skip to Main Content

اڑنے والے گھوڑے کی تلاش

تحریر:الحصان الطیار فی بلاد الاسرار

مصنف:احمد محمود نجیب

ترجمہ و تلخیص: محمد فیصل علی

۔۔۔۔۔

بہت پرانی بات ہے کہ ایک عظیم الشان بادشاہ تھا جس کا نام ’شاہ نعمان‘ تھا۔اس کا ملک انواع و اقسام کی نعمتوں سے مالا مال تھا۔ وہاں ہر وہ چیز موجود تھی جس کی کوئی انسان تمنا رکھتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ خوش نہیں تھا، نہ ہی وہ راحت محسوس کرتا تھا۔
کیوں؟
وہ اس لیے کہ اس نے اپنی قدیم کتابوں میں ایک عجیب چیز کے بارے میں پڑھ رکھا تھا جو صرف”پراسرار شہر“ میں ہوتی ہے اور وہ عجیب چیز جس کے پاس ہوتی ہے وہ بہت زیادہ خوش قسمت ہوتا ہے۔
اس نے دل میں سوچا کہ میں کتنا عظیم بادشاہ ہوں اور کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ عجیب چیز میرے پاس نہیں ہے۔ہو نہ ہو مجھے اس چیز کے بارے میں کھوج لگانی چاہیے۔
بادشاہ کے ملک میں ایک بہت بڑا عالم تھا جو کہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر بنے ایک پراسرار گھر میں رہتا تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ پراسرار چیزوں کے بارے میں معلومات رکھتا ہے۔بادشاہ نے اپنا ایک افسر اس کے پاس بھیجا تاکہ وہ عالم سے عجیب وغریب چیز کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے۔وہ افسر چلتے چلتے اس پہاڑ تک پہنچا۔ اس نے دیکھا پہاڑ کی چوٹی تو آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ وہ بہت مشکل سے اوپر چڑھا اور چوٹی پر بنے اس پراسرار گھر کے سامنے جا پہنچا۔ اس نے دستک دینے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ دروازہ خود بخود کھل گیا اور ایک آواز آئی:
”اندر آؤ!“
افسر پہ دہشت طاری ہو گئی،کیوں کہ بولنے والا نظر ہی نہیں آرہا تھا۔
وہ ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوا۔ سامنے ہی ایک وسیع وعریض کمرہ تھا جس کے درمیان میں ایک خوب صورت سا قالین پڑا تھا۔ اس پہ بنے نقش و نگار بہت ہی دل فریب تھے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی قالین کی طرف بڑھنے لگا اور اس پہ جا کھڑا ہوا۔ اسی لمحے دوبارہ وہی غیبی آواز سنائی دی:
”حرکت نہ کرنا۔“
اگلے ہی لمحے افسر کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے قدموں تلے زمین سرک گئی ہو۔ اس کے منہ سے دلدوز چیخ نکلی۔ کمرے کا فرش سرک گیا تھا اور وہ قالین سمیت نیچے جارہا تھا،جیسے یہ قالین نہ ہو کوئی لفٹ ہو۔
اس نے وہی غیبی آواز دوبارہ سنی:
”ڈرو مت، تم عظیم عالم کے پاس پہنچنے ہی والے ہو۔“
جادوئی قالین اسے زمین کی تہ میں لے گیا۔ جلد ہی وہ عالم کے سامنے تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، عالم کی آواز سنائی دی:
”مجھے اندازہ ہے کہ تم یہاں کیوں آئے ہو۔ لو سنو میرا جواب۔ شاہ نعمان کو بتا دو کہ وہ عجیب چیز”اڑنے والا گھوڑا“ہے، جس کے دو پر ہیں اور وہ فضاء میں اڑتا ہے، لیکن اس کو پانا بہت مشکل ہے کیوں کہ یہ گھوڑا پراسرار شہر میں ہے اور اس شہر کی طرف جانے کا راستہ تکالیف سے بھرا ہوا ہے۔ اس راستے میں بہت بڑا صحرا آتا ہے، اس کے بعد خونی نہر سے گزرنا پڑتا ہے، اس کے بعد غضب ناک سمندر کو عبور کرنا پڑتا ہے اور پھر تین بلند و بالا چوٹیاں سر کرنی پڑتی ہیں، لہٰذا اسے میرا مشورہ پہنچا دینا کہ وہ اپنے ملک میں آرام سے رہے اور اس جادوئی گھوڑے کا خیال دل سے نکال دے۔ اب تم جاسکتے ہو۔“
یہ کہتے ہی وہ عالم غائب ہو گیا۔ افسر نے حیرت سے پلکیں جھپکائیں اور دوبارہ قالین پہ کھڑا ہو گیا۔ قالین نے حسب سابق سفر شروع کر دیا اور تھوڑی دیر بعد افسر اس جگہ سے باہر آگیا اور واپسی کا سفر شروع کر دیا۔
واپس جا کر اس نے بادشاہ کو سارا قصہ کہہ سنایا اور عالم کا پیغام سنایا کہ:
”اڑنے والے گھوڑے کو حاصل کرنا ناممکن ہے۔“
یہ سن کر شاہ نعمان غصے میں آ گیا اور فوراًہی اپنے سپہ سالار کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ:
”سو بہترین سوار تیار کرو اور انہیں پراسرار شہر کی طرف روانہ کرو تاکہ وہ میرے لیے اڑنے والا گھوڑا لے آئیں۔“

۔۔۔۔۔

شاہ نعمان کے بہترین سوار سفر پر چل پڑے، ان کے سامنے وسیع و عریض صحرا تھا، دور دور تک ریت پھیلی ہوئی تھی۔ وہ کئی دن تک سفر کرتے رہے حتیٰ کہ وہ تھک کر گر گئے، صحرا تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ رفتہ رفتہ ان کا زاد راہ بھی ختم ہو گیا، مارے پیاس کے ان کا برا حال ہو گیا، مزید ایک مصیبت اور ٹوٹی کہ صحرا میں ریت کا ہیبت ناک طوفان آیا،جس کی وجہ سے بہت سارے فوجی ریت تلے دب گئے۔ کچھ پیاس کی شدت سے جان کی بازی ہار گئے اور کچھ طوفان میں مارے گئے۔ لہٰذا بچے ہوئے فوجی سواروں نے واپسی کے بارے میں فیصلہ کیا اور واپس چل پڑے، واپسی کا سفر بھی صعوبتوں سے بھرا ہوا تھا اور وہ اسی طرح حوادث کا شکار ہونے لگے حتیٰ کہ شاہ نعمان کے پاس صرف ایک فوجی واپس پہنچ سکا اور اسے سارا قصہ کہہ سنایا۔
شاہ نعمان یہ سن کر غصے سے پاگل ہو گیا اور اس نے سپہ سالار کو پانچ سو فوجی سواروں کا دستہ تیار کرنے کا حکم دیا۔ سپہ سالار نے فوجی دستہ تیار کیا اور سفر پہ روانہ ہو گیا، اب کی بار وہ مکمل تیاری کے ساتھ آئے تھے، لہٰذا صحرا کا سفر بغیر کسی نقصان کے مکمل ہو گیا۔ اب ان کے سامنے ایک تندوتیز نہر تھی جسے عبور کرنا تھا، انہوں نے وہاں پڑاؤ ڈالا اور درختوں کو کاٹ کر کشتیاں بنانے لگے، کشتیاں بنانے کے بعد وہ نہر میں اتر گئے اور سفر شروع ہو گیا مگر وہ ایک بہت بڑی مصیبت سے بے خبر تھے اور وہ تھی……مگرمچھ۔
شاید اسی لیے اس نہر کو پراسرار عالم نے خونی نہر کہا تھا، آن کی آن میں مگرمچھوں نے کشتیوں پر حملہ کر دیا اور آناًفاناً فوجی سواروں کو ہڑپ کر گئے۔ صرف پانچ فوجی سواروں نے بمشکل جان بچائی اور ہزار مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد شاہ نعمان کے پاس واپس پہنچے اور اسے ساری روداد سنائی۔
شاہ نعمان ضد کا پکا تھا، اس نے مہم جوئی کا ارادہ ترک نہ کیا اور خود مہم پہ جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ اس نے اپنے ساتھ ہزار سپاہی لیے اور روانہ ہونے کے لیے تیار ہو گیا، ایسے میں اس کے وزراء دوڑتے ہوئے آئے اور بولے:
”عالی جاہ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت سے سرفراز فرمایا ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ آپ ان نعمتوں پہ قناعت کریں اور اڑنے والے گھوڑے کا خیال دل سے نکال دیں۔“
شاہ نعمان نے ان کی بات سنی ان سنی کردی اور اپنے ارادے پہ قائم رہا۔

وزراء نے پھر عرض کی:
”حضور! آپ سلطنت کے لیے بہت اہم ہیں، لہٰذا آپ خود اس مہم پہ نہ جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی غیر موجودگی میں دشمن ریاست حملہ آور ہو جائے اور ملک پہ قبضہ جمالے۔“
شاہ نعمان کے ذہن پر تو اڑنے والا گھوڑا سوار تھا، لہٰذا وہ اپنی ضد پر قائم رہا۔
مہم پہ روانہ ہونے سے پہلے وہ ساحر سے ملنا چاہتا تھا، لہٰذا وہ تیز رفتار گھوڑے پر بیٹھ کر عالم کے پاس جا پہنچا اور اس سے پراسرار شہر کے بارے میں دریافت کیا، عالم نے کہا:
”شاہ نعمان، میں اس سلسلے میں آپ کی صرف ایک مدد کر سکتا ہوں اور وہ مدد یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ اس گھوڑے کو بھول جائیں،یہی آپ کے اور آپ کی سلطنت کے حق میں بہتر ہو گا، باقی آپ آزاد ہیں جو چاہیں کریں۔“
شاہ نعمان نے”ہونہہ“کہہ کر اس کی بات کو بھی ہوا میں اڑا دیا۔ اس کے بعد وہ سفر پہ چل پڑا، اس کا سفر مصائب سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے کچھ سپاہی صحرا میں مارے گئے، کچھ نہر عبور کرتے ہوئے مگرمچھوں کی غذا بن گئے۔ اس کے بعد اس کا سمندری سفر شروع ہوا، سمندر کے سفر میں اس کا بحری جہاز بھنور میں پھنس گیا اور بہت ساری فوج ڈوب کر مر گئی۔صرف گنتی کے لوگ جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ جب وہ تین چوٹیاں عبور کرنے کے لیے پہنچے تو اس کے ساتھ صرف پچاس سپاہی بچے اور چوٹیاں سر کرنے کے بعد بہت سارے اور سپاہی زندگی سے جدا ہو گئے اور چند دنوں بعد صرف اکیلا شاہ نعمان باقی بچا۔ یہ سارا سفر کئی سالوں پہ محیط تھا، اس دوران اس کی شکل و صورت بری طرح بگڑ چکی تھی، اس کی صحت خراب تھی، یہاں تک کہ اس نے آخری چوٹی بھی سر کر لی، اب پراسرار شہر اس کے سامنے تھا، وہ اتنا خوب صورت تھا کہ شاہ نعمان کے منہ سے بے اختیار نکلا:
”سبحان اللہ“
وہ ایک سرسبز و حسین وادی تھی، چاروں طرف سبزہ زار تھے، پھولوں کی بہتات تھی، پھل دار درخت بکثرت تھے، پانی چاندی جیسا چمکدار و صاف شفاف تھا، پرند اور چرند چہل پہل میں اضافہ کر رہے تھے۔
شاہ نعمان نے جی بھر کر پھل کھائے اور پانی پیا، اسی اثناء میں اسے نیند آنے لگی اور وہ سو گیا۔ نامعلوم وہ کتنے پہر سویا رہا۔ اس کی نیند تب کھلی جب سورج کی شعاعیں اسے جگا رہی تھیں، وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھا، اور ہاتھ منہ دھونے کے لیے آبشار پر پہنچا کہ اچانک وہ چونک پڑا، اس کے سامنے ایک پروقار خاتون اور ایک سفید رنگ کا پروں والا گھوڑا موجود تھا۔ شاہ نعمان تو سانس لینا تک بھول گیا۔
ادھر وہ خاتون بھی اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی، آخرکار وہ بولی:
”تم کون ہو؟ میں اس وادی کی ملکہ ہوں۔“
”ملکہ عالیہ، میں شاہ نعمان ہوں۔“ نعمان نے جواب دیا۔
ملکہ اس کی بدہیئتی دیکھ کر ہنسی اور بولی:
”واہ، کیا بادشاہ ایسے ہی پھٹے پرانے کپڑے پہنتے ہیں؟“
جواب میں شاہ نعمان نے ساری کہانی بتادی، ملکہ یہ سن کر غصے میں آ گئی کہ وہ اس کا اڑنے والا گھوڑا حاصل کرنا چاہتا ہے،اس نے صاف صاف کہہ دیا:
”میں تمہیں یہ گھوڑا ہرگز نہیں دوں گی، اور اگر تم نے زبردستی حاصل کیا تو تمہیں اس سے کوئی نفع نہیں پہنچے گا۔“
شاہ نعمان بھلا ایسی باتیں کہاں سننے والا تھا، اس نے آگے بڑھ کر ملکہ کو دھکا دیا اور گھوڑے پر سوار ہو گیا، ملکہ دور جا گری اور اسے بددعائیں دینے لگی، مگر نعمان کہاں رکنے والا تھا، اس نے گھوڑے کو اڑنے کا حکم دیا اور گھوڑا ہوا ہو گیا۔

۔۔۔۔۔

ایک طویل سفر کے بعد وہ اپنے وطن پہنچا، شہر میں داخل ہوتے وقت اسے امید تھی کہ لوگ اس کا استقبال کریں گے مگر کسی نے بھی اس کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھا، بلکہ چند افراد نے تو اس کا یہ کہتے ہوئے مذاق اڑایا:
”ارے دیکھو تو اس پاگل شخص کو، یہ سمجھتا ہے کہ نقلی پر لگانے سے اس کا گھوڑا اڑنے لگے گا۔“
یہ کہہ کر وہ سب ہنسنے لگے، شاہ نعمان نے بمشکل اپنا غصہ ضبط کیا اور سیدھا اپنے محل کی طرف چلتا گیا۔ جیسے ہی وہ محل کے قریب پہنچا، دربانوں نے اسے روک لیا اور کہا:
”تم کون ہو اور منہ اٹھائے کہاں گھسے آرہے ہو؟“
شاہ نعمان نے غصے کے عالم میں کہا:
”میں شاہ نعمان ہوں، یہاں کا بادشاہ، تمہاری اتنی ہمت کہ مجھے روکو……“
دربان نے اسے سر تا پا دیکھا اور کہا:
”عرصے بعد کسی کے منہ سے شاہ نعمان کا نام سنا، بڑی حیرت ہوئی، خیر سنو، شاہ نعمان تین سال پہلے مر چکا ہے اور اب اس کے ملک پہ ہمارا قبضہ ہو چکا ہے۔“
شاہ نعمان یہ سن کر دھک سے رہ گیا، ادھر دربان کہہ رہا تھا:
”یہاں سے نو دو گیارہ ہو جاؤ، ورنہ ہم تمہیں جیل میں ڈال دیں گے۔“
شاہ نعمان موقع کی نزاکت سمجھ گیا اور وہاں سے واپس لوٹ آیا۔بازار سے گزرتے ہوئے اس کے جی میں آیا کہ لوگوں سے بات کروں، لہٰذا وہ اپنے گھوڑے پر بیٹھ گیا اور بآواز بلند بولا:
”لوگو میری بات سنو!“
جب لوگ جمع ہو گئے تو وہ بولا:
”دیکھو میں تمہارا شاہ نعمان ہوں اور میں مہم سے زندہ لوٹ آیا ہوں، میرے پاس اپنی کامیابی کا ثبوت بھی ہے۔“
لوگوں نے اسے غور سے دیکھا، مگر اس کی شکل و صورت بدل چکی تھی، مزید یہ کہ وہ عوام میں مقبول بھی نہیں تھا، ان کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے انہیں مشکلات میں ڈالتا تھا، لہٰذا سب لوگ چیخ کر کہنے لگے:
”نہیں، نہیں تم پاگل ہو، شاہ نعمان مر چکا ہے اور اگر وہ آ بھی گیا تو ہم اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیں گے۔“
شاہ نعمان یہ سن کر خوف زدہ ہو گیا کہ عوام کا جم غفیر اسے مار ہی نہ ڈالے، لہٰذا وہ چپ چاپ واپس لوٹ آیا، اب اسے ساری دنیا اندھیر لگ رہی تھی، وہ بالکل تنہا اور بے آسرا تھا، اچانک اس کے ذہن میں ملکہ کا خیال آیا، جس کو شاہ نعمان نے دھکا دیا تھا اور وہ گرتے ہوئے اسے بددعائیں دے رہی تھی۔
”مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔“
اس نے دل میں سوچا اور واپس پراسرار شہر جانے کی ٹھان لی اور سفر شروع کر دیا۔ اڑنے والے گھوڑے نے اسے بحفاظت وہاں پہنچا دیا۔ ادھر ملکہ بھی مصلیٰ پہ بیٹھی اپنے پیارے گھوڑے کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگ رہی تھی کہ اچانک اسے شاہ نعمان گھوڑے کے ساتھ آتا دکھائی دیا۔ وہ فوراً اٹھی اور بولی:
”کیا تم مجھے میرا گھوڑا واپس کر دو گے؟“
”ہاں، کیوں کہ میں اب سمجھ چکا ہوں کہ لالچ کا کوئی فائدہ نہیں اور دوسروں کو دکھ دینے والا خود مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے، مجھے معاف کر دیں ملکہ عالیہ!!“
شاہ نعمان کے لہجے میں بہت عاجزی تھی۔ملکہ کا دل پسیج گیا، اس نے نعمان سے اس تبدیلی کی وجہ پوچھی تو نعمان شاہ نے سب کچھ سچ سچ بتا دیا، ملکہ نے ساری داستان سنی تو کہنے لگی:
”میرا مشورہ یہ ہے کہ تم دوبارہ اپنے وطن جاؤ اور اپنے ہم خیال لوگوں سے فرداً فرداً ملو اور انہیں ساری کہانی سناؤ، اس طرح تم اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کر سکتے ہو اور پھر موقع محل کو دیکھ کر اپنی کھوئی ہوئی سلطنت دوبارہ حاصل کر لو، اور دیکھو اب اپنے عوام کے ساتھ انصاف اور مساوات کی حکومت کرنا۔“
ملکہ کی باتیں شاہ نعمان کے دل کو چھو گئیں، وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ملکہ نے کہا:
”شاہ نعمان، اگر تم اس نیک کام کے لیے تیار ہو تو میرا گھوڑا لے جاؤ، یہ تمہاری بہت مدد کرے گا اور جب تم کامیاب ہو جاؤ تو اسے واپس لوٹا جانا۔“
شاہ نعمان نے ملکہ کا شکریہ ادا کیا اور واپس اپنے وطن لوٹ گیا، وہاں جا کر اس نے شہر سے کچھ دور واقع پہاڑی علاقے کو اپنا مسکن بنایا اور اپنا کام شروع کر دیا، یہ کام بہت ہی مشکل تھا مگر چونکہ شاہ نعمان کی نیت ٹھیک تھی لہٰذا رفتہ رفتہ اس کے پرانے دوست اس کے گرد جمع ہوتے گئے، انہوں نے شاہ نعمان کے ساتھ مل کر جنگ کی تیاری کی اور ایک مضبوط لشکر تیار کر لیا، اس کے بعد انہوں نے اپنے ملک کو حاصل کرنے کے لیے حملہ کر دیا، اس دوران اڑنے والے گھوڑے نے بھر پور کردار ادا کیا، اس نے دشمن کے سروں پر آسمان کی طرف سے حملہ کیا جس سے وہ بری طرح گھبرا گئے اور ایک سخت جنگ کے بعد شاہ نعمان نے اپنا ملک دوبارہ حاصل کر لیا، فتح کے بعد اس نے اپنے عوام سے خطاب کیا اور انہیں ایک نئی اور عادلانہ حکومت کی خوش خبری دی۔
اس کے بعد وہ پراسرار شہر کی طرف روانہ ہوا اور وہاں پر ملکہ کا گھوڑا لوٹایا، ملکہ نے بھی شاہ نعمان کی تعریف کی، یوں شاہ نعمان نے اپنا کھویا ہوا ملک واپس لے لیا اور حوادثات زمانہ نے اسے یہ سبق سکھایا کہ غرور کا سر نیچا ہوتا ہے اور مسلسل جدوجہد کرنے سے منزل مل ہی جاتی ہے – اب وہ زیادہ بہتر انداز میں اپنے ملک کی خدمت کرنے لگا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top