skip to Main Content

اچھا مشغلہ

فوزیہ خلیل

…….

ایک محنتی ،پر عزم اور سمجھ دار لڑکی کی کہانی، اسے اپنی بھابھی کا دل جیتنا تھا !

…….

فروا گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ مسئلے کا کوئی حل سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ کتنی ہی دفعہ امی سے بھی پوچھ چکی تھی، مگر امی نے بھی کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا تھا۔ یہ مسئلہ کوئی بہت پرانا نہیں تھا، بمشکل ڈیڑھ سے دو مہینے پرانا تھا، جب ہی سے فروا بہت سے حل سوچتی اور پھر ان کو مسترد کردیتی۔
دو مہینے قبل فروا کے بھائی جان کی شادی ہوئی تھی۔ اس کی بھابھی جان کا نام فارینا تھا۔ بھائی جان کی شادی سے قبل فروا بہت ہی پرجوش تھی، فروا کی کوئی بہن نہیں تھی۔ وہ سوچا کرتی تھی کہ فارینا بھابھی کی شکل میں اسے بہن اور دوست مل جائے گی۔
مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔
جو ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔
فارینا زیادہ تر اپنے کمرے میں ہی رہتی تھی۔ فروا سے اس کی بہت ہی کم بات ہوتی۔ فروا جب کبھی اس کے کمرے میں جاتی تو وہ اپنے لیپ ٹاپ میں بزی ہوتی یا کسی سے فون پر لمبی لمبی باتیں کر رہی ہوتی۔
فروا کچھ دیر تو بیٹھی رہتی پھر بور ہوکر واپس آجاتی۔
اگر فروا اس سے کبھی باہر چلنے کو کہتی تو وہ مسکرا کر منع کردیتی کہ مجھے تو کچھ نہیں لینا۔ تم خود ہی چلی جاﺅ۔
”امی! فارینا بھابھی سے تو میری بالکل بھی دوستی نہیں ہوسکی۔ دو مہینے ہونے والے ہیں۔“ اس دن فروا اداس ہوکر اپنی امی سے کہہ رہی تھی۔
ان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ فارینا بہت گھلنے ملنے والی لڑکی نہیں ہے۔ وہ بات بھی بہت کم ہی کرتی تھی۔ اس کے مشاغل، فروا کے مشاغل سے بالکل مختلف تھے۔ کوئی بھی ایسی قدر نہ تھی جو دونوں میں مشترک ہو۔ امی کو دکھ تو ہوتا تھا مگر وہ کیا کہہ سکتی تھیں، امی خاموش رہتی تھیں اور یہی بہترین حکمت عملی تھی۔
”امی آپ فارینا بھابھی سے کہیں ناں کہ وہ مجھ سے دوستی کریں۔ خوب باتیں کیا کریں۔“ آج وہ بہت اداس تھی۔ ”بتائیے ناں امی کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے ؟“
”دیکھو فروا بیٹی فارینا ابھی اس گھر میں نئی نئی آئی ہے۔ تھوڑا وقت لگے گا پھر وہ یہاں سیٹ ہوجائے گی۔“
”کتنا وقت امی۔ دو مہینے ہونے کو ہیں۔“ اس نے بے چین ہوکر پوچھا۔
”اصل میں تمھارے اور اس کے رجحانات اور مشاغل بالکل مختلف ہیں۔ دوستی اسی صورت میں ہوتی ہے جب آپ کی دلچسپیاں ایک جیسی ہوں۔“ امی بولیں۔
”وہ زیادہ تر وقت لیپ ٹاپ اور موبائل کے ساتھ گزارتی ہیں اور آپ مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتیں۔ میں لیپ ٹاپ اور موبائل ضرورتاً استعمال کرتی ہوں اور پھر یہ دونوں کوئی اچھی چیزیں ہیں بھی نہیں۔“
فروا سوچتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
امی کو فروا کے خیالات جان کر بہت خوشی ہوئی۔ وہ بہت ہی تابعدار اور سمجھ دار لڑکی تھی۔ صلح جو تھی اور سب کے لیے اچھے جذبات اور احساسات رکھتی تھی۔ ہر آئے گئے سے بہت اخلاق سے ملتی تھی۔
”امی! میں سوچوں گی۔ ضرور میں کوئی حل سوچوں گی۔“ اس نے کہا اور اٹھ کر اپنے کمرہ میں آگئی۔
شام کو فروا نے چائے کے ساتھ پکوڑے اور چاٹ تیار کی۔ امی جان نے بھی اس کی بھر پور مدد کی۔ فروا آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی مگر وہ کچن کے بہت سے کام اچھے طریقے سے کرلیتی تھی۔
فروا ایک ٹرے میں چائے، پکوڑے اور چاٹ لے کر فارینا کے کمرے میں گئی، فارینا لیپ ٹاپ پر کچھ لگائے بیٹھی تھی۔
سلام کرکے فروا نے ٹرے وہاں رکھ دی۔
فارینا نے ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے دیکھا مگر کچھ کہا نہیں۔
فروا نے اپنے اسکول کی کچھ باتوں کا ذکر کیا پھر پوچھنے لگی۔
”بھابھی جان! آپ نے کون سا مضمون پڑھا ہوا ہے؟“
”تمھارا مطلب ہے۔ میں نے کس مضمون میں ماسٹرز کیا ہے؟؟“ فارینا بولی۔
”جی…. جی میرا یہی مطلب تھا۔“ فروا نے جلدی سے کہا۔
”بی ایس سی میں میرے پاس زولوجی، باٹنی اور کیمسٹری تھے۔ جب کہ ایم ایس سی میں میرے پاس باٹنی تھی۔“ فارینا نے جواب دیا اور پھر اپنے لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوگئی۔ فروا کا دل چاہا کہ اس سے پوچھے یہ زولوجی کیا ہے، یہ باٹنی کیا ہے؟ باٹنی میں کیا پڑھاتے ہیں؟ مگر وہ کچھ بھی نہ پوچھ سکی اور خاموشی سے ٹرے رکھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
اگلے روز جب سائنس ٹیچر کلاس میں آئیں تو فروا ان کے پاس چلی آئی۔ سائنس کی ٹیچر بہت ہی شفیق استانی تھیں اور فروا سے تو بہت پیار کرتی تھیں۔ فروا نے ان سے زولوجی اور باٹنی کے بارے میں پوچھا۔ تو وہ مسکرانے لگیں۔
”فروا بیٹی! زولوجی میں جانوروں کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے جبکہ باٹنی میں ہم پودوں کے بارے میں پڑھتے ہیں۔“
”ٹیچر میری بھابھی باٹنی میں ماسٹرز ہیں۔“
”او…. یہ تو بہت اچھی بات ہے۔“ ٹیچر نے مسکرا کر کہا ”باٹنی اچھا مضمون ہے۔“
جزاک اللہ کہہ کر فروا اپنی نشست پر آکر بیٹھ گئی۔ فروا کو امی کے جملے یاد آرہے تھے۔
”اصل میں تمھارے اور فارینا کے رجحانات اور مشاغل بالکل مختلف ہیں۔ دوستی اسی صورت میں ہوتی ہے جب آپ کی دلچسپیاں ایک جیسی ہوں۔“
فروا کو جیب خرچ کے طورپر ہر ماہ ہزار روپے ملتے تھے۔ فروا نے اپنے پیسے جمع کرنا شروع کردئیے۔ اس نے ایک ڈبہ بنالیا تھا اس میں پیسے اکٹھا کرنے لگی۔ امی، ابو، بھائی جان، خالائیں، ماموں جب بھی فروا کو پیسے دیتے وہ خرچ کرنے کی بجائے اس ڈبے میں ڈال دیتی۔
عدیلہ، فروا کے پڑوس میں رہتی تھی وہ فروا کی ہم جماعت بھی تھی۔ اس کا گھر تو اتنا بڑا نہیں تھا مگر گھر کے پچھلے لان میں بہت سارے پودے تھے جو لان کے بڑے حصے پر پھیلے ہوئے تھے ۔
شام کو ہوم ورک سے فارغ ہوکر فروا عدیلہ کے گھر گئی۔ وہ یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ پودے کس طرح اگائے جاتے ہیں؟ ان کا خیال کیسے رکھا جاتا ہے ؟ان کو پانی کب دینا ہوتا ہے؟ پودے اگانے کے لیے کس کس چیز کی ضرورت پڑتی ہے؟
اس کام کے لیے فروا کو چند دنوں تک روزانہ شام کو عدیلہ کے گھر جانا پڑا ۔
جلد ہی فروا یہ سب جان چکی تھی۔
پھر ایک شام فروا اپنے جمع کیے ہوئے پیسے لے کر بھائی جان کے ساتھ کہیں گئی اور بہت ساری چیزیں لے کر آئی۔ کئی طرح کے بیج، گملے، پانی دینے کا پائپ، کھاد وغیرہ۔
بھائی جان بہت دلچسپی محسوس کر رہے تھے۔ وہ حیران تھے کہ فروا یہ سب کیوں لے رہی ہے۔ فروا کے گھر میں چار کمرے تھے۔ گھر کے پچھلے حصے میں عام طورپر کاٹھ کباڑ پڑا رہتا تھاجو چیز استعمال میں نہ آتی تھی وہاں ڈال دی جاتی تھی۔
یہ کافی بڑی جگہ تھی اور اوپر سے کھلی تھی۔
اگلے دن فروا کے اسکول کی چھٹی تھی۔ وہ تمام دن وہاں کی صفائی کرتی رہی۔ امی جان نے جب دیکھا تو وہ بھی اس کے ساتھ لگ گئیں۔ جگہ کافی بڑی تھی اس لیے صفائی کرنے میں کافی وقت لگ رہا تھا۔
دو دن میں وہاں کی صفائی مکمل ہوچکی تھی۔ اب وہاں کوئی کاٹھ کباڑ نظر نہیں آرہا تھا۔ دور سے ایک صاف ستھرا بڑا صحن لگ رہا تھا جس کی زمین پکی نہیں تھی۔
اس دن فروا اسکول سے گھر آئی تو اس نے گھر میں نانا جان کو دیکھا۔ نانا جان کافی دن کے بعد آئے تھے۔ فروا ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔
”فروا بیٹی! تمھاری امی نے مجھے تمھاری مہم کے متعلق بتایا ہے ۔“ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
فروا بھی مسکرانے لگی ۔
”ماشاءاللہ !تمھارے ارادے نیک ہیں۔“
”نانا جان !میں بہت سارے گملے لائی ہوں۔“
”دیکھوبیٹی گملے ایسی جگہ رکھو جہاں دھوپ پڑتی ہو۔ گملوں کے نیچے سے زائد پانی گرنے کے لیے سوراخ ضرور ہونا چاہئیں اور مٹی، مٹی بہت ہی گیلی بھی نہ ہو، نہ بہت ہی خشک ہو۔“ انھوں نے فروا کو سمجھایا۔
”نانا جان کیا میں ہر پوداگملے میں اگا سکتی ہوں؟“
”نہیں بیٹی، یہ ممکن نہیں ہے۔ موسمی پھولوں کے پودے تو گملے میں لگائے جاسکتے ہیں مگر کوئی ننھا پودا تناور درخت جب ہی بنتا ہے جب اسے زمین کے سپرد کردیا جائے۔ زمین کی پکڑ اور جڑوں کی مضبوطی ہی سے تناور درخت کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔“ نانا جان رکے اور پھر بولے:”فروا بیٹی! تمھارے پاس تو کافی بڑی جگہ ہے تم تو پودے زمین میںبھی بو سکتی ہو۔میں دیکھ رہا ہوں یہاں مٹی بھی اچھی اور بھربھری ہے۔“
نانا جان نے فروا کا بھر پور ساتھ دیا اور وہاں پر بہت سارے پودے بو دئیے گئے۔
فروا بہت خوش تھی، عدیلہ نے بتایا تھا کچھ پودے تو بہت جلدی بڑے ہوجاتے ہیں جبکہ کچھ کو بڑا ہونے میں کافی وقت لگتا ہے۔
فروا کی بھابھی اپنے میکے رہنے گئی ہوئی تھیں،انھیں معلوم نہیں تھا کہ فروا گھر میں کیا مہم سرانجام دے رہی ہے ۔

٭

اسکولوں کی چھٹیاں ہوچکی تھیں۔ فروا کو بہت اچھا مشغلہ ہاتھ آگیا تھا۔ وہ دن کا کافی حصہ پودوں کے ساتھ ہی گزارتی۔ اس کو بہت مزہ آرہا تھا۔ شام کو اس کی سہیلیاں بھی وہاں چکر لگاتیں اور اس کے گملے دیکھتیں۔
فارینا بھابھی ڈیڑھ دو ہفتے کے بعد لوٹیں تو حیران رہ گئیں۔ انھوں نے گھوم پھر کر اس جگہ کا جائزہ لیا۔ فروا نے جب ان کو وہاں ٹہلتے دیکھا تو بھاگ کر پہنچی۔ ”بھابھی جان! یہ میں نے ایک باغ بنانے کی کوشش کی ہے۔“ وہ پر جوش لہجے میں بولی۔
”اچھا کام کیا ہے تم نے، تم ایک سمجھ دار لڑکی ہو۔“ انھوں نے مسکرا کر کہا پھر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ وہ بات کم ہی کرتی تھیں۔
فروا بہت خوش تھی۔ ”امی…. امی! بھابھی جان نے میری تعریف کی ہے کہ میں بہت سمجھ دار ہوں۔“ اس نے خوشی خوشی امی کو بتایا۔
تھوڑے ہی دنوں میں ننھے ننھے پتے دکھائی دینے لگے۔ نرم نازک اور سبز پتے۔ فروا کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا ،وہ بھاگ کر فارینا کے کمرے میں پہنچی۔
”آپ نے دیکھا…. دیکھا…. وہاں ننھے ننھے پتے….“ وہ پھولی ہوئی۔ سانسوں سے کہہ رہی تھی۔
”ہاں فروا! میں نے دیکھا۔“ فارینا نے مسکرا کر کہا۔ ”آج میں نے تمھارے بھائی جان سے کچھ اور سامان منگایا ہے۔“
”اچھا…. وہ کیا….“ فروا دلچسپی سے سننے لگی۔
”میں یہاں جامن کے پیڑ بھی لگاﺅں گی۔ کیوں ٹھیک ہے ناں!!“
”جی…. بالکل ٹھیک“ اس نے جواب دیا مگر پھر دل میں سوچنے لگی جامن کا ہی پیڑ کیوں؟ کوئی دوسرا کیوں نہیں۔ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ فارینا نے کہا :”دیکھو فروا جامن کی لکڑی پر کیڑا نہیں لگتا۔ ویسے اس کا پھل بھی بہت فائدہ مند ہے لیکن کیڑا نہ لگنے کی صفت کی وجہ سے اب جامن کی لکڑی سے ساز و سامان بنتے ہیں۔“
اب فارینا اکثر باغ میں دکھائی دیتی تھی۔ ننھے ننھے پودوں کا باغ۔ امی نے فارینا کی دلچسپی کے پیش نظر کنارے چند کرسیاں بھی ڈلوادی تھیں۔ اس دن فروا اسکول سے گھر آئی تو فارینا باغ میں ہی موجود تھی۔ اس نے فروا کو آواز دی۔
فروا خوشی سے پھولے نہ سمائی اور بھاگ کر آئی۔
”فروا…. ہم یہاں جامن کے پودے کے علاوہ باغ کی دیواروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے پودے اور جھاڑیاں بھی لگائیں گے۔ یہ جھاڑیاں اور پودے باغ کی حفاظت کرتے ہیں۔ آندھی سے بھی بچاتے ہیں۔“ فارینا کہہ رہی تھی۔
”جی بھابھی جان بالکل ٹھیک۔“ وہ ہنس کر بولی۔
اب جب شام کی چائے بنتی تھی تو فروا اپنی پیالی لے کر وہیں آجاتی تھی تھوڑی دیر بعد امی اور فارینا بھی وہیں آجاتیں۔ تھوڑی بہت باتیں ہونے لگی تھیں۔ فارینا موبائل اور لیپ ٹاپ پر کچھ کم وقت گزارنے لگی تھی۔اس شام فارینا اپنی چائے کی پیالی لے کر باغ میں آئی تو اس نے فروا کو بھی آواز دی۔
فروا آئی تو فارینا نے اس کو کچھ نئے پودے دکھائے۔ پھر اچانک اس نے سوال کیا:”فروا تم نے یہ پودے کیوں اگائے؟“
”کیوں اگائے؟“ فروا چپ سی ہوگئی اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔ وہ کیا بتائے کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔
”تم کو پتا ہے پودوں کے بہت فوائد ہیں ۔یہ ہم کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں ہمارے ماحول کو خوش گوار بناتے ہیں۔ زمین کے کسی بھی حصے میں میں پچیس فیصد رقبہ پر شجر کاری کرنا ضروری ہے۔“ فارینا کہہ رہی تھی اس کی معلومات بہت وسیع تھیں۔
”ہمارے ہاں یہ کتنا فیصد ہے؟“
”ہمارے ہاں صرف چار فیصد…. ایک اندازے کے مطابق امریکا میں تیس فیصد بھارت میں تئیس فیصد، کینیڈا میں اکتیس فیصد، روس میں اڑتالیس فیصد۔“ فارینا بتا رہی تھی اور فروا غور سے سن رہی تھی۔
”درخت ایک قدرتی ائیر کنڈیشنر کا کام کرتا ہے۔ یہ گرمی کی شدت کو کم کرتا ہے۔ تناﺅ اور ڈپریشن کو کم کرتا ہے اور لوگوں کی ذہنی اور جسمانی صحت کو بہتر کرتا ہے۔“
فارینا بتا رہی تھی کہ بھائی جان بھی اپنی چائے کی پیالی لیے وہیں آبیٹھے۔
”فارینا بھابھی نے سائنس پڑھی ہے ناں…. اسی لیے انھیں پودوں سے بہت محبت ہے،باٹنی ان کا مضمون جو تھا۔“ فروا نے بے ساختہ کہا۔
جواب میں بھائی جان زور سے ہنسے پھر بولے: ”ارے فروا چودہ سو سال پہلے اسلام میں درختوں کو کاٹنے سے منع کردیا گیا تھا جنگ جیتنے کے بعد مفتوحہ علاقے میں بھی درختوں کی کٹائی سے منع کیا گیا تھا اور ان کی حفاظت کی تلقین کی گئی تھی۔“
فروا غور سے سننے لگی۔
”بطور شہری یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے نجات کے لیے اپنے گھروں میں گملوں، باغیچوں، اسکولوں میں پودے یا درخت لگائیں۔ ہر شخص کو چاہیے وہ کم از کم ایک پودا تو ضرور لگائے۔“
”پہلے نیم، برگد، املی وغیرہ کے گھنے درخت دکھائی دیتے تھے۔ لوگ ان کے سایے میں آرام کرتے تھے۔ جھاڑیاں اور بیلیں ہوتی تھیں۔ اب یہ سب ختم ہوچکا ہے۔ شہروں میں تو اب یہ کچھ نہیں رہا…. اسی وجہ سے خوب صورت پرندے اور ان کی چہکار بھی سننے کو نہیں ملتی۔ قدرتی ماحول سے ہم خود دور ہو رہے ہیں۔“ فارینا کہہ رہی تھی۔ فروا غور سے سن رہی تھی۔ اس کو یہ سب سن کر افسوس ہو رہا تھا۔

٭

اگلے روز فروا اسکول سے آئی تو امی نے کہا کہ فارینا کئی دفعہ اس کا پوچھ چکی ہے کہ وہ اسکول سے آئی یا نہیں۔
”ہیں امی! سچ؟ فارینا بھابھی اب مجھ سے اکثر باتیں کرنے لگی ہیں اور شام کی چائے تو اکثر میرے ہی ساتھ پیتی ہیں ورنہ شام کی چائے تو وہ اپنے کمرے میں پیتی تھیں لیپ ٹاپ دیکھتے ہوئے۔“ فروا جلدی جلدی کہہ رہی تھی۔
یونی فارم تبدیل کرتے ہی وہ فارینا کے کمرے کی طرف بھاگی۔
”جی بھابھی جان، آپ میرا پوچھ رہی تھیں ناں!!“
”ہاں فروا سچ تو یہ ہے کہ جیسے جیسے یہ پودے بڑے ہو رہے ہیں۔ اچھی ٹھنڈی ہوا اور بھینی بھینی خوشبو ملنے لگی ہے۔ اکثر تتلیاں بھی نظر آتی ہیں اور پرندے بھی۔ بہت ہی اچھا محسوس ہوتا ہے اور یہ سب صرف تمھاری محنت ہے۔“
”نہیں نہیں یہ امی کی بھی محنت ہے نانا جان کی بھی اور آپ کی بھی۔ اس میں ہم سب کی مشترکہ محنت شامل ہے۔“ اس نے فوراً کہا۔
”نہیں اس میں ایک بڑا حصہ تمھارا ہے۔ تمھاری اچھی اور مثبت سوچ اور تمھاری محنت رنگ لا رہی ہے ۔اس عمر کی بچیاں تو بس فیشن اور ہار سنگھار میں مصروف رہتی ہیں مگر تم ایک صحت مند سوچ رکھتی ہو۔ یہ دیکھو یہ میں تمھارے لیے ایک تحفہ لائی ہوں۔ امید ہے یہ پسند کروگی۔“
بہت خوب صورت رنگین کاغذ میں لپٹا ہوا تحفہ تھا۔ اس پر لکھا تھا۔ فروا کے لیے اس کی بھابھی جان کی طرف سے۔
”جزاک اللہ بھابھی جان جزاک اللہ….!“ اس نے فرطِ مسرت سے کہا۔
تحفہ لے کر وہ بھاگتی ہوئی امی کی طرف آئی۔
”امی دیکھیے بھابھی جان نے مجھے کیا دیا ہے۔“
وہ جلدی جلدی کھولنے لگی۔ بہت ہی اچھی ڈھیر ساری کتابیں کچھ دعاﺅں کی، کچھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ کچھ کہانیوں کی اور کچھ شجر کاری کی۔
فروا کتابیں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہی تھی اور بہت خوش ہو رہی تھی۔
”امی! بالآخر بھابھی جان میری پکی سہیلی بن ہی گئیں۔“ اس نے مسکرا کر کہا۔ ”اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں پودے اگانے کا کتنا اچھا خیال ڈالا ناں!“
”ہاں بیٹی تمام اچھے خیالات اچھے احساسات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اس کا شکر گزار رہنا چاہیے آپس میں محبت سے رہنا چاہیے۔ دیکھو تم کو اچھی سہیلی بھی مل گئی۔ ایک اچھا مشغلہ بھی اپنا لیا اور گھر کی فضا میں بھی کتنی محبت اور بے تکلفی ہوگئی ہے ناں!!“
”جی امی!“ فروا نے مسکرا کر کہا اور ایک مرتبہ بھی اپنی کتابیں دیکھنے لگی ۔امی نے جھک کر اس کا ماتھا چوم لیا۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top