skip to Main Content

ایک سہ پہر کا ذکر ہے

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے چھڑی کو گھمایا ہی تھا کہ اسے اپنے پیچھے ایک زور دار چھناکے کی آواز سنائی دی

۔۔۔۔۔۔۔۔

معاذ سیٹی بجاتا ہوا اپنے ابا کے کمرے میں گیا۔ آج ہفتے کا دن تھا اور اس نے اپنے دوست بابر کے ساتھ پروگرام بنایا تھا کہ وہ اپنے قصبے سے دور ایک پرانا قلعہ سائیکل پر دیکھنے جائے گا۔ اسے راستے کا نقشہ چاہیے تھا جو اس کے ابا کے کمرے میں تھا۔ معاذ بہت خوش تھا۔ آج موسم بھی بہت خوش گوار تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اسکول سے ہفتے اور اتوار کی چھٹی گزارنے کا یہ بہت اچھا مصرف ہے۔ وہ سہ پہر کو روانہ ہونے والے تھے تاکہ بابر بھی دفتر سے فارغ ہو کر چھٹی کرلے جہاں وہ اسکول سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آج کل چھوٹی سی نوکری کررہا تھا۔ وہ پندرہ سال کا تھا جبکہ معاذ ابھی چودہ سال کا تھا اور اسکول میں پڑھتا تھا۔
اس نے سائیکل کو خوب صاف کرلیا تھا اور سواری کرنے کے لیے بالکل تیار تھا۔ اس کی امی نے ان کے لیے کھانا بھی باندھ دیا تھا۔ ابا نے تو اسے اس سیر کے لیے جیب خرچ کے علاوہ کچھ پیسے زیادہ بھی دیے تھے۔ ہر چیز معمول کے مطابق ٹھیک چل رہی تھی۔ اسے نقشہ بھی مل گیا جو اس نے جیب میں ڈال لیا۔ پھر اچانک اس کی نظر اپنے ابا کی خوب صورت چھڑی پر پڑی جسے وہ سیر پر جاتے وقت ہمیشہ ہاتھ میں رکھا کرتے تھے۔
وہ بولا: ”واہ کیا خوب صورت چھڑی ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے چھڑی اٹھالی اور پھر پانی، عادت کے عین مطابق اس نے کسی کرکٹ کے بلے کی طرح اسے ایسے گھمایا، جیسے وہ چھکا مارہا ہو۔ اس نے چھڑی کو گھمایا ہی تھا کہ اسے اپنے پیچھے ایک زور دار چھناکے کی آواز سنائی دی۔ معاذ نے ڈرتے ڈرتے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسے ایک خوب صورت گلدان اور ٹیبل لیمپ ٹکڑے ٹکڑے ہوئے زمین پر پڑے ہوئے نظر آئے۔
معاذ نے سب سے پہلے وہی کیا جو اس کے ذہن میں آیا۔ وہ کمرے سے نکل کر بھاگا اور بھاگتے بھاگتے گھر سے باہر نکل گیا اور گھر کے سامنے بنے ہوئے ایک چھپر میں چھپ گیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس کے ابا کتنے ناراض ہوں گے جب انھیں یہ معلوم ہوگا کہ یہ کارستانی اس کی ہے۔ امی بھی ناراض ہوں گی اور ہوسکتا ہے وہ مجھے قلعے کی سیر کے لیے بابر کے ساتھ جانے ہی نہ دیں۔ وہ خاصی دیر چھپر میں چھپا رہا۔ اسے امی ابا کے اونچے بولنے کی آوازیں بھی سنائی دیں۔ اسے پتا چل گیا کہ انھیں چیزیں ٹوٹنے کا علم ہوگیا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
اس نے بالکل نہیں سوچا کہ اسے جا کر اپنی غلطی کا اعتراف کرنا چاہیے اور پھر جو بھی سزا ملے اسے قبول کرنا چاہیے۔ وہ سوچ رہا تھا، ہوسکتا ہے سارا الزام بلی نیلو پر چلا جائے، کیوں کہ وہ ہر وقت چیزیں توڑتی رہتی ہے لیکن ایسا سوچنا اس کی سب سے بڑی بھول تھی۔ وہ شام تک وہیں چھپا رہا۔ اسے پتا تھا کہ اب اس کی امی نانی اماں کے گھر ان کی طبیعت پوچھنے چلی گئی ہوں گی۔ ابا بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ شاید وہ سیر کرنے چلے گئے تھے۔ اس نے صرف ایک رقعہ لکھا جس میں اس نے بتایا تھا کہ وہ قلعے کی سیر کو جارہا ہے اور مل کر اس لیے نہیں جارہا کیوں کہ گھر میں کوئی موجود نہیں تھا۔ اس نے سوچا چیزیں ٹوٹنے کے فوراً بعد اسے کسی سے ملنا بھی نہیں چاہیے اور کل شام تک آتے آتے چیزوں کے ٹوٹنے کے بارے میں سب بھول چکے ہوں گے۔
اس نے رقعہ لکھ کر ایسی جگہ رکھ دیا، جہاں پہ ہر کوئی اسے دیکھ سکے۔ پھر وہ اپنی سائیکل پر سوار ہوا اور اس راستے پر چل دیا جہاں بابر کا گھر تھا۔ اس کی ساری کام کی چیزیں ایک تھیلے میں تھیں جو اس نے کندھے سے لٹکایا ہوا تھا۔ اس نے بابر کے گھر کے باہر باغیچے کے پاس کھڑے ہو کر سیٹی بجائی جسے بابر پہچانتا تھا۔ اگرچہ بابر کی سائیکل گھر میں اسے نظر آگئی لیکن پھر بھی سیٹی بجانے کے باوجود بابر نہ جانے کہاں تھا؟
لیکن پھر ایک روتا سسکتا ہوا معصوم چہرہ اسے دکھائی دیا، یہ چہرہ بابر کی چھوٹی بہن عروہ کا تھا۔ معاذ نے فوراً پوچھا: ”کیا بات ہے؟ تم کیوں رو رہی ہو؟ کیا کوئی بیمار ہے؟ اور بابر کدھر ہے؟ کیا تمھیں اسکول کا کام نہ کرنے پر ڈانٹ پڑی ہے؟“ اس نے ایک ہی سانس میں کئی سوالات کردیے۔
عروہ بولی: ”میرا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ بابر کے ساتھ ہوگیا ہے۔ وہ آج تمھارے ساتھ نہیں جاسکے گا۔ وہ بڑی مشکل میں ہے۔ اسے نوکری سے بھی جواب مل گیا ہے اور اس کے ابا بھی اس سے بہت ناراض ہیں۔ مجھے پوری بات کا علم تو نہیں ہے لیکن مجھے کوئی اس کے کمرے میں جانے نہیں دے رہا۔ میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ آج بابر دفتر سے کچھ ضروری کاغذات دینے کسی کے گھر گیا تھا اور وہاں وہ کھڑکی پھلانگ کر گھر میں داخل ہوا۔ اس نے ایک سنہری گھڑی وہاں پڑی ہوئی دیکھی جو اس نے چوری کرلی۔“
معاذ حیران ہو کر عروہ کی باتیں سنتا رہا۔ پھر آخر کار وہ بولا: ”یہ نہیں ہوسکتا۔ بابر انتہائی ایماندار لڑکا ہے۔ اس نے کبھی ایسی حرکت نہیں کی۔ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا۔ کوئی اگر ایسا کہتا ہے تو غلط کہتا ہے۔“
عروہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بولی: ”ہاں میں جانتی ہوں لیکن جب سب نے اسے دیکھا تو وہ کمرے میں کھڑا تھا اور گھڑی غائب ہوچکی تھی۔ سب کہہ رہے تھے کہ جب اس نے لوگوں کے آنے کی آوازیں سنیں تو اس نے گھڑی کھڑکی سے باہر پھینک دی۔“
معاذ بولا: ”بابر چور نہیں ہوسکتا وہ ضرور کسی خاص مجبوری کے تحت اس کمرے میں داخل ہوا ہوگا۔ میں بابر کو اچھی طرح جانتا ہوں۔“
عروہ بولی: ”بابر بتارہا تھا کہ اس نے ایک عجیب سے چھناکے کی آواز سنی تھی تو وہ کمرے میں گیا تاکہ دیکھے کہ ہوا کیا ہے؟ لیکن اس کی بات پر کوئی یقین نہیں کررہا ہے۔“
معاذ کو اچانک غصہ چڑھ گیا، وہ بولا: ”عروہ! میں اب اس گھر کی تلاش میں جاﺅں گا جہاں سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ بابر نے گھڑی چرائی ہے اور میں ان ظالم لوگوں سے بھی ملوں گا۔ میں انھیں بتاﺅں گا کہ وہ میرا دوست ہے اور چوری نہیں کرسکتا۔“ پھر اچانک معاذ کو یاد آیا تو اس نے عروہ سے پوچھا کہ آخر بابر ہے کدھر؟
بابر اپنے کمرے میں تھا۔ وہ بہت افسردہ تھا۔ معاذ نے اس کے قریب جا کر اس کی ہمت بندھائی اور کہا: ”حوصلہ کرو میرے دوست! میں ان لوگوں سے بات کروں گا لیکن آخر ہوا کیا ہے؟“ بابر حیرانی سے بولا تو کیا کسی نے تمھیں پوری بات نہیں بتائی؟ معاذ نے اسے بتایا کہ اس نے عروہ سے کچھ بات سنی تو ہے اور اب میں ان لوگوں کو کھری کھری سنانے جارہا ہوں۔“ بابر کہنے لگا: ”مجھے عجیب سا لگتا ہے کہ تمھیں پوری بات کا علم نہیں لیکن پھر بھی…. ہوا کچھ یوں کہ میں کچھ اہم کاغذات اپنی فرم کے گاہک کو دینے جارہا تھا۔ میں ایک گھر کے دروازے کی طرف جارہا تھا تو ایک کھڑکی کے اندر میں نے کسی چیز کے گر کر ٹوٹنے کی آواز سنی۔ میں ڈر گیا۔ میں نے کھڑکی کے اندر جھانکا تو ہر طرف ٹوٹی ہوئی چیز کی کرچیاں بکھری ہوئی دیکھیں۔“
معاذ نے پوچھا: ”کیا ٹوٹا ہوا تھا۔“ بابر بولا۔ ”مجھے اچھی طرح معلوم نہیں لیکن میں نے چاہا کہ ذرا پتا کروں کہ یہ کیا ہوا ہے؟ میں کھڑکی سے اندر کودا ہی ہوں کہ گھر کا کوئی فرد آگیا اور مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں یہاں کیا کررہا ہوں اور میں نے کیا توڑا ہے؟“
معاذ نے لقمہ دیتے ہوئے کہا: ”بتاﺅ بتاﺅ! کتنے ظالم لوگ ہیں؟“
بابر بولا: ”میں ابھی وضاحت ہی کررہا تھا کہ سب آگئے اور کسی نے بتایا کہ گھڑی غائب ہے لہٰذا انھوں نے سوچا کہ گھڑی میں نے چرائی ہے۔“ معاذ بولا: ”کاش وہ تمھیں جانتے ہوتے تو ایسا کبھی نہیں کرتے۔“
بابر بولا: ”وہ مجھے دراصل جانتے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انھوں نے فوراً میرے مالک کو فون کردیا اور جب میں دفتر واپس گیا تو وہ سخت غصے میں تھے۔ انھوں نے میرا حساب کردیا اور مجھے نوکری سے نکال دیا۔ میرے ابا بھی مجھ سے بہت ناراض ہیں۔“
معاذ بولا: ”آخر مجھے ان کا نام پتا تو دو۔ میں انھیں ملنا چاہتا ہوں۔“ بابر بولا: ”یار! وہ تمھارا ہی گھر تھا اور تمھارے ہی گھر والے تھے۔ میں تو سمجھا تھا کہ تمھارا گھر میرا ہی گھر ہے، اسی لیے میں زیادہ پریشان تھا کہ دیکھوں کیا نقصان ہوا ہے؟ لیکن سب سمجھے کہ میں نے چوری کی ہے۔“ معاذ حیرانی سے بابر کا منھ دیکھنے لگا۔ پھر فوراً ہی اس کی سمجھ آگیا کہ آخر ہوا کیا ہے؟ وہ دل میں خود کو بڑا مجرم سمجھ رہا تھا۔ اس کی بھول کی وجہ سے بابر کی نوکری چلی گئی تھی۔ سب کی نظروں میں بابر چور تھا۔ اس کا قلعے کی سیر کا پروگرام بھی ستیاناس ہوگیا تھا۔ بابر بولا: ”تم اُن لوگوں کو میری صفائی نہیں دے سکتے، وہ تم پر بھی یقین نہیں کریںگے۔“ معاذ کا چہرہ زرد ہوگیا تھا۔ وہ کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: ”وہ ضرور میرا یقین کریں گے۔ تمھاری نوکری تمھیں مل جائے گی۔ میں ثابت کروں گا کہ تم چور نہیں ہو۔ لیکن ہوسکتا ہے تم میری شکل دیکھنا پسند نہ کرو۔“
وہ بابر کو حیران چھوڑ کر وہاں سے روانہ ہوگیا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ کیا کرنے جارہا ہے۔ وہ سیدھا گھر جا کر ابا سے ملا اور انھیں کہنے لگا: ”مہربانی فرما کر بابر کے مالک کو فون کریں کہ وہ بے قصور ہے۔ اصل میں قصور میرا ہے۔“ ابا کے پوچھنے پر معاذ نے ساری کہانی انھیں سنائی اور انھیں کہا کہ وہ ہر سزا بھگتنے کو تیا رہے۔ اس کے ابا نے خاموشی سے ساری بات سنی اور پھر بولے: ”تو پھر گھڑی کدھر ہے؟“
معاذ بولا: ”شاید چھڑی کی وجہ سے وہ بھی فرش پر گری ہوگی اور صوفے یا کرسی کے نیچے ہوگی۔“ پھر اس نے گھڑی کو تلاش کیا تو وہ بھی مل گئی لیکن بری طرح ٹوٹ گئی تھی۔ پھر اس نے ابا کو خاموش دیکھا تو بولا: ”میں دگنی سزا بھگتنے کو تیار ہوں، میری غلطی کی سزا میرے دوست کو ملی۔ مجھے پتا ہے اس بھول سے میں آپ کا اور امی کا اعتماد بھی کھو بیٹھا ہوں اور شاید اپنا دوست بھی۔“
اس کے ابا بولے: ”اس سارے معاملے میں اچھی مثبت چیز یہ ہے کہ تم نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا۔ واقعی دیر لگے گی جب ہم تم پر دوبارہ اعتماد کرنا شروع کریں گے۔ جاﺅ اپنی ماں کو بلاﺅ۔“ معاذ کا بُرا وقت شروع ہوگیا تھا۔ اس کے ابا اس سے بات نہیں کررہے تھے۔ امی اسے ایسے دیکھتیں جیسے ابھی رو دیں گی، لیکن ایک شخص ایسا تھا جو اس سے ناراض نہیں تھا اور وہ تھا بابر!
جب معاذ نے اس کا شکریہ ادا کیا کہ وہ ابھی بھی اسے دوست سمجھتا ہے تو وہ کہنے لگا کہ دوست ہوتے ہی مشکل میں کام آنے کے لیے ہیں…. آﺅ اس مشکل سے اکھٹے نمٹتے ہیں۔ جب سب ہمیں اکھٹے دیکھیں گے تو بھول جائیں گے کہ کیا ہوا تھا؟ لیکن تم بہادر ہو۔
واقعی پھر معاملات ٹھیک ہونے لگے۔ دونوں دوست اکھٹے رہے۔ معاذ کو اندازہ تھا کہ اس کی بھول نے اسے اور اس کے دوست کو کتنی مشکل میں ڈال دیا تھا۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top