skip to Main Content
باغ کی چابی

باغ کی چابی

فریال یاور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سابقین انصار کے ساتھ مسلمان ہوئے اور تلاوت قرآن مجید کی نعمت سے نوازے گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات بہت اندھیری ہے۔ حال یہ ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا۔ اس حال میں اندھیرے میں چلنا پھرنا بھی دشوار تھا۔ عشاء کی نماز کا وقت ہو چکا ہے لیکن مسجد کی طرف جانے والے دکھائی نہیں دے رہے۔ ایسے میں ایک شخص اپنے گھر سے نکل کر مسجد کی طرف روانہ ہوتا ہے مگر اس قدر اندھیرے کی وجہ سے آہستہ آہستہ راستے کو ٹٹول ٹٹول کر چل رہا ہے۔ کبھی کبھار آسمان پر بجلی کی چمک راستہ آسان کر دیتی ہے اور قدم تیز تیز مسجد کی طرف اٹھنے لگتے ہیں۔ دوبارہ سے اندھیرا بڑھنے پر رفتار پھر مدہم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح کبھی تیز اور کبھی مدہم رفتار کے ساتھ مسجد میں داخل ہو کر ایک کونے میں بیٹھ جاتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں ایک اور صاحب مسجد کے ساتھ بنے حجرے میں سے نماز کے لیے تشریف لاتے ہیں تو مسجد میں کسی اور شخص کی موجودگی محسوس کرتے ہیں مگر اندھیرے کی وجہ سے پہچان نہیں ہوئی۔ ایسے میں ایک بار پھر آسمان زور سے گرجتا ہے اور بجلی کی چمک مسجد کو روشن کر دیتی ہے۔ مسجد میں بیٹھے ہوئے صاحب کی آسانی سے پہچان ہوجاتی ہے اور ان کی موجودگی محسوس کرنے والے صاحب خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ مخاطب ہوئے۔ 
’’اے قتادہ کیا پریشانی لاحق ہوئی۔‘‘ 
مسجد میں بیٹھے صاحب نے یہ جواب دیا: ’’یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ میں نے ارادہ کیا۔ رات تاریک ہے اور نماز میں شریک ہونے والے بہت تھوڑے ہیں۔ میں نے چاہا کہ میں ہی حاضر خدمت ہوجاؤں۔‘‘ یہ سن کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’تم نماز پڑھ کر یہیں رہنا جب تک میں یہاں سے نہ گزروں۔‘‘ جب نماز پڑھ کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے جانے لگے تو ان صاحب کو ایک لاٹھی عطا فرمائی اور فرمایا: ’’اس لاٹھی کو پکڑو جب بھی تم اندھیرے میں ہو گے تو اس کے ذریعہ تمہارے آگے پیچھے دس دس قدم تک مکمل روشنی ہوگی اور جب تم گھر پہنچ جاؤ تو گھر میں جو کھردرے پتھر ہیں ان کو اس لاٹھی سے مارو تمہارے گھر سے شیطان بھاگ جائے گا۔‘‘
اس لاٹھی نے اندھیرے میں روشن ہو کر ان صاحب کی رہنمائی بھی کی اور اس کے ذریعہ ان کے گھر سے شیطان بھی بھاگ گیا اور کیوں نہیں بھاگتا۔ یہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان جو تھا۔
یہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اندھیرے میں رہنمائی کے لیے لاٹھی عنایت فرمائی۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ بن نعمان انصاری تھے جو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت کی وجہ سے اندھیری رات میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرنے مسجد آئے تھے۔ 
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سابقین انصار کے ساتھ مسلمان ہوئے اور تلاوت قرآن مجید کی نعمت سے نوازے گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ رات دن قرآن پاک کی تلاوت کرنے اور اسے یاد کرنے میں مشغول رہتے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ رسول اﷲ کے ساتھ اپنی بے پناہ محبت کی وجہ سے لوگوں میں بہت مشہور تھے۔ اسی طرح رسول ﷲ کی سنت پر عمل کرنے اور نماز تہجد پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کرنے میں بھی مشہور ہوگئے تھے اور اسی محبت کی وجہ سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لاٹھی آپ کو دی تھی۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ بن نعمان پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ ان میں غزوہ بدر اور غزوۂ احد بھی شامل ہیں اور ان غزوات میں پوری بہادری سے مقابلہ کیا۔ غزوہ احد کے دن حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ بن نعمان کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک مرتبہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے کمان ہدیہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کمان احد کے دن حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کو دی۔ انہوں نے اس کمان سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں تیر چلائے۔ آخر میں وہ کمان ٹوٹ گئی۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے پوری بہادری کے ساتھ بغیر کسی تلوار یا تیر کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر ان کی حفاظت فرمائی۔ اسی دوران اچانک ایک تیر آکر حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ میں لگا اور آنکھ باہر نکل آئی۔ یہ دیکھ کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر ان کی وہ آنکھ دوبارہ اسی جگہ واپس رکھ دی تو وہ بالکل ٹھیک ہو گئی اور نظر بھی پہلے سے تیز ہو گئی اور آخر عمر تک اس نظر میں کوئی خرابی نہیں ہوئی۔ 
یہی نہیں بلکہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بے حد محبت کی وجہ سے بدر اور احد کے علاوہ اسلام کے دشمنوں سے ہونے والی ہر جنگ میں حصہ لیا اور پوری بہادری سے لڑے۔ فتح مکہ کے دن مسلمانوں کا جھنڈا حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے اٹھایا تھا۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ چونکہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے میں آگے رہتے تھے اس لیے جو ایثار اور قربانی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی اسی طرح پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام میں بھی بہت تھی۔ صحابہ کرام اپنا مال راہ خدا میں خوشی خوشی دیا کرتے تھے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ بھی اپنا مال ﷲ کے دین کے لیے اور جہاد میں خوشی سے خرچ کرتے تھے۔ 
ان کی سخاوت کا ایک انوکھا واقعہ ان کے بیٹے عمر بن قتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ جب ہمارے باغ کی کھجوریں پک گئیں تو حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے جا کر ایک چابی بنوائی حالانکہ باغ کی ایک چابی پہلے سے ان کے پاس موجود تھی۔ مگر جو چابی انہوں نے بنوائی۔ وہ اپنے ایک مہاجر بھائی کو دی کہ یہ باغ کی چابی ہے۔ ایک میرے پاس ہے۔ ایک آپ رکھ لیں اور حضرت عمر بن قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ باغ میں جاتے تھے تو ان کی چھوٹی بچی بھی ان کے ساتھ جاتی۔ وہ باغ میں کھجوریں جمع کرتی کچھ کھاتی اور کچھ ساتھ لے کر آتی تو حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ اس بچی کو سختی سے منع کرتے اور ڈانٹتے ، پھر اپنے مہاجر بھائی سے اس کی اجازت لیتے۔ اگر وہ راضی ہوجاتے تو کھجوریں رکھ لیتے ورنہ ان کھجوروں کی قیمت ادا کرتے۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وصال سے چند روز پہلے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی سالاری میں جو لشکر روانہ کیا تھا۔ اس لشکر میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ بن نعمان انصاری بھی شامل تھے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ بن نعمان کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں بھی اونچا مقام حاصل رہا۔ آپ کی وفات پینسٹھ (۶۵) سال کی عمر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مدینہ میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے سات احادیث بھی روایت کی ہیں۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top