skip to Main Content

بیماری ہزار نعمت ہے

ڈاکٹر رﺅف پاریکھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دن ہم اپنے کپڑوں پر استری کرنے بیٹھے تو ہمارے بڑے بھائی صاحب تشریف لے آئے۔ ان کے ہاتھ میں دھلے ہوئے کپڑوں کی ایک گٹھڑی تھی، کپڑوں کا یہ پہاڑ انھوں نے ہمارے سامنے ڈھیر کیا اور ایک نادر شاہی حکم صادر کردیا کہ شام تک یہ سب کپڑے استری ہوجائیں۔
ہم کپڑے لے کر امی کے پاس پہنچے اور معصوم سا منھ بنا کر انھیں بھائی جان کے ظلم کی داستان سنائی لیکن ہوا یہ کہ نماز بخشوانے گئے تھے اور روزے گلے پڑگئے۔ امی نے کہا کہ منی اور پپو کی یونی فارم بھی ساتھ ہی استری کردینا۔ آخر بھائی بہنوں کے کام بھی بھائی ہی آتے ہیں۔ ذرا سا کام کہہ دیا تو جان نکلی جارہی ہے، چلو جاﺅ بڑے بھائی کے سب کپڑے منی اور پپو کی یونیفارم، میری ساڑھی اور اپنے تمام دھلے ہوئے کپڑے استری کرو چلو، خدا کی پناہ! آج کل کے لڑکے تو….“
امی تو جانے کتنی دیر تک کچھ کہتی رہیں، ہم چپ چاپ سر جھائے استری کرتے رہے۔ ”بڑے بھائی کے کپڑے اس وجہ سے کہ وہ بڑے ہیں۔ ان کی خدمت تمھارا فرض ہے اور چھوٹے بھائی کے اس لیے کہ آخر چھوٹے بھائی ہیں۔ ابھی انھیں ایسے کاموں کی تمیز کہاں؟ تم بڑے ہو ذرا چھوٹے بھائی کا اتنا تو خیال کیا کرو۔“
”یہ الگ بات ہے کہ ہم سے بڑے ہم کو چھوٹا سمجھ کر خیال نہیں رکھتے اور چھوٹے ہمیں بڑا سمجھ کر کوئی خدمت نہیں کرتے۔ غرض اسی استری میں ٹیلی ویژن پر ہمارے پسندیدہ پروگرام بھی نکل گئے۔
اور باتیں تو خیر ہم جیسے تیسے سہہ لیتے مگر ایک چیز ہم سے برداشت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے ساتھ اپنا گزارا ہے اور وہ ہے اسکول، گدھوں کی طرح ہوم ورک کرنا، توتوں کی طرح رٹنا، گھوڑے کی طرح چابک کھانا اور گائے کی طرح چپ رہنا۔ غرض اسکول کی وجہ سے ہم رفتہ رفتہ جانور بنتے جارہے تھے اور دوسری بات یہ کہ استاد صاحبان ہمارے ہی پیچھے پڑجاتے ہیں اور کسی سے کچھ نہیں کہتے۔ بس ہمارے سر پر ڈنڈا لیے کھڑے ہیں اور وہ بھی بہت معمولی باتوں پر، یعنی تاریخ کیوں یاد نہیں؟ الجبرے کے سوال کیوں نہیں نکالے؟ ایک ہفتے سے کہاں غائب تھے؟ جماعت میں امرود کیوں کھارہے ہو؟ لیجیے یہ بھی کوئی بات ہوئی۔
خیر ہم نے بھی فیصلہ کرلیا تھا کہ جب تک بے آرامی کی فضا ختم نہ کرلی جائے، چین اور آرام حرام ہے، اس لیے دن رات غور و فکر ہی میں بسر ہونے لگے کہ اسکول اور کام کاج سے کس طرح چھٹکارا ملے؟“ خدا بھلا کرے ہماری بھابی صاحبہ کا جو بیٹھے بٹھائے بیمار ہوگئیں اور ہم کو نہایت عمدہ ترکیب بلاقیمت بتادی گئی۔ ہم بھابی صاحبہ کی بیماری کو نہایت حسرت سے تکا کرتے تھے۔ یہ دودھ، یہ بسکٹ، یہ پھل، یہ آرام، یہ ناز برداریاں، یہ تیمارداریاں، یہ حسیں بیماریاں۔ آخر کار ہم نے بھی بیمار ہونے کا فیصلہ کرلیا۔
جوں جوں بھابی صحت یاب ہوتی گئیں، ہم بیمار ہوتے گئے، یعنی ادھر کا مال ادھر آتا گیا۔ جوں جوں بھابی کی بیماری گھٹی، ان کی ناز برداری گھٹی۔ ادھر ہم بیمار ہوتے چلے گئے اور ناز برداریوں کی کثرت ہوتی گئی۔ وہاں کے سارے پھل، دودھ کے گلاس اور بسکٹ کے پیکیٹ ادھر منتقل ہونے لگے۔ اسکول کی چھٹیاں الگ، ہمیں کوئی خاص بیماری تو نہیں تھی، بس کبھی پیٹ میں درد ہوجاتا۔ کبھی سر درد کے مارے پھٹنے لگتا اور کبھی ہاتھ پیر اینٹھ جاتے۔ دو ہفتے تو مزے سے کاٹ دیے لیکن اس کے بعد گھر والے اکتائے نظر آنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کردیا اور جب ان کا شک بڑھ گیا تو ایک دن ہماری موجودگی میں جان بوجھ کر بلند آواز سے بھائی جان کو بتایا کہ اب ایک کڑوی دوا دوں گا تاکہ رﺅف جلدی سے ٹھیک ہوسکے۔ ورنہ پھر انجکشن….“
یہ سن کر ہم دھک سے رہ گئے اور ڈاکٹر صاحب بھی تاڑ گئے لیکن ہم نے بھی مطمئن ہونے کی اداکاری شروع کردی کیوں کہ وہ دوا تو ہمیں پینی نہیں تھی۔ البتہ برآمدے میں رکھا ہوا گملا روز بہ روز سوکھتا جارہا تھا۔ ابا جان نے بھی ہمیں ایک دو بار ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھا اور الٹے سیدھے سوال پوچھے۔ تب ہم نے سوچا کہ اب کافی ہولیا۔ اب ایک دو ماہ ٹھہر کر یہ ناٹک رچائیں گے۔ مگر آنکھوں میں بار بار بسکٹ، پھل، دودھ اور سارے دن کا آرام پھرنے لگا اور ساتھ ہی اسکول کا بھی خیال آیا۔ ہم نے سوچا کہ بس دو دن اور یہ سب کرلیں۔ اس کے بعد تندرست ہوجائیں گے اور کچھ عرصے بعد…. ہم یہ سب سوچ کر مسکرادیے…. مگر افسوس کہ اب ہم اگر سچ مچ بیمار ہوتے ہیں تو بھی کسی کو یقین نہیں آتا بلکہ سب کہتے ہیں کہ” بہانے کررہا ہے۔ اسکول نہیں جانا چاہتا“ بھائی جان آنکھیں نکال کر کہتے ہیں، ”جاﺅ کپڑے استری کرو۔ پھر ہوم ورک کرلینا۔ استری کے بعد بازار سے سودا لے آﺅ اور میری کل کی پارٹی کا انتظام کرلو۔“ وغیرہ وغیر۔
دراصل ہوا یہ تھا کہ پپو صاحب ایک دن جب ہمارے کمرے میں ہمارے بسکٹ چرانے آئے تو انھوں نے اپنے اس بیمار بھائی کو دوا گملے میں انڈیلتے دیکھ لیا۔ اس دن امی کو گملے کے پودے سوکھنے کا راز معلوم ہوگیا اور ہم…. اس کے بعد پھر کبھی بیماری نہیں ہوسکے ۔ سارے آرام اور مزے ختم۔ حالاں کہ تندرست ہیں اور تندرستی کو ہزار نعمت کہا جاتا ہے لیکن ہم کو ایک بھی نعمت میسر نہیں۔ ہمارے ہاں ساری نعمتیں بیماروں کے لیے ہیں کہ تندرستی ہزار نعمت نہیں بلکہ بیماری ہزار نعمت ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top