skip to Main Content

دس سیکنڈ کا کھیل

حماد ظہیر

 ………………………………….
یہ تحریر پڑھنے سے قبل ایک قلم، کاغذ اور اسٹاپ واچ بھی ہمراہ رکھیں۔۔۔

………………………………….

شجاعت مرزا نے ایک نیا شغل دریافت کیا۔ بولے ’ ہیں۔۔۔ ہیں۔۔۔ میں دراصل تم لوگوں کے درمیان ایک مقابلہ کرانا چاہتا ہوں!‘‘ جملہ کی ابتدا میں وہ اسی طرح ہنہنانے کی مشق کیا کرتے تھے۔
’’ ہمیں نہیں حصہ لینا کسی تقابلے مقابلے وغیرہ میں۔ انعام ونعام تو ہوتا نہیں، بس فضول میں وقت ضائع کراتے ہیں۔‘‘ ہم نے اس کی تجویز مکمل طور پر رد کی۔
’’چلو ٹھیک ہے، ویسے اس کا انعام کم از کم بھی دس پندرہ روپے تو ضرور ہے، وہ بھی ہر حصہ لینے والے کیلئے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں، جتنی پھرتی دکھاؤ، اتنے زیادہ روپے!‘‘ مرزا نے کندھے اچکائے اور یوٹرن لے لیا۔ ہم تینوں نے بھی یہی کیا۔ ’’روپے‘‘ کا لفظ سن کر لالچ جو پیدا ہو گئی تھی۔
’’ تم بھی کیا یاد کرو گے شجاعت، ہم یہ مقابلہ کرنے کو تیار ہیں، طریقہ بتاؤ!‘‘ ہم بولے۔ 
’’ نا بابا۔۔۔ ناں۔۔۔ میں تو یاد نہ کرسکوں گا، میری یاداشت ویسے ہی بہت کمزور ہے۔ اگر تم یاد کر سکو تو بتاؤں!‘‘ شجاعت نے اپنے سر پر ایک چپت لگاتے ہوئے چوٹ دراصل ہم پر کی۔
’’ٹھیک ہے یار، ہم بھی کیا یاد کریں گے ، اب مقابلے کی تفصیل بتاؤ! ‘‘ عادل نے بے چینی میں ہار ہی مان لی۔
’’آسان سا ہے۔‘‘ مرزا بولے اور جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ تلاش کرنے لگے۔ ہم سب کی نظریں منتظر تھیں کہ نہ جانے جیب سے کیا نکلنے والا ہے۔
ایک رومال نکلا جس سے مرزا نے اپنی ناک صاف کی۔ پھر کھنکھار کر بولے۔
’’ بس تم سب ایک ایک کاغذ اپنے ہاتھ میں اور قلم سامنے رکھو!‘‘
’’ ہم نے ادھر ادھر سے لے دے کر مطلوبہ چیزیں جمع کیں۔ 
’’ معاف کرنا، قلم ہاتھ میں اور کاغذ سامنے!‘‘
ہم جھلا کر کچھ کہنے ہی لگے تھے کہ شجاعت مرزا کو اپنی گھڑی پر اسٹاپ واچ سیٹ کرتا دیکھ کر چپ ہو رہے۔ 
’’ جب میں کہوں گا شروع۔۔۔ تو تم سب نے ان کاغذوں پر نو کا ہندسہ بنانا ہے، اور اس وقت تک بناتے رہنا ہے جب تک میں ختم نہ کہہ دوں۔ دس سیکنڈ بعد میں ختم کہوں گا تو ہاتھ روک دینا، جس نے جتنے ۹ بنائے اس کو اتنے ہی روپے انعام میں ملیں گے۔‘‘
’’اچھا ۔۔۔ یہ بات ہے۔۔۔ چلو بولو۔‘‘ ہم آستین چڑھا کر گویا کمر کس کر بولے۔عادل اور فرحان بھی سیدھے ہو گئے۔ 
’’شروع! !!‘‘ شجاعت نے گویا ریس شروع کرائی اور ہم سب نے تیزی سے قلم کاغذ پر چلانے شروع کر دیئے۔ 
ہم نے قلم عادل سے لیا تھا، وہ چلتا ہی نہ تھا۔ ہم نے اتنی زور زور سے چلایا کہ صفحہ پھٹ گیا لیکن وہ نہ چل کے دیا۔ 
’’دوبارہ دوبارہ۔۔۔ میرا قلم خراب ہے۔‘‘ ہم چلائے جا رہے تھے جبکہ وہ دونوں قلم چلائے جا رہے تھے۔ شجاعت نے بھی کوئی توجہ نہ دی اور نظریں گھڑی پر رکھیں!
’’ختم! ‘‘ وقت ختم ہوا تو دونوں نے جلدی جلدی اپنے نو گنے۔ پندرہ اور انیس جواب آیا۔
’’شجاعت! یہ کیا بدتمیزی ہے۔ تمہیں مقابلہ روک دینا چاہیے تھا۔ چلو دوبارہ کرو!‘‘ ہم بھنا کر بولے۔
’’ایں۔۔۔ ایں۔۔۔ عادل کو ملیں گے پندرہ روپے اور فرحان کو انیس!‘‘ اس نے جھٹ پٹ پیسے ان دونوں کی طرف بڑھائے۔
’’ نہیں نہیں ۔۔۔ یہ مقابلہ دوبارہ ہو گا۔ ‘‘ ہم نے اس کا ہاتھ پکڑا۔
’’ کیوں بھئی۔۔۔ کیا خیال ہے؟ یہ مقابلہ دوبارہ کرا لیا جائے؟ ‘‘ شجاعت نے ہم پر ترس کھاتے ہوئے ان دونوں سے پوچھا۔ 
’’ ہاں ہاں ضرور۔۔۔ ہم قطعاً پھرتی نہیں دکھا سکے۔ اب کریں گے ذرا صحیح سے، تو پچیس تیس بار تو آرام سے لکھ لیں گے!‘‘
’’ بس میرے پیسے اور خرچ کراؤ گے۔‘‘ شجاعت نے دوبارہ گھڑی سنبھالی۔
’’ اور ہاں اچھی طرح قلم وغیرہ چیک کر لو۔ بعد میں مت کہنا کہ یہ ہو گیا!‘‘ مرزا منہ بنا کر بولے پھر انہوں نے حسب سابق، ’’ شروع‘‘ اور ’’ختم‘‘ بولا۔
ہم نے بھی جلدی جلدی گنے، چوبیس تھے، جبکہ فرحان کے ستائیس اور عادل کے پچیس!
شجاعت نے ہمیں انہی نمبروں کے مطابق روپے پکڑائے! ہم حیران ہو کر بولے۔ 
’’ اتنی فیاضی کی کوئی خاص وجہ؟؟‘‘
’’ ابھی بتاتا ہوں، شجاعت نے پھر جیب میں ہاتھ ڈالا۔ ہم سمجھ گئے کہ ایک بار پھر ناک کی شامت آئی۔
’’دوبارہ کب کھیلو گے یہ کھیل؟‘‘ فرحان مسکرا کر بولا۔
’’ابھی بتاتا ہوں۔‘‘ شجاعت کا ہاتھ بدستور جیب میں مچل رہا تھا۔
’’رومال باہر نکال کر ہاتھ صاف کرلو، ہم کھا نہیں جائیں گے اسے، کیا جیب کے اندر ہی کاروائی میں لگے ہو!‘‘ ہم اکتا کر بولے۔
ہاتھ باہر آیا تو اس میں کوئی کارڈ تھا۔ ہم صحیح سے دیکھ نہ سکے۔ اس نے وہ ہمیں دکھانے کے بجائے سوال کیا۔
’’ جن دس سیکنڈوں میں تم لوگوں نے نو لکھے، ان میں تم کیا سوچ رہے تھے؟؟‘‘
’’ سوائے زیادہ سے زیادہ نو لکھنے کے اور تو کچھ نہ سوجھا تھا۔‘‘
’’ تم میں سے کتنوں نے ان دس سیکنڈوں میں سر کھجایا یا ناک پر سے مکھی اڑائی۔ جو کہ ان موقعوں کی تلاش میں ہوتی ہے!‘‘
’’ کسی نے نہیں!‘‘ عادل ہم دونوں کو دیکھتے ہوئے بولا۔ 
’’ پلکیں تو ضرور ہی جھپکائی ہوں گی۔ یہ تو معمول کی بات ہے!‘‘ شجاعت نے گویا تائید چاہی۔
’’ نہیں بھائی! ہم تو پلکیں جھپکانا بھی بھول گئے۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے اس دوران میں سانس بھی لی تھی یا نہیں !‘‘
’’ہا ہا ہا ۔۔۔چلویہ بتاؤ کہ اگر میں یہ مقابلہ دوبارہ کراؤں۔۔۔‘‘ شجاعت کی بات درمیان ہی میں تھی کہ ہم تینوں ایک ساتھ بولے۔
’’ ہاں ۔۔۔ ہاں۔۔۔ ہاں!‘‘
’’ اور ہر نو لکھنے پر ایک روپے کے بجائے ایک ہزار کا نوٹ دوں تو کیسا رہے گا!‘‘
ہم لوگوں کو اپنی شجاعت پر ۔۔۔معاف کیجئے گا اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔
شجاعت کہہ رہا تھا ’’ اور وقت کو دس سیکنڈ کے بجائے دس منٹ کر دوں‘‘
’’ تم دنیا کے سب سے امیر آدمی نہیں ہو شجاعت!‘‘ ہم باوجود دھچکا کھانے کے شجاعت کو ہوش دلاتے ہوئے بولے۔
’’ میں تو نہیں ہوں۔ لیکن ایک دولتمند ترین کی طرف سے ایسا مقابلہ شروع ہونے والا ہے۔‘‘
’’ کہاں۔۔۔ کب۔۔۔ جلدی بتاؤ؟؟‘‘ ہم لوگ بے چینی سے بولے۔
اب شجاعت نے اپنے ہاتھ میں پکڑے کارڈز ہماری طرف بڑھائے۔
’’ اس میں لکھی ہیں کچھ تفصیلات!‘‘
ہم نے دیکھا وہ سحر و افطار کا نقشہ اوقات تھا، برائے رمضان المبارک! 
’’ یہ کیا؟‘‘
’’تم دس منٹ کی بات کر رہے تھے یہاں پورا ماہ حاضر ہے۔ میرے کھیل کے دس لمحوں میں اگر دس ہزار روپے فی سیکنڈ ملیں تب بھی وہ اتنے اہم اور قیمتی نہ ہوں جتنے رمضان المبارک کے پل ہیں۔ ہر نفل کا ثواب ستر گناہ، یعنی فرائض کے برابر اور ہر فرض کا ثواب ستر فرائض، بس یہ سمجھو کہ ہر 9لکھنے پر ستر ہزار روپے انعام۔‘‘
شجاعت نے ہمیں واقعی سوچ میں ڈال دیا تھا۔ 
’’ اب چاہیے تو یہی کہ تم لوگ۔ مجھ سمیت رمضان کی ایسی ہی قدر کرو کہ آنکھ جھپکانا تو دور کی بات اﷲ کی یاد اور ذکر میں ایسا دل لگاؤ کہ سانس لینا بھی بھول جاؤ۔‘‘ شجاعت واعظ کا روپ اختیار کر گیا۔
’’ بھائی، یہ سب کہنا بہت آسان ہے۔ مگر کیا کیسے جائے۔‘‘ ہم ٹھنڈی سانس بھر کر بولے۔
’’ بھائی یہ سب کرنا بہت آسان ہے۔۔۔‘‘ شجاعت بالکل ہمارے انداز میں بولا۔
’’ بس ٹائم ٹیبل پکا رکھو۔ کس وقت قرآن کی تلاوت کرنی ہے، کس وقت ترجمہ اور تفسیر پڑھنی ہے۔ متعین کر لو اور اس سے کھسکو نہیں۔ فارغ وقت میں، سفر میں یا لیٹے بیٹھے زبان کو خالی نہ چھوڑو کہ ایک سبحان اﷲ ، ایک الحمد اﷲ ، ایک اﷲ اکبر اور ایک لاالہ الا اﷲ پر اس سے بہت زیادہ ملے گا جو ایک 9لکھنے پر آپ کو مل چکا ۔‘‘ شجاعت نے سمجھایا۔
’’ میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ سو سو مرتبہ انہیں پڑھنے پر سو غلام آزاد کرانے کا ثواب، سو اونٹ قربان کرنے کا ثواب اور سو گھوڑے سازو سامان کے ساتھ جہاد پر بھیجنے کا ثواب ہے!‘‘ فرحان بولا۔
’’ ہاں بھئی فضائل تو بہت ہیں۔ بس ہم عمل کرنے والے بنیں یہ سوچ کر کہ خدا فیاض اور غنی ہے، بہت دے گا۔ اس طرح رات کو بھی سورہ اخلاص، تیسرا کلمہ، سورہ فاتحہ وغیرہ چار چار بار پڑھنے پر بھی بہت ثواب ہے۔ اسی میں سو گئے تو ساری رات عبادت میں شمار ہو گی۔ ان شاء اﷲ‘‘
’’یار شجاعت۔۔۔ آج تو تم کسی مولوی کا سا نقشہ پیش کر رہے ہو!‘‘ ہم نے موضوع پلٹنے کی کوشش کی۔
’’ بھائی فائدہ دکھائی دیتا ہے تو بندہ سب کچھ بن جاتا ہے۔ یہ سب میں بے مقصد نہیں بتا رہا، بلکہ ان تمام باتوں پر جو بھی عمل کرے گا، اس کا ثواب مجھے بھی ملتا رہے گا!‘‘ شجاعت ہاتھ جھاڑ کر چل پڑا اور ہم سوچنے لگے کہ ہم ان باتوں کو مزید کس کس کے گوش گذار کر سکتے ہیں۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top