skip to Main Content
ایک عجیب طاقت

ایک عجیب طاقت

اعظم طارق کو ہستانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طاہر خان ’’روایتی‘‘ پٹھانوں کی طرح بہادر تو تھا مگر اس قدر بھی نہیں کہ وہ اتنا مُشکل مشن سَر کرنے کی جرأت کرسکے۔ وہ گزشتہ ایک ماہ سے کچھ زیادہ سرور میں تھا شاید اُس کی وجہ یہ تھی کہ طاہر خان نے گزشتہ ایک مہینے سے فلسطین کے صحافتی دورے کی بات سب کو بتا دی تھی۔ وہ جس اخبار سے منسلک تھا وہ پہلے ہی کسی ایسے صحافی کی تلاش میں تھے جو اس آگ وآہن برساتے ماحول میں گھس کر رپورٹنگ کر سکے۔ ویسے بھی گزشتہ کئی دنوں سے فلسطین کے حالات مسلسل اور بہت زیادہ خراب تھے اور صیہونی فوجیوں نے غزہ کی ناکہ بندی کررکھی تھی۔ فلسطینیوں کو خوراک میسرتھی نہ علاج کے لیے ادویہ۔۔۔ ویسے بھی یہ کام طاہر کے لیے مشکل ضرور تھا مگر ناممکن العمل نہیں۔ دنیا کے تمام بڑے فلاسفر بخوبی جانتے ہیں کہ اتنے ’’دل گردے‘‘ والے کام کے لیے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اسے ’’ہمت‘‘ کہتے ہیں۔ طاہر سمیت ہر محب وطن پاکستانی بخوبی سمجھتا تھا کہ ہمارے ملک میں شورشوں اور افراتفری کی اصل وجہ ہماری ہمت کی ’’کمی‘‘ ہے۔ اگر ہمت کا گلوکوز پاکستانی عوام کو میسر آجائے تو تبدیلی لانا قطعاً مشکل نہیں ہے۔ 
طاہر کے تمام اخباری دوستوں نے اُسے اِس دیوانگی اور پاگل پن سے منع کیا۔ طاہر کے جانے سے دو دن قبل اس کے دوست اس کے گھر آدھمکے اور اسے اس مشکل اور خطرناک کام سے منع کیا: ’’تم بے وقوف ہو یا تمہیں مرنے کا بہت شوق ہے۔‘‘ فضل اللہ نے اس کی دلیلوں سے زچ ہوکر کہا۔
’’کیا فائدہ تمہارے جانے کا، اب تک اسرائیل کے مظالم کے خلاف اقوامِ متحدہ میں کتنی قراردادیں پاس ہوچکی ہیں لیکن اس شیطان کو کوئی بھی لگام نہیں دے سکا۔‘‘ رب نواز جذباتی ہوگیا تھا۔
’’من چہ خوب کا نعرہ لگانے والوں کو تمہارا آنا یقیناً ناگوار گزرے گا اور دوسرے ہی دن مار کر اِدھر اُدھر دفنا دیں گے۔ کسی کو معلوم بھی نہ ہوگا کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے؟‘‘ یہ بلال تھا جس نے طاہر کو حتیٰ الامکان ڈرانے کی کوشش کی۔
’’بس! بہت ہوگیا۔۔۔! میں تمہاری تاویلیں نہیں سننا چاہتا، میں صرف یہ دیکھنے کا خواہش مند ہوں کہ آخر ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کے مقابلے میں پتھروں سے مقابلہ کرنے والے نہتے فلسطینیوں کے پاس اتنی ہمت و طاقت کہاں سے آئی۔ میں یہ بھی دیکھنا چاہتا ہوں کہ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی اذیت ناک شہادت کے بعد بھی وہ آگ اور بارود سے کیوں کھیل رہے ہیں۔ میں ان کے دکھوں اور غموں کا قریب سے مشاہدہ کرنا چاہتا ہوں۔ ان کے اندر کے درد کو دنیا کے سامنے عیاں کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ طاہر کی آواز بلند ہوتی جارہی تھی۔ 
’’اس لیے میں ان کے غموں کو قلم سے قرطاس پر اتارنے کا خواہش مند ہوں۔ میں اپنی قوم کے بے ہمت لوگوں کو اُن کی ہمت کی داستان سنانے کا آرزومند ہوں، اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک میں قریب سے ان کا مشاہدہ نہ کرلوں۔‘‘
طاہر کی باتوں سے اس کے دوست تو پہلے ہی متاثر تھے اب ان چند جملوں نے اپنا وہ اثر دکھادیاکہ اس کے دوستوں کی سمجھ میں بھی اس کی بات آگئی اور انہوں نے مزید اسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

*۔۔۔*۔۔۔*

ایک ہفتہ فلسطین میں آکر مختلف لوگوں سے مل کر ان کے حالاتِ زندگی سے واقفیت حاصل کرنے میں گزر گیا۔ اتوار کی رات کو طاہر کو موقع ملا تو اس نے ان تمام باتوں کو تحریر کردیا۔
جب وہ تمام واقعات تحریر کرچکا تو اس نے ایک سرسری نظر مسودہ پر ڈالی۔ صفحات پلٹتے ہوئے اس کی نظر ایک واقعہ پر پڑی۔ طاہر خان کو یہ واقعہ اتنا دلچسپ لگا کہ وہ اسے ایک بار پھر پڑھنے لگا:
’’شام کے چار بج رہے تھے۔ آسمان پر اَبر چھائے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وقت سے پہلے مغرب کا گمان ہوتا تھا۔ کسی بھی لمحے بارش کا امکان تھا۔ اتنے فرحت بخش اور سُہانے موسم میں بھی فلسطین کا موسم خاصا ’’گرم‘‘ تھا۔ آج صبح سے ہی مسلح صہیونی فوجیوں کی نہتے فلسطینیوں سے کئی جھڑپیں ہوچکی تھیں۔ فلسطینی بچوں کا جوش و خروش ’’جنون‘‘ کی صورت اختیار کرچکا تھا۔ میں کیمرا پکڑے ایک قدرے محفوظ جگہ پر کھڑا تھا۔ میرے سر کے اُوپر ایک لکڑی کا چھپرا تھا جو بارش ہونے کی صورت میں مجھے بارش سے محفوظ رکھ سکتا تھا۔ اچانک مختلف گلیوں سے فلسطینی ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے اور ہاتھوں میں پتھروں کو اچھالتے ہوئے نکل آئے۔ صبح سویرے اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں اسکول جاتے ہوئے ایک معصوم سے ’’بچے‘‘ کی شہادت پر یہ مظاہرہ کیا جارہا تھا۔ دوسری جانب اسرائیلی فوجیوں کی نیت بھی ٹھیک نہیں لگ رہی تھی، کسی بھی لمحے حالات کشیدہ ہوسکتے تھے۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ اچانک اسرائیلی ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں سے زمین میں گڑگڑاہٹ کی آوازیں ابھریں۔ معرکہ حق وباطل برپا ہونے والا تھا۔ میں نے دونوں جانب نظر دوڑائی اور اپنے کیمرے کا ’’اینگل‘‘ ٹھیک کیا۔ میں اس منظر کو ہر صورت میں محفوظ کرنا چاہتا تھا۔ ایک جانب پتھر اٹھائے فلسطینی کھڑے تھے جن میں ایک بڑی تعداد ’’بچوں‘‘ کی تھی۔ جب کہ دوسری جانب اسّی (۸۰) سے سو (۱۰۰) کے درمیان اسرائیلی فوجی آتشیں اسلحے اور بلٹ پروف جیکٹوں میں ملبوس بالکل چوکَس اور چَاک وچوُبَندْ تھے۔ میرے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں۔ جب فلسطینیوں کے پتھراؤ میں اضافہ ہوا تو صہیونی فوجیوں نے انہیں منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ شروع کردی۔ میری طرح اور بھی کئی ممالک کے صحافی اس موقع پر موجود تھے۔ اس لیے اسرائیلی فوجی بہت احتیاط سے کام لے رہے تھے۔ 
لیکن۔۔۔!
ہوائی فائرنگ کے باوجود فلسطینی استقامت سے ڈٹے رہے۔ انہوں نے تتربتر ہونے کے بجاے مزید جوش و خروش کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے فوجیوں پر پتھروں کی بارش شروع کردی۔ اسرائیلی فوجی اِس قسم کے شدید ردعمل کے لیے ہر گز تیار نہ تھے، جب ہی انہوں نے حالات کی سنگینی دیکھتے ہوئے پیچھے کی جانب پیش قدمی شروع کردی۔ مگر فائرنگ کا سلسلہ اب بھی نہیں رکا اور اس کا رخ آسمان کے بجاے فلسطنیوں کی جانب ہوگیا تھا۔ 
میری نظر ایک بچے پر پڑی۔ یہ ایک تیرہ یا چودہ سال کا بچہ تھا۔ یہ بے خوف بچہ ٹینک کے بالکل نزدیک پہنچ چکا تھا۔ اسرائیلی فوجی اس کو مسلسل وارننگ دے رہے تھے، مگر وہ اپنی جگہ سے ٹَس سے مَس نہیں ہوا۔ اس نے جوڈو کراٹے کے اسٹائل میں پوزیشن سنبھالی ہوئی تھی۔ گولائی میں ایک کک ہوا میں اس نے ماری اور اسرائیلی فوجیوں کی طرف دیکھ کر زور سے (عربی میں) للکارا:
’’ارے بزدلو! اگر ہمت ہے تو مجھ سے دوبدو مقابلہ کرو۔‘‘ مگر ایک بزدل فوجی نے اس کا نشانہ لیا۔ ایک سنسناتی ہوئی گولی اس بچے کے بازو کو چھوتی ہوئی نکل گئی اور بھل بھل کرتا ہوا خون بہنے لگا۔ بچہ زمین پر گرچکا تھا۔ ایک لال رومال باندھے نوجوان نے دوڑ کر اسے اٹھایا اور ایمبولینس جو کہ قریب ہی موجود تھی، کی جانب دوڑ لگا دی۔ فائرنگ اب رک چکی تھی۔ مظاہرے میں موجود لوگوں نے بھی پتھراؤ روک دیا تھا۔
ایک اور بچہ جس کی عمر تقریباً بارہ سال تھی، میرے قریب سے آہستہ سے گزرا۔ اس نے ہاتھ پیچھے چھپا رکھے تھے۔ اُس کے دونوں ہاتھوں میں پتھر تھے۔ میں اُسے اس حرکت سے روکنے ہی والا تھا کہ اس نے ایک پتھر قدرے فاصلے پر کھڑے ہوئے فوجی کو کھینچ مارا۔ پتھر فوجی کے سینے پر لگا۔ بلٹ پروف جیکٹ نے اسے بڑے نقصان سے بچا لیا تھا مگر اتنے چھوٹے بچے کی دلیری دیکھ کر اس اسرائیلی فوجی کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس نے بچے کی جانب دوڑ لگادی۔ وہ بچہ اپنے ساتھیوں کے بجاے مخالف سمت میں دوڑنے لگا۔ صہیونی فوجی بھاگتے ہوئے اس کا نشانہ لینے لگا، مگر بھاگتے ہوئے نشانہ لگانا ویسے بھی کافی مشکل ہے اور وہ بھی ۱۵؍ کلو وزنی بندوق سے اور بھی مشکل تھا۔ خوف کے مارے میں نے جھرجھری لی۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے میں بچے کو بچانے کی خاطر اس کی جانب دوڑ پڑا۔ میرا کیمرہ میرے گلے میں لٹک رہا تھا۔ دیگر صحافیوں نے مجھے اشاروں سے روکنے کی کوشش کی لیکن میرے لیے رکنا ایسی صورتحال میں ممکن نہیں تھا۔ بھاگتے ہوئے فوجی اور بچے کے درمیان تقریباً دس گز کا فاصلہ تھا۔ دوڑتے دوڑتے اچانک بچہ پیچھے کی جانب مڑا۔ ایک دم بھاگتے ہوئے مڑنے کی وجہ سے اس کا پیر لڑکھڑایا مگر فوراً ہی سنبھل کر اس نے اپنے ہاتھ میں موجود پتھر کو پوری قوت سے اسرائیلی فوجی کی جانب پھینک دیا۔ پتھر اس اسرائیلی فوجی کے سر کے اوپر سے گزر گیا۔ میں نے دوڑنے کی رفتار بڑھا دی۔ مجھے بچے کی بہادری پر حیرت کے ساتھ اس کے انجام سے بھی خوف آرہا تھا۔ مگر دوسرے لمحے اس سے بھی بڑا حیرت کا جھٹکا مجھے اس وقت لگا۔ جب وہ فوجی بچے کی اس حرکت پر ایسا گھبرایا کہ اس نے واپس اپنے فوجی ساتھیوں کی جانب دوڑ لگا دی۔ بچہ مزید پُرجوش ہوگیا اور بھاگتے ہوئے بھگوڑے فوجی کو پتھر مارنے لگا۔ میں بچے کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ بچے کے چہرے کی معصومیت غضب کی تھی۔ اب وہ میری جانب ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس کا بازو جھنجھوڑا اور چیخ کر ٹھیٹھ عربی میں کہا: ’’پاگل ہوگئے ہو کیا؟ اگر وہ تمہیں گولی مار دیتا تو پھر۔۔۔۔۔۔‘‘
’’مار دیتا۔۔۔! میں ڈرتا نہیں ہوں۔ ہر اسرائیلی بزدل ہے۔ ہتھیاروں کے ہوتے ہوئے بھی ان کا یہ حال ہے، اگر یہ ہتھیار ہمارے ہوتے تو آج ان کا نام و نشان نہ ہوتا۔‘‘ بچے کے لہجے میں عزم کی جھلک تھی۔ ایک اعتماد تھا۔
میں نے بچے کو کریدتے ہوئے کہا :’’مجھے لگتا ہے کہ تمہارا کوئی عزیز اسرائیلیوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے جبھی تم اتنے غصہ ہورہے ہو۔ تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔۔۔ہتھیار بھی نہیں ہے۔۔۔ وہ جب چاہیں تمہیں روند دیں۔‘‘ 
لیکن یہ میری بھول تھی۔ مجھے پہلے ہی اندازہ ہوجانا چاہیے تھا کہ میں ایک مسلمان بچے سے مخاطب تھا۔ میرے سوال پر وہ مسکرایا اور بولا: ’’میں شیخ خالد کا بیٹا ہوں۔ ہمارے پاس اتنی دولت ہے کہ ہم کسی بھی دوسرے ملک میں رہ کر ساری زندگی عیش و آرام کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔‘‘ بچہ کہیں سے بھی بچہ نہیں لگ رہا تھا، معلوم نہیں یہ باتیں اُسے کس نے بتائی تھی۔۔۔اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’لیکن ہم مسجد اقصیٰ کو ٹوٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ جب تک ہمارے بازوؤں میں دم ہے اور ہماری رگوں میں لہو دوڑ رہا ہے ، ہم مزاحمت کریں گے۔۔۔ ہم لڑیں گے۔۔۔ اور ہاں تمہاری یہ بات۔۔۔‘‘ اس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’کہ یہ بزدل اسرائیلی جب چاہیں ہمیں روند ڈالیں گے، تو یہ ان کی خواہش ہی رہ جائے گی، وہ ہمیں مٹاچکے ہوتے مگر ہمارے پاس بھی ایک طاقت ایسی ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیں شکست نہیں دے سکتے، اور اس طاقت کی بدولت ہم انہیں پتھر بھی ماریں گے اور کسی قسم کی قربانی دینا پڑی تو دیں گے۔‘‘
’’طاقت؟ کون سی طاقت۔۔۔؟ کس قسم کی طاقت؟!‘‘ میں حیرت زدہ رہ گیا۔ مجھے تجسس تھا کہ یہ کون سی طاقت کی بات کررہا ہے۔بچے نے میری طرف غور سے دیکھا اور سرگوشی کے انداز میں بولا : ’’ایمان کی طاقت‘‘
یہ کہہ کر بچہ میری سوچ میں زلزلہ برپا کر کے اطمینان سے آگے مظاہرین کی جانب بڑھ گیا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top