skip to Main Content

باب سوم: حصہ سوم

کہانی نظمیں/منظوم کہانیاں : (کل 7 منظومات)
اردو میں چونکہ منظوم داستانوں کا وجود پہلے ہی سے تھا اس لیے بچوں کے ادب میں منظوم کہانیوں کا آنا کوئی اچنبھے کی بات نہ تھا۔ منظوم کہانیوں میں واقعات کو بیانیہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے لیکن چونکہ یہ واقعات نظم کے انداز میں ہوتے ہیں اس لیے بچے ان سے لطف لیتے ہیں۔منظوم کہانی کی ایک مثال ذیل میں پیش ہے، یہ انگریزی ناول جنگل بک کا منظوم ترجمہ ہے جسے خلیل الرحمٰن صاحب نے لکھا ہے :۔
جنگل بُک
باب اول: موگلی کے بھائی
از محمد خلیل الرحمٰن

کہانی اِک مزے کی آج ہم تُم کو سناتے ہیں
جسے پڑھ کر سبھی بچّے خوشی سے جھوم جاتے ہیں
یہ ناوِل ہے جسے رڈ یارڈ کپلنگ جی نے لکھّا ہے
اسے منظوم کرنے کا خیال اب جی میں آیا ہے
کہیں جنگل میں ننھے بھیڑیوں کو ماں سُلاتی تھی
تھپکتی تھی اُنھیں اور پیار سے لوری سناتی تھی

اس طرح نظمیہ انداز میں کہانی آگے بڑھتی ہے۔ اس نظم کہانی کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اشعار کے تسلسل میں ایک پورا واقعہ پیش کیا جاتا ہے۔چونکہ اردو ادب میں منظوم داستانیں تو قدیم دور ہی سے چلی آ رہی تھیں اس لیے بچوں کے لیے منظوم کہانیاں بھی بہت پسند کی گئیں۔سہ ماہی ادبیات اطفال میں جو کہانی نظمیں شائع ہوئی ہیں ان کی تفصیل یہ ہے:۔
1) (پہلی نظم کہانی شمارہ نمبر ایک میں شامل اشاعت ہے۔یہ نظم افق دہلوی نے لکھی ہے۔ اس نظم میں ایک خیالی شخص کی کہانی بیان کی گئی ہے جو تصور ہی تصور میں اپنے مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ جیسے شیخ چلی کی کہانیوں میں سے ایک کہانی میں ملتا ہے کہ وہ انڈے بیچنے جا رہا تھا تو ساتھ ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ ان انڈوں کی رقم سے میں اور مرغیاں خریدوں گا جو مزید انڈے دیں گی اور میں امیر ہوجاؤں گا، شادی کر لوں گا، میرے بچے مجھ سے پیسے مانگیں گے تو میں ان کو جھڑک دوں گا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ یہاں پر جب شیخ چلی نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ پیسے نہیں دوں گا تو اس کے سارے انڈے گر کر ٹوٹ گئے۔
افق دہلوی نے بھی اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ پیش کیا ہے جو شیخ چلی کی مانند اپنے روشن مستقبل کے خواب دیکھ رہا ہے۔ یہ ایک دہقان ہے جو دودھ سے بھرا برتن لے کر جا رہا ہے اور راستے میں خیالی پلاؤ پکا رہا ہے کہ ان پیسوں سے اور جانور لے کر آؤں گا جو مزید دودھ دیں گے اور میں امیر کبیر ہو جاؤں گا۔ یہی سوچ رہا تھا کہ دودھ کا برتن گر گیا اور وہ کف افسوس ملتا رہ گیا۔ دیکھیے شاعر نے اسے کیسے اختتام پذیر کیا ہے:۔

سوچ رہا تھا چلتے چلتے
گرا زمین پر برتن دھڑ سے
گرتے ہی وہ ٹوٹا سارا
بہہ نکلا اک دودھ کا دھارا
جس نے خیالی کھیر پکائی
اس نے افق بس عمر گنوائی

2) (دوسری منظوم کہانی شمارہ نمبر تین کا حصہ ہے جسے ابن انشاء نے لکھا ہے۔ یہ کہانی ایک لڑکے کی ہے جس نے اپنی کہانی آپ بیتی کے انداز میں بیان کی ہے کہ میں بھاگتا ہوا گاؤں گیا۔وہاں پر مجھے روٹی پانی ملا۔ میں نے پانی کھیت کو دے دیا ۔اس نے مجھے بدلے میں گھاس دی، میں نے گھاس ایک بکری کو کھلائی اور بکری نے مجھے دودھ دیا۔ میں نے دودھ لکڑ ہارے کو دیا اور اس سے لکڑیاں لیں۔ وہ لکڑیاں ایک تندوری کو دے کر اس سے آگ لی ، وہ آگ ایک لوہار کو دی اور اس سے قینچی لی، پھر قینچی درزی کو دے کر اس سے لباس لیا۔وہ لباس ملاجی نے لیا اور مجھے ایک قصوں والی کتاب دی۔یہ کتاب میں نے دادا کو دے کر ان سے اخروٹ لیا۔اس قصے میں بات سے بات نکالی گئی ہے ۔یہ ایک دلچسپ منظوم قصہ ہے اور ابن انشاء نے اپنے دلچسپ نثری اسلوب کی طرح یہاں بھی رنگا رنگی پیدا کردی ہے، چند اشعار یہ ہیں:

بکری سے پایا دودھ جو
میں نے دیا اک شخص کو
وہ تھا لکڑ ہارا کوئی
افلاس کا مارا کوئی
مجھ پر ہوا جو مہرباں
تحفے میں دیں کچھ لکڑیاں

(3) تیسری نظم کہانی شمارہ نمبر چار میں ہے۔یہ نظم’’ چندر اور بندر‘‘ ہے جسے اختر شیرانی نے لکھا ہے۔ اس نظم میں بندر کی بے ایمانی کو موضوع بنایا گیا ہے۔کہانی کچھ یوں ہے کہ رام چندر ایک لڑکا تھا۔اس کی ایک بندر سے دوستی ہوئی۔ چندر اور بندر کی دوستی ہوئی۔ ایک دن بندر نے منصوبہ بنایا کہ امرود توڑ کر کھائیں، چندر نے اسے کہا کہ ہمیں باغ کا مالک پکڑ لے گا لیکن بندر نے اسے تسلی دی اور دونوں باغ میں گئے، بندر نے امرود توڑ کر کھائے اور بھاگ گیا۔ چندر رکھوالے کے ہاتھ لگا اور خوب مار کھائی۔ اس خوب صورت نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:۔

چندر یہ بولا اس سے امرود ہیں پرائے
ایسا نہ ہو کہ مالک آجائے، دیکھ پائے
جانے دے بھائی بندر!
جب یہ جواب پایا اس نے سوال کر کے
غصے میں آیا بندر اور منہ کو لال کر کے
ہو جس طرح چقندر!

4) (چوتھی نظم کہانی رفیع اللہ میاں کی ہے جس کا عنوان ہے’’ چوزہ سیر کو نکلا‘‘۔ اس میں دو چوزوں کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ ایک دن ان میں سے ایک چوزہ سیر پہ گیا اور کھیتوں کی سیر کی اور جلدی سے گھر دوڑا، تاکہ بھائی کو اللہ تعالیٰ کی حسین کائنات کے بارے میں بتائے۔ اشعار دیکھیے:۔

ایک دن ایک نے دڑبا چھوڑا
مٹی کی دیوار پہ دوڑا
اس سے آگے کھیت ہرے تھے
خوبانی کے باغ بھرے تھے
بہتا پانی شور مچاتا
صابن ایسی جھاگ بناتا

5) (پانچویں نظم کہانی شمارہ نمبر پانچ میں ہے۔یہ علامہ اقبال کی مشہور نظم’’ ایک مکڑا اور مکھی‘‘ ہے۔ اس نظم میں مکڑے اور مکھی کا مکالمہ پیش کیا گیا ہے۔مکڑا مکھی سے کہتا ہے کہ تم میرے گھر بھولے سے بھی قدم نہیں رکھتی ۔مکھی نے کہا کہ تم فریبی ہو اور مجھے اپنے جال میں پھنسانا چاہتے ہو لہذا میں نہیں آ تی۔ مکڑے نے دیکھا کہ میری دال نہیں گل رہی تو مکھی کی خوشامد شروع کر دی۔مکھی اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آ گئی اور مکڑے کے جال میں پھنس کر نوالہ بن گئی۔ ملاحظہ ہو نظم کا یہ منظر:۔

مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی
بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکھا
انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں
سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا
یہ بات کہی اور اڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا
بھوکا تھا کئی روز سے، اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کر مکھی کو اڑایا

6) (چھٹی نظم کہانی شمارہ نمبر چھے میں ہے جسے فرخندہ شمیم نے لکھا ہے۔اس نظم کا عنوان ہے’’ آؤ بچو‘‘۔ اس نظم میں شاعرہ نے بچوں کو ایک نانا، نانی کی کہانی سنائی ہے۔اس طرح کی ایک کہانی راجہ اور رانی کے حوالے سے بھی لکھی گئی تھی اور بچوں میں بے حد مقبول ہوئی تھی۔اس نظم میں نانا نانی کے بارے میں کوئی لمبا چوڑا قصہ تو بیان نہیں ہوا صرف ان کے گھر کی زندگی بیان کی گئی ہے جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں:

نانا ایک سکول معلم
نانی سارے گھر کی رانی
نانا نے اطوار سکھائے
نانی نے ان کی مانی

(7) ساتویں نظم کہانی شمارہ نمبر آٹھ نو میں ہے جسے جان کاشمیری نے لکھا ہے۔اس نظم میں ایک پھول اور بچے کی کہانی پیش کی گئی ہے۔ پھول اور بچہ آپس میں ہم کلام ہیں ۔پھول بچے کو مستقبل کے بارے میںبتاتا ہے ۔یہ ایک مکالماتی نظم ہے اس کا ایک بند دیکھیے:۔

پھول :
کل کی حقیقت جانو تم
اپنا کل پہچانو تم
ملتی سزا ہے اس میں کڑی
کل ہے حقیقت سب سے بڑی
بچہ :
اچھا بابا مان گئے
دانا تم کو جا ن گئے
کل کی حقیقت پالی سب
تپاس رکھوں گا کل کا اب

معلوماتی نظمیں : (کل 15 منظومات)
یہ ایسی نظمیں ہوتی ہیں جن میں معلومات پیش کی جائیں۔ان نظموں میں ہر قسم کی معلومات شامل ہیں ۔جیسے سائنسی معلومات ،تاریخی معلومات،تعلیمی نوعیت کے مضامین وغیرہ۔سہ ماہی ادبیات اطفال میں بھی بہت سی معلوماتی نظمیں ہیں،پہلے دس شماروں میں شامل نظموں کا جائزہ ذیل میں پیش ہے:۔
(1)دریا کے عنوان سے نظم شمارہ نمبر ایک میں شامل ہے جسے علی یاسر نے لکھا ہے۔ اس نظم میں دریا کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں کہ اس کا پانی گہرا اور اجلا ہوتا ہے۔ دریا کا پانی کھیتوں کوسیراب کرتا ہے اور دریا ہروقت سفر میں رہتا ہے، دیکھیے ایک بند:

دریا میں پانی کا ذخیرہ
بہتے رہنا اس کا وطیرہ
دیکھو کیسے چمکتا ہے یہ سارا پانی
دریا دریا تیرا پانی گہرا پانی

2) (’’سب سے پہلی غذا‘‘ ایک معلوماتی نظم ہے جس میں انسان کی بنیادی اور اہم غذا کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ بنیادی اور اہم غذا دودھ ہے جو ہر فرد کے لیے اہم اور ضروری ہے۔ عموماً بچے دودھ نہیں پیتے اس لیے یہ نظم بچوں کو بھی دودھ پینے کی طرف راغب کرتی ہے۔ اس کے چند اشعار دیکھیں:۔

دنیا میں لاکھوں کھانے ہیں
کچھ جانے کچھ انجانے ہیں
دودھ کا ہے ان میں کردار
دودھ ہے ان سب کا سردار
سب سے پہلی غذا ہے دودھ
جینے کی ابتداء ہے دودھ

3) (اس نظم کا عنوان ہے ’’ضروری ہے ‘‘ اور شاعر کا نام ابصار عبدالعلی ہے۔ شاعر نے اس نظم میں پانی کی اہمیت بیان کی ہے۔ یہی پانی ہی ہے جو ہمارے لیے زندگی ہے۔ یہ میل کچیل کو دور کرتا ہے۔ یہ پودوں کے لیے بھی ضروری ہے۔پانی آبی حیات کے لیے ضروری ہے۔ شاعر نے اس نظم میں پانی کا فارمولا بھی بیان کر دیا ہے تاکہ سائنس پڑھنے والے بچے بھی اس نظم کو پڑھ کر خوشی محسوس کریں۔ اس نظم کے چند اشعار یہ ہیں:۔

آنکھ سے بھی تو یہ نکلتا ہے
منہ میں اکثر یہ آتا جاتا ہے
یہ ہمارے بدن میں رہتا ہے
اور ہمارے بدن سے بہتا ہے
دال گلتی نہیں بغیر اس کے
گوشت کو بھی یہی گلاتا ہے
میل اور گندگی سے لڑتا ہے
آگ سے دشمنی نبھاتا ہے
ہے ضروری نماز سے پہلے
پاک رہنا ہمیں سکھاتا ہے

4) (’’گرمی کا موسم‘‘ ناصر زیدی کی لکھی ہوئی ایک گیت نظم ہے ۔اس میں گرمی کے موسم پہ بات کی گئی ہے۔ شاعر نے گرمی کے اہم پھل گنوائے ہیں اور گرمی کے موسم میں لطف اندوز ہونے کا پیغام دیا ہے۔اس کے ساتھ شاعر نے گرمی کے موسم میںاحتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے ۔یوں یہ ایک معلوماتی نظم بھی کہلائی جا سکتی ہے:

خربوزے تربوزے آئے
سب نے ہی مل کر کھائے
ٹھنڈی میٹھی بوتل کے
ہم لوٹیں گے خوب مزے
دھوپ اور لو سے بچنا ہے
میں اور تو سے بچنا ہے

(5) ’’سمندر‘‘ افق دہلوی کی ایک شاندار نظم ہے جس میں انہوں نے سمندر کی تاریخ کو بیان کیا ہے ۔شاعر کے مطابق زمین پر پانی نہیں تھا زمین ایک آگ کا گولا تھی۔ اس میں بہت زیادہ حرارت تھی اور یہی حرارت اس میں کھولتی رہی اور پھر گیسیں خارج ہوئیں جن سے بادل بنے اور بادل زمین پر برسے اور پانی پھیلتا چلا گیا۔ یہی پانی سمندر بنا۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک معلوماتی نظم ہے اور اس میں سمندر بننے کے مختلف مراحل کو بیان کیا گیا ہے، چند اشعار دیکھیں:

یہی سلسلہ برسوں چلتا رہا
زمین پر پانی برستا رہا
برابر پھر آتے رہے زلزلے
شگاف اور بھی وہ لگے پھیلنے
زمین پر گڑھے گہرے بنتے گئے
بلآخر جو پانی سے بھرتے گئے
افق انقلاب آتے رہے
زمین پر سمندر بناتے رہے

6) (ضیاء الحسن ضیا ء نے ’’ گنے کا رس‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے۔ یہ ایک منفرد نظم ہے۔ اس میں گنے کے فوائد کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعر بتاتے ہیں کہ گنے کا رس خون صاف کرتا ہے۔ اس کا رس جسم کو تازگی بخشتا ہے اور یرقان سے بچاتا ہے۔ اسی کے رس کو پکایا جاتا ہے اور اسی سے گڑ بنایا جاتا ہے۔ اس نظم کے کچھ اشعار یہ ہیں :۔

کھیت ہیں بے شمار گنے کے
فائدے ہیں ہزار گنے کے
اس کا رس خون صاف کرتا ہے
اک حرارت بدن میں بھرتا ہے

7) (’’دودھ‘‘ علی یاسر کی نظم ہے۔ اس میں وہ دودھ کے فوائد بیان کرتے ہیں کہ ہر انسان کو دودھ دینا چاہیے۔ دودھ سے بہت سی مزیدار چیزیں بنتی ہیں جیسے آئسکریم، کھیر، ملک شیک،دہی اور چائے۔ بچے عموماً دودھ نہیں پیتے اور دودھ پینے سے کتراتے ہیں اس لیے یہ نظم بچوں کو دودھ پینے پر راغب کرتی ہے۔ اس نظم کے چند اشعار یہ ہیں:

سب سے پہلی غذا ہے یہ انسان کی
کرتا ہے پرورش یہ ایک جان کی
دودھ کی ہے ہمیشہ ضرورت ہمیں
دودھ پینے سے ملتی ہے طاقت ہمیں

8) (دریا نظم میں ضیاء الحسن ضیاء نے بچوں کے لیے دریا کا تعارف پیش کیا ہے۔ دریا کے بہت سارے فائدے ہیں۔ دریا ہمیں پانی فراہم کرتا ہے۔اس پانی سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں۔ اس پانی سے بادل بنتے ہیں جن سے بارش ہوتی ہے۔ اس پانی سے بنجر زمینیں سیراب ہوتی ہیں۔اس نظم کے کچھ اشعار درج ذیل ہیں:

بہہ رہے ہیں زمیں پر دریا
ہم پہ احسان کتنا ہے رب کا
دریا نعمت ہیں دوستو رب کی
ان سے بجھتی ہے پیاس ہم سب کی
کھیتی باڑی کے کام آتے ہیں
ریت کو باغ یہ بناتے ہیں

9) (’’سورج‘‘ ایک معلوماتی نظم ہے جسے افق دہلوی نے لکھا ہے۔ اس نظم میں شاعر نے سورج کے بارے میں معلومات بیان کی ہیں۔ سورج زمین سے بہت دور ہے۔ یہ چاند تاروں میں سب سے بڑا ہے۔ سورج کی روشنی حرارت اور توانائی فراہم کرتی ہے۔ سورج کی روشنی کی بدولت ہمارے موسم بدلتے ہیں۔ سورج کی روشنی سے ہماری فصلیں پکتی ہیں۔شاعر نے اس نظم میں سائنس کی کچھ معلومات کو بھی شامل کیا ہے کہ سورج سے جو شعاعیں نکلتی ہیں اس میں ایلفا، بیٹا اور گیما شعاعیں بھی ہیں۔ یہ نظم بچوں کے لیے لکھی گئی منفرد نظموں میں شامل ہے۔ اس کے کچھ اشعار یہ ہیں:

بدلتا ہے یہ چاروں موسم ہمارے
اس کی بدولت یہ دن رات سارے
اسی کی بدولت ہواؤں میں گرمی
اسی کی تمازت سے چلتی ہے آندھی
ضیا بار اس سے ہیں چاند تارے
اسی کی بدولت ہیں دلکش نظارے

(10)زمین اور آسمان کے درمیان جو خالی جگہ ہے اسے خلا کہا جاتا ہے۔ راکب راجہ نے خلا کے موضوع پر ایک منفردنظم لکھی ہے۔ اس نظم میں بچوں کو خلا کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔بچے ایسی چیزوں میں رغبت رکھتے ہیںاور ان کے بارے میں پڑھ کر یا سن کر خیالوں میں کھو جاتے ہیں۔ اس نظم میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ملتی ہے۔ دیکھیے:

خود اپنے آپ سے ٹکراتے اور بکھرتے ہیں
فضا میں اڑتی ہیں چنگاریاں تو ڈرتے ہیں
خلا میں اتنے تماشے شہاب کرتے ہیں
ہوا اور روشنی کی بھی تو رہ گزر ہے خلا
چمکتے چاند ستاروں کا بھی گھر ہے خلا

(11)ضیاء الحسن ضیا نے’’ کھیت‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے۔اس میں دیہات کے مناظر بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کو دیہات میں ہونے والی فصلوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔دیہات میں دالیں بھی ہوتی ہیں، باجرہ، چاول، گندم، گنااور اس طرح کے دیگر کھیت ہوتے ہیں جو پاکستان کو زرعی ملک ثابت کرتے ہیں۔ اس نظم کے اشعار دیکھیں:

پیارے پیارے کھیت ہیں اپنے
دلکش دلکش اچھے اچھے
گیہوں کی ہے شان نرالی
دالیں بھی ہیں دیکھنے والی
باجرہ، چاول، جو بھی اگے ہیں
سارے پودے سجے ہوئے ہیں

12) ( ’’ب رش ‘‘ نظم ابصارعبدالعلی نے لکھی ہے۔ اس نظم میں برش کے مختلف استعمالات کو بیان کیا گیا ہے۔ جیسے برش سے دانت صاف کرنا، برش سے جوتے صاف کرنا، برش سے صفائی کرنا وغیرہ۔ اس نظم کے کچھ اشعار یہ ہیں :

دانتوں کو جو اجالے
وہ بھی تو اک برش ہے
چمکائے بوٹ میرے
وہ بھی تو اک برش ہے
بالوں کو جو سنوارے
وہ بھی تو اک برش ہے
جھاڑو زمین پر دے
وہ بھی تو اک برش ہے
اک نام، سات نگ ہیں
بس ڈیوٹیاں الگ ہیں

13) ( شمارہ نمبر 7 میں ’’ مٹی کی دولت ‘‘ نظم موجود ہے۔ اس کے شاعر افق دہلوی ہیں۔ اس نظم میں شاعر مٹی کے بارے میں معلومات دے رہے ہیں۔ اس زمین پر پھیلی ہوئی مٹی کے فوائد کیا ہیں اور یہ مٹی کیسے وجود میں آئی۔ یہ ایک معلوماتی نظم ہے۔ اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:

ازل سے زمین پر چٹانیں رہی ہیں
بہت اونچی نیچی ڈھلا نیں رہی ہیں
ہواؤں کے جھکڑ بھی چلتے رہے ہیں
رخ اپنا سمندر بدلتے رہے ہیں
لگاتار بارش بھی ہوتی رہی ہے
چٹانوں میں نشتر چبھوتی رہی ہے

14) (’’مقناطیس ‘‘ شمارہ نمبر 8 9 میں شامل ایک معلوماتی نظم ہے۔اس نظم میں شاعر مقناطیس کے بارے میں معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ شاعر بتاتے ہیں کہ مقناطیس ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو لوہے کو اپنے ساتھ چمٹا لیتی ہے۔ مقناطیس کے دونوں سرے قطب کہلاتے ہیں۔ایک سرے پر ایس لکھا ہوتا ہے دوسرے پر این لکھا ہوتا ہے۔این والے حصہ کو شمالی اور ایس والے کو جنوبی کہتے ہیں۔ جو قطب ایک جیسے ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے سے دور رہتے ہیں اور جو مخالف ہوتے ہیں وہ آپس میں کشش رکھتے ہیں۔
چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:۔

اس کی مقناطیسی لہریں
شیشے اور کاغذ سے گزریں
کھینچے یہ لوہے کی سیخیں
نکل کی اور کوبالٹ کی چیزیں
اس کی مقناطیسی قوت
کھینچنے کی رکھتی ہے طاقت
لوہا جو ایسا ہوتا ہے
مقناطیس وہ کہلاتا

(15)احمد ندیم قاسمی نے’’ بادل کا گیت‘‘ نظم لکھی ہے۔یہ نظم پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ اس نظم میں شاعر نے بادل کی کہانی کو بادل کی زبانی بیان کیا ہے۔ گویا یہ ایک آپ بیتی ہے۔ بادل بتاتا ہے کہ وہ پہلے پانی کے قطرے کی صورت میں سمندر کا حصہ تھا۔ پھر ایک دن سورج کی شعاعیں اسے آسمان پر لے گئیں۔ یوں وہ قطرہ بھاپ بن کر بادلوں کا حصہ بن گیا۔ بعد میں یہی بادل بارش بن کر برس پڑا اور پانی کا قطرہ پھر سمندر کا حصہ بن گیا۔اسے ہم آبی چکر کہتے ہیں جسے شاعر نے سہل اور دل چسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ نظم کے کچھ اشعار دیکھیں:

میرا گھر سمندر کی گہرائیوں میں
میں رہتا تھا لہروں کی پرچھائیوں میں
کبھی سیپیوں میں کبھی کا ئیوں میں
اس کے بعد بادل بتاتا ہے:
مگر ایک دن شوخ تپتی شعائیں
پکاریں کہ آ تجھ کو تارے دکھائیں
اڑائیں گی تجھ کو نشیلی ہوائیں

مشاہداتی و فطری نظمیں : (کل 20 منظومات)
مشاہدہ انسانی جبلت کا حصہ ہے۔ہر انسان جو ذوق سلیم کا حامل ہے،اسے کائنات کے مشاہدے سے حظ ملتا ہے۔دنیا میں بکھری بے شمار اشیاء گویا زبانِ حال سے اپنی داستان سنارہی ہیں۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مشاہدے کو الفاظ کی زبان عطا کی جائے تاکہ باقی لوگ بھی اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔اس طرح کی نظموں میں درج ذیل موضوعات ہاتے ہیں:
٭مناظر فطرت
٭چرند پرند
٭حشرات
٭نباتات
٭موسم
٭بچوں کے کھیل
سہ ماہی ادبیات اطفال میں بھی ایسی کئی نظمیں ہیں جن میں شعراء نے اپنے مشاہدے کو الفاظ کا لباس پہنایا ہے اور اسے بچوں کے لیے دل چسپ چسپ چیز بنادیا ہے۔اب ہم ان منظومات کا جائزہ لیتے ہیں:۔
1) (اس نظم کا عنوان ہے ’’تتلی اور لڑکی‘‘۔ اس کے شاعر ادریس بابر ہیں۔ انہوں نے اس نظم میں ایک تتلی کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ ایک لڑکی کو اپنے پاس بلانا چاہتی ہے اور بلانے کے لیے اپنے پر ہلا رہی ہے۔ ادھر لڑکی کے دل میں ہے کہ میں نے اگر تتلی کی طرف قدم بڑھائے تو وہ اڑ جائے گی۔ اس طرح تتلی اور لڑکی دونوں اپنے اپنے خدشات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔یہ ایک مشاہداتی نظم ہے۔ اس نظم کے اشعار دیکھیں:۔

تتلی نے لڑکی کو دیکھا
بالکل ننھی منی پری
کیسے اس کو پاس بلائے
اس نے اپنے دھیان میں ہی
رنگ برنگے پنکھ ہلائے
فوراً اڑ جائے گی تتلی
لڑکی پہلے تھوڑا ڈری
پھر اس نے کندھے اچکائے

2) (ابصارعبدالعلی نے ’’تتلی‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے۔ اس نظم میں بھی بچوں کو تتلی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔شاعر کہتا ہے کہ ایک بچہ تتلی کے ساتھ کھیل کود کرتا ہے اور اسے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ تتلی کو پکڑ نہیں پاتا۔ آخر کار وہ لڑکا تھک جاتا ہے اور تتلی کو پکڑنا چھوڑ دیتا ہے۔اس نظم کے کچھ اشعار یہ ہیں:۔

پھول پہ بیٹھی تھی ایک تتلی
پھول تھا جیسے اس کی کرسی
شبلی آیا اڑنے لگی وہ
آگے پیچھے مڑنے لگی وہ
پھرتیلی اتنی تھی تتلی
تتلی میں ہو جیسے بجلی

3) (’’ننھی اور بلبل‘‘ چراغ حسن حسرت کی نظم ہے۔آپ اردو کے معروف شاعر ہیں۔ ننھی اور بلبل کے عنوان سے انہوں نے بچوں کے لیے بہت پیاری نظم لکھی ہے۔ اس نظم میں ایک پیاری بلبل کے گیت اور اس کی چہکار اور اس کے اڑنے کو بیان کیا گیا ہے۔ بچے چونکہ پرندوں کو پسند کرتے ہیں اس لیے نظم بچوں کے لیے بہت اعلیٰ نظم ہے۔ اس نظم کے کچھ اشعار یہ ہیں:

بلبل پیاری پیاری بلبل
باغ کی راج دلاری بلبل
میٹھے گیت سنانے والی
کیاری کیاری گانے والی
کتنے پیارے بول ہیں تیرے
گانے سب انمول ہیں تیرے

(4) ضیاء الحسن ضیاء کی نظم ’’ فاختہ ‘‘ ایک پرندے کا تعارف ہے۔شاعر نے اس نظم میں فاختہ کو امن کی علامت کہا ہے۔ اس کا حلیہ بتاتے ہوئے شاعر لکھتے ہیں کہ یہ کبوتر سے ملتی ہے۔یہ سیدھی سادی ہے اور اس کو آزادی حاصل ہے۔ یہ نظم فاختہ کا تعارف بھی ہے اور اس میں درپردہ کچھ اصلاحی سبق بھی ہیں۔ جیسے امن کا سبق، دکھوں کو جھیلنا اور سیدھی سادی فطرت کا مالک ہونا۔ اس کے اشعار دیکھیں:

سیدھی سادی ہے اپنی فطرت میں
ہے کشش اس کی پیاری رنگت میں
ہر طرف اڑنے کی ہے یہ عادی
اس کو حاصل ہے پوری آزادی

(5)’’تتلی ‘‘ سلطان کھاروی کی لکھی ہوئی نظم ہے۔ اس نظم میںوہ تتلی کا تعارف پیش کر رہے ہیں۔ بچوں کی تتلی کے ساتھ دلی رغبت کو بیان کر رہے ہیں۔شاعر لکھتے ہیں کہ یہ پھولوں میں رہتی ہے اور معصوم سی ہوتی ہے۔ تتلی بچوں کے آگے پیچھے اڑتی ہے اور بچے اسے دیکھ کر دیوانے ہو جاتے ہیں اور اسے پکڑنا چاہتے ہیں۔دیکھئے چنداشعار :

تتلی رنگ رنگیلی ہے
کالی نیلی پیلی ہے
پھولوں میں یہ رہتی ہے
ان سے دل کی کہتی ہے
بچے اس کو جانے ہیں
اس کے وہ دیوانے ہیں

(6) ’’ جگنو ‘‘بچوں کے لئے بہت پسندیدہ چیز ہوتی ہے۔موسم گرما میں جب رات کو جگنو چمک رہے ہوتے ہیں تو بچے ان کو پکڑنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔ شاعر نے اس نظم میں جگنو کے بارے میں لکھا ہے۔یہ رات کو اڑتا ہے، روشنی بانٹتا ہے، اور بچے اسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے زمین پر ستارے اتر آئے ہوں۔ اس کے شاعر جان کاشمیری ہیں۔ اس نظم کے کچھ اشعار دیکھیے:

روشنی بانٹیں شب بھر ہر سو
چاند کے گھر کا فرد ہے جگنو
اس کا بدن ہے روشن ایسے
نور کا کوئی ذرہ جیسے
چل پھر کر یہ رات گزارے
روشنی سب کے دل میں اتارے

(7) طوطا ایک بہت خوبصورت پرندہ ہوتا ہے۔ عموما اسے مٹھو بھی کہا جاتا ہے۔تسنیم شریف نے ’’میرا مٹھو ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے۔ ان کا مٹھو کئی دن سے ناراض ہے۔ وہ اسے منانے کے لئے اس سے باتیں کرتے ہیں اور اس سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ اسے جلد چھوڑ کر آزاد کریں گے۔ اس نظم کے کچھ اشعار دیکھیے:

وہ برسات، بادل، وہ بارش کا پانی
وہ جنگل وہ سبزہ، ہوائیں سہانی
وہ شاخوں کے جھولے وہ دکھ سکھ کے ساتھی
وہ میٹھی سی باتیں دلوں کو لبھاتی
انہی کی تجھے یاد آتی تو ہوگی
تیرا ننھا دل دکھاتی تو ہو گی
تجھے اب کبھی غم زدہ نہ کروں گا
سویرے تیرا پنجرہ میں کھول دوں گا
گوآنکھیں بہیں گی پر اف نہ کروں گا
میں دل تھام لوں گا دعایہ کروں گا
محبت کی دنیا میں میں از تا قیامت
خدا تیری آزادی رکھے سلامت

(8) الطاف حسین نے بچوں کے لئے تتلی کے موضوع پر نظم لکھی ہے اور اس میں تتلی کی خوبصورتی کو بیان کیا ہے۔تتلی فطرت کا وہ حصہ ہے جو بچوں کو بے حد پسند ہوتا ہے۔اس لیے ہر شاعر ان جیسے موضوعات پر طبع آزمائی کرتا ہے۔ اس نظم کے اشعار دیکھئے:

کتنی پیاری پیاری تتلی
سب کی راج دلاری تتلی
رنگ برنگے پر ہیں اس کے
پھول سبھی یہ گھر ہیں اس کے
خوب مجھے دوڑائے تتلی
ہاتھ میرے نہ آئے تتلی

(9) ’’جس چاند پہ پریاں رہتی ہیں‘‘ رفیع اللہ میاں کی نظم ہے۔ یہ مربع ہیئت میں ہے اور شمارہ نمبر ایک کا حصہ ہے۔ شاعر نے اس نظم میں چاند کے بارے میں ایک اساطیری تصور واضح کیا ہے کہ چاند پر بڑھیا رہتی ہے اور وہ چرخہ کاتتی ہے لہٰذا ہم چاند کا یہ قصہ بچوں کو سنائیں۔ اس نظم کو ہم بچوں کا گیت کہہ سکتے ہیں جیسا کہ اس کے مترنم اشعار سے واضح ہے:۔

اس چاند کی آؤ بات کریں
جس پر اک بڑھیا رہتی تھی
اک چرخہ ساتھ میں ہوتا تھا
وہ چاند پہ تنہا رہتی تھی

(11) بچوں کے ادب کے نامور شاعر صوفی غلام مصطفی تبسم نے’’ آئو آؤ سیر کو جائیں ‘‘ کے عنوان سے خوبصورت نظم لکھی ہے۔ اس نظم میں شاعر نے بچوں کو کھیل کود کے بارے میں بتایا ہے۔کھیل چونکہ بچوں کا مرغوب مشغلہ ہوتا ہے اس لیے یہ نظم بھی بچوں کی پسندپہ پوری اترے گی۔ شاعر لکھتے ہیں:۔

آؤ آؤ سیر کو جائیں
باغ میں جا کر شور مچائیں
اچھلیں کودیں ناچیں گائیں
کالے کالے بادل آئے
لہرائے اور سر پر چھائے
مینہ برسے گا خوب نہائیں
آؤ آؤ سیر کو جائیں

یوں اس پوری نظم میں بچوں کو تفریح فراہم کی گئی ہے یہ ایک نہایت عمدہ نظم ہے۔
(12) ’’چاند‘‘ افق دہلوی کی نظم ہے۔ اس میں انہوں نے چاند کی خوبصورتی کو بیان کیا ہے۔ جب چاند نظر آتا ہے تو انسان کو بے حد سرور ملتا ہے۔ چاند کی روشنی سے کائنات بہت زیادہ خوبصورت لگتی ہے یوں لگتا ہے جیسے کائنات نے سفید چادر اوڑھ رکھی ہو۔ شاعر کہتا ہے کہ بچے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ چاند کو پکڑ لیں لیکن ظاہر ہے کہ وہ اسے پکڑ نہیں پاتے۔ اس کے کچھ اشعار یوں ہیں:

سرور اس سے ملتا ہے بے حد مجھے
کلی میرے دل کی کھلا جائے ہے
بدلتا ہے یہ اپنے صورت مدام
بڑھے ہے کبھی چاند گھٹ جائے ہے
ادائیں ہیں اس کی عجب دلربا
ہر اک شخص کو اس پہ پیار آئے ہے

(13) ’’دور فلک پہ بستے تارے ‘‘ کے عنوان سے یہ نظم سلطان کھاروی نے لکھی ہے ۔اس میں وہ ایک بچے کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں جو آسمان پر ستاروں کو چمکتے دیکھتا ہے تو اس کے جی میں آتا ہے کہ وہ ان ستاروں کو چھوئے لیکن ظاہر ہے کہ ستارے ایک بچے کے ہاتھ میں نہیں آسکتے ۔اس نظم میں اسی کیفیت کا اظہار ملتا ہے۔ دیکھیے:

جی میں آئے گود میں لے لوں
تم سے مل کر میں بھی کھیلوں
آؤ پاس نہ کرو اشارے
دور فلک پر بستے تارے

(14)’’ساون آیا‘‘ الطاف حسین کی نظم ہے۔ اس میں شاعر نے برسات کے موسم کو بیان کیا ہے کہ جب ساون کا موسم آتا ہے ہر طرف کالی گھٹائیں چھا جاتی ہیں۔ ہوا کے دوش پر بادل سیر کر رہے ہوتے ہیں۔ بچے اس موسم سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ ایک تفریحی نظم ہے۔ اس کے چند اشعار یہ ہیں:

ساون آیا ساون آیا
ساون آیا خوشیاں لایا
سب بچوں نے شور مچایا
ساون آیا، ساون آیا
ہم بھی جھومیں ناچیں گائیں
اس موسم کا لطف اٹھائیں

(15) اردو کے معروف شاعر میرا جی نے بچوں کے لئے بھی کچھ منظومات لکھی ہیں۔ ’’جنگل میں اتوار‘‘ایک ایسی ہی نظم ہے جس میں جنگل کے مناظر کو بیان کیا گیا ہے۔ اس نظم میں تکرار لفظی سے شاعر نے موسیقیت پیدا کی ہے۔ یہ ایک آزاد نظم ہے اور اس میں جنگل کے مناظر نہایت خوبصورت انداز میں بیان کئے گئے ہیں کہ انسان ان میں کھو جاتا ہے۔ دیکھیے:۔

نیچے نیچے پیارے پیارے نیارے نیارے پودے ہیں
پتلی پتلی چھوٹی چھوٹی لمبی لمبی شاخیں ہیں
ایسے ایسے ویسے کیسے کیسے پتے ہیں
سو کھے سوکھے پھیکے پھیکے دبلے دبلے ڈنٹھل ہیں

(17)’’چڑیا گھر کی سیر‘‘ ضیاء اللہ محسن کی نظم ہے۔ اس نظم میں شاعر چڑیا گھر کے بارے میں لکھتا ہے۔ چڑیا گھر میں پائے جانے والے مختلف جانوروں کے نام اور ان کے کرتب بیان کر تا ہے۔ یہ ایک تفریحی نظم ہے۔دیکھئے:۔

چڑیا گھر میں بھالو ہے
جو بلی کا خالو ہے
موٹا سا ایک ہاتھی ہے
سب بچوں کا ساتھی ہے
پنکھ اڑائے کرکے شور
دیکھو ناچ رہا ہے مور

بنیادی طور پر یہ ایک تفریحی نظم ہے جس میں بچے چڑیا گھر اور ان میں پائے جانے والے جانوروں کی حرکات و سکنات کے بارے میں پڑھ کر محظوظ ہو رہے ہیں
(18) ’’گاؤں کے اک میلے میں‘‘ شہزاد شاہد کی نظم ہے۔ یہ ایک تفریحی نظم ہے اور اس میں ثقافت کو بیان کیا گیا ہے۔ گاؤں کے میلے میں کیا کچھ ہوتا ہے۔ بچے اس نظم کے مطالعہ کے بعد جان سکتے ہیں۔ مثلاً مداری اپنا تماشہ دکھاتے ہیں اور مختلف کھلونے اور کھانے پینے کی چیزیں ملتی ہیں۔ ایک بند ملاحظہ فرمائیے:

وہاں مداری آئے تھے
ساتھ بندریا لائے تھے
دیکھا سانپ اکیلے میں
گاؤں کے ایک میلے میں

(19) گرمیوں میں برسات کا موسم بچوں کا پسندیدہ موسم ہوتا ہے۔تسنیم شریف نے اسی منظر فطرت کی عکاسی کی ہے۔ان کی نظم ’’برسات‘‘ بچوں کے لیے ایک شاندار نظم ہے۔اس نظم کے مطالعہ سے برسات کا سارا منظر نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔ اس نظم کے اشعار دیکھیے :

ٹھنڈی ہوائیں کالی گھٹائیں
جھوم کے آئیں دل کولبھائیں
بارش جو برسے چھم چھم چھما چھم
بچے بڑے سب اس میں نہائیں
رنگین کاغذ کی ناؤ بنا کر
تم بھی بہاؤ ہم بھی بہائیں

(20) ’’تختی پر تختی‘‘ ایک گیت ہے جو بچے شوق سے گاتے ہیں۔اس گیت میں بچوں کا وہ منظر پیش کیا گیا ہے جب اسکول میں بچے تختیاں لکھا کرتے تھے اور تختی چیک کرانے کے بعداسے صاف کر کے دھوپ اور ہوا میں خشک کرتے تھے۔تختیاں خشک کرتے ہوئے بچے اس طرح کا کوئی گیت بھی گاتے تھے۔ دیکھیے:

تختی پر تختی
تختی پہ مایا
کس نے گرایا
ہم نے نہیں
تختی پہ تختی
تختی پہ مکھی
کس نے رکھی
ہم نے نہیں
تختی پر تختی
تختی پہ تارا
کس نے اتارا
ہم نے اتارا

متفرق منظومات:
(1)اس نظم کا عنوان ’’ایک بچے کی آرزو‘‘ ہے۔یہ شمارہ نمبر دو میں ہے۔اس کی شاعرہ فرخندہ شمیم ہیں۔ شاعرہ نے دعائیہ اسلوب استعمال کیا ہے اور اس میں ایک بچے نے اپنی ماں سے دعا کی درخواست کی ہے۔ جیسا کہ نظم کے آغاز میں ہے:

ماں! ہاتھ اٹھا، دعا کرنی ہے
رب سے ایک دعا کرنی ہے

اس نظم میں بچے نے جو خواہشیں ظاہر کی ہیں وہ بچوں کے لیے دل آویز اخلاقی سبق ہیں مثلاً ان اشعار میں دیکھیے:۔

مجھ کو کاغذ قلم عطاء ہو
علم کی جنت وا کرنی ہے
دنیا میں ہو سچ کا غلبہ
پھر سے ایک صدا کرنی ہے

(2)’’عالم بی بی کے بچوں کی دعا‘‘ شمارہ نمبر آٹھ اور نو میں شامل ہوئی۔ یہ ایک عام اور سادہ سی نظم ہے جس میں دعائیہ انداز اختیار کیا گیا ہے۔اس پوری نظم میں صرف نصائح ہیں جو بچوں کو بور کرسکتی ہیں، چند اشعار دیکھیے:۔

بھوک اور ننگ نہ ہو دنیا میں، خوف اور جنگ نہ ہو
انسانوں میں حائل مذہب، نسل یا رنگ نہ ہو

گویا شاعر یہ دعا کر رہا ہے کہ کاش ایسا ہو جائے اور دنیا میں امن کا بول بالا ہو جائے۔
(3)خلیل جبار نے ’’ریل‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے۔یہ نظم ریل کے بارے میں معلومات بھی فراہم کرتی ہے اور اس میں تفریحی رنگ بھی پایا جاتا ہے۔ اس نظم میں موسیقیت اور ترنم ہے اور بچے اسے لہک کر پڑھنا پسند کریں گے۔ اس نظم کے اشعار دیکھیں:

چھک چھک کرتی ہے وہ آئی
اپنی صدا اس نے ہے سنائی
اسٹیشن پر جب وہ آئے
دوڑ مسافروں میں لگ جائے
منٹوں میں میلوں کا رستہ
ایسے کٹے جیسے ہو چھوٹا

(4) ضیاء الحسن ضیا نے’’ اونٹ‘‘ کے عنوان سے ایک خوبصورت نظم لکھی ہے ۔اس نظم میں بچوں کے لیے اونٹ کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ شاعر نے اونٹ کی وضع قطع، شکل صورت کو بیان کیا ہے۔ اس کے چند اشعار یہ ہیں:

اونٹ کی شکل بھولی بھالی ہے
چال لیکن بڑی نرالی ہے
لمبی گردن ہے لمبی ٹانگیں ہیں
خوبصورت سی اس کی آنکھیں ہیں
اونٹ گویا پہاڑ چلتا ہوا
اس کا قد ہے بہت نکلتا ہوا

(5)شمارہ نمبر آٹھ نو میں قتیل شفائی کی ایک نظم ’’گنتی ‘‘شامل ہے۔ اس نظم میں دلچسپ اسلوب میں گنتی سکھائی گئی ہے۔ اس نظم کے اشعار گنتی ضرور سکھاتے ہیں لیکن یہ سہل نہیں ہیں اور چھوٹے بچے ان کو یاد کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

چار ادھر اور ایک ادھر، بکھرے ہیں کتنے کانچ
قبلہ میرے پاؤں میں کل زخم لگے ہیں کانچ

اب آپ ایک اور نظم دیکھیے جسے بچوں کے لیے صوفی تبسم نے لکھا تھا، اس کے اشعار میں روانی اور تسلسل ہے جو مندرجہ بالا نظم میں نہیں ہے، صوفی تبسم کی نظم یہ ہے:

ایک دو تین چار
آؤ مل کر بیٹھیں یار
پانچ چھے سات
سنو ہماری بات
آٹھ نو دس
بات ہماری بس

بہرحال ہم کہہ سکتے ہیں کہ قتیل شفائی کی نظم بڑی عمر کے بچوں کے لیے ہے اور اس میں مزاح کے اسلوب بھی ہیں اور یہ نظم تعلیمی نکتہ نظر سے نہیں لکھی گئی جبکہ صوفی تبسم کی نظم تعلیمی نکتہ نظر سے لکھی گئی ہے۔
(6)’’میری پیاری ماں‘‘ راکب راجہ کی لکھی ہوئی ایک پیاری سی نظم ہے ۔ اس نظم کو ہم ایک لوری کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس میں ایک ماں اپنے بچے کو دودھ ختم کرنے کی تلقین کررہی ہے، ملاحظہ فرمائیں:۔

میں تیری ماں پیار دوں گی پہلے دودھ ختم کر
وہی سرخ والی کار دوں گی پہلے دودھ ختم کر

یہ نظم ایک بچے کو بتاتی ہے کہ اس کی ماں اس سے کتنی محبت کرتی ہے،لہذا وہ بھی اپنی ماں کی قدر کرے اور اس کا مقام پہچانے۔یہی اس نظم کا اصلاحی پہلو ہے۔
7) ( سلطان کھاروی نے ’’ماں ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے۔اس نظم میں وہ ایک بچے کی زبانی ماں کی عظمت کو بیان کرتے ہیں۔ بچہ اپنی ماں کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو چھوٹی چھوٹی چیزیں مجھے ڈرا دیتی تھیں تب میری ماں میری حفاظت کرتی تھی۔وہ میرا خیال رکھتی تھی اور رات کو مجھے دودھ پلا تی تھی۔ یہ نظم بچوں کے اندر ماںکی محبت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس نظم کے کچھ اشعار یہ ہیں:۔

غوں غوں جب میں کرتا تھا
کوے سے بھی ڈرتا تھا
مجھ کو وہ بہلاتی تھی
میٹھی نیند سلاتی تھی
گو مجھ میں کمزوری تھی
میری طاقت لوری تھی
دودھ اور دلیا دیتی تھی
روز بلائیں لیتی تھی

(8) ’’خونی رشتے ‘‘ محمد مشتاق حسین قادری کی لکھی ہوئی نظم ہے۔اس نظم میں شاعر نے قریبی رشتہ داروں کا تعارف کرایا ہے اور ایک بچے کے ساتھ ان رشتہ داروں کی محبت کو بیان کیا۔ نظم کا بنیادی مقصد الفت کا پیغام ہے جیسا کہ شاعر نے ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے:۔

ہیں مشتاق یہ خونی رشتے
یعنی پھولوں کے گل دستے

(9) رفیع اللہ میاں نے’’ ایک بہن اور بھائی‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی ہے۔ اس میں ایک بہن اور بھائی کے جھگڑے اور صلح کو بیان کیا گیا ہے ۔اس نظم کے آخری اشعار ملاحظہ فرمائیں:۔

چھوڑ کر جھگڑنا آؤ کھیلیں ہم
ہنستے گاتے مل کے جھولا جھولیں ہم
لے لو میرے بھائی یہ کھلونے سب
میں تمہاری ہوں بہن نہ رونا اب

10) (شمارہ نمبر سات میں’’ گھڑی‘‘ کے عنوان سے ایک نظم ہے جسے علی یاسر نے لکھا ہے۔ اس نظم میں وقت کی پابندی اور وقت کی قدر و قیمت کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ شاعر کا اسلوب یہ ہے کہ ایک گھڑی ایک بچے سے بات چیت کرتی ہے اور اسے یہ پیغام دیتی ہے:۔

وقت گزر جو جاتا ہے
واپس کبھی نہ آتا ہے
گھڑی کبھی نہیں رکتی ہے
گھڑی یہ ہم سے کہتی ہے
وقت کی قدر کرو بچو!

یہ ایک دلچسپ اور اصلاحی نظم ہے جسے بچے بار بار پڑھنا پسند کرتے ہیں۔
(11) ناصر زیدی نے ’’گرمی گرمی ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے۔اس نظم میں شاعر گرمی کی شدت کو بیان کر رہا ہے۔ شاعر لکھتے ہے کہ گرمی کے موسم میں تمام جان دار بے حال ہوتے ہیں۔گرمی کی شدت تمام معمولاتِ حیات درہم برہم کر کے رکھ دیتی ہے۔گویا یہ نظم بچوں کو گرمی کے بارے میں معلومات فراہم کر رہی ہے۔ اس نظم کے کچھ شعر یوں ہیں :

چیلیں انڈے چھوڑ رہی ہیں
گرمی سے دم توڑ رہی ہیں
پیاس کے مارے ہیں بے حال
حلق میں کانٹوں کا ہے جال
ایک ہی ہے اب ان کی منشا
کا ش ملے کچھ دانہ دنکا

حوالہ جات
(1) محمد حسین آزاد،مولانا،آب حیات،دہلی،کتابی دنیا،طبع 2004،صفحہ60
(2) اطہر پرویز،ڈاکٹر،ادب کا مطالعہ،علی گڑھ،اردو گھر،طبع بار سوم 1966 صفحہ 55
(3) مشیر فاطمہ،بچوں کے ادب کی خصوصیات،علی گڑھ،انجمن ترقی اردو،طبع1962 صفحہ 59,60
(4) اسد اریب ،ڈاکٹر،پاکستان میں بچوں کا ادب ایک جائزہ،مضمون مشمولہ ،اردو میں ادب اطفال
ایک جائزہ،(مرتب: اکبررحمانی)،جلگائوں،ایجوکیشنل اکادمی اسلام پورہ،طبع 1990،صفحہ99

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top