skip to Main Content

جادو والا شربت

تحریر: The personality potion
مصنف: Allan Macdonald

ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فارس اتنے سارے لوگوں کے سامنے کھڑا تھا اور سبز جادوئی محلول کی بوتل ٹوٹ چکی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

فارس وہ کام کررہا تھا جو اسے سب سے زیادہ پسند تھا۔ وہ اپنے بستر میں گھسا جاسوسی ناول پڑھ رہا تھا۔ ناول نہایت سنسنی خیز موڑ پر پہنچ چکا تھا۔ جب اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور فارس کی امی کمرے میں داخل ہوئیں۔ ”فارس! تم کمرے میں گھسے کیا کررہے ہو؟“
”کچھ بھی نہیں امی! کتاب پڑھ رہا ہوں۔“ اس نے جواب دیا۔
”لیکن ابھی شام کے صرف چھہ بجے ہیں۔ تم باہر جاکر اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتے کیوں نہیں؟“
”نہیں امی! میں اپنی کتاب ختم کرنا چاہتا ہوں۔“ فارس نے منھ بسورا۔
”دیکھو! اتنا اچھا موسم ہو رہا ہے۔ تم پارک جا کر فٹ بال کھیل سکتے ہو۔“ امی نے اصرار کیا۔
”نہیں! مجھے کمرے میں لیٹ کر کتاب پڑھنے میں زیادہ مزا آئے گا۔“
اس کی امی نے لمبا سانس کھینچا: ”تم اپنی زندگی اس طرح کمرے میں چھپ کر نہیں گزار سکتے فارس! یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ لوگوں کا سامنا کرنا چاہیے، ان سے دوستی کرنی چاہیے اور سب سے گھل مل کر رہنا چاہیے۔“
”کیوں امی! کیا کتاب پڑھنا اچھا مشغلہ نہیں ہے؟“ فارس نے کہا۔
”بالکل ہے، لیکن میں تو تمھیں یہ سمجھا رہی تھی کہ لوگوں سے کٹ کر رہنا اچھا نہیں ہے۔ لیکن تمھیں کچھ سمجھانا بے کار ہے۔ جو جی میں آئے کرو۔“ امی نے ناراض لہجے میں کہا اور باہر چلی گئیں۔
اگلے دن کا آغاز کچھ خوش گوار نہیں تھا۔ اسکول بَس بھری ہوئی تھی۔ اس کے بہترین دوست سام نے ہاتھ ہلایا مگر اس کے ساتھ والی سیٹ پر کوئی اور بیٹھا ہوا تھا۔ بس کی واحد خالی سیٹ ڈنکن کے برابر میں موجود تھی۔ ڈنکن عمر میں فارس سے بڑا اور نہایت بدتمیز بچہ تھا۔ وہ اسکول میں چھوٹے بچوں کو مار پیٹ کر ان کا لنچ چھین لیتا تھا۔ چھوٹے بچوں کا بازو مروڑنے میں اُسے خاص مہارت حاصل تھی۔ فارس نے ظاہر کیا، جیسے اُسے خالی نشست نظر نہیں آئی لیکن ڈنکن نے اسے دیکھ لیا۔
”یہاں جگہ خالی ہے منے! یہاں آجاﺅ! میں کوئی تمھیں کھا نہیں جاﺅں گا۔“ اس نے آواز لگائی۔
فارس کو مجبوراً بیٹھنا پڑا۔ اسے منا کہلائے جانے سے نفرت تھی۔ ڈنکن نے اس کے بیگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: ”اس میں تمھارا لنچ ہے؟“
”نہیں….“ فارس نے جھوٹ بولا۔ ”میں سکول کی کینٹین سے لنچ کرتا ہوں۔“ ڈنکن نے سر ہلایا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ پھر اچانک ہی اس نے فارس کے بیگ پر جھپٹا مارا۔ فارس نے بیگ چھڑانے کی کوشش کی مگر ڈنکن نے اُسے زور سے کہنی ماری۔ فارس کی آنکھوں میں غصے اور تکلیف سے آنسو آگئے۔ ڈنکن نے اس کا بیگ کھول کر لنچ بکس نکال لیا۔ ”اوہو! آج شاید تمھاری امی بھول گئیں کہ تم کینٹین سے لنچ کرتے ہو۔“ بَس میں موجود تمام لوگ اب فارس اور ڈنکن کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ڈنکن نے سینڈوچ سونگھ کر بُرا سا منھ بنایا اور واپس رکھ دیے لیکن پھر اس کی نظر چاکلیٹ پر پڑی۔ ”سینڈوچ تو میری پسند کے نہیں، میں یہ چاکلیٹ کھالیتا ہوں۔“ اس نے چاکلیٹ کا کاغذ اُتارتے ہوئے کہا۔
”یہ میری ہے، مجھے واپس دو۔“ فارس نے بے چارگی سے کہا۔ ڈنکن مسکرایا اور چاکلیٹ کھانی شروع کردی۔ ”ہوں! بُری نہیں ہے…. منے! تم کل میرے لیے ایسی ہی چاکلیٹ دوبارہ لانا۔ سمجھ گئے؟“ فارس نے منھ پھیر لیا۔ اگر وہ جاسوسی ناول کا ہیرو ہوتا تو ابھی مار مار کر ڈنکن کا بُھرکس نکال دیتا۔ اس نے بے بسی سے سوچا۔ بَس سے نیچے اُترتے ہی اس کا دوست سام اس کے پیچھے لپکا۔ ”فارس! آج تمھارے ساتھ ڈنکن نے بہت زیادتی کی۔“
”ہوں…. وہ انتہائی شیطان ہوتا جارہا ہے۔“
”ہوں…. میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر ایک دفعہ کوئی اس کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوجائے تو یہ بچوں کی طرح رونے لگے گا۔“ فارس چلتے، چلتے رُک گیا۔ ”اچھا! میں نے تمھیں تو کبھی اتنا بہادر نہیں پایا۔“ سام کچھ حیران سا رہ گیا۔ ”لیکن بھلا میں کیا کرسکتا ہوں؟ میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ….“
”ٹھیک ہے! اگر تم کچھ کر نہیں سکتے تو پھر کچھ کہو بھی مت! یہاں سب کا یہی تو مسئلہ ہے۔ کوئی کچھ کر ہی تو نہیں سکتا۔“ فارس ایک دم پھٹ پڑا۔ سام خاموش ہوگیا۔ اسے فارس کی بات سے تکلیف پہنچی تھی۔ فارس کو بھی بعد میں افسوس ہوا لیکن وہ خود نہیں جانتا تھا کہ اس نے یہ بات کیوں کہی۔ وہ غصے میں تھا۔ اُسے ڈنکن پر غصہ تھا۔ بلکہ اسے اپنے آپ پر بھی غصہ تھا۔ آخر وہ اتنا بزدل اور کمزور کیوں ہے؟ فارس کی مِس کے پاس ایک نئی خبر تھی۔ اسکول کی سالانہ تقریب میں ایک ڈرامہ منعقد ہورہا تھا۔ فارس عام طور پر اسکول کے ایسے کسی پروگرام میں حصہ نہیں لیتا تھا لیکن چوں کہ یہ ڈرامہ ایک جاسوسی کہانی پر مبنی تھا۔ اس لیے فارس اسے توجہ سے سننے پر مجبور ہوگیا۔ تصور ہی تصور میں اس نے خود کو ڈرامے کے مرکزی کردار کے روپ میں دیکھا۔ چھٹی کے وقت تک فارس یہ طے کرچکا تھا کہ وہ ڈرامے کے مرکزی کردار کے لیے آڈیشن دے گا لیکن کیسے؟ وہ تو لوگوں کے سامنے دو منٹ کھڑا ہو کر بات بھی نہیں کرسکتا تھا۔ یہی سوچتے، سوچتے وہ اسکول سے گھر جارہا تھا۔ گھر کے پڑوس میں واقع اپنے انکل کے گھر کے سامنے وہ اچانک ہی رُک گیا۔
اُس کے انکل ایک گم نام سائنس دان تھے۔ آج تک اُن کی کوئی بھی ایجاد منظر عام پر نہیں آسکی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی کوئی ایجاد کبھی مکمل ہی نہیں ہوپائی۔ ایک ایجاد کی خامیاں دور کرتے کرتے انکل اتنا بور ہوجاتے کہ کسی نئی ایجاد کے چکر میں پڑ جاتے اور یوں ان کی ہر ایجاد ادھوری رہ جاتی۔
فارس کو دیکھ کر وہ خوش ہوئے: ”فارس بیٹا! کیسے ہو؟ اسکول کیسا جارہا ہے؟“
”آج تو اسکول مجھے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔“ فارس نے رونی شکل بنائی۔
”بیٹا! اسکول تو تمھیں روز ہی کاٹتا ہے۔ آج کیا خاص بات ہوئی؟“ انکل نے چشمہ سر پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
”آج بس میں مجھے ایک لڑکے نے مارا اور میری چاکلیٹ بھی چھین لی۔ وہ لڑکا مجھ سے بڑا اور دس گنا طاقتور ہے اور آپ جانتے ہیں…. میں نے کیا کیا؟“فارس نے انکل کا تجسس ابھار۔
”کیا؟“ انکل نے بے ساختہ پوچھا۔
”پوری بس مجھے دیکھ رہی تھی اور میں احمقوں کی طرح خاموش بیٹھا رہا۔ کچھ بھی نہیں کر سکا۔“ اس نے مٹھیاں بھینچیں۔
”ہوں! یہ تو تم نے بہت عقل مندی کا کام کیا۔ کبھی بھی اپنے آپ سے سو گنا طاقتور لڑکے سے ایک چاکلیٹ کی خاطر جھگڑا مت کرنا۔ ویسے بھی….کیا کسی چاکلیٹ نے آج تک تمھاری خاطر کسی سے جھگڑا کیا ہے؟“ انکل مسکراے۔
”صرف یہی نہیں، بلکہ ہمارے اسکول میں ایک ڈرامہ کھیلا جارہا ہے۔“ فارس نے کندھے اُچکائے۔
”تو اس ڈرامے میں کیا خرابی ہے؟“ انکل نے بھنویں اُچکائیں۔
”ڈرامے میں تو کوئی خرابی نہیں ہے، میں اس میں حصہ لینا چاہتا ہوں مگر لے نہیں سکتا۔“ فارس نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
”اور وہ کیوں بھلا؟“ انکل نے پوچھا۔
”میں اتنے سارے لوگوں کے سامنے بولنے سے گھبراتا ہوں اور احمقوں کی طرح ہکلانا شروع کردیتا ہوں۔ اسی لیے مجھے پتا ہے کہ مجھے اس ڈرامے میں کبھی کام کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ میں ایک دم بدھو ہوں۔“ فارس نے مایوس ہو کر کہا۔
”تو تمھارا خیال ہے کہ تم اس ڈرامے میں حصہ نہیں لے سکتے؟“ انکل نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔
فارس نے اُداسی سے نہیں میں سر ہلایا۔
”ٹھیک ہے، تم اتوار کو میرے پاس آنا۔ میں شاید تمھاری کچھ مدد کرسکوں۔“ انکل نے اس بارے میںمزید گفتگو کرنے کے بجائے اسے اتوار کو آنے کا کہا۔
فارس پورا ہفتہ یہی سوچتا رہا کہ انکل اس کی کس طرح مدد کرسکتے ہیں۔
٭….٭
اتوار کی صبح اس نے انکل کے گھر کی گھنٹی بجا دی۔ انکل اُسے لے کر اپنی تجربہ گاہ میں آگئے۔ میز پر متعدد شیشیاں موجود تھیں۔ ایک میں سبز رنگ کا محلول بھرا ہوا تھا اور دوسری میں سفید پاﺅڈر تھا۔ انکل نے دونوں شیشیوں میں سے تھوڑا، تھوڑا محلول اور پاﺅڈر نکال کر ایک اور شیشی میں ڈال کر ملایا۔
”یہ….! یہ کیا ہے؟“ فارس حیرت سے ہکلایا۔
”یہ میری وہ ایجاد ہے جس پر میں نے پورا ہفتہ کام کیا ہے۔ اس کو میں نے ”جادوئی شخصیت“ کا نام دیا ہے۔“ انکل فخر سے مسکراے۔
”لیکن یہ ہے کیا چیز؟ اور اس کا کام کیا ہے؟“ فارس نے مزید حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
”یہ تمھارے اندر موجود اُن چھپی ہوئی صلاحیتیوں کو باہر نکال کر لائے گی، جن سے کوئی واقف نہیں ہے۔“ انکل نے بتایا۔
سبز محلول کو ہلانے سے اب جھاگ اور بلبلے بن رہے تھے۔ فارس نے بوتل انکل کے ہاتھ سے لے لی اور حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
”آپ کا مطلب ہے کہ اس کو پینے سے میں ڈرامے میں حصہ لینے کے قابل ہوجاﺅں گا؟“ فارس سوال پہ سوال کیے جارہا تھا۔
”بالکل….! آزمائش شرط ہے۔“ انکل مسکراے۔
٭….٭
پیر کی صبح فارس نے محلول آزمانے کا فیصلہ کیا۔
”آج اسکول میں ڈرامے کے لیے آڈیشن ہے۔ دیکھتا ہوں، یہ محلول میری کیا مدد کرتا ہے!“ اس نے شیشی کھول کر پہلے سونگھی، پھر ایک گھونٹ بھرا۔ اس کا ذائقہ ہلکا سا ترش تھا۔ وہ بھاگ کر آئینے کے سامنے گیا اور اپنا جائزہ لینے لگا۔ بظاہر اُسے اپنے آپ میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی لیکن پتا نہیں کیوں…. اُسے آج روزانہ کی طرح اسکول جاتے ہوئے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ ضرور یہ اسی محلول کا کمال ہے کہ اُسے آج بس میں اپنے دوست سام کے ساتھ بیٹھنے کی جگہ مل گئی۔ سام باتیں کررہا تھا لیکن فارس اپنے خیالوں میں گم تھا۔ کیا وہ دیکھنے میں دوسروں کو مختلف لگ رہا ہوگا؟ سبز محلول کی شیشی اس کی جیب میں تھی۔ ”کیا میں روز کے مقابلے میں آج کچھ مختلف لگ رہا ہوں؟“ اس نے اچانک سام سے پوچھا تو سام نے حیران ہو کر کہا۔ ”نہیں تو….! روز کی طرح آج بھی تمھارے تین سر ہیں اور نیلے بال ہیں۔“ وہ کھل کھلا کر ہنسا۔ فارس خاموش ہوگیا۔
بریک ٹائم میں فارس اور سام اسکول میں ہونے والے ڈرامے کے بارے میں باتیں کر رہے تھے کہ اچانک سامنے سے ڈنکن آتا دکھائی دیا۔ وہ انھی کی طرف آرہا تھا۔ فارس کے پاس سوچنے کے لیے وقت نہیں تھا۔ اس نے اپنی جیب میں سے سبز محلول کی شیشی نکالی اور تھوڑا سا محلول حلق سے نیچے اُتار لیا۔ اگر یہ محلول واقعی کام کی چیز ہے تو اُسے اس وقت اس کی شدید ضرورت تھی۔
”منے! میں تم کو ڈھونڈ رہا تھا۔“ ڈنکن قریب آتے ہی بولا۔
”اور وہ کیوں؟“ فارس نے انجان بنتے ہوئے کہا۔ ”میری چاکلیٹ کہاں ہے؟ میں نے تم سے کہا تھا ناں کہ میرے لیے روز چاکلیٹ لے کر آیا کرو؟“
”فارس آج لانا بھول گیا ہے۔“ سام نے اپنے دوست کی حمایت میں کہا۔
”تم سے کس نے بات کی چمپو!“ ڈنکن نے مُکا لہراتے ہوئے کہا۔ سام دُبک گیا۔
”میری چاکلیٹ نکالو۔ منے!“ ڈنکن دوبارہ فارس سے مخاطب ہوا۔
”وہ میرے بیگ میں ہے، لیکن ایک مسئلہ ہے۔“ فارس نے کہا۔
”وہ کیا؟“ ڈنکن نے ناک چڑھائی۔
”تم وہ لے نہیں سکتے۔“ فارس نے کہا اور خود حیران رہ گیا کہ آخر یہ بات کیسے کہہ دی۔ یہ ضرور سبز محلول ہے جو اپنا کام دکھا رہا ہے۔ اُدھر ڈنکن کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ”کیا کہا؟….ذرا دوبارہ کہنا؟“ آخر کار اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”میں کہہ رہا ہوں کہ میں اپنی چاکلیٹ تمھیں نہیں دوں گا۔ اب جا کے اپنا راستہ ناپو۔“ اب کافی سارے بچوں کی بھیڑ ان کے ارد گرد جمع ہوچکی تھی۔ آج تک کسی نے ڈنکن سے اس طرح بات کرنے کی جرا¿ت نہیں کی تھی اور وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اب کیا ہوتا ہے۔
فارس چند لمحوں کے لیے خوف زدہ ہوا، لیکن پھر اس نے اپنی جیب میں پڑی شیشی کو غیر ارادی طور پر تھپتھپایا اور ایک عجیب قسم کا حوصلہ محسوس کرنے لگا۔ ڈنکن نے اس کا بازو پکڑ کر مروڑنا شروع کردیا۔
”بہتر ہوگا کہ تم چاکلیٹ میرے حوالے کردو۔“ وہ چیخا۔
”سوری! ایسا نہیں ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ تم چاکلیٹ کھانا چھوڑ دو۔ تمھارے سارے دانتوں میں کیڑا لگ گیا ہے۔“فارس نے بے باک ہوکر کہا۔
”کیا کہا؟“ ڈنکن مزید بپھر گیا۔
”تمھارے دانتوں میں کیڑا لگ گیا ہے۔ کالے دانتوں والے ڈنکن!“ فارس نے جیسے ہی کہا تو پورا مجمع ہنسنے لگا۔ بچوں کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اسکول کا سب سے خاموش اور ڈرپوک بچہ، سب سے بدتمیز بچے کے مقابل یوں بہادری سے آکھڑا ہوا تھا۔ ڈنکن نے اس کا بازو سختی سے مروڑنا شروع کر دیا۔ فارس نے خود کو بمشکل چیخنے سے روکا۔
”فارس کو چھوڑ دو کالے دانتوں والے ڈنکن۔“ سام چلایا اور پھر سب بچے شور مچانے لگے۔ ”چھوڑو، کالے دانتوں والے، چھوڑو۔“ ڈنکن نے سب کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ وہ اپنے سے چھوٹے بچوں کو اکیلے میں مارنے کا عادی تھا۔ اتنے بڑے مجمع کا مقابلہ کرنے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔ شور کی آواز اُن کے استاد تک بھی پہنچ گئی جو اسی طرف آرہے تھے۔ ڈنکن نے فارس کا بازو چھوڑا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ فارس اُسے جاتے دیکھتا رہ گیا۔ یہ سب ناقابلِ یقین تھا۔ سبز محلول واقعی اپنا کام دکھا رہا تھا۔ وہ ڈنکن کے مقابلے پر کھڑا ہوا اور صحیح سلامت رہا۔ پھر فارس کو یاد آیا کہ آج ڈرامے کے لیے آڈیشن ہے۔ وہ اسکول کے ہال کی جانب چل پڑا۔
بہت سے لوگ آڈیشن دیکھنے آئے تھے۔ فارس اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کی انگلیاں جیب میں موجود بوتل پر تھیں۔ وہ اسکرپٹ پڑھنے سے پہلے اس کو پی لے گا اور پھر کوئی مشکل،….مشکل نہ رہے گی۔ اس نے سوچا۔ اس وقت ڈنکن اسٹیج پر موجود تھا۔ وہ اسکرپٹ کو ایسے پڑھ رہا تھا۔ جیسے موسم کا حال سنا رہا ہو۔ ہال میں قہقہے گونجنے لگے۔ ڈنکن کا موڈ خراب ہوگیا۔
”بیٹھ جایئے ڈنکن، فارس! اب آپ کی باری ہے۔“ مس نے کہا۔ فارس نے بوتل کا ڈھکن کھولا اور اسٹیج کی جانب بڑھا لیکن اسٹیج سے اُترتے ہوئے ڈنکن نے اُسے جان بوجھ کر دھکا دیا اور بوتل فارس کے ہاتھ سے گر کر ٹکڑے، ٹکڑے ہوگئی۔ فارس نے خوف زدہ ہو کر اپنے پیروں کے پاس جمع سبز محلول کو دیکھا۔
”جلدی اوپر آئیے فارس! یہ سب آپ کو بعد میں خود صاف کرنا پڑے گا اور آپ کو معلوم نہیں اسکول میں گھر سے جوس کی بوتلیں لانا منع ہے؟“ مس نے اُسے ڈانٹا۔
فارس اتنے سارے لوگوں کے سامنے کھڑا تھا اور سبز جادوئی محلول کی بوتل ٹوٹ چکی تھی۔ فارس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔
”اب یہ اسکرپٹ پڑھ کے دکھائیے۔“ مس نے کہا۔ فارس کا گلا خشک ہوگیا۔ ”اب کیا ہوگا؟“ اس نے سوچا اور گلا صاف کیا۔ ایک عجیب سی آواز نکلی اور سب بچے کھل کھلا کر ہنس پڑے۔
”بولو فارس!“ سام نے اس کی ہمت بندھائی۔
فارس نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کیں اور تصور کیا کہ وہ اپنے پسندیدہ کردار کے ان جملوں کو کیسے ادا کرے گا۔ بالآخر اس نے بولنا شروع کردیا۔ چند منٹ کے بعد اس نے محسوس کیا کہ ہال میں لوگوں نے ہنسنا بند کردیا ہے اور سب خاموشی سے اُسے بولتے ہوئے سن رہے ہیں۔ اس کا حوصلہ بلند ہو گیا۔ وہ مزید اعتماد سے اسکرپٹ پڑھنے لگا۔
”بہت خوب فارس! مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ میں اتنی صلاحیتیں پوشیدہ ہیں۔“ اس کی مِس نے تعریف کی۔ فارس نیچے اُتر کر سبز محلول اور شیشے کی کرچیاں سمیٹنے لگا۔ چند روز بعد فارس اپنے انکل کے گھر گیا۔
”کیا حال ہیں فارس؟“ انھوں نے پوچھا۔
”انکل! آپ واقعی بہت بڑے سائنس دان ہیں۔ آپ کا دیا ہوا سبز محلول شاندار تھا۔“ فارس جوش سے بولا۔
انکل ایک لمحے کے لیے حیران ہوئے اور پھر ان کا چہرہ کِھل اُٹھا۔ ”اوہ! تو تمھیں اسکول کے ڈرامے کا مرکزی کردار مل گیا؟“
”جی ہاں….“ پھر فارس نے اسکول میں پیش آنے والے تمام واقعات انکل کو سنائے: ”اگرچہ عجیب بات یہ تھی کہ میں نے اس محلول کو پیے بغیر آڈیشن دیا لیکن چوں کہ میں صبح یہ محلول پی چکا تھا، اس لیے شاید اس کے اثرات میرے اندر باقی تھے۔“
انکل….فارس کی باتیں سُن کر ہنس پڑے۔
”اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟“ فارس نے حیران ہو کر کہا۔
”کیا میں تمھیں دکھاﺅں کہ یہ جادوئی محلول میں نے کیسے بنایا تھا؟….ایک منٹ ٹھہرو۔“ یہ کہہ کر وہ کچن میں چلے گئے۔ جب باہر آئے تو ہاتھ میں دو بوتلیں تھیں۔ ایک میں سبز محلول اور دوسرے میں سفید پاﺅڈر تھا۔ انھوں نے فارس کو دونوں کے لیبل دکھائے۔ ”کھانے کا سبز رنگ اور سوڈا ہائی کاربونیٹ، جس سے محلول میں بُلبُلے بنتے تھے۔ تمھاری آنٹی کیک بنانے میں استعمال کرتی ہیں، میں نے ان ہی دو چیزوں سے ’جادوئی شخصیت‘ کا محلول تیار کیا تھا۔“ فارس بے یقینی کی کیفیت میں بوتلوں کو گھورتا رہ گیا۔
”آپ کا مطلب ہے کہ آپ نے مجھے بے وقوف بنایا تھا۔ یہ کوئی جادوئی محلول نہیں تھا؟“ فارس نے بے چینی سے پوچھا۔
انکل نے سر ہلایا۔ وہ ابھی بھی مسکرا رہے تھے۔
”لیکن پھر اس نے مجھے تبدیل کیسے کردیا؟ مجھ میں اتنی ہمت و حوصلہ کہاں سے آگیا؟“ فارس نے حیرانی سے پوچھا۔
”کیوں کہ تمھیں کو اس محلول پر اعتماد تھا لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ تم نے اپنے آپ پر اعتماد کرنا شروع کردیا تھا۔ محلول کا استعمال تو محض ایک نفسیاتی حربہ تھا۔ اس میں کوئی جادو نہیں تھا۔“
”اوہ….!“ فارس بولا۔
٭….٭
فارس انکل کے گھر مزید جادوئی محلول بنوانے آیا تھا لیکن اب اسے پتا چلا کہ اسے اس محلول کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اپنی شخصیت خود بدلنے پر قادر تھا۔ بس ذرا سے حوصلے اور خود اعتمادی کی ضرورت تھی۔
٭….٭
اس تحریر کے مشکل الفاظ
سنسنی خیز: جوش دلانے والا، سنسنی پھیلانے والا
آڈیشن: فلمی دنیا میں کسی بھی کردار کے لیے امتحان
محلول: دو یا دو سے زیادہ اشیا کا یکساں آمیزہ جو مائع کی صورت میں

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top