skip to Main Content
حل+واہ

حل+واہ

 محمد الیاس نواز

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منوں حلوا سامنے رکھے بیٹھا ہے اور کھاتا نہیں،کہیں حلوائی اندھا تو نہیں…..

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حلوا بلا شک و شبہ ہرزمانے میں اور ہر خطے میں ایک انتہائی اہم غذا رہی ہے۔اسکا استعمال زمانہ قدیم سے ہی کہیں غذا اور کہیں دوا کے طور پر تو کہیں دونوں حوالوں سے ہوتا آیا ہے مگر آج تک انسان یہ معلوم نہیں کر سکا کہ یہ شاندار چیز انسان کو جنت سے عطا کی گئی یا دنیا میں سکھائی گئی۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حلوا بنی اسرائیل کو عطا کیا گیا مگر اسکا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ من وسلویٰ میں حلوا بھی شامل تھا۔ارے صاحب’’بنی اسرائیل کیا جانیں حلوے کا سواد‘‘۔جبھی تو ہمارے ہاں کا ایک غریب دعا کر رہا تھا’’یارب!بنی اسرائیل پر تونے جو عنایات کیں ہم وہ نہیں مانگتے ۔من و سلویٰ نہ دے من حلوا ہی دیدے۔
حلوے کی تاریخ کے بارے میں مؤرخین میں شدید اختلاف ہے،البتہ اس بات پر سارے بڑے ماہر حلویات متفق ہیں کہ زمانہ قبل مسیح میں حلوا سخت اور پھیکا ہوتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ حلوادومراحل سے گزاراجاتا تھا۔پہلے مرحلے میں حلواپکایاجاتاتھا اور دوسرے میں اس کو کھانے کے قابل بنایاجاتا تھا۔
قارئین!یہ دوسرا مرحلہ دلچسبی سے خالی نہیں ہے۔سخت اور پھیکے حلوے کو کسی بڑے برتن میں ڈال کر دستر خوان پر رکھ دیا جاتا تھا ۔پھر سارے خاندان کے افراد حلوے کے حضوربیٹھ کر حلوے کی تعریف شروع کر دیتے تھے۔اور تعریف میں اتنے مبالغے سے کام لیتے تھے کہ وہ’’مجلس خوشامدِ حلوہ‘‘بن جاتی تھی۔اسطرح حلوا آہستہ آہستہ شرم اور مروت(جو اس زمانے میں حلوے میں بھی ہواکرتی تھی) کے مارے میٹھا ہونے کے ساتھ ساتھ نرم بھی پڑنا شروع ہو جاتااور کھانے کے قابل ہوجاتا۔بڑی تقریبات میں اس فن کے ماہر بلائے جاتے تھے۔حامد حلوائی کا خیال ہے کہ وہ حلوا سوہان(جواب بگڑکرسوہن ہوگیا ہے)تھا۔یاد رہے کہ سوہان کا مطلب سخت اور مشکل ہے۔اب یہ ہمیں معلوم نہیں ہو سکا کہ حلوے کو وہ لوگ چاچا،ماما،بھائی جان کہہ کرتعریف کرتے تھے یا کوئی اور طریقہ تھا۔ 
قارئین!حلوا حلال ہے کہ حرام ؟ہم نے اپنے اردو کے پروفیسر سے سوال کیا۔بڑے اہل علم آدمی تھے، کہنے لگے’’دیکھومیاں! حلوہ کھانا چھپا کر کرنے والی عبادت ہے۔اسکو دکھاکر کیا جائے تو ضائع ہو جاتی ہے۔اس لئے اکیلے کھایا جائے تو حلال،کسی کی نظر پڑ جائے تو مکروہ اور کوئی شریک ہو جائے تو حرام ہو جاتا ہے۔پھر انہوں نے ایک حکایتِ حلواسنائی…
تین ’’ح‘‘( حکیم،حجام اور حلوائی) حلوا کھا رہے تھے کہ دو کھاتے کھاتے مر گئے۔ تیسرا روتا بھی رہا اور کھاتا بھی رہا۔یم یم یم یم ..پھر …آں آں آںں ں ….پھر یم یم یم یم آںآںآں۔کسی دیکھنے والے نے کہا کہ اگر مرنے والے ساتھیوں کا اتنا ہی افسوس ہے توحلوا کیوں نہیں چھوڑ رہے ۔تو وہ بولا’’افسوس مرنے والوں کا نہیں ، افسوس اس بات کا ہے کہ جس حلوے کوکھا کر یہ مر گئے ہیں ، اسکو کھا کر میں نے بھی مر ہی جانا ہے مگر یہ حلوارہ جائے گا اور وہ دوبارہ زور زور سے رونے لگا۔وہ تو پھر دیکھنے والے نے تسلی دی کہ اگر حلوا بچ بھی گیا تو ہم تمہاری قبر پر لیپ کر دیں گے تب اسے تسلی ہوئی۔
رنگوں کے لحاظ سے حلوا عموماً کئی خوشنما رنگوں میں دستیاب ہوتا ہے، مگر بعض اوقات اس کے رنگ میں بھنگ بھی پڑتے دیکھا گیا ہے۔ایک مرتبہ ایک شوگر کے مریض چھپ چھپا کر حلوا نوش فرما رہے تھے کہ اوپر سے گھر کا کوئی بچہ نازل ہو گیا اور پھر بات کی خبر بن گئی۔اس وقت حلوے کے رنگ میں اچھا خاصا بھنگ پڑ گیا اور نہ صرف حلوے کا رنگ اڑگیا بلکہ صاحب حلواکابھی(شکرہے ہم نے حنان صاحب کا نام نہیں لے دیا)اور دونوں کی خوشنمائی بھی جاتی دیکھی گئی۔
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ چند دوست حلوے کے تھال کے گرد حصار باندھے بیٹھے تھے کہ ان میں سے ایک صاحب کی اہلیہ کی کال آگئی ’’کہاں ہیں؟‘‘ان صاحب نے جواب دیا’’حلوے کی جنگ میں تھال کے محاذ پر چمچوں سے لیس،حلوے کے حریف (بلکہ حریص)حلوے کو اپنے حصار میں لئے بیٹھے ہیں، حملہ ہوا ہی چاہتا ہے ۔ اللہ حافظ‘‘۔
حلوے اور حریص سے یاد آیا،نواب حاطب حبیب حسرتؔ نے جب الیکشن جیتا تو انکے حامی ٹولیوں کی شکل میں انکی حویلی کی جانب یہ نعرے لگاتے ہوئے آئے۔ ’’آج تو ہوگئی حلواحلوا،آج تو ہوگئی حلواحلوا‘‘ اس وقت تو یہ بات سمجھ نہ آئی مگر جب اچھا خاصا جلسہ بن گیا تو حویلی سے باورچیوں کی ٹیم نکلی اور بتایا کہ سارے مجمعے کیلئے حلوا تیار ہے۔بس اسی دن سے اس حویلی کا نام ہی’’ حلوا حویلی‘‘ اور وہ’’ حلوے والا حاتم ‘‘مشہورہو گئے۔انکا تو بس نہیں چلتا کہ برفی کی اینٹوں پر حلوے کا پلستر کراکے عمارت ہی کھڑی کروالیں۔حاطب حبیب حسرتؔ خود فرماتے ہیں کہ ’’بخدا ہم تو حلوے کے اتنے حق میں ہیں کہ جیسے حواری حاکم کے حق میں۔حلوے کو دیکھ کر حریص کے کہاں حواس قابو میں رہتے ہیں۔آپ حلف لے لیجئے جو کبھی حلوے کے کسی حاجت مندکوہمارے دروازے سے حلوے کے حصول میں کسی حیل و حجت کا سامنا کرنا پڑا ہو‘‘۔سامنے بیٹاحمزہ بیٹھا تھا،وہ بولا’’بخداآپ نے حرف بہ حرف حلوا فرمایا‘‘۔بیگم سے کہنے لگے ’’جس دن حلوا پکاتی ہو حور لگتی ہوحور‘‘۔ انہوں نے پوچھا ’’اورجس دن نہیں پکاتی ؟‘‘ فرمایا ’’حبشن‘‘۔جب حلوا اچھا بنتا تو بجائے کہنے کے کہ کیا غضب کا یا قیامت کا حلوا ہے، فرماتے۔’’ کیا حشر کا حلوہ بنایا ہے، بھئی کیا خود کش حلوا ہے ،واہ واہ چائے میں ڈبو کر کھا کر دیکھوناں…‘‘
اب سنئے، نواب صاحب کے ایک قریبی رشتے دار حسنات صاحب کی بات ۔ایک مرتبہ ہم ان کے ساتھ بازار سے گزر رہے تھے کہ جب حلوائی کی دوکان کے سامنے پہنچے تو موصوف نے ہاتھ دعاء کیلئے اٹھا دئیے۔ ہم بڑے حیران ہوئے۔ بڑے آرام سے دعا مانگنے کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرتے ہوئے فرمایا’’جتنے بھی خدا کے بندے منہ میٹھا کریں اسکا ثواب حسین خاں مرحوم کو پہنچے‘‘۔پہلے توتعجب ہوا مگر پھر ’’حلوائی کی دوکان پر داداجی کی فاتحہ ‘‘ کا مطلب سمجھ میں آگیا۔ اس کے بعد بجائے آگے بڑھنے کے حلوائی کی دوکان میں گھس گئے اور ’’آحلوائی مجھے مار‘‘ والی حرکت کی۔ حلوائی کی آنکھوں میں اپنی دوانگلیاں گھسا دیں۔ حلوائی چلایا ’’ارے کیا آنکھیں پھوڑو گے‘‘اوراچھی خاصی لڑائی بن گئی۔پھراوپر سے حسنات صاحب کے طعنے کہ ’’حلوے کی اوقات میں رہ کر بات کرو‘‘بڑ ی مشکل سے معاملہ رفع دفع ہوا۔جب اس حرکت کی وجہ پوچھی تو فرمایا’’یار منوں حلوا سامنے رکھے بیٹھا ہے اور کھاتا نہیں،دیکھ رہا تھا کہ یہ اندھا تو نہیں۔یہ بات اتنی مشہور ہوئی کہ خود گنگناتے تھے۔

کوبہ کو پھیل گئی با ت حلوائی کی
اس نے برفی کی طرح میری پذیرائی کی

لڑائی سے یاد آیا’’حبیب کی محلے میں کسی سے لڑائی ہوگئی۔حطیب بھی جوش میں باہر نکلا مگر حسیب نے منع کیاکہ تم مت جاؤلیکن وہ کہاں ماننے کوتیار تھا، اچانک حسیب نے کہا’’تمہیں قسم ہے حلوۂ پاک کی جو تم گئے(جیسے سب سے مقدس چیز یہی ہو) ۔یہ سننا تھا کہ جیسے حطیب پر پانی پڑ گیا(بلکہ حلوا پڑگیا) وہ پیچھے مڑ کر صرف اتنا ہی کہہ سکا ’’بھائی جان آپ نے حلوائے پاک کی ہی قسم دے دی‘‘ ….اور پھر لڑائی ختم ….پتا چلا کہ بچپن میں موصوف جب بھی بیمار پڑتے توبخار تک کی دوائی حلوے میں ملا کر دینی پڑتی تھی۔ اور سالگرہ پربھی کیک کی جگہ حلوا ہی کاٹاکرتے تھے۔
حشرنیوز پرحیات حیدری کامشہورپروگرام ’’حسب حلوا‘‘چل رہا تھا ۔وہ فرما رہے تھے’’ہرحلوے کے ہم پر کچھ حقوق ہیں۔مثال کے طور پر اگر حلوا سوجی کا ہوتو یہ اسکا حق ہے کہ اچھی نسل کی سوجی ،عمدہ چینی اور مہنگا گھی استعمال کیا جائے اور انتہائی صاف ستھرے برتن میں بنایا جائے‘‘۔انکاخیال ہے کہ حلیم بھی ایک قسم کا حلوا ہوتا ہے ۔لفظ حلوا کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’ ہر مسئلے کا حل حکمت اور حلوے سے نکالنا چاہئے بلکہ حلوا تو ہے ہی دوالفاظ کا مخفف’’حل‘‘ اور ’’واہ‘‘۔یعنی واہ واہ کیا حل ہے واہ…مگرکثرت استعمال سے پہلے اسکا ’’ہ‘‘غائب ہوگیا اور حلوا رہ گیا اور مزید غلط ہو کر اس میں ’’ہ‘‘لگا دیا گیا اور ’’الف‘‘چلا گیااور اسطرح یہ حلوہ کہلایا‘‘۔پھرحلوے کی افادیت اورغذائیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’ اللہ ہر کسی کو حلوے کے حسد سے بچائے حلوا کھانے والا کبھی حماقت نہیں کر سکتا بلکہ حلوا انسان کا حافظہ بڑھا کر اسے حاضر دماغ اور حاضر جواب بنا دیتا ہے۔ یاد رکھئے! کہ حلوا انتہائی قوت بخش غذا ہے بلکہ بعض’’خادم حلوین شریفین‘‘کا تو خیال ہے کہ یہ اتنی طاقتورغذاہے کہ حلوا کھاتا زندہ ہے مگر قوت مردے کو ملتی ہے‘‘۔ اور انتہائی حیرت کی بات ہے کہ حلوے کو محفوظ کرنے کے بھی وہی دو طریقے ہیں جو انسانی لاش کو محفوظ کرنے کے ہیں۔ یعنی یا تو سرد خانے(فریج)میں رکھ دیاجائے یا حنوط (خشک )کر لیا جائے۔
قارئین!جب ہم نے اپنی تحریر کا ذکراہل علم سے کیا تو ایک ماہر حساب نے کہا’’گھی،چینی اور سوجی کا حاصل ضرب حلوا ہوتا ہے‘‘۔ماہر کیمیا نے کہا’’صحت مند اجزاء کا ایسا مرکب جس میں طاقتور مالیکیول مل کر ایک عظیم غذا کو تخلیق دیں ،حلوا کہلاتی ہے‘‘۔فلسفی نے کہا ’’حلوے کو کھانے اور جلوے کو دیکھنے میں صرف ایک نقطے کا فرق ہے اور اسی میں نکتہ ہے کہ اگر دیکھنے کو ملے تو جلوا اور کھانے کو ملے تو حلوا ،اور دونوں اپنی جگہ بڑی حقیقت ہیں۔شاعر نے کہا’’جس طر ح ایک شعرکے سارے لوازمات کو اچھی طرح برتا جائے تو اچھا شعر بنتا ہے۔اسی طرح حلوے کے اجزاء کو اچھی طرح بھونا جائے تو اچھاحلوا بنتا ہے۔
حارث حلوانی کی گفتگو میں ہم نے مختلف مواقع پر یہ جملے غلطی سے نکلتے سنے’’چوٹ لگ گئی !جلدی سے حلوا لگاؤحلوا ….تمہارے سر میں حلوا تو نہیں بھرا ہوا….بھئی دل حلوا حلوا ہو گیا ہے‘‘۔حلوانی صاحب ایک تقریب میں شریک ہوئے۔ ابھی کھانا نہیں کھلا تھا کہ گھر سے ایمرجنسی بلاوا آگیا ، سب کا خیال تھا کہ انہیں جانا چاہئے مگر انکا خیال تھا کہ حلوہ بڑا اچھا آنے والا ہے اور جب کھانا کھلا تو واقعی انکی اطلاع ٹھیک تھی ، انہوں نے حلوے کو مخاطب کر کے جو لکھا آپ بھی ملا حظہ فرمائیے ؂

ہر شخص کہہ رہا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
اندازہ میرا بجا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
حملہ کرونگا تجھ پہ تو پاگل کہیں گے لوگ
یہ کون سوچتا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
ہم آکے تجھے کھائے بنا واپس نہ جائینگے
یہ فیصلہ کیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
کہتے ہیں لوگ تجھ کوحل واہ مگر یہاں
ایک شخص رک گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

قارئین !حل،واہ سے اجازت دیجئے ، میں چلتاہوں حلوا کھانے …اور آپ پڑھئے یہ شعر ؂

حلوا حلوا کر گئی مجھ کو حلوائی کی یہ بات
تواگر میرا نہیں بنتا نہ بن حلوے کا تو بن

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top