skip to Main Content

بندر نے کھیر کھائی

ڈاکٹر رﺅف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔

اس دن صبح ہی سے بندر کا دل کھیر کھانے کو چاہ رہا تھا لیکن بہت سوچنے پر بھی اس کی سمجھ میں کوئی ایسی تدبیر نہ آسکی جس سے گھر بیٹھے مفت کی کھیر ملے۔اسے یاد تھا کہ پچھلے سال بھالو بھائی یعنی ریچھ کی سال گرہ پر ڈاکٹر ہمدم نے کتنے مزے کا کیک سب کو کھلایا تھا اور پھر اگلے ہی روز بندر کی فرمائش پر ڈاکٹر ہمدم نے اسے کھیر بھی پکا کر کھلائی۔”اف! کتنے مزے کی کھیر تھی۔“بندر یہ سوچ کر ہی منہ چلانے لگا لیکن ڈاکٹر ہمدم اب اسے کاہے کو کھیر کھلانے لگے؟پچھلے کئی مہینوں سے وہ انہیں تنگ بھی تو کر رہا تھا۔بچو! ڈاکٹر ہمدم کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ ارے وہی اپنے جنگل والے ڈاکٹر ہمدم جو جنگل میں ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے اور سارے جانوروں سے اتنا پیار کرتے تھے کہ کسی بھی جانور کو کوئی بھی تکلیف ہوتی تو وہ دوڑا دوڑا ڈاکٹر ہمدم کے پاس جاتا۔لومڑی کے پاؤں میں کانٹا چبھا تھا تو ڈاکٹر ہمدم نے ہی نکالا تھا اور شیر کی داڑھ میں درد ہوتا تھا تو بے چارہ رونی صورت بنا کرڈاکٹر ہمدم کے پاس جایا کرتا تھا اور ہاں پچھلے سال بھالو بھائی کی سال گرہ پر تو سارے ہی جانور ان کے گھر پر جمع ہوگئے تھے۔سچ ہے پیار اور ہمدردی سے تو جانور بھی دوست بن جاتے ہیں۔
ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا؟خوب یاد آیا۔بندر کا ذکر تھا۔یہ جو بندر تھانا یہ بہت ہی شریر تھا ۔کبھی اس کو چھیڑا،کبھی اس کو چڑایا۔کبھی اس کا کھانا کھا گیا تو کبھی اس کو الٹی پٹی پڑھائی۔ اور تھوڑے دنوں سے تو وہ ڈاکٹر ہمدم کے پیچھے پڑا تھا۔کئی دفعہ ان کے گھر میں چپکے سے گھس کر سارا کھانا چٹ کر گیا تھا ۔اور ایک دفعہ تو چینی کا پورا ڈبا لے بھاگا اور ساری چینی چاٹ کر ڈبا گائے کے سر پر ٹوپی کی طرح پہنا دیا۔ڈبا اس بے چاری کے سینگوں میں پھنس گیا اور ڈاکٹر ہمدم نے بڑی مشکل سے نکالا۔شیر کو جب اس بات کا پتا چلا تو اس نے بندر کو اپنا پنجہ دکھایا اور غرا کر بولا، ”اب اگر تم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو میں تمہارا پیٹ پھاڑ ڈالوں گا۔“اورتو اور کوے نے بھی دھمکی دے دی کہ” میں ٹھونگے مار مار کر تمہارے بھیجے کا قیمہ بنا دوں گا۔“وہ تو خیریت گزری کہ ڈاکٹر ہمدم نے بیچ بچاؤ کرادیا ورنہ سارے جانور مل کر بندر کی ایسی دھنائی کرتے کہ بچہ جی کو چھٹی کا دودھ یاد آجاتا۔
اب یہی بندر تھا اور اس سوچ میں بیٹھا تھا کہ اگر ڈاکٹر ہمدم کے گھر میں چوری نہ کرتا تو آج وہ کتنے مزے کی کھیر بنا کر مجھے کھلاتے۔اب میں ان کے پاس کس منہ سے جاؤں اور کیسے کہوں کہ ڈاکٹر صاحب! کھیر کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔
اتنے میں ادھر سے خرگوش گزرا۔”السلام علیکم، بھائی خرگوش! “بندر نے آواز دی۔
”وعلیکم السلام۔“خرگوش نے کہا،”کہو بھائی بندر کون سی شرارت سوچی ہے؟“
بندر نے جھٹ کانوں کو ہاتھ لگایا اور جھوٹ موٹ بولا،”نہ بھائی نہ۔میری توبہ! اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ کسی کو تنگ نہیں کروں گا اور نہ کوئی شرارت کروں گا۔بس تم ڈاکٹر صاحب سے مجھے معافی دلوا دو۔“حالانکہ وہ دل ہی دل میں کھیر کھانے اور کوئی نئی شرارت کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا ۔
”ڈاکٹر صاحب نے تو تمہیں پہلے ہی معاف کر دیا ہے۔وہ بہت نیک آدمی ہیں۔ہر دفعہ تمہاری شرارت پر وہ تمہیں معاف کر دیتے ہیں مگر تم اتنے نالائق ہو کہ بعض نہیں آتے ۔اب یہی دیکھ لو کہ کل شام ڈاکٹر صاحب نے تمام جانوروں کو دعوت دی ہے ۔وہ سب کو کھیر پکا کر کھلائیں گے۔تم کو بھی دعوت دی ہے۔مجھے انہوں نے اس لیے بھیجا ہے کہ تمہیں کل کی دعوت دے آ ؤں۔دیکھو بھول نہ جانا۔ضرور آنا۔“یہ کہہ کر خرگوش تو چلا گیا لیکن بندر کو حیران پریشان چھوڑ گیا۔بندر سوچنے لگا،”میں تو کھیر کھانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا اور اللہ میاں نے خود ہی کھیر کا انتظام کردیا۔یہ اپنے ڈاکٹر ہمدم بھی واقعی بہت اچھے آدمی ہیں۔لیکن یہ کہیں کوئی چال تو نہیں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ سب جانوروں نے مجھے پکڑنے اور میری شرارتوں کا بدلہ لینے کے لئے یہ ترکیب لڑائی ہو کہ کھیر کے نام پر مجھے بلا لیا ہو ؟“
آخر کل بھی آ گئی۔بندر اسی سوچ میں تھا کہ جاؤں یا نہ جاؤں، دعوت ہوگی یا نہیں ہوگی؟مجھے وہ پکڑ لیں گے یا نہیں پکڑیں گے؟آخر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ جائے گا تو سہی لیکن پہلے درختوں پر چڑھ کر اور چھپ کر دیکھے گا کہ یہ کیا قصہ ہے۔اس نے ایسا ہی کیا۔ڈاکٹر ہمدم کے مکان سے کچھ دور وہ ایک درخت پر چڑھا اور وہاں سے چھلانگیں مارتا ایک کے بعد دوسرے درخت پر سے ہوتا ہوا ڈاکٹر صاحب کے مکان کے قریب ایک درخت کے پتوں اور شاخوں میں خود کو چھپا لیا اور آنکھ کے آگے سے ایک پتہ ہٹا کر چپکے سے دیکھا تو وہ حیران رہ گیا۔سب جانور جمع تھے۔شیر ایک طرف کھڑا سب کو کام بتا رہا تھا،”تم یہ کرو۔تم وہ کرو۔“اور سارے جانور اس کے کہنے پر عمل کر رہے تھے۔ہاتھی اپنی سونڈ سے کیلے کے درختوں کے لمبے چوڑے پتے توڑ توڑ کر ان کو دسترخوان کی طرح بچھا رہا تھا۔بطخ اور لومڑی ایک دیگ کے نیچے آگ سلگا رہی تھیں۔ایک طرف ہرن اور مور ڈبوں میں سے چینی اور چاول نکال رہے تھے۔اتنے میں بکری دودھ لے آئی۔زرافہ دریا سے پانی کی بالٹی بھر لایا۔ڈاکٹر ہمدم اپنے گھر سے رکابیاں اور چمچے اٹھا کر نکل رہے تھے۔گدھا اور گھوڑا ان کی مدد کو فوراً آگے آئے۔دریائی گھوڑا، چوہا، اودبلاؤ اورہرن ایک درخت کے نیچے بیٹھے بڑی دلچسپی سے ان سب کو کام کرتا دیکھ رہے تھے۔غرض دعوت کی تیاری زوروں پر تھی۔بھالو بھائی البتہ غائب تھے۔
اب بندر دل میں پچھتایا کہ پہلے ہی ڈاکٹر صاحب سے معافی مانگ لی ہوتی۔ پھر اسے خیال آیا کہ ڈاکٹر صاحب نے تو اسے پہلے ہی معاف کر دیا ہے اور اسے دعوت بھی بھجوائی تھی،اس لیے درخت سے اتر کر دعوت میں شریک ہو جانا چاہیے لیکن کسی کے دل میں چور ہوتا ہے تو اس میں اعتماد نہیں رہتا۔بندر نے اتنی بری حرکتیں کی تھیں کہ اس کی ہمت نہیں پڑی کہ ڈاکٹر ہمدم کے سامنے جائے۔اس کے بعد اس کے شرارت بھرے ذہن نے اس کو ایک بار پھر غلط راستے پر ڈال دیا اور وہ سوچنے لگا کہ کسی طرح ان تمام جانوروں کو یہاں سے ہٹا کر کھیر کی پوری دیگ پر قبضہ کر لیا جائے۔کھیر تیار ہو چکی تھی۔ سارے جانور بھالو بھائی کے آنے کا انتظار کر رہے تھے اور رکابیاں لگا رہے تھے۔کھیر کی دیگ چولہے سے اتار کر ایک طرف رکھ دی گئی تھی۔
بندر نے ایک ترکیب سوچی۔وہ چپکے چپکے ایک درخت سے دوسرے درخت پر کودتا، جھاڑیوں کو الانگتا پھلانگتا ایک بڑا سا چکر کاٹ کر ڈاکٹر ہمدم کے گھر کے پیچھے پہنچا۔گھر کی پچھلی دیوار کی کھڑکی کھلی تھی۔بندر بڑے آرام سے اندر داخل ہو گیا۔ڈاکٹر صاحب دوسری طرف جانوروں کے ساتھ دعوت کی تیاری میں مصروف تھے۔بندر نے دیا سلائی اٹھائی اور کھڑکی سے باہر نکل گیا۔کچھ دور جا کر اس نے بہت سارے سوکھے پتے،درختوں کی شاخیں اور گھاس پھونس جمع کرکے ان کو تیلی دکھا دی اور اس سارے ڈھیر نے فوراً ہی آگ پکڑ لی۔گاڑھا دھواں اٹھنے لگا اور ہوا کے ساتھ دور دور تک جانے لگا۔بندر نے جب اچھی طرح اطمینان کر لیا کہ آگ لگ چکی ہے تو وہاں سے بھاگا اور قریب ہی ایک جھاڑی کے پیچھے بیٹھ کر جانوروں کے وہاں سے جانے کا انتظار کرنے لگا۔اسے پتا تھا کہ دھوئیں کی بوسونگھ کر اور دھواں دیکھ کر سارے جانور آگ بجھانے بھاگیںگے کیونکہ جنگل میں آگ فوراً پھیل جاتی ہے اور بہت خطرناک ہوتی ہے۔ایسا ہی ہوا۔جیسے ہی جانوروں کے نتھنوں میں دھویں کی بو پہنچی،انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔انہیں ڈاکٹر ہمدم کے گھر کے پیچھے سے دھواں اور چنگاریاں اٹھتی دکھائی دیں۔سب جانور” آگ آگ“ چلا کر اس طرف بھاگے۔ڈاکٹر صاحب بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔ہاتھی نے ایک عقل مندی یہ کی کہ بالٹی کا سارا پانی اپنی سونڈ میں بھر لیا اور آگ کی طرف چلا۔
ادھر بندر نے میدان صاف دیکھا تو لپک کر جھاڑی سے نکلا اور کھیر کی دیگ کی طرف چلا تاکہ اسے اٹھا کر چمپت ہوجائے ۔لیکن کھیرکی دیگ بہت گرم تھی۔بندر نے ادھر ادھر دیکھا۔کیلے کے درخت کے پتے بچھے ہوئے تھے۔اس نے دونوں ہاتھوں میں ایک ایک پتالیا اور کھیر کی دیگ کو اٹھانے لگا۔دیگ بہت وزنی تھی لیکن بندر اسے گھسیٹنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔اور اسے گھسیٹتا ہوا ایک طرف لے جانے لگا۔
ادھر دوسری طرف جانور آگ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ پتوں اور ٹہنیوں کا ایک ڈھیر دَھڑدَھڑ جل رہا ہے۔ہاتھی نے فوراً اپنی سونڈ سے پانی کا فوارہ چھوڑا اور آگ شوں کرکے بچھ گئی۔وہ تو خیریت گزری کہ آس پاس کی کسی جھاڑی یا درخت نے آگ نہیں پکڑی تھی۔اگر جانوروں کو ذرا سی بھی دیر ہوجاتی تو بہت سے درخت آگ کی لپیٹ میں آجاتے۔”یہ آگ کیسے لگی ہوگی؟“چوہے نے کہا۔
”لگی نہیں کسی نے لگائی ہے۔پتوں اور شاخوں کو باقاعدہ جمایا گیا ہے ۔“شیر دھاڑا۔
اتنے میں ڈاکٹر ہمدم کی نظر دیا سلائی پر پڑی جو بندر وہیں چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔انہوں نے جھک کر اسے اٹھا لیا اور بولے،”لگتا ہے یہ بندر کا کام ہے۔لیکن اس نے ایسا کیوں کیا؟“انہیں بندر کی حرکت پر بہت افسوس ہو رہا تھا۔
”اگر بندر ہاتھ لگ گیا تو زندہ بچ کر نہیں جائے گا۔“شیر بہت غصے میں تھا۔سارے جانوروں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ڈاکٹر ہمدم انہیں ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اور انہیں سمجھاتے ہوئے اپنے گھر کی طرف چلے۔سارے جانور ان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔وہ کہہ رہے تھے ،”دیکھو بھائی،برائی کا بدلا برائی سے نہیں دینا چاہیے، اور پھر بندر تمہارا ساتھی ہے،اسے سمجھاؤ گے تو مان جائے گا۔“
شیر کچھ کہنے ہی والا تھا لیکن اتنے میں وہ سب دعوت کی جگہ پر پہنچ چکے تھے۔سب نے دیکھا کہ کھیر کی دیگ غائب ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top