skip to Main Content

اک غلط فہمی

نعیم احمد بلوچ
۔۔۔۔۔۔

فیصلہ کے لیے یہ صورت حال سخت پریشان کن تھی۔اس نے تو سوچا تھا ”اے کے“اس کی بات پر غور کرنے پر مجبور ہو جائے گا لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ۔اب تو وہ ”اے کے “کی بات پر سوچنے لگا تھا۔اسے جہاں اپنی جہالت پر غصہ آرہاتھاوہاں یہ پریشانی بھی تھی کہیں کلاس کے باقی لڑکے اس سارے واقعے کا برا اثر نہ لیں۔
”اے کے“ اس کا ہم جماعت ہی تھا۔چند ماہ پہلے وہ ناروے سے پاکستان آیا تھا۔اس کے والد ایک ملازمت کے سلسلے میں پچھلے پانچ برسوں سے وہاں رہ رہے تھے۔ملازمت ختم ہوئی تو پاکستان آگئے۔”اے کے“نے پانچ سال ناروے کے شہر اوسلو میں تعلیم حاصل کی اور اب وہ اسلام آباد کے ایک جدیدسکول میں میٹرک کا طالب علم تھا۔اس اسکول میں داخلے کے لئے اسے بڑا مشکل امتحان دینا پڑا تھامگر اس نے بڑے اچھے نمبر حاصل کیے ۔
”اے کے“نے کلاس میں بھی اپنا رعب جلد ہی جما لیا تھا۔اس کا اصل مقابلہ فیصل سے تھا اور اس بات کا شدید خطرہ تھا کہ کہیں یہ علمی مقابلہ حسد اور مخالفت میں تبدیل نہ ہوجائے مگر فیصل نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔”اے کے “نے بھی دوستی کا یہ ہاتھ تھام لیا لیکن بہت جلد دونوں کو معلوم ہو گیا کہ وہ اپنے خیالات میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔
پہلی بات فیصل نے اس سے یہ کہی کہ وہ ”اے کے“ کے بجائے اپنا اصلی نام پسند کیوں نہیں کرتا؟
”اے کے“نے صاف جواب دیا کہ اسے اپنا اصل نام”عبد القدیر خاں“بڑا مذہبی سا لگتا ہے اور مذہب سے اسے بہت بے زاری ہے،اس لیے اے کے اپنے نام کے پہلے اور دوسرے حصے کے پہلے انگریزی حروف پسند کر لیے ہیں۔بس یہیں سے دونوں کے درمیان بحث چل نکلی۔
دراصل فیصل ایک پکا سچا مسلمان تھا۔اسے یہ جان کر سخت حیرت ہوئی کہ اس کا نیا دوست نہ صرف اسلام بلکہ ہر مذہب کو عقل کے خلاف اور پرانے زمانے کی غیر ضروری چیز سمجھتا ہے۔
فیصل کو دوسرے مذہبوں سے تو کوئی خاص دلچسپی نہ تھی لیکن اسلام کے متعلق وہ بہت گہرے جذبات رکھتا تھا۔اس نے”اے کے“کو کھلا چیلنج دیا کہ وہ اسلام کے خلاف کوئی ایسی بات ثابت نہیں کر سکتا جو عقل کے خلاف ہو۔
”اے کے “بھی ہمت ہارنے والا نہ تھا۔اس نے چیلنج قبول کر لیا اور پہلے ہی مرحلے میں اس کے سامنے ایک ایسا مشکل سوال رکھا کہ فیصل کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔”اے کے“کا سوال چاند کے متعلق تھا۔
اس نے کہا کہ ناروے میں اس نے ایک مسلمان پاکستانی لڑکے کی زبانی خود یہ بات سنی تھی کہ ایک دفعہ محمد ﷺ نے انگلی کے اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کردیا تھا۔اس کو یہ بات بہت عجیب سی لگی تھی۔
فیصل نے کہاکہ اس کے علم میں یہ بات نہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ہاتھ کے اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کردیا ہو….لیکن وہاں موجود دو تین لڑکوں نے شور مچادیا کہ انہوں نے بھی کئی مولوی صاحبان کی زبانی مسجد میں یہ واقعہ سنا ہے کہ حضورﷺ نے چاند کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا تھا۔
فیصل حیران تھا کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کی سیرت پر ایک بڑی اچھی کتاب پڑھی ہوئی ہے لیکن اس میں اس طرح کے کسی واقعے کا ذکر نہیں تھا۔تب اسے یادآیا کہ قرآن مجید میں اس حوالے سے اس نے ضرور کچھ پڑھا تھا مگروہ اسے اچھی طرح یاد نہیں تھا۔یہی وجہ تھی کہ وہ خاموش ہوگیا۔
دراصل فیصل ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو بات کا صحیح علم نہ رکھنے کے باوجود گفتگو جاری رکھتے ہیں اور ایسے موقع پر خاموش رہنے کو اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں۔وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ اسلامی آداب یہ ہیں کہ بات معلوم نہ ہوتو مخاطب کو صاف بتا دینا چاہیے تاکہ اس کی لاعلمی کو اسلام کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔لیکن”اے کے“کا رویہ آج کچھ ایسا تھا جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ دیکھو،میں نے اپنی بات ثابت کردی ہے۔اور یہی بات فیصل کے لیے دکھ اور پریشانی کا باعث تھی۔اور تو اور اس کے بعض دوست بھی اس موقع پر”اے کے“ہی کی طرف داری کر رہے تھے۔ایک لڑکے سہیل پر تو اسے بہت غصہ آیا،وہ”مدعی سست گواہ چست“کے محاورے پر عمل کرتے ہوئے عجیب و غریب باتیں بنانے لگا۔فیصل نے اس سے کہا کہ ہم جیسے طالب علموں کی سمجھ میں اگر کوئی بات نہ آرہی ہوتو اس سے اسلام کی غلطی نہیں بلکہ اپنی کم فہمی اور لا علمی ثابت ہوتی ہے لیکن وہ اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگا:
”تم اپنی کم فہمی اور لاعلمی کی بات کرو،ہمیں اپنے ساتھ مت نتھی کرو۔“
فیصل کا جی تو بہت چاہا کہ وہ نصابی کتاب ہی میں سے کوئی بات پوچھ کر اس کی علمیت کے غبارے سے ہوا نکال دے لیکن اس موقع پر غصے کا اظہار اسے حکمت کے خلاف لگا۔اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس نے ذرا سی بات کی تو سہیل کج بحثی اور تکرار پر اتر آئے گااور ایسے لوگوں کے لئے قرآن نے یہ تعلیم دی ہے کہ :
”اور رحمن کے بندے(ان کا ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ )زمین پربڑی عاجزی سے چلتے ہیں اور جب ان کا جاہلوں سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ سلام کرکے اپنی راہ لیتے ہیں۔“
چنانچہ اس نے یہی کیا۔
اگلے دن اس نے اپنا بیشتر وقت سیرت کی کئی کتابوں کے مطالعے میں صرف کیا۔پھر قرآن مجید میں سورہ قمر کی تفسیر پڑھی اور صرف ایک نہیں ،کئی تفاسیر کا مطالعہ کیا۔ان تفاسیر میں چاند کے دو ٹکڑے ہونے کے متعلق احادیث بھی بیان کی گئی تھیں۔اس مطالعے کے بعد اس کے ذہن میں جو سوالات رہ گئے،وہ اس نے ایک عالم دین سے پوچھے۔اس جستجو میں اسے ایک ہفتے سے زیادہ وقت لگ گیا لیکن اب اس موضوع پر اس کا ذہن بالکل صاف ہو چکا تھا،کوئی الجھن باقی نہ رہی،اس کا ایمان پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگیا۔یہی وقت تھا جب اس نے اپنے کلاس انچارج فاروقی صاحب سے بھی بات کی۔
انہوں نے فیصل کی ساری بات تفصیل سے سنی اور پھر ”اے کے“سے بھی بات کی۔آخر طے پایا کہ اگلے دن آخری پیریڈ میں اس موضوع پر گفتگو ہوگی اور مزید گفتگو کی ضرورت ہوئی تو اسے ایک گھنٹے تک جاری رکھا جائے گا۔
فاروقی صاحب نے اس موضوع کو اس قدر ضروری اور مفید خیال کیا کہ کلاس کے تمام لڑکوں کا اس گفتگو میں موجود رہنا ضروری سمجھا۔
اگلے دن گفتگو کے آغاز میں فاروقی صاحب نے کلاس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”آپ میں سے اکثر”اے کے“اور فیصل کے درمیان پچھلے دنوں ہونے والی بحث سے اچھی طرح واقف ہوں گے۔میں نے اس موضوع پر جب ”اے کے “سے بات کی تو پتا چلا کہ اس کا اسلام پر بنیادی اعتراض معجزوں سے متعلق ہے۔اگرچہ مناسب تو یہ ہے کہ ہم اسلام کو سمجھنے کا آغاز اس کے عقیدۂ توحید سے کریں کیونکہ اسی سے پورے اسلام کو سمجھنے کی راہ ہموار ہوتی ہے لیکن ”اے کے “اس بات پر مصر ہے کہ سب سے پہلے معجزوں پر گفتگو کی جائے،اس لیے ہم اپنی گفتگو معجزوں ہی سے شروع کرتے ہیں۔میں فیصل سے کہوں گا کہ وہ معجزے کی تعریف بیان کرے۔“
”سر!لغت میں تو معجزے سے مراد ایسا کام ہے جوانسانی طاقت سے باہر ہو اوراصطلاح میں اس سے مراد نبیوں اور رسولوں کے وہ کام ہیں جو کافروں کے مقابلے میں ان کی مدد کے لیے،اللہ ان کے ذریعے سے ظاہر کرتا ہے۔“
فاروقی صاحب نے محسوس کیا کہ فیصل کی بیان کردہ تعریف کچھ مشکل ہے،اس لیے انہوں نے وضاحت ضروری سمجھی اور کہنے لگے:
”دراصل قرآن مجید میں جس چیز کو”آیت“ یا”بَیِّنَة“کہا گیا ہے،اردو میں اسے معجزہ کہا جاتا ہے۔معجزہ صرف نبیوںاور رسولوں کے ذریعے سے دکھایا جاتا ہے اور یہ ایسا کام ہوتا ہے جو عام حالات میں انسان کی طاقت سے باہر ہو اور اسے دیکھ کر لوگ یہ یقین کر لیں کہ لازمی طور پر یہ کسی ایسے شخص کا کام ہو سکتا ہے جسے اللہ کی حمایت اور تائید حاصل ہے،کیونکہ عام انسان سے ایسا سمجھ میں نہ آنے والا کام بالکل نہیں ہوتا۔
فاروقی صاحب وضاحت کرنے کے بعد حسب عادت خاموش ہوگئے۔ان کے پڑھانے کا طریقہ بھی یہی تھا۔جب تک پہلی بات ان کے شاگردوں کی سمجھ میں نہ آ جاتی،وہ آگے نہیں بڑھتے تھے۔چنانچہ وہ جیسے ہی خاموش ہوئے،ایک لڑکے نے سوال کیا:
”سر!معجزہ اگر اسی چیز کا نام ہے کہ اسے دیکھ کر عقل عاجز رہ جاتی ہے تو جادو کے کرشمے دیکھ کر بھی تو آدمی دنگ رہ جاتا ہے….پھر یہ کیسے معلوم ہوگا کہ معجزہ کیا ہے اور جادو کیا؟“
”بہت اچھا سوال کیا ہے مبشر نے!“فاروقی صاحب نے سوال کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔پھر وہ فیصل سے مخاطب ہوئے:
”کیوں بھئی فیصل!آپ اس سوال کا جواب دیں گے؟“
”کیوں نہیں سر!دراصل جادو تو صرف نظر کا دھوکا ہے،اس کے ذریعے سے جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ حقیقت میں نہیں بلکہ محض فریب نظر ہوتا ہے جبکہ معجزے میں جو کچھ نظر آتا ہے وہ بالکل حقیقت ہوتا ہے۔مثال کے طور پر موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے دربار میں جب اپنی لاٹھی کو زمین پر ڈالا تو وہ سانپ بن گئی۔اب فرعون اور اس کے درباریوں نے جو کچھ دیکھا،وہ بالکل حقیقت تھی،یعنی انہوں نے جب لاٹھی دیکھی تو وہ واقعی لاٹھی تھی اور جب اسی لاٹھی کو سانپ کی شکل میں دیکھا تو وہ واقعی سانپ تھا۔اس کے بالکل بر عکس جب فرعون کے جادو گروں نے اپنی رسیوں کو زمین پر پھینکا تو وہ سانپ دکھائی دیں ،یعنی وہ صرف ”دکھائی“دیں تھیں،اصل میں سانپ نہیں بن گئی تھیں۔دیکھنے والوں کو محض دھوکا ہو رہا تھا اور جادو گر بس یہی کر سکتے ہیں کہ وہ ہمارے دماغ پرایسا اثر کر دیں کہ ہم وہی کچھ دیکھیں اور محسوس کریں جو وہ چاہتے ہیں جبکہ معجزے میں اصل حقیقت تو روز روشن کی طرح سامنے نظر آرہی ہوتی ہے۔“
”شاباش فیصل بیٹے!بڑی اچھی طرح آپ نے بات سمجھا دی ہے….کیوں بھئی مبشر!کیا اب بھی کوئی الجھن باقی ہے؟“
مبشر نے سر ہلاتے ہوئے کہا:”نہیں سر! بات سمجھ میں آگئی ہے۔“
فاروقی صاحب نے گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے کہا:”بعض چیزیں جادو نہیں ہوتیں یعنی نظر کا دھوکا نہیں بلکہ حقیقی ہوتی ہیں لیکن وہ بھی انسان کو حیران کر دینے والی ہوتی ہیں۔دراصل ان کا تعلق فن سے ہوتا ہے….مثال کے طور پر ٹیلی پیتھی،ہپنا ٹزم یا اس طرح کے دوسرے فنون۔ یہ اگرچہ جادو ہی کی طرح کے فن ہیں لیکن ان میں محسوس ہونے والی تبدیلیاں حقیقی ہوتی ہیں۔اسی طرح بعض چیزیں بالکل سائنسی بنیادوں پر ہوتی ہیں لیکن یہ سائنسی بنیادیں ابھی راز ہی ہوتی ہیں اور لوگوں کو اس کا علم نہیں ہوتا،اس لیے بعض اوقات یہ بھی حیرت کا باعث بن جاتی ہیں اور انسان ان کے بارے میں بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے اور کرنے والے نے یہ کام کیسے کر دکھلایا….اس لیے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اب چونکہ محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا،اس لیے معجزات کا دروازہ بالکل بند ہو چکا ہے۔اگر ہمیں کوئی شخص کوئی حیرت انگیز کام دکھاتا ہے تو یہ اس کا معجزہ نہیں ہو سکتا بلکہ وہ شخص یا تو اپنے فن اور کرتب کا ماہر ہے یا جادو گر ہے یاپھر کوئی ایسا سائنس دان جس نے قدرت کے کسی راز کو دریافت کر لیاہے اور اس کی مدد سے وہ کام کر رہا ہے، جس سے ہم ابھی نا واقف ہیں۔“
اس موقع پر”اے کے “ نے پہلی دفعہ گفتگو میں حصہ لیا اور کہا:”سر!مجھے اب آپ کی معجزے والی بات میں دلچسپی محسوس ہوئی ہے۔اگر آپ اپنی باتوں کو مثالوں سے واضح کریں تو مجھے سمجھنے میں مزید آسانی ہوگی۔“
”بھئی دیکھیں،معجزے کی مثال تو آپ کو فیصل دے چکا ہے۔جن چیزوں کی بات میں نے کی ہے،اس کی مثال آپ کو خبروں کے ذریعے ملتی ہی رہتی ہے،مثلاًہپنا ٹزم کو لیں۔ہپنا ٹزم کے ماہر آپ کو اپنا ماضی یاددلا سکتے ہیں، آپ کو سلا سکتے ہیں،بے ہوش کر سکتے ہیں،کسی مقررہ وقت پر نیند سے بیدار کر سکتے ہیں وغیرہ۔
رہی سائنسی کرشمے کی بات تو آپ کو معلوم ہے کہ زندگی کے ہر شعبے کی طرح زراعت کے میدان میں بھی حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے۔مثلاً اب یہ ممکن ہے کہ آپ کینو کا ایسا پودا حاصل کرلیں جس کے پھل میں بیج نہ ہواور آم کا ایسا پودا لگا سکتے ہیں جس کی ایک ٹہنی پر ایک قسم کا آم ہو اوردوسری ٹہنی پر دوسری قسم کا آم۔اب اگر زراعتی سائنس دان اس کے پیچھے کار فرما سائنسی طریقہ کار کی وضاحت نہ کرتے تو کیا انسان اسے کسی جادو سے کم سمجھتا؟آپ اس بات کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ آج سے دوسو برس پہلے کے انسان کے سامنے اگر ٹیلی فون یا وائر لیس کے ذریعے بات کی جاتی تو وہ اسے جادو ہی کا کوئی کرشمہ سمجھتا۔“
جونہی فاروقی صاحب رکے،”اے کے “بول پڑا:
”سر! اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبیوں اور پیغمبروں سے جو معجزات صادر ہوئے،دراصل وہ کسی نہ کسی سائنسی اصول ہی کے تحت ہوئے ہوں گے،لیکن اس وقت کے لوگ چونکہ سائنس کا علم نہیں رکھتے تھے،اس لیے انہیں سمجھ نہیں سکتے تھے،تو یہ واقعات اور کام ان کے لیے معجزہ بن گئے۔“
فاروقی صاحب”اے کے “ کی یہ ”تشریح“ سن کر مسکرائے اور بولے:
”نہیں دراصل معجزات کو اس پہلو سے دیکھنا ہی درست نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عام قدرتی قوانین سے ہٹ کرہوتے ہیں اور لوگوں کے سامنے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی صداقت واضح کرنے کے لیے ہوتے ہیں اور اللہ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ اپنے پیغمبروں کو اسی پہلو سے کوئی معجزہ دیتا ہے جس پہلوسے ان کی قوم شعبدہ بازوں ،عالموں یا دوسرے فن کاروں سے متاثر ہوتی ہے۔مثلاً موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں مصری جادوگروں کوبڑی اہمیت دیتے تھے تو موسیٰ علیہ السلام کو جادو گروں کے شعبدوں کے مقابلے میں معجزے دیے گئے تاکہ فرعون اور ان کی قوم پر اللہ اور اس کے رسول کی صداقت واضح ہو جائے۔اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں لوگ فن طب یعنی بیماریوں کے علاج کو بڑی اہمیت دیتے تھے تو انہیں اسی لحاظ سے معجزات دیے گئے۔یہی وجہ ہے کہ وہ کوڑھیوں کے کوڑھ کو دور کردیتے،اندھوں کی آنکھیں بھلی چنگی کردیتے حتیٰ کہ مردوں کو بھی اللہ کے حکم سے زندہ کردیتے۔
اللہ کے آخری رسول محمد ﷺ کے زمانے میں شعر و سخن،عمدہ کلام اور فن خطابت کو اعلیٰ ترین خوبیاں سمجھا جاتا تھا تو آپ کو قرآن مجید کا معجزہ دیا گیا۔اس میں شاعری، تقریر اور نثر،تینوں کی اعلیٰ ترین خوبیاں پائی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ نہ شاعری ہے، نہ تقریر اور نہ ہی عام نثر بلکہ ایسی صنف کلام یعنی کلام کی قسم ہے جس کی مثال دنیا کی کسی زبان میں نہ اس وقت تھی،نہ آج ہے اور نہ قیامت تک ہوگی….اس لیے معجزے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے پہلے ہمیں معجزے کی حکمت یعنی اس کو دکھانے کے پیچھے جو وجہ تھی،اس کو جاننا ہوگا….اور وہ حکمت یہی ہے کہ اللہ اپنے نبیوںکی قوموں پر یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ ان کی طرف بھیجا جانے والاپیغمبر نہ جادو گر ہے،نہ طبیب اور نہ شاعر یا کاہن،بلکہ اسے اپنے اللہ کی حمایت حاصل ہے اور اس کی طاقت سب طاقتوں سے زیادہ ہے۔“
”لیکن سر!میری دلچسپی معجزے کی حکمت سے نہیں،اس چیز سے ہے کہ معجزے کو آپ حقیقت کیسے ثابت کر سکتے ہیں؟اگر وہ غیر حقیقی ہے، سائنسی طور پر ناممکن ہے تو اس پر ایمان کیسے لایا جا سکتا ہے؟“
فاروقی صاحب کے جواب دینے سے پہلے فیصل نے اپنی بات شروع کردی۔اس نے قدرے پر جوش انداز میں کہا:
”اور یہی وہ رویہ ہے جس سے اصل مسئلہ پیدا ہوا ہے۔”اے کے“کا ایمان سائنس پر ہے اور ہمارا ایمان اللہ پر….یہ صرف وہی چیز مانے گا جو سائنس کے عین مطابق ہو اور….“
”اے کے“نے مداخلت کی اور کہا:”بالکل….اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس میں صرف وہی چیز مانی جاتی ہے جو حقیقت ہو اور جسے ہر طریقے سے اچھی طرح پرکھ لیا گیا ہو۔اس میں سنی سنائی باتیں نہیں ہوتیں۔“
فیصل جواب دینے کے لیے اٹھا لیکن فاروقی صاحب نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود”اے کے“ سے مخاطب ہوئے:
”اے کے! آپ کی بات کچھ زیادہ صحیح نہیں….مثلاً سائنس دان ایک عرصے سے مانتے آرہے تھے کہ ایٹم ایک ناقابل تقسیم ذرہ ہے،یعنی اسے توڑا نہیں جا سکتا مگر پھر بیسویں صدی عیسویں میں ایٹم کو توڑ لیا گیا تو سائنس دانوں کو اپنی بات تبدیل کرنا پڑی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایٹم اب قابل تقسیم مانا جاتا ہے مگر اس کا نام وہی غلط طور پر”ایٹم“(Atom)یعنی”ناقابل تقسیم“ہے جو قدیم یونانیوں نے رکھا تھا۔(یاد رہے یونانی زبان میں ”a“کے معنی ہیں”نہ“اور”tom“کے معنی ہیں ”کاٹنا“)اسی طرح نیوٹن نے جب حرکت کے قانون دریافت کیے تو سمجھ لیا گیا کہ پوری کائنات ہی ان قوانین کے تحت حرکت کررہی ہے لیکن آئن سٹائن کی دریافت نے بتایا کہ نیوٹن کے قوانین حرکت صرف اس دنیا کی حد تک درست ہیں،اس دنیا سے باہر کی چیزیں دوسرے قوانین کے تحت حرکت کرتی ہیں۔ میں سائنس سے زیادہ واقف نہیں ہوں،اس لیے یہی دو مثالیں اس وقت ذہن میں آرہی ہیں ورنہ ایک سائنس کا طالب علم آپ کو بتا سکتا ہے کہ سائنس کی دنیا میں ہر روز کوئی نہ کوئی نئی دریافت ہوتی رہتی ہے اور انسان کو اپنے پہلے نظریات تبدیل کرنا پڑتے ہیں۔بلکہ سچے اور دیانت دار سائنس دان تو کسی ایک تحقیق کو آخری اور حتمی مان کر خاموش بیٹھ جانے والے کو سائنس دان ہی تسلیم نہیں کرتے۔اس لیے سائنسی تحقیق پر” ایمان“رکھنا عقل مندی کی بات نہیں۔“
”اے کے “فاروقی صاحب کی یہ بات سن کر تھوڑی دیر کے لیے بھونچکا سا رہ گیا، پھر بولا:
”ہاں سر!آپ درست کہتے ہیں کہ سائنسی تحقیق جاری رہتی ہے اور نظریات بدلتے رہتے ہیں لیکن بعض چیزیں بنیادی حقیقتیں ہوتی ہیں، مثلاً یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کل یہ ثابت ہو جائے کہ دو جمع دو چار نہیں ہوتے یا زمین سورج کے گرد نہیں بلکہ کسی اور ستارے کے گردگھوم رہی ہے یا پانی کا فارمولاH2Oنہیں کچھ اورہے….“
”اے کے“ریاضی،فلکیات اور کیمیاکے بعد شاید سائنس کی دوسری شاخوں سے بھی مثالیں دینا چاہتا تھا لیکن فیصل نے اس کی تقریر درمیان ہی میں کاٹ دی اور بولا:
”مگر اسلام میں اس طرح کی بنیادی حقیقتوں کو جھٹلانے والی کوئی بات بیان نہیں کی گئی….“
”اے کے“نے بھی فیصل کی بات کاٹتے ہوئے کہا:”میں اسلامی تعلیمات وغیرہ کی بات نہیں کررہا بلکہ معجزوں ہی کی بات کررہا ہوں۔“
فاروقی صاحب نے مداخلت کی اور کہا:
”نہیں، آپ دونوں موضوع سے ہٹتے جا رہے ہیں اور موضوع سے ہٹ کر گفتگو کبھی مفید نہیں ہو سکتی….اے کے!آپ کا کہنا تھا کہ صرف وہی چیزیں مانی جائیں جن کی سائنس تصدیق کر چکی ہو اور میں نے یہ کہا تھا کہ سائنس میں تو کوئی تحقیق حتمی نہیں ہوتی،اس لیے سائنس کو بنیاد بنا کر کسی چیز پر ایمان لانا یا اس کا انکار کرنا درست نہیں۔اس پر آپ نے کہاکہ آپ کی مراد وہ سائنسی حقیقتیں ہیں جن کے بدلنے کاکوئی امکان نہیں….تو میں یہ کہتا ہوں کہ معجزے میں کسی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاتا بلکہ اس کو مانتے ہوئے،اس کے برعکس عمل کیا جاتاہے۔مثلاًیہ حقیقت ہے کہ آگ جلاتی ہے لیکن اس کے باوجود ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایاتو اس معجزے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ مانا جائے کہ آگ جلاتی نہیں بلکہ صرف یہ بات بتائی جا رہی ہے کہ آگ پر ابراہیم علیہ السلام کے اللہ کا حکم چلتا ہے،وہ اسے اگر حکم دے گا کہ نہ جلاﺅ تو وہ نہیںجلائے گی،اور اگر آپ اس معجزے کے متعلق یہ کہیں کہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان یہ مانتے ہیں کہ آگ جلاتی نہیں تو آپ کا یہ رویہ”کامن سینس“یعنی سمجھ داری اور انصاف کے خلاف ہوگا۔
اسی طرح آپ یہ کہیں کہ مسلمان یہ مانتے ہیں کہ سانپ لاٹھی،اور لاٹھی سانپ بن جاتی ہے….ایسی بات نہیں….بلکہ ان معجزات سے صرف اور صرف یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ جس اللہ نے یہ ساری کائنات بنائی ہے وہ اگر چاہے تو دنیا میں چلنے والے قوانین کے بالکل بر عکس کام کر سکتا ہے،یعنی وہ چاہے تو آگ جلانا چھوڑ دے،سمندر خشکی بن جائے،پتھر سے پانی کے چشمے جاری ہو جائیں وغیرہ۔
اس لیے اصل چیز یہ ہے کہ آپ ایک ایسی ہستی کا اقرار کریں اور اس پر ایمان لائیں جس کا تمام کائنات پر کنٹرول ہے۔اب سائنس میں ایسا کوئی قانون ابھی تک بیان نہیں ہوا جس سے ثابت ہوتا ہو کہ ایسی کسی ہستی کا کوئی وجود نہیں بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اس طرح کی چیزوں پر تحقیق بے چاری سائنس کے دائرہ اختیار ہی سے باہر ہے۔
دیکھیں نا!قرآن کا دعویٰ ہے کہ کوئی اس جیسا کلام نہیں لکھ سکتا۔اب سائنس کیسے اس دعوے کو جھٹلا سکتی ہے یا اس کا اقرار کر سکتی ہے۔اس لیے اے کے بیٹا!میں آپ کی اس بات کو درست نہیں سمجھتا کہ انسان سائنس کی بنیاد پر اپنا ایمان خراب کر لے،بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ رویہ اس دور کی سب سے بڑی گمراہی ہے اور اس گمراہی سے بچنا ہی عقل مندی ہے۔
دراصل علم صرف اسی چیز کا نام نہیں کہ آپ کیاجانتے ہیں؟اس چیز کو بھی علم کہتے ہیں کہ آپ کو یہ معلوم ہو کہ آپ کیا نہیں جان سکتے یا کس حد تک جان سکتے ہیں ،کیونکہ اگر آپ کو یہ معلوم نہیں ہے کہ آپ کیا نہیں جانتے یا کیا نہیں جان سکتے تو آپ بہت بڑی گمراہی میں پڑ سکتے ہیں۔ خود سائنس کا یہ عالم ہے کہ جیسے جیسے اس کی تحقیق اور درافتیں بڑھ رہی ہیں،ویسے ویسے اس کو یہ معلوم ہو رہاہے کہ یہ کائنات انسان کے تصور سے بھی بہت بڑی ہے،اس کے راز بڑے گہرے ہیں اور ہمیں یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہو چکی ہے کہ جو کچھ انسان کو معلوم ہے یا جو معلوم ہو سکتا ہے وہ اس کی نسبت بہت ہی کم ہے جو اسے معلوم نہیں!قرآن مجید نے اس حقیقت کو یوں بیان کیاہے:
”اے انسان،تمہیں بہت ہی کم علم دیاگیا ہے۔“
اب خود فیصلہ کریں کہ یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ انسان چند معلوم چیزوں کی بنا پر بہت سی نامعلوم چیزوں کا انکار کردے….اگر وہ ایسا کرے گا توکنویں کا مینڈک کہلائے گا جو یہ جانتا ہی نہیں کہ کنویں کی نسبت دریا اور سمندر زیادہ گہرے اور زیادہ بڑے ہوتے ہیں …. کیونکہ مینڈک نے نہ دریا دیکھا ہوتا ہے نہ سمندر!“
فاروقی صاحب کا لیکچر اگرچہ کچھ لمبا ہو گیا تھا لیکن اس لیکچر نے پہلی دفعہ ”اے کے “کے خیالات میں ایک زلزلہ برپا کردیا تھا اور اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ آج تک کنویں میں رہا ہے اور اسی کو سب کچھ سمجھتا رہا ہے۔اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ آج پہلی دفعہ اوسلو سے پاکستان آیا ہو….اسے ایک عجیب سی بے چینی محسوس ہو رہی تھی….مگر اس بے چینی کو وہ نہیں جان سکا تھا….حالانکہ اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ مینڈک جب اپنی مانوس دنیا سے باہر آتا ہے تو کچھ وقت کے لیے بے چین ہوتا ہی ہے،اس لیے کہ اسے سب کچھ اجنبی لگتا ہے مگر”اے کے“ بہت سمجھ دار لڑکا تھا۔اسے یہ بھی معلوم تھا کہ انسان کو اپنے خیالات فوراً نہیں بدلنے چاہئیں بلکہ اچھی طرح سے دیکھ بھال کر ، تمام بنیادی سوالوں کے جواب مل جانے کے بعد انہیں بدلنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔اسی لیے اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد فاروقی صاحب سے پوچھا:
”سر!آپ کی بات سمجھ آنے والی ہے مگر اسے آپ کسی مثال سے واضح کریں تو میرا ذہن مزید clear(صاف)ہوگا۔“
فاروقی صاحب نے سوچنے کے لیے چند ہی لمحے لیے اور پھر گویا ہوئے:
”اللہ کا شکر ہے کہ ایک بڑی ہی عمدہ مثال ذہن میں آئی ہے،مجھے امید ہے کہ اس سے بات بالکل واضح ہو جائے گی….“
پھر کیا ہوا؟یہ جاننے کے لیے اس کتاب کا دوسرا حصہ”حق کی تلاش“ملاحظہ کریں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top