رہے اور ان کے اکثر بہادروں کو خاک و خون میں نہلا دیا۔ آخر آپؓ نے مسلمانوں کو آواز دی
’’اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کے راستے میں صف باندھ کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں۔‘‘
جب تک مسلمان آپ کی طرف متوجہ ہوتے حمران بن دروان حضرت ضرارؓ تک پہنچ گیا اور آپؓ کے ایسا تیر مارا جو آپؓ کے بائیں بازو میں لگا۔ یہ دیکھتے ہی رومیوں نے آپؓ کو چاروں طرف سے گھیر کر گرفتار کر لیا۔
حضرت خالدؓ بن ولید کو جیسے ہی حضرت ضرارؓ کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو آپؓ کو زبردست صدمہ پہنچا۔ انہوں نے کے ذریعے حضرت ابوعبیدہؓ سے مشورہ کیا اور دشمن کے مقابلہ کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
آپؓ اپنے لشکر کے آگے آگے جا رہے تھے کہ اچانک آپؓ نے بلند قد و قامت شخص کو گھوڑے پر سوار دیکھا جس کی وضع قطع سے شجاعت ٹپک رہی تھی۔ آپؓ اس کے پیچھے ہو لیے۔
حضرت رافع بن عمیرہؓ اپنے سپہ سالار کی گرفتاری کے باوجود نہایت دلیری سے دشمن کا مقابلہ کر رہے تھے کہ انہوں نے حضرت خالدؓ بن ولید کو لشکر سمیت آتے دیکھا۔ لشکر کے قریب پہنچتے ہی ایک شخص بجلی کی سی تیزی سے رومیوں کی صفوں میں جا گھسا اور آناً فاناً بجلی چند جوانوں پر گرتی ہوئی چمکی اور بہت سوں کو بھسم کر ڈالا۔
رافع بن عمیرہؓ اور آپؓ کے عسکریوں کاخیال تھا کہ یہ خالدؓ بن ولید ہیں۔ لیکن یہ غلط فہمی جلد ہی دور ہوگئی۔ جب حضرت خالدؓ کا لشکر آپؓ سے آملا۔ حضرت خالدؓ نے زور سے چلا کر کہا اے دلیر تو کون ہے جو اپنی جان خدا کی راہ میں پیش کر رہا ہے۔ دوسری طرف سے کوئی جواب نہ پاکر حضرت خالدؓ نے کہا مسلمانو! تم بھی اس دلیر کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑو اور متحد ہو کر دشمن کی صفوں کو الٹ کر رکھ دو۔
وہ نامعلوم شخص جو اب دشمن کے تیروں کی زد میں آچکا تھا۔ اس حملہ کے ہوتے ہی لشکر سے آملا۔ حضرت خالدؓ نے ایک دفعہ پھر کہا کہ اے سوار اب تو اپنا نقاب کھول دے تاکہ ہم جان سکیں کہ آخر یہ بہادر ہے کون؟ اس سوار نے ان کے کہنے کی کوئی پرواہ نہ کی۔ ایسے میں حضرت خالدؓ ان کے قریب گئے اور فرمایا آخر تو ہے کون؟
آپؓ کے بے حد اصرار پر نسوانی آواز اندر سے نکلی۔ ’’اے امیر! میں پردہ والی ہوں اس لیے آپؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے شرم آتی ہے۔ آپؓ نے فرمایا اپنا تعارف تو کروائیے۔ انہوں نے کہا۔ضرار جو قید ہو چکا ہے میں اس کی بہن خولہ بنت ازوار ہوں۔ مجھے ضرار کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو فوراً اس کی محبت میں یہاں چلی آئی۔
حضرت خالد بن ولیدؓ یہ سن کر رو پڑے اور فرمایا اب ہمیں ان مشرکین پر زبردست حملہ کرنا ہی ہوگا۔ عامر بن طفیلؓ کہتے ہیں کہ خولہ بنت ازوارؓ نے حضرت خالد کے آگے سے مشرکین پر حملہ کر دیا اور اس کے ساتھ ہی مسلمان بھی دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ دروان کے لشکریوں نے سر کو شروع کیں کہ اگر عرب اس طرح بہادر اور شجاع ہیں تو ہم ان کی تاب نہیں لا سکتے۔ اس کشمکش میں سورج غروب ہو گیا۔ لیکن حضرت ضرارؓ کا کوئی سراغ نہ ملا۔
رات ہوتے ہی اﷲ رب العالمین کی مدد آپہنچی اور دشمن کے کچھ سوار اپنے سردار سے باغی ہو کر مسلمانوں سے آملے اور کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ آپ ہم سے جنگ کی تاب نہیں لا سکتے۔ ہمیں امان دی جائے۔ آپؓ نے فرمایا دمشق کی فتح تک ہم تم لوگوں سے صلح نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد ان سواروں کو گرفتار کر لیا گیا اور ان سے حضرت ضرارؓ کی بابت دریافت کیا۔ باغیوں نے کہا کہ دروان نے سو سواروں کے محاصرہ میں انہیں حمص کی طرف روانہ کر دیا ہے۔ تاکہ وہاں سے وہ دادو تحسین پانے کے لیے انہیں بادشاہ ہرقل کے سامنے پیش کرے۔
یہ سن کر آپؓ بہت خوش ہوئے اور حضرت رافع بن عمیرہؓ کی سربراہی میں سو سواروں کا لشکر اس دستے (جو حضرت ضرارؓ کو حمص لے جا رہاتھا) کے تعاقب میں روانہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ قریب تھا کہ حضرت رافع بن عمیرہ منزل کی جائے روانہ ہوئے ۔ حضرت خولہ بنت ازوار بھی اپنے بھائی کی اطلاع سن کر آپہنچی اور حضرت خالد بن ولیدؓ سے دستے میں شامل کی درخواست کی جسے ان کی بہادری کو دیکھتے ہوئے قبول کر لیا گیا۔ دستے نے تیز رفتاری سے فاصلہ طے کرتے ہوئے ایسی جگہ پڑاؤ ڈالا جہاں دشمن کا دستہ ابھی تک نہ پہنچا تھا۔
حضرت رافعؓ اپنے لشکر کو چھپانا ہی چاہ رہے تھے کہ دور سے گرد و غبار اڑتا دکھائی دیا۔ آپؓ نے دستہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا
جوانانِ اسلام ! ہوشیار ہوجاؤ اور اپنے دشمن سے اپنے سالر کو چھڑاؤ۔ یہ کہنا تھا کہ دستہ کے قریب پہنچتے ہی حضرت خولہؓ نے زور سے تکبیر کہی اورحملہ کر دیا۔ اس کے ساتھ دوسرے مسلمان بھی تکبیر میں دشمن پر حملہ آور ہوگئے۔ محض چند لمحوں میں دشمن کے تمام سواروں کو ہلاک کرکے حضرت ضرارؓ کو چھڑا لیاگیا۔ حضرت ضرارؓ نے اپنی بہن کو شاباش اور مرحبا کہا۔ یہ اشعار بھی پڑھے (ترجمہ یارب میں آپ کا شکر اداکرتا ہوں ۔ آپ نے میری دعا قبول فرمائی۔ میرا رنج دور کر دیااور میری بے چینی کو ہٹا دیا)
ابھی حضرت رافعؓ اور ان کے ساتھ مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہی تھے کہ اچانک روحی حضرت خالدؓ سے شکست کھا کر حسن اتفاق سے ادھر ہی آنکلے۔ حضرت رافع نے جب یہ دیکھا تو ایک ایک کرکے سب کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ ا ن کے تعاقب میں حضرت خالد بھی اپنے لشکر کے ہمراہ یہاں پہنچ گئے اور حضرت ضرارؓ کو ان کی رہائی کی مبارکباد دی۔ یہاں سے وہ شاداں و فرحاں دمشق کی طرف لوٹے اور حضرت ابو عبیدہؓ کو فتح کی خوشخبری سنائی۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top