skip to Main Content
بات نئی ایجاد کی۔۔۔

بات نئی ایجاد کی۔۔۔

سید کاشان جعفری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایچ ڈبلیو پیرس واشنگٹن کی ایک مشہور کمپیوٹر کمپنی سے منسلک تھا۔ اس کے فرائض میں کمپیوٹر سے متعلق نئی نئی تحقیقات اور تجربات کرنا شامل تھا۔ کافی دنوں سے دو ایک نئے تجربے میں مصروف تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ کمپیوٹر کو انسانوں کی طرح لوگوں کے جذبات سمجھے اور ان کے دکھ درد کا کو بھی محسوس کرے۔
پیئرسن کو اپنی اس کوشش میں بڑی حد تک کامیابی بھی ملی تھی۔ وہ ایک ایسا روبوٹ بنانے کی منزل کے قریب پہنچ چکا تھا اس سے اپنے روبوٹ کو روبوٹ گرل کا نام دیا تھا۔ یہ ہوبہو انسانی بطور خاص کردار استعمال کیا گیا۔ یہ کمپیوٹر گرل تمام بچوں کی طرح کھیل کود میں حصہ لیتا۔۔۔ بچوں کے ساتھ باتیں کرتا۔۔۔ اور ان سب کے باوجود وہ محض ایک روبوٹ ہی تھا۔ حقیقی انسان نہیں، رنج، غم، ہنسی، خوشی اور دوسرے انسانی جذبات واحساسات کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔
اپنے اس تجربے اور کامیابی سے پیرسن فطری طور پر خوش نہیں تھا۔ اس پر ابھی کئی خامیاں رہ گئیں تھیں۔ اس میں اب بھی کمپیوٹر جیسی کئی کمزوریاں موجود تھیں۔ مثلاً کوئی کتاب اس کے ہاتھ لگی نہیں کہ سب کچھ میموری میں فیڈ ہوگیا۔ کوئی سوال دریافت کرو تو کتاب بھی لکھا جواب بتا دیا۔ کھیل کود میں بھی ایسا ہی کچھ کمپیوٹر گرل مظاہرہ کرتی۔ مشکل اورپیچیدہ اور پلک جھپکتے انجام دے ڈالتی جبکہ انہیں بچے تو کیا بڑے بھی آسانی سے انجام نہیں دے سکتے تھے اور اس کی انہیں حرکات، خصوصیات سے اس کا کمپیوٹر گرل ہونا ثابت ہوجاتا۔
پیئرسن اس تجربے سے مایوس یا بد دل ہرگز نہیں ہوا تھا، اپنے کام میں مصروف رہا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ خود ہی کمپیوٹر گرل کی خامیوں کو دور کرے۔ پھر اس کی جدوجہد میموری چیپ کی صورت میں سامنے آئی۔ یہ ایک ایسی میموری چپ تھی جیسے انسان بھی استعمال کر سکتے تھے۔ پیرسن انسان نما کمپیوٹر تو ن بنا سکا مگر انسان کو کمپیوٹر بنا دیتے ہی ضرور کامیاب ہوگیا تھا۔
پیرسن نے یہ چپ اس طرح تیار کی تھی کہ اس میں الیکٹرانک قوت استعمال کرنے کی ضرور باتی نہیں رہتی تھی۔ وہ برقی بسروں سے قوت حاصل کر کے اپنا کام انجام دیتی تھی۔ چپ مکمل ہوجانے کے بعد اس نے اپنی چپ کا تجربہ کرنے کے لئے ایک چپ ننری کا انتخاب کیا۔
چپ لگا دیئے جانے کے بعد چپ ننری کیا سوچ رہا ہے۔ وہ کیا کچھ کرنے کی خواہش رکھتا ہے اور کیا کھانا چاہتا ہے یہ سب جاننے کے لئے کمپیوٹر کے ذریعے مدد لینی پڑی۔
چپ ننری کے ذہین میں اٹھنے والے خیالات کمپیوٹر اسکرین پر نظر آجاتیں انہیں دیکھ کر پیرسن خوشی سے جھوم اٹھا۔ اسی کامیابی سے ایک نیا تجربہ اس کے ہاتھ آگیا تھا اور نئی تحقیق کے دروازے بھی کھل گئے تھے اب وہ اس تجربے کو کسی انسانی وجود پر کرنا چاہتا تھا۔ مگر کسی پر یہ تجربہ کیا جائے فیصلہ کرتا آسان بات نہیں تھی۔ بڑے غور فکر اور سوچ بچار کے بعد پیٹرس نے سوچا کیوں نہ اس کا تجربہ اپنے معاون پر کروں۔ اس سے بات کی بخوشی تجربے کے لئے تیار ہوگیا۔ ایک چھوٹے سے معمولی آپریشن کے بعد وہ چپ بڑی مہارت سے اسی کو لگا دی گئی اب چپ ننری کی طرح اس کے ذہن میں آنے والے خیالات کمپیوٹر اسکرین پر آنے لگے۔ وہ جو کچھ بھی سوچتا کمپیوٹر اسکرین پر تحریری صورت میں آجاتا۔ جھوٹ، فریب چالبازی، مکاری کی باتیں اور ذہن میں بننے والے منصوبے بھی اسکرین پر بخوبی دیکھے اور پڑھے جاسکتے تھے۔
کمپیوٹر اسکرین یہ بھی ظاہر کررہی تھی کہ وہ کیا کچھ اپنے دل ودماغ میں چھپائے رکھنا چاہتا ہے۔ اور کیا کچھ سامنے لے آنا چاہتا ہے۔ وہ کس معاملے میں جھوٹ کا سہارا لے گا۔ اور کس معاملے میں سچ کا۔۔۔
پیرسن کا اپنا ایک دوست فیریڈے محکمہ پولیس سے وابستہ تھا پیرسن نے اس سے اپنی تحقیق کے سلسلے میں بات کی۔ فیریڈے اپنے دوست کی تحقیق اور تجربے کو سن کر بے حد خوش ہوا۔ اس حراست میں ایک خطرناک قسم کا شاطرانہ عادی مجرم تھا۔ وہ اپنے وطن کے لئے بھی ایک خطرہ بن گیا تھا۔ امن عام کو خراب کرنے کے لئے افواہیں پھیلا کر دنگے، فساد کرانا، منشیات کی اسمگلنگ اور نقلی نوٹوں کی تیاری ا وران کا پھیلانا بھی اس کے مشاغل میں شامل تھا پورے ملک میں نہیں باہر کے ممالک میں بھی آسکتا تھا گروہ بڑی کامیابی سے اپنے مشاغل میں مصروف تھا۔ حراست میں اس پر بڑی سختیاں کی گئیں طرح طرح کے جدید آلات استعمال کیے مگر اس نے گروہ کے متعلق تو کیا، خود اپنے متعلق بھی معلومات فراہم نہیں کی تھیں، جس کی وجہ سے محکمہ پولیس بے حد فکر مند اور پریشان تھا۔
مجرم نے محکمہ پولیس کا ناک میں دم کر رکھا تھا وہ جان بوجھ کر جھوٹا مریض بن گیا تھا کہ پولیس کی تفتیش سے محفوظ رہے۔ بیماری کی وجہ سے ہی اسے سوالات سے نکال کر علاج کی غرض سے اسپتال میں منتقل کردیا گیا تھا۔ اسپتال میں اس کے ڈیوٹی ڈاکٹر نرسیں اور دوسرا عملہ بھی اس کے طرز عمل سے خوش نہیں تھا۔
فیریڈے کے ذہن میں خیال آیا کیوں نہ ڈاکٹر جوزف کو اعتماد میں لیکر اسے مجرم کے متعلق تفصیلات سے آگاہ کردیا جائے ساتھ ہی پیرسن کی چپ کے متعلق بھی بتا دیا اور کہا اگر آپ ہماری مدد کریں۔ ہمارے ساتھ تعاون کریں تو یہ قوم وطن کیلئے بڑی خدمت ہوگی۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ ڈاکٹر جوزف نے ساری گفتگو سن کر کہا۔
آپ کسی بھی بہانے چھوٹے سے آپریشن کے ذریعے وہ چپ مجرم کے جسم میں پہنچا دیں۔ پھر باقی معلومات تو ہمیں کمپیوٹر اسکرین سے معلوم ہو ہی جائیں گی۔۔۔ احتیاط یہ ہوگی کہ مجرم کو چپ کے سلسلے میں ذرہ برابر بھی علم نہ ہوسکے۔۔۔ اگر نہ بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔
ڈاکٹر جوزف بھی ایک وطن دوست ذہن کے مالک تھے۔ وطن اور قوم کی خدمت کے حوالے سے فوراً آمادہ ہوگئے۔ یوں بھی یہ جدید ایجاد ان کے پیشے اور کام کے لئے بھی بڑی مفید ہوسکتی تھی۔ اور یوں وہ اس تحقیق میں پیرسن کے ساتھی بن گئے۔
مجرم کے بہانے سے بے ہوشی کا انجکشن دے کر اسے آپریشن تھیڑ میں لے جایا گیا۔ پھر چھوٹی سی سرجری کرنے کے بعد پیرسن کی تیار کردہ چپ مجرم کے بدن میں فٹ کردی گئی۔
کمپیوٹر نے فوراً ہی بتا دیا کہ آپریشن کامیاب رہا۔ چپ صحیح مقام پر لگ گئی ہے۔ یہ سب کچھ اتنی ہوشیاری اور مہارت سے ہوا کہ اسپتال کے عملے اور آپریشن میں شریک اسٹاف کو بھی خبر نہ ہوسکی۔ خود مجرم کو بھی یہ معمول کے مطابق میڈیکل چیک اپ کی کاروائی لگی۔ میموری چپ کا کنکشن کمپیوٹر سے منسلک کردیا گیا۔۔۔
مجرم کو اسپتال میں رہتے ہوئے بھی اپنے گردہ کے ساتھیوں اور اراکین کی فکر لاحق تھی۔۔۔ وہ اپنے ساتھیوں اور کاروبار کے سلسلے میں جو بھی سوچتا، وہ کمپیوٹر اسکرین کے ذریعہ پیرسن اور محکمہ پولیس کے ذمہ دار افراد کو معلوم ہوجاتا۔ محکمہ پولیس کے لئے یہ معلومات بڑی اہمیت کی حامل تھیں وہ ان معلومات کا پرنٹ حاصل کرلیتے اور آسانی کے ساتھ گردہ کے ارکان تک پہنچ کر انہیں گرفتار کرلیتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مریض تو اسپتال ہی میں رہا۔ مگر اس کے دل اور ذہن میں بننے والے پروگرام اور خیالات سے محکمہ پولیس فیضیاب ہوتا رہا۔ پولیس کو مجرم سے تفتیش کرنے اور سوالات پوچھنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہ گئی تھی۔
اس چپ نے یہی کام نہیں کیا اس نے اسپتال میں جھوٹے بنے مریض مجرم کی بیماری کا حل بھی پیش کردیا۔ انہیں معلوم ہوگیا کہ مریض اب کسی بیماری کا بہانہ بنا کر ڈاکٹر کو تنگ کرے گا۔ کیونکہ اس قسم کے خیالات بھی اس کے ذہن میں آئے تھے۔ اور کمپیوٹر اسکرین پر ان کی ریڈنگ کر کے ڈاکٹر پہلے ہی سے تیار ہوجایا کرتے تھے۔ چند ہی دنوں بعد مریض بھی محسوس کرنے لگا وہ جس بہانے ڈاکٹر کو پریشان کرنا چاہتا ڈاکٹر پہلے ہی سے اس کا تدارک کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ یوں اس نے خود ہی بہانے بنا کر بیمار رہنے کا ارادہ ترک کردیا۔
اس کامیاب تجربے کے بعد مسٹر پیرسن کی ایجاد کو رجسٹرڈ کرلیا گیا اور جھوٹ پکڑنے والی مشینوں کی جگہ اس چپ کا استعمال عام کرنے یعنی محکمہ پولیس اور اسپتال کے لئے منظور کرلیا گیا۔ یوں ایچ ڈبلیو پیرسن انسانی کمپیوٹر تونہ بنا سکے ہاں انہوں نے انسان سے کمپیوٹر کا کام ضرور لے لیا۔

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top