skip to Main Content

حق دار

عبدالرشید فاروقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس بچے کا نام خالد تھاجو صوفے میں دھنسا کافی دیر سے مجھے، زبان باہر نکال کر دکھا رہا تھا۔ وہ بہت پیارا بچہ تھا۔ اُس کے ابو میرے اچھے دوست ہیں۔ اس وقت وہ ملازم کو کوئی بات سمجھا رہے تھے مگر ملازم تھا کہ اس کی سمجھ میں بات نہیں آ رہی تھی۔ تنگ آ کر انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولے:
”بھئی! اس احمق کو تم ہی اس دکان کا پتا سمجھا دو……“ میں نے ملازم کو اپنے پاس بلایا اور مطلوبہ دکان کا پتا سمجھانے لگا۔ حیرت انگیز طور پر وہ جلد ہی سمجھ گیا۔ خالد کے ابو نے حیرت بھری نظروں سے، میری طرف دیکھا اور بولے:
”بھئی! تم میں ایسی کون سی خوبی ہے، جوبھی کام ذمے لگاؤ، فوراً انجام دے ڈالتے ہو۔“
”اچھے دوست! خبر نہیں، مجھ میں ایسی کیا خاص بات ہے، میں تو اللہ کریم کا خاص کرم ہی سمجھتا ہوں۔“
”خیر، اس وقت کیسے آئے ہو، خیریت تو ہے نا؟“
”خیریت ہے، دراصل بات یہ ہے کہ مجھے آپ کے بیٹے خالد کی ضرورت آ پڑی ……“ میری بات سن کر خالد کے ابو مسکرائے، بولے:
”خالد کی ضرورت…… میں کچھ سمجھا نہیں!!“
”میرا ایک دوست مجاہد اقبال بچوں کے لیے ایک تقریب کروا رہا ہے۔ اس تقریب میں شہر بھر کے بچے شامل ہوں گے۔ رنگا رنگ مقابلے، فینسی ڈریس شوز، ملی ترانے، مزاحیہ خاکے، تقاریر، کہانیوں، نظموں اور کوئز کے مقابلے ہوں گے۔ میں چاہتا ہوں، خالدبھی اس تقریب میں شرکت کرے……“ میری بات سن کر خالد کے ابو کھل اُٹھے:
”بہت اچھی بات ہے لیکن یہ بتاؤ، اس تقریب میں خالدکس حیثیت سے جائے گا؟“
”آپ کہیں تو اِسے مہمان خصوصی بنا دیں گے……“ میں نے ہنس کر کہا۔
”میرا مطلب ہے، اسے وہاں کیا کرنا ہو گا؟“
”اس کی آواز بہت اچھی ہے، یہ وہاں ’حمد‘ پڑھے گا۔ شاید انعام وغیرہ بھی حاصل کر لے۔“ میں نے خالد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ بڑے غور اور توجہ سے ہماری باتیں سن رہا تھا۔
”یہ حمد پڑھے گا!“
”جی ہاں! آپ اس کے والد ہیں، اس کی صلاحیتوں سے واقف نہیں۔ میں جانتا ہوں، اس کی آواز بہت اچھی ہے۔“
”یہ بات ہے تو میری طرف سے اجازت سمجھو……“ وہ مسکرائے۔
”شکریہ! خالد میاں، ادھیر میرے پاس آؤ……“
خالد جلدی سے میرے پاس چلا آیا۔ دس سالہ خالد بلاشبہ اچھی آواز کا مالک تھا۔ میں نے اس سے چند باتیں کیں اور پھر اُسے ساتھ لے کر تقریب میں جا پہنچا۔
مجاہد اقبال کو اس کا نام دے کر اپنی نشست پرجا بیٹھا۔ پھرپروگرام شروع ہوا۔ تلاوت کے بعد کمپیئر نے خالد کا نام پکارا۔ میں نے خالد کو اسٹیج پر جانے کا اشارہ کیا۔ وہ اسٹیج پر گیا اور پھر اس کے گلے نے وہ سماں باندھا کہ سبحان اللہ!
پورا ہال خاموشی او ر توجہ سے اس کی حمد سن رہا تھا۔ جس وقت وہ فارغ ہو کر اسٹیج سے نیچے اُترا۔ پور اہال واہ…… واہ…… سبحان اللہ کی ملی جلی آوازوں سے گونج اُٹھا۔ چند لمحوں بعد کمپیئر نے دوسرے لڑکے کو حمد کے لیے پکارا۔ قریباً گیارہ سال کا ایک لڑکا اسٹیج پر جا کر اللہ کی ثناء بیان کرنے لگا۔ اس لڑنے نے جیسے سب پر جادو کر دیا تھا۔ اس کے الفاظ نہیں، شہد تھا جو وہ لوگوں کے کانوں میں گھول رہا تھا۔ پھر جس وقت وہ لڑکا اسٹیج سے نیچے اُترا۔ ہال میں بیٹھے لوگوں نے اُسے خوب داد دی۔ میں مسکرا رہا تھا۔ خالد کا چہرہ اُترا محسوس ہو رہا تھا۔ تقریب جاری رہی۔ بچے آتے رہے اور مختلف چیزیں پیش کرتے رہے۔ پھر وہ مرحلہ بھی آن پہنچا، جب انعامات حاصل کرنے والوں کے ناموں کا اعلان ہونا تھا۔ کمپیئر مسکراتی ہوئی مائیک کے پاس آئی اور انعامات جیتنے والوں کا اعلان کرنے لگی۔ وہ کہہ رہی تھی:
”حمد…… دو بچوں نے پڑھی۔ بہت پیاری آوازوں نے اللہ کی تعریف بیان کی تھی۔ جج صاحبان کو اول انعام کے حق دار کی نشان دہی کرنے میں کافی دقت ہوئی۔ بہرحال، ہمارے محترم جج صاحبان کے فیصلے کے مطابق پہلا انعام حاصل کیا ہے، خالد احمد نے……“
کمپیئر اعلان کر کے خاموش ہوئی تو ہال تالیوں سے گونجنے لگا۔ میں نے دیکھا، خالد احمد کے چہرے پر شدید حیرت تھی۔ میں اس کی وجہ جانتا تھا۔ اس لیے اُس کے کان میں کہنے لگا:
”بیٹے! یہاں میرے کافی دوست بیٹھے ہیں، اسٹیج پر جاؤ اور حق بات کا اعلان کرو، جاؤ شاباش……“
خالد نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور پھر اسٹیج پر چلا گیا۔ اس نے کمپیئر کے کان میں کوئی بات کہی تو اس نے مسکراتے ہوئے مائیک اس کے سامنے کر دیا۔ لوگ حیران تھے۔ خالد کہنے لگا:
”میرے دوستو اور محترم بزرگو!میں نے یہاں حمد پڑھی۔ مقابلے میں اچھے دوست، لیاقت علی نے حصہ لیا۔ جج صاحبان نے اول انعام کا حق دار مجھے ٹھہرایا ہے۔ مجھے بے حد خوشی ہے لیکن میرا ذاتی خیال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ٹھیک ہے، میں نے بہت خوب صورت انداز سے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی، لیکن میرے ساتھی لیاقت علی نے مجھ سے زیادہ اچھے، خوب صورت انداز اور آواز میں حمد پڑھی تھی۔ میرا خیال ہے، پہلا انعام میرے ساتھی کو ملنا چاہیے، اِس کا صحیح حق داریہ ہے، میں نہیں ……“ اتنا کہہ کر وہ ایک طرف کھڑا ہو گیا۔
کمپیئر اور ججز حیرت زدہ رہ گئے۔جب کہ پورا ہال زور دار تالیوں سے گونجنے لگا۔

OOO

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top