skip to Main Content
جب ایک معرکہ برپا ہوا

جب ایک معرکہ برپا ہوا

فریال یاور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      اسلام کی پہلی جنگ ’’غزوۂ بدر‘‘کا ایمان افروز تذکرہ۔      

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سولہ تاریخ کاپورا چاند آسمان پر روشن ہے۔ جس کی چاندنی صحرا اورمیدانوں کو بھی روشن کیے ہوئے ہے۔ اس کی روشنی میں یہ میدان بھی بالکل صاف نظرآرہاہے۔ جہاں اللہ کے نیک بندوں کا ایک چھوٹا سا مجمع اس وقت موجودہے۔ انہیں رات کی خاموشی اپنی طرف متوجہ کرتی ہے نہ چاندنی رات کا حسن۔ اس وقت یہ نیک بندے عشاء کی نماز کے بعد نوافل اورذکرالٰہی میں مشغول ہیں۔ کوئی بہت خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کررہاہے تو کوئی ہچکیوں کے ساتھ دعاکررہاہے ۔ کوئی سجدے میں سررکھے گڑگڑارہاہے۔ غرض سب ایک اللہ کے آگے اپنی التجا اپنے اپنے انداز سے کررہے ہیں۔
یہاں سے کچھ ہی دورکفار اپنے خیموں میں موجود ہیں۔ ان کے خیموں کی اورہی صورت حال ہے۔ بْھنے گوشت کی دعوت اڑائی جارہی ہے۔ شراب کے پیالے چھلکاے جارہے ہیں۔ قہقہے پہ قہقہے پڑرہے ہیں۔ خاندانی بہادری کے قصے سنائے جارہے ہیں اورغرور وتکبر کے ساتھ بڑے بڑے دعوے کیے جارہے ہیں۔ ساتھ ہی بدتمیز نوجوان کا شوروغل۔ جب پیٹ بھنے گوشت سے بھر گئے۔ شراب نے ہوش وحواس گم کردئیے اورسب شوروغل مچاکر تھک گئے تو خراٹے لینے لگے۔ آدھی سے زیادہ رات بیت چکی ہے۔ مسلمانوں نے بھی جب نمازیں پڑھ لیں اوردعائیں مانگ چکے تو دل میں اللہ کی مدد کی امید رکھ کرسوگئے۔ اب ہرطرف خاموشی ہے اور اس خاموشی کوکوئی حشرات الارض بھی نہیں توڑتا۔
*۔۔۔*
خیمے کے دروازے پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہرے پر موجود ہیں۔ خیمے کے اندر سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ سے التجا کرنے کی آواز اس گہری خاموشی میں صاف سنائی دے رہی تھی: ’’اے اللہ! یہ قریش کے لوگ اپنے غرور وتکبر کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کوجھوٹا ثابت کریں۔ خدا وند جس مدد کا تونے مجھ سے وعدہ کیاتھا۔ اب وہ آجائے۔ اے اللہ! اگر تیری یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر کہیں تیری عبادت نہ ہوگی۔ اے اللہ! کل ان لوگوں کاکام تمام کردے۔ اے اللہ! اس امت کافرعون ابوجہل بچ کرنہ جائے۔‘‘ یہ روحانی تذکرہ غزوہ بدر کاہے جسے قرآن میں ’’یوم فرقان‘‘( یعنی حق وباطل کے درمیان فرق کادن) فرمایا ہے۔ 
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعاکو بہت خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ دعا اس والہانہ طریقے سے مانگی گئی کہ کندھے سے چادر گرپڑتی تھی اورریش مبارک آنسوؤں سے لبریز ہوگئی پھراچانک پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی خوشی کے عالم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کومخاطب کرتے ہیں: ’’اے ابوبکر! خوش خبری سن لوکہ جبرائیل علیہ السلام ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ آئے ہیں۔ اللہ کاوعدہ پوراہوگیا اوردعائیں قبول ہوگئیں۔‘‘ 
بدر مکہ معظمہ سے سو، دوسو یا اسّی میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے مگریہاں حق وباطل کی اس جنگ نے اسے ہمیشہ کے لیے محترم بنادیا۔ غزوہ بدر میں کفارکی فوج کی تعداد ایک ہزار یا اس سے کچھ زیادہ تھی۔ ادھر مسلمانوں کی تعداد مہاجرین وانصار کو ملاکر کل تعداد تین سو تیرہ تھی۔ صرف تین گھڑ سوار تھے۔ جب کہ باقی لوگ ستر اونٹوں پرباری باری سوارہوتے تھے۔ ساٹھ آدمیوں کے پاس زرہیں تھیں اور اسلحہ بھی تھوڑا سا تھا۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ باری باری ایک اونٹ پرسوار ہوتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیاں بھی اتروادی تھیں تاکہ سفر خاموشی سے طے ہو۔ یہ ماہ رمضان کی مبارک گھڑیاں تھیں اوراس سال روزے فرض ہوئے تھے۔ اس لیے بعض صحابہ کرام روزے سے تھے،پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھاتھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کروایا کہ روزہ داربھی روزہ کھول لیں کیونکہ دشمن سے مقابلے کے لیے قوت کی ضرورت ہے۔
جب میدان بدر پہنچے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونچی جگہ خیمہ لگانے کاارادہ کیالیکن ایک صحابی حضرت خباب بن المنذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی راے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے اس جگہ لگائے۔ جہاں بدرکے کنویں تھے تاکہ پانی پر کفار قبضہ نہ کرسکیں۔ اس کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان بدر کا ایک چکر لگایا اورایک نیزے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان کے مختلف حصوں میں دائرے بنائے۔ فرمایا: ’’یہاں ’’ابو جہل‘‘ قتل ہوگا، یہاں ’’عتبہ‘‘ قتل ہوگا۔ یہاں ’’شیبہ‘‘ یہاں فلاں فلاں۔‘‘ جنگ کے دن ان دائروں سے کوئی بھی ایک انچ اِدھر اْدھر قتل نہیں ہوا۔
دوسرے دن جنگ سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی صف بندی کی اورلوگوں کوجنگ سے متعلق حکمت عملی سمجھائی۔ جب صفیں درست ہورہی تھیں تو ایک واقعہ پیش آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت سواربن غزیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صف سے باہرنکلے ہوئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لکڑی سے حضرت سوار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیٹ کو ہلکے سے ٹہوکا دیا۔ اورصف کے اندر ہونے کو کہا۔ حضرت سوار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آ پ کو انصاف دیکر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تکلیف پہنچائی۔ آپ مجھے اس کا بدلہ (قصاص) دیں۔‘‘ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لکڑی حضرت سوار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دی کہ وہ بدلہ لے لیں اورپیٹ پرسے کرتا اٹھادیا۔ حضرت سوار رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے اورمحبت سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شکم مبارک کوچوما اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے اورکہا: ’’میں نے چاہا کہ جانے سے پہلے آپ کوچومنا اورآپ کے جسم مبارک کو چھونا نصیب ہوجائے اس لیے میں نے اپنی خواہش پوری کرلی۔‘‘
اس کے بعد جنگ اس طرح شروع ہوئی کہ پہلے تین بہادر کفار کی طرف سے باہرنکلے۔ ’’عقبہ بن ربیعہ‘‘ اس کا بھائی ’’شیبہ بن ربیعہ‘‘ اورعتبہ کا بیٹا ’’ولید بن عتبہ‘‘ اورانہوں نے مقابلے کا اعلان کیا۔ مسلمانوں میں سے تین بہادر معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت عفرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے) اورحضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقابلے پر آئے۔ عتبہ نے تینوں سے ان کا نام اورخاندان پوچھا۔ انہوں نے بتایاکہ وہ انصار مدینہ میں سے ہیں۔ اس پر عتبہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام دیاکہ اپنے خاندان والوں کو ہم سے مقابلے کے لیے بھیجو۔ 
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان میں حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب کو مقابلے کے لیے، نام لیکر بھیجا۔ انہوں نے جاکر عتبہ کو اپنا نام ونسب بتایا تو ان کی تسلی ہوئی ۔ پھرمسلمانوں اورکفارکے ان تینوں بہادروں کا باہم مقابلہ ہوا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پلک جھپکتے میں اپنے دشمنوں کو ختم کردیا لیکن عتبہ اورحضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیرتک ایک دوسرے پر حملہ کرتے رہے۔ اس دوران دونوں بری طرح زخمی ہوئے اورحضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عتبہ کو قتل کیا اورحضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زخمی حالت میں خیمے میں لے کر آئے۔ جب کفارکے یہ تینوں سورما مارے گئے تو انہیں خوب غصہ آیا کیوں کہ یہ ان کے سب سے زیادہ بہادر لوگ تھے۔ انہوں نے غصے میں آکرمسلمانوں پرحملہ کردیا اوراس طرح عام جنگ شروع ہوئی۔ جس میں مسلمانوں نے بہت بہادری سے مقابلہ کیا اورفتح حاصل کی اورپھرکئی ایسے عوامل بھی تھے جو مسلمانوں کی فتح میں اہم ثابت ہوئے۔
۱۔ ایک ہزار کالشکر اللہ نے مسلمانوں کو تھوڑا دکھایا اورکفارکو تین سو تیرہ کا مجمع بڑا کرکے دکھایا۔ یوں تھوڑے سے لشکر کودیکھ کر مسلمانوں کا حوصلہ بلند رہا اوروہ بے خوف لڑے جبکہ کفارکا معاملہ اس کے برعکس ہوا۔
۲۔ اللہ نے مسلمانوں کی مدد فرشتوں کے ذریعے کی۔ جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ سے پہلے ایک ہزار فرشتوں کو حضرت جبرائیل کے ہمراہ آسمان سے اترتے دیکھا تھا۔ جنگ کافیصلہ ہوچکا ۔کم سامان جنگ ہونے کے باوجود مسلمانوں کو فتح ہوئی اورغرور کے مارے کفارکوبری طرح شکست ہوئی ۔ان کے اشراف کی جڑیں کٹ چکی تھیں۔ کچھ قتل ہوئے۔ کچھ قید ہوئے اوربعض نے بھاگ کرجان بچائی۔
جس طرح تاریخ میں غزوہ بدر کی اہمیت وعظمت ہے ۔ اسی طرح صحابہ کرام میں بدری صحابہ کو بھی فضلیت حاصل ہے اورساتھ ہی ان فرشتوں کو بھی جنہوں نے غزوہ بدر کے موقع پر جبرائیل کے ہمراہ جنگ میں حصہ لیا۔ عام فرشتوں پرفضلیت حاصل ہے۔ حضرت رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خدیج فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورسوال فرمایا: ’’جو لوگ آپ میں سے جنگ بدر میں شریک ہوئے آپ کے نزدیک کس مرتبہ پرفائزہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ ہم میں بہترین درجہ کے حضرات ہیں۔‘‘ تو حضرت جبرائیل نے فرمایا: ’’اسی طرح ہمارے ہاں بھی وہ فرشتے بہترین درجہ پرفائز ہیں۔‘‘ (جوجنگ بدر میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کی مددکرنے کے لیے نازل ہوئے تھے) (سنن ابن ماجہ،صحیح بخاری)۔ 
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں (جنگ بدر میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے ہاتھ کی جانب حضرت جبرائیل ایک ہزار فرشتے لیکرنازل ہوئے اورحضرت مکائیل بھی ایک ہزار فرشتے لیکر نازل ہوئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں، حضر ت اسرافیل ایک ہزار فرشتے لیکرنازل ہوئے۔‘‘ اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ بدرمیں فرشتوں کی علامت سفید پگڑیاں تھیں۔ جن کا کنارہ انہوں نے اپنی پشتوں پرچھوڑ ہواتھا اوران کے گھوڑے سیاہ اورسفید نشان کے تھے اوران کی پیشانیوں اوردموں پر اون تھی (ابن جریر) یہاں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ سب سے پہلے اون جنگ بدر میں پہنی گئی کیونکہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اون پہناکروکیونکہ(جنگ بدر) میں فرشتوں نے اون پہنی ہے اوراسی طرح فرشتوں کی ضرب کانشان بھی علاحدہ پہچان رکھتا تھا۔ فرشتے جب کسی کافرکو ضرب لگاتے وہ جلے ہوئے کانشان چھوڑتا(ابن جریر)۔ مسلمانوں نے اسی طرح ضرب کے ذریعے پہچانا کہ کس کافر کو فرشتے نے ہلاک کیا ہے۔
واقعہ بدر کی عظمت اوراس کا تذکرہ قرآن پاک کی سورۃ انفال میں بھی آیا ہے اورحق وباطل کی یہ لڑائی اس لحاظ سے بھی عظیم ہے کہ اس میں مسلمان صرف اپنی قوت ایمانی پرلڑے۔ جس نے ایک ہزار کے لشکر کو شکست دی اورمجاہدین کی قلیل تعداد اورکم سامان جنگ کے باوجود فتح عظیم حاصل ہوئی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top