skip to Main Content
ایک کسان کی کہانی

ایک کسان کی کہانی

حمادظہیر

…………….…………….

ایک کسان کی سرگزشت جب اس نے خدا کے حکم کی تکمیل میں اپنی زمین کی قربانی دی۔

…………….…………….

     ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔ اس کا نام تھا برکت علی۔ وہ صبح سے شام تک اپنے کھیت میں سخت محنت مشقت کرتا لیکن اس کے باوجود اس کے حالات بہت خراب رہتے۔
یہاں تک کہ نئے سال کی فصل اگانے کیلئے بیج اور کھاد وغیرہ کیلئے اسے گاؤں کے ایک زمیندار سے قرض لینا پڑتا۔ زمیندار کافی امیر آدمی تھا۔ وہ ہر کسی کو قرض دینے کیلئے تیار رہتا۔ یہی نہیں بلکہ اس کی کوشش ہوتی کہ ہر کسی کو زیادہ سے زیادہ قرض دے، کیونکہ وہ اس پر بھاری سود لیا کرتا تھا۔ 
برکت علی بھی بے چارہ ہر فصل میں اس سے سود پر قرضہ لیا کرتا اور فصل تیار ہونے پر تقریباً ساری فصل دے کر بھی قرضہ نہ چکا پاتا۔
زمیندار اس سے کہتا ’’فکر نہ کرو تمہارا یہ قرضہ جمع ہو رہا ہے۔ بعدمیں اسکی کوئی صورت نکالیں گے!‘‘ برکت علی اس بات سے غافل تھا کہ کیا ’’صورت‘‘ نکالی جائے گی۔ مگر جو بھی صورت نکلتی، اس کی مجبوری ہوتی۔ ایک مرتبہ برکت علی کو کسی کام سے ایک سفر درپیش ہوا۔ دورانِ سفر راستے میں اسے اپنا ایک پرانا دوست مل گیا۔ جو بچپن میں اس کے ساتھ مدرسہ میں پڑھا کرتا تھا۔
اس دوست کا نام تھا رحمت اﷲ۔ اس نے برکت علی سے اس کے حال احوال پوچھے تو برکت علی نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ 
رحمت اﷲ بولا ’’ دیکھو برکت علی۔ سود ایک لعنت ہے۔اﷲ تعالیٰ سود کو گھٹاتا ہے۔ اﷲ نے سودی معاملات کرنے والے کے خلاف اپنا اور اپنے نبی کا اعلانِ جنگ کہا ہے۔ تم سے جیسے بھی ہو تم اس قرضے سے اور سود سے اپنی جان چھڑاؤ۔‘‘
برکت علی بولا ’’لیکن کیسے ۔میرے حالات اس قابل نہیں ہیں کہ میں بغیر سود کے قرضے کے کھیتی اور پیداوار کر سکوں۔‘‘ رحمت اﷲ نے سمجھایا ’’تین چیزوں کو ہلکا نہیں سمجھنا چاہیے۔ فرض، قرض اور مرض ! بس تم قرض نہ لو چاہے سے تمہیں اپنی کچھ زمین ہی کیوں نہ بیچنی پڑے۔‘‘
’’ کیا بات کرتے ہو رحمت اﷲ ۔ میرے پاس ہے ہی کیا، سوائے اس زمین کے ، میں اس کو بیچ دوں گا تو کھیتی باڑی کس پر کروں گا۔‘‘
’’تم ہمت تو کرو۔ کم کھیتی کرو۔ مگر اپنے لیے۔ یہ اس سے تو بہتر ہے نا کہ تم سارا سال محنت کرکے زمیندار کے آگے ڈال دو۔‘‘
برکت علی نے حیلہ کیا۔ ’’ٹھیک ہے میں سوچوں گا۔‘‘
رحمت علی نے کہا ’’ٹھنڈے دل سے سوچنا۔ تمہارا تھوڑی سے زمین بیچنا تمہیں تمہاری ساری زمین کی محرومی سے بچا دے گا۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ اب برکت علی چونکا۔
’’جو قرض زمیندار کے پاس باقی رہ جاتا ہے اور اس پر جو سود در سود لگ رہا ہے، وہ ایک دن تمہاری زمین کی قیمت کو پہنچے گا۔پھر یا تو تمہیں اپنی زمین اسے دینی پڑے گی یا پھر وہ تمہارے بیٹا بیٹی میں سے کسی کو اپنے یہاں نوکر بنا لے گا۔‘‘
رحمت اﷲ کی یہ آخری بات برکت علی کے دماغ میں ہتھوڑے بن کر برس رہی تھی۔ اس نے اپنی بیوی سے مشورہ مانگا۔ بیوی بولی۔
’’ہمیں اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر یہ تھوڑی سی قربانی دے دینی چاہیے۔سودی معاملات اگر اﷲ سے جنگ ہیں تو ہمیں یہ جنگ فوری ختم کرنی چاہیے۔‘‘
بیوی کے حوصلہ دینے پر برکت علی اپنی زمین کا دسواں حصہ بیچنے پر تیار ہو گیا۔
زمیندار کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو وہ بھاگا بھاگا اس کے پاس آیا۔
’’ارے برکت علی کیا غضب کر رہے ہو۔ میں مر گیا ہوں کیا۔ میں تم کو کم سود پر قرضہ دینے کو تیار ہوں۔‘‘ 
برکت علی پکا فیصلہ کر چکا تھا لہٰذا نکاری رہا۔ 
’’اچھا میں تمہارے بقایا جات میں سے آدھا سود معاف کرتا ہوں۔‘‘زمیندار نے ایک اور شاندار پیش کش کی۔ اس پر تو برکت علی بھی گڑبڑا گیا۔ لیکن فوراً ہی اسے یہ بات یاد آئی۔
’’سودی معاملات اﷲ اور رسولؐ سے جنگ ہیں۔‘‘ اس نے دل پر جبر کرکے زمیندار کی یہ پیش کش بھی ٹھکرا دی۔

*۔۔۔*

زمین کی فروخت سے جو روپیہ حاصل ہوا اس میں سے بیشتر بیج اور کھاد وغیرہ کی خریداری پر خرچ ہو گیا ۔ جو کچھ بچا وہ بھی تیزی سے خرچ ہونے لگا۔ کئی اضافی خرچے زمیندار سے دشمنی مول لینے کی وجہ سے نکل آئے۔ قریبی دکاندار اسے اشیاء یا تو مہنگی دیتے یا پھر انکار کر دیتے۔ اسے ان کے حصول کے لیے دور دراز کا سفر کرنا پڑتا ، جس سے اسے سخت مشقت پیش آتی۔ اکثر تو وہ ان سب باتوں سے گھبرا کر اور اکتا کر اپنے کیے ہوئے فیصلہ پر پشیمان ہوتا، لیکن اس کی بیوی اس کو دلاسے دیتی اور اﷲ کی مدد کا یقین دلاتی۔
پھرا س کے یہاں چوری بھی ہو گئی۔ اب تو اس کا حال پتلا تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ یہ بھی زمیندار ہی کا کام ہو سکتا ہے لیکن وہ مجبور تھا ، کمزور تھا۔
زمیندار نے اسے ایک مرتبہ پھر قرض دینے کی پیش کش کی لیکن اس پر زمیندار کی دشمنی اچھی طرح کھل چکی تھی۔ اس نے بھوکوں مرنا قبول کر لیا لیکن قرض لینے کو ترجیح نہ دی۔ نوبت فاقوں تک پہنچ گئی، لیکن اس نے صبر کیا۔ اﷲ نے اسے استقامت پر صبر کی نعمت سے نوازا اور پھر تو نوازاش کے دروازے ہی کھل گئے۔ فصل ہمیشہ سے کم ہوئی مگر اس کے دام چڑھ گئے۔ زمیندار تو برکت علی سے فصل انتہائی کم قیمت پر خرید لیا کرتا تھا۔ منڈی جا کر تو اس نے خوب اچھے داموں فصل فروخت کی اور تقریباً دگنا منافع لے کر لوٹا۔
سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ تھی کہ یہ سارا اس کا اپنا تھا۔ زمیندار کا نہیں۔ وہ بھاگا بھاگا رحمت اﷲ کے پاس پہنچا، اس کا شکریہ اداکرکے بولا۔
’’ اب تو میں اچھے والے بیج، اچھی والی کھاد اور کیڑے مار دوائی بھی خرید سکوں گا، پھر فصل اس سے بھی اچھی ہوگی!‘‘
رحمت اﷲ بولا۔’’ بھائی یہ سب تو تم کرو گے ہی لیکن اس سب سے پہلے بہتر ہو گا کہ تم زمیندارکا معاملہ رفع کرو چاہے اس کیلئے تمہیں اپنی ساری کمائی ہی کیوں نہ خرچ کرنی پڑ جائے۔‘‘
برکت علی کو زمیندار کی طبیعت کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا مگر مسئلہ پھر یہی تھا کہ وہ اپنی ساری کمائی دے کر بھی زمیندار کا قرض اور سود نہیں اتار سکتا تھا۔ ایک بار پھر اس کی بیوی نے مشورہ دیا
’’ میرا تو خیال ہے ہم تھوڑی زمین اور بیچ دیں لیکن ہر صورت اس قرضہ اور سود کی لعنت سے جان چھڑائیں۔‘‘
برکت علی ایک سال میں آزما چکا تھا ۔ اس نے زمین کا ایک اور حصہ بیچا اور ساری رقم لے جا کر زمیندار کے منہ پر مار دی۔
بچی کچھی رقم سے اس نے اپناکھیتی باڑی کا سامان خریدا اور اﷲ کا نام لے کر کام شروع کیا۔ اس کا سرمایہ اتنا محدود تھا کہ زمین کم ہوجانے کے باوجود بھی پوری زمین پر کاشت نہ کر سکا۔
زمیندار نے اسے فقیر سمجھ کر اس کے حال پر چھوڑ دیا۔

*۔۔۔*

چار سال بعد برکت علی ایک پوٹلی میں قرضہ کی ایک بڑی رقم لے کر جا رہا تھا۔ اس کے تیز تیز اٹھتے قدم سامنے سے رحمت اﷲ کو آتے دیکھ کر رک گئے۔
رحمت اﷲ نے پوچھا۔’’ ارے برکت علی۔ سناؤ کیا حال ہے؟ ‘‘ برکت علی گھبرا کر بولکا۔ ’’ابھی مجھے کچھ جلدی ہے، پھر بات کرتے ہیں۔‘‘
’’یہ پوٹلی میں کیا ہے؟‘‘رحمت اﷲ نے پوچھا۔
’’قرضہ کی رقم ہے‘‘ برکت علی کے چہرے پر پریشانی کے مارے پسینہ بہہ رہا تھا۔ وہ تیزی سے ایک طرف بڑھ گیا۔
رحمت اﷲ افسوس سے بولا ’’کتنا سمجھایا تھا میں نے اسے خیر۔۔۔ جو خدا کی مرضی۔‘‘
ادھر برکت علی تیز تیز قدم اٹھاتا ایک گھر کے پاس پہنچا جہاں ایک عورت اپنی تین بچیوں کے ساتھ دروازے سے باہر کھڑی رو رہی تھی اور چلائے جارہی تھی۔ ’’ ہائے میرا گھر، ہائے میرا گھر!‘‘
اس کا شوہر بھی غم سے نڈھال زمین پر اوندھے منہ پڑا تھا۔ برکت علی نے اسے اٹھایا اور پوٹلی دیتے ہوئے بولا۔
’’ لو رمضو۔۔۔ اپنا قرض چکاؤ اور گھر واپس لو۔‘‘
رمضو میں گویا جان پڑ گئی۔ مگر پھر افسردگی سے بولا۔’’فائدہ کیا ہوا، اس کا قرض چکاتو تمہارا چڑھ گیا۔‘‘
’’فائدہ کیا ہوا، اس کا قرض چکا تو تمہارا چڑھ گیا۔‘‘
’’فائدہ یہ ہوا کہ میں صرف اپنی رقم ہی واپس لوں گا، سود کا ایک پیسہ نہیں اور یہ بھی تم اپنی آسانی پر دیتے رہنا۔‘‘
برکت علی کے مال میں اﷲ نے ایسی برکت دی کہ نہ صرف اس نے اپنی زمین واپس خریدی بلکہ اس سے کافی بڑی زمین بھی اور لے لی۔
اور یوں سود پر قرض لینے والا تھوڑی سے ہمت اور استقامت سے بلاسودی قرض دینے والا بن گیا۔

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top