skip to Main Content

حصۂ اوّل

ابو خالد ایم اے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ساری تعریف اللہ کے لیے ہے جو ہمارا پیدا کرنے والا اور اس دنیا کا اصل حاکم ہے۔ پھر درود اور سلام اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جس نے انسانوں کو سیدھا راستہ دکھایا اور اللہ تعالیٰ کے دین پر چلنا سکھایا۔

پیدائش
ہماری درس گاہ ربیع الاول میں پندرہ دن بند رہتی ہے۔ یہ مہینہ ہمارے لئے اور بھئی سچ پوچھو تو سارے انسانوں کے لیے کبھی نہ بھولنے اور ہمیشہ یاد رکھنے والا مہینہ ہے۔ اب سے کوئی چودہ سو سال پہلے اس کی ۹/ تاریخ کو دوشنبہ کے دن فجر کے وقت پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ مصر کے ایک عالم محمود پاشا فلکی نے حساب لگا کر بتایا ہے کہ انگریزی مہینے اپریل کی ۲۰/ تاریخ ۵۷۱عیسوی تھا۔
اب سے چودہ سو سال پہلے عرب اور ساری دنیا کا کیا حال تھا؟ تمہیں معلوم ہو اور اس پر غور کرو، پھر یہ دیکھو کہ آپ نے اس بگڑی ہوئی دنیا کو کیسے سنوارا، تو تمہاری سمجھ میں آئے گا کہ یہ دن کیسے سارے انسانوں کے لیے کتنا بڑا اور کیسی خوشی کا دن ہے۔
اور آج بھی جب کہ چاروں طرف لوٹ مار، شراب خوری اور بدکاری کا اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ یہی ایک دن ایسا ہے جو ہمیں ایک ایسی ہستی کی یاد دلاتا ہے جو اندھیرے کو اجالے میں بدلتی رہے گی۔دور دور تک پھیلی ہوئی تاریکی میں روشنی کا اکیلا مینار۔!!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو آپ کے دادا میاں عبدالمطلب نے آپ کا نام محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) رکھا۔لوگوں نے پوچھا یہ نام کیوں رکھا؟ بولے میں چاہتا ہوں میرے بیٹے کی ساری دنیا تعریف کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ آرزو پوری کی۔

حلیم سعدیہ کی آغوش میں
دائی حلیمہ کے قبیلے کا نام بنی سعد تھا۔ اس لیے ان کو حلیمہ سعدیہ کہتے ہیں۔پیارے نبی کی امی جان نے آپ کو دودھ پلایا۔ کچھ اور عورتوں نے بھی، مگر سب سے زیادہ دنوں تک دائی حلیمہ سعدیہ نے آپ کو دودھ پلایا۔ شہر میں رہنے والے عرب اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی بدوؤں میں بھیج دیا کرتے تھے۔ شہروں میں بیماریاں پھیلی رہتیں۔ بچے ان سے محفوظ رہتے۔کھلی ہوا میں خوب موٹے تازے، تندرست اور طاقتور ہو جاتے۔ نڈر اور آزاد بنتے اور خوب زور دار اچھی عربی بولتے۔
آپ حلیمہ سعدیہ کے پاس تقریباً چار سال رہے۔ آپ حلیمہ اور ان کے بچوں کو بہت چاہتے تھے۔ نبی ہوئے تو حلیمہ، ان کے شوہر اور بچے سب مسلمان ہو گئے۔

امی جان کا سایہ سر سے اٹھ گیا
چار سال کی عمر سے امی جان کے پاس رہنے لگے۔ ۷۶۔۵۷۵ء میں جب آپ چھ سال کے تھے، وہ آپ کو ساتھ لے کر مدینہ گئیں۔ وہاں سے واپسی میں بیمارپڑیں اور ان کا انتقال ہوگیا۔ مکے اور مدینے کے درمیان ایک جگہ ہے۔ اس کا نام ’ابواء‘ہے، وہیں دفن ہوئیں۔ابو میاں آپ کی پیدائش سے پہلے مرچکے تھے۔ اب امی جان بھی چل بسیں۔ آپ یتیم ہو گئے۔
ام ایمن آپ کی کھلائی تھیں۔ وہاں سے آپ کو دادا میاں کے پاس لائیں۔ ان کو بہت دکھ ہوا۔ کیا کرتے۔ مرنا جینا خدا کے اختیار میں ہے۔ مرناسب کو ہے۔ آئی ہوئی گھڑی کو کون ٹال سکتا ہے!!
بڑے ہو کر آپ ایک بار مقام ابواء سے گزرے۔ امی جان کی قبر دیکھ کر آپ کا دل بھر آیا۔ آپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ساتھی بھی رونے لگے۔

دادا میاں کے ساتھ
دادا میاں آپ کو بہت پیار کرتے تھے۔ کعبے کے سائے میں ان کے لیے فرش بچھایا جاتا۔ اس پر تنہا وہی بیٹھتے تھے، کسی دوسرے کو اجازت نہ تھی۔ پیارے نبی چھوٹے سے تھے، آ کراس پر بیٹھ جاتے۔ لوگ چاہتے کہ گود میں اٹھا کر الگ بیٹھا دیں۔ دادا میاں روک دیتے۔ کہتے بیٹھنے دو۔ پھر سر اور پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے اور پاس ہی بٹھا لیتے۔

چچا ابو طالب کی نگرانی
آٹھ سال کے تھے کہ دادا جان کا بھی انتقال ہوگیا۔ مکے ہی میں ان کی وفات ہوئی۔ یہ ۸۷۵ء کا واقعہ ہے۔ مرتے وقت دادا میاں نے آپﷺ کو چچاابو طالب کے سپرد کیا۔ وہ آپﷺ کے سگے چچا تھے۔ ایک ماں سے تین بھائی ابوطالب، زبیر اور پیارے نبی کے ابو میاں عبداللہ۔
چچا ابوطالب بہت تنگ حال تھے۔ ان کے اپنے بھی بہت سے بچے تھے،پھر بھی وہ اپنے اچھے بھتیجے پیارے نبی ﷺکو بہت پیار کرتے تھے۔ اپنے پاس سلاتے۔ جہاں جاتے اپنے ساتھ رکھتے۔
آپ نے بچپن میں بکریاں چرائیں۔ایک بار آپ ﷺکے ساتھی جھر بیریاں توڑ رہے تھے۔آپ ﷺنے کہا: کالی کالی توڑتے جاؤ۔ بڑی مزے دار ہوتی ہیں۔ یہ اس وقت کا تجربہ ہے جب میں بکریاں چراتا تھا۔
ساتھیوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ نے بکریاں بھی چرائی ہیں؟ بولے: ہاں، میں نے بہت تھوڑی اجرت پر مکہ والوں کی بکریاں چرائی ہیں۔
برے بچوں کی طرح بے کار کھیلوں میں اپنا وقت نہیں خراب کیا کرتے تھے۔ ایسے کسی جلسے یا محفل میں آپ کو جانا گوارا نہ تھا جہاں بے شرمی اور پھوہڑ پن کا چرچا ہو۔ آج کل جیسے کھیل تماشے تو خیر اس زمانے میں نہ تھے مگر جو تھے بھی، ان میں بھی کبھی آپ نے شرکت نہیں فرمائی۔ بے شک اچھے بچے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا بچہ تو نہ ہوا، نہ آئندہ ہوگا۔ دنیا کے سارے اچھے بچوں کے لئے آپ کا بچپن مثال اور نمونہ ہے۔

نبی ہونے تک

فجار کی لڑائی
پندرہ سال کے تھے جب آپ فجار کی لڑائی میں شریک ہوئے۔ اس نام کی بہت لڑائیاں ہوئی تھیں، آخری میں آپﷺ بھی موجود تھے۔ اپنے چچاؤں کو تیر اٹھا کر دیتے تھے۔ نبی ہونے کے بعد ایک بار اس لڑائی کا ذکر کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:”میں آج بھی نہیں سوچتا کہ میں شریک نہ ہوتا تو اچھا تھا۔ بات یہ ہے کہ اس بار زیادتی آپﷺ کے خاندان کی جانب سے نہ تھی۔

حلف الفضول
فجار کی لڑائی میں بڑی مارکاٹ ہوئی۔ بہت آدمی مارے گئے۔ اس کے کچھ دنوں بعد چند لوگ عبداللہ بن جدعان نامی ایک شخص کے مکان میں اکٹھے ہوئے۔ کھانا پینا ہوا۔ پھر سب لوگ سر جوڑ کر بیٹھے اور اقرار کیا:”ہم سب ستائے جانے والوں کی مدد کریں گے۔ حق دار کو اس کا حق دلائیں گے۔ غریبوں کا دل رکھیں گے۔ محتاجوں کے کام آئیں گے۔“
عرب میں یہ اپنی قسم کا پہلا عہد تھا، جہاں لوٹ مار دن رات کا کھیل ہو، جہاں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے، جھوٹی بڑائی کے واسطے سیکڑوں سال تک لڑائیاں ٹھنی رہتی ہوں، جہاں کمزوروں کو ستا کرلوگوں کے دل میں نرمی کی ایک لہر بھی نہ اٹھی ہو، وہاں نیکی اور بھلائی کا ایسا پاک اور اچھا عہد۔آپ ﷺ بعد میں بھی اکثر فرمایا کرتے:”عبداللہ بن جدعان کے مکان پر جو عہد ہوا تھا،ویسا عہد کوئی آج بھی کرے تو میں اس کے ساتھ ہوں اور اس اقرار کے بدلے کوئی مجھے سرخ اونٹ بھی دیتا تو میں ٹھکرا دیتا۔“سرخ اونٹ بہت قیمتی ہوتے ہیں۔
اس عہد کو تاریخ میں حلف الفضول کہتے ہیں۔

شام کا سفر
بی بی خدیجہؓ ایک دولت مند خاتون تھیں۔ لوگ ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ ان کا بڑا کاروبار تھا۔ اپنے روپے سے لوگوں کو تجارتی سفر پر بھیجتیں۔ نفع میں ان کو شریک کر لیتیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا مکے میں بڑا چرچا تھا۔ لوگ آپﷺ کو امین کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ کی سچائی اور ایمانداری کا چرچا سنا تو بی بی خدیجہ نے خواہش کی کہ آپﷺ ان کا سامان تجارت لے کر سفر پر جائیں۔
پچیس سال کے تھے جب آپ بی بی خدیجہ کے غلام میسرہ کے ساتھ ۵۹۵ء میں شام کے سفر پر روانہ ہوئے۔آپ نے ایسی محنت، عقلمندی اور ایمانداری سے کام کیا کہ بی بی خدیجہ پر بڑا اثر پڑا۔ وہ بہت خوش ہوئیں۔ جتنا وعدہ ہوا تھا اس سے زیادہ آپﷺ کو دیا۔

نکاح
شام کے سفر سے لوٹے۔ میسرہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایمانداری، کاروبار میں ہوشیاری، سچائی، ہر ایک کے ساتھ ہمدردی، محبت اور انسانیت کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔ بی بی خدیجہؓ نے نکاح کا پیغام بھیجا۔آپ ﷺراضی ہو گئے۔ دن اور وقت مقرر ہوا۔ آپ ﷺ بی بی خدیجہ کے مکان پر پہنچے۔ چچا بھی ساتھ تھے۔سادگی اور سلیقے سے نکاح ہوا۔قریش کے بڑے بڑے سردار موجود تھے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شریک تھے۔
شادی کے وقت آپﷺ کی عمر پچیس سال تھی اور بی بی خدیجہ کی چالیس سال۔ ان کی دو شادیاں پہلے بھی ہو چکی تھیں۔ دونوں شوہر مر چکے تھے۔
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینے تشریف لے جانے (ہجرت)سے اٹھائیس سال پہلے بی بی خدیجہؓ کا نکاح آپﷺ سے ہوا۔نبی ہونے کے بعددس سال تک اس نیک بی بی نے آپﷺ کے ساتھ وہ ساری تکلیفیں اور مصیبتیں جھیلیں جو دین پھیلانے میں پیش آئیں۔ایک ہمت والی سچی مسلمان عورت اور وفادار بیوی کی طرح ہر مشکل میں آپﷺ کا ساتھ دیا۔ہر دکھ درد میں برابر کی حصے دار رہیں۔

نبی ہونے سے پہلے
آپﷺ کی اچھی عادتوں کا مکہ میں چرچا تھا۔آپﷺ ہمیشہ سچ بولتے تھے۔لوگ اپنی امانت آپ ﷺکے پاس رکھے جاتے۔ آپﷺ ان کی امانت جوں کی توں لوٹاتے۔آپ ﷺنے کبھی شراب نہ پی۔ بتوں کی پوجا نہ کی۔ میلوں ٹھیلوں اور تہواروں میں نہ گئے۔گئے تو بری باتوں کے پاس بھی نہ پھٹکے۔ابو میاں نے تھوڑی پونجی چھوڑی تھی۔ بکریاں چرائیں، تجارت کی،اپنی روزی محنت مشقت سے کمائی۔ خدا کا شکر ادا کیا۔

غار حرا میں عبادت
مکے کے قریب حرا نام کی ایک پہاڑی ہے۔ آپ گھر سے ستو پانی لیتے۔ اسی پہاڑی کے ایک غار میں چلے جاتے۔کئی کئی دن وہاں رہتے، اللہ کی عبادت کرتے، پھر گھر آتے۔ستو پانی لیتے اور لوٹ جاتے۔

نبی ہوتے ہیں
ایک دن اسی غار میں تھے، اللہ نے اپنا فرشتہ بھیجا۔اس فرشتے کا نام جبریل ؑہے۔ فرشتے اللہ کے مخلوق ہیں۔ اس کا حکم بجا لاتے ہیں۔ اسی کا حکم نبیوں تک پہنچاتے ہیں۔ جبریل اللہ کا پیغام لائے۔یہ پیغام کیا تھا؟ اللہ کا کلام۔وہی ہمارا قرآن پاک جس میں بتائی ہوئی راہ پر ہم چلتے ہیں۔
رمضان کی سترہ تاریخ تھی۔ انگریزی حساب سے دو اگست،چھ سو دس عیسوی۔ آپ ﷺکی عمر اس وقت اکتالیس سال رہی ہو گی۔ پہلے وہ سورۃ اتری جس کا پہلا لفظ’اقراء‘ ہے۔ اس کا نام سورۃ’العلق‘ ہے۔
قرآن پاک سے دنیا نے روشنی پائی۔ سیدھا راستہ دیکھا۔ اچھائی، برائی کو پہچانا۔ دنیا کی پوری سدھار کا سامان ہوا۔ انسانوں کو زندگی بسر کرنے کا مکمل قانون ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہوگئے۔بھٹکوں کو راہ دکھلانے لگے۔ اندھیرے میں اجالا کر دیا۔یہ اجالا گھر والوں کے لیے بھی تھا،باہر والوں کے لیے بھی۔ اپنے خاندان، اپنے ہی ملک نہیں، ساری دنیا کے لیے، سب انسانوں کے لئے۔

نبی ہونے کے بعد

دین کی خاموش دعوت
تین سال لوگوں کو چپکے چپکے سمجھاتے رہے۔گھر والوں کو سمجھایا۔ جن سے کچھ لگاؤ تھا، ان تک اللہ کا پیغام پہنچایا۔جن کو دیکھا نیکی بھلائی کی کھوج میں ہیں، ان کو منزل کا نشان بتلایا۔ تھوڑے سے لوگ مسلمان ہوئے۔ پہاڑ کی کسی گھاٹی میں اکٹھے ہوتے،نماز پڑھتے، اللہ کی عبادت کرتے، دین کا چرچا کرتے۔ایک بار کافروں نے دیکھ لیا، بہت بگڑے، برا بھلا کہا۔اب ارقم کے مکان میں اجتماع ہونے لگا، وہیں نماز پڑھتے،دین کی باتیں کرتے۔ یہ مکان صفا کی پہاڑی کی تلی میں ہے۔
آپﷺ لوگوں کو سمجھاتے رہے۔ الگ الگ ایک ایک سے ملتے۔کہتے، عبادت کے لائق اللہ کی ذات ہے۔ دل سے اس کو مانو۔ زبان سے اس کے مالک ہونے کا اقرار کرو۔ کافر ہر گھڑی اسی فکر میں رہتے، مسلمانوں کو کیسے ستائیں۔ بہت دکھ دیتے، پھر بھی جی نہ بھرتا۔ دین چپکے چپکے پھیلتا رہا۔ کام آگے بڑھتا گیا۔مسلمان چالیس ہو گئے۔ ان میں آخری حضرت عمرؓ تھے۔

پہلے مسلمان ہونے والے
اللہ کا پیغام پہنچانا آسان نہ تھا۔مسلمان ہونا بھی کافروں کی دشمنی مول لینا تھا۔ مکہ بت پرستوں کا گڑھ تھا- کعبہ کے مجاوروں اور بتوں کے نگہبانوں کا مرکز۔ سارا عرب ان کی عزت کرتا تھا۔ان کو بڑا مانتا تھا۔پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے بات چیت کی۔ جن میں نیکی کا جذبہ پایا،جنہیں دیکھا سچائی کی تلاش میں ہیں۔ آپﷺ کو سچا جانتے ہیں، آپﷺ کو اچھی طرح سمجھے ہوئے ہیں، ایسے کچھ لوگ مسلمان ہوئے۔ عورتوں میں سب سے پہلے بی بی خدیجہؓ،مردوں میں ابوبکرؓ، بچوں میں حضرت علیؓ اورغلاموں میں حضرت زیدؓ بن حارث رضی اللہ عنہم ورضو اعنہ۔

حق کی پکار کوہ صفا پر
اللہ کا حکم آیا۔ دین کا کام اب تک خاموشی سے ہوا۔ اس کو لوگوں تک کھلم کھلاپہنچائیے۔ اپنے خاندان والوں کی اصلاح کیجئے۔ ان کو آنے والے دن سے ڈرائیے۔ آپﷺ کوہ صفا پر چڑھ گئے۔ وہاں سے آواز دی۔”اے آل غالب!“لوگ دوڑ پڑے۔ پوچھا”کیا ہے؟ آپ نے ہم کو کیوں آواز دی؟“ آپﷺ نے کہا:”تم لوگ مجھے سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا؟“ سب ایک زبان ہو کر پکارے:”آپ سچے ہیں، امانت دار ہیں۔ ہم آپ کوصادق اور امین کہتے ہیں۔“ آپﷺ نے کہا:”دیکھو میں بلندی پر ہوں دوسری جانب دیکھتا ہوں،تم پہاڑی کی تلی میں ہو۔ تم کو دوسری جانب کی خبر نہیں۔ اگر میں تم سے کہوں کہ ایک فوج گراں پشت ِ کوہ ِ صفا پر تمہاری تاک میں ہے۔ تم باور کرو گے؟ سب ایک ساتھ بولے،ہاں کیوں نہیں۔ ضرور،ضرور، تم سچے ہو، تم کبھی جھوٹ نہیں بولے۔آپﷺ نے کہا:”تو پھر میں ہی تم کو یہ خبر بھی دیتا ہوں کہ آنے والے سخت عذاب سے ڈرو۔ مرنے کے بعد پوچھ گچھ ہو گی۔ میں تمہیں دنیا میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔مرنے کے بعد کوئی حصہ نہیں دلا سکتا۔مرنے کے بعد اور اس زندگی میں چھٹکارے کی راہ ایک ہی ہے۔کہو، اللہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں۔))
یہ پکار تھی یا بجلی کی کڑک جس سے عرب کی ساری زمین ہل گئی۔
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی          عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن سب کے دل میں لگا دی         اک آواز میں سوتی بستی جگا دی
پڑا ہر طرف غل یہ پیغام حق سے
کہ گونج اٹھے دشت و جبل نامِ حق سے
ابو لہب بہت خفا ہوا۔بولا تم نے اسی لئے ہم کو پکارا تھا۔ پھر آپﷺ بازار میں لوگوں کو دعوت دیتے تو وہ بدبخت پیچھے پیچھے چلتا۔ آپﷺ پر پتھراؤ کرتا،اتنا پتھراؤ کہ آپﷺ کی ایڑیاں زخمی ہو جاتیں۔

مخالف پروپیگنڈہ
مغیرہ کا بیٹا ولید قریش کا ایک کافر سردار تھا۔ایک دن لوگ اس کوگھیرے بیٹھے تھے۔اس نے کہا،”بھائیو!حج کا موسم آ رہا ہے۔ عرب کے ہر حصے سے لوگ یہاں آئیں گے۔ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو تم جانتے ہی ہو۔ یہ ان میں جائیں گے اور اپنا دین پھیلائیں گے۔ایک بات طے کر لو۔ ان کو جھٹلانے کے لیے سب مل کر وہی ایک بات کہو۔ایسا نہیں کہ کوئی کچھ کہے اور کوئی کچھ اور، ان کو جھوٹا ثابت کرنے کے بجائے تم خود جھوٹے بن جاؤ۔“ لوگوں نے کہا،”اے ولید! تم ہی بتلاؤ۔اس نے کہا:”نہیں یہ نہیں۔ پہلے تم لوگ کوئی بات طے کرو۔ میں سننے کے بعد رائے دوں گا۔“
ایک نے کہا:”ہم کہیں گے یہ’کاہن‘ہیں۔ جیسے پیشہ ور لوگ ہوتے ہیں۔-لوگوں کی تقدیر اناپ شناپ بتلاتے ہیں۔پیسے لیتے ہیں۔“ ولید نے کہا:”یہ بات جمے گی نہیں۔ میں نے کاہنوں کو دیکھا ہے، وہ منمناتے ہیں۔ ان کے جملے پہلو دار اور ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ ان کی بات کا وہ ڈھنگ نہیں۔“ دوسرا بولا:”ہم کہیں گے ان کا دماغ خراب ہے(توبہ توبہ)یہ مجنوں ہیں۔ ان کی بات پر دھیان نہ دو۔“ولید نے کہا:”ان کے کلام کو دیوانوں کی بڑ ثابت کرنا مشکل ہے۔ یہ بات بھی جھوٹی پڑ جائے گی۔“ تیسرے نے کہا:”اچھا تو پھر ہم کہیں گے کہ یہ شاعر ہیں۔ شاعروں کا کیا ٹھکانا۔“ ولید نے اس رائے سے بھی اختلاف کیا۔ چوتھا بولا:”اچھا تو ہم کہیں گے،یہ جادوگر ہیں۔ ان کی بات میں نہ آؤ۔“ولید نے کہا:”یہ بھی غلط ہے۔ وہ جھاڑ پھونک، گنڈا تعویذ کب کرتے ہیں۔“سب اکتا کر ایک ساتھ بولے:”تو پھر آپ ہی بتلائیے۔ ہماری تو عقل کام نہیں کرتی۔“ ولید نے کہا:”خدا کی قسم ان کے کلام میں عجیب شیرینی ہے۔ ان کا کلام ایک ایسے تناور درخت کے مانند ہے جس کی جڑیں زمین میں دور دور تک پھیلی ہوں اور جس کی شاخیں ثمر دار ہوں۔ ان کے سامنے تمہاری ایک نہ چلے گی۔ میری سمجھ میں تو آتا ہے کہ تم لوگ کہو یہ جادوگر ہیں۔ اپنی باتوں سے میاں بیوی میں پھوٹ ڈال دیتے ہیں۔ باپ بیٹے میں نفاق پیدا کرتے ہیں۔ عزیز رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیتے ہیں۔“یہ طے ہو گیا۔ حج کے موسم میں یہ لوگ ہر ایک سے یہی کہتے پھرتے مگر حق کی راہ کون روک سکا ہے۔ نتیجہ الٹا ہو رہا تھا۔

سدھارنے آئے سدھر گئے
آپﷺ کے ایک دوست ضماد بن ثعلبہ، نبی ہونے سے پہلے بھی ان سے بڑی دوستی تھی۔ ان سے لوگوں نے کہا:”تمہارے دوست کو جنون ہو گیا ہے، ان کی خبر لو۔“وہ کچھ جھاڑ پھونک کرتے تھے۔ آپﷺ کے پاس آئے، بولے:”تمہیں کیا ہوگیا ہے، کہو تو پھونک ڈال دوں۔“ آپﷺ نے جواب میں کہا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ۔ مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ وَمْنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ، وَأَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہُ، اَمَّا بَعْدُ۔
آگے کچھ کہنے ہی والے تھے کہ ضماد نے کہا:”پھر تو پڑھیے۔“ آپﷺ نے تین بار یہی الفاظ دہرائے۔ وہ سنتے رہے۔ پھر بولے:”میں نے کاہنوں کو دیکھا ہے۔ دیوانوں اور شاعروں سے بھی واسطہ پڑا ہے۔ اس طرح کے کلمات کسی سے نہیں سنے، تم تو سمندروں کی گہرائیوں تک پہنچ گئے۔حقیقت کو پا چکے ہو۔ ہاتھ بڑھاؤ، میں مسلمان ہوتا ہوں۔“ آپﷺ نے ہاتھ بڑھادیا۔ضماد بن ثعلبہ مسلمان ہو گئے۔

کیسے نا سمجھ تھے حق کا مول تول کرنے آئے تھے
اللہ کا دین آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا۔ کافر پریشان تھے کیا کریں۔ کیسے حق کی راہ روکیں۔پیارے رسولﷺ اکیلے ہیں۔ تھوڑے سے ساتھی ہیں۔ ان کے پاس کوئی دنیاوی طاقت نہیں۔ دیکھنے میں بے بس ہیں۔ مجبور ہیں۔ پھر بھی ان کی بات ہے کہ دل میں اتر جاتی ہے۔ سب اپنے ہیں،ہماری کوئی سنتا نہیں۔ باپ دادا کا دین مٹ رہا ہے۔لات و عزیٰ کی خدائی خطرے میں ہے۔ چلو،ابو طالب کے پاس چلیں۔دین تو ان کا بھی وہی ہے جو ہمارا ہے۔ ان بتوں کی عزت کا، خاندان کی آن بان کا کچھ نہ کچھ تو خیال ان کو بھی ہو گا۔ کچھ لوگ اکٹھے ہوئے۔ ساتھ مل کر ابو طالب کے پاس آئے۔ بولے:”بھتیجے کو روکیے۔ سارے خاندان کی عزت خاک میں مل رہی ہے۔ ہمارے آپ کے معبود جھٹلائے جا رہے ہیں۔ آپ کے بھتیجے کا کہنا ہے کہ ہم سب احمق ہیں، نادان ہیں،لات و عزیٰ کی پوجا کرتے ہیں۔ عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔لات و منات کا واسطہ ان کو سمجھائیے۔ اب پانی سر سے اونچا ہو رہا ہے۔“ ابو طالب نے کسی طرح ان سے پیچھا چھڑایا۔ بھتیجے سے کچھ نہ کہا۔ پیارے رسولﷺ اپنا کام کرتے رہے۔ دین پھیلتا رہا۔
مخالفین پھر آئے۔بہت کہا سنا۔ اب کے دھمکی بھی تھی۔ جان کا خوف دلا گئے۔ابوطالب سوچ میں پڑ گئے۔ اب کیا کریں۔بھتیجے کو بلایا۔ پاس بٹھایا۔ پھر بولے:”بیٹا! مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ سہار مشکل ہو جائے۔“
پیارے نبی ﷺسمجھے چچا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ یہ کام تو اللہ کا تھا۔ اس کے بھروسے پر ہو رہا تھا۔ بولے:”چچا جان! یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے میں چاند لا کر رکھ دیں تب بھی اس کام سے باز نہ آؤں گا۔ یا تواللہ اپنے دین کو غالب کرے گا یا میں اس راہ میں مر کھپ جاؤں گا۔“یہ کہہ رہے تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ پھر اٹھے اور باہر جانے لگے۔چچا نے روکا۔ واپس بلایا۔ کہا:”بھتیجے! جاؤ اپنا کام جاری رکھو۔ ابوطالب تمہیں ان ظالموں کے چنگل میں نہ دے گا۔“ بڑی کشمکش میں تھے۔پالنے پوسنے کی لاج، انسانیت کا تقاضا،اور پیارے نبیﷺ کی زندگی جس کا ہر پہلو ان کے سامنے تھا۔ جو جادو کی طرح ان کے دل و دماغ پر چھا گئی تھی۔
وہ لوگ پھر آئے۔ اب کی اپنے ساتھ ولید کے بیٹے عمارہ کو بھی لیتے آئے،اور ابوطالب سے کہا:”دیکھئے یہ عمارہ ہے ولید کا بیٹا، خوبصورت، جوان۔ آپ اس کو اپنا بیٹا بنا لیجئے اور اپنے بھتیجے کو ہمارے سپرد کر دیجیے۔ وہ ہمارے اور آپ کے دین کو جھٹلاتا ہے۔باپ، دادا جس راہ پر چلتے رہے ہیں، اس سے قریش ہی نہیں سارے عرب، ساری دنیا، سب انسانوں کو پھیرنے کی دھن میں ہے۔ بیٹے کے بدلے بیٹا لو۔جھگڑا پاک کرو۔“ ابوطالب کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ غصے میں بولے:”عمارہ کولے لوں، کھلاپلا کر موٹا کروں۔ اپناپیارا بیٹا تم کو دے دوں۔ تم اس کو قتل کر ڈالو۔ اچھے آئے کہیں کے۔جاؤ جو تم سے بنے کرو۔میں ان چالوں میں آنے والا نہیں۔“
اب کیا تھا، کافروں کے غصے کا پارہ چڑھ گیا۔ ظلم و ستم کی چکّی چل پڑی۔ ہر قبیلہ اس پر تل گیا کہ اس میں جو لوگ مسلمان ہوئے ہیں ان کو پیس کر رکھ دیا جائے۔ صرف بنی ہاشم نے اپنے سردار ابوطالب کا ساتھ دیا۔

حق کی راہ میں دکھ جھیلنے والے

بلالؓ
ان کو کون نہیں جانتا۔پیارے نبی ﷺکے موذن۔ رہتی دنیا تک اذان کی پکار گونجے گی۔رہتی دنیا تک ان کا نام رہے گا۔
یہ تھے آزمائش کی بھٹی میں تپ کر کھرا سونا بننے والے۔ ان کا مالک دو پہر کی چلچلاتی دھوپ میں ان کو عرب کی گرم ریت پرلٹا دیتا۔ سینے پر بہت بھاری پتھر رکھ دیتا اور کہتا:”محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی برائی کرو۔ اللہ کی عبادت سے انکار کرو۔ یا پھر سمجھ لو اس بھاری بوجھ، اس تپتی ہوئی ریت پر تمہاری جان نکل جائے گی۔ ہم تمہیں زندہ نہ چھوڑیں گے۔“ اس کرب و اذیت کے عالم میں بھی عزم و یقین کے اس جاں باز مجاہد کی زبان سے نکلتا ”اَحدٌ اَحدٌ۔“ اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے۔

عمارؓ
ان کو ہی نہیں، ان کے ماں باپ کو بھی ظالم میدان میں گھسیٹ لے جاتے۔پھرگرم ریت پر طرح طرح ستاتے۔بڑی اذیت پہنچاتے، مگر ان کا یقین، ان کا ایمان کسی آزمائش کو خیال میں نہ لاتا۔ ایک دن پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے۔ ماں، باپ اور بیٹے کو دیکھا،اپنے ایمان کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ دین کی راہ میں بہادری سے ظلم و ستم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ عمار کے والد کا نام یاسر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اے آلِ یاسر! صابر اور شاکر رہو۔ تمہارا مقام جنت ہے۔“
یاسر یہ ظلم سہتے سہتے جنت کو سدھارے۔ان کی بیوی سمیہؓ کو ابوجہل نے بھالا مار کر شہید کر ڈالا۔ماں باپ کی شہادت بھی عمار کو راہ حق سے نہ پھیر سکی۔

خبابؓ
ان کے کپڑے اتار کر انہیں انگاروں پر لٹا دیتے۔اوپر سے جلتا ہوا پتھر رکھ دیتے اور ان کو دبائے رہتے کہ اٹھنے نہ پائیں۔ یہاں تک کہ دہکتے ہوئے انگارے ٹھنڈے پڑ جاتے۔
مگر دہکتے ہوئے انگاروں کی گرمی اس گرمی سے شکست کھا گئی جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان نے ان کے دل میں پیدا کر دی تھی۔ کافروں کی بھڑکائی ہوئی آگ بجھ گئی۔ ایمان کا شعلہ روشن رہا۔اسے کوئی افسردہ نہ کر سکا۔

صہیبؓ
روم کے رہنے والے تھے۔مکے میں آ بسے تھے۔تلوار کی تجارت کرتے تھے۔ بڑا پیسہ تھا ان کے پاس۔ مدینے جانے لگے تو کافروں نے کہا:”حق عزیز ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دم بھرتے ہو۔یہ دولت تو ہمارے درمیان کمائی ہے۔ اسے چھوڑجاؤ تو جاؤ۔“
صہیب مسکرائے۔ احمقو! یہ دولت، اس کی کیا حقیقت ہے۔یہ حق کا مول ہو سکتی ہے؟ بڑے نادان ہو۔ دینے والا کون تھا۔ رکھ لو اس کو اپنے پاس۔میں جاتا ہوں۔ اس کی پروا کس کو ہے۔ یہ ساری کائنات توحق کا مول ہو نہیں سکتی۔یہ چند ٹھیکرے کیا چیز ہے۔

لبینہؓ
حضرت عمر کی لونڈی تھیں۔ آپؓ مسلمان نہ ہوئے تھے۔ ان کو مارتے، بہت مارتے، تھک جاتے تو رکتے، اور کہتے:”تجھ پر ترس نہیں کھا رہا ہوں۔ تھک گیا ہوں۔“وہ جواب دیتیں:”مسلمان ہو جاؤ نہیں تو اللہ تم کو اسی طرح عذاب میں ڈالے گا۔“اس فدا کار خاتون کے صبرواستقلال نے بھی وہ نرمی پیدا کی ہو گی جس کے سبب بعد میں فاروق اعظم کے دل سے ایمان کا سر چشمہ پھوٹ نکلا۔

پیارے رسولﷺ بھی
ظلم و ستم صرف ساتھیوں پر ہی نہ تھے۔ پیارے رسولﷺ بھی ستائے جاتے تھے اور بری طرح ستائے جاتے تھے۔ کبھی گلے میں پھندا ڈالا گیا، ابو بکر صدیق نے آ کر چھڑایا۔کبھی سر پر پوری اوجھ لا کر ڈال دی گئی۔پیارے رسولﷺ کا سر سجدے میں تھا اور ظالم قہقہے لگا رہے تھے۔
آخرکار آپﷺ کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکو خبر ہوئی، وہ دوڑی دوڑی ہوئی آئیں اور آپﷺ کے سر سے اوجھ ہٹا کرالگ پھینکی۔ ہنسنے والوں کے لیے رونے کا دن بھی آیا۔صبرو رضا کا یہ مجسمہ اپنی جگہ قائم رہا۔ دین پھیلتا گیا۔

پھر بہکانے آئے

باطل کی جانب سے سودے بازی کی ایک اور کوشش
دین پھیل رہا تھا، تیزی سے، ہر رکاوٹ سے نبٹتا،ہر پتھر کو ہٹاتا۔جیسے پہاڑی چشمہ چٹانوں کو کاٹتا، سنگ ریزوں کو ہموار کرتا، اپنی راہ بناتا بہتا چلا جاتا ہے۔ کافر بوکھلائے ہوئے تھے۔ ان کی مت ماری ہوئی تھی۔جو تدبیر سوچتے الٹی پڑ تی۔ ستا کر ہار گئے۔ چال بازیوں نے کام نہ دیا۔پہلے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قریبی لوگ نئے دین میں داخل ہو رہے تھے۔ لاچار و محتاج لونڈی، غلاموں اور نرم دل آدمیوں نے اس پکار کی جانب قدم بڑھایا مگر اب……اب تو حمزہ جیسے دلاور ساتھ چھوڑ رہے تھے۔ پتھرپسیج گئے۔ چٹانوں میں چشمہ ابل پڑا۔
……پھر اکٹھے ہوئے اور سب مل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔عتبہ نامی ایک کافر آگے آگے تھا۔آتے ہی بولا، بڑی لجاجت اور نرمی سے، بہت خوشامد کے انداز میں۔”میری سنو گے۔میں تم سے کچھ کہنے آیا ہوں۔ مان جاؤ تو بڑا اچھا ہے۔“ آپﷺ نے جواب دیا:”کہو ابو الولید۔میں سننے کو تیار ہوں۔“ اس نے کہاکہ ”یہ سب جو تم کر رہے ہو، یہی ہمارے معبودوں کی برائی،نیا دین پھیلانے کے لئے دوڑ دھوپ۔ اگر تم یہ سب روپے پیسے سونے چاندی کے لئے کرتے ہو تو بے کا ر پریشان ہوتے ہو۔لات و عزیٰ کی برائی چھوڑ دو۔ باپ دادا کے دین کے خلاف کچھ نہ کہو۔ ہم دولت کا ڈھیر تمہارے قدموں میں لا کر رکھ دیتے ہیں۔اتنی دولت کہ مکے میں کوئی امیرسے امیر آدمی تمہاری برابری نہ کر سکے۔
دولت نہیں چاہتے۔سردار بننے کی فکر ہے تو اس کے لئے بھی ہم سب راضی اور آمادہ ہیں۔ آج سے تم ہمارے سردار ہی نہیں، بلکہ بادشاہ مگر شرط وہی ہے۔ اپنا کام بند کر دو۔ لوگوں سے نہ کہو کہ اللہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔“
یہ بھی نہیں۔ کسی خوبصورت چاند جیسی حسن و جمال رکھنے والی عورت سے شادی کرنا چاہتے ہو تو ہم کو یہ بھی منظور ہے۔ہم یہ بھی کر دیں گے مگر ہمارے معبودوں کو برا نہ کہو۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنتے رہے۔ جب وہ چپ ہوا تو آپﷺ نے حم سجدہ کی آیتیں پڑھنی شروع کیں۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ پیٹھ کے پیچھے زمین پر ٹیک دیئے اور محویت کے عالم میں سنتا رہا۔ آپ سجدے کے مقام پر پہنچے۔ سجدہ کیا، پھر اس کی طرف دیکھا اور بولے:”تم نے سنا،یہ تمہاری بات کا جواب ہے۔“
عتبہ وہاں سے اٹھا اور ساتھیوں کی جانب چلا۔اس کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا۔کافروں نے دیکھا، آپس میں کہنے لگے:”وہ تو آ رہا ہے لیکن اس کا چہرہ کچھ اور کہہ رہا ہے۔“قریب پہنچا تو ہر طرف سے آوازیں بلند ہوئیں:”کہو، کیا خبر لائے؟“ جواب ملا:”خبریہ ہے کہ آج جو کلام میں نے سنا ہے، ایسا کلام میں نے کبھی نہیں سنا۔نہ وہ شعر ہے، نہ جادو اور نہ کاہنوں کی بڑ۔ میری مانو تو اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اس کا غلبہ ہوا تو تمہارا کیا بگڑے گا۔آخر تم ہی میں سے ایک تو وہ بھی ہے۔ اس کی عزت تمہاری عزت ہے۔ شکست ہوئی تو تمہارا کام بن آیا، یہی تو تم چاہتے ہو۔میری تو یہی رائے ہے۔ ویسے تمہاری مرضی جو جی میں آئے کرو۔“
باطل کی صفوں میں رخنہ پیدا ہو رہا تھا۔پیروں کے نیچے سے زمین نکل رہی تھی۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کام جاری رکھا۔ حق کی آواز مکے کی پہاڑیوں میں گونجتی رہی۔ کوئی اسے دبا نہ سکا۔دین پھیلتا رہا۔

حق کے لیے وطن بھی چھوڑا

حبش کی پہلی ہجرت
عرب سے ملا ہوا حبش کا ملک ہے۔ وہاں کے بادشاہ کو نجاشی کہتے تھے۔وہ بہت بھلا آدمی تھا۔کسی پر ظلم نہ ہونے دیتا۔ اپنے پرائے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا۔پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھیوں سے کہا:”چچا کی وجہ سے اور بنی ہاشم کے ڈر سے یہ لوگ مجھ پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ تم لوگوں کو بڑی اذیت دیتے ہیں۔تم حبش چلے جاؤ۔اطمینان ہوگا تو پھر آجانا۔ وہاں اللہ کی عبادت کر سکو گے۔ اس کے بتائے ہوئے ڈھنگ پر زندگی تو بسر ہوگی۔“
615ء میں آپ ﷺکے نبی ہونے کے پانچویں سال رجب کا مہینہ تھا۔ یہ تھوڑے سے لوگ چھپتے چھپاتے حبش پہنچے۔ ان کے چلے جانے کی خبر پھیلی۔کافروں کو بڑا اچنبھا ہوا۔دین کے لیے گھر بار چھوڑ دیا۔ یہ کیسے لوگ ہیں۔ ان کا دین کیسا ہے۔ کافروں نے سمندر کے کنارے تک پیچھا کیا۔ یہ لوگ جا چکے تھے۔ کھسیا کر لوٹ آئے۔حبش میں مسلمانوں کو ہر طرح کی آزادی تھی۔

حبش کی دوسری ہجرت
جو لوگ حبش گئے تھے۔کچھ دنوں بعد لوٹ آئے۔ ان کو خبر ملی۔ اب مکے میں امن ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہوگئے۔ لوگ کھلم کھلا نماز پڑھتے ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔یہاں آئے تو پہلے سے زیادہ مصیبت پڑی۔ کافروں نے پہلے سے زیادہ ستایا۔ کیاکرتے۔پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جاؤ پھر حبش چلے جاؤ، دین پھیلاؤ،دین پر عمل کرو،مکہ اب رہنے کی جگہ نہیں۔“ پھر چلے۔ یہ سفر بہت تکلیف دہ تھا۔ قدم قدم پر کافروں کے ظلم و ستم کا سامنا تھا۔کافروں کو نجاشی پر بھی بہت غصہ تھا۔کچھ لوگ پیچھے پیچھے گئے۔ نجاشی سے ملے۔ مسلمانوں کی برائی کی۔ اس نے کافروں اور مسلمانوں کو دربار میں بلایا۔حضرت علیؓ کے بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے دربار میں تقریر کی۔ تقریر بہت اچھی تھی۔ بڑی زوردار اور پر اثر تھی۔
انہوں نے اپنی تقریر میں بتلایا۔ دعوت اسلامی سے پہلے عرب کا کیا حال تھا۔کیسی گندگیوں اور کن برائیوں میں وہاں کے لوگ مبتلا تھے۔ پھر اللہ نے ان کے درمیان رسول بھیجا۔ اس پاک نبی نے ان کو اللہ کا راستہ دکھلایا،بتوں کی پوجا چھڑائی، آپس میں میل و محبت سے رہنا، سچ بولنا،دوسروں کا مال بے ایمانی سے نہ کھانا،مظلوم کی مدد کرنا، ظلم کا ہمت و استقلال سے مقابلہ کرنا،اللہ کے بھیجے ہوئے دین پر چلنا اور ایسی ہی بہت سی اچھی باتیں بتلائیں۔ ہماری کایا پلٹ گئی۔ ہم اندھیرے سے اجالے میں آگئے۔ سچائی اور بھلائی کو ہم نے دوپہر کے سورج کی طرح دیکھ لیا۔ جان لیا۔
یہی ہمارا قصور ہے جس کے لیے ہمارے ملک اور شہر والوں نے،خاندان اور گھر والوں نے ہم کو ستانا شروع کیا۔اپنے دین کی خاطر جس راہ کو ہم نے اپنے لئے ٹھیک سمجھا، اس پر چلنے کے لیے گھر بار چھوڑنے پر راضی ہو گئے۔ یہاں چلے آئے تو اب یہ ہم کو یہاں بھی چین نہیں لینے دیتے۔
نجاشی پر اس تقریر کا بڑا اثر ہوا۔وہ رونے لگا۔ اس نے مسلمانوں سے کہا:”آپ لوگ میرے ملک میں اطمینان سے رہیے۔ آپ کو کوئی نہ ستائے گا۔کافر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔مکے لوٹ آئے۔

بائی کاٹ
کافروں کو اس پر بڑا غصہ تھا۔ کمزور اور بے سہارا لوگ نجاشی کی پناہ میں پہنچ گئے۔نیا دین پھیلتا جا رہا ہے۔ حمزہ رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ تک مسلمان ہو گئے۔ مسلمانوں کی تعدادبرابر بڑھ رہی ہے۔ ان کی صفوں سے نکل نکل کر لوگ اللہ کے دین میں داخل ہوتے جا رہے ہیں۔ بنی ہاشم میں سے وہ جو مسلمان ہو گئے ہیں وہ اور جو ا بھی کافر ہیں وہ بھی کھلم کھلا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان کی ایک نہیں چلتی۔ چچا باپ دادا کے دین پر ہے پھر بھی بھتیجے کے لئے سینہ سپر ہے۔ ان کا غصہ انتہا کو پہنچ گیا۔ بنی ہاشم کا بائی کاٹ کردیا جائے۔پورا بائی کاٹ۔ان کو لڑکیاں نہ دی جائیں، نہ ان کی لڑکیاں لی جائیں، ان کے ساتھ خرید وفروخت، کھانا پینا، سب بند، بالکل بند۔ ایک معاہدہ لکھا گیا، کعبے کے دروازے پر لٹکادیاگیا۔
بنی ہاشم ایک گھاٹی میں قید تھے۔ اس کا نام شعب ابی طالب ہے یعنی ابو طالب کی گھاٹی۔غلہ بند، پانی بند،ضرورت کی ساری چیزیں بند، چھوٹے چھوٹے بچے بھوک سے بلکتے،پتیاں اور جڑی بوٹیاں کھا کر دن کاٹتے۔ ہفتے اور مہینے اسی حال میں گزرتے رہے۔ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں بھی اپنے کام سے باز نہ آئے۔بڑی کڑی آزمائش تھی جس میں پورا خاندان گھرا ہوا تھا۔ مگر اپنی جگہ پر اٹل تھے۔ان کو ایک ہی دھن تھی۔گھاٹی سے باہر آتے،دین پھیلاتے، لوگوں سے کہتے:”پتھر کے ان بے بس بتوں کے سامنے سر نہ جھکاؤ۔ عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔میں اس کا بندہ اور رسول ہوں۔
دو سال سے زائد اس عالم میں گزر گئے۔ اس مدت میں عورتوں اور بچوں نے بوڑھوں اور جوانوں نے وہ مصیبتیں اٹھائیں کہ خدا کی پناہ۔ کافر سمجھتے تھے، اس بائیکاٹ سے بنی ہاشم کی ہمت پست ہو جائے گی۔ وہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ آپﷺ ان کا ساتھ چھوٹنے کے ڈر سے بتوں کی برائی سے باز آ جائیں گے۔ وہ پکار جس سے ان کے دل لرزتے تھے، مکہ کی پہاڑیوں میں نہ گونجے گی۔ مگر یہ کچھ نہ ہوا۔آپ نے اپنے کام کو ذرہ برابر دھیما نہ کیا۔ رفتار بڑھتی ہی گئی۔کام بڑھتا ہی رہا۔ دین پھیلتا رہا۔

ظلم و زیادتی کے خلاف آواز
کافروں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کا دل اندر سے پکارتا تھا۔ یہ زیادتی اور ظلم ٹھیک نہیں۔ یہ بچوں کا بلکنا، بوڑھے مردوں اور عورتوں کا ایک گھونٹ پانی اور سوکھی کھجور کے لیے ترسنا اور اس پر قہقہے لگانا، بڑی سنگدلی ہے۔ اس ظلم کو ختم ہونا چاہیے۔ اس زیادتی کے خلاف آواز نہ اٹھانا بزدلی ہے۔ وہ اکٹھا ہوئے۔ پانچ آدمی تھے۔ رات کو انہوں نے طے کیا۔ کل بات چیت ہو۔ اس ظالمانہ معاہدے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں جو کعبے پر لٹک رہا ہے۔بائی کاٹ ختم ہو۔صبح ہوئی۔کعبے میں کافر اکٹھے تھے۔ان میں سے ایک نے گفتگو شروع کی۔ ہم کھاتے پیتے ہیں، ہمارے بچے اور عورتیں آرام سے سوتے ہیں اور بنی ہاشم پر فاقے گزر رہے ہیں۔ ابو جہل بیچ میں بول اٹھا:”تم ہی بنی ہاشم کی طرف داری کرنے آئے ہو۔“ دوسرے نے کہا:”یہ ٹھیک کہتے ہیں۔یہ ظلم اب برداشت نہ کیا جائے گا۔“ تیسرے، چوتھے اور پانچویں نے بھی ساتھ دیا۔اس مجمع میں اور بھی لوگ تھے جن کا دل اندر سے آواز دیتا تھا کہ یہ زیادتی ہے، اس کوختم ہونا چاہیے۔ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی، نیکی اور دکھ مصیبت کی پروا کیے بغیر اللہ کی بڑائی بیان کرتے رہنے اور دین پھیلانے سے ذرا بھی نہ ہچکنے کا ڈھنگ ایسا تھا کہ دشمن بھی اس کے اثر سے نہ بچ پائے تھے۔ اب ہر طرف سے لوگ پکارنے لگے۔معاہدے کو چاک کر ڈالو، بائیکاٹ ختم ہو۔ اللہ کی قدرت دیکھئے۔ کعبے کے دروازے کی طرف لوگ بڑھے تو دیکھتے ہیں، سارا کاغذ دیمک چاٹ گئی۔ صرف اللہ کا نام باقی ہے۔ جو جھوٹ تھا مٹ گیا، جو سچ تھا، باقی رہا۔

بائیکاٹ ختم
دو سال سے زیادہ زمانہ شعب ابی طالب میں قید رہ کر گزارنے کے بعد بنی ہاشم کو کھلی فضا میں سانس لینے کی مہلت ملی۔بائیکاٹ ختم ہوا۔

ابو طالب کی وفات
بائیکاٹ ختم ہوگیا لیکن ابھی پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دین کی راہ میں بڑی بڑی مصیبتیں جھیلنی تھیں۔ہجرت سے تین سال پہلے شوال کے مہینے 620ء میں چچا ابوطالب بھی اس دنیا سے چل بسے۔وہ جب تک زندہ رہے کافروں کی ہمت نہ ہوئی کہ آپ پر ہاتھ ڈالیں۔ ان کے مرتے ہی ظالموں کے راستے سے یہ رکاوٹ بھی ہٹ گئی۔
انہوں نے مرتے وقت خاندان والوں کو بلایا۔ ان سے کہا:”تم لوگ جب تک ان کا کہنا مانو گے بھلے رہو گے۔ تمہاری اچھائی اسی میں ہے کہ ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلو۔ان کا کہنا مانو۔ یہ اشارہ تھا پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف۔ مرنے کے وقت ابو طالب کی عمر 80 سال تھی۔

حضرت خدیجہؓ کی وفات
چچا ابو طالب کی وفات کے کچھ ہی دن بعد بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوگیا۔ وفات کے وقت ان کی عمر 65 سال تھی۔ پیارے رسول سے شادی کے بعد وہ چوبیس سال چھ ماہ زندہ رہیں۔
بی بی خدیجہ اور چچا ابوطالب جب تک زندہ رہے، ہر مشکل گھڑی میں انہوں نے پیارے رسولﷺ کا ساتھ دیا۔ حق کی حمایت کی۔ سچائی کے لیے دکھ جھیلا۔ خاندان والوں کی پروا نہ کی۔ کافروں سے نہ ڈرے۔ ایک اللہ کا ڈر ان کے دل میں سمایا تھا۔ دنیا میں کسی سے نہ ڈرتے تھے۔
بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا ہر مشکل میں ساتھ تھیں۔ پیارے رسولﷺ کو ڈھارس دیتیں۔ دین پھیلانے میں اپنی سمجھ کے مطابق آپ ﷺکو مشورہ دیتیں،جی جان سے اللہ کا حکم بجا لانے اور اس کی مرضی دوسروں کو بتانے میں آپ ﷺ کے ساتھ تھیں۔
ان دونوں کی وفات کے بعد آپﷺ پر مصیبتوں کی بارش شروع ہوگئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ آپﷺ نماز پڑھتے تو بدتمیز لوگ آپ ﷺکے سر پر مٹی ڈال دیتے یا جانوروں کی اوجھ۔ اس طرح اپنے لئے دوزخ کی آگ کا انتظام کرتے تھے اور احمق ایسے کہ ان حرکتوں پر خوش ہوتے۔

طائف میں
اللہ کا پیغام آپﷺکو پہنچانا ہی تھا۔ بھٹکے ہوؤں کو راہ پر لانے اور انسانوں کی زندگی سنوارنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ اب مکے کے درودیوار آپ ﷺکے دشمن ہو رہے تھے۔آپ ﷺکو اپنی جان کی فکر نہ تھی۔ اس کی حفاظت کرنے والا تو اللہ تھا۔ مصیبتوں اور پریشانیوں سے آپ ﷺڈرنے والے نہ تھے۔ آپﷺ کو اس بات کا سوچ تھا کہ کچھ لوگ ساتھ دینے والے مل جائے تو میں اپنا کام کروں، لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچاؤں۔ بات کہنے کی آسانی پیدا ہو۔برا بھلا کہنے اور پریشان کرنے سے کافروں کو کوئی روک سکے تو یہ لوگ دیکھیں اور سمجھیں اور سیدھا راستہ ان کو نظر آئے۔
مکے کے جنوب مشرق میں کوئی پچاس میل کے فاصلے پر ایک شہر ہے۔ اس کا نام طائف ہے۔ گرمیوں کے زمانے میں لوگ یہاں سیر کوجایا کرتے تھے، جیسے ہمارے یہاں نینی تال اور مسوری جاتے ہیں۔ بڑاسر سبز اور شاداب مقام ہے۔ امیروں کی بستی تھی۔ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوچا، وہاں جاؤں شاید کوئی بھلا آدمی میری بات سن لے اور ساتھ دینے پر راضی ہوجائے تو اللہ کا پیغام پہنچانے میں آسانی ہوگی۔طائف کو مرکز بنا کر کام جاری رکھا جائے گا۔ آپﷺ وہاں تشریف لے گئے۔ انہوں نے آپ ﷺکی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے آپ ﷺکا مذاق اڑایا۔ برے بچوں اور بدتمیز لوگوں کو آپﷺ کے پیچھے لگا دیا۔ ان بدبختوں نے آپﷺ کو بہت ستایا۔ ایک دیوار سے ٹیک لگاکرکھڑے ہوگئے۔ یہ دو آدمیوں کے مکان کی دیوار تھی جو اصل میں مکہ کے رہنے والے تھے۔وہ کافر تھے، آپﷺ کی بات نہ مانتے تھے لیکن آپﷺ کی نیکی کا سکہ ان کے دلوں پر جما ہوا تھا۔ انہوں نے اس بے ہودہ مجمع سے آپ ﷺ کو چھڑایا۔

پھر مکہ واپس آئے
طائف کے لوگوں کا یہ برتاؤ دیکھا توآپﷺ پھر مکہ لوٹے لیکن اب وہاں کافروں کی بن آئی تھی۔ چچا ابو طالب اور بی بی خدیجہ اس دنیا سے جا چکے تھے۔ کون تھا جو آپﷺ کا ساتھ دیتا۔ دشمنوں کے مقابلے میں سینہ سپر ہوتا، مگر آپﷺنے ہمت نہ ہاری۔ اللہ کا پیغام تو ہر حال میں پہچانا ہی تھا۔دو چار آدمیوں کے پاس آپ ﷺنے کہلا بھیجا۔ اگرآپﷺ مکہ کے آئیں تو وہ آپﷺ کو پناہ دیں تاکہ آپﷺ اپنے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔ کوئی راضی نہ ہوتا تھا، مگر برے لوگوں میں بھی کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ نیکی کا جذبہ ان کے دل میں راکھ کے ڈھیر میں چنگاری کی طرح دبا رہتا ہے۔ برائیوں میں گھرے رہے۔ چنگاری بجھ گئی۔ اچھائی کی ہوالگ گئی۔ چنگاری بھڑک اٹھی۔

مطعم بن عدی کی میں
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام مطم بن عدی کے پاس پہنچا۔ اس نے کہا، میں پناہ دینے کو تیار ہوں اور زرہ بکتر پہن کر تلوار لے کرگھر سے باہر آئے۔ گھر کے دوسرے لوگ بھی ساتھ تھے۔ سب ہتھیار بند تھے۔ ان لوگوں کے ساتھ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے۔ ابوجہل بہت خفا ہوا۔ بگڑ کر مطعم سے سے پوچھنے لگا:”مسلمان ہو گئے ہو یا ان کو صرف پناہ دی ہے۔“ مطعم نے کہا:”عربوں کے قاعدے کے مطابق یہ میری پناہ میں ہیں۔“ یہ وہی مطعم بن عدی تھا جس نے بائیکاٹ کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کام جاری رکھا۔ جو ملتا اس کو فرماتے:”عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔یہ بت اس قابل نہیں کہ انسان کی پیشانی ان کے سامنے جھکے۔ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“

انصار مسلمان ہوتے ہیں
حج کا موسم آتا تو مکے میں بڑی چہل پہل اور ہما ہمی ہوجاتی۔ سارے عرب کا میلہ سا لگ جاتا۔ دور دور سے لوگ آتے۔ طرح طرح کے کھیل تماشے، محفلیں اور جلسے ہوتے۔ہر قبیلے کا الگ الگ مجمع ہوتا۔ لوگ ایک دوسرے سے ملتے، باتیں کرتے،مقابلے اور تفریح کا سامان کیاجاتا،حج کے بعد بھی مکے کے آس پاس کے مقامات پر جو قافلوں کی راہ میں پڑتے،کئی میلے لگتے تھے۔
اس زمانے میں آپ ﷺکا کام بڑھ جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مجمع میں جاتے،ہر قبیلے کے لوگوں سے ملتے۔اپنی بات کہتے۔سچی بات سب کے کانوں تک پہنچاتے۔رسول تھے،اپنا فرض ادا کرتے۔اللہ کی بڑائی بیان کرتے۔ویسے بھی جو باہر سے آتا مکہ میں اس کو ایک ہی نئی بات معلوم ہوتی۔بنی ہاشم میں ایک نوجوان ہے، وہ کہتا ہے میں اللہ کا بندہ ہوں، اس کا رسول ہوں۔ اللہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔بتوں کی پوجا چھوڑ دو۔ یہ کوئی بات نہیں کہ باپ دادا غلط راہ پر چل پڑے ہوں تو تم بھی اسی راہ پر چلتے رہو۔ مرنے کے بعد پوچھ گچھ ہو گی۔جو بھلائی کرے گا انعام پائے گا۔جو برائی کرے گا دوزخ کی آگ میں جلے گا۔ ابو جہل اور ابو لہب کہتے پھرتے۔”دیکھو یارو! تمہاری ایک شخص سے ملاقات ہوگی۔وہ تمہارے پاس ضرور آئے گا۔ بتوں کو برا کہتا ہے۔باپ دادا جس دین پر چلتے آئے ہیں، اس کو مٹانا چاہتا ہے۔ نیا دین پھیلانے کی دھن میں ہے۔ شاعر یاپھر مجنوں (توبہ توبہ) ہے۔ تم اس کی بات پر دھیان نہ دینا۔ان باتوں کا اثر الٹا ہوتا۔ لوگوں کو فکر پیدا ہوجاتی۔ دیکھیں یہ کون آدمی ہے، کیا کہتا ہے۔ سچائی کا معاملہ ایسا ہی ہے۔دوست تو خیر اپنا حق اداہی کرتے ہیں۔ دشمن نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔الٹا اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ ہمیشہ ایسا ہوا ہے، ہمیشہ ہوتا رہے گا۔حق کا مزاج ایک ہے، ایک ہی رہے گا۔

پیارے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کا شہر
یثرب جس کو اب ہم مدینہ کہتے ہیں۔ پیارے رسول ﷺ یثرب تشریف لے گئے تو اس کو”مدینۃ النبی“ پیارے نبیﷺ کا شہر کہا جانے لگا۔پھر خالی مدینہ رہ گیا۔ اب ہم صرف مدینہ کہتے ہیں، مگر مطلب وہی ہوتا ہے،مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم،پیارے نبی کا شہر۔ مدینے میں اس وقت عربوں کے دو قبیلے آباد تھے۔ ایک کا نام اوس اور دوسرے کانام خزرج۔ اس شہر میں یہودی بھی آباد تھے۔جیسا کہ عرب کے اور قبیلوں کا حال تھا۔یہ دونوں قبیلے آپس میں لڑا کرتے۔ ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ ان دونوں میں بڑی لڑائی ہوئی تھی اور دونوں طرف کے بہت سے آدمی مارے گئے تھے۔ یہ لوگ مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے اللہ کا دین پھیلانے میں جی جان سے مدد کی۔ اس لئے ان کو انصار کہا جانے لگا۔ہم ان کا ذکر اسی نام سے کریں گے۔
حج کے موسم میں سارے عرب سے لوگ آیا کرتے تھے۔ مدینے سے بھی آتے تھے۔ آپﷺ ان کے پاس بھی گئے۔ اللہ نے ان کو ہدایت دی، کچھ لوگ مسلمان ہوگئے۔ مدینے میں یہودی آباد تھے۔ ان کی کتابوں میں ایک آنے والے نبی کا تذکرہ تھا۔ یہ بات ان لوگوں کے کان میں پڑ چکی تھی۔ لوگ گھر لوٹے تو یہودیوں کو آپ ﷺکی باتیں بتلائیں۔ بہت سے یہودی مسلمان ہوگئے۔
دوسرے سال یعنی نبوت کے بارہویں سال 621ء میں انصار میں سے بارہ آدمی آئے۔مسلمان ہوئے، عہد کیا:”کسی کو خدا کا شریک نہ بنائیں گے، چوری اور زنا سے باز رہیں گے۔ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے۔ کسی پرتہمت نہ لگائیں گے۔ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھلائی میں نافرمانی نہ کریں گے۔“

مصعب بن عمیر کا مدینہ جانا
آپﷺ نے مصعب بن عمیر کو قرآن کی تعلیم دینے کے لیے ان کے ساتھ بھیجا۔ان کو سب لوگ وہاں ”پڑھانے والا“ کہتے تھے۔ وہ لوگوں کو قرآن پڑھا تے،دین کی باتیں بتلاتے،اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر خود رہتے، لوگ ان کو دیکھ کر اچھی باتیں سیکھتے، ویسا ہی کرتے۔مصعب بن عمیر کی باتیں سن کر سعد بن معاذ مسلمان ہوئے۔ان کا شمار مدینے کے بڑے لوگوں میں تھا۔ان کے مسلمان ہوتے ہی مدینے کے گھر گھر میں دین پھیل گیا۔ نہ کوئی مرد بچا نہ عورت۔جوان، بوڑھے، بچے سب مسلمان ہو گئے۔ دین پھیلانے میں اسعد بن زرارہ نامی انصاری نے بڑا حصہ لیا۔ان کی کوشش سے ہر گھر میں روشنی پہنچی۔ سب نے سیدھا راستہ پایا۔

انصار سے معاہدہ
دوسرے سال حج کے موسم میں مسلمان مدینے سے مکے آئے۔ ان کے ساتھ وہ لوگ بھی تھے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلا بھیجا کہ ہم سناٹے میں آپ سے ملنا چاہتے ہیں، کچھ باتیں کرنی ہیں۔ اس ملاقات کے لیے وہ جگہ طے ہوئی جس کو’عقبہ‘ کہتے ہیں۔ عید الاضحی کے دوسرے دن رات کے سناٹے میں ایک تہائی پہر گزرنے کے بعد دبے پاؤں انصار کا گروہ گھاٹی میں عقبہ کے پاس اکٹھا ہوا۔ مرد اور عورت سب ہی تھے۔پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار ہونے لگا۔وعدے کے مطابق آپﷺ تشریف لائے۔ آپﷺ کے ساتھ آپﷺ کے چچا عبدالمطلب کے بیٹے عباس بھی تھے۔ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ پھر بھی اس لیے آئے تھے کہ انصار سے جو بات چیت ہوتی ہے، وہ بھروسے کے قابل ہے یا نہیں۔ انہی نے سب سے پہلے بات چیت شروع کی،بولے:”اے خزرج کے لوگو! تمہیں معلوم ہے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ہمارے کون ہیں۔ ہم ان لوگوں کے مقابلے میں ان کے لئے سینہ سپر رہے ہیں جو ہماری قوم کے لوگ ہیں اور دین کے معاملے میں ہماری ان کی رائے بھی ایک ہے۔ ہم نے ان کے لیے مسلمان نہ ہونے کے باوجود نہ اپنی قوم کی پروا کی نہ اپنے دین کی۔ ہمارے شہر میں وہ عزت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ محفوظ ہیں۔اس سب کے ہوتے ہوئے وہ اب تمہارے شہر جانا چاہتے ہیں۔ تم میں شامل ہونے پر ان کو اصرار ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اگر تم اپنا وعدہ پورا کرنے کا پکا ارادہ رکھتے ہو۔دشمنوں کے مقابلے میں ان کی حمایت کا دم خم تم میں ہو تو ان کو اپنے یہاں لے جاؤ اور اگر یہ ارادہ ہو کہ وہ جب ہمیں چھوڑ کر، اپنا شہر اور وطن چھوڑ کر تمہارے یہاں پہنچیں تو تم قریش کے دباؤ میں آکر انہیں دشمنوں کے سپرد کر دو، تو اس سے یہ بہتر ہے کہ تم ابھی سے جواب دے دو۔وہ ہمارے درمیان ہر طرح امن میں ہیں۔ آبرو اور عزت سے ہیں۔“
مدینے کے لوگوں نے آپ کی طرف دیکھا۔ ایک نے کہا:”اے اللہ کے رسولﷺ! ہم تو آپﷺ کے منہ سے سننا چاہتے ہیں کہ آپﷺ کو ہم سے کیا عہد لینا منظور ہے؟“آپﷺ نے اپنے قاعدے کے مطابق قرآن کے چند آیتیں پڑھیں، اللہ کی عبادت اور اس کے حکم ماننے کی رغبت دلائی۔پھر بولے:”میں چاہتا ہوں تم مجھے اپنے بال بچوں اور گھر والوں کی طرح عزیز جانو، جو ان کے لیے کرتے ہو،میرے لیے کرو۔ جتنی حفاظت ان کی ضروری سمجھتے ہو اتنی میری ضروری سمجھو۔“ انصار نے کہا:”ہم اس کا عہد کرتے ہیں۔ آپﷺ کو معلوم ہے ہم کو لڑنے مرنے میں عار نہیں۔“ پھر آپ ﷺکے لیے دشمنوں سے میدان لینا،دین کی راہ میں سر دھڑ کی بازی لگانا تو ہمارا فرض ہے۔ ہم پیچھے نہ رہیں گے۔ ایک نے کہا:”اے اللہ کے رسولﷺ! ایک بات کا ہم اور اطمینان چاہتے ہیں۔اب تک یہودیوں سے ہمارے تعلقات تھے۔آپ ﷺکی خاطر ہم ان سے کٹ رہے ہیں۔ کل اللہ اپنے دین کو غالب کر دے اور آپﷺ سوچیں کہ ہم کو چھوڑ کر اپنے خاندان والوں سے آ ملیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”میں تمہارا ہوں، تم میرے ہو۔ جس سے تمہاری جنگ، اس سے میری جنگ۔ جس سے تمہاری صلح، اس سے میری صلح۔ پھر آپ ﷺنے ان میں بارہ آدمیوں کوچن لیا اور ان کے سپرد یہ کام کیا کہ اپنے اپنے قبیلے میں لوگوں کو دین کی باتیں بتلائیں۔اللہ کے حکم پر چلنا سکھائیں۔ یہ گویاہماری تاریخ میں اسلامی جماعت کے بارہ قیّم تھے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق عمل کرنا لوگوں کو سکھایا۔ سب سے پہلے قیّم حضرت مصعب بن عمیر تھے جن کو پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے یہ کام سپرد کیا تھا۔ اس کا حال ہم تم کوپہلے بتلا چکے ہیں۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اجازت دی کہ اپنی قیام گاہ پر واپس جائیں اور آرام کریں۔
قریش کو رات کے اس واقعے کی کچھ سن گن مل گئی تھی، ان میں کھلبلی مچ گئی۔ انصار کی قیام گاہ پر پہنچے۔پوچھ گچھ کی۔ لڑائی کی دھمکی دی۔کچھ پتہ نہ چلا، لوٹ آئے۔جب انصار وہاں سے مدینہ چلے تو ٹھیک ٹھیک بات معلوم ہوئی۔ اب کیا کرتے۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو عام طور پر اجازت دے دی کہ مدینے چلے جائیں۔ انصار سے ان کا رشتہ بھائیوں کا رشتہ ہے۔ یہ رشتہ دین کا رشتہ ہے اور یہی اصلی رشتہ ہے۔ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ بہت سے مسلمان چلے گئے۔کچھ مجبور اور بے سہارا تھے جن کو کافروں نے جانے نہ دیا، وہ رہ گئے۔
رات کی خاموشی میں انصار سے جس معاہدے کا ذکر ہم نے اوپر کیا، جس کی ہماری تاریخ میں بڑی اہمیت ہے۔ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے کے بجائے مدینے میں رہنا طے کیا۔دین کے لیے کام کا مرکز بدل گیا۔ کافر مسلمانوں کو ستاتے تھے۔ ان کو ایک امن کی جگہ مل گئی۔ دین کا کام کرنے والا ایک نیا گروہ پیدا ہوگیا۔دین کے خلاف جھگڑنے والے ایک گروہ یعنی یہودیوں سے واسطہ پڑا۔آگے چل کر دین پھیلانے میں اس گروہ نے بڑی مشکلیں پیدا کیں، پھر بھی سچی بات یہ ہے کہ کام آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ اب روشنی بہت دوردور تک پہنچ رہی تھی۔

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
ان سب باتوں نے قریش کی نیند حرام کردی۔ انہوں نے سمجھ لیا۔ اب مسلمان مجبوروں اور بے کسوں کا ایک گروہ نہیں بلکہ عرب میں ایک مستقل طاقت بنتے جا رہے ہیں اور ایک دن آئے گا جب یہ ہم سے میدان لیں گے۔چنانچہ وہ ”دارالندوہ“ میں اکٹھے ہوئے۔ ”دارالندوہ“ ان کا کلب گھر تھا۔ وہیں اکٹھا ہوتے تھے۔کوئی خاص بات ہوتی تو آپس میں مشورہ کرتے۔اس”کلب گھر“ میں جتنے برے مشورے ہوئے شایدہی دنیا کی کسی مجلس میں کبھی ہوئے ہوں۔ سوچنے لگے کہ کیا کیا جائے۔ اب تو یہ دریا کی طرح بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایک دن تھا کہ ان کی سننے والاکوئی نہ تھا۔ صفا پہاڑ کی بلندی سے پہلی بار جب اس نئے دین کی پکار ہمارے کان میں پہنچی تھی تو ہم سمجھے تھے کہ یہ آواز پہاڑیوں سے ٹکرا کر رہ جائے گی اور اس کی گونج غاروں اور وادیوں میں گم ہوجائے گی، مگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ آواز دلوں میں اترتی جا رہی ہے۔ ہم کو آج ہی اس کا فیصلہ کرنا ہے۔ اس آواز کو کیسے بند کیا جائے۔ یہ پکار کیونکر خاموش ہو(توبہ توبہ) ان کے سر پر بوکھلاہٹ سوار تھی۔ ایک نے کہا:”ہم انہیں قید کر دیں۔ ایک آدمی ہر وقت پہرا دیتا رہے۔ پھر یہ کیا کریں گے؟“ ایک بڈھا بولا:”مسخرو! اب تو ان کے بہت سے ساتھی ہوگئے ہیں۔ پھر ان کے خاندان والے بھی تو ہیں۔ آئیں گے،تمہاری کوٹھری کے کواڑ توڑ ڈالیں گے۔ ان کو نکال لے جائیں گے۔ تم منہ دیکھتے رہ جاؤ گے۔“ دوسرا بولا: ”تو پھر ہم ان کو جلاوطن کر دیں گے۔ ان کا دین پھیلے یا کچھ بھی ہو، ہمارے یہاں سے تو قصہ پاک ہوگا۔“بوڑھے نے کہا:”تم لوگ بڑے احمق ہو۔ تم کو معلوم ہے، ان کی باتوں میں جادو کا اثر ہے۔ ان کا دین جنگل کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔ تم انہیں جلاوطن کرو گے اور وہ سارے عرب کو اپنا ہم خیال بنانے کے بعد پھر اس شہر میں آئیں گے۔وہ وقت ہم سب کے لئے بہت برا ہوگا۔ اب ابوجہل کی باری تھی۔ یہ کم بخت پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانے اور اسلام کی مخالفت میں ہمیشہ پیش پیش رہا کرتا تھا۔ اس نے کہا:”میں ایسی ترکیب بتلا دوں جو کبھی خطا نہ ہو، ہر قبیلے سے ایک ایک نوجوان ننگی تلوار ہاتھ میں لے۔سب اکٹھے ہو کر ان پر حملہ آور ہو (توبہ توبہ)آپ(ﷺ) کو قتل کر دیں۔ پھر ان کے خاندان والوں کی کیا ہمت اور طاقت ہوگی کہ بدلہ لے سکیں۔ کس کس سے لڑائی مول لیں گے۔“ سب نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ ایک دن مقرر ہو گیا۔ اس ناپاک ارادے کے ساتھ ان کی مجلس برخواست ہوئی۔

ہجرت
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قریش کی اس سازش کی خبر ملی۔ ہجرت کے لیے اللہ کا حکم آچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لے گئے۔ان کو بتلایا کہ مکہ چھوڑنے کی اجازت مل گئی ہے۔انہوں نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش کی۔آپﷺ نے ان کو اجازت دے دی۔طے یہ ہوا کہ جس رات قریش کے نوجوانوں نے اپنے ناپاک ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مقرر کیا ہے، اسی رات کو سفر شروع کیا جائے۔
دین کا چراغ بجھانے کی ذلیل تمنا دل میں لئے کافر موقع کے انتظار میں دبکے کھڑے تھے۔پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو ہدایت کی، آپﷺ کے بستر پر آپﷺ کی چادر اوڑھ کر سو رہیں۔ صبح اٹھ کر لوگوں کی امانتیں ان کو واپس کر کے تب مدینہ کا قصد کریں۔مکہ کے کافر آپﷺ کے دشمن تھے مگر آپ ﷺکی ایمانداری پر اتنا بھروسہ تھا کہ جن چیزوں کو اپنے پاس رکھتے ڈرتے تھے، ان کو آپﷺ کے پاس اطمینان سے رکھ جاتے تھے اور جوں کی توں واپس پاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گوارا نہ تھا کہ ان لوگوں کی چیزیں بھی ضائع ہوں یا ان کو ٹھیک سے واپس نہ ملیں جو آپﷺ کے خون کے پیاسے تھے۔ آپ ﷺنے لوگوں کو بتلایا کہ امانت
کو ادھر ادھر کرنا بڑا گناہ ہے۔
گھر سے نکلے اور سیدھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہاں آئے۔ تھوڑا سا سامان ِسفر ساتھ کیا گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے ایک اونٹنی سفر کے لیے دینی چاہی۔ آپﷺ نے کہا:”قیمت لے لو، مفت نہ لوں گا۔“وہ مجبوراً راضی ہو گئے۔ وہاں سے چل کر ثور پہاڑ کے ایک غار میں پہنچے، اس غار میں تین دن رہے۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صاحبزادے عبداللہ دن بھر کافروں کی باتیں سنتے اور شام کو آپ لوگوں کو خبر دیتے کہ آپﷺ کی گرفتاری اور تلاش کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ہوا یہ تھا کہ رات بھر کافر نوجوان آپ ﷺکے مکان کا پہرا دیتے رہے۔ صبح کیا دیکھتے ہیں کہ پیارے رسولﷺ کے بستر سے ان کے بجائے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھ رہے ہیں۔ بہت کھسیائے، یہ کیا؟ ہم سب کو بڑا دھوکا ہوا۔ لوگ ڈھونڈنے نکل پڑے۔ سو اونٹ انعام مقرر ہوا۔بڑی کھلبلی مچ گئی۔ جو سوچا تھا کچھ نہ ہو سکا۔ عامر بن فہیرہ،حضرت ابو بکر کے غلام تھے۔ دن بھر بکریاں چراتے۔ شام کو ان کو غار کے منہ پر لے آتے۔ دودھ دوہ کر آپ دونوں کو دیتے۔ بکریوں کے آنے جانے سے حضرت عبداللہ کے پیروں کا نشان مٹ جاتا۔ کسی کو پتہ نہ چلتا کہ یہاں تک بکریاں اور چرواہے کے علاوہ کوئی آیا تھا۔
تین دن کے بعد غار سے نکلے۔دو اونٹنیاں موجود تھیں۔ ان پر سوار ہوئے۔عبداللہ بن اریقط نامی ایک شخص جو راستوں سے بخوبی واقف تھا، آگے آگے تھا۔عامر بن فہیرہ کو حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے پیچھے بٹھلایا۔راستے میں مدد ملے گی۔ غار میں تین دن ٹھہرے رہے۔ اس زمانے میں حضرت ابوبکر صدیق کی صاحبزادی اسماء بھی آپ لوگوں کے لیے ناشتے کی تیاری اور بہم رسانی میں بڑی دلچسپی لیتی تھیں۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کے لئے سب لوگ جن کو دین پیارا تھا یا جو نیکی بھلائی سے محبت رکھتے تھے، جی جان سے اپنا حصہ ادا کر رہے تھے۔

پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یکم ربیع الاول کو مکے سے نکلے۔ چلتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:”اے اللہ! ان لوگوں نے مجھ کو اس شہر سے نکالا ہے، جو مجھے سب شہروں سے زیادہ عزیز تھا۔ تو اب مجھے اس شہر میں آباد کر جو تجھے سب شہروں سے زیادہ پیارا ہو۔“
آپﷺ ربیع الاوّل کو دو شنبہ کے دن ظہر کے وقت مدینہ پہنچے۔ اس وقت آپ ﷺکی عمر 52 سال تھی۔ انگریزی تاریخ 28 جون 622ء تھی۔ نبی ہونے کے بعد آپﷺ مکہ میں 13 سال مقیم رہے۔
دین کی دعوت مکے سے مدینے پہنچی۔دعوت کا مرکز بدل گیا۔ اگرچہ دین کا مرکز کعبہ ہی رہا اور ہمیشہ رہے گا۔مدینہ سے دین حق کی روشنی عرب ہی نہیں دنیا کے دور دورحصوں میں پہنچی۔ سینکڑوں قوموں اور بہت سے ملکوں نے اسلام کا اثر قبول کیا۔ بڑی بڑی باتیں ہوئیں۔تم کو یہ سب حال آگے معلوم ہوگا۔
وہ پکار جو صفا پہاڑپر بلند ہوئی تھی جس کو کافر سمجھتے تھے، پہاڑوں سے ٹکرا کر رہ جائے گی۔ساری دنیا میں اس کی گونج سنائی دینے لگی۔ مدینے پہنچ کر اسلام ایک طاقت، ایک مستقل تحریک اور اللہ کا آخری دین بنا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکے سے مدینہ تشریف لے جانے کی تاریخ سے اسلامی سنہ کا حساب شروع ہوا۔اس کو ہجری سن کہتے ہیں۔ آج کل 1381ھ ہے۔یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکے سے مدینے تشریف لے جانے کے بعد اتنے سال گزر چکے ہیں۔ اسلامی مہینوں کی طرح اسلامی سنہ بھی الگ ہے۔وہ یہی ہجری سن ہے۔ ہم کو اپنی خط و کتابت میں اسلامی مہینہ اور یہی سن لکھنا چاہیے۔

تاریخ اور واقعات
پیدائش:571ء
بی بی آمنہ کی وفات:575-76ء
داداعبدالمطلب کی وفات:578ء
فجار کی لڑائی:585ء
حلف الفضول:585ء
شام کا سفر:595ء
نکاح:595ء
نبی ہوتے ہیں:17رمضان،6اگست610ء
حبش کی ہجرت:615ء
چچا ابوطالب کی وفات:620ء
حضرت خدیجہ کی وفات:620ء
انصار میں اسلام:621ء
ہجرت:28جون622ء

اشخاص و کردار:
عبدالمطلب: آپ ﷺ کے دادا جنہوں نے آپ ﷺ کی پرورش کی۔
ابوطالب:چچا۔اور دین پھیلانے میں آپ ﷺکے حامی و مددگار۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ:آپ ﷺ کے دوست۔مردوں میں سب سے پہلے مسلمان ہونے والے۔ہجرت میں آپ ﷺ کے ساتھ سفر کرنے والے۔
حضرت علیؓ: آپ ﷺ کے چچا زاد بھائی۔بچوں میں پہلے مسلمان۔ہجرت کی شب آپ ﷺ کے بستر پر سوئے۔ آپ ﷺ کے پاس رکھی ہوئی امانت واپس کی۔
حضرت زیدؓ: آپ ﷺ کے غلام۔ماں باپ کو چھوڑا، آپ ﷺ کو نہ چھوڑا۔
بلال ؓ، صہیبؓ،خبابؓ وغیرہ: اللہ کی راہ میں دکھ جھیلنے والے۔
مطعم بن عدی:کافروں کے مقابلے میں آپ ﷺ کو پناہ دینے والے۔بائیکاٹ کے خلاف آواز اٹھانے والے۔
مصعبؓ بن عمیر:مدینے میں دین کی تعلیم دینے کے لیے سب سے پہلے متعین کیے جانے والے۔
اسعدؓ بن زرارہ انصاری:انہوں نے مدینے کے گھر گھر دین پھیلایا۔
سعدؓ بن معاذ انصاری:ان کے اثر سے بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔
عبداللہ بن ابی بکر:غار ثور میں خبریں پہنچاتے۔
عامر بن فہیرہ:حضرت ابوبکرؓ کے خادم۔
عبداللہ بن اریقط:عرب کے راستوں سے واقف۔ہجرت میں آپﷺ کے ساتھ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top