skip to Main Content

جادو کی آئس کریم

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹھنڈی یخ آئس کریم آہستہ آہستہ اس کی گردن سے نیچے کی طرف سفر کررہی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ سیمی اور بنٹی دونوں اکٹھے بیٹھے آئس کریم کھارہے تھے۔ وہ دونوں بونے اپنے گھر کے باغیچے میں بیٹھے اسٹرابیری آئس کریم کا مزا لے ہی رہے تھے کہ وہاں سے ایک جادوگرنی کا گزر ہوا۔ جس نے اپنا مخصوص کالے رنگ کا چغہ پہن رکھا تھا۔ بونوں کے قریب سے گزرتے ہوئے اچانک اس کے چغے کا ایک پلّو سیمی کی آئس کریم سے ہلکا سا ٹکرا گیا۔ یہ دیکھ کرسیمی کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ اس نے بنٹی کو بتایا کہ آج میرا خوش قسمتی کا دن ہے۔ جادوگرنی کے پلو کا میری آئس کریم سے ٹکرانا ظاہر کرتا ہے کہ آج میں جو بھی خواہش کروں گا۔ وہ پوری ہوجائے گی۔ کیوں کہ میری آئس کریم خواہشوں کو پوری کرنے والی آئس کریم بن گئی ہے۔
لیکن ….ابھی وہ یہ سب کچھ بنٹی کو بتاہی رہا تھا کہ بنٹی نے ایک خواہش ظاہر بھی کردی۔ اس نے مزید چھ آئس کریموں کی خواہش کی اور دیکھتے ہی دیکھتے چھ آئس کریمیں اس کے سامنے حاضر ہوگئیں۔ سیمی حیرانگی اور غصے سے بنٹی کی طرف دیکھنے لگا پھر اس نے بنٹی کو مزید خواہش کرنے سے روکا۔ کیونکہ جادو کی آئس کریم اس کی ہے۔ لہٰذا اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کوئی خواہش کرے۔ لہٰذا اب وہ خواہش کرتا ہے کہ یہ تمام آئس کریم غائب ہوجائے۔ یہ الفاظ جیسے ہی اس کے منھ سے نکلے۔ آئس کریم غائب ہو گئی۔ حالانکہ ابھی بنٹی نے آئس کریم سے صرف ایک دو چمچ آئس کریم اپنے منھ میں منتقل کی تھی۔
اب وہ انتہائی غصے میں تھا۔ وہ چلایا کہ سیمی تم نہایت بدتمیز ہو۔ میں نے ہمیشہ ہر چیز تم سے بانٹ کر کھائی ہے۔ اب میں دوبارہ خواہش کرتا ہوں کہ آئس کریم واپس آجائے۔ اسی لمحے آئس کریم دوبارہ حاضر ہو گئی اور بنٹی اسے کھانے میں جت گیا۔
” اور میں دوبارہ اس آئس کریم کو جانے کا حکم دیتا ہوں۔“ سیمی چلایا اور آئس کریم دوبارہ غائب ہوگئی۔ اچھا یہ بات ہے۔ بنٹی نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اور خواہش کی کہ ٹھنڈی یخ آئس کریم سیمی کی کمر پر انڈیلی جائے۔ اس کے منھ سے یہ الفاظ نکلنے کی دیر تھی کہ سیمی کمر پر ٹھنڈی آئس کریم لگنے سے ادھر ادھر بھاگنے لگا۔
اس کے منھ سے صرف اوہ …. اوہ کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ کیونکہ ٹھنڈی یخ آئس کریم آہستہ آہستہ اس کی گردن سے نیچے کی طرف سفر کررہی تھی اور سیمی متواتر بنٹی کو برا بھلا بھی کہہ رہا تھا۔ آخر سیمی نے خواہش کی کہ گرم گرم چاے بنٹی پر انڈیلی جائے۔ اب بنٹی کا رقص شروع ہوگیا۔ وہ تڑپتا اچھلتا سیمی کی منت کرنے لگا کہ وہ مزید اسے نہ جلائے۔ کیوں کہ گرم گرم چائے نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا تھا۔ لیکن جیسے جیسے بنٹی تڑپتا سیمی قہقہے لگاتا۔
اس بات نے بنٹی کو غصے میں آگ بگولا کردیا۔ اب اس نے بدلہ لینے کے لیے خواہش ظاہر کی کہ سیمی کے جوتے غائب ہوجائیں اور اس کے قدموں تلے خار پشت چوہے آجائیں۔ پھر وہی ہوا۔ بچارے سیمی کے جوتے غائب ہوگئے اور اس کے قدموں کے نیچے کئی چوہے آنے لگے۔ جن کی پشت پر کانٹے ہوتے ہیں۔ سیمی بھاگنے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ اچھلتا کودتا چوہوں سے بچنے کی کوشش کررہا تھا کہ وہ اس کے پاؤں کے نیچے نہ آجائیں۔ مگر جیسے ہی اس کے ننگے پاؤں زمین کی طرف آتے۔ چوہوں کے پشت پر موجود کانٹے اس کے پیروں میں چبھ جاتے اور اس کے منھ سے چیخیں نکلنے لگتیں۔ جب تک سیمی نے چوہوں کے غائب ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ اس وقت تک اس کے پاؤں چھلنی ہوچکے تھے اور وہ درد سے کراہ رہا تھا۔ پھر اس نے انتہائی غصے بھری نگاہوں سے بنٹی کی طرف دیکھا۔ جواب خوفزدہ دکھائی دے رہا تھا کہ اب سیمی پتا نہیں کیا جوابی خواہش کرتا ہے۔
اس سے پہلے کہ بدلے میں سیمی کوئی خواہش کرتا۔ بنٹی جلدی جلدی سیمی کو کہنے لگا کہ ہم دونوں بے وقوف ہیں اور خواہشیں بلاوجہ ضائع کررہے ہیں۔ آؤ ہم دونوں ان چیزوں کی خواہشیں کرتے رہیں۔ چلو ٹھیک ہے ورنہ اس دفعہ میرا ارادہ تمہیں سمندر کی گہرائیوں میں غرق کرنے کا تھا۔ سیمی اپنے زخمی پاؤں میں جوتا پہنتے ہوئے بولا۔
”ارے نہیں سیمی۔ مجھ پر اتنا بڑا ظلم نہ کرنا۔ یاد کرو آخر ہم دوست ہی تو ہیںاور ہمیشہ ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آتے رہے ہیں۔“ بنٹی تقریباً روتے ہوئے بولا۔
”بس پھر ٹھیک ہے۔ اپنی خواہشیں کرنا بند کر دو کیونکہ جادو کی آئس کریم میری ہے۔ اب میں ہی ہر خواہش کروں گا۔ تمہیں جو چاہیے ہو گا وہ تم مجھے بتایا کرو گے۔ تم ہر گز خود کوئی خواہش نہیں کرو گے۔ تم سن رہے ہونا!“ سیمی نے بنٹی کو فیصلہ سناتے ہوئے بتایا۔
”ٹھیک ہے۔“ بنٹی نے ہار مانتے ہوئے سیمی کو یقین دلایا۔ ”اب تم ہی مجھے بتانا کہ میں کب نئی خواہش کروں۔ ٹھیک ہے اب میں اپنے لیے ایک خواہش کرنے لگا ہوں۔“ سیمی نے بنٹی کو بتایا۔ پھر اس نے آنکھیں بند کرکے ایک منٹ کے لیے سوچا۔
” میری خواہش ہے کہ میرا لباس سونے کی تاروں سے بنا ہوا ہو۔“ اسی وقت سیمی کی خواہش پوری ہوگئی۔ اس کی جرابیں۔ جوتے۔ سر پر پہنا ہوا ہیٹ اور سارا لباس سورج کی روشنی میں جگ مگ کرنے لگا۔ کیونکہ وہ سب کچھ سونے کی تاروں سے بنا ہوا تھا۔“
لیکن سیمی نے بنٹی کے لیے سونے کے لباس کے بجاے چاندی کے لباس کی خواہش کی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ بنٹی اس کی طرح خوب صورت دکھائی دے۔ بنٹی کو اس بات کا بہت افسوس ہوا اور وہ چاندی کی تاروں سے بنے لباس میں بھی منھ بسور رہا تھا۔ اتنی دیر میں سیمی نے اپنے لیے ایک اور خواہش کا اظہار کر دیا۔
اس دفعہ اس نے اپنے لیے ایک بہت خوب صورت گھوڑا منگوایا۔ چشم زدن میں ایک انتہائی جاذب نظر سیاہ گھوڑا باغیچے میں اٹکھیلیاں کررہا تھا۔ بنٹی لباس والی زیادتی بھول کر بچوں کی طرح تالیاں بجانے لگا تھا اور سیمی کو گزارش کرنے لگا کہ اسے بھی بالکل ایسا ہی گھوڑا چاہیے۔ مگر سیمی ہر گز یہ نہیں چاہتا تھا کہ بنٹی اس کی برابری کرے۔ لہٰذا اس نے بنٹی کے ساتھ پھر ناانصافی کرتے ہوئے اس کے لیے ایک خاکستری رنگ کے گدھے کی فرمائش کی۔گدھے کو دیکھ کر بنٹی غصے سے چلا اٹھا۔
”سیمی تم حد سے زیادہ بدتمیز ہو۔ تم نے سونے کے بجاے مجھے چاندی کا لباس دلوایا اور اب گھوڑے کے بجاے میرے لیے تم نے یہ گدھا منگوا لیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ سب کچھ غائب ہوجائے۔ اس کے کہتے ہی فوراً گھوڑا اور گدھا غائب ہو گئے اور ساتھ ہی سونے اور چاندی کے لباس بھی۔ سیمی نے انتہائی غصے سے بنٹی کو گھورا پھر وہ دوڑتا ہوا بنٹی کی طرف گیا اور قریب پہنچ کر اس نے بنٹی کی ناک پر زور سے ایک گھونسا رسید کیا۔بنٹی درد سے کراہ اٹھا۔ اب بنٹی کی باری تھی۔ وہ جواباً بڑھا اور اس نے سیمی کو دھکے سے نیچے گرا لیا۔ سیمی کا سر باغ میںپڑی پتھر سے بنی کرسی کے پاے سے ٹکرایا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اور زور زور سے رونے لگا۔
بنٹی بھی رو رہا تھا کیونکہ اب اس کی ناک سے بھی خون بہہ رہا تھا۔ میر…. ی…. نا…. ک وہ سسکیاں لے رہا تھا۔ میرا…. س…. ر…. سیمی بھی روتے ہوئے سر پکڑے بیٹھا تھا۔
”آؤ اندر چلیں تم پانی سے اپنا خون صاف کرنا اور میں اپنے سر پر پڑے گھومڑ کی ٹکور کرتا ہوں۔“ اس دفعہ سیمی نے ہمدردی دکھانے میں پہل کی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے افسوس کرتے ہوئے گھر کے اندر چلے گئے۔ سیمی نے بنٹی کی ناک سے خون صاف کیا اور بنٹی نے سیمی کے سر کے گھومڑ کی ٹکور کی۔
سیمی نے بنٹی سے جنگ بندی کی درخواست کی۔ ”ابھی تک ہم نے اپنی سب خواہشوں کو ضائع کر دیا ہے۔ تمہیں اس بات کا بخوبی علم ہے بنٹی۔ سیمی نے بنٹی کو یاد دلایا۔ بنٹی روتے ہوئے بولا کہ میں کب لڑنا چاہتا ہوں۔ آؤ ایک دوسرے کے لیے مثبت اور اچھا سوچنا شروع کریں۔ جب تک ہم باغیچے میں تھے۔ تم نے اپنے لیے اچھی خواہشیں کیں اور میرے لیے بری۔ لیکن اب جیسے ہی ہم باہر جائیں گے۔ ہم اپنی خواہشیں ضائع نہیں کریں گے۔ میں تمہارے لیے اچھی خواہشیں کروں گا اور تم میرے لیے کرنا۔“ بنٹی نے اپنی راے کا اظہار کیا۔ اور سیمی نے فوراً اس تجویز کو مانتے ہوئے آمادگی کا اظہار کر دیا۔ وہ دونوں دوبارہ باہر باغیچے میں گئے اور ابھی ایک دوسرے کے لیے اچھی خواہشیں سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک سیمی کی نظر ایک ایسی چیز پر پڑی جس سے اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ اپنی آئس کریم سورج کی تمازت میں باغیچے میں پڑی ہوئی چھوڑ گئے تھے۔ وہ مکمل پگھل چکی تھی اور پڑوسیوں کی پالتو بلی نیلو اسے چاٹ رہی تھی۔ ذرا سوچیے! جادو کی آئس کریم اور نیلو بیگم اسے ہضم کیے جا رہی تھیں۔ سیمی نے نیلو کو بھگانے کی کوشش کی مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ اب وہاں آئس کریم کہاں بچی تھی۔ آئس کریم کے ختم ہوتے ہی جادو بھی ختم ہو گیا تھا۔ یہ انتہائی دکھ والی اور تکلیف دہ بات تھی۔ سیمی کی آنکھوں سے جیسے آنسوؤں کی بارش برسناشروع ہو گئی۔ بنٹی کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کی برسات رواں تھی۔
”ہمیں سارے دن میں کیا ملا۔ ٹوٹی ہوئی ناک اور سر کا گھومڑ۔“ سیمی بولتے وقت ہچکیوں سے رورہا تھا۔ ”کوئی بات نہیں۔“ بنٹی نے سیمی کے گلے میں اپنی بانہیں ڈالتے ہوئے کہا۔ ”اگلی دفعہ ہم احتیاط سے کام لیں گے۔“
لیکن سیمی کا خیال تھا کہ اس طرح کا موقع انہیں دوبارہ نہیں مل سکتا اور واقعی بچو! زندگی کو سنوارنے کا اللہ تعالیٰ ایک آدھ بار ہی موقع دیتا ہے۔ جو اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ وہ زمانے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top