skip to Main Content

حق کی تلاش

نعیم احمد بلوچ
۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کتاب واقعہ شق القمر کے سلسلے کا دوسرا حصہ ہے۔پہلے حصے میں بتایا گیا تھا کہ فیصل اور”اے کے“ہم جماعت تھے۔”اے کے“مذہب سے بیزار تھا اور فیصل پکا مسلمان۔دونوں کے درمیان معجزات پر بحث ہو گئی۔
اس بحث نے طول کھینچا تو بات ان کے استاد فاروقی صاحب تک جا پہنچی۔پھر فاروقی صاحب ہی کی موجودگی میں ایک بھرپور گفتگو ہوئی۔ اس موقع پر کلاس کے تمام طلبہ بھی موجود تھے۔
اس گفتگو میں ایسے ایسے نکتے سامنے آئے کہ ”اے کے“پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔پہلا حصہ جہاں ختم ہوا،وہاں فاروقی صاحب نے بتایا تھا کہ علم صرف اس بات کا نام نہیں کہ آپ کیا جانتے ہیں؟اس چیز کو بھی علم کہتے ہیں کہ آپ کو یہ معلوم ہو کہ آپ کیا جان سکتے ہیں اور کیا نہیں جان سکتے!
اس بات کی وضاحت میں فاروقی صاحب نے موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے ایک واقعے کا ذکر کیا۔دوسرا حصہ اسی جگہ سے شروع ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فاروقی صاحب نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا:
”دیکھئے!قرآن مجید میں موسیٰ علیہ السلام کی سرگزشت بڑی تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔اس سلسلے میں قرآن پاک میں ہے کہ جب فرعون نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کا تعاقب کیا تو موسیٰ علیہ السلام کے سمندر میں عصا مارنے سے راستہ بن گیااور موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل معجزانہ طریقے سے سمندر پار کر گئے لیکن فرعون اور اس کا لشکر ابھی درمیان ہی میں تھا کہ وہ راستہ اللہ کے حکم سے دوبارہ سمندر میں تبدیل ہو گیا اور فرعون لشکر سمیت غرق ہو گیا۔اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ہم نے فرعون کی لاش کوسمندرمیں غرق ہونے کے باوجود محفوظ رکھا ہے تاکہ وہ قیامت تک آنے والے انسانون کے لیے عبرت کا نشان بنے….
اب اگر آپ کے نقطہ نگاہ سے دیکھاجائے تو دو سوال بہت واضح طور پر پیدا ہوتے ہیں۔پہلا سوال تو یہ ہوگا کہ سمندر میںلاٹھی مارنے سے راستہ کیسے بن سکتا ہے؟دوسرا یہ کہ فرعون کی لاش سمندر سے کیسے باہر نکلی اور اگر وہ محفوظ ہے تو کہاں ہے؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو قرآن میں بیان ہونے سے پہلے ہی یہ واقعہ بہت مشہور تھا۔ہزاروں لوگ جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے اور جنہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سارا منظر دیکھا،اس واقعے کے راوی تھے۔اس کا بیان نسل در نسل منتقل ہوتا رہااور ہزاروں لاکھوں لوگ اسے ایک مشہور واقعے کے طور پر مانتے رہے۔
جب آسمانی صحیفوں اور قرآن مجید نے بھی اس واقعے کی شہادت دی تو یہ محض ایک ”سنی سنائی“بات نہ رہی بلکہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت بن گئی۔چنانچہ ہم محض اس بنا پر اس واقعے کا انکار نہیں کر سکتے کہ سمندر میں آناً فاناً راستہ بننا اور اس کا دوبارہ اصلی حالت میں آجانا سائنسی لحاظ سے ناممکن ہے۔اگر ایسا کریں گے تو ہماری مثال اس دیہاتی کی سی ہوگی جس کا گاﺅں دنیا میں ہونے والی سائنسی ترقی سے قطعی ناواقف تھا۔ایک دن اس دیہاتی کا بیٹا شہر گیا،اس نے وہاں بجلی کے بلب،ٹیوبیں اور دوسری متعدد ایجادات دیکھیں۔واپس آکر اس نے اپنے دیہاتی والد کو بلبوں اور ٹیوبوں کے متعلق یہ بتایا کہ اس نے شہر میں ایسے ”چراغ “اور”ڈنڈے“دیکھے جو بغیر تیل کے جلتے ہیں۔ٹی وی کا ذکر کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اس نے ہزاروں میل دور لوگوں کو ایک ”جادو کے ڈبے“میں اس طرح گیند کے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھا جیسے وہ اس کے عین سامنے بھاگ رہے ہوں۔دیہاتی والد نے یہ سن کر اپنا سر پیٹ لیا اور بیٹے کو گاﺅں کے حکیم کے پاس لے گیا کہ میرا بیٹا بہکی بہکی باتیں کررہا ہے،شاید شہر میں کسی پکی(آسیب زدہ)جگہ پر پیشاب وغیرہ کرنے سے اس پر سایہ(جن وغیرہ کااثر) ہو گیا ہے،اس لیے اس کے دماغ کا علاج کیا جائے۔“
فاروقی صاحب کی اس مثال سے کلاس کے لڑکے بڑے لطف اندوز ہوئے اور ہنسنے لگے۔اس سے قبل کہ لڑکے ہنسنے کے بعد آپس میں کھسر پھسر میں مصروف ہوتے،وہ دوبارہ بولے:
”دراصل یہ دیہاتی ہرگز کوئی جاہل یا ان پڑھ شخص نہیں تھا مگر اس کا علم ،اس کی سائنس،اسے یہی بتاتی تھی کہ بغیر تیل کے کوئی چراغ نہیں جل سکتا اور ہزاروں میل دور تو کجا، دیوار کے پیچھے چلتے ہوئے شخص کو کوئی نہیں دیکھ سکتا۔بس ہم بھی معجزات میں اللہ کے کیے ہوئے کاموں کی تکنیک اور سائنسی دلیل سے اتنے ہی واقف ہیں جتنا کہ مثال میں بیان کیا جانے والا دیہاتی۔دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ معجزے اللہ کی جس عظیم ترین قدرت کے تحت ظاہر ہوتے ہیں ،ہم انسان اس کے طریقہ کار سے واقف نہیں اور نہ ہی واقف ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ جس طرح اس دیہاتی کا مذاق اڑاتے ہوئے اسے آپ جاہل اور بے وقوف کہیں گے،اسی طرح ہر معجزے کی سائنسی وجہ معلوم نہ ہونے پر اسے جھوٹ یا غلط قرار دینے کو بھی جہالت اور بے وقوفی کہیں گے۔“
فاروقی صاحب نے اپنی بات مکمل کی تو فیصل سمیت کئی لڑکوں نے فاتحانہ نظروں سے ”اے کے“کی طرف دیکھا جو ہر چیز سے بے خبر فاروقی صاحب کی باتوں میں کھویا ہوا تھا۔
فاروقی صاحب نے کلاس کے لڑکوں کے رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی:
”اور جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ 1898ءسے پہلے کوئی شخص یہ نہیں جانتا تھا کہ قرآن مجید کے دعوے کے مطابق،عبرت کے لیے فرعون کی محفوظ کردی جانے والی لاش کہاں ہے؟یہ تو محض اتفاق کی بات ہے مصر کے عجائب گھر میں رکھی فرعونوں کی ممیوں میں سے ایک ممی کو پھپھوندی لگ گئی….“
فاروقی صاحب نے اتنا کہا تھا کہ ایک لڑکے نے سوال داغا:
”سر!یہ فرعونوں کی ممیاں یعنی ان کی مائیں کہاں سے آگئیں؟“
راشد کے اس معصوم سوال پر بہت سے لڑکے قہقہہ مار کر ہنسنے لگے مگر فاروقی صاحب مسکرائے بھی نہیں۔وہ جانتے تھے کہ طالب علموں کے علمی سوال پر ان کی جہالت کا مذاق اڑایا جائے تو پھر وہ سوال نہیں کریں گے اور سوال نہیں کریں تو جاہل اور بے علم ہی رہیں گے۔اسی لیے انہوں نے اپنی کلاس میں بتا رکھا تھا کہ علم اسے ہی حاصل ہوتا ہے جو سوال کرنے کی جرأت رکھتا ہو،شرمانے یا خاموش رہ جانے والا جاہل رہتا ہے۔
انہوں نے راشد کو شاباش دی اور کلاس کو خاموش کراتے ہوئے بولے:
”دراصل مصری اپنے بادشاہوں کو”فرعون“کہتے تھے۔ان کے ہاں یہ دستور تھا کہ بادشاہوں اور شاہی خاندان کے دوسرے اہم افراد کو مرنے کے بعد حنوط کیاجاتا یعنی دوا وغیرہ لگا کر ان کی لاشوں کو محفوظ کرلیتے تھے، مزید یہ کہ لاش کو اس کی دولت اور دوسرے قیمتی سامان کے ساتھ بڑے اعزاز کے ساتھ زمین دوز مقبروں میں محفوظ رکھتے۔یہ زمین دوز مقبرے قبریں ہوتیں جن میں بڑے بڑے خزانے بھی ہوا کرتے تھے،چنانچہ ہزاروں سال گزرنے پر لوگ ان کی تلاش میں رہتے۔بعد میں مصری حکومت نے ان تمام مقبروں کو اپنے قبضے میں لے لیا اور یہاں سے نکلنے والی ممیوں(یعنی حنوط شدہ لاشوں)اور خزانوں کو عجائب گھر میں منتقل کردیا۔میں نے اسی عجائب گھر میں رکھی ایک ”ممی“یعنی ایک فرعون کی حنوط شدہ لاش کا ذکر کیا ہے۔
یہ ممی 1898ءمیں دریافت ہوئی اور 1907ءمیں اس کا معائنہ کرکے اسے عجائب گھر میں رکھا گیا۔ویسے تو اسی وقت یہ ثابت ہو گیا تھا کہ یہ ممی موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرنے والے فرعون کی ہے۔دراصل اس ممی پر لپٹی ہوئی پٹیوں کو جب کھولا گیا تو اس پر سمندری نمک پایا گیا تھا۔اس سے یہ معلوم ہواکہ اس ممی کی موت سمندر میں ڈوبنے سے واقع ہوئی ہے،تبھی اس کی لاش سے نمک پٹیوں میں سرایت کرگیاہے۔ 1975ءمیں یہ بات مزید نکھر کر سامنے آگئی۔دراصل اس وقت ماہرین کو یہ محسوس ہوا کہ یہ خراب ہورہی ہے تو اسے علاج کے لیے فرانس بھیجا گیا۔وہاں جا کر اس کی پھپھوندی دور کرنے کے لیے اس کا تفصیلی معائنہ کیا گیا تو حتمی طور پر یہ بات ثابت ہوگئی کہ جس فرعون کی یہ ممی ہے،اس کی موت ڈوب جانے سے ہوئی تھی۔دراصل خورد بینی معائنے کے بعد اس ممی کے پیٹ کے بعض حصوں سے گہرے سمندر میں پائے جانے والے نمک کے ذرات ملے۔اس نمک کی عمر کا تعین سائنسی آلات سے کیا گیا تو اس کا زمانہ وہی تھا جو موسیٰ علیہ السلام کے دور کے فرعون کا تھا۔یوں جدید تحقیق نے ثابت کردیا کہ یہ ممی اس فرعون کی ہے جس نے موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کیا تھا۔“
”اے کے“جب یہ الفاظ سن رہا تھا تو حیرت سے اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔اس کی حالت اس دیہاتی سے بہت ملتی جلتی تھی جو”بغیر تیل کے چراغ“کی خبر سنانے والے بیٹے کو پاگل قراردے چکا ہو مگر بیٹے نے کسی طرح سے اس کے سامنے اس بلب کو روشن کردیا ہو۔پھر وہ اچانک بولا:
”سر!یہ تحقیق کہاں چھپی ہے؟“
”ظاہر ہے یہ ایک پرانی تحقیق ہے مگر جب یہ سامنے آئی تھی تو بڑے بڑے اخبارات اور رسائل میں چھپی تھی۔اب بھی آپ کو کتابوں میں مل جائے گی۔آپ چاہیں تو مشہور نو مسلم فرانسیسی مصنف موریس بوکائیے کی کتاب”بائیبل،قرآن اور سائنس“میں اس تحقیق کے متعلق پڑھ سکتے ہیں۔یہ کتاب 1975ءمیں شائع ہوئی تھی۔بعد میں اس کا انگریزی اور دنیا کی دوسری اہم زبانوں میں ترجمہ ہوگیا۔اب اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے….بلکہ کتاب پڑھنے کے بجائے اگر ممکن ہو تو آپ مصر جائیں اور قاہرہ کے عجائب گھر میں اس فرعون کو دیکھیں ،وہاں اس کی پوری تاریخ بھی آپ کو مل جائے گی۔“
فاروقی صاحب اتنا کہہ کر کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہو گئے اور پھر”اے کے“سے مخاطب ہوئے:
”اب’اے کے‘بیٹا!آپ خود بتائیں کہ ایک طرف قرآن کا بیان کیا ہوا معجزاتی دعویٰ پوری شان کے ساتھ موجود ہے اور دوسری طرف سائنس کا معاملہ ہے جو تمہیں نہیں بتا سکتی کہ سمندر نے موسیٰ علیہ السلام کو راستہ کیوں دے دیا،فرعون اور اس کی فوج کو کیوں ڈبویا ….؟ فرعون کی لاش کو کیسے ساحل پر پھینکااور ایسے حالات کس طرح پیدا ہوئے کہ مصری اپنے حکمران کی لاش کو پہچان کر واپس مصر لے گئے اور پھر اس کی ممی بنا کر اسے محفوط کرلیا۔میرے خیال میں یہ بات انصاف اور عقل کے مطابق نہیںہوگی کہ ہم حقائق و واقعات کو دیکھ اور جان کر بھی محض اس لیے ان کا انکار کردیں کہ ان کی وجہ ہمارے محدود سائنسی علوم میں لکھی ہوئی نہیں پائی جاتی۔دراصل یہی وہ موقع ہوتا ہے جب انسان کو یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ اس کا علم محدود ہے اور اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ کی طرف سے قرآن کے ذریعے سے وہ باتیں بتائی جا رہی ہیں جن تک اس کی رسائی ممکن نہیں….جواس کی محدود عقل میں نہیں آسکتیں لیکن اگر وہ مُصِر رہے،ضد کرے،انکار کرے تو اس کی مثال پرائمری جماعت کے اس ضدی طالب علم کی ہوگی جو آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت(Theory of Relativity) کو سمجھنے کی ضد کر بیٹھے۔“
کلاس میں بھرپور قہقہہ گونجا۔”اے کے“بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکا مگرجب لڑکے ہنستے ہوئے اس کی طرف دیکھنے لگے تو وہ شرمسار ہوگیا۔ فاروقی صاحب نے اس ساری گفتگو کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھا تھا کہ کہیں ”اے کے“کا مذاق نہ اڑے یا اسے اس طرح سے زچ نہ کیا جائے کہ وہ چڑ کر ”میں نہ مانوں گا“والی ہٹ دھرمی پر اتر آئے۔اس وقت صورت حال کچھ نازک تھی،اس لیے وہ فوراً بولے:
”گویا ہم اس ساری بحث سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ معجزات کو جاننے کے لیے یہ رویہ درست نہیں کہ ہم انہیں پہلے سے معلوم سائنسی حقائق سے جانچیں اور اگر وہ ان سائنسی حقائق کے محدود چوکھٹے میں پورے آئیں تو مانیں ورنہ انکار کردیں بلکہ اس کے برعکس معجزات تو اکثر و بیشتر حیرت انگیز طور پر معلوم سائنسی حقائق کو توڑتے ہوئے محسوس ہوں گے اور ان کی کوئی سائنسی وضاحت ممکن نہیں ہورہی ہوگی مگر ان کے واقع ہونے کے اتنے زیادہ ثبوت ہوں گے کہ ان کا انکار ممکن نہیں ہوگااور ہمارے لیے یہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ معجزہ دکھانے والی ہستی کو اللہ کی حمایت حاصل ہے اور ہمیں اس کی بات کو توجہ سے سننا اور اس پر ایمان لانا ہے ورنہ جس طاقت نے ہمیں معجزہ دکھایا ہے،ہم اسے نظر انداز کرکے اس کے غضب کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔“
فاروقی صاحب خاموش ہوئے تو فیصل بول پڑا:”اور سر!ہمارا یہ ماننا کوئی غیر عقلی نہیں ہوگا کیونکہ معجزاتی واقعے عقل کے خلاف نہیں بلکہ عقل سے ماورایعنی اس کی پہنچ سے دور ہوتے ہیں گویا آپ کے کہنے کے مطابق ان کا تعلق علم کے اس حصے سے ہوتا ہے جو ہمیں معلوم نہیں ہو سکتا ۔“
”بالکل درست کہا فیصل نے….یہ ایک اہم بات ہے کہ عقل کے خلاف ہونے اور عقل یا سمجھ میں نہ آنے میں کیا فرق ہے….اگر اس فرق کو سمجھ لیا جائے تو ساری غلط فہمیاں دور ہو جائیں اور انسان اس نتیجے پر پہنچے کہ سچے مذہب کی مافوق الفطرت باتیں ماننا”سائنسی رویے“ کے عین مطابق ہے کیونکہ سائنسی رویہ آپ سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ آپ حقائق کے برعکس چیزوں کا انکار کر دیں لیکن یہ تقاضا ہر گز نہیں کرتا کہ جن چیزوں کا آپ کو ابھی علم نہیں ،یا جن تک آپ کی رسائی نہیں ہو سکتی ،ان کا بھی انکار کردیا جائے۔“
”اے کے“فاروقی صاحب کے بیان کردہ اس نکتے سے بڑا مطمئن ہوا۔اسے یوں لگا جیسے اس کے ذہن کی ساری گرہیں ایک ساتھ کھل گئی ہوں اور وہ گومگو اور غیر یقینی کیفیت سے نکل آیا ہو۔دراصل اس کی اوسلو کی تعلیم اسے یہ بات تسلیم نہیں کرنے دے رہی تھی کہ وہ کوئی ایسی بات مانے جو”عقل کے خلاف“ہو مگر اب اس پریہ حقیقت کھلی تھی کہ معجزات کا انکار تو دراصل غیر عقلی اور غیر سائنسی طرز عمل ہے۔
اس نے خاموشی کی مہر توڑتے ہوئے کہا:
”سر!بلاشبہ یہ ایک بڑ ی حقیقت ہے،بہت بڑا علم ہے کہ انسان یہ جانے کہ وہ کیا نہیں جان سکتا۔معجزات کا تعلق بھی اسی ”حقیقت“اور اسی علم سے ہے مگر میرے ذہن میں اب بھی بہت سے سوالات ہیں….لیکن اب یہ سوالات میں اعتراض کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ سمجھنے کی غرض سے کروں گا۔مثلاً سب سے پہلے تو میں چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا اصل واقعہ جاننا چاہوں گا کہ….“
اس سے قبل کہ ”اے کے“اپنے سوالات کی فہرست بناتا،فاروقی صاحب کلاس کا جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ مزید گفتگو لڑکوں کو اکتانے کا باعث بنے گی،اس لیے انہوں نے کہا:
”ہم ان شاءاللہ آپ کے ان سوالات کے جواب بھی دیں گے لیکن بہتر ہے کہ آج کی نشست کو یہیں ختم کردیا جائے اور کل دوبارہ اس پر گفتگو کی جائے گی۔“
فاروقی صاحب کی اس بات پر کئی ایک لڑکوں نے”بالکل ٹھیک سر،بہت اچھاسر“کی آوازیں بلند کیں اور پھرانہوں نے کلاس کے ختم ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا:
”ہم اپنی یہ گفتگو اس دعا پر ختم کرتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ ہمارے سینوں کو دین کا علم سیکھنے کے لیے کھول دے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم حق کو سمجھ کر اس پر قائم رہیں۔“
پوری کلاس نے اس پر آمین کہا۔
”اے کے“گھر آکر فاروقی صاحب اور فیصل کی باتوں پر غور کرتا رہا۔اس نے جس قدر غور کیا،اسی قدر اسے ان کی باتوں پر یقین آتا گیا۔ اس نے سوچا کیوں نہ وہ چاند کے معجزے کے متعلق واقعے کا پہلے خود مطالعہ کرے تاکہ کلاس میں بہتر طور پر گفتگو میں حصہ لے سکے،چنانچہ خالی پیریڈ کے دوران وہ سکول کی لائبریری میں چلا گیا اور لائبریرین سے متعلقہ موضوع پر کتاب حاصل کی۔خاصی تلاش کے بعد ایک کتاب ملی جس میں اس واقعے کے متعلق کچھ بیان کیا گیا تھا۔اس نے کتاب اپنے نام جاری کرالی اور وہیں لائبریری میں بیٹھ کر بڑی بے تابی سے متعلقہ صفحات پڑھنے لگا۔کتاب کسی عربی کتاب کا ترجمہ تھی اور اس میں اس واقعے کو دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا تھا۔وہ پڑھ رہا تھا:
”یہ وہ دور تھا جب اللہ کے رسول ﷺ نے قریش کو توحید کی عام دعوت دے رکھی تھی۔قرآن کی سورتوں میں ان کے عقیدہ شرک پرشدید تنقیدہو رہی تھی،پچھلے رسولوں کی تاریخ کے حوالے سے انہیں خبردار کیا جا رہا تھا کہ اگر انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی بات نہ مانی اور شرک کی غلاظت سے اپنا دامن ناپاک ہونے سے نہ بچایا تو ان پر اللہ کا عذاب آجائے گا۔قریش مکہ،قرآن کی تنقید اور ڈرانے پر جلے بیٹھے تھے۔ وہ آپ کو دھمکیاں بھی دے چکے تھے اور لالچ بھی۔ان کا مطالبہ بس یہ تھا کہ آپ شرک کی مذمت ترک کردیں۔وہ آپ کی شکایت آپ کے چچا ابوطالب سے بھی کر چکے تھے،لیکن آپ نے اپنے چچا سے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تو بھی میںاس کام سے باز نہ آﺅں گا۔دھمکی کا اثر نہ دیکھتے ہوئے انہوں نے آپ کو مال و دولت،بادشاہت اور دوسری دنیاوی چیزوں کا لالچ دیا مگرآپ نے جواب میں قرآن کی آیات سنائیں اور واضح کیا کہ یہ سب کچھ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا،بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لا رہا ہوں اور اس حکم کو ماننے ہی میں ان کی بہتری ہے۔یہ حالات جاری رہے یہاں تک کہ سن 13نبوی میں قریش مکہ کے چندسرداروںنے فیصلہ کیا کہ وہ آپ سے ایسا معجزہ دکھانے کا مطالبہ کریں جس سے آپ عاجز ہوں….تب وہ آپ کا….نعوذ باللہ …. مذاق اڑائیں گے اور آپ کو جھوٹا قراردیں گے۔یہی سو چ کر انہوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ واقعی اللہ کے نبی ہیںتو کوئی نشانی دکھائیں۔
اپنے خیال میں انہوں نے آپ سے ایسا مطالبہ کیا تھا،جس کو پورا کرنا ان کے خیال میں ناممکن تھا۔
ایک چاندنی رات قریش مکہ کے کچھ سردار بیٹھے ہوئے تھے۔اچانک انہوں نے دیکھا کہ چاند دوحصے ہو گیا،پھر یہ دونوں حصے آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے دور ہونے لگے۔اس کے بعد انہوںے چاند کو دوبارہ اپنی اصلی حالت میں دیکھا۔
یہ منظر قریش مکہ کو ایک گہری سوچ میں مبتلا کرنے کے لیے کافی تھا۔وہ سب کچھ لمحوں کے لیے حیران پریشان کھڑے دیکھتے رہے کہ یہ اچانک کیا ہوگیا؟کہیں انہوں نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا؟وہ ایک دوسرے سے بھی تصدیق کرنے لگے کہ کہیں انہیں وہم ہی نہ ہوا ہو لیکن انہوں نے جو کچھ دیکھا وہ نہ کوئی خواب تھا،نہ وہم،بلکہ ایک حقیقت تھی….کھلی حقیقت!!
دراصل کفار مکہ نے یہ نشانی(آیت)ایمان لانے کے لیے طلب نہیں کی تھی بلکہ ان کی نیت تو یہ تھی کہ آپ کو زچ کریںگے،مذاق اڑائیں گے لیکن اب معاملہ الٹ ہوگیا تھا….جو کچھ انہوں نے سوچا تھا،اس کے بالکل برعکس ہو گیا تھا۔
انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ فوراً اس بات کا اعلان کردیتے کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔ان کے دل بھی یہی کہہ رہے تھے لیکن وہ اپنی ”انا“کی قربانی نہ دے سکے۔
ان میں یہ بات ماننے کی اخلاقی جرأت نہیں تھی کہ وہ غلطی پر تھے،رسول اللہ ﷺ کو جھٹلاکر ایک بہت بڑا گناہ کر چکے تھے۔ ان کے اندر اتنی بھی ہمت اور حوصلہ نہ تھا کہ وہ آپ کو اللہ کا رسول مان کر آپ کو اپنا رہنما اور اپنے سے بڑا انسان تسلیم کر لیں۔اس منفی سوچ نے ان کے چہروں پر جہالت کی سیاہی مل دی،وہ احساس شکست سے بگڑے ہوئے چہروں اور حسد کی آگ میں جلی ہوئی زبان سے بولے:
”یہ تو محمد(ﷺ)کاکھلا جادو ہے….ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ یہ (نعوذباللہ)جادوگر ہے۔اس نے ہم سب پر جادو کردیا اور ہمیں چاند دوٹکڑے ہوتے دکھائی دیا….“
ایک دوسرا شخص بولا:”بھلا چاند بھی کہیں دو ٹکڑے ہو سکتاہے؟نہیں،ہرگزنہیں….یہ جادو کے سوا اور کچھ نہیں!!“
کافروں ہی میں سے ایک شخص بولا:”بھائیو!اگر محمد(ﷺ)نے جادو کیا ہے تو اس کا اثر ہم لوگوں ہی پر ہوگا….جو یہاں موجود نہیں ہیں، اُن پر تو اس کا جادو نہیں چل سکتا نا….چلو ہم مکہ میں پہنچنے والے مسافروں سے پوچھتے ہیں….اگر انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی تو پھر یہ جادو نہیں ،واقعی اللہ کی طرف سے نشانی ہوگی!“
یہ بات خاصی معقول تھی اور سرداران قریش ہی میں سے کسی نے کہی تھی،اس لیے انہیں اس سے اتفاق کرنا پڑا اور وہ اس بات پر راضی ہوگئے کہ مکہ میں پہنچنے والے مسافروں سے اس کے بارے میں گواہی لی جائے۔مسلمانوں سمیت تمام لوگ اس راستے پر جا کھڑے ہوئے جہاں مکہ کے باہر سے آنے والے مسافر بستی میںداخل ہوتے تھے۔
انہیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا اور مسافر پہنچ گئے۔کفار نے چھوٹتے ہی ان سے سوال کیا:”مسافرو! کیا تم نے کچھ دیر پہلے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا؟“
ان کا سوال بمشکل مکمل ہوا تھا کہ ایک مسافر بول پڑا:”اللہ کی قسم!یہ واقعی بڑی حیران کن بات تھی….میں نے ایسا منظر اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ چاند دوٹکڑے ہوگیا ہو!“
اس مسافر کے بیان کی دوسرے لوگوں نے بھی تصدیق کردی۔
اب تو مشرکین کے لئے بھاگنے کی کوئی جگہ نہ رہی….لیکن افسوس ان کے اندر حقیقت کو تسلیم کرنے کی جرأت اور ہمت نہ تھی….وہ ایک مرتبہ پھر اسے جادو اور شعبدہ کہتے ہوئے کفر کے اندھیروں میں بھٹکنے لگے اور واپس چلے گئے۔“
”اے کے“نے یہاں تک پڑھا اور کتاب بند کردی….پھر فیصل کی یہ بات بھی درست ثابت ہوئی کہ انگلی سے چاند کو دوٹکڑے کرنے والی بات ٹھیک نہیں بلکہ یہ سارا واقعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نشانی کے طور پر ہوا تھا۔اچانک اس کے ذہن میں ایک عجیب خیال آیا….وہ سوچنے لگا کہ اگر میں بھی اس بات کو جھوٹ قراردوں اور نہ مانوں تو مجھ میں اور کفار مکہ میں بھلا کیا فرق رہ جائے گا؟پھر یہ بات اس کے ذہن میں آئی کہ بھلا چاند کے دو ٹکڑے ہوسکتے ہیں؟اگر یوں ہوتا تو چاند پر جانے والے نہ کہتے کہ چاندسیکڑوں سال پہلے دو ٹکڑے ہوگیا تھا ؟ کیا اس عظیم واقعے سے چاند میں کوئی تبدیلی نہ آئی؟اور پھر بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس عجیب و غریب واقعے کو صرف قریش مکہ ،مسلمانوں کے چند لوگوں اور دوچار مسافروں ہی نے دیکھاہو….؟اس واقعے کی تو اس وقت دھوم مچ جانی چاہئے تھی اور صرف مسلمانوں کے ہاں نہیں،بلکہ پوری دنیامیں بے شمار لوگوں کے بیان ہونے چاہئیں تھے کہ انہوں نے چاند کو دو لخت ہوتے دیکھا ہے!
اس نے بار بار سوچا….ان سوالوں کے جواب خود تلاش کرنے کی کوشش کی….مگر صرف ایک بات اس کے ذہن میں آسکی….وہ یہ کہ جو اللہ سورج یا چاند بنا سکتا ہے،اسے توڑ بھی سکتا ہے….اگر ہمارا قیامت پر یقین ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ چاند ہی نہیں بلکہ سورج کو بھی توڑے گا….اور مختصر یہ ہے کہ اگر ہمارا اللہ پر ایمان ہے تو پھر ایسی کون سی بات ہے جو اس کی طاقت سے باہر ہے….؟لیکن اس کے ذہن میں پھر ایک اور سوچ نے سر ابھارا….
”کہیں ایسا تو نہیں کہ مسلمانوں نے اس واقعے کو کچھ کا کچھ کردیا ہو؟“
لیکن فوراً ہی یہ بات اس کے ذہن میں آئی کہ قرآن مجید تو ایک محفوظ کتاب ہے….اللہ کے رسول پر جس طرح اتری،اسی حالت میں مسلمانوں کے پاس موجودہے۔پھر اللہ کے رسول سے جو حدیثیں روایت ہوئی ہیں،ان کا ثابت ہونا بھی ایک حقیقت ہے،اس لیے اگر قرآن اور احادیث دونوں میں چاند کے پھٹنے کا واقعہ موجود ہے تو پھر اس سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے؟اگر کوئی انکار کرتا ہے تو وہ دراصل قرآن و حدیث کا انکار کرتا ہے….یہیں سے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ….یہ دیکھاجائے کہ چاند کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں کیا بیان ہوا ہے؟اگر تو یہ واقعہ قرآن وحدیث میں ہے تو پھر اس کا انکار کرکے میں ایسا ہی بن جاﺅں گا جیسے کہ کفار مکہ تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آگے کے واقعات اس قصے کے تیسرے اور آخری حصے”اُجالوں کی منزل“ میں پڑھیے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top