skip to Main Content
ایک مکان دو دیواریں

ایک مکان دو دیواریں

دو بھائیوں کی دلچسپ داستان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمال احمد رضوی

ایک تھے میاں امجد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دارجلنگ کی برف سے ڈھکی چوٹیوں کے اُس پارنیچے ترائی میں اترتے ہی خوب صورت نارنگیوں والا باغ ملتا ہے۔اس باغ کی لمبائی دس میل تک چلی گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک ندی بھی بہتی ہے جو باغ کے آگے گاؤں تک چلی جاتی ہے اور گاؤں سے ہوکر بائیں طرف مڑ جاتی ہے، پتہ نہیں کہاں۔اس گاؤں کا نام سمستی پور ہے اور اس دریا کو پار کرنے کے لئے کشتی کا راستہ ہے جو دوسرے شہر کو جاتا ہے۔یہ گاؤں بنگال اور آسام کا سب سے خوب صورت گاؤں ہے اور چاروں طرف سے ناریل کے قد آور درختوں سے گھرا ہواہے۔ندی سے دارجلنگ کی سفید سفید برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیاں صاف نظر آتی ہیں اور جب صبح کا سورج پورب کی طرف سے طلوع ہورہا ہے تو یہ چوٹیاں چاندی کے تار سے گندھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں اور ان سے ایسی تیز چمک پیدا ہوتی ہے کہ دیکھنے والے کی آنکھیں چندھائے بغیر نہیں رہتیں۔
اس گاؤں میں چھوٹے سے ناریل کے با غیچے کے بیچ میں گاؤں کا ایک مدرسہ ہے۔اس میں چار کمرے ہیں اوربرآمدہ۔برآمدے کے آگے سبزے کا فرش بچھا ہوا ہے اور گرمیوں میں ناریل کے سائے میں اسکول کے ماسٹر صاحب بچوں کو یہیں پڑھاتے ہیں۔لڑکے گھاس پر قطار میں بیٹھ جاتے ہیں اور سلیٹ پر ماسٹر صاحب کے بتائے ہوئے سوالات حل کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ان لڑکوں میں امجد بلاکا ذہین اور شرارتی سمجھاجاتا ہے۔پڑھنے لکھنے میں تو اس کا دل خاک نہیں لگتا۔اسے تو مدرسے کے ساتھ والے باغ سے امرود اور ناریل چرانے کی دھن سمائی رہتی ہے۔جب دیکھو ناریل کے درخت پر چڑھا بیٹھا ہے اور کچے کچے ناریل توڑ کر زمین پر لڑکوں میں پھینک رہا ہے۔کئی دفعہ پکڑا بھی گیا تو صاف ہاتھ جھٹک کر یہ جا وہ جا۔لڑکے اس کے ڈر سے کچھ نہیں بولتے،کیوں کہ کبھی کبھی امجد ان کند ذہنوں کے سوال حل کردیتا۔کسی کو ماسٹر صاحب کی مار سے بچا دیتا۔اور کبھی کبھی ان کے لئے اونچے اونچے درختوں سے سنگترے اور مالٹے بھی توڑ لاتا،جن تک وہ نہیں چڑھ سکتے تھے۔غرض کہ امجد دوستوں کا بہت اچھا دوست تھا اور دشمنوں کا بدترین دشمن تھا،کیوں کہ جب کبھی وہ ایک لڑکے کو دوست کہہ دیتا تو اس کے ساتھ ہمیشہ اچھے سلوک سے پیش آتا اور ہر طرح کی مدد کرتا اور جن سے اس کی دشمنی ہوتی وہ انہیں کبھی منہ نہ لگاتا اور لڑکوں میں الگ بے وقوف بناتا۔کبھی وہ ان کے منہ کو کوئلے سے رنگ دیتااور ان پر سفیدی سے ٹیکہ لگا دیتااور ایک لڑکے کو گدھا بنا کر اس پر سوار کر دیتااور گلی میں بستے کو دھبا دھب بجاتا ہوا گشت کراتا۔اسی ڈر کے مارے لڑکے اس سے دشمنی مول نہیں لیتے اور وہ چپ چاپ اس کی ہر الٹی سیدھی اسکیم پر ’’ہاں ‘‘ کہہ دیتے اور ہاتھ کھڑا کر لیتے۔تو امجد ان سب لڑکوں کا چند ہی دن میں بہترین دوست بن گیااور لڑکوں کی جماعت پر حکمرانی کرنے لگا۔
مدرسے کے پیچھے لالہ کاشی رام کا امرودوں والا باغ تھا۔لالہ دراصل پڑا کنجوس آدمی تھا اور امرود کوے طوطے کھا جاتے تھے لیکن وہ آدمی کو کھلانا حرام سمجھتا تھا۔یہ لالہ عجیب قسم کا لالہ تھا۔اس کے سر پر بال نہیں تھے۔ہر وقت ایک لمبا کرتہ اور ایک دھوتی پہنے رہتا اور امرود کے باغ کے ٹھیک بیچ میں بیٹھا ہوا مزے سے حقہ پیتا رہتا۔
امجد کو لالہ سے دشمنی تھی۔ایک دن اس نے دل میں تہیہ کر لیا کہ لالہ کا باغ لوٹ لیا جائے،مگر سوال یہ تھا کہ دوسرے لڑکے ڈرتے تھے کیوں کہ کسی میں ہمت نہ تھی کہ باغ کے اندر قدم رکھے اور اگر قدم رکھے بھی تو یہ ڈر کہ وہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر سے شکایت کر دے گا اور ان پر بے بھاؤ کی پڑنے لگے گی۔
امجد چھٹی کے بعد جب ذرا شام ہوئی تو سب لڑکوں کو جمع کرکے باغ کے دوسرے کنارے پر لے گیا اور وہ آنے والی سیٹی جو اس نے آج ہی خریدی تھی جیب سے نکا ل کرزوروں سے بجائی۔اس نے صبح ہی اسکول میں لڑکوں کو بتادیاتھا کہ جب اس سیٹی کی آواز دے تو وہ کہیں بھی ہوں فوراً بھاگ کر چلے آئیں۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔اس نے ابھی سیٹی بجائی اور لڑکے بستے بغل میں دبائے ہوئے بھاگے بھاگے آئے ۔امجد نے جب دیکھا کہ سب جمع ہوگئے ہیں تو اس نے اطمینان کا سانس لیا اور پھر اپنے خطرناک ارادے کا اس طرح اعلان کیا۔
’’آج شام کو لالے کا باغ لوٹنے کا پروگرام ہے بھائیو۔‘‘
لڑکوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور وہ ایک دوسرے کا حیرت سے منہ تکنے لگے۔آخر اتنا خطرناک کام کس طرح ممکن تھا اور پھر ان کے سامنے لالہ کا لمبا چوڑا دیو کی طرح جسم پھر گیاجو ناریل کے درخت کی طرح لمبا اور تگڑا تھا اور جو بچوں کو مچھلیوں کی طرح پکڑ کر انہیں جان سے مارڈالتا اور پھر اگر وہ بھاگنے میں کامیاب بھی ہوگئے تو لالہ ان میں سے ایک ایک کوپہچانتا تھااور وہ فوراً ان کی ہیڈ ماسٹر کے سامنے پیشی کرکے انہیں ایک ٹانگ پر کھڑا کرادیتا اور پھر ان کا جسم ماسٹر کی بیدکے خوف سے لرزگیا۔خوف سے ان کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ امجدنے فوراًتاڑ لیا کہ یہ سب ڈر گئے ہیں۔
’’مگر باغ میں جائے گا کون؟‘‘احمد نے ہمت کرکے پوچھا۔
’’ہاں بھائی رات کے وقت باغ میں جائے گا کون۔سانپ بچھو بھی تو ہوتے ہیں۔‘‘دوسرے لڑکے نے کہا۔
’’باغ میں جانا کون سا مشکل کام ہے کوئی چلاجائے۔‘‘امجد بولا،’’احمد تو ہی چلا جا۔‘‘
’’نہ بابا۔وہ لالہ ویسے ہی میرادشمن ہے ،مجھے تو جان سے مارڈالے گا،اصغر کو بھیج دو۔‘‘
اصغر بولا،’’کیوں۔کیا میں ہی قربانی کا بکراہوں۔‘‘
امجد نے کڑک کر کہا:
’’میں جاؤں گا باغ میں پہلے۔‘‘اور یہ کہہ کر اس نے فوراً قمیص کے اندر سے ٹٹول کر ایک چمکتی ہوئی چیز نکالی۔
’’ارے باپ رے۔‘‘اصغر چیخ پڑا۔
’’یار یہ کیا ہے۔‘‘احمد بولا۔
’’ابے چُھرا ہے چھرا۔۔۔چھرا نہیں دیکھا کبھی؟‘‘امجد نے چھرے کی دھار پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا اور لڑکوں کو یوں محسوس ہوا جیسے ابھی چھرے سے امجد کی انگلیاں کٹ کر خون میں تر ہو جائیں گی۔لیکن امجد بے پروائی کے ساتھ چھرے سے اس طرح کھیلتا رہا جیسے وہ کوئی چھرا نہ ہو بلکہ بچوں کا جھنجھنا ہو۔
’’اگر لالہ ذرا سا بھی اکڑا تو یہ چھرا اس کے پیٹ میں اتر جائے گا۔سن لیا۔‘‘امجد گرج کر بولا۔
لڑکے خاموش ہو گئے۔ان سے کچھ بن نہ پڑتا تھا۔کیونکہ اگر امجد کے خلاف انہوں نے کوئی بھی بات زبان سے نکالی تو وہ جانے کیاکردے گا۔وہ چپ چاپ کھڑے ہوئے اسے چھرے سے کھیلتے ہوئے دیکھتے رہے اور اس کے حکم کے منتظر رہے۔امجد نے جب پوری طرح محسوس کرلیا کہ ان میں سے کوئی بھی اس کے حکم کے خلاف ایک قدم بھی نہیں چل سکتا تواُس نے چھرے کو قمیص کے نیچے پاجامے کے نیفے میں چھپا لیا۔لڑکے بدحواس ہوگئے کہ یہ ننگا چھرا اس نے کس طرح پاجامے میں رکھ لیا۔کہیں اس کا پیٹ ہی نہ کٹ جائے،مگر ان میں ہمت نہ ہوتی تھی کہ وہ امجد سے اس کے بارے میں کچھ پوچھیں۔
’’تو سنو!‘‘امجد بولا،’’ہم لوگ باغ کی پچھلی طرف سے داخل ہوں گے اور ہر لڑکے کو اجازت ہے کہ کچے پکے جتنے امرود ہوں وہ توڑ توڑ کر زمین پر پھینکتا جائے اور جتنا کھاسکے کھالے۔مگر کسی کو یہ اجازت نہیں ہوگی کہ پھل کھانے میں اتنا مگن ہو جائے کہ لالہ اسے آکر پکڑ ہی لے۔لہٰذا کھائے کم اور گرائے زیادہ۔‘‘
اس کے بعدامجد نے قمیص کی آستین کو اوپر چڑھایا اور پاجامے کے پائنچو ں کو موڑ کر پورا واسکوڈی گاما بن گیا۔
’’دیکھنا یارو۔‘‘امجد پھر بولا،’’باغ میں جب سیٹی بجاؤں تو سمجھنا کہ خطرہ ہے اور لالہ اٹھ کھڑا ہوا ہے اور فوراً تم لوگ باغ کی دوسری طرف والی چاردیواری کے پاس پہنچ جانا اور میں کندھے پر اٹھا اٹھا کر تمہیں باپر پھینک دوں گا۔چاردیواری کی اس طرف لمبی لمبی گھاس ہے چوٹ نہیں آئے گی،مگر یادرکھو سیٹی کے بجتے ہی بھاگ کھڑے ہونا۔۔۔بس! اب ریڈی۔۔۔سیٹی بجتے ہی اندر۔۔۔!‘‘
امجد نے زنجیر سے لٹکتی ہوئی سیٹی کو نکال کر منہ سے لگا لیا۔اتنے میں دوسرے لڑکے بستوں کو گھاس میں چھپا کر فوراً آستین اور پائینچے چڑھانے لگے اور دوسرے ہی منٹ میں سیٹی کی آواز اندھیرے میں گونجی اور دھب دھب دوڑنے کی آواز آنے لگی۔
شام کی سیاہی گہری ہوتی جا رہی تھی اور امرود کے درخت تاریکی میں لپٹے ہوئے تھے۔پرندے کہیں کہیں ڈالوں میں پروں کو پھڑپھڑانے لگتے ورنہ تمام خاموشی تھی۔البتہ باغوں کے بیچوں بیچ ایک لالٹین جل رہی تھی اور اس کی روشنی میں لالہ ایک کتاب میں آنکھ گاڑے پڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔اس کی کھاٹ کے پاس ایک کتا بھی بیٹھا تھا جو ذرا ذرا سی آہٹ پر چوکنا ہوکراِدھر اُدھر دیکھنے لگتا تھا۔لالہ کتے کو باغ کی رکھوالی کے لئے رات کو اپنے پاس ہی سُلاتا تھا۔کیوں کہ اب اس کی آنکھ کمزور ہو چکی تھی اور اسے رات کو بہت کم نظر آتا تھا۔کتا اتنا وفاداراورچوکنا تھاکہ رات کے وقت مسافر بھی باغ کی طرف سے گزرتے ہوئے ڈرجاتے تھے اور وہ بھونک بھونک کر باغ میں اپنی موجودگی کا بار بار اعلان کرتا رہتا تھا۔اس وقت کتا چپکا بیٹھا مالک کو دیکھے جا رہا تھا جو آپ ہی آپ پڑھتے پڑھتے ہنسنے لگتا اور کبھی خاموش ہو جاتا۔
اندھیرے میں درختوں کی ڈالیوں کے ہلنے کی زور زور سے آوازآئی اور ایک خرگوش تیزی سے بھاگتا ہوا لالٹین کی روشنی میں نظر آیا۔کتا اس کے پیچھے بھوں بھوں کرتا ہوا بھاگنے لگا۔درختوں کی ڈالیاں ہلنی بند ہو گئیں۔البتہ کبھی کبھی اندھیرے میں کوئی درخت کی پھنگ کی کھڑکھڑاہٹ کی آواز سنائی دے جاتی۔خرگوش بھاگتا ہوا باغ کی دوسری طرف چلا گیا اور کتا بھی اس کے ساتھ ہی غائب ہوگیا۔لالہ جو ابھی تک کتاب پڑھنے میں مصروف تھا،ذرا سی گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھنے لگا اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی درخت ہل رہا ہو۔ٹھیک اسی وقت درخت پر سے دو طوطے اندھیرے میں ٹائیں ٹائیں کرتے ہوئے نکلے اور ایک طرف کو غائب ہو گئے۔لالہ سمجھا کہ یہ درخت پر طوطوں کے لڑنے کی وجہ سے شاخیں ہل رہی تھیں اور اطمینان محسوس کرکے دوبارہ کتاب میں نظریں گاڑ لیں۔
لڑکوں نے جب دیکھا کہ لالہ کتاب پڑھنے میں بری طرح کھوچکا ہے اور کتا بھی خرگوش کے تعاقب میں کہیں دور نکل گیا ہے تو انہوں نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پھلوں کو بری طرح کھسوٹنا شروع کردیا۔درختوں کے نیچے امرودوں کا ایک ڈھیرلگ گیاتھا اور تمام شاخیں پھلوں کے بوجھ سے آزاد ہوکر اوپر کو اٹھ گئی تھیں۔امجد نے اس وقت تک کوئی دوہزار سے زیادہ امرودوں کا صفایا کردیا تھا۔ایک امرودکو دانت سے کاٹتے ہوئے اس نے سامنے والے درخت پر بیٹھے ہوئے احمد کو آہستہ سے آوازدی۔
’’کیوں رے احمد۔کیا سورہا ہے۔‘‘
احمد نے بھی آہستہ سے جواب دیا۔
’’ہاں یار اب تو توڑنے کو کوئی پھل ہی نہیں رہے ۔سارا صفایا ہوگیا۔‘‘
تین چار درخت کو چھوڑ کر آگے تمام امرود کے درختوں پرپھلوں کر بری طرح نوچ کھسوٹ رہے تھے اور گھبراہٹ کے مارے انہوں نے شاخوں پر اسی طرح ہاتھ مارنا شروع کردیا کہ ڈالوں کی لچک کی آواز اُڑااُڑا کر لالہ کے کانوں تک بھی جا پہنچی۔
اس نے کتاب کو ایک طرف بندکرکے رکھ دیا اور لالٹین کو ہاتھ میں لے کر اٹھا اور چارپائی کے نیچے سے اس نے ایک خوب مضبوط ڈنڈا نکالا اور اس طرف کو بڑھا جدھر درخت اس طرح ہل رہے تھے جیسے زلزلہ پھٹ پڑا ہو،طوفان آگیاہو یا درخت اپنی جگہ سے اکھڑ رہے ہوں۔
امجد نے جب دیکھا کہ لالہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کی طرف رخ کررہاہے تو وہ بلی کی طرح تیزی سے کود کر درخت کے نیچے آگیا اور سیٹی کی آواز سے پورا باغ گونج اٹھا۔درختوں کی ڈالیاں ہلنی بند ہو گئیں اور لڑکوں کے دھبادب درخت سے کودنے اور بھاگنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔لالہ کے ہاتھوں میں لالٹین تھی۔اس نے جب بھاگنے کی کوشش کی تو لالٹین جھپاکے سے بجھ گئی اور تاریکی اور بھی زیادہ گہری ہو گئی۔اب لالہ کو کچھ بھی نہ سوجھتا تھا۔اس نے آنکھوں کو بہت بہت پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی۔لیکن اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ بھی سجھائی نہیں دیتا تھا اور اس وقت کتا بھی کہیں خرگوش کے چکر میں غائب ہوچکا تھا اور اب اس کے لیے لڑکوں کا پیچھا کرنا مشکل ہورہا تھا۔پھر بھی وہ ان کے قدموں کی آواز پر کان لگاکر چلنے لگا اور چلتا رہا۔
اس وقت سارے لڑکے باغ کی چار دیواری تک پہنچ چکے تھے اور امجد انہیں اپنے کاندھے پر چڑھا چڑھا کر چاردیواری کے پار نرم نرم گھاس پر پھینک رہا تھا جب وہ دودرجن سے زیادہ لڑکوں کو پھینک چکا تو اس کے شانے بری طرح دکھنے لگے اور لالہ کے قریب آئے بڑے قدموں کی آواز سن کر اس نے کئی دفعہ دیوار پھاندنے کی کوشش کی۔لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔لالہ کے قدم اور بھی زیادہ قریب سنائی دینے لگے تھے اور وہ زیادہ کوشش سے دیوار پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا لیکن چونکہ وہاں سہارا دینے والا کوئی نہ تھا اس سے اس کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی اور آخر جب لالہ کوئی دس قدم رہ گیا تو وہ جلدی سے ایک درخت کی آڑ لے کر چھپ گیا۔یہ درخت بالکل اندھیرے میں تھا اور اس کے چاروں طرف جھاڑیاں تھیں۔وہیں ایک جھاڑی کے اندر چھپ کر امجد نے سانس لیا اور دل ہی دل میں خدا سے جان کی دعائیں مانگنے لگا۔لالہ اسی طرح لاٹھی کو ہاتھ میں پکڑے چلا آرہا تھااور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتا بھی جا رہاتھا۔شاید وہ اپنے امرودوں کے نقصان پر دل ہی دل میں کڑھ رہا تھا۔آخر کار لالہ بالکل چاردیواری پر پہنچ چکا تھا اور اس نے وہاں سے جب کسی کو نہ دیکھا تو سمجھ گیاکہ لڑکے چاردیواری کو پھاندکر نکل چکے ہیں اور اب تک ضرور اپنے گھروں کو جاچکے ہوں گے۔اس نے ان لڑکوں میں سے کسی کو دیکھا بھی نہ تھا اور اس لیے ان کی ہیڈ ماسٹر سے شکایت بھی کرتا تو کیا کرتا۔
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ چاردیواری کے باہر سے آواز آئی:
’’امجد بھیا!‘‘۔۔۔ارے او امجد بھیا!آبھی جاؤ۔‘‘
لالے کے کان کھڑے ہوگئے۔وہ فوراً سمجھ گیا کہ یہ امجد بھیا ہی اس کام کی جرنیلی فرما رہے تھے۔اور ان کی فوج اب غالباً انہیں پکاررہی ہے۔
لالے نے جھٹ ایک ترکیب سوچی اور فوراً چاردیواری کے پاس پہنچا اور پکار کر بولا:
’’امجد بھیا کی میں ڈنڈوں سے خاطر کر رہاہوں یہاں۔‘‘
اور اس نے ڈنڈے کو چار دیواری پر زور زور سے پٹخ پٹخ کرکہا۔
باہر لڑکوں میں بے چینی پھیلتی جارہی تھی اور وہ سوچ رہے تھے کہ اگر امجد واقعی خطرے میں پھنس گیا ہے تو اس کی ضرور مدد کرنی چاہئے ورنہ دوستی کا حق ادا نہ ہوگا۔پھر انہوں نے سوچا کہ وہ خطرے میں ہوتا تو سیٹی ضرور بجاتاکیوں کہ اس نے خطرے کا اعلان سیٹی ہی کے ذریعے کرنے کو کہا تھا اور اس کے علاوہ اس نے ایک چمکتا ہوا چھرا بھی تو دکھایا تھا جو اس نے ان کے سامنے ہی پاجامے کے نیفے میں چھپالیا تھا۔اس پر انہیں کچھ اطمینان ہوا۔لڑکوں نے اتنا ضرور محسوس کیا کہ لالے کو امجد کا نام ضرور معلوم ہو گیا ہے اور اگر وہ باغ میں سے کہیں چھپ کرنکل بھی آیا تو اس کی شکایت ضرور ہو جائے گی۔
لالہ ایک ایک درخت کو بڑے غور سے امجد کی تلاش میں دیکھتا رہا۔لیکن امجد کا کہیں پتا نہ چلا تو اس نے بھی تھک ہار کر سوچا کہ کم بخت نکل گیاہوگااور دوبارہ اپنی جگہ پر آکر لالٹین کو جلانے کی کوشش کرنے لگا۔
امجد رینگتا ہوا چاردیواری تک آیا اور اس دفعہ اس نے اتنے زور کی جست لگائی کہ دوسرے ہی لمحے چاردیواری کے پار چلاگیا۔وہاں اسے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ لڑکے ابھی تک اس کا انتظار کررہے تھے۔آخر امجد کو دیکھ کو خوشی سے پھولے نہ سمائے اور انہوں نے اسے کاندھوں پر اٹھالیا اور بڑی دیر تک اسے اپنے لیڈر کی طرح اٹھائے پھرے۔
آخر امجد نے سبھوں کی محنت کی تعریف کی اور سبھوں کوشاباش دی۔لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے احمد کو کان سے پکڑکر کہا:
’’ابے احمق!تو نے میرا نام لے کر کیوں پکارا تھا؟لالہ اب میری شکایت ضرور کرے گا۔‘‘
اس پر سارے لڑکوں نے احمد کو بہت برابھلا کہا اور آپس میں صلاح بنائی کہ اس وقت چل کر نوٹنکی کے تماشے میں چار آنے کی ٹکٹ خرید کر بیٹھ رہیں اور گھر جا کر ٹکٹ دکھادیں کہ ہم تو نوٹنکی کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔
سارے لڑکے نوٹنکی کے تماشے میں چلے گئے اور ٹکٹ خریدخرید کر اندر جا بیٹھے۔انہیں چار آنے والی ٹکٹ دس پیسے میں مل گئی تھی کیونکہ تقریباً کھیل ختم ہونے میں صرف پانچ منٹ رہ گئے تھے۔
پانچ منٹ کے بعد جب کھیل ختم ہو گیا تو سارے لڑکے اپنے اپنے گھر کی طرف ہنستے گاتے چلے جا رہے تھے۔
ڈاکٹر صاحب
۔۔۔۔۔۔
امجد جب رات گئے گھر پہنچاتو گھر کا دروازہ بند تھا۔اس نے جب دروازہ کھٹکھٹایا تو اس کی بھابھی جو اس وقت سورہی تھی،اُٹھ کر آئی اور دروازہ کھولا۔دروازہ کھولتے ہی اس نے امجد پر برسنا شروع کردیا:
’’یہ رات کے دس بجے گھر آنے کا وقت ہے؟‘‘بھابھی نے کڑک کرپوچھا۔
امجد نے ڈرتے ڈرتے کہا:
’’بھابھی !اسکول کے ساتھیوں نے چھٹی کے بعد نوٹنکی جانے کا پروگرام بنالیا تھا،سو ان کے ساتھ نوٹنکی دیکھنے چلا گیا تھا۔‘‘
بھابھی کو امجد کی بات پر یقین نہ آیااور اس نے ڈانٹتے ہوئے کہا:
’’جھو ٹاکہیں کا،نوٹنکی گیا تھا۔ہم کو بے وقوف بناتا ہے۔اگر اب سے دس بجے آیا تو گھر گھسنے نہ دوں گی۔سن لے کان کھول کر۔‘‘
امجد نے کہا:
’’بھابھی میں سچ کہتا ہوں نو ٹنکی گیا تھا۔یقین نہ ہوتو یہ ٹکٹ دیکھ لو۔’‘‘
امجد نے جیب سے نوٹنکی والا چار آنے کا ٹکٹ دکھایا۔اس پر بھابھی کا غصہ کچھ کم ہوا اور بولی:
’’جب نوٹنکی جانا ہوتو پوچھ کر جایا کر۔یہاں ہمیں کیا معلوم کہاں گیا تھا۔‘‘
یہ کہتی ہوئی بھابھی اپنے کمرے میں چلی گئی اور امجد بستے کو طاق میں رکھ کر کھاٹ پر لیٹ گیا۔اس وقت اس کے کندھے بری طرح دکھ رہے تھے اور ابھی سونے کی کوشش ہی کررہا تھا کہ بھابھی کی آواز آئی:
’’کیوں رے۔کھانا تو کھالے۔وہاں طاق پررکھ دیا ہے۔‘‘
امجد کا پیٹ تو امرودوں سے بھرا ہوا تھا، اس نے جواب دیا:
’’نہیں بھابھی صبح کھالوں گا،اس وقت بھوک نہیں لگی۔‘‘
مگر بھابھی کب ماننے والی تھی۔اسے تو یہ خیال تھا کہ صبح کا کھایا ہوا گھر سے اسکول گیا ہے، یقینابھوکا ہوگا اور اسی لئے وہ کھانا لے کر امجد کے پاس آئی اور اپنے ہاتھوں سے توڑ توڑ کر نوالہ اس کے منہ میں ڈالنے لگی۔
’’ببو نے کھانا کھالیا بھابھی۔‘‘امجد نے پوچھا،ببو امجد کا چھوٹا بھتیجا تھا۔
’’اور کیا تیرے انتظار میں دس بجے تک جاگتا رہتا۔وہ تو ابا کے ساتھ کھا کر سو گیا ہے۔‘‘بھابھی بولی۔
کھانا ختم کرنے کے بعد امجد اپنے کھاٹ پر جا لیٹااور دن بھر کے واقعے کو سوچتا سوچتا سوگیا۔
صبح سویرے امجد کے بھیا جب مسجد سے نماز پڑھ کر گھر لوٹے اور ابھی دفتر جانے کی تیاری کرہی رہے تھے کہ باہر سے لالہ کاشی رام کے پکارنے کی آواز آئی۔امجد کے بھیا باہر نکل کر آئے اور انہوں نے لالہ جی کو کمرے میں بلاکر بٹھایا۔لالہ کے پاس کچے امرودوں کی ایک بھری ہوئی ٹوکری بھی تھی۔ٹوکری کو امجد کے بھیا کے سامنے رکھتے ہوئے لالہ غصے سے بولا:
’’یہ دیکھ لو اپنے چھوٹے بھائی کی کرتوت۔رات کو سارے درختوں کو پھلوں سے جھاڑ کر رکھ دیا۔میں غریب آدمی ہوں۔ میں یہ نقصان کسی طرح برداشت نہیں کر سکتا۔یا تو مجھے امرودوں کی قیمت چکا دو ورنہ میں تھانے جا کر رپورٹ کراؤں گا۔‘‘
یہ سنتے ہی امجد کے بھیا کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے امجدکے رات کو دیر سے آنے کا مطلب سمجھ لیا۔انہوں نے لالہ کو تو باہر بیٹھے رہنے دیا اور خود اندر آکر امجد کی بھابھی کو پکارا:
’’سنتی ہو۔تمہارے دیور نے رات کو کیاہنگامہ کھڑا کیا ہے۔بے چارے لالہ جی کے امرود کے باغ کو ننگا کرآیا۔کہاں ہے امجد بلاؤ میں ابھی اس کی خبر لیتا ہوں۔‘‘
امجد کی بھابھی کے اس وقت سر میں بری طرح درد تھا۔وہ وہیں سے لیٹی لیٹی بولی:
’’کون کہتا ہے کہ امجد نے لالے کا باغ تباہ کیا۔وہ تو اسکول کی چھٹی کے بعد لڑکوں کے ساتھ نوٹنکی کا تماشہ دیکھنے چلاگیاتھا۔ یہ ہے نوٹنکی کا ٹکٹ۔یہ لالہ کو دکھا دو اور کہہ دو کہ دوسرے کے کہنے میں آکر خواہ مخواہ کسی کا الزم کسی کے سر پر نہ تھوپاکرے۔‘‘
یہ کہتی ہوئی بھابھی نے نوٹنکی کا ٹکٹ آنچل سے کھولا اور امجد کے بھیا کے حوالے کردیا۔ٹکٹ پر صاف رات کی تاریخ تھی اور چھ بجے سے رات دس بجے کا وقت لکھا ہواتھا۔امجد کے بھیا کا سارا غصہ ٹھنڈا ہو گیااور وہ ٹکٹ کو ہاتھوں میں لئے ہوئے باہر آئے اور لالہ سے بولے:
’’لالہ جی۔آپ کو کسی نے غلط بتایا کہ امجد نے آپ کے امرود توڑے ہیں۔امجد تو رات نوٹنکی کا تماشہ دیکھنے گیا تھا ۔یہ دیکھ لیجئے نوٹنکی کا ٹکٹ بھی ہے۔‘‘
لالہ نے نوٹنکی کا ٹکٹ خوب غور سے دیکھااور سمجھ گیا کہ ضرور یہ لڑکوں کی شرارت تھی کہ امجد کا نام لے کر اسے بدنام کرنا چاہتے تھے۔اور جب اسے اطمینان ہوگیا تو وہ دوسرے لڑکوں کو کوستا ہوا ٹوکری اٹھا کر جانے لگا اور چلتے چلتے کہنے لگا:
’’مجھے امجد سے ایسی امید بھی نہ تھی۔وہ تو بڑا اچھا لڑکا ہے۔چاردیواری کے باہر سے لڑکوں نے امجد کا نام لے کراس لئے پکارا ہوگا کہ امجد بدنام ہو ۔میں خوب سمجھتا ہوں۔یہ دوسرے لڑکوں کی شرارت معلوم ہوتی ہے۔خیر اگر امجد کا جی چاہے تو اس سے کہہ دیجئے گا کہ کبھی کبھار باغ میں آکرامرودکھالیا کرے۔‘‘
یہ کہہ کر لالہ چلا گیا اور امجد کے بھیا دروازہ بند کرکے ناشتہ کرنے بیٹھ گئے۔
امجد کی نیند بھی کھل چکی تھی اور وہ بستر پر چپ چاپ لیٹا ہواساری باتیں سن رہا تھااور آپ ہی آپ لالہ کا منہ چڑا رہا تھا کہ دیکھواب لالہ سیدھے راستے پر آیا ہے۔کہتا ہے جب جی چاہے آکر امجد امرود کھالیاکرے۔اب ہوش آیا ہے لالہ جی کو۔امجد نے لحاف میں منہ چھپا کر خوب زور سے ہنسنا شروع کردیااور خوب خوش ہوا کہ لالہ کو کیاخوب بے وقوف بنایاہے۔
اس وقت امجد کے بھیا دفتر کی تیاری کررہے تھے۔ناشتہ ختم ہو چکا تھا اور بھابھی اس طرف بیمار لیٹی ہوئی تھی۔امجد انتظار میں تھا کہ بھیا ادھر دفتر کے لئے روانہ ہوں تو وہ اچھل کر بستر سے اٹھ کھرا ہو۔بھیا کے سامنے تو اس کی دال نہ گلتی تھی اور وہ ان سے بے حد ڈرتا بھی تھا کیوں کہ بھیا اگر اس کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھتے تو اس کی جان نکلنے لگتی تھی۔اس لئے جب بھیا گھر میں موجود ہوتے تو وہ بھیگی بلی بنا چپ چاپ بیٹھا رہتا اور ان کے جاتے ہی وہ کدکڑے لگاتا کہ گھر تو گھر محلے والے بھی پناہ مانگنے لگتے تھے۔
جب بھیا دفتر جانے لگے تو بھابھی سے بولے:
’’ڈاکٹر تو یہاں آتا نہیں۔کیا کروں شام کو دفتر سے واپسی پر تمہاری دوا لیتاآؤں گا۔امجد تو کسی کام کا ہے نہیں۔اسے تو کھیلنے کودنے ہی سے فرصت نہیں۔یہ نہیں دیکھتا کہ کوئی بیمار ہے یا مررہا ہے۔تم اس کے لئے جان چھڑکتی ہو۔خیر۔‘‘
بھیا ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے چھاتا بغل میں دبائے ایک ہاتھ میں فائل لئے ہوئے دفتر کو چلے گئے۔
امجد دھم سے چارپائی سے کود کر نیچے آیا اور بھابھی کے گلے سے جا کر لٹک گیا۔
بھابھی نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا:
’’ہٹ رے۔ میری جان میں مت لٹک۔میری خود طبیعت خراب ہے۔جا ادھر بیٹھ۔‘‘
امجد نے اسی طرح لٹکے ہوئے کہا:
’’بھابھی تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ میں ابھی ڈاکٹر کو بلالاتاہوں۔دیکھتا ہوں کیسے نہیں آتا۔نہیں آئے گا تو میں۔۔۔‘‘
بھابھی نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا:
’’نہیں نہیں تو مت جا۔بھیا خود ہی شام کو دوا لے آئیں گے۔تو جائے گاتو ضرور کوئی نہ کوئی فساد کھڑا کر آئے گا۔‘‘
امجد فوراً اچھل کر دروازے سے نکل بھاگا۔بھابھی اسے منع ہی کرتی رہی کہ مت جا مت جا۔مگر امجد کہاں ماننے والا تھا۔وہ تو فوراً بھاگا ہوا ڈاکٹر کے دواخانے میں پہنچا۔
ڈاکٹر اس وقت دوا بنا بنا کر سب کو دے رہا تھااور نقد پیسے وصول کررہا تھا۔ان میں بعض ایسے مریض بھی تھے جن کے پاس دوا کے لئے دام بھی نہ تھے اور جنہیں ڈاکٹر گالیاں دے رہا تھا اور دھکے مار مار کر دوا خانے سے نیچے اتار رہا تھا۔
امجد سیدھا ڈاکٹر کی میز کے پاس پہنچا اور میز پر مکے مارتا ہوا بولا:
’’ڈاکٹر صاحب !ڈاکٹر صاحب!‘‘
’’کیا ہے بے؟میز کیوں توڑے ڈال رہاہے کم بخت؟کچھ منہ سے بھی پھوٹے گا۔‘‘ڈاکٹر نے ڈانٹ کر کہا۔
’’میری بھابھی بیمار ہے۔تم نے کیسی دوا دی تھی کہ وہ اچھی نہیں ہوئی۔‘‘امجد بولا۔
چل دفع ہویہاں سے مردود۔کہتاہے کیسی دوا دی تھی۔میں نے کوئی تیری بھابھی کی بیماری کا ٹھیکہ لیا ہے کہ اچھی ہی ہو جائے گی۔نہیں اچھی ہوتی تو نہ ہو۔میں کیا کروں۔‘‘ڈاکٹر بولا۔
امجد غصے میں آگیا اور فوراً دواکی بھر ی ہوئی ایک بوتل کو چھناک سے میز پر دے ماری اور اکڑ کر بولا:
’’کیاکہتاہے؟ میں تیری ایک ایک شیشی پھوڑ ڈالوں گا۔حرام کے پیسے دئیے تھے جو تو نے رنگ گھول کر پانی کی شیشی میں دی تھی۔‘‘
ڈاکٹر ہکا بکا رہ گیا۔ وہ جانتا تھا کہ امجد کی شرارت پورے گاؤں میں مشہور ہے اورکوئی عجب نہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے کر گزرے۔اس کی شرارتوں سے پورا محلہ ڈرتا تھااور آئے دن کسی نہ کسی کی شامت آتی رہتی تھی اور لوگ اس سے پناہ مانگتے رہتے تھے۔ابھی وہ یہ سب کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ امجد نے پھرمیز پر مکہ مار کر کہا۔
’’کان کھول کر سن لو ڈاکٹر صاحب!اگر آج شام تک بھابھی کی طبیعت ٹھیک نہ ہوئی تو تمہاری خیر نہیں۔میرا نام امجد ہے اور میں محلے کے سارے لڑکوں کا سردار ہوں۔رات کی رات تمہارے کھیرے کی بیلوں کو اکھاڑ کر پھنکوادوں گا، جوجی میں آئے کر لینا۔شام تک کی مہلت دیتا ہوں،سوچ لو۔‘‘
امجد یہ دھمکی دے کر یہ جا وہ جا۔ڈاکٹر دوا وغیرہ چھوڑ فوراًسوچنے لگا کہ آج رات کھیرے کی بیلوں کی تو خیر نہیں۔آس پاس بیٹھے ہوئے غریب مریض جو ڈاکٹر سے جلے بیٹھے تھے آپس میں کہنے لگے کہ اس لڑکے سے کوئی عجب نہیں۔رات آدھے گھنٹے میں لالے کا دو بیگھہ باغ کے کچے پکے سارے امرودوں کو جھاڑ ڈالا تھا۔وہ ضرور کچھ نہ کچھ کر گزرے گا۔
ڈاکٹر کے ہوش ٹھکانے آگئے اوراس نے سارے مریضوں کو دوا دینی شروع کردی اور کسی کو تو ادھار بھی دے دی۔جب وہ بانٹ چکا تو مریضوں سے بولا:
’’بھائی تم لوگ گواہی دینا کہ یہ لڑکا مجھے دھمکی دے گیاہے ۔ میں ابھی پولیس کو رپورٹ کرتا ہوں۔‘‘
مریضوں نے ڈاکٹر سے انکار میں سرہلاتے ہوئے کہا:
’’نہیں ڈاکٹر صاحب!یہ تو ہم سے نہ ہوگا۔ہم کیوں اپنے گھرمیں مصیبت مول لیں۔ہم گواہی نہیں دے سکتے۔‘‘
ڈاکٹر کو غصہ آگیا اور بولا:
’’عجیب ذلیل آدمی ہو تم لوگ۔مفت کی دوا بھی لے جاتے ہو۔اتنا ذرا سا کام کرنے میں بھی مرے جاتے ہو۔‘‘
مریضوں نے کہا:
’’نہیں ڈاکٹر صاحب! ہم تو اس لالچ میں نہیں آئیں گے۔یہ لڑکا سدا کا منہ چڑھا ہے۔وہ ہمارا گاؤں میں رہنا دوبھر کردے گا۔اگر جان کی خیر چاہتے ہو تو فوراً اس کی بھابھی کو جاکر دیکھ لواور اچھی دوا دینا تاکہ شام تک آرام آجائے ورنہ رات بھر میں تمہارے کھیرے کی بیلیں اکھڑی پڑی ہوں گی۔‘‘
مریض یہ کہہ کر اپنی اپنی دوا اٹھا کر چلتے بنے اور ڈاکٹر پریشانی میں میز کے پاس تھوڑی دیر تک سوچتا رہا کہ کیاکیا جائے۔آخر جب اس کی سمجھ میں کچھ نہ آ سکا تواس نے دوا خانہ بند کرکے دوا کا بیگ اور چھتری ہاتھ میں لے کر امجد کے گھر کی طرف کا رخ کیا۔۔۔
دوا خانے سے واپس آکر امجد ببو کے ساتھ بیٹھا پنجرہ بنانے لگا۔ببو اسے پنجرہ بنانے میں ساتھ مدد کررہا تھا۔ببو اسے کماچیاں دیتا جاتا تھااور ایک ہاتھ سے پنجرے کو بھی پکڑے تھااور امجد پنجرہ بنتا جا رہاتھا۔امجد ببو سے بولا:
’’ببو پنجرے کو ٹھیک سے پکڑے رہنا۔ہے نا۔‘‘
ببو نے پنجرے کو پکڑے پکڑے جواب دیا:
’’ہاں۔امجد بھیا۔اگر زوروں سے نہیں پکڑا تو چڑیا پھر سے اڑ جائے گی نا؟‘‘
’’ہاں۔توتو بڑا سمجھ دار بچہ ہے۔‘‘امجد بولا۔
اتنے میں ڈاکٹر چھتری بغل میں دبائے اور ناک پر چشمہ ٹھیک کرتا ہوا سامنے سے آتا دکھائی دیااور امجد یا ببو کی طرف دیکھے بغیر دروازے کی طرف بڑھا۔بھابھی اس کمرے کے اندر چارپائی پر لیٹی ہوئی دردسے تڑپ رہی تھی اور بخار میں بھُن رہی تھی۔ڈاکٹر کو دیکھ کر اس نے چارپائی کے اوپر اٹھ کربیٹھنے کی کوشش کی لیکن اس سے تکلیف کے مارے اٹھا تک نہ جاتا تھا۔
ڈاکٹر نے اسے لیٹے رہنے کو کہااور بولا:
’’بیٹا!کب سے بیمار ہو؟کسی سے کہلوا ہی بھیجتیں۔میں خود آجاتا۔امجد سے آج معلوم ہوا کہ تم ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئیں۔ملیریا بخار ایسا ہی ہوتا ہے۔یہ لودوا ساتھ لیتا آیا ہوں۔اسے کھالو۔شام تک بالکل آرام آ جائے گا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر نے فوراً بیگ کھولا اور اس میں سے دوا کی ایک شیشی نکال کر دی اور خود ہی پلاتے ہوئے بولا:
’’یہ بہت اچھی دوا ہے ۔فوراً آرام آجاتا ہے۔شام تک بخار نہیں رہے گا۔اگر اس کے بعد بھی تکلیف باقی رہے تو میں خود شام کو آجاؤں گا اور دیکھ لوں گا تم فکر نہ کرنا۔‘‘
بھابھی بولی:
’’ڈاکٹر صاحب !آپ کو بہت تکلیف ہوئی۔ آپ نے آکر مجھے دیکھا۔اس کے لئے آپ کا شکریہ کس طرح ادا کروں۔‘‘
’’کوئی بات نہیں بیٹی۔‘‘ڈاکٹر بولا،’’میں تو تمہاری خدمت کے لئے ہی ہوں۔اس میں تکلیف کی کیا بات ہے ، تم اچھی ہو جاؤ،یہی میرا سب سے بڑا انعام ہے۔‘‘
بھابھی نے امجد کو پکار کر کہا کہ صندوقچی کوکھول کر ڈاکٹر صاحب کی فیس کے دوروپے دے دے ۔جب امجد نے روپے نکال کر ڈاکٹر صاحب کو دیے تو انہوں نے لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا:
’’بیٹی! یہ فیس کیسی؟تم تو میری بیٹی کے برابر ہو۔اپنی بیٹی سے بھی کوئی فیس لیتا ہے؟‘‘
اور یہ کہہ کر اس نے بیگ اور چھتری اٹھا لی اور چلنے لگا۔امجد جب باہر چلا گیا تو ڈاکٹر بھابھی سے آہستہ سے بولا:
’’بیٹی ذرا امجد کو منع کردینا کہ میری کھیرے کی بیلوں کونہ اکھاڑے۔‘‘
بھابھی مسکرادی اور بولی:
’’نہیں ڈاکٹر صاحب امجد آج کل بڑا شریر ہوگیا ہے۔میں اسے ضرور منع کردوں گی آپ فکر نہ کریں۔آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔‘‘
ڈاکٹر شکریہ ادا کرتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔باہر صحن میں امجد،ببو کے ساتھ بیٹھااسی طرح چپ چاپ پنجرہ بننے میں مصروف تھا۔ڈاکٹر ان دونوں کی طرف دیکھتا ہوا’’ہونہہ‘‘ کرکے آگے بڑھ گیا۔
ببو اٹھا اور اسی کی طرح کمر کو جھکا کے چلتا ہوا بولا،’’ہونہہ‘‘۔
اسی طرح نقل اتارنے پر دونوں خوب ہنسے۔اتنے میں اندر کمرے سے آواز آئی:
’’ارے امجد!‘‘
امجد پنجرے کو چھوڑ بھاگا ہوا اندر کمرے میں گیا۔
’’کیا بات ہے بھابھی!‘‘امجد بھابھی کے گلے میں لٹکتے ہوئے بولا:
’’ارے امجد!تو اتنا کیوں شریر ہوگیا ہے رے۔تو نے ڈاکٹر کو جاکر کیا کہا تھا؟‘‘
امجد ہنس پڑااور سارا قصہ سنا دیا۔بھابھی ہنسی کو دانتوں سے دباتی ہوئی بولی:
’’نہیں ۔میرا راجہ بھیا! اس طرح کسی کو تنگ نہیں کرتے۔توتو اب اچھا سمجھ دار لڑکا ہو گیا ہے۔تیرے بھیا بے چارے تیری شرارتوں ہی کی وجہ سے تو پریشان رہتے ہیں۔لکھے پڑھے گا نہیں تو بڑا ہو کر کس طرح سنبھالے گا۔‘‘
امجد بولا:
’’میں کیا گھر سنبھالوں گا۔تم تو سنبھال ہی رہی ہو۔تم نہ ہوتیں تو مجھے ایسی اچھی اچھی چیزیں پکاکر کون کھلاتا؟‘‘
’’تجھے توجیسے میری بڑی قدر ہے نا؟ تیری وجہ سے ایک پل بھی چین نہیں پڑتا۔جب دیکھو ایک نئی مصیبت کھڑی کردی۔میں کہتی ہوں اب تو بڑا ہو گیا ہے۔شرارتیں کرنا بند کردے اور خوب جی لگا کر پڑھ۔‘‘
امجد روٹھتا ہوا بولا:
’’نہیں بھابھی میرا پڑھائی میں جی نہیں لگتا۔‘‘
بھابھی اسے غصے سے گھورتی ہوئی بولی:
’’کیا کہا۔جی نہیں لگتا۔جا پھر میں تجھ سے نہیں بولوں گی۔‘‘
’’کیوں نہیں بولوگی؟‘‘
’’میں یہاں سے ایک دن جاکر دریا میں ڈوب جاؤں گی۔‘‘ بھابھی بولی۔
’’واہ بڑی آئیں دریا میں ڈوبنے والی اور ببوکو کون دیکھے گا۔‘‘امجد بولا۔
’’ببو اپنے باپ کے پاس رہے گا۔‘‘بھابھی بولی۔
’’نہیں بھابھی ایسی باتیں مت کیا کرو۔‘‘امجد کی آنکھ میں آنسو بھر آئے۔
’’تو پھر شرارتیں تو نہیں کرے گا۔‘‘بھابھی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے کہا۔
’’نہیں کروں گا۔‘‘امجد منہ بنا کر بولا۔
’’شاباش،میرا راجہ بھیا کتنا اچھا ہے میں اس کے لئے چاند سی دلہن لاؤں گی۔‘‘
’’نہیں چاہئے دلہن ولہن۔‘‘امجد رونی آواز میں بولا۔
’’ارے تو کیا یوں ہی بیٹھا رہے گا۔‘‘
’’ہاں تم تو ہو ہی میری اچھی بھابھی۔مجھے کیا چاہئے۔‘‘
ببو نے اتنے میں باہر سے آواز دی:
’’ارے امجد بھیا۔پنجرہ تیار ہو گیا۔چڑیا پکڑنے نہیں چلوگے۔‘‘
اور امجد کمرے سے بھاگا ہوا باہر نکل گیا اور ببو کے گلے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے بولا:
’’چڑیا تو بعد میں پکڑیں گے۔منی اور چھنی کی تو خبر لے آئیں تالاب جا کر۔‘‘
’’منی اور چھنی امجد کی دو مچھلیوں کا نام تھا جو اس نے پال رکھی تھیں اور مکان کے پچھواڑے چھوٹے سے تالاب میں تیرتی رہتی تھیں۔ان کا رنگ سرخ تھا اور جب ساتھ ساتھ پانی میں تیرتی ہوئی چلتی تھیں تو دونوں آپس میں سگی بہنوں کی طرح معلوم ہوتی تھیں۔سارے گاؤں والوں کو امجد کی پالتو مچھلیوں کے بارے میں معلوم تھا اور کوئی انہیں جال سے نہیں پکڑتا تھا بلکہ گاؤں کے لڑکے بڑی دیر دیر تک چنے اور دوسری چیزیں لا کر منی اور چھنی کو کھلاتے اور ان کا تماشا دیکھتے رہتے تھے۔امجد کو تو یہ مچھلیاں بہت زیادہ پیاری تھیں اور وہ دن میں تین تین چار چار دفعہ جا کر انہیں نہ دیکھتا تو اسے چین نہ پڑتا۔مچھلیاں بھی اس کے قدموں کی چاپ سن کرپہچان لیتی تھیں اور جہاں وہ تالاب کے کنارے پہنچتا مچھلیاں بھاگتی اور اچھلتی ہوئی اس کے پاس آجاتیں اور دونوں سر کو جھکا کر اس طرح اس کے سامنے تیرنے لگتیں جیسے امجد کو سلام کر رہی ہیں،امجد انہیں خوب پیار کرتا اور ان سے بڑی دیر تک کھیلتا رہتا۔وہ ان دونوں مچھلیوں کو بہت چھوٹے پن سے لے کر اب تک پرورش کرتا آرہاتھا اور اس لیے اسے ان غریب جانوروں سے اتنی محبت تھی جتنی سگے بھائی بہنوں سے ہوتی ہے۔یہ مچھلیاں بھی اب بہت جوان ہوگئی تھیں۔
منی اور چھنی بھی چھوٹے تالاب کی دنیا میں آزادی سے زندہ تھیں کیونکہ وہاں انہیں اپنی جان کا خطرہ نہ تھا کہ کوئی مچھیرا انہیں جال میں پھنسا کر لے جائے گا۔وہ بھی تالاب کو اپنی آزاد دنیا کی طرح سمجھتی تھیں اور اس میں خوش و خرم زندگی گزار رہی تھیں۔
امجد اور ببو تالاب میں بڑی دیر تک منی اور چھنی کے ساتھ کھیلتے رہے اور ان کو دانے کھلاتے رہے۔مچھلیاں کلیلیں کرتی پھر رہی تھیں۔ اور ببو انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا تھااور پانی میں ہاتھ ڈال کر چھینٹے اڑا رہا تھا۔
جب ان کا دل مچھلیوں سے کھیل کر بھر گیا تو انہوں نے پانی میں اتر کر نہانا شروع کردیااور ایک دوسرے پر پانی اچھالنے لگے۔اتنے میں پیچھے سے نوکرانی نے آواز دی۔
’’ببو اور امجد۔چلو کھانا کھالو۔‘‘
آخر دونوں بچے تالاب سے نکلے اور کپڑے پہن کر گھر کی طرف چلنے لگے۔
راستے میں بھی وہ شرارتوں سے باز نہیں آئے۔قریب ہی راستے میں اندھی بڑھیا کی جھونپڑی ملی تو انہوں نے ایک دو کھیرے توڑ لیے اور وہاں سے بھاگتے ہوئے گھر پہنچے۔بڑھیا اس وقت خراٹے لے لے کر سورہی تھی۔اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ لڑکے کب آئے اور کب دروازے پر لٹکے ہوئے دونوں کھیرے جسے آج کھانے کا پروگرام تھا،ٹوٹ چکے ہیں۔
امجد دل ہی دل میں بولا:’’ماسٹر صاحب ٹھیک کہتے تھے کہ’’ جو سویا سو کھویا۔جو جاگا سو پایا۔‘‘
نیا لڑکا
۔۔۔۔۔
لڑکے اپنی جماعت میں ماسٹر صاحب کے آنے کے انتظار میں اپنی اپنی کاپیاں کھول کر بیٹھے تھے۔بعض کل کا سبق دہرا رہے تھے۔بعض نئے سبق کی تیاریاں کررہے تھے۔امجد بھی اگلی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا اور لڑکوں کو بعض سوالات کے جواب حل کرکے دے رہا تھا۔اس معاملے میں امجد بہت ہوشیار تھا۔شرارت کے وقت شرارت اور پڑھائی کے وقت پڑھائی۔اس اصول کا قائل تھا۔اسے ہمیشہ سبق زبانی یاد ہوتا تھا اور ماسٹر صاحب کے ہر سوال کا جواب دینے کے لئے پہلے ہی ہاتھ کھڑا کردیتا اور ہر سوال کا صحیح جواب دیتا۔ماسٹر صاحب بھی امجد سے بہت زیادہ خوش تھے اور اس لئے کلاس میں امجد کو مسٹر نے کبھی چھوا تک نہیں اور بلکہ ہمیشہ اس کی تعریفیں کیں۔اسی لئے اس کی شرارتوں پر بھی کبھی اسے معاف کردیا جاتا تھا۔امجد نے اپنی جماعت میں خوب سکہ بٹھا دیا تھا۔کیونکہ وہ ایک محنتی طالب علم تھا اور دل لگا کر اپنا سبق یاد کیاکرتا تھا۔امتحان میں سب سے زیادہ نمبر اسی کے آتے تھے اور وہ ہمیشہ اول رہتا تھا۔کئی دفعہ تو اسے انعامات بھی مل چکے تھے۔
اس وقت بھی امجد اپنے ساتھیوں کو سبق یاد کرانے میں مصروف تھا، اتنے میں جماعت میںیکایک سناٹا چھا گیا اور ماسٹر صاحب ایک لڑکے کو ساتھ لئے اندر داخل ہوئے۔نئے لڑکے کو انہوں نے اپنی کرسی بٹھادیا اور خود حاضری لے کر جماعت سے باہر چلے گئے۔
لڑکا خوب بنا ٹھنا بیٹھا تھا۔اس کے بال بہت اچھے بنے ہوئے تھے۔آنکھ میں کاجل لگا ہوا تھا اور سلک کی قمیص پر ایک کوٹ پہن رکھا تھا۔نیچے بھی سلک ہی کی پتلون تھی۔کوٹ کے کالر میں ایک گلاب کا بڑا سا پھول بھی لگا ہوا تھا۔گلے میں ریشمیں مفلر لپٹا ہوا تھا۔چہرے پر پاؤڈر لگا ہوا تھا اور ایک چمڑے کا خوبصورت سا چمک دار تھیلا ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا جس میں شاید کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔لڑکا چپ چاپ بیٹھا ہوا مٹر مٹر لڑکوں کو تکے جا رہا تھا۔
امجد نے احمد کو آواز دے کر کہا:
’’ارے بھئی احمد!بس سہرے کی کسر رہ گئی ورنہ پورے دولہا بابو معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
لڑکے قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔
پیچھے سے ایک لڑکے نے آواز دی:
’’معلوم ہوتا ہے جیسے پڑھنے نہیں آئے بلکہ دعوت میں تشریف لائے ہیں۔‘‘
ایک قہقہہ بلند ہوا۔
پھر ایک اور آواز پیچھے کی بنچ سے گونجی۔
’’کرسی پر اکڑ کر کیسے بیٹھا ہے۔معلوم ہوتا ہے تصویر کھچوا رہاہے۔‘‘
اس پر لڑکے نے گھبرا کر جلدی جلدی آنکھیں جھپکانی شروع کردیں اور بے چارہ گھبرا سا گیا۔پسینے کے قطرے اس کی پیشانی پر جمع ہونے لگے۔
اس پر امجد فوراً بولا:
’’لوبھئی اس کے پسینے چھوٹنے لگے۔سارا پاؤڈر دھل کر رہ جائے گا۔‘‘
لڑکا اور زیادہ گھبرایا اور بار بار دروازے کی طرف دیکھنے لگا تاکہ ماسٹر صاحب آئیں اور اسے ان لڑکوں کے ہنسی مذاق سے نجات دلوائیں لیکن مسٹر صاحب کا کہیں پرپتہ نہ تھا۔
اتنے میں امجد کو شرارت سوجھی۔وہ ڈیسک سے نیچے کھسک کر زمین پر اتر گیا اور رینگتا ہوا میز کے نیچے چلا گیا ۔وہاں سے اس نے آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر نئے لڑکے کے پاؤں کو پکڑ لیا اور بلی کے بچے کی سی آواز منہ سے نکالی۔’’خوں۔خوں،خوں‘‘۔
لڑکا گھبرا کر زور زور سے پاؤں زمین پر پٹخنے لگا۔اس پر سارے لڑکے تالیاں بجا بجا کر ہنس پڑے۔امجد ایک طرف کونے میں دبک گیا اتنے میں احمد بھی اسی طرح ڈیسک کی آڑ لے کر نیچے اترا اور آہستہ آہستہ میز کے نیچے پہنچ گیا۔وہاں پہنچ کر اس نے چونے کی بوری کھولی۔جو دیواروں کی قلعی کے لئے رکھی گئی تھی۔اس بوری میں سے اس نے چونا نکال کر لڑکے کی کرسی کے پیچھے پھیلا دیا اورجب لڑکا جماعت کی طرف دیکھنے میں گم تھا،آہستہ سے ہاتھ بڑھا کراس کی کرسی پیچھے الٹ دی۔لڑکا چونے میں لت پت ہو گیا اور زور زور سے رونے لگا۔سارے لڑکوں نے تالیاں بجانی شروع کردیں اور چلانے لگے۔لوبھائی میاں صاحب گرپڑے ،میاں صاحب گر پڑے۔
امجد فوراً بڑھا اور سبھوں کو ڈانٹتے ہوئے بولا:
’’بھئی یہ تمہارا نیا ساتھی ہے اسے تنگ کیوں کرتے ہو۔‘‘
اور اس کے کپڑے جھاڑنے لگا اور اس کے آنسو پوچھنے لگا۔
اتنے میں ماسٹر صاحب اندر داخل ہوئے اور انہوں نے گرج کر پوچھا:
’’کیوں امجد۔یہ کیا شرارت ہے؟‘‘
امجد نہایت ادب سے بولا:
’’ماسٹر صاحب۔یہ بے چارے کرسی سے نیچے جا گرے تھے۔میں انہیں اٹھا کر کپڑے درست کررہا ہوں۔‘‘
ماسٹر صاحب نے لڑکے کا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ یہ ان کا نیا ساتھی ہے اور اسکول کے سیکرٹری صاحب کا لڑکا ہے۔تمام لڑکوں کو اس کی عزت کرنی چاہئے کیونکہ انہیں کے والد کے باعث سارا اسکول چل رہا ہے اور لڑکوں کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ اسے کبھی تنگ نہ کریں ورنہ انہیں اسکول سے نکال دیا جائے گا اور ان کے والدین سے ان کی شکایت بھی کی جائے گی اور اس لڑکے کے لئے اپنی میز کی دوسری طرف کرسی رکھ دی اور کہاکہ یہ یہیں بیٹھا کریں گے۔
لڑکوں کو ماسٹر صاحب کی یہ بات بہت بری معلوم ہوئی کہ سارے لڑکے تو ایک جگہ بیٹھیں اور یہ بابو صاحب الگ کرسی پر بیٹھے ہوں۔انہیں پھر یہ بھی خیال آیا کہ شاید یہ اس لئے کہ یہ امیر باپ کا لڑکا ہے اور وہ سب غریب باپ کے بچے ہیں۔ان کے پاس پہننے کو اچھے اچھے کپڑے نہیں ہیں۔کتاب رکھنے کو خوب صورت تھیلا نہیں ہے۔اور ان کی مائیں انہیں پاؤڈر اور کریم سے سنوار کر نہیں بھیج سکتیں۔
اس خیال سے لڑکوں کو اس نئے لڑکے سے ایک قسم کی نفرت ہوگئی۔وہ انہیں سامنے بیٹھا ہوا ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ ان کی غربت کا مذاق اڑا رہا ہواور کہہ رہا ہو تم جانور ہو۔تم کپڑے پہننا کیاجانواور تمہیں کرسی پر بیٹھنا کب آتاہے۔اور تمام لڑکوں کا دل اس بات پر کڑھنے لگا۔وہ جی ہی جی میں اس سے نفرت کرنے لگے۔امجد بھی اس لڑکے سے جی ہی میں جلنے لگا کہ یہ لڑکا کہیں اس سے زیادہ ماسٹر صاحب کے دل میں جگہ نہ پیدا کرلے اور اس لئے اس نے فیصلہ کر لیا کہ لڑکے کو اتنا تنگ کیاجائے کہ یہ اسکول آنا ہی چھوڑ دے۔وہ طرح طرح سے سوچنے لگا کہ اس کے ساتھ کیا کیا شرارتیں کی جائیں۔وہ یہی بیٹھا سوچتا رہا اور یہاں تک کہ وہ اس دن کا سبق بھی اچھی طرح نہ سن سکا۔
ماسٹر صاحب جب کلاس سے باہر نکلے تو تو لڑکے کو اپنے ساتھ لے گئے لہٰذا لڑکوں کے دل میں اسے چھیڑنے اور تنگ کرنے کی تمنا دل ہی دل میں رہ گئی۔
چھٹی کے بعد سارے لڑکے اسکول کے احاطے سے نکل کرآم کے درخت کے نیچے جا بیٹھے۔امجد بھی وہیں بیٹھا تھا لیکن کچھ خاموش تھا۔لڑکے آپس میں طرح طرح کی باتیں کررہے تھے۔
کوئی کہتا:
’’آیا بڑا نواب زادہ۔پڑھنے نہیں آیا تھا ہم پر سوٹ بوٹ کا رعب جمانے آیا تھا۔‘‘
کوئی کہتا:
’’لونڈیوں کی طرح سنگار کرکے کیسے آیا تھا۔‘‘
احمد بولا:
’’اور گھمنڈی کتنا ہے۔بات تک نہیں کرتا۔جیسے ہم سب اس کے باپ کے غلام ہیں۔‘‘
امجد نے پوچھا،’’اس کا باپ کون ہے؟‘‘
اس پر ایک لڑکے نے بتلایا کہ اس کا باپ دارجلنگ میں چائے کا ایجنٹ ہے اور دارجلنگ کی سارے چائے کے باغ کا اس کے پاس ٹھیکہ ہے اور وہ چائے باہر کے ملکوں میں بھیجتا ہے۔ندی کے کنارے اس نے ایک بہت خوب صورت کوٹھی بنوائی ہے۔اس کوٹھی کے گرد رنگ برنگے پھول لگوائے ہیں اور کوٹھی کے باہر ہر وقت ایک نیلی موٹر کھڑی رہتی ہے جس پر صبح سویرے اس کا باپ دارجلنگ جایا کرتا ہے۔
امجد بولا:
’’میں سارے چائے کے باغ ہی کو اکھاڑ ڈالوں گا۔‘‘
اس پر احمد بولا:
’’یار چائے کا باغ تو میلوں میل لمبا ہے۔ایک دفعہ میں نے ماسٹر صاحب سے پوچھا تھاتو وہ کہہ رہے تھے کہ چائے کے باغ میں ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ہم تم کیا باغ اکھاڑیں گے۔‘‘
امجد کی ہمت ٹوٹ گئی اور وہ جل کر بولا:
’’تو ہم اس کی موٹر کے ٹائر میں چھرا بھونک دیں گے۔پھر دیکھیں گے کہ وہ کس طرح جائے گا چائے کے باغ میں۔‘‘
لڑکوں نے اس ترکیب کی داددی،لیکن سنا گیا تھا کہ کوٹھی کے باہر ایک دربان بھی وردی پہن کر بیٹھا رہتاہے۔
امجد بولا:’’ہم رات کے وقت یہ کام کریں گے۔بہرحال اس وقت تو ایک دوسرا پروگرام ہے۔‘‘
’’کون سا پروگرام۔‘‘احمد بولا۔
’’بڑھیا کے کھیرے بہت پھل رہے تھے۔ آج انہیں توڑنا ہے۔‘‘
اور لڑکوں کی فوج بڑھیا کے گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔
بڑھیا کا گھر لالہ کے باغ کے ٹھیک پیچھے واقع تھا اور بڑھیا کی بڈھی بکری چوبیس گھنٹے دہلیز کے اوپر بیٹھی ہوئی اونگھتی رہتی تھی۔اس بڈھی بکری سے ایک بچہ بھی تھا۔چھوٹاسا سفید رنگ کا بچہ جس کا چمڑا نہایت ملائم تھااور اس کے بال چھونے سے ہاتھوں میں گدگدی ہوتی تھی۔دراصل بڈھی بکری اس بچے کی پیدائش کے بعد سے زیادہ بڈھی نظر آنے لگی لیکن اندھی بڑھیاکو اس بکری سے بے حد محبت تھی اور یہی اس کی تنہائی کاسہارا تھی ۔بڑھیا بکری کا دودھ ہی پی کر گزارا کرتی تھی۔
ابھی بچے بڑھیا کی گلی کے سامنے سے گزرہی رہے تھے کہ انہیں تین چار بکریاں کھیرے کی بیل کو کھاتی ہوئی نظر آئیں۔لڑکوں نے فوراً تمام بکریوں کو لات مار مار کر بھگا دیا اور خود کھیروں پر ٹوٹ پڑے۔بڑھیا نے جب پٹا پٹ کھیرے توڑنے کی آواز سنی تو فوراً کوٹھری سے باہر نکل آئی۔لڑکے چپ چاپ ایک کونے میں دبک گئے اور بھاگتی ہوئی بکریوں کی آواز سن کر بڑھیا ان کے پیچھے لپکی اور سینہ کوٹتی ہوئی بولی:
’’چل، منہ جلی۔ابھی تجھے کانجی ہاؤس لے چلتی ہوں۔‘‘
بڑھیا نے بکریوں کو پکڑا اور کانجی ہاؤس کی طرف لے کر چلی گئی۔
لڑکوں کے لئے اب کھلا موقع تھا اور انہوں نے کھیروں کی وہ کھسوٹ مچائی کہ تمام بیلیں کھیروں سے خالی ہو گئیں۔کھیرے توڑنے کے بعد لڑکے اپنی اپنی راہ لے کر روانہ ہو گئے۔
ابھی امجد کھیرے کھاتا ہوا بڑھیاکی گلی سے ذرا ہی آگے بڑھا تھاکہ اسے وہی اسکول والا نیا ساتھی سامنے سے آتا ہوا نظر آیا۔امجد جلدی سے کھیرے کو چھپانے کی کوشش کرنے لگا۔لیکن اس کا پورا منہ کھیرے سے بھرا ہوا تھا۔چھپاتے چھپاتے بھی نئے لڑکے نے اسے کھیرا کھاتے ہوئے دیکھ لیا اور فوراً سمجھ گیا کہ یہ بڑھیا کے کھیرے لوٹ کر آرہاہے۔
نیا لڑکا امجد کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو گیا اور بولا:
’’غریب بڑھیا کا کھیرا کھاتے شرم نہیں آتی؟‘‘
امجد کا دل دھڑکنے لگا کہ اس کی شکایت اگر اس کے بھائی تک پہنچ گئی تواس کی پھر خیر نہیں۔اس نے بہانہ بناتے ہوئے کہا:
’’میں تو یہ کھیرے بازار سے خرید کر لا رہا ہوں۔‘‘
لڑکا بولا:
اگر بازار سے لا رہے تھے تو کرتے کے اندر کیوں چھپا رہے تھے۔‘‘
امجد سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور وہ لاجواب سا ہو گیا۔
لڑکا پھر بولا:
’’میں تو سمجھتا تھا کہ تمہارا سلوک مجھ سے ہی برا تھا،لیکن مجھے اب معلوم ہوا کہ تم اپنے ہمسایوں سے بھی برا سلوک کرتے ہو اور ہمسایہ بھی کون ،ایک اندھی بڑھیا جو تم سے بھی زیادہ غریب ہے۔کیا پڑوسیوں کا حق اسی طرح ادا کرتے ہیں۔‘‘
اس بات پر امجد کو سخت تاؤ آیا اور وہ پاجامے کے نیفے سے چمک دار چھرا نکال کر بولا:
’’خبردار!اب ایک لفظ زبان سے نہ نکالنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا اور نہ ہی یہ بات کسی کو معلوم ہو۔دھیان میں رکھنا۔‘‘
لڑکا چھرا دیکھ کر سکتے میں آگیا اور چپ ہو گیا۔لیکن امجد کی طرف سے وہ اس نفرت کی آنکھوں سے دیکھنے لگا جیسے اگر اس کا بس چلتا تو اس کے منہ پر تھوک دیتا۔
امجد آگے بولا:
’’میں اب تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں اسکول میں آئندہ کوئی لڑکا تنگ نہیں کرے گا لیکن تمہیں میرے حکم پر چلنا پڑے گا۔تم نے اگر میرے خلاف کبھی ایک لفظ بھی زبان سے نکالا تومیں کسی کی پروا نہیں کرتا ہوں۔ویسے تم میرے دوست ہو۔مجھے معلوم ہے کہ تم امیر آدمی کے بیٹے ہو اور تمہارے پاس کھانے پہننے کو ساری چیزیں میسر ہیں۔لیکن ہم غریب ہیں اور ہماری ضرورت کبھی پوری نہیں ہوتی۔اگر آئندہ تم نے کسی کو دھونس دینے کی کوشش کی تومجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔‘‘
یہ کہہ کر امجد چلتابنا۔نیا لڑکا اسے تھوڑی دیر جاتا ہوا دیکھتا رہا لیکن جب وہ گلی کو پار کرکے آگے مڑگیا اور اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تو لڑکا اپنے گھر کی طرف چلنے لگا۔راستے بھر اسے طرح طرح کے خیالات ذہن میں آتے رہے اور وہ سوچتا رہا کہ اس گاؤں میں اس کا گزارہ مشکل ہے۔وہ اس سے پہلے شہر کے انگریزی اسکول میں پڑھتا تھا اور اسے اٹھنے بیٹھنے ،چلنے پھرنے،گفتگو کرنے، ہاتھ ملانے،غرض ہر چیز کی تربیت دی گئی تھی،لیکن اب جبکہ شہر کے اسکول سے اس کے باپ نے گاؤں بلا لیا تھا۔اب اسے انہی اجڈ اور گنوار لوگوں میں گزارا کرنا تھا۔انہیں کی راہوں پر چلنا تھا اور انہی کی طریق زندگی کواپنانا تھا۔اس کا باپ خود نہایت رحم دل آدمی تھا ۔اس نے اسکول کی عمارت کو پختہ بنانے کے لئے دس ہزار روپے چندہ دیا تھااور اسے سیکرٹری کا اعزاز بخشا گیا تھا۔اس نے اپنے لڑکے کو یہ ہدایت دی تھی کہ گاؤں کے لوگوں سے زیادہ میل جول نہ رکھے۔ان لڑکوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہ کرے کیونکہ یہ اچھے لوگ نہیں ہوتے،گندے ہوتے ہیں۔
لڑکا گھر تک یہی باتیں سوچتا رہا۔اس کا بھی جی چاہا کہ وہ ان لڑکوں میں گھومے پھرے ۔ان کے کھیلوں میں حصہ لے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہو۔لیکن باپ کے حکم کے آگے اس کی کچھ نہ چلتی۔وہ شام کو اسی طرح منہ لٹکائے غمگین سا گھر واپس آگیا اور آکر تکیے میں منہ لپیٹ کر بڑی دیر تک روتا رہا۔
پھر اس کے ذہن میں اندھی بڑھیا کی غربت نظر آئی اور وہ تیز تیز ہچکیاں لینے لگا۔جیسے یہ بڑھیا اس کی کوئی بہت قریبی رشتے دار ہو۔اور وہ اسی طرح روتا روتا سو گیا۔
نیکی کا فرشتہ
۔۔۔۔۔۔
رات کو جب امجد کے بھیا صحن میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے تو امجد کی بھابھی میکے سے اپنی اماں کے خط کے بارے میں ذکر چھیڑ بیٹھیں۔امجد کے بھیا کھانا کھاتے ہوئے بولے:
’’کیالکھا ہے تمہاری اماں نے؟‘‘
امجد کی بھابھی خط کوآنچل سے کھولتی ہوئی بولی:
’’لکھا ہے کہ اباجان کی وفات کے بعد گھر اکیلا رہ گیاہے۔ہر بات کی تکلیف ہے ،کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔‘‘
پھر بھابھی بولی،’’آپ چاہیں تو ان کو یہاں بلوالوں؟‘‘
امجد کے بھیا بولے:
’’تو بلوا لو نا۔اس میں میری رائے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
یہاں آجائیں گی تو تمہارا بھی دل لگے گا اور ان کا بھی۔پھر گھر کے کام میں تھوڑا بہت ہاتھ بھی بٹائیں گی۔‘‘
امجد کی بھابھی نے کہا:
’’بس تو پھر میں آج ہی خط لکھ کر بلوا لیتی ہوں۔‘‘
امجد کے بھیا کھانا ختم کرکے اٹھے اور حقہ لے کر بیٹھک میں چلے گئے۔
امجد نے جب دیکھا کہ بھیا جا چکے ہیں تووہ کھانے کے لئے بھابھی کے پاس آیا۔آتے ہی گھر کو سر پر اٹھا لیا۔بولا:
’’بھابھی میری بھوک سے جان نکلی جا رہی ہے۔کھانا دو۔‘‘
بھابھی نے جھٹ سے کہا:
’’کیوں رے ،کھیرے سے پیٹ نہیں بھرا؟‘‘
’’کیسا کھیرا؟‘‘امجد نے لا علمی ظاہر کرتے ہوئے کہا:
’’کہتا ہے کیسا کھیرا۔مجھے سب پتہ ہے۔میں نے تجھ سے کیا کہا تھا کہ شرارتیں چھوڑ دے۔‘‘
’’بس بھابھی یہ آخری غلطی تھی۔اس کے بعد تمہیں شکایت کا موقع نہ ملے گا۔‘‘ امجد معافی مانگتے ہوئے بولا۔
’’کم از کم یہ بھی تو سوچا کر کہ اس میں تیرے بھائی کی بدنامی ہوتی ہے۔‘‘بھابھی بولی۔
’’بھیا کو معلوم تو نہیں ہو گیا؟‘‘امجد گھبرا گیا۔
’’بتا دوں انہیں؟‘‘بھابھی نے شرارت سے پوچھا۔
امجد بھابھی کے گلے سے لپٹ گیا اور ضد کرتے ہوئے بولا:
’’میری اچھی بھابھی!‘‘
بھابھی بولی:
’’اچھا تو دیکھ اب تو جا کر اس بڑھیا سے معافی مانگ لے اور یہ اٹھنی بھی اسے آج کے نقصان کا جرمانہ دے دینا۔‘‘بھابھی اٹھنی اس کے حوالے کرتے ہوئے بولی۔
’’اچھا بھابھی۔‘‘امجد بولا،’’یہ بات خود بڑھیا نے تمہیں بتائی ؟‘‘
’’ہاں۔‘‘بھابھی بولی۔
امجد نے کھانا جیسے تیسے ختم کیا اور سیدھا اٹھ کر اندھی بڑھیا کی جھونپڑی کی طرف چلا۔جیسے ہی وہ بڑھیا کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھاکہ بڑھیا اکیلی دہلیز پر بیٹھی رورہی ہے۔امجد کا دل بھر آیا اور اسے بڑی شرم محسوس ہوئی اور اسے اپنی غلطی پر افسوس ہوا۔وہ سیدھا بڑھیاکے پاس گیا اور بولا:
’’مائی کیوں رورہی ہے؟‘‘
’’چل ہٹ بے حیا۔لٹیرا!‘‘بڑھیا امجد کی آواز پہچان کر کوسنے لگی۔
امجد نے اس کے ہاتھ پر اٹھنی رکھ دی اور بولا:
’’مائی، مجھے معاف کردے۔میں اب کبھی تجھے تنگ نہ کروں گا۔‘‘
بڑھیا نے اٹھنی پاکر امجد کو دعائیں دیں اور بولی:
’’بیٹا، ہم غریب پڑوسیوں کا خیال رکھا کرو۔ہمارا اور کون ہے۔‘‘
امجد اسے دلاسا اور تسلی دیتا ہوا ہر ممکن مدد کا وعدہ کرنے لگا۔
یکایک بڑھیا زور زور سے رونے لگی۔امجد حیران ہو گیا اور بولا:
’’کیوں مائی رو کیوں رہی ہے تو؟‘‘
بڑھیانے آنسو پونچھتے ہوئے کہا:
’’بیٹا وہ جو ڈاکٹر ہے نا؟وہ میری بکری پکڑ کر لے گیا۔کہتا ہے دواکے دام چکا دوں تو واپس دے گا۔میرے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں کہ میں بکری کو واپس لاؤں۔‘‘
امجد نے کہا:
’’تو پھر فکر نہ کر مائی، میں ابھی ڈاکٹر کو ٹھیک کردوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ سیدھا ڈاکٹر کے گھر کی طرف بڑھا اور تیز تیز چلنے لگا۔اسے اس وقت ڈاکٹر کی کمینگی پر بے حد غصہ آرہاتھا۔وہ ایک غریب بڑھیا کا آخری سہارا چھین رہا تھا اور یہ امجد کو برداشت کرنا مشکل تھا۔اس نے اپنے دل میں فیصلہ کرلیاکہ وہ بڑھیا کی اس امانت کو ہر قیمت پر واپس لاکررہے گا۔
جب وہ ڈاکٹر کے گھر کے پاس پہنچا تو اس وقت باہر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔لیکن اس نے جھانک کر دیکھا تو بڑھیا کی بکری اندر صحن میں بندھی ہوئی تھی اور اس کے سامنے ڈاکٹر برآمدے میں بیٹھا ہوا کھانا کھا رہا تھا۔وہ اندر داخل ہو گیا اور چھپ کربوریوں کے پیچھے دبک گیا اور اس انتظار میں بیٹھا رہا کہ ڈاکٹر کھانا ختم کرکے اٹھے اور کمرے میں جائے تو وہ بکری کو کھول کر چلتا بنے،لیکن ڈاکٹر کم بخت اس بری طرح کھانے کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا تھا کہ اٹھنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔آخر اس کا بیٹھے بیٹھے جی اکتا گیا۔اس کی گرن اکڑ کر دکھنے لگی۔وہاں پر بوری کے پیچھے بہت چھوٹی سی جگہ تھی اور وہ بڑی تکلیف سے کسی طرح چھپا بیٹھا تھا۔اتنے میں ڈاکٹر نے بیوی کو پکارا:
’’ارے سنتی ہو۔۔۔؟‘‘
اس کی بیوی باورچی خانے سے نکل کر آئی اور بولی:
’’کیا بات ہے؟‘‘
ڈاکٹر لقمہ نگلتے ہوئے بولا:
’’کل صبح ہی اٹھ کر مصالحہ پیس رکھنا۔بکری ذبح ہوگی کیونکہ بڑھیا صبح تک آفت لے آئے گی۔‘‘
اس کی بیوی بولی:
’’مصالحہ تو میں نے پیس کربھی رکھ دیا۔اب صبح قصائیوں کو بلوا کر اسے ذبح کرادو اور قصہ ختم۔‘‘
ڈاکٹر ہاتھ دھوتا ہوا بولا،’’بس ٹھیک ہے۔‘‘
اور پھر تولئے سے ہاتھ صاف کرتا ہوا کمرے کے اندر چلا گیا۔اس کے پیچھے پیچھے اس کی بیوی بھی چلی گئی۔امجد کے لئے اب موقع تھا کہ وہ بکری کو رسی سے کھول کر چلتا بنے۔آنگن میں اس وقت اندھیرا بھی تھا۔امجد بجلی کی تیزی سے اٹھا اور جا کر اس نے رسی کھول دی اور بکری لے کر جلدی جلدی دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔لیکن شامت دیکھئے کہ بکری ٹھیک اسی وقت ممیا اٹھی۔ڈاکٹر نے جب بکری کے دروازے سے ممیانے کی آواز سنی تو وہ لپکا ہوا بھاگا۔امجد کے ایک ہاتھ میں رسی تھی جو بھاگنے میں دروازے کے ساتھ پھنس گئی۔امجد ایک ہاتھ میں بکری کو پکڑے رہا اوردوسرے ہاتھ سے رسی کو کھینچنے لگا لیکن اندھیرے میں اسے پتا نہ چل سکا کہ رسی کہاں پھنسی ہوئی ہے۔ڈاکٹر نے آکر دروازے کے پاس بکری کو ٹٹولنا شروع کردیا اور اس کے ہاتھ میں رسی آگئی۔اس نے سمجھا کہ بکری مل گئی اور خوب زور زور سے کھینچنے لگا۔امجد نے جب دیکھاکہ سارا زور لگا کر کھینچ رہا ہے تو اس نے رسی چھوڑ دی۔ڈاکٹر دھڑام سے جھٹکا کھا کر گر پڑا اور اس کا سر زخمی ہو گیا۔ڈاکٹر زور زور سے چیخ کر بیوی کو بلانے لگا اور امجد لمبے لمبے ڈک بھرتا ہوا باہر آگیااور بکری کو گود میں اٹھا ئے ہوئے بڑھیا کی جھونپڑی کو پہنچ گیا۔اس نے بکری کو آہستہ سے چھوڑ دیا اور بکری چلتی ہوئی بڑھیا کے پاس پہنچ گئی۔بڑھیا کو پتہ نہ چلا کہ امجد ہی بکری کو چھوڑگیا ہے۔بڑھیا بکری کو پاکر خوشی سے اچھل پڑی اور اس سے لپٹ کر پیار کرنے لگی۔
امجد کی آنکھوں سے خوشی کے مارے آنسو نکل آئے اور اس نے پہلی دفعہ محسوس کیا کہ اس نے کوئی نیک کام کیا ہے اور امجد خوشی خوشی گھر لوٹ آیا اور اس رات وہ یہی سوچتا رہا کہ وہ بڑھیا کے کسی کام آگیا اور اسے بہت اچھی نیند آئی۔
نئی آفت
۔۔۔۔
صبح سویرے جب امجد کی آنکھ کھلی تو اس نے بھابھی اور بھیا کی آپس میں باتیں کرنے کی آوازیں سنیں،بھابھی بھیا سے کہہ رہی تھیں:
’’آپ جا کر آج میری ماں کو دریا کے گھاٹ سے لے آئیں۔وہ کشتی پر دریاپار آئیں گی۔‘‘
امجد کے بھیا دفتر جانے کی تیاری کررہے تھے،وہ بولے:
’’بھئی مجھے تو دم لینے کی بھی فرصت نہیں۔اچھا ہوتا کہ تم امجد کو بھیج دیتیں۔‘‘
بھابھی کو غصہ آگیا،وہ بولیں:
’’اس طرح اگر کوئی انہیں لینے نہ گیا تو وہ یہی کہیں گی کہ میرا آنا بہت جبر تھا۔کوئی لینے تک نہ آیا۔‘‘
امجد کے بھائی تیاری کرکے دفتر چلے گئے اور جاتے جاتے کہہ گئے کہ امجد کو بھیج دینا۔وہ جاکر لے آئے گا۔آخر بھابھی بھی ناامید ہو کر امجد کے پاس آئی اور بولی:
’’راجہ بھیا!آج میرا کام کروگے؟میری ماں آج آرہی ہے،تو ذرا گھاٹ پر لینے چلا جا۔‘‘
امجد بھیا کی نقل اتارتے ہوئے بولا:
’’بھئی مجھے تو دم لینے کی فرصت نہیں،اچھا ہوتا کہ تم بھیا ہی کو بھیج دیتیں۔‘‘
بھابھی بولی:
’’اچھا مذاق ہو چکا۔اگر تم میں سے کوئی نہیں گیا تو ماں بہت برا منائے گی۔‘‘
امجد بولا:
’’تو اسکول بھی تو جانا ہے۔‘‘
’’اسکول سے چھٹی لے لینا۔‘‘بھابھی بولی۔
امجد نے سوچا کہ چلو مفت کی چھٹی بھی مل جائے گی اور دریا گھاٹ کی سیر بھی ہو جائے گی اور بھابھی کا دل بھی خوش ہوجائے گا۔اس لئے اس نے بھابھی کو کہہ دیاکہ وہ اس کی ماں کو لینے دریا گھاٹ پر چلاجائے گا۔
بھابھی یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور امجد کو پیار کرتے ہوئے بولی:
’’واہ۔میرا راجہ بھیا کتنا اچھا ہے،میری بات مان گیا۔‘‘
اور امجد اٹھا ۔کپڑے پہنے، غلیل ہاتھ میں پکڑی اور بھابھی نے اسے جاتے ہوئے دیکھ کر کہا:
’’امجد راستے میں شیطانی نہ کرنا اور میری ماں سے ایسی ویسی بات نہ کرنا ورنہ برا مانے گی۔‘‘
’’اچھا۔اچھا‘‘امجد جلدی سے دروازے سے نکلتا ہوا بولا:
دریا کے اس طرف گنے کا کھیت پڑتا تھا۔امجد تیزی سے کھیت میں گیا اور ایک خوب موٹا سا گنا چھرے کے ایک جھٹکے سے اڑا کر ایسا چلتا بنا کہ گنا کاٹنے کی آواز تک پیدا نہ ہوئی۔اس نے گنے کو دانت سے چھیلنا شروع کیااور اسی طرح چھیلتا ہوا دریا کے گھاٹ پر پہنچ گیا۔ابھی ناؤ آنے میں کافی دیر تھی۔وہ گھاٹ پر بیٹھ گیا اور مزے مزے لے لے کر گنا چوسنا شروع کردیا۔
کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ناؤ آتی ہوئی نظر آئی۔صبح کا سورج اس وقت ذرا ہی اوپر چڑھا تھا اور دور تک ناؤ کی سیدھ میں پانی کی چمک ایک روشنی کی لکیر کی طرح پانی کے اوپر کھچی ہوئی تھی۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں اور کشتی کا بادبان سورج کی روشنی میں دور سے چمکتا ہوا ہواؤں میں کلیل کرتا تھا۔مرغابیاں چکر کاٹ رہی تھیں اور کونج ایک قطار میں اڑتی ہوئی نیلے آسمان پرسفید پروں کا پنکھا کررہی تھیں۔ساری چیزیں ایک زندگی اور خوبصورتی لئے ہوئے تھیں۔
امجد اس خوبصورت منظر میں ایک دم کھوسا گیااور اسے اپنے ادھر ادھر کا ہوش نہ رہا۔وہ آنکھیں پھاڑے دریا کی سیدھ میں بہت دور تک دیکھے جا رہا تھا اور اس کی آنکھیں پانی کے ٹھہرے ہوئے قطروں کی طرح معلوم ہورہی تھی جیسے ابھی اس کے پپوٹوں کے نیچے سے ڈھلک کر گرجائیں گی۔
امجد اس منظر کی خوب صورتی میں ایسا کھویا کہ اسے یہ بھی ہوش نہ رہا کہ اب ناؤ اس کے بہت قریب آکر گھاٹ پر لگ گئی ہے اور مسافر کشتی سے نیچے اتر رہے ہیں۔
امجد کا دھیان اس وقت پلٹا جب ایک بوڑھی عورت جو موٹاپے کی وجہ سے بمشکل چل سکتی تھی، ایک آدمی سے پوچھ رہی تھی:
’’بھائی!ارشد بابو کا مکان کون ساہے؟‘‘
ارشد امجد کے بھیا کا نام تھا۔امجد سمجھ گیا کہ یہ بڑھیا ہی اس کی بھابھی کی ماں ہے۔وہ آگے بڑھا اور بولا:
’’کہاں سے آرہی ہو بیگم صاحبہ؟‘‘
بڑھیا نے اسے قہر آلود آنکھوں سے دیکھا اور ایک طرف ہٹ گئی اور پھر ایک دوسرے آدمی سے بولی:
’’کیوں بھیا۔ارشد بابو کے گھر کا پتہ ہے تمہیں؟‘‘
اس آدمی نے امجد کی طرف اشارہ کیا اور بولا:
’’یہ ارشد کا چھوٹا بھائی امجد ہی تو ہے۔یہ معلوم ہوتاہے تمہیں لینے آیا ہے۔‘‘
امجد آگے بڑھا اور بولا:
مگر تم آئی کہاں سے۔، کون ہو؟ کیا نام ہے۔‘‘بڑھیابولی:
’’ہٹ بدزبان۔مجھ سے میرا نام پوچھتا ہے۔ نام پوچھ اپنی ماں سے۔اپنی بہن سے۔‘‘
امجد بولا:
’’مجھے انکا نام معلوم ہے ۔کیوں پوچھوں؟‘‘
بڑھیا فریاد کرتی ہوئی بولی:
’’ہائے کیسا مسٹنڈا لونڈا ہے۔کس دیدہ دلیری سے بولے جا رہا ہے۔دیدے کا پانی مر گیا ہے کم بخت کا۔‘‘
امجد بولا:
کیوں خواہ مخواہ کو کوس رہی ہو۔بھابھی نے اگر منع نہ کیا ہوتا تو میں تمہیں جواب دے دیتا مگر اس کا خیال کرکے تمہیں چھوڑدیتا ہوں،سیدھی طرح گھر چلو۔‘‘
بڑھیا کے ساتھ ایک وزنی سی گٹھڑی تھی۔امجد نے اسے اٹھا کر سر پر رکھ لیا اور بولا:
’’اب قدم بھی اٹھاؤگی یا پہاڑی بنی یہیں کھڑی رہوگی۔‘‘
بڑھیا غصے کو پی گئی اور کچھ نہ بولی۔بلکہ پیچھے مڑ کر ایک لڑکی کو آواز دینے لگی:
’چل منی۔چل‘‘
امجد نے بڑھیا کے پیچھے دیکھا کہ ایک دس گیارہ سال کی بچی بھی بیٹھی ہوئی تھی۔امجد ایک لمحے کے لئے اسے دیکھتا رہا۔وہ ساڑھی پہنے ہوئے تھی اور بالوں کا بڑا خوب صورت سا جوڑا بنا کر پیچھے اس میں پھول کا ہار لگا رکھا تھا۔لڑکی بھی امجد کو ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی۔۔اپنی نانی کی آواز پر لڑکی اٹھ کھڑی ہوئی اور چلنے لگی۔
امجد گٹھری کو چلتے چلتے ہوا میں اچھالتا اور پھر زمین پر گرنے سے صاف بچا لیتا۔بڑھیا کا کلیجہ راستے بھر دھک دھک کرتا رہا پر وہ منہ سے کچھ نہ کہتی۔کیونکہ وہ خود گٹھری کا وزن برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اس سے تو چلنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔آخر کسی نہ کسی طرح وہ گرتی پڑتی گھر پہنچ گئی۔بھابھی ماں کے انتظار میں دہلیز ہی پر ببو کے ساتھ کھڑی تھی۔ماں کو دیکھ کر بھابھی کی بانچھیں کھل گئیں۔وہ آگے بڑھ کر ماں سے گلے مل کر رونے لگی۔
جب گلے مل کر وہ علیحدہ ہوئیں تو ماں کو لے کروہ اندر آنگن میں آئی۔بڑھیا چولہے کے پاس بیٹھ گئی۔اس کے پسینہ بری طرح چل رہا تھا۔وہ آنچل سے پنکھا کرتی ہوئی بولی:
’’بیٹی یہ موا کون ہے؟‘‘
بھابھی بولی:
’’ماں یہ میرا چھوٹا دیور امجد ہے نا۔تمہیں یاد نہیں؟‘‘
بڑھیا منہ لٹکاتے ہوئے بولی:
’’اچھا تو یہ ہے وہ لونڈا۔یہ لچھن ہیں اس کے۔ یہ تو بڑا مدمعاش معلوم ہوتا ہے۔راستے بھر گراتا اٹھاتا آیا ہے۔‘‘
بھابھی بولی،’’کیوں رے امجد؟‘‘
امجد بولا:
’’منی سے پوچھ لو۔ میں بولوں گا تو جھوٹ سمجھو گی۔‘‘
منی بولی،’’نہیں خالہ ذرا سا گٹھری کو ہوا میں اچھال رہے تھے یہ۔‘‘
بھابھی بولی:
’’بڑا شریر بچہ ہے ماں!‘‘
بڑھیا بولی:
’’اسے تو بچہ کہہ رہی ہے؟یہ تو جوان لونڈا ہے۔‘‘
بھابھی امجد کی حمایت میں بولی:
’’ماں تم بھی کمال کرتی ہو۔مشکل سے نو سال کا ہوا ہے۔یہ کوئی جوان تھوڑا ہی ہے۔یہ تو اس کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔‘‘
بڑھیا اس پر غصے میں بولی:
’’دھاکڑ جیسا لونڈا ہے۔یہ اس کے کھیلنے کے دن ہیں؟۔۔۔ہاں تمہارا بچہ کہاں ہے؟‘‘
بھابھی نے ببو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’ارے ببو نانی کو سلام نہیں کیا؟‘‘
ببو نے ہاتھ سے سلام کیا۔
نانی نے ببو کو ساتھ لے کر بلائیں لیں اور بولی:
’’کیوں ببو؟ مٹھائی کھائے گا بیٹا۔‘‘
ببو بولا:
’’ہاں کھاؤں گا۔‘‘
بڑھیا نے وہی گٹھری کھولی اور اس کے اندر سے مٹھائی نکال کر ببو کے ہاتھ میں رکھ دی۔
پھر منی سے بولی:
’’منی ! تو بھی کھائے گی؟‘‘
’’ہاں‘‘منی بولی۔
اور ایک مٹھائی کا ٹکڑا منی کو بھی مل گیا۔
بڑھیا نے جلدی سے گٹھری میں گرہ باندھ کر الگ رکھ دیا۔اس پر بھابھی بولی:
’’ماں ۔تم نے امجد کو مٹھائی نہیں دی؟‘‘
بڑھیا بولی:
’’نہیں۔میں یہ مٹھائی اپنے نواسے کے لیے لائی ہوں۔میں ایرے غیرے نتھو خیرے کے لیے نہیں لائی ہوں۔تم برا مانو یا بھلا۔میں تو دوٹوک کہتی ہوں۔‘‘
بھابھی کو ماں کی یہ بات بہت بری معلوم ہوئی اور اس کا چہرہ ذرا بجھ سا گیا۔
امجد نے بھابھی کی طرف دیکھا اور بھابھی نے سر نیچے جھکا لیا۔
امجد نے شرارت سے کہا:
’’بھابھی تم فکر نہ کرو۔میں رات کو اپنے حصے کی مٹھائی چرا کرکھالوں گا۔‘‘
بڑھیا چونک کر بولی:
’’کیا بکتا ہے؟چرا کر کھائے گا۔تو تجھے چوری کی بھی لت پڑی ہوئی ہے؟چرا کر دیکھ تو ذرا ۔منہ میں آگ نہ لگا دوں گی تیرے!‘‘
بھابھی سے برداشت نہ ہو سکا اور وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی۔امجد بھی یہ محسوس کرکے کہ بات آگے نہ بڑھ جائے،چپ چاپ آگے نکل گیا۔
باہر نکل کر وہ سر جھکائے باغ کی طرف بڑھنے لگا۔اسے بڑھیا سے ایک طرح کی نفرت ہو گئی اور اسے ایسا لگا جیسے وہ بڑھیا گھرمیں اس کا جینا دوبھر کردے گی۔اسے پھر یہ بھی خیال آیا کہ شایداس کی بھابھی بھی اب اس کے ساتھ زیادہ پیار نہ کرے گی اوروہ اپنی ماں کے کہنے میں آکر امجد کے ساتھ براسلوک کرے گی۔اس بات کو سوچ کر امجد کی آنکھیں بھر آئیں اور اس نے سسکی بھرکے رونا شروع کردیا۔باغ کے پاس ایک درخت کے نیچے بیٹھ کے وہ بڑی دیر تک روتا رہا۔اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس بڑھیا نے اس کی بھابھی کواس سے چھین لیا ہے اور اب وہ کبھی بھی اس سے پیار نہ کرے گی۔وہ اور زیادہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگا۔
جب اس کا رو کر جی ہلکا ہوا تواس نے آنکھوں سے آنسو پونچھ ڈالے اور دیر تک درخت کے نیچے آنکھ بند کرکے لیٹا رہا۔
پھر اسے منی کا خیال آیا۔اس کی طرف سے تھوڑی سی ہمدردی کا خیال تھا ۔وہ کتنی پیاری لڑکی تھی۔امجد نے فیصلہ کر لیا کہ اگر اسے کسی نے پیار نہ بھی کیا تووہ منی کو اپنا دوست بنائے گا اور اسے اپنے دکھ درد کا ساتھی سمجھے گا۔لیکن کیا پتا کہ منی بھی نانی کے ڈرسے اس سے باتیں نہ کرے۔اس نے سوچا کہ وہ ببو اس کے بھائی کا بیٹا ہے۔اسے کوئی نہیں اس سے چھین سکتا۔یہ سوچ کر اسے ڈھارس سی ہوئی اور وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا گھر کی طرف لوٹنے لگا۔
نیا فساد
۔۔۔
صبح حسب معمول امجد اسکول کی تیاری کرنے لگا اور بستہ دبا کر اسکول کو نکل گیا۔آج وہ کچھ اداس سا دکھائی دے رہا تھا۔وہ اسکول میں چپ چاپ ایک جگہ بیٹھ گیا۔اس کے قریب ہی تین چار لڑکے آپس میں زور زور سے بحث کررہے تھے۔بحث اس بات پر ہورہی تھی کہ دنیا چاند اور ستارے کی طرح ایک سیارہ ہے۔امجد نے کہا یہ دنیا تو خدا کی بنائی ہوئی ہے۔اس میں سائنس کا کیا کام ہے۔
نیا لڑکا بولا:’’آج کل سارا کام سائنس سے ہورہا ہے۔اس میں مذہب کا کیا کام ہے؟‘‘
امجد کو غصہ آگیااور وہ بولا:
’’مگر میری بھابھی تو کہتی ہے کہ ساری دنیا خدا نے سات دن میں بنائی ہے۔‘‘
نیا لڑکا ہنس پڑا اور بولا:
’’میں نہیں مانتا۔‘‘
امجد بولا:
’’تو کیا میری بھابھی غلط کہتی ہے؟‘‘
نیا لڑکا بولا:
’’بالکل غلط۔‘‘
امجد سے اب غصہ برداشت نہ ہوسکااور اس نے اچھل کر نئے لڑکے کو گردن سے پکڑ لیااور بولا:
’’میری بھابھی کو جھٹلاتا ہے۔‘‘اور ساتھ ہی ساتھ اس نے مکے،ہاتھ پاؤں سے اسے اتنا مارا کہ وہ لڑکا بے ہوش ہو کرگرگیا۔اس کی ناک سے خون بہنے لگا۔
تمام لڑکے جمع ہو گئے اور گھبرا گئے کہ سیکرٹری صاحب کا لڑکا بے ہوش ہو گیا۔ماسٹر صاحب کو جیسے ہی اس بات کا پتہ چلا وہ بھاگے ہوئے آئے اورلڑکے کو اٹھا کر اس کے گھر لے گئے۔
کوٹھی کے برآمدے میں لڑکے کے باپ سیکرٹری صاحب بیٹھے ہوئے چائے پی رہے تھے۔جب اسکو ل کے ماسٹر صاحب ان کے لڑکے کو لے کر پہنچے تو سیکرٹری صاحب کی سمجھ میں کچھ نہ آیاکہ قصہ کیاہے۔
انہوں نے ماسٹر صاحب سے پوچھاکہ ان کے بیٹے کو کیا ہو گیا ہے۔اس پر اسکول کے ماسٹر نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیاکہ امجدنے اسے لڑائی میں گرادیا ہے اور وہ اسکول کو بند کرکے آگئے ہیں۔
سیکرٹری کرسی سے اٹھا اور اپنے بیٹے کو اندر گھر میں جانے کے لیے کہا اور خود ماسٹر صاحب سے بولا:
’’ماسٹر صاحب امجد نے میرے بیٹے کو اس لیے مارا کہ میرا بیٹا کمزور تھا۔خیر کوئی بات نہیں۔اس میں اسکول بند کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔آپ فوراًجاکر اسکول کھولیں اور پڑھائی شروع کریں۔
ماسٹرصاحب سلام کرکے واپس اسکول آگئے اور وہاں انہوں نے دوبارہ پڑھائی شروع کردی۔
چند ہی گھنٹوں میں یہ بات پورے گاؤں میں پھیل گئی کہ امجد نے اسکول کے سیکرٹری صاحب کے لڑکے کو پیٹا ہے۔
شام کے وقت جب امجد کے بھیا دفتر سے واپس لوٹے اور ہاتھ منہ دھو کروہ دفتر کے کاغذات لے کر بیٹھے۔تھوڑا سا کام کرہی رہے تھے کہ اتنے میں اسکول کے سیکرٹری صاحب کی موٹر باہر آکر رکی اور اس میں سے اسکول کے سیکرٹری باہر نکل کر آئے اور امجد کے بھیا کے پاس آکر کھڑے ہوگئے۔
امجد کے بھیا ان کی اس غیر متوقع آمدسے گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور سلام عرض کیا۔اسکول کے سیکرٹری صاحب نے بڑے غصے سے پوچھا:
’’کیوں صاحب؟ امجد آپ ہی کا چھوٹا بھائی ہے؟‘‘
امجد کے بھیا گھبرا گئے اور بڑی ملائمت سے بولے:
’’جی ہاں۔‘‘
اسکول کے سیکرٹری صاحب بولے:
’’آپ اپنے بھائی کو ذرا سمجھا دیجیے گا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ کار میں بیٹھے اور چلے گئے۔
امجد کے بھیا فوراً اندر چلے گئے اور بیگم سے بولے:
’’دیکھو۔آج امجد نے ایک اور ہنگامہ کھڑا کیا۔ابھی ابھی اسکول کے سیکرٹری صاحب آئے تھے۔‘‘
امجد کے گھر میں سبھوں کو یہ بات معلوم ہوچکی تھی اورخاص طور پر بڑھیا تو اس خبر کو سنتے ہی خوش ہوئی تھی کہ آج وہ امجد کی بھائی سے خوب مرمت کرائے گی۔وہ امجد کے بھیا سے بولی:
’’اجی یہ لڑکا تو نرا شیطان ہے۔تمہاری عزت کو چار کوڑی کی بنا کر رکھ دے گا۔‘‘
امجد کے بھیا کو سخت غصہ آیا اور وہ امجد کی بھابھی سے بولے:
’’میں اور امجد اپنا گھر علیٰحدہ علیٰحدہ کرلیں گے۔وہ آئندہ میرے ساتھ نہیں رہے گا۔‘‘
امجد کی بھابھی بولی:
’’آپ کا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا۔اتنا چھوٹا سا بچہ اکیلے کیسے رہے گا۔لڑکے تو شرارت کرتے ہی ہیں۔اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ گھر سے نکال دیں۔‘‘
لیکن امجد کے بھیا بولے:
’’نہیں میں سوچ چکاہوں۔وہ لونڈا روز روز ایسی ہی مصیبتیں کھڑی کرتا رہے گا۔اکیلے رہ کر جو جی چاہے کرتا پھرے۔‘‘
بھابھی پھر بولی:
’’تو اپنا گھر خود سنبھال کیجیے۔میں تو کنویں میں جا کر ڈوب مروں گی۔‘‘
امجد کے بھیا بولے:
’’تم نے ہی تو طرف داری کرکرکے لونڈے کا دماغ عرش پر چڑھا دیا ہے۔تمہاری وجہ سے وہ اتنا شوخ اور شریر ہوگیا ہے۔‘‘
امجد کی بھابھی چپ ہوگئی۔اتنے میں امجد آہستہ سے اندر داخل ہوا اور کمرے میں چلا گیا۔سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔امجد کی بھابھی بھی چپ چاپ اٹھی اور امجد کے کمرے میں گئی اور دیوار کے پاس سے چھڑی اٹھا کر اس نے امجد کو پیٹنا شروع کردیا۔وہ پیٹتی گئی۔پیٹتی گئی۔امجد کا سارا جسم چھلنی ہوگیا اوراس کی چیخیں سارے محلے میں سنائی دینے لگیں۔کوئی بیس منٹ تک پیٹنے کے بعد وہ تھک گئی تو واپس باہر آگئی ۔امجد درد سے تڑپ تڑپ کر لوٹ رہا تھا۔
امجد کے بھیا بولے:
’’اس طرح بھی کوئی مارتا ہے بچے کو۔‘‘
ماجد کی بھابھی بولی،’’اب تو کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا دیکھنے والوں کا۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں گئی اور دروازہ بند کرکے تکیے میں منہ چھپا کررونے لگی۔
اس رات امجد اور امجد کی بھابھی دونوں میں سے کسی نے کھانا نہیں کھایا۔دونوں اسی طرح چپ چاپ سو گئے۔
لیموں کا درخت
۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن جب امجد اسکول سے چھٹی کے بعد شام کو گھر لوٹ رہا تھا،راستے میں اس نے ایک کوڑے کرکٹ کے اوپر ایک سبز سا پودا دیکھا۔پودا ابھی بہت چھوٹا تھا اور مشکل سے اس میں چھ یا سات پتیاں نکل سکی تھیں۔امجد نے ایک پتی کوتوڑ کر انگلیوں سے مسلا اور اسے سونگھنے لگا مگر اسے کچھ پتہ نہ چل سکا کہ یہ کس چیز کا درخت تھا۔اس نے تین چار پتیوں کواور توڑ کر سونگھنے کی کوشش کی لیکن اسے کچھ پتہ نہ چل سکا۔اب پودے میں صرف ایک پتی رہ گئی تھی۔اس نے غصے میں اسے بھی نوچ ڈالااور ہاتھ میں پتی کو لیے ہوئے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔وہ تھوڑی دیر بعد جب انگلی کو ناک کے پاس لے گیا تواسے لیموں کی بھینی بھینی خوش بو محسوس ہوئی۔امجد کو افسوس ہوا کہ لیموں کا ایک درخت خواہ مخواہ خراب ہوگیا اور امجد کو درخت لگانے کا بھی بہت دنوں سے شوق تھا۔اسے یہ دھن سمائی کہ لیموں کا درخت اپنے آنگن میں ضرور لگانا چاہیے۔پھر اسے یاد آیا کہ لالہ کے باغ میں لیموں کے بہت سے درخت ہیں۔کوئی چھوٹا موٹا اکھاڑ کراپنے آنگن میں لگا لینا چاہیے۔چنانچہ یہ سوچتے ہی وہ لالہ کے باغ کی طرف ہولیااور وہاں پہنچ کر اس نے ادھر ادھر کوئی چھوٹا درخت تلاش کرنے کی کوشش کی۔مگر وہاں آس پاس سارے درخت بڑے بڑے تھے۔چھوٹا درخت کوئی بھی نہ تھا۔آخر مجبور ہو کر امجد نے ایک بڑا درخت چھرے سے کاٹنا شروع کردیا۔کوئی گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کی محنت کے بعددرخت کٹ گیا تو امجد اسے گھسیٹتا ہوا گھر کی طرف لانے لگا۔راستے میں اسے ببو آتا ہوا دکھائی دیا۔ببو نے پوچھا:
’’امجد بھیا یہ درخت کیا کرو گے۔‘‘
امجد نے بستہ ببو کو پکڑا دیا اور بولا:
’’اسے آنگن میں لگائیں گے۔‘‘
ببو خوشی کے مارے اچھل پڑااور دونوں مل کر لیموں کے درخت کو آنگن میں لے آئے۔اس وقت نانی چولہے کے پاس بیٹھی کھانا پکا رہی تھی ۔وہ دیکھ کر وہیں آگ بگولا ہو گئی اور بولی:
’’یہ کیا گھاس کوڑا گھر میں اٹھالایا ہے؟‘‘
امجد بولا:
’’گھاس کوڑا نہیں ۔یہ لیموں کا درخت ہے۔یہ آنگن میں لگاؤں گا۔‘‘
نانی کا غصہ اور بھی تیز ہو گیا اور بولی:
’’یہ نحس درخت گھر میں لگائے گا؟‘‘
امجد بولا:
’’یہ کس حکیم نے بتلایا ہے کہ یہ درخت نحس ہے؟‘‘
بڑھیا بولی،’’لونڈے،ہوش کی دوا کر،بال بچے والے گھر میں یہ درخت لگے گا؟خدا نہ کرے میری بیٹی کو کچھ ہوگیا تو۔‘‘
امجد بولا،’’تم فکر نہ کرو۔کچھ نہیں ہوگا اور یہ درخت یہیں لگے گا۔‘‘
بھابھی اس وقت پانی کا گھڑا کنویں سے بھر کر لارہی تھی۔وہ بولی:
’’یہ کیا اٹھا لایا ہے رے امجد۔‘‘
امجد بھابھی کی طرف دیکھے بغیر بولا:
’’لیموں کا درخت۔‘‘
بھابھی یہ سوچ کر چپ ہو گئی کہ کل ہی اس نے اتنا پیٹا ہے اب آگے اس سے بولنا اچھا نہیں۔مگر بڑھیا تو جیسے ادھار کھائے بیٹھی تھی۔وہ سر ہوگئی۔
’’کان کھول کر سن لے بیٹی۔یہ درخت منحوس ہوتا ہے۔ہری گود سوکھ جاتی ہے۔میں اس منحوس کا سایہ اس گھر میں نہیں دیکھ سکتی۔‘‘
بھابھی بولی:
’’ماں! لگا لینے دو اسے۔اب یہ اتنا بڑا درخت کیا لگے گا۔خود ہی دو دن میں سوکھ جائے گا اور امجد باہر پھینک دے گا۔بچے کے ساتھ بچہ بننے کا کیا فائدہ؟‘‘
بڑھیا اس وقت تو چپ ہو گئی مگر دل میں خار کھا بیٹھی کہ کب موقع ملے اور وہ اس درخت کو اکھاڑ پھینکے۔
امجد اور ببو نے مل کے خوب بڑا سا گڑھا کھودا اور اس میں درخت کو گاڑ کراوپر سے مٹی بھر دی۔امجد کنویں سے دس بارہ بالٹی پانی لاکر جڑ میں دیتا رہا۔اب درخت اچھی طرح جم چکا تھا۔ببو اور امجد بڑی دیر اس کھیل میں کھوئے رہے۔
درخت جب زمین میں اچھی طرح جم چکا تو امجد اپنی منی اور چھنی ،مچھلیوں کی خبر لینے چلا گیا۔وہ تالاب پر بڑی دیر بیٹھا مچھلیوں سے کھیلتا رہا۔انہیں دانہ کھلاتا رہا اور ان سے من مانی باتیں کرتا رہا۔جب وہ ان کو کھلا چکا تو گھومتا گھماتا احمد کے مکان کی طرف چلا گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد تالاب کے کنارے بڑھیانانی،منی اور ببو کے ساتھ نمودار ہوئی۔وہ تالاب کی سیڑھیوں پر آکر بیٹھی ہی تھی کہ دونوں مچھلیاں سیڑھی کے قریب آکر تیرنے لگیں۔ببو کو دیکھ کر مچھلیاں پانی کے اوپر اچھلنے لگیں۔بڑھیا مچھلیوں کو دیکھ کر لپک کر بڑھی اور بولی:
’’ارے پکڑنا۔ارے پکڑنا‘‘یہ کہتی ہوئی بڑھیا تالاب میں اترنے لگی۔ببو نے اسے روکا کہ یہ مچھلیاں مت پکڑو۔یہ امجد بھیا کی پالتو مچھلیاں منی اور چھنی ہیں۔اس پر بڑھیا بگڑ کو بولی:
’’امجد پر خدا کا قہر ٹوٹے۔کیا اس کے باپ کا تالاب ہے۔‘‘
بڑھیا پانی میں آگے بڑھتی گئی۔مچھلیاں ڈر کر بھاگ کھڑی ہوئیں اور بڑھیا کمر بھر پانی میں رک گئی۔اس کے سارے کپڑے بھیگ گئے۔جب وہ پانی سے باہر نکلی تو اس نے ببو کو ڈانٹا کہ اس نے شور کرکے مچھلیوں کوبھگا دیا۔ببو بولا کہ ان مچھلیوں کو سوائے امجد بھیا کے اور کون پکڑ سکتاہے۔یہ تو انہیں کے حکم پر چلتی ہیں۔اس بات کو سن کر بڑھیا کے تن بدن میں اور زیادہ آگ لگی اور اس نے پکا فیصلہ کرلیا کہ ان مچھلیوں کو جب تک ہنڈیا میں نہیں پکائے گی۔وہ چین کا سانس نہ لے گی۔
اس کے بعد تینوں گھر واپس آگئے۔بڑھیا نے چولہے میں آگ جلائی اور کھانا پکانے لگی۔بھابھی بھی وہیں بیٹھی ہوئی آٹا گوندھنے میں مصروف تھی۔
منی اس وقت باہر صحن میں بیٹھی ہوئی تھی۔اتنے میں باہر سے امجد آتا ہوا دکھائی دیا۔امجد سے منی بہت زیادہ ڈرتی تھی۔کیونکہ نانی نے اسے منع کیاتھا کہ وہ امجد کے ساتھ نہ کھیلا کرے۔منی نے ڈر کر ادھر ادھر دیکھا لیکن وہاں سوائے امجد کے اور کوئی نہ تھا۔امجد کے ہاتھ میں ایک موٹا سا گنا تھاجسے وہ چوس رہا تھا۔امجد بھی آکر منی کے پاس چپ چاپ بیٹھ گیا۔گنے کو توڑ کر اس نے منی کی طرف بڑھایا اور بولا،’’لے منی تو بھی چوس۔‘‘
منی نے ڈرتے ڈرتے گنا لے لیا۔اس کے بعد امجد بولا:
’’کیوں منی؟ تجھے گانا آتا ہے؟‘‘
منی چپ چاپ بیٹھی رہی،منہ سے کچھ نہ بولی۔
’’کیوں ری منی، تجھے گانا آتا ہے؟‘‘
منی نے اس طرف سر ہلا کر ہاں کہا۔
’’تو گا!‘‘
منی چپ بیٹھی رہی۔
’’میں کہتا ہوں گا!گا!‘‘اور وہ گنے کوا ٹھا کر ہوا میں لہرانے لگا۔
منی ڈر گئی اور ہلکے سروں میں گانے لگی:
’’جمنا کنارے کہیں باجے رے ۔بانسریا!
بانسری کی تان سن لٹ گئی ری گوئیاں!
میں مٹ گئی ری گوئیاں
جمنا کنارے کہیں باجے رے ۔بانسریا!‘‘
ابھی منی نے گانا ختم بھی نہ کیا تھا کہ اندر آنگن سے نانی کے پکارنے کی آواز آئی:
’’ارے منی !آکر کھانا کھالو۔‘‘
منی اور امجد دونوں اندر چلے گئے۔ببو سامنے بیٹھا کھا رہا تھا۔امجد اور منی کا کھانا بھی سامنے رکھ دیا گیا۔
ابھی امجد نے پہلا ہی لقمہ حلق کے نیچے اتارا تھا کہ اس کا گلامرچ کی لہروں سے جلنے لگا۔ادھر منی اور ببو کی آنکھوں اور ناکوں سے پانی جاری ہو گیا اور دونوں کھانسنے لگے۔امجد سے ایک دم برداشت نہ ہوا تو وہ زور زور سے چیخنے لگا:
’’ارے باپ رے مرگیا۔مرگیا۔‘‘
بھابھی دوڑی ہوئی امجد کے پاس آئی اور بولی،’’کیا ہوا رے امجد؟‘‘
امجد بولا:
’’بھابھی یہ بڑھیا مار ڈالے گی مجھے۔دیکھو کتنی مرچ اس نے جھونک دی ہے۔‘‘
بھابھی نے ایک لقمہ خود کھا کر دیکھا پھر ماں کی طرف مڑ کر بولی:
’’اماں ! تم کھانا مت پکایا کرو۔یہ کام میں خود کر لوں گی۔بچے تو دو ہی دم میں بیمار ہو جائیں گے۔‘‘
بڑھیا بولی:
’’بس تم تو اپنے دیور کو سر چڑھانے لگیں۔اسی لئے تو میں کہتی ہوں کہ میرا یہاں گزر ہونا مشکل ہے۔‘‘
بھابھی کہنے لگی:
’’بس آج سے کھانا میں خود پکایا کروں گی۔تمہیں تکلیف اٹھانے کی ضرورت نہیں۔‘‘
بڑھیا نے زیادہ مرچ تو امجد ہی کی وجہ سے ڈالی تھی۔اس نے اپنی تدبیر میں ناکامی کی وجہ سے ڈالی تھی۔اسے اپنی تدبیر میں ناکامی کی وجہ سے اورزیادہ غصہ آگیا اور اس نے فیصلہ کر لیاکہ بس چاہے کچھ بھی ہو آج لیموں کا درخت تو اس ضد میں ضرور اکھاڑ کر پھینک دے گی۔
رات کو جب سب لوگ سو گئے تو اس وقت بڑھیا چارپائی پر کروٹیں بدل رہی تھی کہ جب سارے لوگ سو جائیں تو وہ اٹھ کر اپنا کام کرے اوردرخت کو اکھاڑ پھینکے ۔امجد اور ببو ایک ساتھ چارپائی پر سوئے ہوئے تھے۔ان کے پاس ہی بھابھی بھی سورہی تھی۔بھیا بھی اپنے کمرے میں پڑے سو رہے تھے۔
منی ابھی تک جاگ رہی تھی۔بڑھیا جب انتظار کرکرکے تھک گئی تو اس نے منی کو ڈانٹا:
’’کیوں ری، آنکھ پھاڑے کیا دیکھ رہی ہے ۔نیند نہیں آرہی؟سوجا۔‘‘
منی نے آنکھیں بند کر لیں۔تھوڑی دیر کے بعد بڑھیا اٹھی اور چپ چاپ دروازہ کھول کر آنگن کی طرف چلی گئی۔منی کو شک پیدا ہوا کہ نانی ضرور درخت کو اکھاڑنے آنگن میں گئی ہوئی ہے۔منی بھی بستر سے اٹھی اور دبے پاؤں دروازے سے جھانک کردیکھنے لگی۔نانی پوری طاقت سے درخت کو اکھاڑ نے میں مصروف تھی۔تمام طاقت لگانے کے بعد بڑھیا درخت کو اکھاڑپھینکنے میں کامیاب ہوگئی۔اس نے اکھاڑ کر درخت کو ایک طرف پھینک دیا اور گھڑے میں سے پانی نکال کر اس طرح پی رہی تھی جیسے کلیجہ ٹھنڈا کررہی ہو۔
منی نانی کو واپس آتے ہوئے دیکھ کر جلدی سے بستر پر چلی گئی اور آنکھ موند کر سونے لگی۔بڑھیا آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور بستر پر لیٹ گئی۔
منی کو اس بات کا بہت دکھ ہوا اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی نانی نے کوئی بہت برا کام کیاہے۔منی بڑی دیر تک انہی باتوں کو سوچتی رہی اور سوچتے سوچتے آخراسے نیندآگئی۔
منی اور چھنی کا خاتمہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح سویرے جب بھابھی کی آنکھ کھلی اور کمرے سے باہر نکل کر آئی تو اس نے سب سے پہلے اکھڑا ہوا درخت دیکھا اور اس کا کلیجہ یک دم دھک سے ہو کر رہ گیا۔وہ فوراً سمجھ گئی کہ ہو نہ ہو یہ کام اس کی ماں کا ہے۔چنانچہ وہ فوراً کمرے میں ماں کے پاس پہنچی اور اسے جھنجھوڑ کر جگایا۔
بڑھیا اٹھتی ہوئی غراکر بولی:
’’کیا بات ہے بیٹی؟‘‘
بھابھی نے غصے سے کہا،’’یہ درخت رات کو تم نے اکھاڑا تھا؟‘‘
’’ہاں تو کیا قیامت آگئی؟‘‘ بڑھیا گرج کر بولی۔
بھابھی بولی،’’تم جانتی ہو کہ امجد کتنا ضدی لڑکاہے۔اب خواہ مخواہ ایک لڑائی پیدا ہو گئی۔‘‘
بڑھیا بولی:
’’تم اپنے دیور کا اتنا پارٹ کیوں لیا کرتی ہو؟کیا وہ تمہارا کوئی لگتا ہے؟وہ تو غیر لڑکا ہے۔وہ تو بھائی کی آدھی جائیداد کا حصے دار ہے۔‘‘
بھابھی بولی:
’’امجد کو میں نے بچپن سے لے کر اب تک پالا ہے۔مجھے اس سے اتنی ہی محبت ہے جتنی اپنے بچے ببو سے۔میرے علاوہ اس کا اور کون ہے؟میں اسے ہرگز غیر نہیں سمجھوں گی۔‘‘
آدھے گھنٹے تک بھابھی اور بڑھیا میں اسے طرح لڑائی ہوتی رہی اور آخر بھابھی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور چادر میں منہ چھپا کر لیٹ گئی۔
امجد نے جب اکھڑے ہوئے درخت کو دیکھا تو غصے میں آگ بگولا ہو گیااور سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔اسے لاکھ کوئی سمجھاتا مگر وہ چپ نہ ہوتا اور اسی طرح غصے میں بڑبڑاتا رہتا۔
’’یہ بڑھیا ۔ خدا اسے غارت کردے۔ہر دم میرے پیچھے لگی رہتی ہے۔میں نے اس بڑھیا کا کیا بگاڑا ہے۔آخر اسے مجھ سے کیوں ضد ہے۔‘‘
بڑھیا بھی سامنے چپ چاپ بیٹھی سنتی رہی۔پر منہ سے کچھ نہ بول سکی۔کیونکہ لڑائی بڑھنے کا خطرہ تھا اور امجد اس دن بغیر کھائے پئے ہی اسکول چلا گیا۔بھابھی نے بھی اس دن ناشتہ نہ کیااور وہ اسی طرح چپ چاپ لیٹی آنسو بہاتی رہی۔بھابھی کو امجد سے بے حد محبت تھی اور اس کا دل توڑنا اسے کسی صورت بھی گوارا نہ تھا۔
امجد کے اسکول جانے کے بعدبھیا بھی دفتر کی تیاری کر رہے تھے۔بڑھیا نے سوچا کہ یہ اچھاموقع ہے اور اسی وقت امجدکے بھیا سے اس بات کی شکایت کرنی چاہیے۔چنانچہ دونوں آنکھوں میں پانی لگا کر امجد کے بھیا کے کمرے کی طرف بڑھی۔امجد کے بھیا نے جب بڑھیا کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو وہ حیران ہوئے اور بولے:
’’کیا بات ہے،آپ رو کیوں رہی ہیں؟‘‘
بڑھیا آنکھوں کا پانی آنچل کے پلو سے پونچھتی ہوئی رندھی ہوئی آواز میں بولی:
’’بیٹا!میری تو قسمت میں رونا لکھا ہے۔روؤں نہ تو کیا کروں۔تمہارے چھوٹے بھائی نے آج میرے سوسونتیجے کیے ہیں۔مجھے تو گھر ہی بھجوا دو واپس۔جیسے بھی ہوگا وہیں گزارہ کر لوں گی۔مگر یہاں کسی کی گالی اور بات سہی نہیں جاتی۔‘‘
امجد کے بھیا اسی وقت غصے میں بھرے ہوئے بھابھی کے پاس پہنچے اور بولے:
’’تم نے سنا، امجد کی شوخی اور شرارت سے میراناک میں دم آگیاہے ۔ ہر وقت کوئی شرارت یا بدمعاشی ۔میں اس کا حصہ آج ہی علیٰحدہ کردوں گا۔اب میرا اس کے ساتھ گزر نہیں ہو سکتا۔‘‘
بھابھی بھی چارپائی سے اٹھ کر بیٹھ گئے اور بولی:
’’اب آئندہ ایسی بات زبان پر نہ لائیے گا۔میں اس گھر کو چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔وہ لڑکا کی سبھوں کی آنکھ کاکانٹا ہے۔میں ایسی باتوں میں نہیں آتی۔آپ اپنا گھر سنبھالئے۔مجھ سے نہیں ہوتا۔‘‘
امجد کے بھیا بولے،’’تم ہی نے تو اسے اس طرح سر پر چڑھارکھا ہے۔‘‘
بھابھی بولی،’’بچہ ہے ۔کوئی عقل والا تو نہیں۔‘‘
بات آئی گئی ختم ہو گئی مگر بڑھیا کے دل میں جو کینہ بھرا ہوا تھا۔اس کی آگ اسے پھونکے ڈالتی تھی۔اس نے دل میں سوچاکہ کسی نہ کسی طرح اس لونڈے کی باتوں کا بدلہ ضرور لوں گی۔
چنانچہ جب شام کو امجد کے بھیا گھر واپس آئے تو اس وقت بڑھیا لڑائی کے لیے ریہرسل کرکے بیٹھی ہوئی تھی۔بھیا کے دفتر سے آتے ہی بڑھیا نظر بچا کر کمرے میں چلی گئی اور بولی:
’’بیٹا،ببو اب پانچ سال کا ہو گیا۔اس کی بسم اللہ نہیں کراؤگے؟‘‘
امجد کے بھیا بولے،’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔‘‘
اتنے میں بھابھی بھی کمرے میں پہنچ گئیں۔بھائی،بھابھی کو موجود پا کربولے:
’’کیوں ببو کی اماں۔ببو کی بسم اللہ بھی تو کرانی ہے۔‘‘
بھابھی نے کہا:
’’اگر آپ کی مرضی ہے تو مجھے کیا انکار ہو سکتا ہے۔‘‘
اس پر بڑھیا بولی:
میں نے سوچا ہے کہ بسم اللہ کے موقعے پر پڑوسیوں کو ایک دعوت بھی دے دی جائے اور اس کے لیے میں نے چار پانچ گھر بلاوے بھی بھیج دیے ہیں۔‘‘
بھیا یہ سن کربہت خوش ہوئے اور بولے،’’یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔‘‘
بڑھیا بولی:’’بس اب اس میں دیر نہیں کرنی ہے۔کل ہی اس کی تیاریاں شروع کر دینی چاہئیں۔‘‘
تینوں راضی ہوگئے اور دعوت کی فہرست بنائی گئی۔محلے کے تین چارآدمیوں کا نام چنا گیا اور کمرے کی جھاڑ پونچھ اور آرائش ہونے لگی۔
ببو کے لیے رنگ رنگ کے کھلونے خریدے گئے۔نئے نئے کپڑے بنائے گئے اور گھر میں تمام رنگ برنگ کی قندیلیں روشن ہوئیں۔
جب ببو اور امجد کو پتا چلا تو وہ خوشی سے اچھل پڑے اور ناچنے لگے۔منی بھی بہت خوش تھی اور جب سارا سامان تیار ہو گیا تو اب کل صبح کو بسم اللہ کی رسم ادا کی جانے والی تھی۔جب ببو اور امجددونوں ساتھ ساتھ سونے کو چارپائی پر گئے توآپس میں بڑی دیر تک باتیں کرتے رہے۔آخر باتیں کرتے کرتے دونوں سو گئے۔
صبح سویرے جب دونوں کی آنکھیں کھلیں تو گھر کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔تمام دیواروں پر مزدور سفیدی کر رہے تھے اور آنگن میں ایک بکری بھی بندھی ہوئی تھی۔
بکری کو دیکھ کر امجد اور ببو دونوں دوڑے ہوئے آنگن میں پہنچے اور بکری کے ساتھ کھیلنے لگے۔وہ دونوں بکری کے اوپر ہلکے ہلکے ہاتھ پھیرتے رہے۔اسے بہت سی درختوں کی پتیاں توڑ کر کھانے کو دیں اور کوئی گھنٹہ بھر وہ بکری سے کھیلتے رہے۔آکر جب کھیل کر وہ پوری طرح سیر ہو گئے تو امجدنے جلدی جلدی اسکول جانے کی تیاریاں شروع کر دیں اور نہا دھو کر ناشتہ کیا۔ ناشتے میں بھی اس دن بڑی اچھی اچھی چیزیں پکی تھیں۔ناشتہ کرکے بھیا دفتر چلے گئے اور امجد اپنے اسکول کو روانہ ہو گیا۔
جب امجد اسکول چلا گیا تو بڑھیا کو سکون ہوا اور وہ گھر سے نکل کر ایک طرف کو نکل گئی۔تھوڑی دیر کے بعد جب وہ واپس آئی تو ایک قصائی اور ایک ملاح اس کے ساتھ تھے۔
بڑھیا ملاح سے بڑی دیر تک باتیں کرتی رہی اور اسے تالاب کا راستہ بتلا کر بولی کہ وہاں دو مچھلیاں ہیں، وہ انہیں پکڑ لائے لیکن ملاح کسی طرح راضی ہونے میں نہیں آتا تھا کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ دونوں مچھلیاں امجد کی پالی ہوئی منی اور چھنی ہیں اور ان کو پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ گھر بیٹھے نئی آفت مول لے گا۔چنانچہ اس نے صاف انکار کر دیا کہ وہ یہ مچھلیاں تو نہیں البتہ دوسری مچھلیاں پکڑ کرلاسکتا ہے۔ لیکن بڑھیا کو تو محض وہی مچھلیاں چاہئے تھیں۔وہ انہیں کے لئے تو یہ سارا دعوت وغیرہ کا ڈھونگ رچا رہی تھی۔ آخر بڑھیا نے ملاح کے ہاتھ میں پانچ روپے کا نوٹ رکھ دیا اور بولی کہ ابھی ابھی مچھلی پکڑ لائے۔اگر کوئی ایسی ویسی بات ہوئی تووہ ذمہ دار ہوگی۔
ملاح بھی روپے دیکھ کر لالچ میں آگیا اور چپ چاپ جال کو لے کر تالاب کی طرف روانہ ہو گیا۔بھری دوپہر کا وقت تھا۔سورج ٹھیک سر کے اوپر چمک رہا تھااور مچھلیاں پانی کے اندر ٹھنڈ میں آرام کر رہی تھیں۔ملاح نے سناٹاپاکر آخر تالاب میں جال پھینک ہی دیااور درخت کے نیچے سستانے کو بیٹھ گیا۔
ابھی وہ درخت کے نیچے بیٹھاہی تھا کہ سامنے اسکول کی طرف سے امجد آتا ہوا دکھائی دیا۔ملاح کے تو ہوش اڑ گئے اور وہ سمجھا کہ اب خیریت نہیں ہے۔امجد جب تالاب کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ تالاب میں جال پڑا ہوا ہے۔وہ بھاگا ہوا جال کے پاس پہنچا اور اسے کھینچ کر باہر نکال لیا۔ملاح چپ چاپ درخت کے نیچے دبکا ہوا بیٹھا رہا لیکن امجد کی تیز آنکھوں نے اسے فوراً پہچان لیا اوروہ جال کوہاتھ میں لیے ہوئے اس کے پاس پہنچا اور بولا:
’’کیوں بے۔یہ جال تو نے میرے تالاب میں کیوں پھینکا؟‘‘
ملاح کانپنے لگا اور بولا:
’’امجد بابو معاف کردو۔مجھ سے غلطی ہو گئی۔میں آپ کے یہاں جو بڑھیا آئی ہے ۔اس کے بہکانے میں آکر یہ غلطی کر بیٹھا۔اب میری توبہ ہے جو آئندہ میں جال پھینکوں۔‘‘
امجد بولا:
’’میں معاف نہیں کرنے کا۔‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے اپنا چھرا نکالا اور جال کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے لگا۔ملاح منتیں کرتا رہا۔ لیکن امجد جال کے ٹکڑے ٹکڑے کاٹتا رہا۔جب جال کٹ چکا تو وہ بولا:
’’لے۔ اب جا کر مچھلیاں پکڑ۔‘‘
یہ کہہ کر امجد دوبارہ اسکول واپس چلا گیا اور ملاح اپنی لالچ پر پچھتانے لگا کہ محض پانچ روپے کی خاطروہ جال کھو بیٹھا۔مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔اس کے روزی کمانے کا سہارا صرف یہی جال تھا۔اب تو وہ روزی بھی نہ کماسکے گا اور اس کے بچے بھوکے مرنے لگیں گے۔وہ یہی سوچتا ہوا امجد کے گھر کی طرف چلنے لگا اور وہا ں پہنچ کر اس نے بڑھیا کو سارا قصہ سنایا۔بڑھیا یہ سن کر غصے سے کانپ اٹھی اور بولی:
’’تو اتنے سے چھوکرے سے کیوں ڈر گیا۔وہیں اسے پکڑ کر مارنا تھا۔‘‘
ملاح بولا:
’’امجد بابو پر میں ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔‘‘
بڑھیا نے ایک اور چال چلی۔اس نے پوچھا کہ جال کتنے میں مل جائے گا۔ملاح بولا کہ دس روپے میں جال مل جائے گا۔میں غریب آدمی خواہ مخواہ میں مارا گیا۔بڑھیا نے فوراً اس کے ہاتھ میں دس روپے رکھ دیے اور بولی اب خالی ہاتھ آیا تو سمجھ لینا۔ملاح نے دس روپے لے لیے کیونکہ اسے جال خریدنا تھا اور اگر وہ جال نہ خریدتا تو اس کے بیوی بچوں کو بھوکے مرنے کی نوبت آجاتی۔وہ وہاں سے سیدھا بازار گیا اور ایک مضبوط اور نیا جال خرید لایا۔جب وہ بازار سے لوٹا تو شام ہو چکی تھی۔راستے میں تالاب پڑتا تھا۔اس نے ادھر ادھر دیکھا۔تمام سناٹا تھا اورمچھلیاں پانی کے اوپر کلیل کررہی تھیں۔اس نے تیزی کے ساتھ جال کوپانی میں پھینک دیا۔مچھلیاں جال کے اندر آگئیں۔وہ سیدھا جال کھینچ کرامجد کے گھر پہنچا اور مچھلیوں کو بڑھیا کے حوالے کر تے ہوئے بولا کہ میرا نام نہ لینا کہ میں نے مچھلیاں پکڑی ہیں۔یہ کہہ کرملاح تو چلتا بنا اور بڑھیا مچھلیوں کو لے کر اندر پہنچی۔اس وقت بھابھی دعوت کا کھانا پکانے میں مصروف تھی۔وہ بڑھیا کو مچھلیاں تھامے ہوئے دیکھ کر حیران رہ گئی اور تڑپ کر اٹھی اور دونوں مچھلیاں جھپٹتی ہوئی بولی:
’’یہ تو امجد کی منی چھنی مچھلیاں ہیں۔ماں!تم نے کیاغضب کیا؟‘‘
بڑھیا گھبرا کر بولی:
’’اے ہے تو کیا ہوا،امجد کی مچھلیاں دیکھنے کو ہیں؟تالاب میں ہزاروں مچھلیاں ہوتی ہیں۔مجھے کیا معلوم اس میں امجد کی کون ہیں اور کون نہیں۔‘‘
بھابھی بولی:
’’ماں تم نے یہ بہت برا کیا۔امجد رورو کر ان مچھلیوں کے لیے جان دے دے گا۔گاؤں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ مچھلیاں امجد نے پالی ہیں۔آج تک کسی کو انہیں پکڑنے کی ہمت نہیں ہوئی۔‘‘
مچھلیاں زمین پر پڑی ہوئی تھیں اور خشکی میں بے چاری مر چکی تھیں۔دونوں مچھلیاں آپس میں بھائی بہن لگتی تھیں۔بالکل ایک ہی جیسا ناک نقشہ تھا،ہوبہو ایک جیسی لگتی تھیں۔
بھابھی نے کھانا پکانا بند کر دیا اور بولی:
’’ہماری ہنڈیا میں یہ مچھلیاں نہیں پک سکتیں۔‘‘
اور پھر اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گئی۔
شام کو امجد اسکو ل سے واپسی پرایک بار پھر تالاب کی طرف گیا اور منی چھنی کے لیے بہت سے چنے بھی لیے ہوئے تھا۔تالاب کے کنارے پہنچ کر اس نے مخصوص آواز میں سیٹی بجائی مگر اس کی آواز پر مچھلیا ں نہیں نکلیں۔امجد کا دل دھک سے ہوکررہ گیا۔وہ تالاب میں کود پڑا اور ادھر ادھر تیرتا ہوا اپنی پیاری مچھلیوں کو ڈھونڈنے لگا۔مگر وہاں مچھلیاں تھیں کب۔وہ تو جال میں پھنس کر دم توڑ چکی تھیں۔امجد تالاب سے باہر نکلا ہی تھاکہ اسے ببو دوڑا ہوا آتا دکھائی دیا۔امجد فوراً ببو کی طرف بڑھا۔ببو نے اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اس سے کہا:
’’امجد بھیا!تمہاری منی اور چھنی کو نانی نے ماردیا۔‘‘
امجد طوفان کی طرح بھاگا ہوا گھر آیا۔بر آمدے میں موت کی سی خاموشی طاری تھی۔بھابھی بھی وہیں پر کھڑی تھی۔امجد نے مری ہوئی منی اور چھنی کو دیکھا اور بھابھی کے پاؤں پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
’’بھابھی ان بے زبان مچھلیوں نے کیا بگاڑا تھا؟انہیں کیوں مار ڈالا۔تم نے جن ہاتھوں سے انہیں مارا ہے، میرا بھی گلا گھونٹ دو۔‘‘
بھابھی کے پاؤں پر وہ ابھی تک سر رکھے رو رہا تھا۔بھابھی کی آنکھوں سے تو جیسے آنسوؤں کا سیلاب امڈ نے والا تھا اور وہ اسے روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’امجد بھیا! اپنا سر میرے پاؤں سے ہٹا لے۔‘‘بھابھی رونی آواز میں بولی۔
امجد کہنے لگا:
’’لو تم اب میرا سر بھی اپنے اسی پاؤں سے کچل دو۔تمہارے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جائے گی۔‘‘
بھابھی نے اسے اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا اور بولی:
’’میرا بھیا۔‘‘ اور خود بھی بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
سارے مکان میں جیسے موت کا سناٹا طاری تھا۔ صبح صبح جو گھر میں رونق اور چہل پہل تھی، وہ اب موت کا نوحہ بن بن گئی تھی اور جب مہمانوں نے امجد کی مشہور و معروف مچھلیوں کے قتل کی خبر سنی تو سب لوگ آنکھوں میں آنسو لیے گھر لوٹ گئے۔
بٹوارہ
۔۔۔۔
امجد اس دن کے بعد کچھ ایسا اداس ہوا کہ وہ ہنسنے بولنے کا نام ہی نہ لیتا۔ہمیشہ چپ بیٹھا رہتا۔اسکول کے وقت اسکول جاتااور اسکول کے بعد واپس آکر گھر بیٹھ جاتا۔مچھلیاں تو اب رہی نہیں تھیں جن سے وہ چند گھڑی بات چیت کرکے دل بہلا لیتا۔اب اسکول سے زیادہ وقت وہ گھر بیٹھا رہتا۔اسے کھیل کود سے بھی اب اتنی دل چسپی نہیں رہی تھی۔وہ کسی سے بات بھی بغیر ضرورت نہیں کرتا تھا۔
ایک دن اتوار کو جب امجد کی چھٹی تھی اور بھیا کا بھی دفتر بند تھا،وہ بھی گھر ہی بیٹھے ہوئے تھے۔بھابھی کی طبیعت خراب تھی۔امجد اٹھ کر امرود کے درخت پر چڑھ گیا اور امرود کھانے لگا۔بڑھیا نیچے بیٹھی ہوئی بڑبڑا رہی تھی اور دل میں دعائیں مانگ رہی تھی کہ خدا کرے امجد درخت سے گر پڑے۔
امجد بڑھیا کو چڑانے کے لیے زور زور سے ڈالیوں کو ہلانے لگا۔
بڑھیا بولی:
’’کیسا بے شرم لڑکا ہے۔درخت کے اوپر چڑھا بیٹھا ہے۔خدا کرے تیری ٹانگیں ٹوٹ جائیں۔‘‘
امجد بولا:
’’زبان سنبھال کر بات کر ۔بڈھی!‘‘
بڑھیا نے اونچی اونچی آواز میں اسے کوسنا شروع کر دیا:
’’خدا تیرا ستیاناس کرے شیطان! سارے امرود کو بھنبھور ڈال رہا ہے۔‘‘
امجد بھی تیز ہوکر بولا:
’’کیوں تیرے باپ کا درخت ہے؟‘‘
بڑھیا نے نیچے سے ایک ڈھیلا اٹھا کر اوپر پھینکا مگر امجد کو نہ لگا۔
بڑھیا اب زور زور سے کوسنے لگی۔
بھابھی نے جب یہ آواز سنی تو وہ اٹھ کر باہر نکلی اور آنگن میں آکر بولی:
’’کیوں بھائی کیا جھگڑا ہے؟‘‘
بڑھیا نے امجد کو کچھ نہ بولنے دیا بلکہ خود ہی بولنے لگی:
’’دیکھو بیٹی۔میں اس سے کہہ رہی تھی راجہ بھیا درخت پر مت چڑھ۔نیچے آجا۔پاؤں پھسل گیا تو خدا نخواستہ موچ آجائے گی۔تو یہ اوپر سے کہتا ہے کہ کیوں اتروں؟ تیرے باپ کا درخت ہے؟‘‘
بھابھی نے امجد سے پوچھا:
’’کیوں امجد؟‘‘
امجد بولا:
’’بھابھی یہ بڑھیا جھوٹ کہتی ہے۔‘‘
بڑھیا بولی:
دیکھو تو مجھے بڑھیا کہہ رہا ہے۔آگ لگے اس بدزبان کی منہ میں۔‘‘
بھابھی بولی:
’’کیوں رے آج گھر میں پڑھے گانہیں،چھٹی ہے تو اس کا کیا مطلب کہ تو شرارتیں کرے گا؟‘‘
امجد بولا:
’’بھابھی میرے پیٹ میں درد ہے۔‘‘
بھابھی بولی:
’’اور یہ کچے امرود کھا کر پیٹ کے درد کا علاج کر رہا ہے؟‘‘
امجد چپ ہو گیا تو بڑھیا بولی،’’اس کم بخت کو گھر سے نکلوا نہ لوں گی،اس وقت تک میر اکلیجہ ٹھنڈا نہ ہوگا۔‘‘
امجد کو سخت غصہ آیا۔اس نے ایک کچا امرود وہیں سے کھینچ کر بڑھیا کے سر پر مارا،لیکن امرود بجائے بڑھیا کو لگنے کے بھابھی کے سر پر جا لگا اور وہ وہیں درد کے مارے سر تھام کر بیٹھ گئی۔
بڑھیا نے ہنگامہ کرکرے سارا گھر سر پر اٹھا لیااور چلانے لگی:
’’ہائے میری بیٹی۔ ہائے میری بیٹی کو مار ڈالا۔‘‘
امجد فوراً درخت سے کود کر نیچے آیا اور بھابھی کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔اتنے میں بڑھیا ایسے زور سے چیخی کہ امجد کے بھیا بھی باہر سے بھاگے ہوئے اندر آئے۔امجد بھیا کو دیکھ کر گھر سے باہر نکل گیا۔
بھابھی کو بھیا اور نانی دونوں اٹھا کر کمرے کے اندر لے گئے۔وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر خود اندر نمودار ہوااور بولاکہ اسے امجد نے ابھی فوراً دوا دینے کا حکم دیاہے۔ڈاکٹر نے بیگ کھول کر دوا نکالی اور بھابھی کو پلائی۔دوا پیتے ہی بھابھی فوراً ہوش میں آگئی۔
ڈاکٹر کے چلے جانے کے بعد بھیا نے بھابھی سے کہا:
’’آج سے ہمارا اور امجد کا کوئی واسطہ نہیں۔تمہیں میرے سر کی قسم جو تم نے اسے کھانے پینے کو دیا۔کل صبح سے اس کا کھانا پینا،رہنا سہنا بالکل الگ کردو۔‘‘
یہ کہہ کر بھیا غصے سے باہر نکل گئے۔
اس دن رات کو کافی دیر کے بعد جب امجد لوٹا تواسے سخت بھوک لگ رہی تھی۔وہ بھابھی کے پاس گیااور بولا:
’’بھابھی مجھے بھوک لگی ہے۔‘‘
بھابھی اسی طرح بستر پر لیٹی رہی اور بولی،’’خود سے نکال کر کھالے۔‘‘
امجد ضد کرنے لگا:
’’نہیں تم مجھے اپنے ہاتھوں سے کھلاؤ گی تو میں کھاؤں گا ورنہ نہیں۔‘‘
بھابھی نے کہا،’’میرا جی ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
اس پر بڑھیا ببو سے بولی:
’’ببو آج تیرے ابا نے کیا کہا تھا امجد سے کہنے کو؟‘‘
ببو بولا:
’’ابا نے کہا تھا کہ امجد بھیا کا آج کی تاریخ سے۔۔۔‘‘
ببو بولتے بولتے رک گیا اور نانی سے پوچھنے لگا،’’اس کے بعد کیا کہا تھا نانی؟‘‘
نانی نے منی کوکہا:’’منی! تو کہہ دے۔‘‘
منی نے بولنے کی کوشش کی:
’’آج کی تاریخ سے امجد بھیا کا گھر میں چلنا پھرنا۔۔۔‘‘
منی بھی بھول گئی اور نانی سے پوچھنے لگی،’’نانی اماں! اس کے بعد کیا تھا؟‘‘
نانی نے غصے سے جھنجھلا کر کہا:’’ہٹ تجھے تو کوئی بات ہی یاد نہیں رہتی۔‘‘اس کے بعد امجدسے بولی:
’’دیکھومیاں امجد!تمہارے بھائی نے کہا ہے کہ آج کی تاریخ سے تمہارا ہمارے یہاں آنا جانا، چلنا پھرنا، بولنا بتیانا بالکل بند۔‘‘
امجد کہنے لگا:
’’کیوں؟ کیوں بند!جیسا بھیا کا گھر ویسا میرا گھر۔کیا ہمارا اور بھیا کا گھر الگ الگ ہے۔‘‘
بڑھیا بولی،’’ہاں آج سے گھر کا بٹوارہ ہوگیا ہے سامنے والا حصہ تمہارا ہے اور یہ حصہ ہمارا ہے۔تم آج سے اپنے ہی حصے میں سوؤ گے۔‘‘
امجد اٹھ کر چلا گیا اور سامنے والے حصے میں جو کمرہ تھا اس میں کھاٹ پر لیٹ گیا۔بھابھی نے منی سے کہا کہ وہ امجد کا کھانا لے کر اسے دے دے۔
جب منی امجد کا کھانا لے کر کمرے میں گئی تو امجد نے اسے ڈانٹ کر کہا:
’’ہٹا لے جا کھانا۔میں نہیں کھاتا۔‘‘
منی نے کہا،’’امجد بھیا۔کھالو۔‘‘
امجد تڑپ اٹھا اور بولا،’’میں کہتا ہوں نکل،نکل یہاں سے۔‘‘
منی ڈر کر واپس نکل آئی اور بھابھی سے بولی،’’خالہ، امجد بھیا کھانا نہیں کھاتے۔‘‘
بھابھی سانس بھر کر بولی:
’’وہ تو ہمیشہ میرے ہی ہاتھوں سے کھاتا ہے، وہ کبھی نہیں کھائے گا۔‘‘
بڑھیا بولی:
’’بیٹی، ہوش کی دوا کرو۔تمہیں ببو کے ابا نے سر کی قسم دے دی ہے کہ تم اسے کھانا نہ کھلاؤ گی۔‘‘
بھابھی بولی:
’’ہاں تو وہ رات بھر بھوکا رہے گا۔‘‘
’’رہا کرے بھوکا۔شیطان لڑکا ہے کہیں سے کچھ چرا کر کھالے گا۔‘‘
بھابھی چپ ہو گئی۔اس کا بات کرنے کو جی نہیں چاہا۔
میل ملاپ
۔۔۔۔۔۔
صبح کو جب امجد کی آنکھ کھلی تو اسے تیز بخار چڑھا ہوا تھا۔روتے روتے اس کی آنکھیں بھی سوج گئی تھیں،وہ بستر سے بمشکل اٹھااور کمرے کے باہر سیڑھی پر بیٹھ گیا۔سامنے بھیا اپنے کمرے میں حسب معمول دفتر جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔بھابھی شاید اندر کمرے میں تھیں کیونکہ باہر سے نظر نہیں آتی تھیں۔منی اور ببو چولہے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔امجد اس وقت تک سیڑھی پر بیٹھا رہا جب تک بھیا دفتر نہ چلے گئے۔بھیا جب دفتر جا چکے تو اس نے سیڑھی پر بیٹھے ہوئے پکار کر کہنا شروع کیا:
’’بڑے آئے بھائی صاحب۔مجھے علیٰحدہ کر دیا،کون ہوتے ہیں وہ مجھے علیٰحدہ کرنے والے۔مجھے بھابھی نے کیوں علیٰحدہ نہیں کیا۔بھابھی بولتی کیوں نہیں۔چلو مت بولو۔ہم سے کوئی نہ بولے۔کوئی بولے یا نہ بولے،میں تو بولوں گا۔میں اکیلے اپنا کھانا پکاؤں گا۔مجھے کھانا پکانا خوب آتا ہے۔‘‘
بھابھی یہ باتیں کمرے میں لیٹی ہوئی سن رہی تھی لیکن اس سے تکلیف کے مارے اٹھا نہ جاتا تھا۔اس نے منی سے کہلا بھیجا کہ تمام کھانے پکانے کا سامان اس کے کمرے میں پہنچا دیااور نوکرانی بھیج دی ہے،وہ اس سے پکوالے۔
امجد چڑ گیا اور بولا:
’’میں الگ کھانا نہیں کھاؤں گا۔تم لوگوں کا دل چاہے تو کھالیا کرو۔‘‘
بڑھیا نے منہ بنا کر کہا:
’’نہیں کھائے گا تو بھوکوں مرے گا۔دوسروں کا کیا لے گا۔‘‘
بھابھی یہ سن کر بولی:
’’ماں۔شرم کرو۔اکیلے بچے کا دل گھبرا جائے گا۔تم کیوں اسے کوس رہی ہو۔بے ماں کا بچہ ہے۔‘‘
امجد تھوڑی دیر کے بعد باہر نکل گیا۔اس کا آج کسی چیزمیں دل نہیں لگتا تھا۔اسے ہر چیز سے نفرت ہو گئی تھی۔اکیلے کمرے میں اس کا دم گھٹتا تھا۔وہ اٹھ کر پہلے باغ کی طرف گیا۔پھر تالاب کی طرف گیا۔وہاں اس کا دل بھر آیا اور وہ زیادہ گھبرا نے لگا۔اسی طرح وہ بڑی دیر تک گاؤں کے چکر کاٹتا رہا۔آخر تھک ہار کر وہ پھر گھر واپس لوٹ آیا اور کھاٹ پر لیٹ گیا۔اسی طرح وہ چپ چاپ کھاٹ پر لیٹا رہا۔اتنے میں اسے نیند آگئی اور شام تک سوتا رہا۔
شام کو جب اس کی آنکھ کھلی تو تمام اندھیرا چھا چکا تھا۔اس نے دریچہ کھولا تو اس وقت پوری طرح اندھیرا ہو چکا تھا۔وہ بڑی دیرتک کمرے میں اکیلا بیٹھا آہستہ آہستہ رورہا تھا۔
بھیا دفتر سے آچکے تھے۔وہ کپڑے تبدیل کرنے کے بعد کھانے کے لیے چولہے کے پاس پہنچے،بڑھیا نے آج رنگ برنگ کی ترکاریاں پکائی تھیں۔وہ بہت سا کھانا لے کر سامنے آئی اور ان کے آگے رکھ دیا۔بھیا ہاتھ دھو کر جب کھانے کو بیٹھے تو ان کی نگاہ امجد کے کمرے کی طرف اٹھ گئی۔وہاں اندھیرا تھا،بھیا بولے:
’’آج امجد کے کمرے میں اندھیرا ہے۔کیا لوٹ کر نہیں آیا ابھی تک؟‘‘
بڑھیا بولی:
’’ارے کھلواڑ نکھٹو لونڈوں کا کیا کہنا ہے۔کہیں مارا پھر رہا ہوگا۔صبح سے بھوکا پیاسا کہیں سر جلا رہا ہوگا۔‘‘
بھیا کھانا کھائے بنا اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔انہوں نے ایک لقمہ تک نہ کھایااور وہ کس طرح کھا سکتے ہیں۔امجد آخر ان کا چھوٹا بھائی ہی تو تھا۔بھابھی الگ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی اور بیمار تھی۔
بڑھیا اور منی دونوں آنگن میں چولہے کے پاس بیٹھے کھانا کھارہے تھے اور بڑھیا امجد کے نکل جانے کی وجہ سے بے حد خوش خوش نظر آتی تھی۔اب اس کی راہ کا کانٹا نکل چکا تھااور اب وہ اپنے آپ کو بالکل آزاد محسوس کر رہی تھی۔
جب بڑھیاکھانا کھاکراپنے کمرے میں چلی گئی تو بھابھی آہستہ سے اٹھی اور ادھر آکر اس نے امجد کے کمرے کی طرف دیکھا۔کمرے میں بالکل اندھیرا تھا۔ایک چراغ تک نہیں جل رہا تھا۔بھابھی کو ہلکے ہلکے اندر سے رونے کی آواز آئی۔اس کا دل گھبرانے لگا اور وہ آخر امجد کے کمرے کے بالکل قریب آگئی اور اس نے کان لگا کر غور سے سنا۔امجد آہستہ آہستہ سسکیاں لے لے کر رو رہا تھا۔
بھابھی نے بالکل رونی آواز میں آہستہ سے پکارا:
’’امجد بھیا!‘‘
امجد کی سسکی یک دم بند ہو گئی اور وہ دروازے پر لپک کر پہنچا اور پھوٹ پھوٹ کر روتا ہوا بولا:
’’بھابھی تم نے مجھے علیٰحدہ کردیا نا۔میں بھی اب اس گاؤں کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔میرا اب یہاں کوئی نہیں ہے۔‘‘
بھابھی نے ہاتھ بڑھا کر آنچل سے اس کے آنسو پونچھے اور بولی:
’’بھیا !مجھے چھوڑ کر چلا جائے گا؟‘‘
’’ہاں سب کو چھوڑ کر۔‘‘
امجد یہ کہہ کر لپک کر باہر نکلا۔ایک گٹھری بغل میں دبائے گلی سے باہر نکل گیا۔بھابھی بھی اس کے پیچھے پیچھے نکل آئی اور امجد کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگی۔امجد بہت آگے نکل چکا تھا۔بھابھی کمزور اور بیمار تھی،اس سے بمشکل چلا جاتا تھا۔وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتی گئی۔تالاب،پھر باغ اور پھر دریا کے گھاٹ تک پہنچ گئی۔آخر اس سے آگے نہ چلا گیا تو وہ بیٹھ گئی اور اس نے پوری طاقت سے پکارا،’’امجد بھیا۔‘‘
امجد نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسے بھابھی دکھائی دی۔وہ بھاگا ہوا واپس آیا اور بھابھی سے لپٹ گیا۔پھر دونوں لپٹ کر خوب جی کھول کر روئے اور آخر دونوں گھر واپس آئے۔
دوسرے دن بڑھیا خود ہی اپنے گھر واپس چلی گئی اور ساتھ منی بھی۔
اور گاؤں بھر میں امجد کی وہی چنچل شوخی پھر سے گونج اٹھی اور سارا گاؤں پھر سے ایک دفعہ مسرت اور خوشی سے جگمگا اٹھا۔۔۔دوست شاد اور دشمن خوار ہوئے۔بھیا نے بھی امجد کو معاف کردیااور اسے گلے لگا لیا۔بھابھی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے اور ببو ہلکے ہلکے باجہ بجائے جا رہا تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top