skip to Main Content

جس کاکام۔۔۔

احمد عدنان طارق

………..………..

کسان نے بیوی کا کام خود کرنے کی ٹھانی اور پھر وہی ہوا جو آپ سوچ رہے ہیں

………..………..

ایک دفعہ کاذکر ہے دور کہیں ایک کسان رہا کرتا تھا۔ وہ ہروقت سوچتارہتا تھا کہ سارا دن کھیتی باڑی کرتے رہنا دنیا کاسب سے مشکل کام ہے اورپھر سار اد ن کھیتوں میں کام کرکے جب وہ شام کو گھر واپس آتا ، تواپنی نیک سیرت بیوی سے پوچھتا کہ آج اُس نے سارادن کیا کیا؟ 

اس کی بیوی جواب دیتی کہ اس نے گھر کا کام کیا ہے۔ کسان ہمیشہ بڑبڑاتا رہتا کہ تمھارا کام بہت آسان ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں بھی دن بھر میں صرف مکھن نکالتا۔ کھانابناتااور بچوں کو سنبھالتا۔ 

ایک شام جب اُس کی بیوی اس کے طعنے سن سن کر اُکتا چکی تو بولی: ’’میاں کل میں کھیتوں میں کام کروں گی اور تم گھر کا کام نمٹانا۔‘‘

کسان خوش ہوکربولا:’’ یہ تو بہت اچھارہے گا۔ گھر کاسارا کام تومیں بائیں ہاتھ سے نمٹا لوں گا۔‘‘

اگلے دن صبح سویرے منھ اندھیرے کسان کی بیوی بیدار ہوکر کھیتوں میں کام کرنے چلی گئی اور کسان نے گھر کاکام کرناشروع کردیا۔ پہلے اُس نے دودھ سے کریم نکال کر اُسے مکھن بنانے کے لیے ایک برتن میں جمع کرلیا۔ اچانک اسے اس دوران یاد آیا کہ اس نے بچے کوتودیکھا ہی نہیں حالانکہ اُس کی بیوی کو کھیتوں میں گئے خاصا وقت ہوگیا ہے۔ اُس نے سوچاکہ خدا نہ کرے بچے کوکوئی مسئلہ درپیش آگیا ہو لیکن بچہ مزے سے باغیچے میں کھیل رہاتھا۔ کسان نے اسے اپنے بازوؤں میں اُٹھایا اور گھرلے کر آگیا۔ 

اس نے دیکھا کہ کریم والے برتن کے پاس ایک بڑی بڑی مونچھوں والا سیاہ بلاکھڑاہے ۔وہ مزے سے کریم پی رہا تھا۔ کریم اس کی مونچھوں پرلگی ہوئی تھی ۔اس نے کسان کودیکھا تووہ بھاگ کھڑا ہوا۔ کسان نے آگے بڑھ کر فوراً برتن اٹھالیا اور خود کوکوسنے لگا کہ یہ کیا مصیبت ہے۔ اس نے غصے سے فرش پر پاؤں پٹخے اور پھر بھاگتے ہوئے بلے کودھمکیاں دینے لگا۔ اس نے بلے کاگھر کے باہر تک تعاقب بھی کیا۔ پھراس نے برتن میں مزید کریم ڈالی تو اُسے یاد آیا کہ ابھی تک اس نے گاے کو پانی نہیں پلایا۔ وہ پھرخود کو جھنجھلا کرکوسنے لگا۔ پھرکسان نے بچے کو اُس کے بستر پرلٹایا اور کنویں سے پانی نکالنے چل پڑا۔ لیکن کچھ دور جانے کے بعد وہ واپس آگیا تاکہ کریم والابرتن ساتھ لے لے۔ اب وہ برتن کوچھوڑنے کاخطرہ مول نہیں لے سکتا تھا کیونکہ مونچھوں والا بلا پھرواپس آسکتاتھا۔ 

ایک ہاتھ میں کریم والا برتن تھامے وہ کنویں کی طرف جانے والے رستے پر ہولیا۔ کنویں کے پاس پہنچ کر وہ جھکا اور جھک کر کنویں میں لٹکی ہوئی رسی کوپکڑنے لگا تو کریم کنویں میں گرنے لگی۔ یہ دیکھ کر پریشان کسان نے کریم والابرتن زمین پررکھا اور پھر دوبارہ رسی کو تھاما اور گاے کے لیے کنویں سے پانی نکالنے لگا۔ جب اُس نے گاے کے لیے کافی پانی نکال لیا تووہ گاے کوچرنے کے لیے سبزے والے میدان کی طرف کھینچ کر لانے لگا۔ تب ایک بار پھراُسے یاد آیا کہ اس کا بچہ توگھرمیں اکیلاسورہاہے وہ خود کوبُرا بھلاکہنے لگا اور بولا بچے کواکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا لیکن اب میں اس گاے کا کیا کروں؟ 

اُس کی نظر اس کے گھر کی چھت پر اُگی ہوئی لمبی لمبی گھاس پر پڑی۔ اس کے دل میں اچانک ایک خواہش مچلی کہ کاش گاے کے پَرہوتے اور وہ اُڑ سکتی۔ وہ اُڑ کر چھت پر پہنچ جاتی اور مزے سے وہاں اُگی ہوئی گھاس کوچرتی۔ وہ مختلف طریقے سوچنے لگا کہ گاے کو کس طرح چھت پر چڑھایا جاسکتاہے۔ آخر وہ خود سے کہنے لگا:’’ میں چھت تک گاے کولے جانے کے لیے ایک پُل بنادیتا ہوں۔‘‘ پھروہ گاے کوکھینچ کر گھر کے پیچھے بنی ہوئی پہاڑی پرلے گیا۔ 

اس نے ایک بہت بڑا اور مضبوط لکڑی کاتختہ لیا اوراسے گھر کی چھت اور پہاڑی کی چوٹی کے درمیان پل کی طرف رکھ دیا۔ اس پُل پرگاے کوچلا کر وہ اُسے گھر کی چھت پر لے گیا۔ کسان گھر آیا اور باورچی خانے میں گیا۔اُس نے برتن میں مزید کریم ڈالی۔ اسے ایک اور کام یاد آیاکہ اُس نے تودوپہر کے لیے کھانابھی بنانا ہے۔ اُس نے کھانا پکانے والے بڑے برتن میں پانی ڈالا ااور اُسے آگ کے اوپر اُبلنے کے لیے رکھ دیا۔ اسی کام کے دوران غریب کسان کو گاے جو گھر کی چھت پر چر رہی تھی کااندیشہ ستانے لگا۔ اُس نے سوچا کہ کہیں گاے چھت سے گر کر چوٹ نہ لگوا لے، وہ تیزی سے باہر بھاگا اورایک لمبی رسی ہاتھ میں تھام لی۔ وہ لکڑی کے تخت سے ہوتاہواگھر کی چھت پر پہنچا۔ اس نے ایک رسی کاایک سرا پھندہ بناکر گاے کے سینگوں میں پھنسادیا اوردوسرا سرا اس نے چھت پر بنی ہوئی چمنی سے نیچے لٹکا دیا۔ 

کسان گھر واپس آگیا۔ وہ چمنی کے رستے لٹکی ہوئی رسی کی طرف دوڑا اور اسے پکڑ لیا۔ رسی کومکمل نیچے کھینچ کر اس نے اسے اپنے جوتوں کے تسموں سے باندھ لیا۔ اس نے زور سے پاؤں زمین پر مارا اور کہنے لگا۔ ’’اب گاے چھت سے نیچے نہیں گرسکتی۔ ‘‘ اور وہ چوٹ سے بھی محفوظ رہے گی اور میں آرام سے دوپہر کے لیے کھانا بھی بناسکوں گا لیکن اس لمحے چھت پر گاے کا پاؤں پھسلا اور وہ چھت سے نیچے پھسلنے لگی۔ جیسے ہی وہ گری تورسی نے کسان کو چمنی کی طرف زمین سے بلند کرناشروع کردیا۔ اب صورتحال کچھ یوں تھی کہ گاے اپنے سینگوں میں بندھی ہوئی رسی کی وجہ سے گھر کی چھت سے لٹک رہی تھی اور کسان صاحب بے چارے گھر کے اندر چمنی سے لٹکنے والی رسی سے اُلٹے لٹک رہے تھے اور وہ کھولتے ہوئے پانی والے بڑے برتن کے عین اوپر لٹک رہے تھے ۔وہ خود کواب آزاد نہیں کروا سکتاتھا۔ وہ چمنی پربھی نہیں چڑھ سکتاتھا اور نہ ہی نیچے اُتر سکتاتھا۔ 

اب وہ صرف غصے سے چیخ پکار کرسکتا تھا۔ ادھر کسان کی بیوی نے گھر کے باہر گاے کولٹکاہوا دیکھاتواس نے جلدی سے اس کے سینگوں سے بندھی رسی کاٹی اور بیچاری گاے کو خلاصی دلائی اُسی لمحے جب کسان کی بیوی نے گاے کوآزادی دلوائی تبھی اس کے کانوں سے ایسی آواز ٹکرائی جیسے کوئی شے پانی میں گری ہو۔ 

وہ بھاگ کرگھر میں گئی ۔اور اس نے دیکھا کہ اس کے شوہر نامدار کی ٹانگیں ہوا میں چمنی کی طرف بلند ہیں اور اس کاسر کھانابنانے والے برتن میں پھنسا ہوا ہے اوربرتن کاساراپانی فرش پر بہہ چکا ہے۔ بیوی نے کسان کو برتن سے نکلنے میں مدد کی ۔پھراس نے گھر کی صفائی کی۔ مکھن بنایا۔ 

کسان اس دوران کرسی پر بیٹھ کرسوچ بچار کرتارہا ۔ اس دن کے بعد اس نے کبھی اپنی بیوی کوطعنہ نہیں دیا اور نہ ہی کبھی تمنا کی کہ وہ کھیتوں میں جانے کے بجاے گھر کاکام کرے گا۔ بڑے سچ ہی کہہ گئے ہیں کہ جس کا کام اسی کوساجھے کوئی اور کرے توٹھینگا باجے ۔

*۔۔۔*

کسان نے بیوی کا کام خود کرنے کی ٹھانی اور پھر وہی ہوا جو آپ سوچ رہے ہیں احمد عدنان طارق

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top