skip to Main Content

خوشی نہیں دیتے

عبدالرشید فاروقی
۔۔۔۔۔۔۔

”ابا جان! ایک سو روپے دیں، اشد ضرورت ہے۔“ شاہد نے آہستہ سے کہا۔
”کیا کہا…… سو روپے……“
”جی سو روپے……“
”شاہد بیٹا! میں دیکھ رہا ہوں، چند دنوں سے تم فضول خرچ ہو رہے ہو۔“ انہوں نے اُسے عینک کے اُوپر سے گھورتے ہوئے کہا۔
”میں فضول خرچ نہیں ہوں، مجھے سو روپوں کی ضرورت ہے۔ پلیز! جلدی دے دیں ……“ شاہد اُن کے قریب بیٹھ گیا۔
”یہ لو……یاد رہے، آئندہ نہیں دوں گا، تمہیں اپنے اخراجات کو کنٹرول کرنا چاہیے۔“ انہوں نے سور وپے کا نوٹ نکال کر اُس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔
شاہد اُن سے سوروپے لے کر سیدھا، اپنے دوست محمداقبال کے گھر پہنچا۔ اقبال اُسے گھر کے دروازے کے باہر ہی مل گیا۔ وہ اُسی کا انتظار کر رہا تھا:
”یہ لو سو روپے،لیکن ابا جان نے آئندہ نہ دینے کا کہہ دیا ہے۔“شاہد نے اُسے نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا۔
”اوہ، لیکن اُس کا کیا بنے گا! کیا آج کے بعد اُس کی امداد بند ہوجائے گی؟“ اقبال نے نوٹ لے کر جیب میں ڈالتے ہوئے کہا۔ اُس کے چہرے پر فکر مندی کے آثار تھے۔
”نہیں، میں اُس کی امداد بند نہیں کروں گا۔“ شاہد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”لیکن تمہارے ابا جان نے آئندہ پیسے دینے سے انکار کر دیا ہے اور تم کہہ رہے ہو، اس کی امداد بند نہیں کرو گے۔“ اقبال نے حیرت سے اُسے دیکھا تو وہ مسکرانے لگا:
”تم بے فکر رہو، اُس کی امداد بند نہیں ہو گی، ان شاء اللہ۔“
”اچھی بات ہے، اب میں چلتا ہوں، وہ میرا انتظار کر رہا ہو گا……“ اقبال نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ہاں تم جاؤ، مجھے بھی دیر ہو رہی ہے……“ شاہد نے کہا۔
اقبال وہاں سے چل دیا۔شاہد اُسے دُور جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو وہ اپنے گھرکی جانب قدم بڑھانے لگا۔

O

موسم بہت سہانا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ایک پلازے کے سامنے پارکنگ ایریامیں ایک بڑی سی کار آکر رُکی۔اُس کا مالک جیسے ہی باہر نکلا، ایک لڑکا تیزی سے اُس کی طرف لپکا:
”صاحب! گاڑی پر کپڑا مار دوں ……؟“
کار سے اُترنے والے صاحب نے پہلے گھو رکر اُسے دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے بولا:
”ہاں ماردو کپڑا……“ یہ کہہ وہ پلازے میں چلا گیا اور لڑکا کپڑے سے کار صاف کرنے لگا۔
کار کا مالک پلازے سے لوٹا تو لڑکااُس کا انتظار کر رہا تھا:
”صاحب! گاڑی صاف ہو گئی ہے……“
کار کے مالک نے بٹوے سے پچاس روپے نکال کر اُس کے ہاتھ پر رکھ دیے اور کار کی طرف بڑھ گیا۔ لڑکا پچاس روپے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اُسی وقت پارکنگ ایریا میں ایک اور کار آ کر رُکی۔ وہ فوراً اس کی جانب لپکا۔

O

”کہاں سے آرہے ہو؟“وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا، اُس کے ابا جان کی آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی۔
”اپنے دوست اقبال سے ملنے گیا تھا۔ تھوڑی دیر ہو گئی، معاف کر دیجیے۔“ شاہد نے سر جھکا کر ادب سے کہا۔
”بیٹے! میں جانتا ہوں، تم ایک قابل لڑکے ہو، بہت حساس ہو، لیکن میں دیکھ رہا ہوں، تم کچھ دنوں سے بدل گئے ہو۔ بیٹے کیا بات ہے، کوئی مشکل ہے تومجھے بتاؤ……؟“شاہد کے ابا جان نے پیار سے کہا۔
”کوئی مشکل نہیں ابا جان، آپ فکر مند نہ ہوں، سب ٹھیک ہے۔“ شاہد نے ادب سے کہا۔ وہ نظریں نیچے کیے بیٹھا تھا۔
”ٹھیک ہے، اب تم جاؤ اور کھانا کھا لو……“
”شکریہ ابا جان، آپ بہت اچھے ہیں۔“ شاہد نے مسکراتے ہوئے کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

O

وہ اپنے کمرے میں بیٹھے تھے۔ اُن کی بیگم نے اُن کی طرف دیکھا، بولیں:
”میں نے شاہد کے بارے میں ایک بار پہلے بھی آپ سے کچھ کہا تھا۔“
”ہاں کہا تھا، میں نے اُس سے بات بھی کی تھی۔ بیگم! میرا خیال ہے، آپ بلا وجہ فکرمند ہورہی ہیں۔“ وہ مسکرائے۔
”وہ روزانہ پانچ بجے گھر سے نکل کرقریباً ساڑھے چھ بجے واپس آتا ہے، یہ فکر والی بات نہیں آپ کے نزدیک؟۔اُس کا یہ معمول کچھ دنوں سے ہے، اس سے پہلے وہ کہیں نہیں جاتا تھا۔“ بیگم صاحبہ نے کہا۔
”وہ تو ٹھیک ہے لیکن مجھے شاہد پر مکمل اعتماد ہے۔ مجھے یقین ہے، وہ کوئی غلط کام نہیں کرتا ہو گا……“
”میں بھی ایسا ہی سمجھتی ہوں لیکن وہ اس دوران جاتا کہاں ہے، یہ تو پتا کیجیے؟“ انہوں نے بُرا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
”میں آج معلوم کرنے کی کوشش کروں گا، تم ایک گلاس پانی لے آؤ۔“ محمود صاحب نے مسکرا کر کہا۔ بیگم صاحبہ اُٹھ کر پانی لینے چلی گئیں۔
”یہ لیجیے پانی……“
وہ پانی پینے لگے۔ بیگم محمود اُن کے پاس ہی بیٹھ گئیں۔ اس وقت چھ بج رہے تھے۔ وہ عام طور پر سات بجے گھر آجاتے تھے، لیکن آج اُن کی طبیعت اچھی نہیں تھی، اس لیے وہ وقت سے پہلے آگئے تھے۔ساڑھے چھ ہوئے،پھر پونے سات، آخرساڑھے سات بج گئے لیکن شاہد گھر نہیں لوٹا تھا۔ وہ فکر مند ہوگئے۔
”اللہ خیر کرے، وہ ابھی تک نہیں آیا، پہلے ٹھیک ساڑھے چھ بجے وہ گھر میں ہوتا تھا۔“ بیگم صاحبہ نے کہا۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا، اُن کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا تھا۔محمودصاحب کمرے سے نکل کر باہر صحن میں آگئے اور بے چینی سے ٹہلنے لگے تھے۔ وہ خاصے پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ اُن کی بڑی بیٹی نازیہ بھی اُن کے پاس چلی آئی تھی:
”آج اُسے کیا ہوا، کہاں رہ گیا ہے وہ؟“
”میں نے تو پہلے ہی کہا تھا لیکن آپ نے توجہ نہ دی، اب دیکھیں!“
”مجھے یقین ہے، میرا شاہد غلط راستے پر نہیں۔“
”وہ تو ٹھیک ہے، لیکن وہ……“ وہ کہہ رہی تھیں کہ اچانک آہٹ ہوئی۔ دونوں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔ اُن کے سامنے شاہد کھڑا تھا۔ ہمیشہ کی طرح گردن نیچے جھکائے۔
”آگئے تم……؟“ انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”جی ابا جان…… تھوڑی دیر ہوگئی مجھے۔“ وہ منمنایا۔
”بیٹا! تھوڑی نہیں، آج تو بہت زیادہ دیر ہوگئی ہے۔“ بیگم محمود نے تڑ سے کہا۔
”جی……جی،واقعی آج زیادہ دیر ہوگئی، معافی چاہتا ہوں۔“اُس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔
”کہاں رہ گئے تھے تم؟“
”وہ ……وہ …… امی جان……“ اُس نے کہنا چاہا۔
”نماز عشا کے بعد بات ہوگی، اب جاؤ۔“ محمود صاحب کی بات سن کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔
”آپ نے ابھی کیوں نہ پوچھ لیا اُس سے؟“ نازیہ نے اُن کی طرف دیکھا۔
”بیٹی! ابھی بات کرنا مناسب نہیں تھا۔ رات کو تفصیل سے اُس سے پوچھیں گے۔“ وہ مسکرائے۔
اُن کی بات سن کر وہ بُرے بُرے منہ بنانے لگی۔

O

کھانے اور نماز سے فارغ ہوکر وہ سب ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے۔ ابا جان نے شاہد کومخاطب کیا:
”ہاں بھئی! اب بتاؤ، کیا کرتے پھر رہے ہو اِن دنوں، کہاں ہوتے ہو پانچ سے ساڑھے چھ بجے تک اور آج اتنی دیر کہاں لگادی؟“
”ارے…… ارے…… ایک ساتھ اتنے سوال؟“ بیگم محمود گھبرا گئیں۔جواب میں وہ مسکرادیے۔ شاہد نے باری باری سب پر ایک نظر ڈالی، پھر کہنے لگا:
”ابا جان! آپ ہمیشہ کہتے تھے، نیکی اس طرح کرو کہ کسی کو معلوم نہ ہو۔ ڈھول بجا کر نیکی کرنا، اچھی بات نہیں ہے، اس سے اجر ضائع ہوجاتا ہے، پس میں ان دنوں چپکے چپکے ایک نیکی کر رہاتھا……“
”کر رہا تھا…… کیا مطلب؟“ وہ چونکے۔
یکایک شاہد کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اُس کے اباجان، امی جان اور نازیہ باجی حیران رہ گئے:
”ابا جان! میرا ایک دوست ہے۔“ شاہد نے کہنا شروع کیا:
”محمداقبال…… وہ میرا کلاس فیلو بھی ہے۔ ایک دن اُس نے مجھ سے کہا کہ اس کا ایک دوست بہت غریب ہے۔ بے چارے کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق ہے لیکن غربت کی وجہ سے وہ پڑھ نہیں سکتا۔ اُس نے کہا، ہم دونوں مل کر اس کی مدد کرتے ہیں۔ ہر روز کچھ نہ کچھ اُسے دے دیا کریں گے۔میں نے اُس کی بات مان لی اور یوں ہم اُس کے دوست کی مدد کرنے لگے۔ میں آپ سے ہر دوسرے دن اپنی جیب خرچ سے زیادہ پیسے لینے لگا۔ آپ کو حیرت ہوئی کہ آخر میں اتنے پیسوں کا کیا کرتا ہوں۔ چناں چہ آپ نے پیسے دینے بند کر دیے،اِس پر میں پریشان ہو گیا۔ پھر ایک ترکیب میرے ذہن میں آ گئی اور میں مطمئن ہو گیا۔ دراصل میں اقبال کے دوست کی خاطر کام کرنے لگا تھا۔“
اتنا کہہ کرشاہد خاموش ہوا تو اُس کے ابا جان چلا اُٹھے:
”کیا کہا…… تم اُس کی خاطر کوئی کام کرنے لگے تھے؟“
”جی ہاں! میں روز پانچ سے چھ بجے تک پلازے کے سامنے پارکنگ ایریا میں کاروں پر کپڑا مارنے لگاتھا۔ اس کام سے جو پیسے ملتے، وہ میں اقبال کو دے دیتا۔ پانچ،چھ دن اِسی طرح گزر گئے۔ آج میرے دل میں خیال آیا، میں جس کی مدد کر رہا ہوں، اُسے ایک نظر دیکھوں تو سہی، چناں چہ اقبال مجھ سے پیسے لے کر گیا تو میں چپکے سے اُس کے پیچھے ہو لیا۔ میں نے دیکھا، وہ مختلف راستوں سے ہوتا ہوا، ایک تنگ سی گلی میں داخل ہو گیا۔ پھر وہ ایک خستہ حال مکان میں داخل ہوا۔ میں سمجھا، شاید یہی اُس کے دوست کا گھر ہے۔ میں دروازے سے ذرا ہٹ کر، ایک گری ہوئی دیوار کی اوٹ میں ہوگیا اور اقبال کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا۔ پانچ منٹ بعد وہ باہر نکلا تواُس کے دائیں ہاتھ میں ایک سگریٹ پکڑا ہوا تھا۔ میں حیران رہ گیا۔ جب وہ اندر داخل ہوا تھا تو اس کے ہاتھ میں سگریٹ نہیں تھا۔ وہ سگریٹ کا کش لگاتا ہوا گلی سے نکل گیا۔ یہ سب دیکھ کر میرے ذہن میں عجیب عجیب خیالات آ رہے تھے۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔میں جاننا چاہتا تھا، اقبال یہاں کیوں آتا ہے اور اُس کے ہاتھ میں سگریٹ کیسا تھا۔ اُس نے میرے سامنے تو کبھی سگریٹ نہیں پیا تھا۔حقیقت جاننے کے لیے میں اس خستہ حال مکان کے دروازے پر پہنچا اور دستک دی۔ فوراً ایک بوڑھا باہر نکلا۔ اُس کی سرخ آنکھوں میں تیز چمک تھی۔ مجھے دیکھتے ہی بولا:
’کیا بات ہے……؟‘
’جی وہ…… ابھی ابھی ایک لڑکا اقبال یہاں سے گیا ہے……‘ میرے منہ سے نکلا۔
’ہاں گیا تو ہے، کیا اس نے ایک اور سگریٹ منگوایا ہے…… اگر ہاں تو نکالو پیسے……‘وہ مسکرایا۔
’وہ یہاں سگریٹ لینے آتا ہے……‘
’ہاں، اس لیے کہ میں سگریٹ کے علاوہ کچھ اورنہیں بیچتا۔‘ بوڑھے نے ہنس کر کہا۔ اُس کی ہنسی معنی خیز تھی۔
’آپ کا کوئی بیٹا بھی ہے؟‘ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
’نہیں، میرا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ تم یہ سب کیوں پوچھ رہے ہو لڑکے؟‘ اُس نے چونک کر کہا تھا۔
یہ سن کر مجھے ایک دھچکا لگا۔ میرے ذہن میں جو خدشہ تھا، وہ درست ثابت ہورہا تھا۔ اقبال غریب دوست کی مدد کے نام پر مجھ سے پیسے بٹور کر اپنا نشہ پوراکر رہا تھا۔
حقیقت جان کر میں دنگ رہ گیا۔ مجھے اقبال پر بہت غصہ آ رہا تھا۔اُس نے مجھے دھوکا دیا تھا، بے وقوف بنایا تھا مجھے۔ میں وہاں سے پلٹا اور سیدھا اُس کے گھر پہنچا:
’پیسے دے آئے اپنے دوست کو……‘
وہ مجھے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔
’ہاں، لیکن تم اس وقت یہاں، کیا گھر نہیں گئے……؟‘وہ حیران تھا۔
’تمہیں پیسے دینے کے بعد آج میں گھر نہیں گیا، بلکہ میں نے تمہارا پیچھا کیا تھا……‘
’کیا…… کہا…… تم نے میرا پیچھا کیاتھا……اوہ۔‘ وہ چلا اُٹھا۔
”مجھے سگریٹ والے بابا بالکل اچھے نہیں لگے میرے دوست۔‘
’اوہ…… اوہ……اوہ……‘ وہ سر پکڑ کر بیٹھتا چلا گیا۔ میری نظروں میں کبھی نہ اُٹھنے کے لیے۔“
شاہد چپ ہو گیا تھا۔ اب وہ لمبے لمبے سانس لے رہا تھا، جیسے بہت طویل سفر طے کرکے آیا ہو۔اُس کا سر جھکا ہوا تھا۔
”والدین سے چھپ کر کیے گئے کام کبھی خوشی کا باعث نہیں ہوتے……کبھی خوشی نہیں دیتے میرے اچھے بیٹے۔“ ابا جان کی بات سن کرشاہد کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

OOO

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top