skip to Main Content
جوتے

جوتے

محمد الیاس نواز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ پڑھنے گئے تھے مگر کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔جوتوں پر لکھی گئی ایک بہت ہی منفرد تحریر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عصرکے بعد کا وقت ہے محبوب کے گھر کے اُوپری برآمدے میں چار نوجوان گپ شپ میں مگن ہیں۔
اجمل:(امانت کی طرف دیکھتے ہوئے)یارامانت! 
میرے جوتے تو نیچے رکھے ہیں دروازے کے پاس ۔
امانت :(اکھڑے لہجے میں)تمہارے جوتے کون سے عظیم جو تے ہیں جنہیں کو ئی لیجائے گا،ہم سب کی جو تیاں بھی نیچے ہی ہیں فکر کی کوئی بات نہیں۔
محبوب :ذرا دیر رُک جاؤ بس پھرنیچے ہی چلتے ہیں 
کیوں کہ آج سرواجد تو ہیں نہیں ۔
اجمل:مگر تمہیں کس نے کہا کہ نہیں ہیں؟ ۔
محبوب :وہ خود مجھے ظہر میں ملے تھے تو انہوں نے بتایا تھاکہ وہ کہیں جائیں گے،اسلئے تمہیں جوتیوں کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔اورویسے بھی امانت والی بات ہے کہ تمہارے جوتے کون سے عظیم جوتے ہیں۔
فرمان: عظیم جوتے!…. وہ کون سے جوتے ہیں جی؟….اورکہاں سے ملتے ہیں ۔انگلش کا جوتا بھی استعمال کیا ہے ،فٹ رائٹ کا بھی لیا تھا جو عید کی نماز میں چوری ہو گیا تھامگریہ برانڈ یعنی ’’عظیم ‘‘میں نے پہلی بار سنا ہے۔یہ عظیم جوتوں والی بات اپنی تو سمجھ میں آئی نہیں۔
اجمل:ہاں!امانت بھائی یہ کونسا جوتا ہوتاہے؟۔
امانت:یہ ذرا ہٹ کر ہوتاہے اورجو اسے پہنتا ہے یہ نہ صرف اسے دنیا میں عزت دے جاتا ہے بلکہ اسے جنت کا راستہ بھی دکھاجاتا ہے ،بس ذرااسے پاؤں سے اتارنا پڑتا ہے ۔
اجمل:(جھلاتے ہوئے)ایک تو تمہارا فلسفہ ختم نہیں ہوتا،بھئی صاف صاف بتاؤ۔
امانت:اس کیلئے تمہیں دو واقعات سناتاہوں۔میں نے کسی کتاب میں پڑھا ہے کہ ایک گناہ گار عورت تھی وہ کہیں جا رہی تھی کہ اس کی نظر ایک کتے پر پڑی جو سخت پیاسا تھا اور اس کی زبان باہر لٹکی ہو ئی تھی اسے کتے پر رحم آیا مگر اسکے پاس کوئی برتن نہیں تھا آخر اس نے اپنے چمڑے کے جو تے کو رسی سے کنویں میں لٹکا کے اس میں پانی بھرا اور کتے کو پلایا اوراسطرح اللہ نے اس گناہ گارعورت کو بخش دیا۔اور’’ وہ جوتے بھی عظیم ہوتے ہیں جنہیں بلندی تک جانے کا شوق ہو‘‘ ۔
فرمان:(حیرانی سے )کیا جوتے بھی بلندی پر جاتے ہیں ؟۔
امانت:(آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے)ہاں! کیوں نہیں بلکہ بعض اوقات تو جوتے ’’جمبو جیٹ‘‘جہاز بن کر خود بھی تاریخ میں زندہ ہو جاتے ہیں اور اپنے مالک کا نام بھی روشن کرتے ہیں۔
محبوب:اچھا وہ کیسے ….؟
امانت:اب میں تمہیں دوسراواقعہ سناتاہوں جس سے تمہیں بات سمجھ میں آجائیگی۔مستقبلِ قریب میں ایک حکمران جو بغداد گیا ہوا تھا ،وہاں جاکر اس نے دربار لگایا۔وہ درباریوں سے مخاطب تھا کہ اچانک ایک درباری کے جوتوں نے اُسے تنگ کرنا شروع کر دیا تھوڑی دیر تودرباری نے برداشت کیا مگر جب جوتوں نے اس کے پاؤوں کو کاٹنا شروع کر دیا تو اس نے نیچے جھک کر جوتوں سے پوچھا بھئی کیا موت پڑ گئی ہے..ہیں ؟…آرام سے نہیں پڑا جاتا…کیا بات ہے ….کیا تکلیف ہے تم لوگوں کو..؟اب جواس نے جوتوں کا جواب سنا تو کانپ کے رہ گیا ،پتا ہے جوتوں نے کیا کہا……؟
جمال: کیا کہا؟
امانت :انہوں نے کہا کہ ہم اس معزز بادشاہ کا چہرہ چومنا چاہتے ہیں۔درباری کو بادشاہ پر پہلے ہی غصہ آرہا تھااب جوتوں پر بھی سخت غصہ آگیا اس نے کہا اللہ کرے تمہارا بیڑہ غرق ہو جائے اور ساتھ بادشاہ سلامت کابھی ،چھوڑوں گا نہیں اور ساتھ ہی دونوں جوتے اتار کے بادشاہ کے’’ تھوبڑے ‘‘کا نشانہ باندھ کران کو آزمائشی پرواز کیلئے اڑا دیا،جوتے آگے پیچھے ڈرون(بغیر پائلٹ کے )جہاز بن کربالکل ٹھیک ہدف کو نشانہ بنانے کیلئے اڑتے ہوئے آگے بڑھے مگر لگتا تھا کہ بادشاہ بھی جوتوں کا عادی تھا کہ اس کے ذہن میں بھی جیسے ریڈار سسٹم نصب تھا اس نے فوراً اپنا’’ تھوبڑا‘‘ ہٹا لیا اسطرح جوتے اس کا چہرہ چومنے سے تو محروم رہ گئے مگر اس کی پیٹھ کے پیچھے لگے اسکے ملک کے جھنڈے کے سامنے جا پہنچے ،پہلے اسکو سلام کیا اور اسے چوما اور او رزمین پر اترگئے ۔اورپتا ہے یہ دس نمبر کے جوتے تھے اگر چہرے کو چوم لیتے تو اس کا ’’جغرافیہ ‘‘ہی بدل دیتے ۔اور اسی پر تو بزرگ شاعر جنابِ عنایت علی خاں صاحب نے قطعہ لکھا ہے کہ 
ذلت عجیب برسرِ محفل ملی اسے 
تھے جس کو سر فرازی کے دعوے بڑے 
دیکھو ’’اسے‘‘ جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
دس نمبری کو جوتے بھی دس نمبری پڑے 
اجمل:ارے آپ اصل قطعہ تو نظرانداز کر گئے ہیں حضور! انہوں نے توایک قطعے میں پوری تاریخ ہی بیان کردی 
اس امر پہ ہم کو تو تعجب نہیں مطلق
کھائے ہیں جوبغداد میں مردود نے جو تے
تاریخ کے صفحات یہ دیتے ہیں گواہی 
کھائے ہیں ہر اک دور کے نمرود نے جوتے
محبوب :اچھا یہ بتا ئیے کہ جوتوں سے جنگ لڑی جا سکتی ہے؟
اجمل:( جنگ بذریعہ جوتا پہ روشنی ڈالتے ہوئے )ہاں ،ہاں…بالکل عزت اور ذلت (بے عزتی) کی جنگ تو جوتیوں سے لڑی جاسکتی ہے۔بلکہ جوتے سے اچھی کسی چیز سے نہیں لڑی جاسکتی ۔اب دیکھو نا ں!اپنے محلے میں جو آپا جمیلہ ہیں انکی جب بھی اپنے سامنے والوں سے لڑائی ہوتی ہے ،وہ اپنے دروازے پران کی بے عزتی کے لئے جوتا لٹکا دیتی ہیں جس کا تلوا سامنے والوں کی طرف ہوتا ہے۔اوردیکھو ناں پچھلے سال جب محلے والوں نے مسجد سے جوتی چور کو پکڑا تھا تو اسے جوتوں کے ہار پہناکر محلے کی سیر کرائی تھی۔بالکل اسی طرح جب کسی کا احترام کیا جاتا ہے تو اس کے سامنے جوتیاں اتار کر جایا جاتا ہے ،جیسے مسجد کے احترام میں جوتے اتار دئیے جاتے ہیں ۔اسی طرح جوتوں سے پٹنا بھی بڑی بے عزتی سمجھا جاتا ہے ،مگر تمہیں کیا معلوم۔بھائیو!یہ تو بہت ہی شرارتی تھا ،اسکول سے سڑی گرمی میں ننگے پاؤں آتاتھا۔ کیونکہ جوتوں میں چرائی ہوئی کیریاں جو چھپائی ہوتی تھیں۔
امانت:(پہلو بدلتے ہوئے)اور میں تو کہتا ہوں کہ ایسی توپ ایجاد ہونی چاہئے جو جوتے فائر کیا کرے اور یہ خاص کر حکمران طبقہ کیلئے ہونی چاہئے ۔
فرمان:مگر اس سے وہ مر تو نہیں جائیں گے ۔
امانت:ہاں، اصل میں مارنا مقصد بھی نہیں ہے ۔بس وہ جوتا جب مارے تو کھانے والے کی ناک پچکا کے اس کے چہرے کوسپاٹ کرکے صاف میدان بنادے ۔
فرمان:مگرناک پر کیوں..؟حالا نکہ جوتا تو گدی پر بڑے زور کا پڑتا ہے ۔
امانت:اپنا تجربہ بیان کرنے کا شکریہ ،بے وقوف انسان !ناک، شرم وحیااور عزت کی نشانی ہے کہتے ہیں ناں کہ ہماری ناک کٹ گئی ہے یعنی ہماری بے عزتی ہوگئی ہے ۔یا کہتے ہیں ناں کہ فلانے کی کونسی ناک ہے یعنی اسے کون سی شرم آتی ہے۔پھر وہی بات آگئی ہے عزت اور بے عزتی کی جنگ والی۔یہ میں ان حکمرانوں کے لئے کہہ رہا ہوں جنہیں شرم تو آتی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی عزت بھی نہیں کرنی چاہئے ۔لہٰذاان کو اس توپ کی سلامی دیکر ان کی ناک (شرم اور عزت کی نشانی )ہی برابر کردینی چاہئے۔
محبوب:ہاں یاد آیا …ارے آپ نے وہ مثال تو سنی ہو گی کہ ’’جوتیوں میں دال بٹ گئی ‘‘توکیا پہلے زمانے میں ایسا ہو تا تھا؟۔
اجمل :(براسامنہ بناتے ہوئے)ارے ہو تا تھا تو مثا ل قائم ہو ئی ہے ناں۔
محبوب:تو فرض کرو کہ موجودہ زمانے میں ایسا ہو تو؟۔
فرمان: ہاں! ذرا تصور کرو کہ ایک شخص گلی میں جوتوں میں دال بانٹ رہا ہواور لینے والے گھروں سے جوتے لے کر نکل رہے ہوں اور دال ڈلوا کر خوشی خوشی واپس گھروں میں داخل ہو رہے ہوں۔اور یہ بھی کہ جس راہ چلتے کا گھر دور ہو اس نے وہیں جو تا اتارا اور کہا کہ بھیّا !ذرا اس میں بھی ڈال دینا ۔
اجمل:ہاں،اور کو ئی شخص دوکان پر جا کے کہے کہ یہ جو تا کتنے کا ہے، ذرا جلدی سے دینا دال ڈلوانی ہے ۔اور دوکا ن دار کہے کہ بھائی اتنے کی تو دال نہیں ہے جتنے پیسوں کا تم جو تا لے رہے ہو اور وہ کہے کہ بھیّا !کو نسا ایک مرتبہ دال لیکر پھر ہم اسے پھینک دیں گے ،پھر کام توآتا رہے گا ناں ..اور جس کے پا ؤں میں کھسہ ہو اس نے افسوس ہی کر نا کہ کھسے میں دال نہیں ٹھہر سکتی۔
فرمان:( ہنستے ہوئے )اور پھر اس جوتے کو بھی برتنوں کے ساتھ شو کیس یا الماری میں رکھنا۔
محبوب:(طنزکا جوتا مارتے ہوئے)ہیں! …الماری میں کیوں ؟….تمہارے جیسے گھروں میں جہاں اکثر ’’بہترین‘‘ دال پکتی ہو وہاں انسان ان جوتوں کو شو کیس میں سجا کر نہیں رکھ سکتا کیونکہ روزانہ کا استعمال جوہوا،بلکہ اسطرح ہو گا کہ میز پر ٹرے رکھا ہو، اس میں پلیٹ رکھی ہو،پلیٹ میں ٹشو پیپربچھا ہو، اس کے اوپر جو تا رکھا،ہو، اور جو تے میں گرما گرم دال کے ساتھ نکالنے کیلئے اس میں چمچہ بھی لگا ہو۔
اجمل: اور ساتھ بچگا نہ جوتے میں نمک ،مصالحہ رکھا ہو اور ایک زنانہ جو تی میں سلاد ہو اور پیاز کی جھالریں لٹک رہی ہوں۔
فرمان:بس ..بس ،اب اتنا بھی نہ بڑھاؤ جوتوں بیچاروں کو، دال تک ہی رہنے دو ،کل کو تمہارا دل جوتوں میں پینے کو چا ہے گا توتم پا نی کے جگ کے ساتھ بھی جوتا ہی …….اور ویسے بھی دال پتلی ہوتواجمل رکابی(ڈونگے)سمیت پی جاتا ہے۔
امانت : (چیخ کر)او…او..میرے ذہین بیوقوفو! اللہ کے واسطے اب جوتوں کی جان چھوڑ دو ۔
اجمل:لیکن جوتوں کو عظیم کہہ کے آپ ہی نے یہ موضوع چھیڑا تھا۔
فرمان:(برامناتے ہوئے)امانت بھائی !میں ویں… نہیں ہو ں ذہین بیوقوف۔
ٓامانت:ہاں ہاں… نہیںآپ تو کند ذہن بیوقوف ہیں ۔معاف کیجئے گا آپ کو ذہینوں میں شمار کیا۔ برا تو نہیں لگا؟تم لوگوں نے اپنی ذہانت سے اتنی کہانی تو گھڑ لی مگر رہے بیوقوف کے بیوقوف ہی ۔تھوڑا سا مطالعہ کر لیتے تو تمہیں بھی پتا ہو تا کہ ’’جوتیوں میں دال بٹ گئی ‘‘مثال کہاں استعمال ہو تی ہے۔ یہ مثال وہاں استعمال کیجاتی ہے جہاں نا اتفاقی پیدا ہو جا ئے ۔مثال کے طور پردو بھا ئیوں کی دال بٹ گئی یا دو کاروباریوں میں جوتوں میں دال بٹ گئی ،اور یہ بھی سن لو کہ ان مثالوں کے لئے یہ ضروری نہیں کہ پچھلے زمانے میں ایسا ہو تا بھی تھا،سمجھے تم لوگ؟ ۔
فرمان:ارے امانت بھا ئی جو تے کھانے میں ایک اہم بات اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اس میں یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ کا موڈ ہوتو آپ جوتے کھائیں بلکہ بعض اوقات غیر ارادی طور پر بھی آپ کو کھانے پڑتے ہیں اور اکثر تو اس میں آپ کا جوتا بھی استعمال نہیں ہوتا اور ہا ں جوتا جتنا اچھا ہوگا اتنا ہی مضبوط ہوگا اور جتنا مضبوط ہوگا اتنا ہی ذائقہ دار اور مزیدار ہو گا ۔ 
فرمان:مگر ان سے انسان کو توانائی حاصل نہیں ہوتی۔
محبوب :بے شک جوتوں سے انسان کو توانائی حاصل نہیں ہوتی مگر تمہارے معاملے میں ایسا ہرگزنہیں ہے۔
فرمان:(چونکتے ہوئے)وہ کیسے؟
محبوب:وہ ایسے کہ تم نے ہمیشہ اس وقت اپنے اسکول کاکام مکمل کیا ہے اور یاد کیا ہے جب تمہیں اضافی توانائی ملی ہے اور اضافی توانائی تمہیں ہمیشہ ماسٹرغلام علی کے جوتوں نے فرا ہم کی ہے۔کیوں کیا خیال ہے؟۔
امانت:تم لوگ تو ہمیشہ لڑتے ہی رہنا… ۔اور اتنی ساری فضول باتیں بنانے کے بعد میرا پتا ہے کیا دل چاہ رہا ہے ،میرے چاند؟
اجمل: کیا؟۔
امانت:یہ کہ ایک بہترین چمڑے کا جوتا ہو ،اسے ریت سے بھر کے سی لیا جائے اور ساری رات پانی میں بھگو دیا جائے ۔پھر صبح نہار منہ آپ سب لوگوں کی اس سے تواضح کی جائے ۔جب صبح صبح سرپر پڑیں تو جو دماغ تھوڑا سا اپنی جگہ سے ہل گیا ہے وہ اپنی جگہ پر آجائے ۔
محبوب :ہاں یار جوتوں سے یاد آیا کہ میرے ماموں جو کہ گاؤں میں رہتے ہیں وہ پچھلی گرمیوں میں جب بھی اُٹھتے تھے ان کے جوتوں میں سانپ سویا ہوتا تھا۔
اجمل:ہاں ہاں !تو جوتی چوری کی ہوگی تو سانپ ہی بیٹھا ہو گا ۔
محبوب :یہ کیا کہہ رہے ہو اب ایسا بھی نہیں ہے ۔
اجمل:تو کیا وہ آپ کے ماموں سے بیعت (مرید)ہو نے آیا ہوا تھا۔
محبوب :(غصے سے)نہیں۔
اجمل:تو پھر ماموں سے زہر بھروانے آیا ہو گا۔ میں جب گاؤں گیا تھا تو میری بھی جو تی چوری ہو گئی تھی۔ماموں سے کہو کہ جس کی جوتی ہے اسے واپس کردو۔
محبوب :(چلاتے ہوئے)کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ؟۔
اجمل :(مسکراتے ہوئے )مطلب صاف ظاہر ہے۔
چاروں دوست گپ شپ لگاتے ہو ئے برآمدے سے گھر کے صحن میں اتر آئے اور جب جوتوں کی جگہ پہنچے تو جو تے غائب تھے ۔چاروں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ۔
امانت:یار ہم یہاں کرنے کیا آئے تھے؟
اجمل:پڑھنے آئے تھے ۔
امانت :باتیں کس چیزکی کیں ہم نے؟
فرمان:جوتوں کی۔
امانت:تو ایسا ہی ہوگا۔
ہو سکتا ہے کہ وہ کہیں آگے پیچھے ڈھونڈتے کہ اجمل کی نظر سامنے جاتی ہو ئی موٹر سائیکل پر پڑ گئی ۔
چلانے والے کے پاؤں میں امانت کی جو تی تھی اور پیچھے والا فرقان کی جوتی پاؤں میں ڈالے بیٹھا تھا جبکہ اس کے ہاتھ میں کپڑے کا تھیلا با قی دو جوتیوں کا پتا دے رہا تھا ۔

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top