skip to Main Content
بغاوت یا۔۔۔۔؟

بغاوت یا۔۔۔۔؟

محمد الیاس نواز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۸۵۷ء میں مسلمانوں اور ہندوؤں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کیوں کی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہندوستان کا زوال اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب عظیم مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا انتقا ل ہوا۔اورنگ زیب کے انتقال کے بعداس کے دونوں بیٹے اعظم اور معظم کے درمیان سلطنت کے حصول کے لئے جنگ شروع ہو گئی۔اعظم مارا گیا اورمعظم تخت نشین ہوا۔تخت پر بیٹھے صرف پانچ سال ہی گزرے تھے کہ معظم کا ذہنی توازن خراب ہو گیااور وہ پاگل سا ہو گیا۔اس کے بعد ہندوستان مستقل خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔راجوں ،مہاراجوں اور نوابوں کے در میان اختلافات طویل ہو تے گئے اور حصول اقتدار کی کشمکش روز بروز بڑھتی گئی۔ہندوستان کا دارالخلافہ دہلی کمزور پڑچکا تھا۔مہا را شٹر کے جاہل اور سخت جان دیہاتی کسان مرہٹے جب چاہتے دہلی آکر شہر کو لوٹ لیتے اور قتل وغارت گری کرتے۔ان حالات میں جبکہ ہندوستان کے لوگ آپس میں دست و گریبان تھے کس کو ہوش تھا کہ وہ دیکھے کہ انگریز ہندوستان میں کیا گُل کھلا رہے ہیں۔انگریز جوکہ تجارت کے لئے پہلے سے موجود تھے حالات کا فا ئدہ اٹھا کر سیاست میں کود پڑے۔اپنا اثرو رسوخ بڑھانا شروع کیا۔راجوں ،مہاراجوں اور نوابوں کی خوشامد کرکے اور کبھی ان کو امداد دے کر ایک دوسرے کے ساتھ لڑانا شروع کردیا۔کبھی وزیروں کو خرید کر ان سے بغاوت کرا دی۔ہوتے ہوتے بالآخر انگریز نے ہندوستان کے حکم رانوں کو سا زشیں کرکے اور آپس میں لڑا لڑا کر کافی کمزور کر دیا اور ساتھ ہی یہ اندازہ بھی لگا لیا کہ ہندوستان کی فوجوں کے پاس اسلحہ زیادہ جدید نہیں اور نہ ہی ان میں اب نظم وضبط رہا ہے۔سپاہی بہادر ہیں مگر راہنما کمزور ہیں۔ہندوستانیوں نے آپس کے اختلاف اتنے بڑھائے ہیں کہ اب متحد نہیں ہو سکتے۔ان کو سازشوں کے ذریعے کمزور کیا جا سکتاہے۔یہ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں انہیں ملک اور قوم کا خیال نہیں رہا۔یہ اندازہ لگانے کے بعد انگریز کھل کر سامنے آگیااور کھلے بندوں لڑائیاں شروع کر دیں اور پے در پے شکستیں کھائیں۔ادھر دہلی کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کرمرہٹے جب چاہتے منہ اٹھا کر دہلی کو لوٹنے آجاتے۔اس کے علاوہ قتل وغارت گری الگ مچاتے۔افغانستان کا بادشاہ احمد شاہ ابدالی ان حالات پر نظر رکھے ہوئے تھا۔اسے بڑا طیش آیاکچھ مسلمانو ں نے بھی خط لکھ کر اس سے مدد مانگی تو وہ قہر خدا وندی بن کرمرہٹوں پر آنازل ہوا۔پانی پت کے میدان میں اس نے مرہٹوں کو ایسا سبق سکھایا کہ رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے۔مسلمانوں کی خواہش تھی کہ دہلی کا تخت احمد شاہ ابدالی سنبھال لے اور ایک مرتبہ پھر ایک مضبوط اور متحدہ ریا ست قائم ہو جائے مگر بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔اس کے وزیرو ں نے اس سے کہا کہ یہاں کی آب وہوا ٹھیک نہیں ہے حالانکہ مغلو ں کا سب سے پہلا بادشاہ جس نے ہندوستان میں مغل باد شاہت کی بنیاد رکھی ظہیر الدین محمد بابر بھی افغانستان سے ہی آیا تھا۔دوسری طرف انگریز نے جب بار بار شکستوں کا منہ دیکھا تواس کو اندازہ ہوگیاکہ ہم صر ف میدان میں جنگ نہیں جیت سکتے۔اس لئے اس نے چالبازی اور سازش کا ہتھیار استعمال کیااور بڑی جدو جہد کے بعد ہندوستان پر قبضہ کرلیا۔انگریز کا اقتدار بر صغیرکے عوام کے لئے بڑا ہی منحوس ثابت ہوااور عوام کو بڑی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔انگریز کی کوشش یہ تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ دولت لوٹ کر برطانیہ لے جائیں۔اسکو یہاں کے عوام سے کوئی غرض نہیں تھی۔اس نے یہاں کے جاگیر داروں سے جاگیریں چھین لیں اور ان کو بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دیا۔جاگیر دار بے چارے کیا کرتے۔غربت میں اور تھوڑی تھوڑی آمدنیوں میں مشکل سے گزارا کرنے لگے۔ہندوستان کے کاریگر جو چیزیں تیار کرتے تھے وہ پوری دنیا میں پسند کی جاتی تھیں۔قنوج کاعطر،امروہہ کی ریشمی ٹوپیاں اور مراد آباد کے برتن اپنی مثال آپ تھے۔یہاں کھلونے ،رومال،تلواریں،تیر کمان اور بڑھئی کاکام بھی بڑا نفیس ہوتا تھا۔جبکہ لکھنو کا چکن کا کپڑا ،بنگال کا سوتی کپڑا ور بنارس کا ریشمی کپڑا تو برطانیہ کی خواتین بڑے فخر سے خریدتی تھیں۔مگرانگریزوں نے مقامی کارخانوں کو بند کرکے اپنے کارخانے کھول لئے۔تجارت مسلمانوں کا آبائی پیشہ تھااور وہ صدیوں سے تجارت کرتے چلے آئے تھے۔جوسامان مقامی کارخانوں میں تیار ہوتاتھامسلمان بحری جہازوں کے ذریعے دوسرے ملکوں میں اس کی تجارت کرتے تھے۔مگر انگریزوں نے بندرگاہوں پر قبضہ کرکے تجارت پر بھی زبر دستی قبضہ کرلیا۔مقامی لوگوں کا سامان باہر نہ جانے دیتے اور خود سستے داموں خرید لیتے چاہے کسی کو فائدہ ہو تا یا نقصان اور آگے اچھی قیمت پر بیچ دیتے۔کسانوں اور زمینداروں پر بے تحاشا ٹیکس لگادئیے،جو ٹیکس کم دیتا اس سے زمینیں چھین کر دوسرے کو دے دیتے۔کسان سارا سال محنت کرتے اور فصل انگریز لے جاتے۔ان سب باتوں کے علاوہ مقامی لوگ انگریز کے فریب اور وعدہ خلافیوں سے تنگ آچکے تھے۔یہاں کے لوگوں اور انگریز کے درمیان جو بھی معاہدے ہوتے ،جب تک انگریز کو اپنا فائدہ نظرآتا وہ اس پر قائم رہتاورنہ فوراً معاہدہ توڑ دیتا۔ان سب مظالم کے بعد انگریز نے کھلے عام عیسائیت کی تبلیغ بھی شروع کر دی۔وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کو عیسائیت کی دعوت دینے لگے کہ جس پر وہ خود بھی عمل نہیں کرتے تھے اس سے نفرت میں مزید اضافہ ہوا اور لوگوں میں باتیں ہونے لگیں کہ انگریز ہم سے سب کچھ لوٹ کر اب ہمیں دین اور مذہب سے بھی ہٹانا چاہتاہے۔ ہندوستان کے لوگ چونکہ بہادر اور حوصلہ مند تھے اس لئے انگریز نے ایک بڑی تعداد ہندوؤں اور مسلمانوں کی فوج میں لی ہوئی تھی مگر جب بھی وہ کوئی مطالبہ کرتے اور اپنے حقوق مانگتے، توپوں کے منہ پر باندھ کر اڑا دئیے جاتے۔یہ اس قوم کے مظالم ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا جیسا کوئی مہذب دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوا۔لوگ ان مظالم سے تنگ آ چکے تھے۔علماء اور دینی رہنما پہلے ہی خفیہ اور کبھی کھلے عام جہاد کی تبلیغ کرتے آرہے تھے۔آخر کار ،۱۰مئی ۱۸۵۷ ؁ء کو میرٹھ کے مسلما ن اور ہندو سپاہیوں نے بغاوت کردی۔انگریز افسروں کو قتل کردیا اور اسلحہ سمیت دہلی پہنچ گئے،دہلی پہنچ کر انہوں نے ملک کے مختلف حصوں کی فوجی چھاؤنیوں میں اعلانات اور پیغامات بھیجے۔ہندوستانی سپاہی پہلے ہی افسروں کی زیادتیوں کا شکار تھے۔اعلانات سنتے ہی بغاوتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سپاہی خزانے ،اسلحے اور توپوں سمیت دہلی پہنچنے لگے۔ان میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔پہلی بغاوت ۰۱مئی کو میرٹھ میں ہوئی اسکے بعد ۱۹مئی کو الہٰ آباد،۲۰ مئی کو علی گڑھ ،۲۲ مئی کو پشاور،۳۱مئی کو گوالیار،۴جون کو حصار،۵جون کو کانپور،۷جون کو آگرہ اور لکھنو۔۲۱ جون کو جالندھر۔شروع جولائی میں جہلم،۸جولائی کو بنارساور ۲۱ جولائی کو سہارنپورمیں لگاتار بغاوتیں ہوئیں۔اس کے علاوہ انبالہ، لاہور، چیچہ وطنی،سیالکوٹ،کلکتہ اور نوشہرہ میں بھی بغاوتیں ہوئیں اور یہ سلسلہ اگست کے آخر تک جاری رہا ۔دہلی میں بہت سی باغی فوج جمع ہو چکی تھی۔ انگریزوں نے پنجاب کے لوگوں اور سکھوں کو بھرتی کر لیااور ستمبر میں دہلی پر حملہ آور ہوئے ۔کئی دن تک گھمسان کی جنگ ہوئی۔بالآخر انگریز کی چالبازیوں ،سکھوں کی غداریوں اور سازوسامان کی کمی کی وجہ سے دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا،اسی طرح اودھ ،کانپور،جھانسی،بنارس،الہ ٰ آباد،روہیل کھنڈاور بہار میں بھی خوں ریز لڑائیاں ہوئیں جن میں مردوں کے علاوہ عورتوں نے بھی بہادری دکھائی خاص کر حضرت محل اور رانی لکشمی بائی کانام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔چونکہ ہندوتانیوں کے پاس باقاعدہ فوج نہیں تھی اس لئے قیادت اور نظم وضبط کی کمی کی وجہ سے ہندوستانی یہ جنگ ہار گئے ۔اس کے بعد بھی انگریزوں نے جب تک حکومت کی ظلم وزیادتی کے خلاف آواز بلند ہوتی رہی۔
ہماری درسی کتابوں میں ان تمام واقعات کو بغاوت سے موسوم کیا گیا ہے ۔یہ بغاوت ضرور تھی لیکن ساتھ یہ بھی ذہن میں رہے کہ در حقیقت ہماری جنگ آزادی کا نقطۂ آغاز تھااور ظلم کے نظام کے خلاف بغاوت ہی اصل آزادی ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top