skip to Main Content
ایک لفظ

ایک لفظ

اشفاق حسین

………………….

لفظوں ہی کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات ایک لفظ ہی کتنی اہمیت اختیار کر جاتا ہے ۔ایک مرتبہ ایک لفظ نے ہمارے دو تین افسروں کو تگنی کا ناچ نچوایا۔پاکستان سے لیفٹیننٹ جنرل کمال سعودی عرب کے دورے پر آئے توخمیس مشیط بھی تشریف لائے۔سارے دن کی سرکاری مصروفیات کے بعد انہیں رات کو ضیافہ عسکریہ یعنی ملٹری گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا۔رات کے کھانے کے بعد سعودی میزبان،پروٹوکول افسراور دیگر حضرات تو رخصت ہوگئے،ہم پاکستانی افسران کے ساتھ بیٹھے وطن کی باتیں کر رہے تھے ۔اچانک جنرل کمال نے کہا،
’’وہ……..اچھا چلیں رہنے دیں‘‘۔
صاف ظاہر تھا کہ انہیں کسی چیز کی ضرورت پیش آئی ہے لیکن ہمیں کسی زحمت سے بچانے کی خاطر وہ ضروروت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل کے رینک کا افسر ہو اور ’’آداب ملازمت‘‘سے پوری طرح واقف جونیئر افسروں کی موجودگی میں کسی خواہش کا اظہار ادھورا رہ جائے،کیسے ممکن تھا۔ان سے پوچھا گیا۔
’’سر!حکم فرمائیں کس چیز کی ضرورت ہے؟‘‘
انہوں نے انکار کیا کہ رہنے دیں،چھوٹی سی بات ہے۔
’’نہیں سر!آپ حکم تو کریں۔دودھ لیتے ہیں آپ سونے سے پہلے؟‘‘
’’ارے نہیں بھئی‘‘
’’فروٹ رکھوا دئے جائیں کمرے میں؟‘‘
’’نہیں بالکل نہیں‘‘۔
’’سر آپ حکم کریں نا‘‘۔
’’اصل میں میرے ایک دانت میں کبھی کبھی درد اٹھتا ہے تو میں لونگ چبا لیتا ہوں۔اس سے درد ٹھیک ہوجاتا ہے۔لونگ مل جائے گی یہاں؟‘‘جنرل صاحب نے دریافت کیا۔جب تک ہم اپنی نشست چھوڑتے،دوتین افسر جھپاک سے کمرے سے باہر جا چکے تھے۔ہم چپکے سے اپنی جگہ پر بیٹھ رہے۔
اور یہ تفصیلات ہمیں بعد میں معلوم ہوئیں ۔فرض شناس افسر دوڑتے ہوئے گیسٹ ہاؤس سے باہر آئے۔گاڑی نکالی اور سیدھے مارکیٹ کی طرف بھاگے۔مارکیٹ پہنچ کرلگے سوچنے کہ لونگ ملے گی کس دوکان سے اور اسے طلب کیسے کریں گے۔روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کیلئے وہاں بلاشبہ بڑے بڑے اسٹور ہیں ،کئی منزلہ عمارات میں ایسے ایسے اسٹورہیں کہ ایک سوئی سے لے کر کار تک ایک ہی عمارت سے مل سکتی ہے لیکن صحیح دوکان تک پہنچنا شرط ہے۔لونگ اگر زیورات والی ہوتی تو باآسانی مل جاتی کہ کسی بھی اشتہار پر ہنستی مسکراتی کسی خاتون کی تصویر دکھا کر اس کی ناک کے زیورات مانگے جا سکتے تھے لیکن یہ تو گرم مصالحے والی لونگ تھی۔مختلف دوکانوں پر پوچھ گچھ کرتے یہ افسر ایک بقالے یعنی سبزی فروش کے پاس پہنچے ۔ٹوٹی پھوٹی زبان میں اشاروں کنایوں سے انہوں نے جس چیز کی خواہش کا اظہار کیا،اس کے جواب میں سبزی فروش نے پہلے گاجریں پیش کیں،پھرمولیاں دکھائیں۔ایک افسر نے جیب سے قلم نکالا اور سگریٹ کی ایک ڈبیہ پھاڑ کر اس پر لونگ کی ڈرائنگ بنائی۔سبزی فروش نے انہیں ایک اور دوکان کی راہ سمجھائی’’علیٰ طول یعنی سیدھے چلے جاؤ۔ایک چوک آئے گاوہاں سے دائیں مڑ جانا۔دائیں مڑ کرآگے جاؤ گے تو بائیں ہاتھ ہسپتال آئے گا۔ہسپتال کے آگے والے چوک سے گزر کر دائیں طرف ایک مارکیٹ آئے گی۔پہلی دوکان ہی اس چیز کی ہے تو تم ڈھونڈتے پھر رہے ہو۔‘‘
کسی بھی اجنبی معاشرے میں قیام کے ابتدائی دنوں میں انسان کو مجبوراً اتنی زبان سیکھنی پڑتی ہے کہ راہ بھول جائے تو پتہ پوچھ سکے۔یہ افسر بھی دائیں،بائیں ،مارکیٹ اور ہسپتال جیسے لفظ سمجھنے لگے تھے چنانچہ علیٰ طول یعنی سیدھے گئے۔چوک سے دائیں مڑ کر ہسپتال والی سڑک پر آئے ۔وہاں سے مارکیٹ پہنچے اور پہلی دوکان کے سامنے گاڑی روکی تو……..سر پیٹ لیا۔یہ ہارڈ وئیر کی دوکان تھی۔ کیلوں، میخوں، قبضوں،پیچوں کی دوکان ۔جس افسر نے لونگ کی ڈرائنگ کرنے کی کوشش کی تھی اپنے ’’فن ‘‘کے اظہار پر شرمندہ تھا۔
ایک اور افسر نے ایک نئی تجویز پیش کی۔مختلف کمپنیوں کی ٹوتھ پیسٹ کی جو ٹیوبیں بازار میں دستیاب ہوتی ہیں ان میں ایک ٹیوب ایسی بھی ہوتی ہے جس پر لونگ کی تصویر بنی ہوتی ہے۔اس نے تجویز پیش کی کہ کسی اسٹور میں چلتے ہیں ۔پہلے وہ ٹوتھ پیسٹ خریدتے ہیں اور پھر اس پر بنی لونگ کی تصویر دکھادکھا کر لونگ تلاش کرتے ہیں۔وائے بد قسمتی اس دن بازار سے وہ پیسٹ ہی غائب ہوگئی جس پر لونگ کی تصویر بنی ہوتی ہے۔
ادھر ہم جنرل کے حضور میں بیٹھے پہلے تو افسروں کی واپسی کا انتظار کرتے رہے لیکن جب دس پندر منٹ تک وہ نہ آئے تو اٹھے اور گیسٹ ہاؤس کے کچن میں پہنچے ۔عربوں کے ہاں ہر گیسٹ ہاؤس میں الائچی،دارچینی،لونگ اور عربی قہوے میں استعمال ہونے والی گٹھلیاں کافی مقدار میں اسٹور ہوتی ہیں کہ قہوہ تو ان کی زندگی کا لازمی جزو ہے۔اتفاق سے دوچار دن پہلے ہی ہم نے کسی سعودی سے قہوہ کے اجزاء اور اس ے بنانے کی ترکیب پر مفصل بحث کی تھی اور ان اجزاء کے نام یاد تھے۔کچن میں موجود ایک ویٹر کو ہم نے بتایا کہ قرنفل ایک پلیٹ میں رکھ کر لے آؤ۔لونگ جنرل صاحب کو پیش کردی گئی۔ایک لونگ تو انہوں نے اسی وقت دانت تلے دبا لی۔باقی ان کے کمرے میں رکھوا دی گئیں۔
کوئی پون گھنٹے بعد ہم نے دیکھا کہ ایک افسر دروازے کے پردے کو ذرا سا کھسکا کر ہمیں باہر آنے کا اشارہ کر رہا ہے۔ہم باہر چلے آئے’’استاذی لونگ کو عربی میں کیا کہتے ہیں اور یہ کس دوکان سے ملے گی؟‘‘
’’لونگ کوتو عربی میں قرنفل کہتے ہیں لیکن تم کہاں چلے گئے تھے وہ تو ہر کچن میں مل جاتی ہے۔وہ لے کے میں نے دے بھی دی‘‘۔افسر ایک صوفے پر ڈھیر ہوگئے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے ۔
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جب انسان لفظوں پر قدرت رکھنے کے باوجود بے نوا رہ جاتا ہے۔
ہم پاکستان ،بر صغیر اور وسطی ایشیا کے ممالک کے لوگوں کی کھانے کی عادات دنیا بھر سے نرالی ہیں۔ہمارے ہاں کھانوں کو چٹ پٹا اور لذیذبنانے کیلئے جتنے مصالحے بلکہ گرم مصالحے استعمال ہوتے ہیں، دنیا میں کہیں اور نہیں ہوتے،اور اس کے ساتھ بر صغیر میں روٹی بھی کئی قسموں کی ہوتی ہے،تندوری روٹی،نان،تافتان،روغنی نان،پراٹھے اور پھلکے۔ہمارے ہاں سے جو پاکستانی حج پر جاتے ہیں تو ان میں سے کئی لوگ توّے ساتھ لے جاتے ہیں کہ ہاتھ کی پکی ہوئی روٹی کے بغیر ان کا گزارہ نہیں ہوتا۔تو ایسی ہی ایک فیملی کا ذکر ہے ۔جس کے افراد پھلکوں کے عادی تھے لیکن توا ساتھ لے جانا بھول گئے۔وہاں جا کر پہلی فکر یہ ہوئی کہ توے کا بندوبست کیاجائے ۔دو تین پھرتیلے آدمی توے کی خرید پر مامور کئے گئے۔اس ریسرچ پراجیکٹ کے سربراہ تھے پاکستان ٹیلی ویژن کے کنٹرولر نیوزعبدالشکورطاہر۔یہ سراسر ذاتی نوعیت کا پروجیکٹ تھا۔سنا ہے ٹیلی ویژن میں سرکاری طور پر پراجیکٹس پر کام ہوتا ہے وہ ذرا بہتر نوعیت کے ہوتے ہیں مثلاًچمٹابجانے والے بہت سے فنکاروں کی دریافت کا سہرا بھی پاکستان ٹیلی ویژن کے سرہے۔ویسے شکور طاہر کو موسیقی سے ،سننے کی حد تک تو دلچسپی ہو سکتی ہے،یہ شعبہ ان کا نہیں۔وہ نیو ز کے آدمی ہیں اور انکی کارکردگی کا معیار ہے ٹی وی کا خبر نامہ ؂
تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے
چشم بد دور
تو شکورطاہر توے کی تلا ش میں نکلے۔
انہوں نے پہلے تو توے کی عربی معلوم کرنے کی کوشش کی۔مایوسی ہوئی۔بازار میں جاکر ہاتھ کے اشارے سے کسی گول گول چیزکی خرید کی خواہش ظاہر کی جس پر روٹی پکائی جاسکے۔ان اشاروں کنایوں کے مخاطب نے یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید انہیں روٹی درکار ہے کسی تندور کی راہ دکھائی اور روٹی کی عربی بھی بتائی’’خبز‘‘لیکن انہیں خبزنہیں،خبزبنانے کیلئے توے کی تلاش تھی۔تھک ہار کر انہوں نے برتنوں کی دوکان ڈھونڈنا شروع کی کہ وہاں توے پر نظر پڑی تو خرید لیں گے۔اب سعودی عرب میں برتنوں کی ہر دوکان پر تو توا نہیں ہوتا۔خاصی جدوجہد کے بعدایک دوکان پر توا نظر آیا۔خرید لیا گیا۔چلتے ہوئے دوکان دار سے ٹوٹی پھوٹی زبان میں پوچھا کہ اسے عربی میں کیا کہتے ہیں۔جواب ملا،’’توا‘‘۔

 

( جنٹل مین اللہ اللہ ‘‘سے انتخاب’’)

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top