skip to Main Content

اے کاش۔۔۔!

فائزہ حمزہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب اُس کی خواہش پوری ہوگئی لیکن کیا خواہشات کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کاش! میں ایک بڑی بچی ہوتی۔ ہونہہ بچی نہیں بلکہ بڑی لڑکی ہوتی۔ اپیا ہمیشہ پوچھتی ہیں۔ کیوں؟ ان کو کیا معلوم کہ میرا کتنا دل چاہتا ہے کہ میں بھی ایک بڑی لڑکی ہوتی۔ میرے بھی بڑے بڑے بال ہوتے۔ بڑے اہتمام سے میں بھی چوٹی ڈالتی۔ رنگ برنگے پونی بینڈز اور کیچر لگاتی۔ کیچرتو میرے بالوں میں لگتے ہی نہیں۔ میں بھی بھابھی بیگم کی طرح بالوں میں گلاب کا پھول لگاتی اور کسی بچے کو چھونے بھی نہ دیتی۔
آہ کاش! میں بھی بڑی لڑکیوں کی طرح میک اپ کرسکتی۔ کاش میرے پاس بھی میک اپ کا بہت سا سامان ہوتا۔ میں بھی ہونٹوں پر چاکلیٹ کے رنگ کی لپ اسٹک جماتی۔ آہا! ویسے اسٹرابیری کلر بھی اچھا لگتا ہے۔ کبھی وہ بھی لگاتی۔ آنکھوں پر دھنک کے رنگ لگاتی (اور لگانے کے بعد اپیا کا کرارہ سا تھپڑ بھی نہ کھاتی۔ یہ راز کی بات ہے۔ کسی کو بتانا نہیں ہے) اور سب کہتے ہماری ربیعہ تو بالکل چینی گڑیا لگ رہی ہے اور کامی بھائی جان مجھے دیکھ کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ بھی نہ ہوتے رہتے۔
جانے میں کب اتنی بڑی ہوں گی کہ میرا بھی بڑا سا دوپٹہ آئے۔ رنگ برنگا سا۔ میں پورا کھول کر اوڑھوں۔ اب آپ سے کیا چھپانا۔ جب اوڑھا تھا تو دھڑام سے منھ کے بل گری تھی۔
آہ! میرا بھی ایک چشمہ ہوتا۔ دادی اماں کی طرح۔ میں پان بنا کر کھاتی اور میرے دانت بھی نہ ٹوٹتے۔ میں بھی اماں جان کی طرح ڈھیر سارے آلو پیاز چھیلتی اور کاٹتی اور میرا ہاتھ بھی زخمی نہ ہوتا۔ کاش! میں بھی برتن دھوسکتی اور پلیٹ اور پیالیاں بھی نہ ٹوٹتیں۔
کاش! میں بھی بڑی سی جھاڑو لگاتی۔ کوئی مجھ سے جھاڑو نہ چھینتا کہ چھوڑو اسے! تم توڑ دوگی۔ سب مجھے اتنا بچہ نہ سمجھتے۔ میں کب اتنی بڑی ہوجاؤں گی کہ سب مجھ سے بھی بڑوں والی باتیں کریں۔
کاش! میں بھی کھانا پکاسکتی اور ابا جانی سے انعام پاتی اور میں ڈھیر ساری مٹھائیاں بناتی اور جی بھر کے کھاتی۔
کاش میں بھی بڑے بڑے بُندے پہنتی۔ کبھی کبھی تو جھمکے بھی۔
کاش! میرا بھی بڑا سا پرس ہوتا، میں آنٹیوں کی طرح اس کو لٹکاتی۔
کاش! میں بھی بڑی لڑکیوں کی طرح درس دیتی اور سب میری بات غور سے سنتے۔ 
کاش میں بھی سائنس کی مس کی طرح بڑی ہیل والی سینڈل پہنتی۔
کاش میں بڑی ہوتی۔ اسکول میں پڑھاتی اور بچوں پر رعب جماتی، کسی شرارتی بچے کو ایک تھپڑ بھی لگاتی اور ڈھیر ساری کاپیوں پر ٹک لگاتی۔
کاش میں بھی بڑی ہوتی تو کہانیاں لکھتی اور رسالے میں میرا نام آتا۔
اور کاش! میں بس بڑی ہوتی۔۔۔

*۔۔۔*۔۔۔*

اور آج جب میری یہ ساری خواہشات پوری ہوچکی ہیں تو میرا دل چاہتا ہے کہ
’’کاش میں ایک چھوٹی بچی ہوتی‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top