skip to Main Content

ایک عجیب وغریب ایجاد

ڈاکٹر روٗف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔

آپ نے اکثر کسی کو کہتے سنا ہوگا کہ انسان کی سب سے بڑی ایجاد پہیا ہے،لیکن پہیے کے علاوہ بھی انسان نے بعض نہایت حیرت انگیز ایجادیں کی ہیں۔مثال کے طور پر زبان۔زبان بھی ان عظیم ایجادوں میں سے ہے جن پر انسان جتنا فخر کرے کم ہے۔اگر زبان نہ ہوتی تو ہم آپ باتیں کیسے کیا کرتے؟ اپنے خیالات، تجربات، دکھ سکھ اور حالات ایک دوسرے کو کیسے بتاتے؟زبان نہ ہوتی تو علم بھی نہ پھیلتا اور آپ یہ مضمون،یہ رسالہ بھی نہ پڑھ سکتے۔ پھر ہم میں اور جانوروں میں کیا فرق رہ جاتا؟
ہر علاقے اور نسل کے لوگوں نے اپنی زبان الگ بنائی۔اگر دنیا کی چھوٹی بڑی تمام زبانوں اور بولیوں کا شمار کیا جائے تو ان کی تعداد لگ بھگ تین ہزار تک پہنچ جاتی ہے،لیکن بڑی بڑی زبانوں کی تعداد بمشکل دو سو ہوگی۔سوال یہ ہے کہ زبان کون ایجاد کرتا ہوگا؟ کوئی لفظ سب سے پہلے کس نے اور کب بولا ہوگا؟ اور دوسرے لوگوں نے اس کا مفہوم کیسے سمجھا ہوگا؟ قرآن شریف میں اللہ تعالی سورۂ الرحمن میں ارشاد فرماتا ہے۔(ترجمہ) اللہ نے انسان کو بیان سکھایا (آیت:۴) سورۂ علق میں ارشاد ہوتا ہے (ترجمہ) اللہ نے قلم سے علم سکھایا اور انسان کو وہ سکھایا جو انسان نہیں جانتا تھا۔(آیت:۴،۵) اس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بیان کرنا یعنی باتیں کرنااور علم سکھایا۔ سائنس دانوں اور علم لسانیات کے ماہرین نے زبان کی ابتداءکے بارے میں بعض دلچسپ نظریات قائم کئے ہیں، لیکن وہ اب تک کسی ایک نظریے پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔
کتنے تعجب کی بات ہے کہ زبان جیسی چیز اپنی بے شمار خوبیوں کے باوجود بے عیب اور خامیوں سے خالی نہیں۔دنیا کی کسی بھی زبان کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خامیوں سے بالکل پاک ہے۔کسی کی لکھائی بہت پیچیدہ ہے تو کسی کے قواعد انتہائی مشکل ہیں اور کسی میں بعض مخصوص آوازیں نہیں ہیں،مثلا انگریزی زبان میں ت،ڑ،غ اورق کی آوازیں نہیں ہیں۔فارسی زبان میں ٹ،ڈاورڑ نہیں ہیں۔ عربی زبان میں ٹ،پ،چ،ڈ،ڑ اور گ کی آوازیں موجود نہیں۔ہندی زبان میں ع اور ق نہیں ہوتے۔(اس لحاظ سے ہماری زبان اردو بہت وسیع ہے کہ اس میں بے شمار آوازیں ادا کرنے اور لکھنے کی صلاحیت ہے)پھر ہر زبان کے اپنے اصول اور قواعد ہوتے ہیں جو دوسری زبانیں بولنے والوں کے لیے انتہائی عجیب اور بعض صورتوں میں مضحکہ خیز ہوتے ہیں،لیکن خود اسی زبان کے بولنے والوں کے لئے یہ اصول اور قواعد کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتے۔
مثال کے طور پر انگریزی زبان کو لیجئے۔ساری دنیا انگریزی قواعد (گرامر)کی پیچیدگیوں سے عاجز ہے،خصوصاً اس کے ہجے کے قواعد اتنے عجیب و غریب ہیں کہ دوسری زبانیں بولنے والا جو فرد بھی اسے سیکھتا ہے،سر پیٹ کر رہ جاتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ ساری دنیا انگریزی سیکھتی ہے،مجبوراً یاشوقیہ۔ دراصل انگریز دنیا میں جہاں جہاں بھی گئے، انہوں نے اپنی زبان کو پھیلایا اور اتنی ترقی کی کہ دوسروں کو اپنی زبان سیکھنے پر مجبور کردیا۔ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی پیاری زبان اردو کو پھیلائیں اور اپنے ملک کو اتنی ترقی دیں کہ ساری دنیا کے لوگ اردو سیکھیں۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی انگریزی زبان میں ہجے کے اصولوں کی۔اس سلسلے میں ایک بہت دلچسپ بات جو انگریزی ہی کے ایک عظیم ادیب اور ڈراما نگار جارج برنارڈشا نے لکھی ہے۔(جارج برنارڈ شا۶۵۸۱ءمیں پیدا ہوئے اور۰۵۹۱ءمیں ان کا انتقال ہوا۔انہیں ۵۲۹۱ءمیں ادب کا نوبل انعام بھی ملا تھا۔) انھوں نے لکھا کہ انگریزی کے لفظ فش(FISH) یعنی مچھلی کو اس طرح بھی لکھا جا سکتا ہے:
GHOTI
لوگ بہت حیران ہوئے کہ بھلا کہاںFISHاور کہاں GHOTI؟لیکن انہوں نے دلیل یہ دی کہ انگریزی میں ف (F) کی آواز کے لیے کبھی کبھی جی ایچ (GH) کے حروف بھی لکھے جاتے ہیں۔جیسے LAUGH(لاف بمعنی ہنسنا)اور ENOUGH (انف = بمعنی کافی) میں۔ اسی طرح O (او) کبھی کبھی I (آئی)کی جگہ پر استعمال ہوتا ہے جیسے WOMEN(ایمن=بمعنی عورتیں)میں۔ اور TI (ٹی آئی)کے حروف ش(SH) کی بھی آواز دیتے ہیں۔مثال کے طور پرNATION(نیشن=یعنی قوم)کے لفظ میں TI(ٹی آئی) کے حروف دراصل SH(ایس ایچ)کی جگہ استعمال ہوئے ہیں۔اسی طرح انگریزی میں GHOTI(گھوٹی)کو فِش(FISH) پڑھا جا سکتا ہے۔
یہ مثال دینے سے ان کی مراد یہ تھی کہ انگریزی میں ہجے کے قواعد بہت اوٹ پٹانگ اور غیر منطقی ہیں۔انہیں ٹھیک کیا جانا چاہیے۔واقعی زبان انسان کی بہت عجیب و غریب ایجاد ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top