skip to Main Content

بے وقوف کسان یا منحوس الو

جاوید بسام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا الو منحوس پرندہ ہے ؟ اس دلچسپ سوال کا جواب کہانی پڑھ کر حاصل کریں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزرے وقتوں کا ذکر ہے۔ کسی گاؤں میں ایک کسان اپنے کنبے کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ بہت خوش حال تھا۔ وہ اپنی زرخیز زمین پر فصل اگاتا۔ اس کے پاس ایک تندرست بھینس بھی تھی۔جو خوب دودھ دیتی تھی۔ گھر کے احاطے میں پھل دار درخت لگے تھے۔ اس نے بہت ساری مرغیاں بھی پال رکھی تھیں۔ سارا سال انڈے بھی ملتے رہتے تھے۔ غرض وہ محنت کرتا اور اس کا پھل پاتا تھا۔ زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی۔
ایک دن اس نے دیکھا کہ الوؤں کا ایک جوڑا درخت پر گھونسلہ بنا رہا ہے۔ اس نے پروانہ کی کیونکہ اور پرندوں نے بھی وہاں گھونسلے بنا رکھے تھے۔ دوسرے دن جب وہ بھینس کا دودھ دوہنے آیا تو دیکھا کہ وہ کچھ بیمار ہے۔ اس نے چارہ بھی کم کھایا تھا۔ شام کو کسان طبیب کو لے کر آیا۔ اس نے دوا دی لیکن صبح تک بھینس مرچکی تھی۔ اسے بہت افسوس ہوا۔ کچھ دن ہی گزرے تھے کہ احاطے کا دروازہ کھلا رہ گیا۔ اندھیری رات میں گیڈر اندر گھس آئے۔ انہوں نے بہت سی مرغیوں کو مار ڈالا۔ کچھ جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگ گئیں۔ کسان کا بہت نقصان ہوا۔ اس کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ خیر وہ زمین پر اور زیادہ محنت کرنے لگا۔ نئی فصل سے اسے بہت امیدیں وابستہ تھیں۔
فصل تیار کھڑی تھی کہ قریبی نہر کا پشتہ ٹوٹ گیا۔ پانی کا زوردار ریلا سارا کھیت بہا کر لے گیا۔ بھینس اور مرغیوں کے نقصان پر تو وہ صبر کر گیا تھا لیکن اس بار تو کمر ہی ٹوٹ گئی۔ پانی کی زیادتی سے زمین بھی برباد ہو گئی اور اس کے پاس کوئی کام نہ رہا۔ آخر اس نے مزدوری شروع کر دی جو کبھی ملتی تھی کبھی نہیں۔ اس کا گزارہ کرنا مشکل ہو گیا۔ وہ غصے کا تیز تھا۔اکثر بیوی سے جھگڑا ہونے لگا۔ ایک دن ان میں خوب لڑائی ہوئی۔ بیوی ناراض ہو کر میکے دوسرے گاؤں چلی گئی۔ کسان نے کام کاج چھوڑ دیا اور سارا دن آوارہ ادھر ادھر گھومتا رہتا۔ ایک دن وہ احاطے میں بیٹھا تھا کہ ایک فقیرنی مانگتی ہوئی وہاں آگئی۔ اس نے کسان سے پیسے مانگے۔
کسان بولا: ”یہاں تو پہلے ہی حالات خراب ہیں اوپر سے تو تنگ کرنے چلی آئی ہے۔“ فقیرنی نے دیدے گھما کر اسے دیکھا اور بولی: ”جب گھر میں ان منحوسوں کو پالو گے تو حالات تو خراب ہوں گے۔“
اس کا اشارہ الو کے گھونسلے کی طرف تھا کیونکہ کچھ دن پہلے وہ ایک درخت کے نیچے سے گزر رہی تھی کہ ایک مادہ الو نے جس کا درخت پر گھونسلہ تھا اسے ٹھونگے مارے تھے۔ فقیرنی نے اسے خوب صلواتیں سنائی تھیں۔ جب سے وہ الوؤں سے نفرت کرنے لگی تھی۔
کسان بولا: ”گاؤں میں کئی جگہ درختوں پر الوؤں نے گھونسلے بنا رکھے ہیں۔ یہ تو فائدہ مند پرندہ ہے۔“
”یہ منحوس ہے۔ انسان کو تباہ کردیتا ہے۔“ بڑھیا نے ہرزہ سرائی کی اور ہنستی ہوئی باہر نکل گئی۔
کسان نے اس کی بات کو کوئی اہمیت نہ دی لیکن وہ فارغ بیٹھا تھا اور کہتے ہیں فارغ آدمی کا دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔ اسے یاد آیا جس دن الوؤں نے گھونسلہ بنایا تھا اس کے دوسرے دن بھینس مرگئی تھی۔ اس کے ذہن میں خیالات چکراتے رہے۔ آخر وہ الو ہی اسے تمام خرابی کی جڑ نظر آنے لگے۔ وہ غصے میں اٹھا اور ایک لمبی چھڑی اٹھا کر درخت پر مارنے لگا۔ الو ڈر کر دوسرے درخت پر جا بیٹھے۔ اس نے چھڑی مار کر گھونسلہ گرادیا، پھر غلیل میں غلے لگا کر انہیں مارنے لگا۔ وہ ادھر ادھر اڑ کر بیٹھتے رہے آخر ایک طرف اڑ گئے۔ اب وہ اسے اپنی ذمہ داری سمجھنے لگا۔ وہ غلیل لےے پورے گاؤں میں پھرتا رہتا۔ جہاں الو نظر آتے انہیں مارتا۔ ان پر چیختا اور انہیں گالیاں دیتا تھا۔ لوگ اسے منع کرتے لیکن وہ باز نہ آتا۔
آخر ایک دن گاؤں کے ایک سیانے آدمی نے اسے بلایا اور اس سے وجہ پوچھی۔ کسان نے اسے پوری بات بتائی اور کہا کہ اس نے عزم کیا ہے کہ گاؤں سے الوؤں کو بھگا کر دم لے گا۔
سیانے نے کہا: ”الو ہمیشہ سے انسانوں کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ جس طرح دوسرے پرندے ہیں۔ یہ بھی اﷲ کی مخلوق ہیں اور اﷲ کے حکم کے بغیر کوئی بھی چیز انسان کو نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اچھا ہم تمہارے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ نمبر ایک تمہاری بھینس مر گئی، تو بھائی آئے دن گاؤں میں جانور مرتے رہتے ہیں۔ جب جس کا وقت پورا ہوجائے۔ نمبر دو مرغیوں پر گیڈروں کا حملہ تمہاری غفلت کا نتیجہ تھا تم اچھی طرح دروازہ بند کرکے نہیں سوئے تھے اور جہاں تک پشتہ ٹوٹنے اور زمین خراب ہونے کی بات ہے تو میرے بھائی صرف تمہاری زمین تو خراب نہیں ہوئی۔ گاؤں کے آدھے کسانوں کے ساتھ یہ ہوا تھا۔ ان میں، میں بھی شامل ہوں۔ ہم نے زمین پر محنت کی اور اسے دوبارہ کاشت کے قابل بنا لیا ہے۔ تم بھی اپنی حالت بدلو، اﷲ پر بھروسہ رکھو اور زمین پر دوبارہ کام شروع کر دو۔“
لیکن سیانے کی باتوں کا کسان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ اسی طرح الوؤں کی نسل کا دشمن بنا رہا۔ وہ جہاں جاتا لوگوں کو الوؤں کے خلاف بھڑکاتا۔ غلیل اس کے ہاتھ میں رہتی تھی۔ کہتے ہیں اوپر سے گرنے والا ایک ایک قطرہ ایک دن پتھر میں سوراخ کر دیتا ہے۔ بہت سے دوسرے لوگ بھی اس کے ہم خیال ہوگئے کیونکہ انسانوں میں نقل کا مادہ پایا جاتا ہے اور انسان جب کسی غلط عقیدے یا کسی رسم و رواج کو اپنا لے تو پھر اس پر کسی سچی اور حق بات کا اثر نہیں ہوتا۔ وہ خود کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے اور ایسے کام حق اور ثواب سمجھ کر کرتا ہے جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ۔ باتیں سینہ بہ سینہ منتقل ہو کر کچھ سے کچھ شکل اختیار کرلیتی ہےں اور گزرتا وقت ان کو اور پکا کردیتا ہے۔
کسان کی زندگی کا مقصد اب یہی رہ گیا تھا۔ وہ آوارہ گھومتا رہتا۔ اس پر وحشت سوار رہتی۔ وہ دنوں نہیں نہاتا۔ بال جھاڑو جھنکار کی طرح بڑھے رہتے۔ کپڑوں سے دور سے ہی بو آتی تھی۔ آخر ایک دن وہ ایک کھیت کے کنارے مردہ پایا گیا۔ گاؤں والوں نے اس کی تدفین چندہ جمع کرکے کی۔
وقت گزرتا رہا۔ اس کا لگایا ہوا پودا تناور درخت بن گیا۔ بہت سارے دوسرے لوگ بھی اس کے ہم خیال ہوتے گئے۔ جہاں الو نظر آتے وہ انہیں مارتے اور اڑا دیتے۔ آخر کار الوؤں کی عادت بھی بدلنے لگی۔ وہ انسانوں سے دور ہوتے گئے اور انہوں نے اپنے مسکن جنگلوں، ویرانوں اور کھنڈروں میں بنانے شروع کردیے۔ یہاں تک کہ آج بھی بہت سے جاہل لوگ انہیں منحوس سمجھتے ہیں۔

٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top