skip to Main Content
بچاؤ

بچاؤ

حمادظہیر

……………………………………

’’کام بہت آسان ہے اور پیسے بہت!‘‘
’’واقعی! لیکن مسئلہ پھر وہی ہے، اگر بڈھا خاموش رہا‘‘۔
’’ہم نے بھی بڑے بڑوں کی زبانیں کھلوائیں ہیں‘‘۔
’’لیکن میری جان بڈھے لوگ زیادہ تشدد نہیں برداشت کرتے، آسانی سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں!‘‘
’’تشدد نہیں برداشت کرتے تو راز زیادہ آسانی سے اُگل دیں گے نا!‘‘
مجھے جن ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑا اور یہ باتیں سننے سے انسانوں کی طرح میرے کان بھی کھڑے ہوگئے!
میں ان دونوں کو ایجنٹ کہنا ہی مناسب سمجھوں گا۔ جو بے چارے میری موجودگی سے بے خبر نہ جانے کس بڈھے پر تشدد کرکے اس کی زبان کھلوانے کے منصوبے بنا رہے تھے۔
انسان بھی کتنا بے خبر ہوتا ہے کہ اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ کب اسے کون دیکھ اور سن رہا ہے۔ ویسے خدا تعالیٰ تو ہر جگہ ہوتا ہی ہے۔ کراماً کاتبین بھی موجود رہتے ہیں۔ بہرحال ان کی بات جاری تھی۔
’’کسی کام کو آسان نہ سمجھا چاہئے، نہ جانے یہ کام ہمارے لئے کتنا مشکل ثابت ہو!‘‘
’’کوئی نہیں، بس ایک مرتبہ پتہ چل جائے کہ وہ چیز کہاں موجود ہے، پھر تو اسے حاصل کرنا چنداں مشکل نہیں!‘‘
’’وہ کیوں بھلا‘‘۔
’’اس لئے کہ گھر میں کوئی مرد تو ہے نہیں وہ بڈھا ہے یا اس کا ایک نوعمر پوتا۔ باقی اس کی بہو پوتیاں ہیں جن سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں!‘‘
اس کے آخری جملے نے مجھے بُری طرح بھڑکا دیا۔ وہ جملے میری سماعت سے بار بار ٹکرا رہے تھے ’’جن‘‘ سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں، ’’جن‘‘ سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔۔۔‘‘
اور اسی وجہ سے میں نے اس مرتبہ خود ہی میدانِ عمل میں اُترنے کا فیصلہ کیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’بہن جی، بے روزگار ہوں نوکری دے دو!‘‘
’’بہن جی‘‘ نے جو ایک مسکین صورت شخص کو دروازے پر کھڑا پایا تو تنک کر بولیں۔
’’آپ کو یہ کوئی دفتر یا کارخانہ لگ رہا ہے کیا، یہ تو ہمارا گھرانہ ہے‘‘۔
’’خوشحال گھرانہ‘‘ میں دل ہی دل میں گنگنایا پھر ویسی ہی صورت بنا کر بولا ’’جی میرا مطلب ہے چھوٹے موٹے کام کردیا کروں گا۔ بس دو وقت کی روٹی دے دیجئے گا!‘‘
’’دو وقت! روٹی‘‘ وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولیں پھر اچانک چٹکی بجا کر بولیں ’’اچھا۔۔۔ ڈبل روٹی‘‘۔
’’جج جی ہاں‘‘۔ میں نے منہ بنایا۔
’’لیکن ہمارے یہاں تو ڈبل روٹی آتی ہی نہیں، ایک وقت پراٹھا، ایک وقت روٹی اور ایک وقت چاول۔۔۔ سوری‘‘۔
دروازہ بھڑ سے بند ہوگیا!
جب ان دونوں ایجنٹوں نے فون کرکے کسی کو اس گھر کا محل وقوع سمجھایا تھا، تو میرے لئے اس ’’کسی‘‘ بندے تک پہنچنا ایک مشکل کام تھا۔ پھر میں نے یہ بھی سوچا کہ یہ لوگ نہ جانے کتنے ہوں، ایسا نہ ہو کہ میں ایک دو کی جب تک خبر لوں اس وقت تک کوئی اور یہاں کام دکھا جائے اور نہ جانے کسی کو، بلکہ شاید ملک ہی کو کوئی نقصان پہنچ جائے!
چنانچہ ایک نوکر کی سی وضع اختیار کرکے میں یہاں ملازمت تلاش کرنے پہنچا۔ دوبارہ گھنٹی بجائی۔ اس مرتبہ ’’بہن جی‘‘ کے ساتھ ان کی ’’ماں جی‘‘ بھی تشریف لائیں۔
’’کیا بات ہے، کیوں تنگ کررہے ہو‘‘۔
مجھے یقین ہوگیا کہ اس ’’گھرانے‘‘ میں مرد لوگ نہیں، جبھی خواتین کو دروازے پر آنا پڑرہا ہے۔
’’وہ دراصل ابھی میں نے ۔۔۔ میں نے اس لڑکی کی طرف اشارہ کیا، تو وہ بولی۔
’’امی یہ کہہ رہے تھے کہ چھوٹے موٹے کام کے لئے انہیں نوکر رکھ لیا جائے، میں نے بتادیا کہ چھوٹے کام تو ہم خود ہی کرلیتے ہیں، ہاں البتہ موٹے اور بڑے کام۔۔۔‘‘
امی نے اسے ڈانٹ کر چپ کرایا اور بولیں:
’’دیکھو کام کرانے کے لئے ہمیں ایک لڑکے کی ضرورت ضرور تھی، لیکن تم تو پورے آدمی ہو۔ لڑکیوں کا گھر ہے ہم بغیر دیکھے بھالے تمہیں کیسے رکھ سکتے ہیں‘‘۔
مجھے سے بھی اب برداشت نہ ہوا۔ شکل تو وہی معصوم بنائی، لیکن جواب ترکی بہ ترکی دیا۔
’’دیکھ تو رہی ہی ہیں، بھال بھی لیں!‘‘
بھالنے کے بجائے انہوں نے دروازہ بند کردیا۔ میں نے سنا
’’اب وہ وقت دور نہیں جب محلے کے اوباش ہمیں تنگ کرنے لگیں گے، تمہارے ابو کو اب سعودیہ سے واپس آہی جانا چاہئے!‘‘
ایک دو گھنٹے میں نے گویا انگاروں پر لوٹتے ہوئے گزارے۔ پھر دوبارہ ان کی گھنٹی بجائی!
اس مرتبہ ایک آٹھ دس سالہ لڑکے نے دروازہ کھولا اور اپنے ہی ہم عمر کو کھڑا دیکھ کر دانت نکل کر ہنسنے لگا۔ میں نے بھی اسے خوب موقع دیا تاکہ اس کا جتنا خون بڑھ سکتا ہے بڑھ جائے!
پیچھے سے وہی لڑکی نمودار ہوئی۔
’’کون ہے صہیب!‘‘ پھر مجھ سے بولی۔
’’ہاں کیا بات ہے؟‘‘
’’بہن جی، کام چاہئے!‘‘ میں نے کہا۔
’’بہن جی‘‘۔ وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔
’’جی وہ چھوٹا موٹا کام کردیا کروں گا۔ مجھے نوکر رکھ لو‘‘۔
’’چھوٹا موٹا‘‘۔ پھر وہ چونکیں، پھر سنسناتے انداز سے پوچھا۔
’’اور معاوضہ کیا لوگے، یعنی تنخواہ!‘‘
’’بس دو وقت کی روٹی مل جائے‘‘۔ میرے ’’دو وقت کی روٹی‘‘ سے تو ان کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ مجھے سوجھی شرارت بولا ’’یعنی ڈبل روٹی!‘‘
بس جی، انہوں نے ایک زوردار چیخ ماری اور دل تھام کر بولیں۔
’’کک کون۔۔۔ کون ہو تم‘‘۔
اب مجھے اپنی غلطی کا اچھی طرح احساس ہوا، یہ بھی خیال آیا کہ لڑکیاں تو عموماً بہت ہی زیادہ توہم پرست وغیرہ ہوتی ہیں، اس نے ایک لمحے سے بھی پہلے یہ فتویٰ لگانا ہے کہ میں ضرور کوئی جن یا بھوت ہوں۔ میں نے حالات سنبھالتے ہوئے کہا۔
’’وہ، صبح میرا چاچا آیا تھا، اس نے مجھے بھیجا ہے کہ آپ کو کوئی لڑکا چاہئے کام کاج کرانے کے لئے!‘‘
’’اوہ اچھا‘‘۔
’’اس نے مجھے یہی جملے سکھا کر بھیجے تھے کہ یہ یہ بولنا ہے!‘‘ میں نے صفائی پیش کرنے کے بعد احتیاطاً پونچھا بھی لگادیا۔
کچھ دیر بعد جب امی کے سامنے آنکھیں بند کئے اور ہاتھ باندھے کھڑا باآوازِ بلند، ترنم کے ساتھ یہ مصرعہ پڑھ رہا تھا۔
میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں پر کام کروں گا بڑے بڑے ۔۔۔تو میری نوکری پکی ہوچکی تھی!
میری اصل توجہ کا مرکز تو دادا ابو تھے جن کی وجہ سے میں یہاں موجود تھا۔ باقی لوگوں میں امی، آپا، اچھی آپا، صہیب اور بیا تھے۔ ان کے ابو ملازمت کے سلسلے میں ملک سے باہر تھے۔ اب میرا کام یہاں پر دادا سے دوستی بڑھا کر ان سے اس راز کے بارے میں معلوم کرنا تھا اور اس کا صحیح انتظام کرکے اس کو متعلقہ لوگوں تک پہنچانا تھا اور جب تک یہ نہ ہوجاتا اس وقت تک دادا اور ان کے راز کی حفاظت کرنی تھی۔
ایک رات اس ’’گھرانے‘‘ کو کسی دعوت میں جانا تھا۔ میں نے حسبِ ضرورت بہت ضد کی کہ مجھے بھی ساتھ لے جایا جائے، مگر کوئی نہ مانا۔
’’اتنے ہی ندیدے ہو تو، تمہارے لئے تین چار آدمیوں کا کھانا لیتے آئیں گے!‘‘
میں بہت منمنایا، لیکن وہ مجھے چھوڑ ہی گئے۔ میں اداس اداس بیٹھا تھا کہ اچانک چونک پڑا۔ مجھے خیال آیا کہ دونوں ہی طرف سے وار ہوسکتا ہے۔ ادھر گھر خالی پڑا ہے۔ یہاں دھاوا بولا جاسکتا ہے، اُدھر دادا پر بھی حملہ کیا جاسکتا ہے۔ مجھے اپنی جناتی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا پڑا اور تھوڑی تھوڑی دیر میں دونوں ہی کا جائزہ لے رہا تھا۔
پھر مجھے ایک سنسان سڑک پر کچھ رکاوٹیں نظر آئیں اور قریب ہی وہ دونوں بھی نظر آگئے جن کی وجہ سے میں آج یہاں تھا۔
دادا ابو کو کار روکنی پڑی۔ دونوں قریب آئے اور پستول دادا کے سر سے لگادی۔
’’شاباش بڈھے۔ چپ چاپ اُتر آؤ!‘‘
’’اللہ کے نام پر بابا!‘‘ میری زوردار آواز نے ماحول کی سنگینی کو کچھ کم کیا۔
’’ہائے یہاں پر بھی آگیا کمبخت!‘‘ ایک ایجنٹ نے ناک بھوں چڑھائی۔
’’خبردار! بھاگو یہاں سے‘‘۔
’’بھاگنا آتا ہوتا تو تمہارے پاس لنگڑا کر کیوں آتا، بابا‘‘۔ میرا لہجہ خالصتاً فقیرانہ تھا۔
’’مم ۔۔۔ معاف کرو بابا‘‘۔
معاف کیا۔ اب خدا واسطے کچھ دیتے جاؤ، تمہارے بچوں کا بھلا ہو‘‘۔ میں اب ان سے کافی قریب آگیا۔ گاڑی میں موجود امی اور آپا مجھے دیکھ کر بری طرح چونکیں، کیونکہ میرا حلیہ بے شک فقیروں کا سا تھا، لیکن شکل اسی شخص کی تھی جو ان کے یہاں ملازمت کے لئے گیا تھا۔
’’تم دیکھ نہیں رہے ہمارے ہاتھوں میں کیا ہے‘‘۔ ایک ایجنٹ غرایا۔
’’تت۔ تو کیا تم بھی یہاں کاسۂ گدائی لئے بھیک مانگ رہے ہو ان سے!‘‘ میں نے حیرت سے کہا پھر بڑبڑایا۔
’’ایک تو ہر جگہ میرے حریف اور رقیبِ روسیا پہنچ جاتے ہیں‘‘۔
ایک نے پستول دادا کی کنپٹی پر رکھا ہوا تھا، دوسرے نے مجھ پر تان لیا اور بولا ’’لو دیکھ لو اچھی طرح اور اب تم بھی ہاتھ اوپر اُٹھادو!‘‘
’’بھبھ۔۔۔ بھائی میں تو اندھا فقیر ہوں۔ مجھے تمہارے ہاتھ میں یہ سیاہ پستول بالکل نظر نہیں آرہا‘‘۔ میں ہکلایا۔ مگر سہمنے کی اداکاری کرتے ہوئے ہاتھ بھی اُٹھادیئے!
اس نے نہایت پھرتی سے پستول کا دستہ میرے سر پر مارنے کی کوشش کی مگر۔۔۔
میں کسی فلم یا ناول کا ہیرو تو نہ تھا، لیکن کم از کم ایک جن ضرور تھا۔ میں نے نہ صرف وہ پستول جھپٹ لیا، بلکہ اس زور کا جھٹکا مارا کہ وہ بے چارہ چاروں شانے سڑک پر چت ہوگیا۔
یہ صورتحال دیکھ کر دوسرے نے اپنا رُخ دادا سے موڑ کر میری جانب کیا اور فائر کردیا۔ ایک لمحہ سے بھی پہلے میں نے انسانی صورت چھوڑ کر عکس کی صورت اختیار کرلی! گاڑی میں موجود لوگ خوف سے آنکھیں بند کرکے چیخیں مار رہے تھے۔ اور میں مزے سے آنکھیں بند کئے کھڑا تھا۔
’’کرلو اپنے سارے ارمان پورے، فقیروں پر تمہاری گولیاں اثر نہیں کرتیں‘‘۔ کچھ ہی دیر میں اس کے سارے تیر کمان سے نکل چکے تھے اور دادا نے ریورس گیئر لگادیا تھا، جبکہ میں اس وقت یہ شعر پڑھ رہا تھا!
نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
*۔۔۔*۔۔۔*
چونکہ مجھے دادا اور گھر کی، جس میں یقیناً وہ راز موجود تھا، زیادہ فکر تھی، لہٰذا میں ان دونوں کا کوئی خاص انتظام نہ کرسکا۔ یا تو گھر کا چکر لگاتا رہا یا پھر دادا کی گاڑی کے ساتھ اُڑتا رہا۔ جلد ہی یہ قافلہ گھر پہنچ گیا۔
’’بڑی جلدی ہو آئے، لائیے میرے حصے کا تین چار آدمیوں کا کھانا‘‘۔ میں نے چڑایا۔
’’ہماری جان پر بنی ہے اور اسے کھانے کی پڑی ہے‘‘۔ اچھی آپا نے منہ بنایا۔
’’کیا ہوگیا آخر‘‘۔ میں نے جعلی تجسس سے پوچھا۔
’’ڈاکو مل گئے تھے راستے میں! اگر خدانخواستہ سارے زیورات اُتروا لیتے تو کیا ہوتا‘‘۔
یہ تو مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ دونوں زیورات کے چکر میں تو قطعی نہیں تھے۔
’’پھر کیا ہوا‘‘۔
’’ارے وہ تمہارا چاچا۔۔۔‘‘ آپا کچھ کہنے ہی والی تھیں کہ امی نے جلدی سے بات کاٹ کر کہا۔
’’ہاں۔۔۔ کیا کررہا ہے وہ آج کل‘‘۔
’’جی نوکری تو دی نہیں تھی آپ نے۔ سنا ہے بھیک مانگنے لگ گیا ہے‘‘۔
’’اوہ ہو۔۔۔ بڑا افسوس ہوا بھئی۔ کام کاج کے قابل آدمی کو بھیک نہیں مانگنی چاہئے‘‘۔ دادا ابو نے بھی زبان کھولی۔
’’تم ایسا کرو کہ آج چھٹی کرو۔ ذرا اپنے چاچا کی خبر لے لو۔ اور یہ سو روپے لیتے جاؤ اسے دے دینا‘‘۔ امی نے کہا وہ ’’چاچا‘‘ کے بارے میں بہت فکرمند نظر آرہی تھیں۔
لیکن میں یہاں سے ابھی جانا نہیں چاہتا تھا۔ جھٹ بولا۔
’’مجھے تو چاچا کا گھر معلوم نہیں‘‘۔
’’کمال ہے اپنے چاچا ہی کا گھر نہیں معلوم‘‘۔ اچھی آپا بولیں۔
’’میرا ہی نہیں وہ تو سارے محلے کا چاچا ہے۔ مہینے دو مہینے میں کبھی نظر آجاتا ہے‘‘۔
سب نے سر پیٹ لیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
رات گئے میں دادا ابو کے پاس بیٹھا تھا۔ اس لئے کہ ایک نوکر لڑکے کے روپ میں اس گھرانہ میں شامل ہونے کا اصل مقصد دادا ابو اور ان کے راز کا ان دو ایجنٹوں سے بچاؤ تھا، جنہیں میں نے بحیثیت جن باتیں کرتے سنا تھا اور بعد میں دادا کو اغواء کرنے کی ان کی ایک کوشش بھی فقیر کے روپ میں پہنچ کر ناکام بنادی تھی۔
لہٰذا میری توجہ کا اصل مقصد دادا ابو ہی تھے۔ میں کافی منصوبہ بندی سے آیا تھا اور میرے خیال میں اس کے نتیجے میں دادا کا راز یا اس سے متعلق کوئی بات اُگل دینا بہت زیادہ متوقع تھا۔
لیکن۔۔۔ یہ فقط ایک جن کا خیال تھا۔
دادا ابو آرام کرسی پر بیٹھے ایک موٹی سی کتاب میں محو تھے اور مجھے ذرا توجہ نہ مل رہی تھی۔ کتاب کی ضخامت کو دیکھ کر مستقبل قریب میں اس کا امکان بھی نہ تھا چنانچہ میں نے مداخلت کی۔
’’میرے نانا بھی بالکل آپ جیسے تھے اور میں ان کی بہت خدمت کیا کرتا تھا‘‘۔ میں نے کہنے کے ساتھ ہی دادا کے پاؤں دبانے شروع کردیئے!
نہ جانے کتنے عرصے بعد کوئی ان کا پاؤں دبا رہا تھا کہ جس کی وجہ سے نتیجہ میری توقعات سے بہت بڑھ کر نکلا۔ دادا نے فوراً کتاب میں نشان لگا کر اسے رکھا اور بولے۔
’’وہ لوگ بہت سکھی رہتے ہیں جو اپنے بڑوں کی خدمت کرتے ہیں اور ان کی دعائیں لیتے ہیں!‘‘۔
’’جی جی میرے نانا بھی مجھے بہت دعائیں دیا کرتے تھے، آپ بھی مجھے دعائیں دیں نا!‘‘
پاؤں تو شاید پہلے بھی کبھی کسی نے دبا ہی دیئے ہوں، لیکن دعاؤں کا ایسا کھلم کھلا مطالبہ یقیناً پہلی مرتبہ تھا۔ دادا ہنس کر بولے۔
’’واہ میاں واہ۔۔۔ وہ کیا بھلا سا نام بتایا تھا تم نے اپنا‘‘۔
’’جی میں نے تو ابھی تک آپ کو اپنا کوئی بھلا یا برا نام نہیں بتایا‘‘۔ میں نے منہ بنایا۔
’’اچھا پھر یہ گھر والے تمہیں اب تک کس نام سے پکار رہے ہیں؟‘‘ دادا نے حیرانگی سے پوچھا۔
’’جی چھوٹو، چھوٹو کہتے ہیں‘‘۔
’’اوہ یہ تو غلط بات ہے کسی کا نام بگاڑنا یا ایسا نام رکھنا تو درست نہیں‘‘۔ دادا بولے تو میں نے محسوس کیا کہ میں اپنے منصوبے سے بہت دور نکلتا جارہا ہوں۔ جلدی سے بولا:
’’تو میں تو ہوں ہی چھوٹا نا۔۔۔ کیا ہوا‘‘۔
’’اچھا!‘‘ دادا نے کندھے اُچکائے اور میں مطلب پر آگیا۔
’’میرے نانا نے مجھے ایک کہانی سنائی تھی، لیکن اس وقت میں بہت چھوٹا تھا، اس لئے وہ کہانی مجھے بھول گئی، کیا آپ مجھے وہ کہانی سنادیں گے؟‘‘
دادا نے مجھے یوں گھورا جیسے میرے سر پر سینگ اُگ آئے ہوں۔ ’’ہمیں کیا معلوم میاں کہ وہ کہانی کیا تھی!‘‘
میں نے دادا کو اُکسانے کے لئے مزید چھیڑا۔
’’آپ اتنی موٹی موٹی کتابیں پڑھتے ہیں، آپ ہی کو نہیں پتا‘‘۔
دادا نے اپنے سر کے سفید بالوں کو استعمال کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا اچھا، وہ تو ہمیں پتا ہے۔ لیکن ذرا سی دو چار باتیں تو اس کی یاد دلاؤ!‘‘
میں نے جھٹ پکا پکایا ان کے سامنے رکھ دیا۔
’’اس میں ایک آدمی تھا، جس کو چند دشمنوں نے پکڑ لیا تھا۔ وہ دشمن اس آدمی سے کسی اہم چیز کی بات معلوم کرنا چاہتے تھے، کوئی خاص چیز جو اس آدمی کے پاس تھی۔ لیکن کسی کو پتا نہیں تھا کہ وہ کیا ہے اور کس کے پاس ہے!‘‘
دادا کے چہرے پر وہ چمک یا تبدیلی نہ آئی جس کی مجھے اُمید تھی، پھر بھی وہ بولے۔
’’اس کے بعد کیا ہوا تھا؟‘‘
’’یہی تو مجھے یاد نہیں اور جب سوچتا ہوں شدید الجھن کا شکار ہوجاتا ہوں۔ یہ بات تو اب آپ بتائیں گے اور کہانی مکمل کریں گے‘‘۔ میں معنی خیز انداز میں بولا۔ منزلِ مقصود کی لگن میں مجھے اس کا بھی خیال نہ رہا کہ روپ تو میں نے ایک نوعمر لڑکے کا دھارا ہوا ہے اور باتیں بڑوں جیسی کررہا ہوں!
دادا جھلا کر بولے ’’بھئی جس جگہ کو بھی اس نے محفوظ خیال کیا ہوگا۔ وہاں رکھ دیا ہوگا!‘‘
یہ جھلاہٹ میرے راستے کی دیوار تھی، لہٰذا میں نے جلد اسے ڈھانے کی کوشش کی۔
’’ارے دادا ابو آپ کے پیر کے ناخن بھی اس قدر بڑھے ہوئے ہیں، لائیے میں انہیں کاٹ دیتا ہوں!‘‘
دادا کی ساری جھلاہٹ ہوا ہوگئی اور خوش ہوکر بولے۔ ’’میاں تم بے وقوف ضرور ہو مگر ہو اچھے بچے!‘‘
میں دادا کے ناخن کاٹتے وقت سوچ رہا تھا کہ یہ ثواب تو مفت ہی ہاتھ آیا۔ دادا گہری سوچوں میں تھے سرد آہ بھر کر بولے۔
’’آہ۔۔۔ بڑھاپے میں یہ کام کس قدر مشکل لگتے ہیں۔ کاش ہم نے اپنے بزرگوں کی یوں خدمت کی ہوتی تو ہمارا بھی کرنے والا کوئی ہوتا!‘‘
’’میں ہوں تو دادا ابو‘‘۔ میں جھٹ بولا، اور پھر اس سے پہلے کہ گاڑی کسی اور طرف چل پڑتی پوچھ بیٹھا۔
’’دادا ابو اگر وہ آدمی آج کل کے زمانے کا ہوتا، تو وہ کہاں رکھتا وہ اہم چیز!‘‘
’’میاں، آج تو ایک ہزار جگہیں ہیں جہاں آدمی کوئی چیز حفاظت کی نیت سے رکھ سکتا ہے، مگر مزے کی بات کہ ہر ہی جگہ وہ غیر محفوظ بھی ہے، الا یہ کہ خدا کی مدد ہو! پھر تو چیزیں کھلے عام پڑی ہوئی بھی محفوظ ہیں!‘‘
دادا بہت کچھ بول رہے تھے، لیکن میرے مطلب کی بات نہیں کررہے تھے۔
’’دادا اگر وہ آدمی آپ ہوتے تو اس چیز کو کہاں رکھتے؟‘‘ میں نے تصور ہی تصور میں گویا دادا کو اس آدمی کی جگہ سمجھنے کی اداکاری کی۔
’’اگر ہم ہوتے۔۔۔‘‘ دادا یہ کہہ کر گہری سوچوں میں گم ہوگئے۔ میں نے سوچا شاید راز سے پردہ اُٹھنے ہی والا ہے۔
’’بھئی یہ تو اس چیز کی موجودگی ہی میں سوچا جاسکتا ہے!‘‘
مجھے راز کے اس قدر قریب پہنچ کر کمند ٹوٹتی ہوئی دیکھ کر سخت کوفت ہوئی۔ سہارتے ہوئے بولا۔
’’کیا آپ کے پاس ایسا کوئی راز یا اہم چیز نہیں؟‘‘ میرے لہجے سے لگ رہا تھا کہ دادا کے پاس ایسی بیسیوں چیزیں تو موجود ہوں گی ہی!
’’نہیں ہے بھئی‘‘۔ دادا نے میرے الفاظ کا طلسم فوراً ہی توڑ دیا۔
دل تو چاہا کہ انہی ایجنٹ کے روپ میں دو چار چانٹے لگاؤں دادا کو اور کہوں ’’سچ سچ بتادے بڈھے کیوں اپنا اور میرا وقت ضائع کرنے پر تلا ہے!‘‘
’’وہ آپ نے ڈاکوؤں کی بات بتائی تھی نا، تو میں نے سوچا شاید ڈاکو آپ سے اسی قسم کے کسی راز کو حاصل کرنا چاہتے ہوں‘‘۔
’’نہیں میاں۔۔۔ ہمارے پاس اس قسم کی چیزیں کہاں! سیدھے سادھے لکھنے پڑھنے والے لوگ ہیں‘‘۔
’’آپ کام کیا کرتے تھے دادا ابو؟‘‘ میں تمام ناخن تراش چکنے کے بعد پھر سے پاؤں داب رہا تھا۔
’’بس یونہی ایک تعمیراتی کمپنی میں ملازم تھے‘‘۔
میں پوچھ کر اُکتا چکا تھا۔ ورنہ شاید یہیں سے کوئی راہ بنتی۔ اچانک مجھے ایک اور زوردار خیال آیا۔
’’ارے۔۔۔ دادا ابو۔۔۔ یہ صہیب بھائی کے ابو کیا کرتے ہیں؟‘‘
دادا نے مجھے پہلی مرتبہ شک کی نگاہ سے دیکھا۔ ابھی وہ اس کی مناسبت سے کوئی عملی یا زبانی قدم اُٹھانے ہی والے تھے کہ میں نے ان کے پاؤں کا انگوٹھا بڑی زور سے کھینچ دیا اور وہ ہائے کہہ کر سب کچھ بھول گئے پھر کچھ دیر میں یاد آیا تو صرف میرا سوال۔ بولے
’’پروفیسر ہیں، پڑھاتے ہیں سعودیہ عرب!‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
’’بیگم صاحب جی۔۔۔ وہ آپ نے کہا تھا کہ چاچا کی خبر لے لوں۔۔۔ تو آج چھٹی دے دیجئے!‘‘
’’لیکن وہ تمہارا سگا چاچا تو نہیں، سارے محلے والے اسے چاچا کہتے ہیں۔ ہیں نا‘‘۔
’’امی اگر ہم لوگ بھی ان کے محلے میں گئے تو کیا ہم بھی انہیں چاچا ہی کہیں گے؟‘‘
’’تم چپ کرو!‘‘ امی نے ڈانٹا اور میری طرف متوجہ ہوئیں۔
’’جی میرا مطلب ہے گھر والوں سے تو مل ہی لوں گا‘‘۔ میں نے مسمسی صورت بنائی۔
’’ابھی تمہیں جمعہ جمعہ آٹھ دن تو ہوئے نہیں ہیں اور لگے ہو چھٹی مانگنے، اس طرح کیسے کام چلے گا۔
’’امی، ہم بھی تو ہر ہفتہ دو چھٹیاں کرتے ہیں۔ ہمارا تو کام چلتا رہتا ہے‘‘۔
’’تم لوگ چپ نہیں رہ سکتے‘‘۔
’’وہ بیگم صاحب جی دراصل ابھی دکان پر مجھے محلہ کا ایک دوست مل گیا تھا، بتا رہا تھا کہ چاچا کو کل رات گولیاں لگی ہیں اور وہ بہت زخمی ہیں!‘‘ میں نے شوشہ چھوڑا۔
’’اچھ۔۔۔ چھ ۔۔۔ چھا‘‘۔
’’وہ بتا رہا تھا کہ اسے کچھ ڈاکو مل گئے تھے جو کچھ۔۔۔ کچھ کچھ۔۔۔ لوگوں۔۔۔ آپ لوگ بھی تو کل ڈاکو۔۔۔‘‘
میں ڈرامائی انداز میں اٹکا اور اس کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ امی فوراً بولیں۔
’’اچھا اچھا۔۔۔ ٹھیک ہے چلے جاؤ اور میں تمہیں مزید پیسے دے دیتی ہوں، اپنے چاچا کو علاج معالجہ کے لئے دے دینا!‘‘
امی پیسے لینے کے لئے اندر جانے لگیں۔ میں نے آپا اور اچھی آپا وغیرہ سے کہا۔
’’شکر کریں آپ لوگوں والے ڈاکو خطرناک نہیں تھے اور انہوں نے آپ لوگوں کو گولیاں نہیں ماریں! ورنہ چاچا والے ڈاکو تو۔۔۔‘‘
امی نے گھبرا کر سب کو میرے پاس سے ہٹادیا
*۔۔۔*۔۔۔*
چھٹی ملتے ہی میں انسانی پیرائے سے آزاد ہوکر ایجنٹ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ میں نے گھر کے اندر حتی الامکان کوشش کی تھی کہ وہ راز یا اس کی کوئی متعلقہ چیز مل جائے، مگر ناکامی ہوئی تھی۔ سیف اور صندوقچوں میں بھی گھس گھس کر دیکھا تھا۔ اس کے بعد مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ یہ بات انہی ڈاکوؤں سے چل کر معلوم کی جائے۔
جناتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جلد ہی مجھے وہ دونوں نظر آگئے۔
’’اگر وہ نامعقول فقیر کی بدروح وہاں نہ آجاتی تو ابھی وہ بڈھا بھی ہمارے ساتھ یہاں ٹارچر سیل میں موجود ہوتا!‘‘
’’مجھے یقین ہے کہ یہاں موجود ہتھیاروں کو دیکھ کر ہی سب کچھ صاف صاف اُگل بھی چکا ہوتا‘‘۔
’’کمبخت کہیں مل جائے تو۔۔۔‘‘
میں نے سنہری موقع جانتے ہوئے باہر سڑک سے آواز لگائی ’’اللہ کے نام پر بابا‘‘۔ لہجہ ہوبہو ویسا ہی تھا، شکل و صورت بھی چاچا والی تھی!
جھٹ دروازہ کھلا اور دونوں نے مجھے پکڑ کر اندر گھسیٹ لیا۔
’’واہ کس قدر نیک لوگ ہیں۔ اس طرح چھپا کر صدقہ دے رہے ہیں کہ بائیں کیا دائیں پڑوسی کو بھی خبر نہ ہو!‘‘ میں نے انتہائی مسرت آمیز لہجہ اختیار کیا۔
’’دائیں بائیں کیا، نیچے اور اوپر والوں کو بھی پتا نہیں چلے گا، جو کچھ تمہارے ساتھ ہم کریں گے!‘‘
’’مگر پہلے تو یہ بتاؤ کل عین موقع پر تم ٹپک کہاں سے پڑے تھے؟‘‘
’’کھجور میں اٹکنے والا آسمان ہی سے ٹپکتا ہے بابا۔ اب جلدی سے دو جو کچھ دینا ہے، مجھے اگلی مسجد میں دیر نہ ہوجائے، صدقہ خیرات دینے والے نیک نمازی تو بہت جلدی آتے ہیں۔ ذرا سی دیر کرو تو چھوٹ جاتے ہیں‘‘۔
’’ابھی تو تمہارے چھکے بھی چھوٹیں گے۔۔۔ لے چلو اسے اندر تاکہ ہم اسے دوسروں کے معاملے میں ٹانگ اڑانے کا مزہ چکھا سکیں‘‘۔
’’ہاں شاید یہ کوئی شعبدہ باز بھی ہے۔ گولیوں سے تو بچ گیا، لیکن ہمارے ٹارچر سیل میں سے تو اس کی روح بھی نہ بچ سکے گی‘‘۔
’’ہائیں، تم لوگ تو مجھے کچھ خطرناک لگتے ہو!‘‘ میں نے کہا اور اچانک جھٹکے سے ہاتھ چھڑا کر اندر کی طرف بھاگا۔ دروازہ چھوٹا سا تھا۔ میں تو گھس گیا، لیکن وہ دونوں اپنی جھونک میں جو آگے بڑھے تو ایک ساتھ داخل ہونے کے چکر میں بری طرح ٹکرا گئے۔
پھر ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہتے ہوئے اندر داخل ہوئے اور لگے مجھے ڈھونڈنے۔ لیکن ملتا تو میں تب نا کہ جب نظر آرہا ہوتا۔
’’پتا نہیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟‘‘ کونے والے کمرے میں پہنچ کر ایک بولا۔
’’مجھے تو لگتا ہے یہ واقعی کوئی بدروح وغیرہ نہ ہو‘‘۔
میں نے کمرے کا دروازہ باہر سے بند کردیا اور چلایا۔
’’بڑے آئے مجھے سبق سکھانے والے۔ پہلے بھی بتایا تھا ہم فقیروں سے مت ٹکر لو!‘‘
وہ دونوں تھے تو غنڈے ہی مگر پھر بھی پریشان ہوگئے اور لگے دروازہ دھڑ دھڑانے!
میں نے کہا ’’یوں تو نہ کھولوں گا، پہلے یہ بتاؤ کہ کل ان بے چاروں کو کیوں روکا تھا!‘‘
’’ارے یہ بھی بھلا کوئی پوچھنے والی بات ہے، لوٹنا تھا ان کے زیورات اور نقدی وغیرہ‘‘۔
’’ہم فقیروں سے جھوٹ نہیں چلے گا، سچ سچ بتاؤ ورنہ‘‘۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میرے منہ سے یہ ورنہ نکل گیا اور ان کی غنڈہ گردی باہر نکل آئی!
’’ورنہ کیا کرلوگے۔ ہیں۔۔۔ بتاؤ کیا بگاڑ لوگے ہمارا‘‘۔
میں نے دروازہ کھول دیا اور انہیں ہاتھ اوپر اُٹھانے کا کہا، کیونکہ اس وقت میرے ہاتھ میں ایک عدد جدید قسم کا پستول آچکا تھا۔
ایک فقیر سے انہیں اس قسم کی شاید ایک فیصد بھی توقع نہ تھی، لہٰذا انہوں نے اپنے ہتھیار بھی نہ نکالے تھے۔ ہاتھ اونچے ہی کرتے بنی۔
’’یہ بالکل بے آواز پستول ہے۔ اوپر اور نیچے والوں کو تو شاید پتا چل بھی جائے، لیکن تمہارے فرشتوں کو بھی۔۔۔‘‘ غلط جملہ میں نے جان بوجھ ہی کر ادھورا چھوڑ دیا اور ہاتھ کو ہلکا سا جھٹکا دیا، مگر فائر نہیں کیا۔
’’آئی کوئی آواز۔۔۔ نہیں نا!‘‘ میں مسکرایا۔
تھوڑی ہی دیر میں، میں ان دونوں کو باندھ چکا تھا اور اب ان سے راز اگلوانے کی فکر میں تھا۔
’’ہم لوگ موت سے تو ڈرتے ہیں، لیکن تشدد سے نہیں۔ تم کسی صورت بھی ہم سے یہ راز نہیں اُگلوا سکتے!‘‘
’’موت سے تو ڈرتے ہی ہونا۔۔۔ بتادو۔ ورنہ جان سے ماردوں گا!‘‘
’’ہا ہا ہا۔۔۔ نہیں مار سکتے نا۔ ورنہ تمہیں راز کون بتائے گا!‘‘
’’لو یہ بھی بھلا کوئی بات ہے، ایک کو تو مار ہی سکتا ہوں، دوسرا بتا دے گا!‘‘
دونوں کی شکل بن گئی۔
میں نے پستول ایک کے سر سے لگائی اور لگا مزے سے گنتی گننے۔
’’تین۔۔۔ دو۔۔۔ ایک۔۔۔ صفر۔۔۔ منفی ایک۔۔۔ منفی دو۔۔۔ ہائیں تم نے ابھی تک کچھ بتایا نہیں‘‘۔ میں چونکا۔
’’ہم نے تہیہ کرلیا ہے ہم تمہیں مر کر بھی نہیں بتائیں گے‘‘۔
میں بھی سوچوں میں غرق ہوگیا کہ کیا ترکیب لگاؤں۔ ایک ناول کی ترکیب یاد آئی جس کا میں نے سلمان نعمان سے تذکرہ سنا تھا۔ بلا سوچے سمجھے اسی پر عمل پیرا ہوا۔
کمرے کی کھڑکی کھول دی جس سے سرد ہوا کے جھونکے اندر آنے لگے۔ پنکھا بھی خوب تیز چلادیا۔ سردیوں کا موسم تھا، جلد ہی کمرے کے موسم میں اور دونوں غنڈوں کے چہروں پر ’’خوشگوار‘‘ اثر دیکھنے کو ملا۔
میں نے قمیص بھی اُتار لیں اور لگا ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارنے۔ یہ ان کے لئے ناقابلِ برداشت ہو ہی گیا اور وہ چلا اُٹھے۔
’’یہ کیا کررہے ہو۔ پاگل ہوگئے ہو کیا‘‘۔
’’بتادو تو صحیح ہے ورنہ اور پاگل ہوجاؤں گا‘‘۔ میں غرایا۔
تھوڑی سی مزید جان فشانی کے بعد ان کا زعم ٹوٹ چکا تھا اور وہ سردی سے تھرتھراتے ہوئے کہہ رہے تھے:
’’ہم ہمیں کسی نے بتایا کک کہ اس بڈھے کے پپ پاس ملک کی ایک خف خفیہ اور حساس عمارت کا نق نقشہ ہے اور اگر ہم اسے حاصل کرلیں گے، تت تو کوئی اسے بھاری قیمت میں خخ خرید لے گا‘‘۔
اس کوئی‘‘ کا انہیں کچھ علم نہ تھا۔ میں نے اس کا علاج بعد میں کرنے کا سوچا اور پہلے دادا کو اُٹھا لایا۔
گھر میں یہی بتایا کہ ایک پولیس آفیسر کل کی واردات کے متعلق تفتیش کرنے کے لئے لے گیا ہے!
مجرموں ہی کی گاڑی تھی، لہٰذا بہت ہی بچ بچا کر واپس آیا۔
راستے بھر دادا اس بات سے انکاری رہے۔ میں نے سوچا کہیں ان پر بھی تشدد نہ کرنا پڑے، کیونکہ اصولاً وہ قیمتی دستاویز اول تو ان کے پاس ہونی ہی نہ چاہئے تھی اور اگر تھی بھی تو اتنی قیمتی چیز ریٹائر ہونے کے بعد متعلقین کے حوالے کردینی چاہئے تھی!
تھانے کے بجائے ایک عجیب و غریب سے مکان پر لے جانے پر دادا بہت جزبز ہوئے، مگر ان دونوں کو دیکھنے کے بعد سہم کر بالکل خاموش ہوگئے!
ان دونوں کا بیان سنوانے کے بعد میں دادا سے مخاطب ہوا۔
’’اب آپ کیا کہتے ہیں!‘‘
دادا کچھ دیر سوچ کر بولے:
’’مجھے چونکہ اس قسم کی کوئی بات نہیں یاد، لہٰذا گمان یہی ہے کہ مجھ سے عام سے انداز میں یہ نقشہ بنوایا گیا ہوگا کہ میں عام سی عمارت سمجھ کر اس کی اہمیت سے ناواقف رہوں۔ نقشہ عام طور پر میرے پاس نہیں ہوتے، لیکن اکثر میں کوئی بڑا اور مشکل نقشہ بناتا تو اول کسی رف کاغذ پر اس کی پلاننگ کرتا۔ اس قسم کے کئی رف نقشے میرے گھر کے صحن سے ملحق اسٹور میں پڑے ہیں جو ہر وقت کھلا رہتا ہے اور اکثر بلیاں وغیرہ اس میں جاکر بیٹھ جاتی ہیں!‘‘
یہ سن کر دونوں غنڈوں نے اپنا سر پیٹ لیا کہ جس چیز کو وہ سات پردوں میں کہیں چھپا سمجھتے رہے وہ فقط ایک دیوار پھلانگنے کے فاصلے پر تھی۔
دادا کو لے کر واپس گھر کی راہ لی۔ راستے میں ایک جگہ رُک کر پولیس کو فون کیا اور دونوں غنڈوں کے ساتھ ساتھ اس تیسرے ’’کسی‘‘ کی بھی تفصیل بتائی!
خوش گمانی کی کہ پولیس ان تینوں سے نمٹ ہی لے گی، لہٰذا میرا کوئی کام نہیں۔
دادا سے گھر پہنچ کر سارے نقشہ جات نکلوائے، تاکہ بعد میں ان کو جلا کر ضائع کرسکوں۔ کیونکہ اس کا اصل تو پہلے ہی متعلقہ افراد کے پاس ہوگا، اور اصل مقصد تو راز کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنا تھا۔
میں چونکہ چاچا کی شکل میں تھا، لہٰذا گھر کی خواتین تو بہت ہی زیادہ حیران تھیں کہ یہ کیا بلا ہے پل میں نوکر، پل میں فقیر اور پل میں پولیس آفیسر!
میں نے بتایا کہ ایک اہم مسئلے کے سلسلے میں آپ لوگوں سے واسطہ رہا اور پہلے خود ناکام کوشش کرنے کے بعد ’’چھوٹو‘‘ کو بھیجا گیا اور وہ بھی ہمارا جاسوس تھا۔ لہٰذا اب اس کا انتظار نہ کیا جائے، وہ اپنا کام بحسن و خوبی کرچکا ہے!
’’جاسوس تھا۔۔۔ تبھی تو میں کہوں اپنی سی ڈیز اتنا چھپا کر رکھتی تھی، پھر کیسے صہیب کے ہاتھ لگ جاتی تھیں!‘‘ آپا بڑبڑائیں۔
’’اور میری ناولز بھی! میرے ختم کرنے سے پہلے ہی بیا اور آپ لوگ پڑھ رہے ہوتے تھے!‘‘ اچھی آپا بولیں۔
’’اس بے چارے سے کہیں اپنی تنخواہ تو لیتا جائے!‘‘ پردے کے پیچھے سے امی نے کہا۔
’’لینے تو نہیں البتہ دینے آئے گا، کہہ رہا تھا کہ آنٹی نے ہزاروں روپے پکڑا دیئے ہیں ’’چاچا‘‘ کے علاج کے لئے!‘‘
امی یقیناً جھینپ گئی ہوں گی، لیکن باقی سب مسکرا اُٹھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top