skip to Main Content

بہادر بچے

محمد عابد شفیع احمد

……………………………..

دھوپ کی شدت سے جنگ کا میدان تپ رہا تھا۔ چشمِ فلک آج حق و باطل کے ایک عجیب معرکے کی منتظر تھی۔ 17 رمضان المبارک 2 ہجری کا ایک گرم دن تھا۔ دونوں فوجیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے آمنے سامنے صف آراء تھیں۔ ایک طرف سیکڑوں بڑے بڑے سورما اور نامی گرامی جنگجو سر سے پاؤں تک لوہے میں غرق، کیل کانٹے سے لیس ہزاروں خداؤں کے پجاری، فتح و نصرت کے دعویدار، حق کو نیست و نابود کرنے کے ناپاک ارادوں سے صف بندی کئے کھڑے تھے۔ دوسری طرف زنگ آلود تلواروں سے مسلح، فاقہ کش، مفلوک الحال، ایک خدا کے 313 سچے پرستار، فتح و نصرت کے طلب گار، امیر لشکر، آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ کی زیر قیادت حق کا بول بالا کرنے کے لئے میدانِ جنگ میں منتظرشہادت تھے۔ جنگ کی ابتداء اس زمانے کی روایت کے مطابق انفرادی مقابلوں سے ہوئی اور پھر چشم فلک نے د یکھا کہ بڑے بڑے باطل پرست سورما لمحوں میں خاک و خون چاٹنے پر مجبور تھے۔ سردارانِ کفار یہ حیرت ناک، غیر متوقع منظر دیکھ کر بوکھلا گئے اور لشکر کفار کو عام حملے کا حکم دے دیا۔
لشکرِ کفار کو بڑھتا دیکھ کر جنت کے مسافر بھی تلواریں سونتے اسلام دشمنوں پر ٹوٹ پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے کشتوں کے پشتے لگادیئے۔ جنگ زور و شور سے جاری تھی۔ دونوں فوجیں ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر حملے کررہی تھیں۔ تلواروں کی جھنکار اور زخمیوں کی چیخ و پکار سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ پسینے میں شرابور اسلامی لشکر کے مجاہد حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف اپنے دائیں بائیں دیکھتے ہیں اور حیران رہ جاتے ہیں۔ ان کی حیرت کی وجہ ان کے دائیں بائیں کھڑے دو بچے تھے جن کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔
حضرت عبدالرحمن انہیں دیکھ کر سوچتے ہیں کہ کاش میرے یہ ساتھی نوجوان ہوتے تاکہ آڑے وقت میں میری کچھ مدد کرسکتے، مگر یہ تو بچے ہیں، اب مجھے دشمنوں سے بھی مقابلہ کرنا ہوگا اور ان کی حفاظت بھی کرنا ہوگی۔ بہتر یہی ہے کہ میں انہیں واپس بھیج دوں۔
اچانک ان کی سوچوں کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے اور وہ دیکھتے ہیں کہ ان دونوں بچوں میں سے ایک بچہ انہیں پکار رہا ہے۔ آپؓ نے اس بچے سے پوچھا بیٹا کیا بات ہے؟ اس نے چپکے سے کہا ’’چچا جان آپ ابوجہل کو جانتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں پہچانتا ہوں۔ لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو؟ بچے نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ ابوجہل ہمارے پیارے نبیﷺ کی شان میں گستاخیاں کرتا ہے اور میں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ اس دشمن اسلام اور گستاخِ رسول کو جہاں بھی دیکھوں گا جہنم ر سید کرکے دم لوں گا۔ چاہے اس کی خاطر میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ ابھی اس بچے نے اپنی بات مکمل ہی کی تھی کہ دوسرے بچے نے بھی چپکے سے حضرت عبدالرحمنؓ سے مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل کا پوچھا اور اسے قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ عبدالرحمنؓ نے دل میں سوچا کہ ہیں تو یہ بچے مگر بہادری میں جوانوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ اچانک حضرت عبدالرحمنؓ کی نظر سامنے میدان میں گھوڑے پر سوار ابوجہل پر پڑی۔ آپؓ نے ابوجہل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان دونوں بچوں سے کہا کہ تمہیں جس کی تلاش ہے وہ دشمن اسلام سامنے گھوڑے پر سوار جارہا ہے۔ یہ سُن کر وہ دونوں بچے شاہین کی طرح جھپٹے اور دشمن کی صفیں چیرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھے اور ابوجہل تک جاپہنچے اور ایسے بجلی کی تیزی سے اس پر وا رکرنے شروع کئے کہ وہ گھبرا گیا۔ ابوجہل چونکہ گھوڑے پر سوار تھا، اس لئے وہ بہادر بچوں کے وار سے کسی حد تک محفوظ تھا اور بچوں کے اکثر وار خالی جاتے تھے۔ بچوں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو ان میں سے ایک نے اچانک ابوجہل کے گھوڑے کے پیروں پر وار کرکے انہیں کاٹ دیا۔ اس ناگہانی آفت سے ابوجہل سنبھل نہ سکا اور گھوڑے سے منہ کے بل زمین پر گرگیا۔ جیسے ہی ابوجہل زمین پر گرا دوسرے بچے نے پھرتی سے اس کی ٹانگ پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ وہ کٹ کر دور جاگری۔ ابوجہل کا بیٹا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ دوڑ کر باپ کی مدد کو آیا اور اس بچے کے کندھے پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ اس کا بازو کٹ کر کھال سے لٹک گیا، لیکن اس بہادر بچے نے لڑنا بند نہ کیا اور زخمی بازو کے ساتھ لڑتا رہا۔ جب اس لٹکے ہوئے بازو سے لڑنا مشکل ہوگیا تو اس نے بازو کو پاؤں کے نیچے رکھ کر زور سے کھینچا جس سے وہ کھال ٹوٹ گئی جس سے بازو لٹک رہا تھا اور پھر اُس نے اپنے اس ناکارہ بازو کو پھینک دیا اور لڑنا شروع کردیا۔ پہلا بچہ بھی زخمی حالت میں گستاخِ رسول ابوجہل کو مزہ چکھا رہا تھا۔ اسی ا ثناء میں مسلمانوں کا لشکر آپہنچا اور اس نے بچے کچھے سردارانِ کفار اور ان کے فوجیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا اور بقیہ افراد کو قیدی بنالیا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی دعا قبول فرمائی ا ور انہیں حق و باطل کی اس فیصلہ کن جنگ میں کامیابی عطا کی۔ جنگ کے بعد جب اسلامی لشکر میدانِ جنگ کا معائنہ کررہا تھا تو انہیں ابوجہل کی سر کٹی لاش ملی جسے ان دو بہادر بچوں نے جہنم رسید کیا تھا۔ جنگ کے بعد دونوں بہادر بچے حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا کارنامہ سنایا۔ آپﷺ ان کی بہادری ا ور اسلام سے محبت کا یہ کارنامہ سُن کر بہت خوش ہوئے اور ان کے لئے دعا فرمائی۔ وقت کے سب سے بڑے دشمنِ اسلام ابوجہل کو جہنم واصل کرنے والے یہ بہادر بچے حضرت معاذؓ اور معوذؓ تھے۔ جن کا تعلق مدینہ منورہ سے تھا اور یہ انصار تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top