skip to Main Content
حارُو، شارُو اور مانی

حارُو، شارُو اور مانی

فاطمہ ثریا بجیا
۔۔۔۔۔۔

بچو! کہانیاں تو ساری کی ساری مزیدار اور دلچسپ ہوتی ہیں…… صبح اٹھے مدرسے گئے۔ خوب جی لگا کرپڑھائی کی…… ورزش کی، گھر آکے کھانا کھایا …… تھوڑی دیر لوٹے پوٹے پھر ہوم ورک کرنے بیٹھ گئے۔ اب رات تک فرصت ہی فرصت مگر سونے سے پہلے تھوڑا بہت ادب کا مطالعہ ضروری ہوتا ہے۔ ادب پڑھنے سے سوچنے کی طاقت بڑھتی ہے۔ ادب سے شائستگی طبیعت کا حصہ بن جاتی ہے، پھر علم بڑھتا ہے، لکھنے اور بولنے کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔اچھی کہانیاں بھی ادب ہی ہوتی ہیں۔ مزے مزے کی کہانی بھی پڑھ رہے ہیں۔ کہانی کے بُرے کرداروں پر غصّہ بھی آرہا ہے۔ اچھوں سے محبت بھی ہورہی ہے۔کبھی ڈررہے ہیں، کبھی سوچ رہے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ جی چاہ رہا ہے کہ جلدی سے انجام پڑھ ڈالیں۔ مگر پھر رک جاتے ہیں نہیں بھئی بغیر پوری کہانی پڑھے انجام پڑھ لیا تو مزا کیا خاک آئے گا۔ اچھا یہ تو ہوگئیں کچھ باتیں ادب اور کہانی کے بارے میں۔جو کہانی آپ پڑھ رہے ہیں وہ ایک ایسی پیاری لڑکی ہے جو سوچتی تھی، سمجھتی تھی اور چھوٹی سی عمر میں بہت ہمت والی تھی۔ اس پیاری سی لڑکی کا نام تھا مانی……
کہتے ہیں شام کے ملک میں جسے ہم آج ’سیریا‘ بھی کہتے ہیں،ایک بہت دولت مند بزرگ آدمی رہتے تھے۔ ان کا نام تھا سالم…… سالم کے دو بیٹے تھے…… ایک کا نام تھا حارث۔ اسے ابا جان ’حارو‘ پکارتے تھے۔ دوسرے کا نام شارق جسے ابا جان سالم ’شارو‘ کہہ کے بلاتے تھے۔شام کے لوگ سالم کی بہت عزت کرتے تھے …… بلکہ کچھ لوگوں کا خیا ل تھا کہ بوڑھا سالم دراصل پرانے بادشاہوں کا کوئی اہم آدمی ہے جواب کسی سلطنت کااہم آدمی نہیں رہا ہے۔ لیکن اس کا مزاج، اس کی عادتیں سب بہت اچھے بادشاہوں یا امیروں جیسی ہیں۔ ہر ایک سے بہت خلوص سے ملتا ہے۔ کبھی بڑی بڑی شیخی کی باتیں نہیں کرتا…… غریبوں کا خیا ل رکھتا ہے۔ کوئی مہمان چلا جائے تو بہت خوش ہوکر مہمان کی خاطریں کرتا ہے اور چھوٹے موٹے تحفے بھی دیتا ہے۔ مگر بچو! سالم شہر سے دور ایک چھوٹے سے گاؤ ں میں رہتا تھا۔ مکان بھی بہت بڑا نہیں تھا۔ عام آدمیوں کی طرح ساری زندگی گزارتا تھا۔ مانی سالم کی بیٹی نہیں تھی…… لیکن سالم نے مانی کو اپنی بیٹی کی طرح پالا بھی تھا اور پیار بھی بہت کرتا تھا۔ اور پیار کیوں نہ کرتا۔ مانی بہت اچھی لڑکی تھی۔ صور ت شکل توتھی ہی شہزادیوں جیسی ……
گلاب جیسا رنگ، روشن بڑ ی آنکھیں، بہت لمبے خوبصورت بال…… ہنستی تھی تودیکھنے والے بھی خودبخود ہنس پڑتے تھے۔ مانی کو روتے یا غصہ کرتے تو کبھی کسی نے دیکھا ہی نہیں تھا۔ مانی سالم کی بیٹی نہیں تھی تو پھر کو ن تھی، یہ ہم آپ کو بعد میں بتائیں گے۔ سالم بوڑھا ہوگیا تھا، بیمار رہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ حارو اور شارو، دونوں بڑے ہوچکے تھے، اس کا کام سنبھال لیں۔ کچھ باغات تھے جن میں بڑے اچھے اچھے پھلوں کے درخت تھے۔ کچھ کھیتیاں تھیں جہاں اناج کی فصلیں ہوتی تھیں۔ کچھ چراگاہیں تھیں جہاں مویشی اور بہترین گھوڑے پرورش پاتے تھے۔ پھلوں کے باغات کو سنبھالنا،فصلیں اگانا،ان کی نگرانی کرنا اور مویشیوں کو سنبھالنا، گھوڑوں کی پرورش اور تجارت کو سنبھالنا،بوڑھے سالم کے بس کی بات نہیں رہی تھی۔ وہ چاہتاتھا حارواور شارویہ کام سنبھال لیں لیکن حاروا ورشارو دونوں ہی بہت لا پروا، بہت کاہل اور لالچی بھی تھے۔ دونوں جوان تھے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ان کا باپ بہت دولتمند آدمی ہے۔ باپ کی دولت کا غرور بھی بہت تھا۔ سالم بیچارا حیران ہوتا تھا کہ اس نے تو اپنے بیٹوں کو بہت اچھا بنانے کی کوشش کی تھی مگر یہ ہوا کیا، دونوں میں سے ایک بھی اچھا انسان نہیں بن سکا۔ ملازموں، نوکروں کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آنا۔ بڑوں کا ادب نہ کرنا۔ پڑھنے لکھنے سے بیزاری……
بس دونوں سارا وقت یا تو چراگاہوں میں گھوڑے دوڑاتے رہتے تھے۔ نشانہ بازی کرتے تھے۔ راہ چلتے لوگوں اور اپنے باپ کے ملازمو ں کو ڈراتے تھے۔ جب حارو،شارو چراگاہ میں پہنچ جاتے تو سالم کے سارے ملازم سہم جاتے تھے۔ کبھی گھوڑے دوڑا کر ملازموں کو کچلنے کی کوشش کرتے۔ کبھی بندوق اور تلوار چلا کر انہیں ڈراتے اور جب لوگ ڈرجاتے تو قہقہے لگاتے بھاگتے چلے جاتے…… ملازموں نے کئی بار سالم سے حارو شارو کی شکایتیں بھی کیں۔ سالم نے سمجھایا،ڈرایا دھمکا یا یہاں تک کہ ایک بار گھر سے نکال دیا…… مگر حارو اور شارو اس سزا پر کوئی اچھا اثر اس لئے نہیں ہوا کہ وہ اپنے بُرے دوستوں کے گھر چلے گئے جن سے حارو شارو کی بہت دوستی تھی۔ بُرے دوستوں نے حارو اور شارو کی بڑی آؤ بھگت کی۔ ان لالچی دوستوں کو یہ معلوم تھا کہ حارو اور شارو کا باپ بہت پیسے والا آدمی ہے۔ جب مرجائے گا تو ساری دولت حارو اور شارو ہی کو ملے گی اور اس وقت ہم حارو اور شارو کو بے وقوف بنا کر خوب عیش کریں گے۔ بلکہ یہ سوچ کر سارے دوست قہقہے لگا لگا کر ہنستے تھے کہ حارو اورشارو کو بے وقوف بنانے کی ضرورت کیا ہے۔ وہ تو ہیں ہی بے وقوف …… پھر ان چالاک دوستوں نے حارو اور شارو کو ترکیب بتائی یا پٹی پڑھائی کہ اپنے دولتمند باپ سے جھگڑا نہ کرو۔ اگر اس نے اپنی ساری دولت مانی یا غریبوں کو دے دی توتم دونوں فقیر ہوجاؤ گے، اس لئے بہتریہی ہے کہ اپنے ابا سے معافی مانگ لو۔ حارو اورشارو یقینابے وقوف تھے، دولت کی لالچ میں سالم سے معافی مانگی اور پھرآکر گھر میں رہنے لگے۔ مانی سے دونوں بھائی نفرت کرتے تھے۔مانی رات دن بوڑھے سالم کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ چراگاہوں،باغوں اور اناج کی فصلوں کا حساب رکھتی تھی…… پورا گھر سنبھالتی تھی۔ سالم اسے اتنا چاہتاتھا کہ ایک لمحہ کے لئے بھی اپنی آنکھوں سے دور نہیں رکھتا تھا۔ مانی ایسی اچھی لڑکی تھی، غریبوں کے ساتھ محبت اور ہمدردی سے پیش آتی تھی۔ اگر سالم کا کوئی ملازم یا ملازم کا گھر والا بیمار ہوجاتا مانی، اس کی تیمارداری کرتی تھی۔علاج کرواتی تھی۔ سارا گاؤ ں مانی سے محبت کرتا تھا۔ لوگ تو یہ تک کہتے تھے کہ مانی کو سالم کی بیٹی یا اس کی جائیداد کا وارث ہونا چاہیے۔ سالم کے دونوں بیٹے تو مانی کے نوکر بننے کے لائق بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ حارو اور شارو مانی سے جلتے تھے۔ اگر ان کا بس چلتا تو وہ دونوں مانی کو اٹھا کر ایسے جنگل میں چھوڑ دیتے جہاں درندے مانی کو پھاڑ کھاتے مگر سالم اور سالم کے سارے ملازم مانی کی پوری طرح حفاظت کرتے تھے۔یہ تو تھیں کچھ ایسی باتیں جو کہانی کو سمجھنے کے لئے بتانا ضروری تھیں۔ اب بھئی شروع ہورہی ہے اصلی کہانی…… سالم بوڑھا توتھا ہی،ایک بار بہت بیمار ہوگیا۔ اسے اپنے بچنے کی کوئی امید نہیں رہی تھی۔جیسے جیسے بیماری بڑھتی جاتی تھی۔ سالم پریشان ہوتا جاتا تھا۔ اسے مانی کی فکر تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی موت کے بعد حارو اورشارو،مانی کو بہت پریشان کریں گے۔ہوسکتا ہے وہ مانی کی جان لے لیں …… حارو شارو اور ان کے خراب دوست بہت خوش ہورہے تھے کہ اب تو سالم ضرور مرجائے گا۔ اور پھر وہ جو چاہیں گے، کریں گے لیکن اس بیماری کے دنوں میں سالم خاموش رہنے لگا تھا۔ گھر کے اندر ایک تہ خانہ تھا جس میں حارو اور شارو کا خیال تھا کہ باپ کی ساری دولت چھپی ہوئی ہے۔ کیونکہ بارہ تگڑے تگڑے وفادار چوکیدار اس تہ خانے کی حفاظت کرتے تھے۔ سالم کبھی کبھار اکیلا اس تہ خانے میں جاتا تھا اور کچھ دیر رہ کر واپس آجاتا تھا لیکن اس بیماری کے زمانے میں وہ ہر روز تہ خانے میں جاتا تھا اور کبھی کبھی تو پوری رات گزار کر باہر آتا تھا۔ اب وہ اکیلا ہی نہیں جاتا تھا، مانی اس کے ساتھ ہوتی تھی مگر حارو اور شارو کو اس بات کا پتہ نہیں تھا۔جہاں رات ہوئی حارو اور شارو اپنے دوستوں میں چلے جاتے تھے اور رات گئے تک گپیں مارتے۔شیخ چلی جیسی منصوبہ بندی کرتے اور جب گھر واپس آتے تو گھر کا سناٹا دیکھ کر سمجھتے کہ سالم اور مانی دونوں سوگئے ہیں۔ یہ دونوں بھی سوجاتے۔ ایک دن بہت سویرے جب سالم کے خوبصورت باغ میں چڑیا ں چہچہارہی تھیں۔ پھولوں کی خوشبو سے سارا باغ مہکا ہوا تھا۔ سالم نے اپنے دونوں بیٹوں کو بلوایا……
حارو شارو صبح اٹھنا تو جانتے ہی نہیں تھے۔ بڑی مشکل سے نوکروں نے اٹھایا۔دونوں باپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ادب سے اسی طرح سر جھکاکر کھڑے ہوگئے،جیسے ان دونوں سے زیادہ باادب اور کوئی ہوہی نہیں سکتا۔ سالم نے بیٹوں سے کہا:
”یہ تم دونوں جانتے ہی ہو کہ میں اس سال بہت بیمار ہوگیا ہوں۔“
”جی با با جان خدا آپ کوصحت دے۔“ دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔ سالم نے پھر کہا:
”تمہارے خیال میں مجھے دوبارہ صحت واپس مل سکتی ہے؟“
حارو شارو ایک دوسرے کامنہ تکنے لگے …… وہ دل سے چاہ رہے تھے کہ ان کا باپ مرجائے۔ ابھی کچھ جواب دینے کی تیا ری کر ہی رہے تھے کہ سالم نے کہا……
”مجھے صحت واپس مل سکتی ہے میری بیماری دور ہوسکتی ہے۔“
یہ سن کر حارو شارو کے ماتھے پر گھبراہٹ سے پسینے کی بوندیں چمکنے لگیں، سوچنے لگے ہم توسمجھ رہے تھے بابا جان اب بچ ہی نہیں سکتے اور یہ تو زندہ رہنے کی سوچ رہے ہیں۔ سالم نے پھر خود ہی اپنا فیصلہ سنادیا۔ بیٹوں کے جواب کا کوئی انتظار نہیں کیا۔ سالم بولا:
”یہا ں سے بہت دور تقریباًپچیس ہزار میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد سیاہ پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے جودریا ئے زرد کے کنارے کنارے اونچا ہوتا چلاجاتا ہےَ یہاں ابھی تک کوئی ایسی آبادی نہیں ہے جہاں انسان بستے ہوں۔ یہ جنوں،پریوں، دیوؤں اور بھوتوں کی دنیا ہے۔ سیاہ پہاڑوں کے اندرایک ایسی خوبصورت وادی ہے جس کی مثال انسانوں کی دنیا میں نہیں مل سکتی۔ اس وادی میں سیب، انار، انگور، ناشپاتی، جو بھی پھل پیدا ہوتاہے وہ جواہرات کی طرح جگمگاتا اور رنگین ہوتا ہے۔ ان پھلوں کا مزا دنیا کے تمام پھلوں سے اچھا ہوتا ہے۔ یہاں کے درختوں کی شاخیں زمرد اور چاندی سونے کی طرح چمکتی ہیں۔ اس وادی کی مٹی سنگ ِمر مر اورموتیوں کی طرح سفید ہے۔ یہاں کے پھولوں کی خوشبو سونگھ کر لوگ بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ پرندے اس طرح چہچہاتے ہیں جیسے گیت گا رہے ہوں۔ یہاں بہت سارے چشمے ہیں۔ ان ہزاروں چشموں میں ایک چشمہ ایسا بھی ہے جو ایک بلور یا کرسٹل جیسی چمکتی ہوئی پہاڑی چٹانوں سے نکلتا ہے اور سال میں ایک بارموسم بہار کے پہلے دن علی الصبح سورج کے طلوع سے پہلے اس کا پا نی گرنا شروع ہوتاہے اور سورج کی پہلی کرن کے چمکتے ہی بند ہوجاتا ہے۔ اس پانی کو اگر مجھ جیسا بوڑھا اور بیمارا انسان پی لے تو عمرکم از کم سوا سو برس کی ہوجاتی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ تم دونوں میرے بیٹے مجھے بہت چاہتے ہو اور یہ بھی چاہتے ہو کہ میں زندہ رہوں۔“
یہ سن کر تو حار واورشارو دونوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ مارے گھبراہٹ کے ہکلاتے ہوئے بولے:
”باباجان! وہاں پہنچنا تو بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔“

سالم مسکرایا اور بولا:
”ناممکن ہی کو تو ممکن بنانا ہے۔ اگر تمھیں مجھ سے محبت ہے تویہ کام ضرور کرو او ر تم میں سے جو بھی یہ کام کرے گا اسے میں یہ انگو ٹھی دوں گا……“
یہ کہتے کہتے سالم نے مخمل کی ایک خوبصورت ڈبیا کے اندر سے جواہرات سے جگمگاتی ایک انگوٹھی نکالی اور دکھاتے ہوئے بولا:
”یہ انگوٹھی اس بیٹے کا انعام ہوگی جو میرے لئے چشمہ شفا کا پانی لائے گا۔ یہ انگوٹھی شام کے قدیم بادشاہوں کی امانت ہے۔ جس کے پاس یہ انگوٹھی ہوگی،وہ عرب کے سب سے خوبصورت حصّے یعنی ملک شام کا بادشاہ بن جائے گا۔“
حارو اور شارو تو انگوٹھی دیکھ کر ہی بے تا ب ہوچکے تھے۔ اب جو بادشاہ کی بات سنی تو جھگڑنے لگے۔حارو بولا:
”میں آپ کا بڑا بیٹا ہوں۔ مجھے ہی بادشاہ بننا چاہیے۔ میں آپ کے لئے چشمہ شفا کا پانی لاؤ ں گا۔“
شارو نے بات کاٹ دی۔بولا:
”بکواس! حارو بھائی سخت لالچی ہیں۔ یہ آپ کو کبھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ میں پانی لاؤں گا او ر میں بادشاہ ہوں گا۔“
حارو نے شارو کی گردن دبادی اور بولا:
”زیادہ بکواس کی تو ابھی میں تمھیں جان سے مار دوں گا۔بڑے بیٹے کے ہوتے ہوئے تم کون ہوتے ہوبادشاہ بننے والے۔“
سالم نے بڑی مشکل سے دونوں کو چھڑایا۔ وہ دونوں تو پہلوانوں کی طرح زمین پر لوٹنے اور ایک دوسرے کو مارنے لگے تھے۔ مانی خامو ش تھی۔ اسے افسوس ہورہا تھا،سوچ رہی تھی کہ سالم جیسے اچھے بزرگ کو اللہ میاں نے اتنے خراب بیٹے کیوں دیئے ہیں جو کبھی سالم کی بات نہیں مانتے۔ سالم جیسی کوئی اچھا ئی ان دونوں میں نہیں ہے۔ کتنا اچھا ہوکہ حارو اور شارو بھی اچھے انسان بننے کی کو شش کریں۔
سالم نے پھر ایک بادونو ں کو سمجھا یا اور بڑے پیار سے شارو سے بولا:
”شارو! حارو کو جانے دو۔ اتنے دنوں تم میری خدمت کرنا۔ میرا جوبیٹا میری خدمت کرے گا، اس کے لئے میری ساری دولت، ساری جاگیر ہوگی۔ اس کے علاوہ جو کچھ میرے گھر کے تہ خانے میں موجود ہے، وہ ساری دنیا کی دولت کے آدھے کے برابر ہے۔ تم دل لگا کر ایک اچھے بیٹے کی طرح میری خدمت کرو۔ مانی کو اپنی بہن سمجھ کر بہن کی محبت کا حق ادا کرتے رہو۔تم بھی بادشاہوں سے کم نہیں ہوگے،بلکہ بہت بڑے بڑے بادشاہ ایسے امیروں کو اسی لئے دوست بناتے ہیں کہ وہ ایسے امیروں کو اپنا وزیر اور مشیر بنا کر فخر کرتے ہیں۔ تمہارا بھائی اگر کامیا ب ہوبھی گیا تب بھی تم خود ایک بہت اہم آدمی بن سکتے ہو۔“
باپ کا فیصلہ سن کر حارو اور شارو جھگڑنے سے تو باز آگئے لیکن ایک دوسرے کو نیچا دکھا نے کی پریشانی میں لگ گئے۔ شاروکو یقین تھا کہ حارو یا تو چشمہ شفاکی تلاش میں مرجائے گا اور اگر زندہ واپس آگیا تو اس کی واپسی سے پہلے باپ سے بادشاہت کی انگوٹھی چھین کرخود بادشاہ بن جائے گا۔ حارو سوچ رہا تھا کہ وہ چشمہ شفا تک پہنچنے کی کوشش کرے گالیکن اگر نہ پہنچ سکا تو واپس آئے گا اور باپ بھائی دونوں کو مار کر ہر چیز کا مالک خود بن جائے گا۔ حارو خیا لی پلاؤ پکاتا گھر سے باہر جانے ہی والا تھا کہ سالم نے اسے پھر ایک بار آواز دے کر پاس بلا یا اور کہا:
”میرے اچھے بیٹے!سفرکے لئے یہ نقشہ اور اشرفیاں پاس رکھ لو۔ اس نقشے کی مدد سے تم دریائے زرد تک پہنچ سکتے ہو یا دریائے زرد کے پاس پہنچ کر ایک رات آرام ضرور کرنا اور اگر کسی کو تمہاری مددکی ضرورت ہو تو ضرور مدد کردینا چاہے تمہیں اپنی اشرفیاں ہی کیوں نہ دینا پڑیں۔“
حارو نے بڑی تیزی کے ساتھ باپ کے ہاتھ سے ایک پرانا نقشہ لیا اور اشرفیاں لیکر چلا گیا۔ اپنے دو چارخراب دوستوں کو ساتھ لیا اور اشرفیوں کی تھیلیاں اٹھا کر گھوڑوں پر سوار ہوکر سب کے سب دریائے زرد کی جانب چل پڑ ے۔ جگہ جگہ رکتے رُکاتے عیش کرتے بڑھتے چلے گئے۔پیسہ پاس تھا،دوست احباب ساتھ تھے۔بڑا اچھاوقت بڑے آرام کے ساتھ گزرگیا۔ جس شہر سے گزرتے، جب وہاں کے بادشاہ یا حاکم کو پتہ چلتا کہ حارو سالم کا بیٹا ہے تو لوگ بڑی عزت کرتے، مہمان ٹھہراتے اور بڑی عزت کے ساتھ رخصت کر دیتے تھے۔ جب تمام ایسے شہر اور ایسے گاؤں گزر گئے جہاں انسان آباد تھے تو یہ قافلہ ایسی جگہ پہنچا جہاں جدھر دیکھو جنگل ہی جنگل تھا۔ یہاں پہنچ کر حارو کے دوست ہمت ہارگئے۔ اشرفیاں بھی تھوڑی سی رہ گئی تھیں۔ نقشے کے مطابق دریائے زرد اس جنگل کے پا ر ہی بہہ رہا تھا۔ حارو بہت خوش تھا۔ اس کا خیا ل تھا کہ باقی سفر بھی اتنے ہی آرام سے گزر جائے گا جیسے گزرتا رہا ہے لیکن حارو کے خراب دوستوں کی نیت خراب ہوچکی تھی۔ ان سب نے آپس میں سازش کی اور یہ فیصلہ کرلیا کہ ہم تو اس گھنے اندھیرے اور خوفنا ک جنگل میں حار و کے ساتھ کبھی نہیں جائیں گے۔ بس یہ کریں گے، رات کو اشرفیاں چراکر یہاں سے واپس لوٹ جائیں گے۔ دوستوں نے یہی تماشہ کیا کہ بہت رات گئے تو باتیں کرتے رہے، ہنستے ہنساتے رہے،جب حارو گہری نیند سو گیا تو اشرفیوں کی تھیلی لے کر بھاگ نکلے۔ سویرا ہوا، حارو کی آنکھ کھلی، دیکھا کہ ساراخیمہ یا کیمپ خالی ہے۔گھوڑے بھی غائب ہیں اور دوست بھی۔ حارو دوستوں کو آوازیں دے دے کر تھک گیا، پھر اشرفیوں کا خیا ل آیا۔ دیکھا کہ جتنی تھیلیوں میں اشرفیاں باقی رہ گئیں تھیں،وہ بھی غائب ہیں۔ حارو مارے پریشانی کے دیوانہ ہوگیا۔ نہ گھوڑا پاس تھا،نہ پیسہ، نہ کوئی ساتھ دینے والا، روتا تھااور اس ویران جنگل میں اپنی بے بسی پر تڑپتاتھا۔ جب رورو کر تھک گیا تو زندگی میں پہلی بار دماغ پر زور دے کر سوچا کہ اب کیا کرے؟……
دریائے زرد کے اس قدرقریب پہنچ چکا تھا، بادشاہ بننے کاخواب دیکھ رہا تھا۔ ایک بار ہمت کی اور جنگل کے اندر گیا تو اسے پتا چلا کہ جنگل کسے کہتے ہیں۔ یہ بالکل نئی آوازیں تھیں جو حارو کو سنائی دے رہی تھیں …… اونچے اونچے درخت، ان کی دور دور تک پھیلی ہوئی شاخیں۔حارو کو ایسا لگ رہا تھا، بہت سے اژدھے ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے شاخوں کی صورت میں سر پر چھائے ہوئے ہیں۔ آوازیں تھیں کہیں چٹختی ہوئی شاخوں کی …… کہیں پتوں کی سر سراہٹ کی …… کہیں کھولتی ہوئی دلدل کی پھک پھک۔ دلدل کی سطح پر بلبلے پھوٹتے تھے، پھر بننا شروع ہوجاتے تھے …… خوف کے مارے حارو کو ایسا محسوس ہوا جیسے بدن پر چیونٹیاں سی رینگنے لگی ہیں ……کبھی کبھی ہو ا چلتی تو شاخیں ادھر اُدھر ہوجاتیں تھیں۔ تھوڑی سی دھوپ نظر آتی تو اندھیر ے میں راستہ نظر آنے لگتا تھا۔ مگرحارو کی حالت بگڑرہی تھی۔اب ا س کادل چاہ رہا تھا کہ وہ جنگل سے باہر نکل آئے مگر راستہ بھول چکا تھا۔ چاروں طرف جنگل تھا اور جنگل کی آوازیں۔اچانک ایک زور دار پھنکار کی آواز آئی۔ حارو کے حلق سے چیخ نکلی۔ ایک نہایت خوفنا ک اژدھا جس کے دو پھن تھے، اپنی چار زبانیں لپ لپا تا حارو کی طر ف بڑھ رہا تھا ……
”بچاؤ مجھے بچاؤ خدا کے لئے مجھے بچالو……“ اسی وقت حارو نے بادل جیسی گرج کی آواز سنی۔ بادل نہیں گرج رہا تھا۔ یہ انسان جیسی آواز تھی مگر بہت بھاری اور بڑی آواز۔
”حارو کو مارنا مت، اسے ایک بہت اچھے انسان نے بیٹا بنایا ہے…… حارو نے وحشت زدہ نظروں سے اژد ہے کو دیکھا۔ اژدھا واپس جارہا تھا۔ مارے خوف کے حاروکے حلق میں کانٹے سے پڑنے لگے۔ حارو چلّا نے لگا۔
اسے سخت پیاس لگ رہی تھی۔ جسم پسینے سے بھیگا ہوا تھا، اچانک پھر وہی آواز آئی:
”حارو کو پیاسا نہ مرنے دینا۔ اس نے ایک بار اپنے بیمارسالم کو پانی پلایا تھا۔“
زور سے ہوا کا جھکڑآیا، شاخیں ہٹیں،دھوپ چمکی، حارو نے دیکھا کہ ذرا دور ایک چھوٹی سی نہر میں ایک کشتی پڑی ہوئی تھی۔ حارو بھاگا اور اُچھل کر کشتی میں سوار ہوگیا۔ کشتی فوراً چل پڑی۔نہر کا پانی اونچا ہونے لگا اور کشتی کواتنی تیزی سے بہا کر لے گیا کہ حارو کشتی کے دونوں سرے نہ پکڑلیتا تو ضرور پانی میں گر جاتا……کشتی حارو کو جنگل سے باہر لے آئی تھی …… دریا کا رنگ زرد تھا۔ سونے کے ذرے پانی میں چمک رہے تھے۔ دریا کے دونوں طرف ہرے بھرے سبزہ زار اور انار کے درخت تھے…… اور سامنے سیاہ پہاڑوں کا ایک لمبا ساسلسلہ تھا……حارو کی جان میں جان آئی، کشتی کنارے ہی پر آکر رکی تھی۔ حارو تیزی سے کشتی سے باہر آیا،پانی پیا اور سبزے پر لیٹ گیا…… چاروں طرف نظر دوڑائی، منظر بہت اچھا تھا، اٹھ کر بیٹھ گیا ……
واہ یہ جگہ تو بہت ہی اچھی ہے۔ ابھی حارو اِدھر اُدھر دیکھ ہی رہا تھا کہ اسے لکڑی کی ٹک ٹک سنائی دی…… دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی لکڑی ٹیکتا حارو کی طرف بڑھتا چلا آرہا ہے لیکن اتنا بوڑھا ہے کہ بڑی مشکل سے چل رہا ہے۔
حارو اس کا بڑ ھا پا دیکھ کر ہنسا اور بولا:
”کیوں بڑے میاں! تم بھی چشمہ شفا کی تلاش میں یہاں تک آپہونچے ہو۔ سواسو برس بوڑھے تو تم آج بھی دکھا ئی دے رہے ہو اور کتنا زندہ رہنا چاہتے ہو؟“
بڑے میاں قریب آچکے تھے اور شاید جو کچھ حارو نے کہا تھا وہ انہوں نے سنا بھی نہیں تھا……حارو کے قریب آکر بولے:
”خدا کا شکر ہے کسی انسان کی صورت تو دکھا ئی دی…… بیٹا مجھے دریا پار کروادو گے؟“
”پاگل ہوگیا ہے بوڑھے، میں خود دریا پار کروں گا یا تجھے پار کراؤں گا۔“
حارو نے بڑے غصّے سے جواب دیا……
”تو پھر ایسا کرو تھوڑے سے پیسے دے دو میں واپس چلا جاؤں گا۔“ بڑے میاں پیسے مانگ رہے تھے۔ حارو کے پاس تو کچھ بھی نہیں رہا تھا ……
”میرے پاس پیسے ویسے کچھ نہیں ہیں۔“ حارو نے جھڑک کر جواب دیا……
”سالم کے بیٹے ہو نا…… اس نے تمھیں کسی انسان کی مدد کرنے کے لئے پیسے نہیں دیئے تھے؟“
حارو یہ سن کر چونکا، سوچنے لگا کہ اس کے باپ نے چلتے وقت جب اشرفیاں دیں تھیں تو یہ تو کہا تھا کہ کسی انسان کی مدد کرنا۔ ضرورت پڑے تو اشرفیاں دے دینا۔میری اشرفیاں میرے دوست لوٹ کر لے گئے…… حارونے بوڑھے کو کڑوے لہجے میں جواب دیا:
”اشرفیاں تو بہت دی ہوں گی تمہارے باپ نے؟“

بوڑھا جیسے سب کچھ جانتا تھا، حارو حیران ہو رہا تھا کہ بوڑھے کو کسیے پتہ چل گیا کہ اس کے باپ نے بہت ساری اشرفیاں دی تھیں۔ حارو بولا:
”آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میرے باپ نے مجھے اشرفیاں دی تھیں؟“
بوڑھے نے جواب دیا۔ سالم ایک اچھا انسان ہے۔ وہ دوسرے انسانوں کا حق ادا کرنا جانتا ہے۔ مجھے لگتا ہے تم نے ضرورت سے زیادہ اشرفیاں خرچ کردی ہیں ……“
حارو کا مزاج اتنا چڑ چڑا ہوگیا تھا کہ وہ کسی بات کانرم جواب دے ہی نہیں سکتاتھا۔ کہنے لگا:
”میرے باپ کی دی ہوئی اشرفیاں تھیں۔ جیسے میں نے چاہا اس طرح خرچ کردیں۔آپ کو ن ٹوکنے والے ……
بوڑھا مسکرایا اور بولا……
”بیچارا سالم نہیں جانتا تھا کہ جو بُر ے ہوتے ہیں وہ بُرے ہی رہتے ہیں۔ نوجوان یاد رکھنا انسان کے پاس اگر کوئی چیز اس کی ضرورت سے زیادہ ہو تی ہے تو اس میں دوسرے مجبور انسان کا حق ہوتا ہی ہے۔پیسہ ہو یا کھانا کپڑا ہویا زمین،جس کو زیادہ ملتا ہے اس لئے ملتا ہے کہ وہ ضرورت مند وں تک پہنچا دے، خیر مگر تم سمجھو گے نہیں خدا حافظ……“
یہ کہہ کے بوڑھا دریا کی طرف چل پڑا۔اپنی لکڑی پانی پر پھینکی جو دیکھتے ہی دیکھتے خوبصورت کشتی بن گئی۔ حارو دوڑا……
”بابا…… بابا مجھے بھی دریا پار کرادو……“
مگر کشتی چند لمحوں میں چوڑے دریا کو پار کر کے سیاہ پہاڑ تک پہنچ چکی تھی۔
اب حارو پچھتا رہا تھا۔اس کے باپ نے یہ بھی تو کہا تھا کہ دریائے زرد کا علاقہ جنوں، دیوؤں اور پریوں کی دنیا ہے۔ مگر اب کیا ہوسکتا تھا، بوڑھا تو جاچکا تھا اور دریائے زرد کا سنہرا پانی لہریں لے رہا تھا …… حارو تھوڑا بہت تیرنا جانتا تھا۔ اس نے دریا میں کودنے اور تیرنے کا ارادہ کیا …… کودنے والا ہی تھا کہ ایک سیٹی جیسی باریک آواز سنائی دی……
”ارے کوئی ہے جومجھے بچالے۔ اے اچھے انسان! دریا پار کرنے سے پہلے مجھے بچالے۔“
حارو نے اِدھر اُدھر دیکھا۔اسے کوئی دکھائی نہیں دیا۔حارو پھر کودنے لگا،آواز پھر آئی:
”اے بھائی مسافر!میں ڈوب رہا ہوں پہلے مجھے تو بچالو……“
ارے بچو! یہ تو چھوٹی انگلی کے برابر بونا تھا جو ایک سوکھے پتے پر سوار دریا کی لہروں پر ڈول رہا تھا۔ چونی برابر گول منہ، کالے موتیوں جیسی چمکتی آنکھیں، گندم کے دانے جیسی چھوٹی سی ناک۔ بیچارا بونا واقعی مصیبت میں تھا۔ دریا کی اونچی اونچی لہروں پر ڈول رہا تھا اور اپنے آپ کو گرنے سے بچا رہا تھا۔ حارو کو ہنسی آگئی۔ حارو بولا:
”تم تو ڈوب ہی جاؤ تو اچھا ہے۔ تمہارے جینے کا فائدہ بھی کیا ہے۔“
بونا اداس ہوگیا…… اور بہت گڑگڑا کر بولا:
”دوست! ایسی باتیں مت کرو…… میں خدائی مخلوق ہوں، اس دنیا میں چیونٹی بھی اللہ میاں نے کسی نہ کسی فائدے کے لئے پیدا کی ہے۔ میں تمہارے جیسی آنکھ ناک والا بندہ ہوں۔ خدا کے لئے مجھے بچالو۔دیکھو،دیکھو، یہ لہر تمہارے قریب آرہی ہے۔ صر ف ہاتھ بڑھاکر مجھے اُٹھالو……“
لہر قریب آئی۔ حارو اگر اچھا انسان ہوتا تو بونے کو آسانی سے بچاسکتا تھا لیکن جیسے ہی بچانے کا وقت قریب آیا حارو نے شرارت سے بونے کو اٹھا کر دریا کے بیچوں بیچ پھینک دیا۔ بونا بیچارا پانی میں جاگرا…… مگر اسی وقت حارو کو ایسا لگا جیسے اس کی ٹانگیں بھاری ہورہی ہیں۔گھبرایا چلانے لگا……
”مجھے کچھ ہورہا ہے۔ پتھر ہورہی ہیں میری ٹانگیں۔“
دریائے زرد کے کنارے پڑے ہوئے پتھروں پر گر پڑا۔ اسے ایسا لگا جیسے یہ پتھر نہیں ہیں کئی انسان ہیں جو پتھر جیسے بن گئے ہیں اور کائی میں چھپ گئے ہیں۔ہاتھ،پاؤ ں، ناک، آنکھ، کان۔ حارو گھبرا گھبرا کر ان پتھرو ں پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ اب حارو کا آدھا بدن پتھر ہوچکا تھا۔ بونے کی آواز پھر آئی۔
”دوست! مجھے بچالیتے تو خدا تمہیں اس مصیبت سے بچالیتا……“بونا بڑے آرام سے لہروں پر بالکل حارو کی نگاہوں کے سامنے کھڑا تھا۔
”مجھے بچالو بونے!تم جو کہوگے میں کردوں گا……“حارو نے بڑی خوشامدی سے بونے سے کہا۔
بونے نے جواب دیا:
”بُرے انسانوں کی اولاد بھی بری ہوتی ہے۔ سالم بیچارے نے تو تمہیں اچھا انسان بنانے کی بہت کوشش کی ……مگر وہ جو تمہارا باپ تھا ناشام کا بادشاہ، جسے جنوں کے بادشاہ نے شام کا بادشاہ بنادیا تھا، وہ خراب آدمی تھا……
اس نے کسی انسان کو اس کا حق نہیں دیا۔وہ بادشاہ بن کر رعایا پر ظلم کرتا تھا۔ دوسروں کو ستا کر خوش ہوتا تھا۔ سالم تو اس کا وزیر تھا……جب تمہارا باپ مر گیا توسالم نے تمہاری پرورش کی،مگر……بہت افسوس، سالم جیسا اچھا انسان بھی تمہیں اچھا نہیں بناسکا۔“
یہ سن کر حارو کا دِل اور بھی ٹوٹ گیا کہ وہ سالم کا بیٹا نہیں ہے۔روتے ہوئے بولا:
”میں بابا سالم کا بیٹا ہوں۔ بونے تم ایک بار مجھے معاف کردو۔ تو میں واپس جاکر بابا جان کے قدموں پر گڑگڑا کر ان سے معافی مانگوں گا ……“
بونے نے جواب دیا۔”میں تو خدا کی بہت حقیر مخلوق ہوں جِسے تم نے ستایا ہے۔تم تو سالم کے ملازموں پر گھوڑے دوڑاتے رہے ہو۔ تم توسالم کو مارنے کی فکر کرتے رہے ہو ……تم نے مانی جیسی اچھی لڑکی سے نفرت کی ہے۔“
یہ کہتے کہتے بونے نے تتلی جیسے ننھے ننھے پر کھولے اور اُڑگیا۔ حارو دیکھتا رہ گیا اور تھوڑی دیر بعد پورا پتھر بن گیا۔ دریائے زرد اسی طرح بہہ رہا تھا۔سیاہ پہاڑ اسی طرح خاموش تھے۔اب دریائے زرد کی وادی میں کوئی آواز نہیں سُنائی دے رہی تھی۔ حارو پورا پتھر بن چکا تھا۔
اب بچو! ذرا ملک شام جاکر سالم، مانی اور چھوٹے بھائی شارو کو بھی تو دیکھیں،وہاں کیا ہورہا ہے۔جیسے ہی حارو گھر سے نکلا شارو سالم کی خوشامد میں لگ گیا ……حالانکہ اس کا دل تو یہ چاہ رہا تھا کہ کِسی طرح سالم سے بادشاہت کی انگوٹھی چھین لے اور حارو کے پہنچنے سے پہلے بادشاہ بن جائے۔
……دوچار دِن بہت اچھی طرح باپ کی خدمت کی مگر پھر کاہلی شروع ہوگئی۔ جس کام کی عادت نہیں ہوتی یا جس کام کو اہمیت نہیں دی جاتی وہ کام انسان تھوڑی دیر کے لئے تو کر سکتا ہے مگر پھر اکتا جاتا ہے۔یہی شارو کے ساتھ ہوا کہ یا تو رات بھر سالم کے کمرے میں جاگتا رہتا تھا۔کبھی پانی پلا رہا ہے، کبھی دوادے رہے، کبھی ہاتھ پاؤں دبارہا ہے۔پھربور ہو گیا اور ایسا سویا کہ دو دِن کے بعد جب سویرے اٹھا ……تو سخت جھنجھلا یا ہوا تھا۔ اپنے کمرے میں پڑا بڑ بڑا رہا تھا۔”کیا ضرورت ہے مجھے بابا جان کی خدمت کرنے کی۔وہ مانی جو ہروقت بھوت کی طرح سوار رہتی ہے۔اتنے نوکر چاکر ہیں ……میں تو دو رات کیا جاگا ہوں اٹھا نہیں جارہا ہے۔“
بڑی مشکل سے اٹھا،نہایا دھویا اور دوستوں کولے کر چراگاہ میں گھوڑے دوڑانے چلاگیا ……دوستوں نے اور بہکایا کہنے لگے ……
”تم تو بے وقوف ہوجو اپنے بوڑھے اور بیمار باپ کی خوشامد میں لگے ہوئے ہو۔ارے بھئی ہر بادشاہ کا بیٹا اپنے باپ کو ہٹا کر خود بادشاہ بن جاتا ہے۔تم تو ایسا کرو کہ ایک دن بڑے میاں جب سورہے ہوں تو وہ انگھوٹھی چرا لو۔ بڑے میاں اور مانی کو کمرے میں بند کردو۔بس تم فٹا فٹ شام کے بادشاہ بن جاؤ گے۔“
ترکیب تو شارو کو اچھی لگی مگر ابھی تک یہ پتہ نہیں چلا تھا کہ اس انگھوٹھی کو پالینے کے بعد بادشاہت کیسے ملے گی۔ شارو نے اپنے ایک بہت چالاک دوست سے کہا کہ وہ شام کے بادشاہ ملک ثانی کے کسی درباری سے پتہ چلائے کہ آخر اس انگھوٹھی کا قصہ کیا ہے۔بابا جان تو ابھی مجھے ہر گز نہیں بتائیں گے۔
شارو کا چالاک دوست ’امر‘ شام کے بادشاہ ملک ثانی کے ایک خاص ملازم کا بیٹا تھا۔فوراً دوڑا دوڑا اپنے باپ کے پاس گیا اور سارا واقعہ بیان کیا۔یہ بھی کہا کہ اگر شارو بادشاہ بنے گا تو اس کا وزیر ِاعظم سوائے میرے اور بن ہی نہیں سکتا۔ ملک ثانی کا یہ خادم بہت سمجھ دار اور اچھا انسان تھا۔ اس نے پہلے بیٹے کو سمجھایا کہ وہ شاروکی دوستی چھوڑدے۔بُرے انسانوں کی دوستی برا ہی بناتی ہے۔پھر انگوٹھی کے بارے میں بتایا کہ شام کا اصلی بادشاہ وہی ہو گا جس کی اچھائی کی گواہی سالم دے گا۔ انگھوٹھی تو ایک نشانی ہے جو سالم شام کے نئے بادشاہ کو دے گا۔
امر کے سارے منصوبے اڑا اڑا دھم سے زمین پر آگرے۔وہ تو جلدی سے وزیرِاعظم بن جانے کا خواب دیکھ رہا تھا۔باپ کی باتوں نے امر کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔باپ نے امر کو یہ بھی بتادیا کہ شام کی بادشاہت جنوں کے بادشاہ ملک طاطامیل نے حارو اور شارو کے دادا کو دی تھی۔ حارو شارو کا دادا ایک اچھا بادشاہ تھا۔رعایا سے محبت کرتا تھا۔ کمزور لوگوں کی خدمت کرتا تھا۔اس کی حکومت میں سب چین کی بنسی بجاتے تھے۔ رات کو لوگ گھر وں کے دروازے کھلے چھوڑ کر سوتے تھے۔ ملک میں قحط نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔کِسانوں کو ان کی محنت کا معاوضہ پورا ملتا تھا لیکن حارو کا باپ ایک بہت ظالم بادشاہ بنا۔ اس کے زمانے میں پورے ملک میں ہر طرف لٹیرے اور ڈاکو اچھے لوگوں کو مارنے لوٹنے لگے تھے۔رعایا پر سرکاری ٹیکس اتنے لگا دیے گئے تھے کہ رعایا بھوکوں مرنے لگی تھی۔ حارو اور شارو چھوٹے ہی تھے کہ رعایا نے بغاوت کی اور حارو شارو کے باپ کو ماردیا……سالم وزیرِاعظم تھا، ملک طاطائیل جنوں کے بادشاہ نے ظالم بادشاہ کے دونوں بیٹے سالم کے سپرد کردیئے اور یہ حکم دیا گیا کہ ان بچوں کی بہت اچھی تربیت کی جائے۔انہیں تعلیم دی جائے۔

سالم نے پوری کوشش کی کہ شاید حارو یا شارو دونوں میں سے کوئی ایک اپنے دادا کی طرح اچھا انسان بن کر بڑا ہوگا تو ملک طاطائل جو جنوں کا بادشاہ ہے، پھر ایک بار شام کی حکومت اسی خاندان کو دے دے گا۔
یہ سارا قصہ سن کر امر تو بہت ہی افسردہ ہوگیا۔اور جاکر شارو کو سب کچھ بتایا……شارو پریشان ہوگیا……اس کا مطلب یہ تھا کہ شام کا بادشاہ بن جانا آسان کام نہیں تھا۔ خالی خولی سالم کو ماردینے یا اس کی خدمت خاطر کرنے سے کام بن نہیں سکتا۔ضروری بات یہ بھی بچو کہ جنوں کے بادشاہ ملک طاطائیل کو بھی خوش کیا جائے۔حارو کو دریائے زرد گئے ہوئے سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا……سالم جانتا تھا کہ حارو کسی نہ کسی مصیبت میں پھنس چکا ہوگا۔شارو کو پتہ چل گیا تھا کہ سالم اس کا باپ نہیں ہے۔لہٰذا اس کے دِل میں اب سالم کے لئے کوئی جگہ نہیں رہی تھی۔ وہ سالم کو اپنا دشمن سمجھ رہا تھا۔مگر اس دشمن کو بادشاہت کے لیے زندہ رکھنا بھی ضروری تھا کیونکہ سالم کی گواہی کے بغیر شام کی بادشاہت نہیں مل سکتی تھی۔ شارو چاہتا تھا کہ وہ بھی دریائے زرد جائے اور کامیاب ہو کر واپس لوٹے اور بادشاہ بن جائے۔ آخر کار ایک دن شارو نے سالم سے کہہ ہی دیا:
”باباجان! مجھے تو لگتا ہے حارو بھائی مر کھپ گئے ہیں۔ایسانہ ہو، آپ ان کا انتظار کرتے کرتے اللہ کو پیارے ہوجائیں۔اب آپ مجھے اجازت دیں کہ میں دریائے زرد جاؤں اور آپ کے لئے چشمہ ء شفا کا پانی لاؤں۔“
سالم کی آنکھوں میں آنسوں آگئے۔ اس نے بہت افسر دہ ہو کر کہا:
”پیارے شارو! کاش کہ تم نے اپنے بڑے بھائی کے لئے کوئی اچھی بات کہی ہوتی۔مجھے ڈر یہ ہے کہ اگر تم بھی ناکام ہوگئے تو پھر کیا ہوگا……میرے لئے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا کہ میں مانی کو چشمہء شفا کی تلاش میں بھیجوں ……“
شارو کو سالم کی یہ بات بالکل پسند نہیں آئی۔ چڑ کر بولا:
”آپ ہر جگہ مانی کی بات کرتے ہیں۔بھلا مانی کون ہوتی ہے کہ وہ شہزادوں کا کام کرنا شروع کردے……“
سالم حیران ہوا۔ اس نے تو کبھی بتایاہی نہیں تھا کہ مانی کون ہے۔سالم سوچ رہا تھا کہ کسی نہ کسی طرح شارو نے پتہ چلا لیا ہے کہ وہ تو شہزادہ ہے اور مانی ظالم بادشاہ کے ایک بہت اچھے غلام کی بیٹی ہے……سالم نے کہا:
”شارو! مانی تو آپ کی بہن ہے۔“
شارو نے سالم کو بات پوری نہیں کرنے دی۔ ناراض ہو کر زور سے بولا:
”آپ جھوٹ بولتے رہے ہیں۔ مانی ہماری کوئی نہیں لگتی۔ اگر ظالم بادشاہ کی اولاد ہیں تو میں اور میرا بھائی حارو بس……مانی ہوگی کوئی نوکرانی کی بیٹی……جیسے آپ ہمارے باپ کے نوکر تھے۔“
سالم سمجھ گیا کہ اب شارو سے کچھ کہنا،کچھ سمجھانا فضول ہوگا۔ بڑے دھیمے لہجے میں بولا:
”تو پھرشہزادے شارو!جب آپ کو سب کچھ معلوم ہو ہی چکا ہے تو پھر میری کیا مجال ہے کہ میں آپ کو روکوں …… جو آپ کے جی میں آئے وہی کیجئے۔“
شارو غصے سے لال پیلا ہورہا تھا۔ اس نے سو گھوڑے سوسوار ساتھ لئے۔ لاکھوں اشرفیاں لیں اور سالم کو خدا حافظ کئے بغیر روانہ ہوگیا……
غصے میں دریائے زرد کا نقشہ لینا بھی بھول گیا……بڑی شان سے شارو کا قافلہ روانہ ہوا۔ اپنے ملک سے نوسو میل دور جب ایک نئے ملک میں پہونچے اور وہاں کے حاکم کو معلوم ہوا کہ شام سے سوسواروں کا ایک قافلہ آیا ہے۔ اس نے پیغام بھیجا کہ اگر سالم کے سوار ہوں تو انہیں بڑی عزت سے مہمان ٹھہرایا جائے اور خاطر مدارات کی جائے۔لیکن شارو نے بادشاہ کے ایلچی کو یہ کہہ کر واپس کردیا۔
”اپنے بادشاہ سے کہو کہ سالم ہمارے باپ بادشاہ کا نوکر ہے ……ہمارے باپ کے غصّے سے دنیا کانپتی تھی۔ اگر وہ ظالم بادشاہ کا بیٹا سمجھ کر ہماری عزت کرنا چاہتا ہے تو ہم دوست بن کر اس کے مہمان رہیں گے لیکن اگر سالم کی وجہ سے ہماری عزت کر رہا ہے تو ہم آج سے تمہارے بادشاہ کو اپنا دشمن سمجھیں گے اور جب بھی ہم بادشاہ بنے اپنی ذلت کا بدلہ ضرور لیں گے۔“
ایلچی نے جاکر بادشاہ کو ساری بات بتائی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ شہزادہ شارو کو حکم دیا جائے کہ وہ فوراً ہماری سلطنت سے باہر نکل جائیں ورنہ ہم انہیں گرفتار کر لیں گے۔
شارو کو آگے بڑھنے سے روک دیا گیا،سو مجبوراً لوٹنا پڑا۔ مشکل یہ تھی دریائے زرد کو جانے والا راستہ اسی سلطنت سے ہوکر نکلتا تھا۔ جب گیارہ بادشاہتوں سے قافلے گزر جاتے تھے تو دریائے زرد کا راستہ شروع ہوجاتا تھا۔نقشہ شارو کے پاس نہیں تھا ورنہ کوئی اور راستہ بھی ڈھونڈا جا سکتا تھا۔ اب جو واپس لوٹے تو راستہ کوئی نہیں تھا سارا سفر جنگلوں جنگلوں طے کرنا تھا ……
شارو کا قافلہ پہلی ہی منزل میں بھٹک گیا۔جب تک اناج ساتھ رہا قافلہ کسی نہ کسی طرح چلتا رہا۔پھر یہ ہوا کہ اناج،روپیہ پیسہ سب ختم ہوگیا لیکن دریائے زرد کا دور دور تک پتہ نہیں تھا……دریائے زرد کا نام سب جانتے تھے لیکن پتہ اور راستہ صرف سالم جانتا تھا۔جنوں کے بادشاہ ملک طاطائیل نے نقشہ صرف سالم کو بتایا تھا۔جب سب کچھ ختم ہوگیا تو قافلے میں فاقوں کی نوبت آگئی۔بہت سے لوگ مصیبتوں سے تنگ آکر گھوڑے لے کر بھاگ نکلے۔بہت سے جو ساتھ رہ گئے تھے،وہ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں کو لوٹتے تھے اور گزارہ کرتے تھے۔ شارو جو شہزادے بن کر گھر سے نکلے تھے، اب صرف ڈاکو سمجھے جانے لگے۔دریائے زرد مشرق میں تھا اور شارو کا قافلہ شمال میں بھٹک رہا تھا۔ جب مجبور دیہاتی شارو، اس کے سپاہیوں کی لوٹ مار سے تنگ آگئے تو انہوں نے ان کا مقابلہ کر کے شارو کے سارے ساتھیوں کو مار ڈالا اور شارو کو قیدی بنا کر اپنی بھینسوں کی نگرانی پر لگا دیا……
بچّو! دیکھا آپ نے حارو کو کیسی بُری اور بڑی سزا ملی……اب یہ دیکھیں بیچارے سالم اور مانی پر کیا گزری ہے۔ حارو شارو دونوں کو چشمہ شفا کی تلاش میں گئے ہوئے پورا سال گزرگیا۔سالم سمجھ چکا تھا کہ ان دونوں کو غریبوں کو ستانے اور بوڑھوں کی عزت نہ کرنے کی سزا مل چکی ہے لیکن سالم ایک اچھا انسان تھا۔اچھے انسان تو بُرے انسانوں کی بھی بھلائی چاہتے ہیں۔پھر سالم نے تو حارو شارو کو بڑے پیار سے پالا تھا۔وہ رات دن حارو اور شارو کی قسمت پر افسوس کرتا تھا۔ ایک دن وہ تہ خانے کے اندر گیا مگر بچو اکیلا۔وہ تو ہمیشہ مانی کو ساتھ لیکر اندر جاتا تھا۔مانی پریشان ہوگئی۔سالم کی طبیعت بہت خراب تھی۔مانی کا سہارا لیکر تو وہ تہہ خانے کے اندر اترتا تھا۔سالم کو اندر گئے ہوئے بہت دیر بھی ہوگئی تھی۔جب مانی انتظار کرتے کرتے تھک گئی تو اس نے سالم کو آواز دی۔
”سالم بابا طبیعت تو اچھی ہے؟“
تہہ خانے کے اندر سرخ رنگ کی روشنی ہورہی تھی اور ایک بڑی گر جدار آواز سنائی دی۔ یہ جنوں کے بادشاہ طاطائیل کی آواز تھی۔
”سالم عورت اور مرد ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔بادشاہ کے بیٹے ہونے اور غلام کی بیٹی ہونے سے کبھی بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔مانی چشمہ شفا کی تلاش میں ضرور جائے گی۔“
مانی ڈرگئی……اسے نہ تو بادشاہت کا شوق تھا،نہ ہیرے موتی کی آرزو، وہ سالم بابا کو اکیلا چھوڑنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ مانی رونے لگی۔ اسے یہ سوچ کر دُکھ ہورہا تھا کہ اگر وہ سالم کو اکیلا چھوڑکر چلی گئی تو سالم کی خدمت کون کرے گا …… سالم تہ خانے سے باہر آیا تو وہ بھی بہت پریشان تھا ……مانی کو دیکھا تو مانی کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھ کر رونے لگا اور کہنے لگا:
”مانی یہ بادشاہوں کی باتیں بادشاہ ہی سمجھ سکتے ہیں۔شاہ طاطائیل تم ہی کو سلطنت شام کی ملکہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ میں چاہتا ہوں کہ میری بیٹی میری نظروں کے سامنے رہے۔“
مانی نے جواب دیا۔”بابا! اگر آپ سمجھتے ہیں کہ شاہ طاطائیل کا حکم آپ کو ماننا پڑے گا تو مجھے جانے دیجئے۔حارو اور شارو بھائی کے بغیر تو اب میرا جی زندہ رہنے کو چاہتا بھی نہیں ہے۔“

”تمہیں اتنی محبت ہے مانی دونوں سے؟“سالم نے حیران ہوکر پوچھا۔
”ہاں بابا،وہ اگر مجھے اپنی بہن نہیں سمجھتے تو نہ سمجھیں مگر میں نے تو دونوں کو ہمیشہ اپنا بھائی سمجھا ہے۔آپ مجھے دُعا دیں اور سفر پر روانہ ہونے کی اجازت دیجیے۔“
سالم اور زیادہ رونے لگا۔ ”مانی اب تو نہ میرے پاس تجھے دینے کے لئے شاہ طاطائیل کا کوئی تحفہ ہے، نہ چشمہ شفا تک پہنچنے کا نقشہ۔“
مانی نے کہا۔”آپ کی دُعائیں اور مجھ پر بھروسہ میرے لئے کافی ہے۔ مجھے صرف اتنا بتادیجئے کہ دنیا کی چار سمتیں ہیں،مشرق،مغرب،جنوب،شمال، میں کس سمت میں سفر کروں۔“
سالم نے بتایا۔”مغرب کی طرف……“
مانی سالم کے آرام، کھانے پینے، سب کا بندوبست کرکے صرف تھوڑی سی اشرفیاں اور سالم کے ایک وفادار ملازم نجم الدین کو ساتھ لیکر سفرپر روانہ ہوگئی……
راستے میں کوئی بوڑھا دکھائی دیتا تو مانی اسے اپنے گھوڑے پر بٹھا کر گھر تک پہنچا دیتی،کوئی بھوکا دکھائی دیتا تو اسے کھانا کھلادیتی۔جس شہر سے گزرتی لوگ پوچھتے کہ بیٹی تم کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو؟ تو مانی جواب دیتی:
”میں آپ سب کی اور اپنے بابا سالم کی بیٹی ہوں۔ اپنے بھائیوں اور چشمہ شفا کی تلاش میں نکلی ہوں تاکہ میرے بوڑھے بابا کو صحت مل جائے ……“
لوگ اسے دعائیں دیتے،خاطریں کرتے مگر مانی خدمت کے لئے تو خود تیار رہتی تھی۔ہوتے ہوتے شام کی سرحد پر پہنچے۔سپاہیوں نے مانی سے اَتا پتہ پوچھا تو مانی نے کہا:
”اپنے بادشاہ سے بہت ادب کے ساتھ میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہ دینا کہ میں شاہ طاطائیل کے حکم کی وجہ سے چشمہ شفا تک جارہی ہوں۔ میرے حق میں دعا کرتے رہیں۔“
شام کے بادشاہ نے جب مانی کایہ پیغام سنا تو ایک بہت بڑا جلوس لے کر اس کے استقبال کے لئے سرحد پر پہنچا اور بہت سی کنیزوں کے ساتھ بہت قیمتی خوبصورت کپڑے، زیورات،کھانے پینے کا سامان مانی کے پاس بھیجا۔
مانی نے بہت سارے شکریے ادا کرکے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ بادشاہ سلامت میں تو ایک مسافر ہوں۔ مسافر اتنا قیمتی سامان لیکر سفر نہیں کرتا۔ زندہ اور کامیاب واپس لوٹی تو آپ کا تحفہ ضرور قبول کرلوں گی۔“
مانی کا جواب لے کر سوارا بھی بادشاہ کی خدمت میں روانہ ہونے ہی والے تھے کہ شہزادہ گھوڑے پر سوار ہوکر آیا۔ یہ بڑا حسین،بڑا بہادر اور پڑھا لکھا شہزادہ تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک ریشم کی تھیلی تھی۔شہزادہ گھوڑے سے نیچے اترا اور مانی کے پاس آکر بہت ادب سے وہ تھیلی پیش کی اور بولا:
”مانی! اس تھیلی میں ایک آئینہ ہے۔ اگر سفر میں کہیں آپ راستہ بھول جائیں تو اس آئینے کو دیکھ لیجئے، اس میں راستے کا نشان دکھائی دے گا۔ نشان کی طرف سفر شروع کر دیجیے اور میرے بابا جو شام کے شہنشاہ ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں بھی آپ کے ساتھ سفر کروں گا۔“
مانی خوش ہوئی، کم ازکم کوئی سمجھ داربہادر آدمی تو اس کے ساتھ ہوگا۔وہ شہزادے کو ساتھ لے کر چلنے پر راضی ہوگئی اور یہ چھوٹا سا قافلہ چشمہ شفا اور بھائیوں کی تلاش میں چل پڑا۔ ہوتے ہوتے قافلہ اس شہر میں پہنچا جہاں حارو غلامی کررہا تھا۔آج اس شہر میں چوروں،ڈاکوؤں، قاتلوں کی سزا کا دن تھا۔شہر کے سارے لوگ ہاتھوں میں پتھر اٹھائے کسی ایک خاص سمت میں تیز تیز جارہے تھے۔ جب ایک سے پوچھا گیا کہ بھئی ماجرا کیا ہے؟تو اس نے بتایا کہ ہمارے شہر میں کبھی کوئی چور تھا نہ ڈ اکو۔ ایک قافلہ آیا تھا جو چور ڈاکو بن کر ہمیں لوٹتا تھا۔ ہمارے مویشی مارتا تھا۔آج ان کی سزا کا آخری دن ہے۔آج ہم اتنے پتھر برسائیں گے کہ وہ مرجائیں گے۔“
مانی نے نظر اُٹھا کر سامنے دیکھا تو حارو اور اس کے دو دوست رسیّوں میں بندھے کھڑے تھے اور پتھر مارنے کا حکم دیا ہی جانے والا تھا۔مانی تڑپ گئی۔یہ تو اس کا بھائی حارو تھا۔شہر کے سردار کے پاس گئی اور بولی ……
”اگر میں آپ کے نقصان کی قیمت ادا کروں تو کیا آپ میرے بھائی کی جان بخش دیں گے؟“
سردار حیران ہوگیا اور پوچھنے لگا۔”اے اچھی لڑکی تیرا بھائی کون ہے؟“
مانی نے حارو کی طرف اشارہ کیا۔
سردار کا منہ غصّے سے لال ہوگیا۔
”یہ ظالم اور کمینہ شخص تیرا بھائی ہے، یہ تو خود کو شہزادہ کہتا تھا اور ڈاکوؤں کا سردار بنا ہوا تھا۔“
مانی نے کہا۔”انسان غلطی تو کرتا ہے مگر وہ انسان بہت اچھے انسان ہوتے ہیں جو انسانوں کی غلطی معاف کردیتے ہیں۔ اگر آج آپ میرے بھائی کو معاف کردیں گے تو یقین مانیے میں اپنا کام ختم کرکے سب سے پہلے بہت سارا روپیہ پیسہ آپ کو دلوادوں گی۔“
حارو سب کچھ دیکھ بھی رہا تھا اور سن بھی رہا تھا۔ اسے یقین نہیں آیا کہ مانی جس سے وہ ہمیشہ نفرت کرتا رہا ہے، یہ کر سکتی ہے۔شہر کے لوگوں نے مانی کی بات مان لی۔
لیکن ایک شرط پر کہ جب تک مانی رقم ادا نہیں کردے گی، حارو ان کا قیدی رہے گا۔حارو کی زندگی بچا کر مانی اپنے سفر کی آخری منزل پر روانہ ہوگئی۔قافلہ جب بھی ویرانوں سے گزرتا،مانی آئینہ کھول کر راستے کا نشان دیکھتی ہوئی آگے بڑھ جاتی تھی۔ دو مہینے کا سفر طے کرکے مانی کا قافلہ دریائے زرد کے جنگل میں پہنچ گیا ……سب اپنے اپنے خیموں میں آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے۔اسی وقت بونے میاں کی آواز سنائی دی۔رات کے سناٹے میں یہ آواز عجیب سی لگی تھی۔
بونا کہہ رہا تھا:
”مانی کب سے تمہارا انتظار کررہا ہوں مجھے بچا لو ……“
مانی باہر نکلی۔ کہیں کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔شہزادہ بھی بونے کی آواز سن کر باہر آچکا تھا۔
”مانی اِدھر دیکھو۔“
بونے کی آواز پھر سنائی دی شہزادے کے ہاتھ میں مشعل تھی۔بونا دریا کی لہروں پر ایک پتے میں بیٹھا ڈول رہا تھا۔ گہرا دریا، تیز موجیں، اندھیرا۔
شہزادے نے کہا:
”میں بچاتا ہوں بونے کو۔“
بونا چلاّیا۔”نہیں شہزادے!یہ کام صرف مانی کا ہے۔“
شہزادے نے خوفزدہ ہو کر لہروں کو پھر مانی کو دیکھا۔مانی نے پانی میں چھلانگ لگا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے بونے کے پتے کو ہاتھوں پر اٹھالیا۔
”مانی میرے ماتھے کو چوم لو……
مانی نے کہا:
”بونے بھائی!تمہارا ماتھا بہت چھوٹا ہے، کہو تو ہاتھ چوم لوں۔“
مانی نے بونے کو جواب دیا۔بونے نے اپنا ننھا سا ہاتھ بڑھا دیا۔ جیسے ہی مانی نے بونے کے ہاتھ کو چو ما۔ اندھیری رات میں دو چمکتے ہوئے پَر بڑھنا شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بونا پر ستان کا شہزادہ بن کر مانی کا ہاتھ تھامے ہوئے دریائے زرد سے باہر آگیا۔جنگل میں روشنی ہوگئی۔ سارے سیاہ پہاڑ چاندی کے پہاڑوں کی طرح چمکنے لگے۔ دریائے زرد کے کنارے انسانوں کے پتھر بدن، انسان بننے لگے۔خوشی کے مارے لوگوں کے شور اور باجوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ مانی اور شہزادہ حیران ہوکر یہ تماشہ دیکھ رہے تھے۔اچانک سامنے سے جنوں کا شہنشاہ طاطائیل آتا دکھائی دیا۔ یہ ایک بہت لمبے قد کے خوبصورت بزرگ انسان تھے۔جنہوں نے سفید ریشم کی لمبی سی عبا پہن رکھی تھی۔ان کے سر پر ہیروں کی طرح جگمگاتا تاج تھا۔ان کے ہاتھ میں ایک صراحی تھی جس میں چشمہ شفا کا پانی تھا۔ انہوں نے صراحی مانی کے ہاتھ میں دے دی اور بولے:
”ما نی! بونا پرستان کا شہزادہ ہے جسے ایک جادو گرنی نے بونا بنادیا تھا اور یہ کہا تھا کہ جو بھی تجھے دیکھے حقارت سے دیکھے گا، تیرا مذاق اُڑائے گا اور تو یونہی چھوٹا سا بونا رہ جائے گا۔ ہاں اگر کسی انسان نے تجھ سے محبت کی۔تجھے پیار کیا اور تجھے حقیر نہ سمجھا تو پھر شہزادہ بن جائے گا۔پرستان کا بادشاہ جو میرا دوست ہے دریائے زرد اور جنگل اس کی سلطنت ہے۔ چشمہ شفا اسی کے جنگل میں بہتا ہے۔ اس نے تحفے کے طور پر آپ کے لئے چشمے کا پانی بھجوایا ہے۔اب آپ کے والد کو شفا ہوجائے گی۔“
جس وقت طاطائیل مانی سے باتیں کررہا تھا،مانی کا بھائی شارو ہاتھ جوڑے ہوئے مانی کے قریب کھڑا تھا۔مانی نے بھائی کو دیکھا تو بے اختیا ر ہوکر شارو سے لپٹ گئی۔شاہ طاطائیل نے بہت سے تحفے دے کر مانی شارو اور شہزادے کو رخصت کیا اور چلتے وقت یہ کہا:
”جو لوگ دوسرے انسانوں سے محبت کرتے ہیں،ان کی مشکلیں خود بخود آسان ہوجاتی ہیں۔مانی کے ساتھ یہی ہوا ہے۔مانی نے واپسی میں حارو کو بھی آزاد کرایااور ہنسی خوشی سالم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔سالم بہت بیمار تھا۔چشمہ شفا کا پانی پیتے ہی اس کی ساری بیماری دور ہوگئی۔ جب سالم کو صحت ہوگئی تو شام کا بادشاہ ایک بہت بڑے جلوس کے ساتھ سالم کے شہر آیا۔
سالم نے انگھوٹھی مانی کو پہنائی اور شام کی بادشاہی مانی کو مل گئی۔شہزادے کے ساتھ دھوم دھام سے مانی کی شادی کردی۔حارو، شارو زندگی بھر اپنی غلطیوں پر پچھتاتے رہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top