skip to Main Content

جھوٹ کا سچ

جاوید بسام

۔۔۔۔۔۔

اگر وہ ایک جھوٹ بول کر بوڑھے کی مدد کرتا تو بوڑھا انعام جیت جاتا

۔۔۔۔۔

ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ نعیم سائیکل دوڑاتا پگڈنڈی سے گزر رہا تھا۔ وہ ایک دکاندار تھا۔ گاؤں کی مسجد کے ساتھ ہی اس کی کریانے کی دکان تھی۔ دکان اچھی چل رہی تھی۔ اکثر دوسرے گاؤں سے بھی لوگ اس سے سودا لینے آجاتے تھے کیونکہ اس کے پاس ہر چیز مل جاتی تھی۔ آج وہ کسی کام سے قریبی گاؤں جا رہا تھا۔ ابھی وہ کچھ دور ہی گیا تھا کہ اسے ایک درخت کے نیچے ایک بوڑھا آدمی بیٹھا نظر آیا۔ اس کے پاس ایک گٹھڑی بھی تھی۔ نعیم کو خیال آیا بے چارہ مسافر ہے، کسی سواری کے انتظار میں بیٹھا ہے۔ جہاں تک میں جا رہا ہوں اسے ساتھ لے چلتا ہوں۔ اس نے سائیکل روک لی اور کہا: ”بابا کیا سواری کے انتظار میں بیٹھے ہو؟“ بوڑھے نے گردن ہلائی۔
”تمھیں کہاں جانا ہے؟“
بوڑھے نے دورکے ایک گاؤں کا نام لیا۔ نعیم بولا: ”میں حسن پورہ جا رہا ہوں کہو تو وہاں تک پہنچا دوں؟“
بوڑھا اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا: ” ہاں“
اس نے گٹھڑی اٹھائی اور سائیکل کے کیریئر پر رکھ دی پھر خود نعیم کے آگے ڈنڈے پر بیٹھ گیا۔ کچھ دور چل کر نعیم نے بے چینی محسوس کی، سائیکل بہت مشکل سے چل رہی تھی۔ جیسے اس پر بھاری بوجھ ڈالا ہو۔ نعیم کا سانس پھول رہا تھا، وہ بولا: ”بابا تمھارا وزن تو اتنا نہیں لگتا اس گٹھڑی میں کیا ہے؟ سائیکل چلانا مشکل ہورہا ہے۔“
بوڑھا عجیب سی ہنسی ہنسا اور بولا: ” اس میں تمھارے گاؤں کے لوگوں کے جھوٹ ہیں۔“
نعیم کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی وہ بولا: ”بابا اس عمر میں بھی تم اچھا مذاق کرلیتے ہو۔“
”میں مذاق نہیں کررہا اس میں چھوٹے بڑے، کالے سفید ہر طرح کے جھوٹ ہیں۔“
”اچھا چلو میں تمھاری بات مان لیتا ہوں، یہ بتاؤ تم یہ جھوٹ کہاں لے جا رہے ہو؟“
بوڑھا بولا: ” پہلے مےں اپنا تعارف کرا دوں، میں شیطان ہوں۔ ایک ماہ سے میری ڈیوٹی تمھارے گاؤں میں لگی ہوئی تھی۔ میں پورے مہینے تم لوگوں کو جھوٹ پر اُکساتا رہا اور انھیں جمع کرتا رہا۔ مہینے کے آخر میں ہمیں بڑے شیطان کے پاس اپنے کام کی رپورٹ دینی ہوتی ہے۔ وہاں دوسرے چیلے بھی آتے ہیں ، میں یہ گٹھڑی وہاں لے جا رہا ہوں۔“ نعیم نے قہقہہ لگایا اور بولا: ” تم تو مجھے بہت بڑے کہانی کار لگتے ہو، میں چاہوں تو تمھیں یہی اتار دوں۔“
بوڑھا طنزیہ لہجے میں بولا: ”ذرا اتار کر دیکھو۔“
نعیم نے بریک لگائے لیکن سائیکل چلتی رہی، بلکہ اس کی رفتار بڑھ کر گاڑی کے برابر ہوگئی۔ نعیم کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ وہ ہکلا یا …. ”یہ کیا ہورہا ہے؟“
” میں اپنی طاقت دکھا رہا ہوں تم پہلے انسان ہو جو میری بات پر یقین نہیں کررہے۔ کیا میں اپنے اصل روپ میں آؤں؟“
”نہیں نہیں اس کی ضرورت نہےں، مجھے یقین آگیا تم شیطان ہو۔“ نعیم تھرتھر کانپ رہا تھا۔ سائیکل کسی گاڑی کی رفتار سے چل رہی تھی۔ شیطان مسکرا رہا تھا۔ سڑک سے گزرتی سواریاں، کھیتوں میں کام کرتے کسان اور کنوؤں پر پانی بھرتی عورتیں، سائیکل کو گاڑی کی طرح چلتا دیکھ کر حیرت سے اپنی انگلیاں کاٹ رہے تھے کہ وہ خواب تو نہیں دیکھ رہے۔ نعیم کے اوسان جب کچھ بحال ہو ئے تو وہ بولا: ” حسن پورہ آنے والا ہے ۔مجھے وہاں کام ہے۔“
بوڑھا بولا ” نہیں اب تمھیں میرے ساتھ میری منزل تک چلنا ہوگا۔“ حسن پورہ آیا اور زن سے گزر گیا۔
کچھ دور جا کر نعیم ناک سکیڑ کر بولا: ” جب سے تم میری سائیکل پر بیٹھے ہو عجیب سی بو آرہی ہے۔“
شیطان بولا ” ہاں یہ تمھارے جھوٹ کی بو ہے۔“
وہ چلتے رہے کئی گاؤں اور قصبے راہ میں آئے اور گزر گئے، سائیکل چلتی رہی۔ آخر وہ ایک بڑے میدان میں پہنچے۔ وہ ایک عجیب سی جگہ تھی ، بالکل سپاٹ میدان جس میں گھاس کا ایک تنکا بھی نہیں تھا۔ میدان کے بیچ میں کچھ لوگ نظر آئے۔ سائیکل وہاں جا کر رک گئی۔ شام ہوچکی تھی۔ سورج دور اُفق پر کسی نارنجی ٹکیہ کی طرح ٹکا ہوا تھا۔ نعیم نے دیکھا ایک بوڑھا آدمی ذرا ہٹ کر بیٹھا ہے۔ اس کے سامنے کچھ اور بوڑھے ادب سے بیٹھے ہیں۔ ان کے قریب ایک ایک گٹھڑی بھی رکھی تھی۔ شیطان نے نعیم کے کان میں سرگوشی کی۔ یہ ہمارا سردار ہے۔ وہ سائیکل سے اتر کر کی طرف بڑھے۔
سردار گرجدار آواز میں بولا: ” تم نے بہت دیر کر دی؟“
” جی میں معافی چاہتا ہوں، آپ کارروائی شروع کریں۔“
سردار کے پاس ایک ترازو بھی تھا۔ اس نے ایک گٹھڑی اٹھا کر اس کا وزن کیا۔ وہ تیس کلو گرام تھا۔ اس نے منھ بنا کر دوسری گٹھڑی تولی اس کا وزن چونتیس کلو، تیسری کا اڑتیس اور چوتھی کا وزن ان سب سے زیادہ چالیس کلو تھا۔ اب اس شیطان کی گٹھڑی رہ گئی تھی جس کے ساتھ نعیم آیا تھا۔ وہ خوش نظر آرہا تھا۔ جیسے اسے اپنی جیت کا یقین ہو۔ سردار نے اس کی گٹھڑی تولی تو سب حیران رہ گئے۔ اس کا وزن بھی چالیس کلو تھا۔ سردار کے منھ سے دھواں نکلنے لگا۔ وہ غصے سے بولا: ” تم سب کام چور ہو، محنت نہیں کرتے۔ اب میں فیصلہ کس طرح کروں۔“
سب سوچ میں ڈوب گئے۔ نعیم کے ساتھ آنے والا شیطان چٹکی بجا کر بولا : ”اس مسئلے کا حل میرے پاس ہے۔ جس گاؤں مےں میری ڈیوٹی تھی۔ اس کا ایک باشندہ میرے ساتھ ہے۔ وہ اگر ایک جھوٹ بول دے تو میری گٹھڑی کا وزن زیادہ ہوجائے گا اور یہ اصول کے خلاف بھی نہیں۔ کیونکہ آج مہینے کی آخری تاریخ ہے۔ سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے جتنے جھوٹ بھی جمع ہوجائیں وہ شمار ہوسکتے ہیں۔“
اس کی بات سن کر شیطان سوچ میں پڑ گیا اور پھر بولا: ”ہاں اس میں کوئی حرج نہیں، اس طرح ہمارے انعام دینے کی روایت بھی نہیں ٹوٹے گی۔“
دوسرے شیطان اس پر ناک بھوں چڑھانے لگے۔
نعیم کے ساتھ آنے والا شیطان اسے ایک طرف لے گیا اور بولا :”تم نے ہماری باتیں سنی ہیں اگر تم ایک جھوٹ بول دو تو مسئلہ حل ہوجائے گا۔ میری ڈیوٹی تمھارے گاؤں میں لگتی ہے۔ میں کسی مشکل میں تمھاری مدد کروں گا۔“
شیطان کی پیش کش سن کر نعیم ہنسنے لگا پھر سوچ کر بولا: ”چلو ٹھیک ہے میں ایک جھوٹ بول دیتا ہوں۔“
شیطان خوش ہو کر نعیم کو اپنے سردار کے پاس لے گیا۔ سب ہمہ تن گوش ہو گئے۔ نعیم بولا: ” آج میرے پڑوسی کے مرغے نے ایک انڈا دیا تھا۔“
شیطان مسرت سے بولا: ”بہت خوب، شاندار جھوٹ ہے۔“ اس نے جھوٹ کو زمین سے اُٹھایا اور لپیٹ کر گٹھڑی میں ڈال دیا۔ پھر سردار نے گٹھڑی ترازو پر رکھی۔ لیکن یہ دیکھ کر سب حیرت زدہ ہو گئے کہ وزن والا پلڑا زمین پر ٹکا ہواہے اور ایسا لگتا تھا گٹھڑی میں ایک بھی جھوٹ نہیں ہے۔ سردار نے گٹھڑی اُٹھا کر دور پھینک دی اور چلایا: ”تم ہار گئے۔“
نعیم کے ساتھ آنے والا شیطان غصے سے پیر زمین پر مارتے ہوئے اپنے بال نوچ رہا تھا جبکہ نعیم مسکرا رہا تھا۔ شیطان چلایا: ” دھو کا، میرے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔“ وہ تن کر نعیم کے سامنے کھڑا ہو گیا اور غصے سے دھاڑا۔”تم نے یہ کیسا جھوٹ بولا ہے کہ میرے سارے جھوٹ ضائع ہو گئے؟“
نعیم ہنس کر بولا: ” یہ جھوٹ نہیں بلکہ سچ ہے۔ میرے پڑوسی کے لڑکے کو سب پیار سے مرغا کہتے ہیں۔ آج صبح میں نے ناشتے کے لیے اس سے ایک انڈا لیا تھا۔“
شیطان چیختے ہوئے اپنے سر میں خاک ڈالنے لگا۔ نعیم اپنی سائیکل پر بیٹھتے ہوئے بولا: ” آج میں سچ کی طاقت سے واقف ہو گیا ہوںمیں اکثر جھوٹ بول لیتا ہوں، لیکن آج سے عہد کرتا ہوں کہ اب کبھی جھوٹ نہی بولوں گا۔“
یہ کہہ کر اس نے سائیکل کے پیڈل مارے اور وہاں سے چل دیا۔ اسے پیچھے سے شیطان کے چیخنے اور رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ جو تیز رفتاری سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سائیکل گاڑی سے بھی تیز چل رہی تھی۔ نعیم کا خیال تھا یہ سچ کی طاقت تھی جو سائیکل کو اتنا تیز چلا رہی تھی۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top