skip to Main Content

تتلی

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔

بہار کا موسم شروع ہوچکا تھا اور شہر کے سب سے بڑے باغ میں ہر طرف شگفتہ اور مسکراتے ہوئے پھول ہی پھول نظر آرہے تھے۔ان پھولوں میں کسی کا رنگ گہرا سرخ تھا تو کسی کا پیازی،کوئی اودے رنگ کا،تو کوئی نارنجی۔بعض پھول ایسے بھی تھے جن کی ننھی ننھی پتیاں گویا مختلف رنگوں میں ڈوبی ہوئی تھیں اور بعض شاخوں پر سفید پھول اس طرح کھلے ہوئے تھے جیسے فضا میں ستارے روشن ہوں۔
پھولوں کی اس خوبصورت دنیا میں ایک ننھی منی تتلی بڑی خوشی سے اڑ رہی تھی۔کبھی تو وہ ایک پھول پر دیر تک بیٹھی رہتی اور کبھی اڑ کر سارے باغ کا چکر لگانے لگتی۔ویسے تو اسے سب پھولوں سے بڑی محبت تھی مگر ایک سرخ پھول کو تو دیکھتے ہیں وہ خوشی سے ناچنے لگتی تھی۔یہ پھول باغ کا سب سے زیادہ خوب صورت پھول تھا۔اس کا رنگ ڈوبتے ہوئے سورج کے رنگ کی طرح تھا اور باغ کا کوئی پھول بھی اس رنگ میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔
تتلی جب سارے باغ کا چکر لگا کر آتی تو اس پھول کو کوئی میٹھا سا گیت سنا کر پھر ہوا میں اڑ جاتی اور نگاہوں سے غائب ہو جاتی۔پھول کو بھی اس تتلی سے بڑی محبت تھی۔جب تتلی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی تو وہ پریشان ہوجاتا اور دیر تک تتلی کو ادھر ادھر دیکھتا رہتا۔
ایک مرتبہ جب تتلی سارے باغ کا چکر لگا کر آئی،تو چپ چاپ پھول کی شاخ پر بیٹھ گئی۔اس کا چہرہ غمگین تھا اور آنکھوں میں آنسوؤں کے قطرے جھلک آئے تھے۔تتلی کا یہ حال دیکھ کر پھول بے اختیار ہو کر پوچھنے لگا۔
”کیا ہوا تتلی۔تم اداس کیوں ہو؟“
یہ سنتے ہی تتلی کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔یہ دیکھ کر پھول اور بھی پریشان ہو گیا۔اس سے پہلے کبھی تتلی کا یہ حال نہیں دیکھا تھا۔
تتلی کہنے لگی۔
”جب میں باغ کے آخری کونے میں پہنچی تو میں نے دو بچوں کو دیکھا۔جو پھولوں کو دیکھنے کے لیے باغ میں آئے ہوئے تھے اور وہاں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔“
پھول تتلی کی یہ بات سن کر بہت حیران ہوا اور دل میں سوچنے لگا۔”لڑکے پھول دیکھنے کے لئے آیا ہی کرتے ہیں۔انہیں ہم سے پیار ہوتا ہے۔تتلی کو اس بات پر کیوں افسوس ہو رہا ہے۔“وہ یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ تتلی بولی۔”میں جب ان کے پاس پہنچی تو وہ کہہ رہے تھے۔آج باغ کے سب سے خوب صورت پھول کو توڑیں گے۔“بڑا لڑکا کہہ رہا تھا کہ،” میں اس پھول کو اپنے کوٹ میں لگاؤں گا۔“ اور دوسرا کہتا تھا ، ”نہیں اسے میں اپنے گھر لے جاؤں گا۔“
یہ بات سنتے ہی پھول کا رنگ پھیکا پڑ گیا اور ا سے اتنا افسوس ہوا کہ کوشش کے باوجود منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکال سکا۔تھوڑی دیر بعد تتلی بولی۔
”اب کیا کیا جائے۔وہ ابھی آ جائیں گے اور تمہیں بے رحمی سے توڑ لے جائیں گے۔تمہارے بغیر میں ہمیشہ اداس رہوں گی۔کوئی تدبیر بتاؤ جس سے میں تمہیں بچا سکوں۔“
پھول کوئی تدبیر بھی نہ بتا سکا۔اس قسم کی تدبیریں اس کے دماغ میں کبھی نہیں آ سکتی تھیں۔دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ لڑکے قریب آ پہنچے۔
پھول نے رو کر تتلی کو” خدا حافظ“ کہا اور غم سے سر جھکا کر نیچے گھاس کو دیکھنے لگا ۔ایک لمحہ گزر گیا۔دوسرا لمحہ بھی گزر گیا۔دو چار لمحے گزر گئے اور کوئی ہاتھ اسے شاخ سے الگ کرنے کے لیے نہ بڑھا۔پھول نے ڈرتے ڈرتے سر اٹھا کر دیکھا۔تتلی اس کے قریب ہی اڑ رہی تھی اور وہ دونوں بچے اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔کچھ دیر کے بعد تتلی اور بچے غائب ہو گئے۔جب کچھ دیر تک تتلی واپس نہ آئی تو پھول نے سمجھ لیا کہ شریر بچے اس کی پیاری تتلی کو پکڑ کر لے گئے ہیں۔اسے اپنے بچ جانے کی خوشی تو ضرور ہوئی مگر تتلی کے جدا ہو جانے کا اتنا افسوس تھا کہ یہ خوشی جلد ہی مٹ گئی۔
ساری رات وہ غم اور افسوس کے مارے جاگتا رہا۔جب اسے خیال آتا کہ تتلی بچوں کے ہاتھوں مر گئی ہوگی،توکانپ اٹھتا تھا اور صبح تک اس کی یہ حالت ہو گئی جیسے اس میں جان نہیں رہی۔صبح ابھی سورج کی پہلی کرن اسے گدگدانے آئی تو قریب ہی سے ایک بڑی میٹھی آواز آئی۔پھول نے جھٹ پہچان لیا کہ یہ آواز اس کی تتلی کے سوا اور کسی کی نہیں ہو سکتی۔وہ سمجھا شاید یہ ایک خواب ہے مگر سچ مچ تتلی اس کے پاس آبیٹھی۔پھول تتلی کو دیکھ کر اتنا خوش ہوا کہ اس کا ننھا ننھا رنگ خوشی سے اور بھی سرخ ہوگیا۔
تتلی نے اسے بتایا۔
”جب میں نے بچوں کو تمہاری طرف آتے دیکھا تو میں نے سوچا میں تمہارے آس پاس ہی اڑتی ہوں۔میرے رنگین پر دیکھ کر بچے تمہیں چھوڑ کر مجھے پکڑنے کی کوشش کریں گے اور اس طرح تم بچ جاؤگے اور ایسا ہی ہوا۔وہ تمہارا خیال چھوڑ کر میرے پیچھے بھاگے اور مجھے پکڑنے میں کامیاب ہوگئے۔
وہ مجھے اپنے گھر لے گئے اور وہاں ان کی ننھی بہن مجھے چھیننے کے لیے لپکی ہی تھی کہ ان کی امی نے دیکھ لیا اور بولیں۔”بچو !اسے کیوں لائے ہو۔ہائے بے چاری ننھی ابھی اس کے پر نوچ ڈالے گی، اسے چھوڑ دو۔“
بچوں نے یہ بات سنی اور مجھے فوراً چھوڑ دیا۔چونکہ شام ہو چکی تھی، میں ایک دیوار پر بیٹھ کر صبح کا انتظار کرنے لگی اور صبح ہوتے ہی تمہارے پاس چلی آئی ہوں۔“
پھول کو جب معلوم ہوا کہ تتلی نے اس کی خاطر اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیا تھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔یہ آنسو خوشی کے تھے۔ دونوں دیر تک بڑی محبت سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top