skip to Main Content

جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا

عصمت چغتائی
۔۔۔۔۔۔۔

”خدا کا واسطہ امی جان! امتحان سر پر آ رہے ہیں۔اور ایک آپ ہیں کہ آپ کو کوئی فکر ہی نہیں ۔ادھر ادھر کی واہیات کتابیں پڑھ کر وقت خراب کر رہی ہیں۔گزشتہ سال بھی فیل ہوتے ہوتے بچیں۔“
”اونہہ….! بھئی،بے کار ہمیں پریشان نہ کرو۔اللہ! اتنی اچھی ناول ہے کہ بس….!“ امی جان نے ناول کا صفحہ پلٹ کر ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کروٹ لے کر سنی ان سنی کردی۔
”یہ واہیات اور بے ہودہ کتابیں پڑھ پڑھ کر جانتی ہیں آپ کے اخلاق پر کتنا برا اثر پڑے گا۔ایسی ہی الٹی سیدھی کہانیاں پڑھ پڑھ کر نہ جانے کتنی امی جانیں گمراہ ہو گئیں۔آپ کو کچھ امتحان کی بھی فکر کرنی چاہیے….میں تو آپ کے ہی بھلے کو کہتی ہو ں! پڑھ لکھ کر ہی انسان،انسان بنتا ہے،ورنہ پشّوسمان۔یہ بھی کوئی زندگی ہے۔“
”بھاڑ میں جائے یہ امتحان….ٹیچر اتنا ہوم ورک دے دیتی ہیں کہ بھئی ہم سے تو ہوتا نہیں….“ امی جان نے غصے سے سر کھجاکر کہا۔
”توبہ ہے امی جان! کیا سر میں جوئیں پڑ گئی ہیں؟ میں نے کتنی دفعہ آپ سے کہا ہے کہ باریک کنگھی نہاتے وقت ضرور استعمال کرنی چاہیے۔کوڑا کرکٹ بھی اس سے نکل جاتا ہے اور جوئیں بھی نہیں پڑنے پاتیں۔مگر آپ سنیں جب نا….!“
”کی تو تھی کنگھی….مگر تمہاری خالہ بی مانگ کر لے گئیں، جب سے اس نے لوٹائی ہی نہیں….!“
امی جان پھر سر کو کھبڑکھبڑ کھجانے لگیں۔
اتنے میں اباجان کمرے سے فٹ بال کوٹپے لگاتے ہوئے نکلے۔شرارت سے میری طرف دیکھا اور پھر دھم سے فٹ بال امی جان کے سر پر دے ماری۔
”اوئی اللہ….!“امی جان ا چھل پڑیں اور ناول ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے رکھی سلا بچی میں جھپاک سے گری۔”اوں….ہماری کتاب….! اللہ ہی سمجھے، ہر وقت ستائے چلے جاتے ہیں ۔ دیکھو فریدہ یہ تمہارے اباجی نہیں مانتے۔“
”یہ کیا طریقہ ہے ابا جان….!“میں نے انہیں ڈانٹا،مگر ابا جان میری بات اس کان سے سن کر اس کان سے اڑاتے ہوئے لپک کر چارپائی پر چڑھ کر کودنے لگے….اور کوٹھے پر سے نکلی ہوئی ڈور لوٹنے لگے۔
”آں….!دیکھو فریدہ! بھائی صاحب ہماری ڈور لوٹے لے رہے ہیں ۔“چھوٹے چچا چھجے پر سے منمنائے۔
انہوں نے بڑی مشکل سے پڑوس کے بھنگی کی کنکیا پر لنگر مارکر ڈور لوٹی تھی۔وہ جو ذرا نیچے جھکی تو ابا جان نے لوٹ لی۔ادھر بھنگی گالیاں دے رہا تھا۔ادھر ابا جان ٹھٹے لگا رہے تھے اور چھوٹے چچا کا منہ چڑا رہے تھے اور چچا میاں زور زور سے چلا رہے تھے۔اتنے میں برآمدے سے دھما دھم کرتی ہوئی پھوپھی اماںآئیں….دیکھ کر تو چلتی نہیں،دہی بڑوں کے لئے دال بھگونے رکھی تھی ساری کی ساری موری میں اوندھ گئی۔
پھوپی امّاں کے پیچھے پیچھے خالہ جانی لپکی چلی آ رہی تھیں۔لپک کر انہوں نے پھوپھی اماں کی پیچھے سے چوٹی دا ب لی۔
پھوپی امّاں ہائے کرکے پلٹیں اور خالہ جانی کی بالیوں میں انگلیاں پھنسا کر کھینچنے لگیں۔اماں بیگم پاندان میں سے الائچی نکال کر چبا رہی تھیں۔دیکھ کر ٹھی ٹھی کر کے ہنسنے لگیں۔اماں بیگم،ہماری نانی اماں،ہر وقت پڑوس کی بوڑھیوں کے ساتھ پنج گٹے کھیلا کرتی ہیں۔
میں نے بڑی مشکل سے پھوپھی اماں اور خالہ جانی کا بیچ بچاؤ کرایا۔دونوں ایک پاؤڈر کے ڈبے پر جھگڑ رہی تھیں۔پھوپھی اماں کہتی تھیں:
”میرا ہے….!“
اور خالہ جانی کہتی تھیں:”میرا ہے!“
میں نے ان سے پاوڈر کا ڈبہ جو چھین کر دیکھا، تو وہ مجھ نصیبوں جلی کا تھا۔
کیا مجال جو میرے میک اپ کا سامان ذرا سا بھی بچ جائے۔جب دیکھو میری ہی چیزوں سے سولہ سنگھار کیے جا رہے ہیں۔اور جو ان کو ڈانٹو کہ بھئی یہ ہر وقت کی لیپاپوتی اچھی نہیں ہوتی،اس سے خواہ مخواہ جلد خراب ہو جائے گی۔
”اونہہ،ذرا سا پاؤڈر لگا لیا تو کیا ہوگیا….تمہاری خالہ ہر وقت تھوپتی ہیں تو کچھ نہیں،میں نے چھوا اور تمہارے مرچیں لگیں۔“پھوپھی امّاں بگڑ اٹھیں۔
ابا جان ڈور چرخی پر لپیٹ رہے تھے….چھوٹے چچا ان سے چھیننے کی کوشش کر رہے تھے۔وہ ان کے چپتیں لگا کر انہیں اور چڑا رہے تھے۔
”بس جی بس بہت ہو چکی یہ دھما چوکڑی،سب اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ اور اپنی کتابیں نکال کر پڑھنا شروع کرو….“میں نے ڈانٹ ڈانٹ کر سب کو پڑھنے کے لئے بٹھایا۔مگر خاک کسی کا دل نہیں لگ رہا تھا۔
چھوٹے چچا کی نظریں ابھی تک کنکیا پر لگی ہوئی تھیں….ابا جان بیٹھے کا پی پر سب کے کارٹون بنا بنا کر امی جان کو دکھا رہے تھے۔وہ مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہوئی جا رہی تھیں۔
چھوٹے چچا منہ میں انگوٹھا ٹھونسے اب تک روٹھے بیٹھے تھے۔خالہ جانی مسلسل اپنی ناک سے چوہے نکال نکال کر پلنگ کی پٹی پر چپکا رہی تھیں۔پھوپھی اماں اپنی ٹوٹی ہوئی چوڑی کو توڑ توڑ کر فال نکال رہی تھیں۔
”چوڑی ری چوڑی……..سچ سچ بتا،فریدہ کے پھوپھا ابا مجھے کتنا چاہتے ہیں….“
چوڑی کا چورا اتناسا زیرہ نکلا کہ پھوپھی اماں روٹھ گئیں اور انہوں نے پھوپھا ابا کی پسلی میں کس کر کہنی مار دی….پھوپھا ابا ایک دم مچل کر وہیں زمین پر لوٹ گئے اور سارے کپڑے کیچڑ میں سن گئے۔ابھی نہلادھلاکر چاند سا بیٹا بنایا تھا۔پھر باگڑ بلا بن گئے۔
میرے آنسو نکل آئے،توبہ ہے ایسے کسی کے بزرگ ہوں تو کوئی کاہے کو جئے….میں نے پھوپھی اماں کو ڈانٹا بھی،مگر وہ ای…. ای…. کرکے منہ چڑانے لگیں۔
ادھر تو میں ان سب کو ڈانٹ ڈانٹ کر پڑھا رہی تھی اور ادھر تایا ابا اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ میری سنگھار میز پر جٹے اسے تاراج کر رہے تھے۔
پہلے تو انہوں نے خوب سی میری قیمتی کریم کہنیوں تک لیپی۔پھر سینٹ کی شیشی کھول کر خوب اپنے سالن بھرے گریبان پر چھڑکا۔پھر اٹھارہ روپے والی لپ سٹک کھول کر خوب اچھی طرح تائی اماں کے اور اپنے گالوں پر رگڑی۔چوڑے چوڑے ہونٹ بنائے،پھر خوب سا کاجل لے کر آنکھوں میں جھونکا ۔اس کے بعد پاؤڈر کی چٹکیاں بھر بھر ایک دوسرے کے سر میں ڈالیں۔ پھر بھی جی نہیں بھرا تو سارا اوڈی کلون اپنی داڑھی پر انڈیل لیا۔
آ ہ! یہ اوڈی کلون میری ایک دوست فرانس سے لائی تھیں۔میرا جی چاہا کہ اپنا سرپیٹ لوں اور دونوں کو قینچی لے کر اتنا ماروں کہ کھل اتر جائے۔ مگر ان کے بھولے بھولے منہ دیکھ کر مجھے ہنسی آ گئی ۔
دونوں کو گھسیٹ کر غسل خانے میں لے گئی اور ان کا منہ دھلایا۔تائی اماں نے لوٹے میں مٹھی بھر کے منجن ڈالا اور گھولنے لگیں۔
ادھر تا یا ابا کیوں چوکتے، انہوں نے بھی ساڑھے چار روپے کی کیوٹی کورہ کی صابن کی ٹکیہ لے کر ٹب میں گرا دی اور پھر ٹکیہ کو واپس نکالنے کی کوشش میں خود بھی غڑاپ سے ٹب میں گر گئے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر رونے لگے۔بڑی مشکل سے دونوں کو سنبھالا۔
لوگ کہتے ہیں مار سے بزرگ خود سر اور بہت ڈھیٹ ہو جاتے ہیں ۔میں ایک اچھی تعلیم یافتہ اولاد ہوں، اس لیے جہاں تک بنا بہلا پھسلا کر کام نکالا۔
ادھر میں تایا ابا اور تائی اماں کی طرف لگی تھی کہ دھیان ہی نہ رہا اور نانا ابا نے میدان خالی دیکھ کر نعمت خانے پر دھاوا بول دیا۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک دن نانی جی نے مذاق میں ان کے ڈوئی اٹھا کر مار دی، بس اسی دن سے انہیں ہوکے کی بیماری ہوگئی۔ ڈوئی مارنے سے ہوکے کی بیماری ہو جایا کرتی ہے۔ بس اسی دن سے نانا ابا کھانے پر جٹ گئے ۔جو کچھ انہیں ملتا کھا جاتے ۔آنکھ بچی اور انہوں نے نعمت خانے پر حملہ کیا ۔ اورتواور باورچن ترکاری بنا رہی ہے ۔آپ بکربکر کچی ترکاریاں کھا رہے ہیں ۔اور کچھ نہ ملے تو پیڑ پر چڑھے کچی کیریاں،بیر اور املیاں ہی کھائے جائیں گے۔ آئے دن ان کا پیٹ خراب رہتا ہے۔پچھاڑ پچھاڑ کر دوائیں پلائی جاتی ہیں، مگر وہ ایک نہیں سنتے۔
اس وقت بھی میرے چلانے کی پروا نہ کر کے وہ بڑے مزے سے چھوٹے چچا کا گلیکسو کا ڈبہ کھول کر بھر بھر چمچے خشک دودھ پھانکنے لگے۔ پھر مجھے دیکھ کر دونوں مٹھیوں میں شکر لے کر ہنستے ہوئے بھاگے۔
ابا جان اور امی جان کتابیں پھینک پھانک کر مزے سے مرغیوں کو سارے صحن میں دوڑاتے پھر رہے تھے۔
پھوپی امّاں مزے سے الگنی میں جھول رہی تھیں اور خالہ جانی کے سارے نپکن جو میں نے دھو کر سکھانے کے لئے دھوپ میں ڈالے تھے، موری میں گرانے کے بعد کھی کھی ہنس رہی تھیں۔
بڑی ممانی جان مزے سے پلنگ پر لیٹی ہوا میں دونوں ٹانگیں اچھال کر سائیکل چلانے کی نقل کر رہی تھیں۔بڑے ماموں پلنگ کے نیچے چھپے ہوئے پائے کے ساتھ ان کی چوٹی باندھ رہے تھے۔
بیگم اماں پنج گٹے کھیلنے میں اپنی پڑوسن کے ساتھ کچھ بے ایمانی کرکے نہایت ڈھٹائی سے ان سے لڑنے کی کوشش کر رہی تھیں۔دیکھتے ہی دیکھتے دونوں گتھم گتھا ہوگئیں اور منہ بسور کر پھینک دیا ایک دوسرے کو۔خوب اودھم مچا رہی تھیں۔
”سؤریا….!“بیگم اماں کہہ رہی تھیں۔
”گدھیا….!“ان کی پڑوسن نے فیصلہ کیا۔
”اللہ کرے مر جائے….!“
”تجھے طاعون سمیٹے….!“
”تجھے ہیضہ ہو….!“
”ہائیں ہائیں یہ کیا بدتمیزی ہے….؟“میں چلاتی رہ گئی،مگر وہ لڑتی لڑتی تختوں پر سے دھم سے نیچے گر پڑیں، اور گلا پھاڑ پھاڑ کر رونے لگیں۔
میں نے دونوں کو چمکارا،حالانکہ میرا جی چاہ رہا تھا کہ دونوں کا قیمہ کرکے چیلوں اور کوؤں کو کھلا دوں۔ٹافی اور چاکلیٹ دے کر دونوں کو بڑی مشکل سے چپ کرایا، ورنہ بھیجا ہلائے دے رہی تھیں۔
اباجان کو نہ جانے کیا سوجھی راک اینڈ رول کا ریکارڈ زور زور سے بجانے لگے۔
”اینا مینا ڈیکا….ڈائی ڈمنیکا….!“
اور پھر سے جیسے بھونچال آگیا۔
سب کے سب بزرگ بے طرح ناچنے لگے….بڑی ممانی جان سائیکل چلانا بھول کر ایک دم کودنے اور ناچنے لگیں….تایا ابا اور تائی اماں نے اپنی ٹانگیں اچھالنی شروع کردیں….خالہ جانی نے ماموں ابا کی ٹانگ کے نیچے غوطہ مارا اور پھوپھا ابا داڑھی ہلا ہلا کر بکر ے کی طرح پھدکنے لگے….بیگم اماں،اماں جان اور ان کی سہیلی تخت پر چڑھ کر ٹیڑھی ٹیڑھی ہوکرتھرکنے لگیں….چھوٹے چچا عجیب انداز میں اپنی ایک ٹانگ کو ہوا میں پھینک کر جائیو کرنے لگے….!میرا سر چکرانے لگا ،معلوم ہوتا تھا جیسے گھر کی چھت اڑ گئی، زمین پھٹ گئی ہو اور اس میں سے گرم گرم لا وا ابل کر میرے کانوں میں بھرنے لگا ۔زمین اور آسمان آپس میں گڈ مڈ ہو کر اینا مینا ڈیکا ….ڈائی ڈمنیکا کرنے لگے۔
”بند کرو…. بند کرو…. خدا کے لئے بند کرو ….ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی…. یا اللہ…. میرے خدا !“میں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں۔ مگر اس کے باوجود مجھے ایسا محسوس ہوا کہ طوفان کی گھن گرج اور زیادہ بڑھ گئی ہو اور کانوں کے پردے پھٹنے لگے۔
”یا خدا…. یا خدا رحم…. میرے خدا مجھ پر رحم کر…. یا مجھے اٹھا لے…. خودکشی گناہ ہے، مگر میں مجبور ہوں؟“ میں کنویں کی منڈیر کی طرف لپکی۔
کسی نے پروا نہ کی۔ امی جان مزے سے ناچ رہی تھیں۔ ابا جان گھوڑے کی طرح دولتیاں جھاڑ رہے تھے۔پھوپھا ابا پھوپھی اماں کو دھوبی کی لادی کی طرح اٹھائے پھر رہے تھے۔ بڑی ممانی جان لاتیںاچھال اچھال کر ماموں میاں کے گرد چکر لگا رہی تھیں۔ میرے کانوں میں میں اونٹ بلبلا رہے تھے۔گھوڑ ے دولتیاں جھاڑرہے تھے اور ہاتھی چنگاڑ رہے تھے ۔ایک دم میں نے آنکھیں بند کیں اور دھم سے کنویں میں کود پڑی ….”اے ہے بیٹی کیا ہوا….!“
میں زمین پر اپنے پلنگ کے پاس گری پڑی تھی۔
”کیا کوئی برا خواب دیکھ لیا ہے ؟“امی جان نے مجھے پیار سے سہارا دے کر اٹھایا۔
اوہ …. شکر ہے خدا کا…. خواب تھا….“ میں نے امی جان کے سینے سے لگ کر سوچا۔
”اُف…. اگر یہ خواب نہ ہوتا …. حقیقت ہوتی تو ؟“
سامنے ابا جان بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔چھوٹے چچا کیاریوں میں پانی دے رہے تھے ۔ بیگم اماں اپنی پڑوسن کو بڑے تکلّف سے پان بنا کر دے رہی تھیں۔تائی اماں،تایا ابا کو پلیٹ میں انگور لینے پر اصرار کر رہی تھیں۔
”آپ کو میری قسم! بس دودانے چکھ لیجئے۔“اور وہ تکلف سے ٹال رہے تھے۔پھوپھی اماں تخت پر بیٹھی خالہ جانی سے اپنی ہونے والی بہو کے لیے چڑھاوے کا حساب کتاب جوڑ رہی تھیں۔
بچے صحن میں اودھم مچا رہے تھے۔ کیچڑ میں لپادگی کر رہے تھے۔اینامیناڈیکا بجا کر تھرک رہے تھے۔چند سنگھار میز پر دھاوا بولے ہوئے تھے۔ چند نعمت خانے پر ڈاکہ ڈال رہے تھے۔کچھ دیر رو کر منہ بسور کر الٹی سیدھی ضدیں کر رہے تھے اور بزرگ سب کچھ برداشت کر رہے تھے۔ اپنی آنکھوں کے تاروں کی آئندہ زندگی میں ترقی اور بہتری کی دعائیں مانگ رہے تھے۔
”یا خدا! ان بزرگوں میں کتنی قوت برداشت ہے۔یہ ہم لوگوں کا قیمہ کرکے چیلوں اور کوﺅں کو نہیں کھلاتے۔نہ کنوئیں میں کود کر خودکشی کرتے ہیں۔ہنس ہنس کر ہماری خاطر دکھ جھیلتے ہیں۔راتوں کی نیندیں گنواتے ہیں۔ہماری تعلیم کا خرچ بڑے فخر سے برداشت کرتے ہیں اور پھر ہمارے پیدا ہونے کی منتیں مانتے ہیں۔کیوں؟ آخر کیوں؟ یہ ہمیں پیار کرنے پر کیوں مجبور ہیں اور پھر اس مجبوری کو اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہیں۔
”اٹھو بیٹی زمین پر پڑی ہو۔کپڑے خراب ہو رہے ہیں۔“امی جان نے کہا۔
میں نے چاہا کہ حسب عادت مچل جاؤں اورٹھنکنے لگوں، مگر میری ہمت نہ پڑی۔جلدی سے اٹھ کر میں نے کپڑے جھاڑے اور منہ دھونے چلی گئی۔
تیسرے دن امی جان نے فکر مند ہو کر ابا جان سے کہا:
”دیکھیے تو، فریدہ بڑی سست سست نظر آ رہی ہے۔ذرا ڈاکٹر کو تو دکھائیے،خدا نہ کرے کہیں اس کی طبیعت نہ خراب ہو جائے۔“
ہائے میری پیاری امی جان، میں شرارت نہ کروں تو اسی بات پر پریشان ہو جاتی ہیں۔ مجھے کتنا چاہتی ہیں ۔“میں نے خوشی سے بے قرار ہو کر ٹانگیں ہوا میں اچھا لیں اور پلنگ پر کودنے لگی۔ بھیا نے میری چوٹی پکڑ کر گرا دیا۔ میں جھاڑ کانٹا بن کر لپٹ گئی۔سارے بال کھسوٹ لیے۔ پھر ہم دونوں آ گے پیچھے سارے گھر میں دوڑ دوڑ کر طوفان مچانے لگے۔
”اچھی بھلی تو ہے کم بخت !“اماں نے اطمینان کا سانس لیا اور رات کے کھانے کے لئے باورچی خانے میں چلی گئیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top