skip to Main Content
انوکھا تحفہ

انوکھا تحفہ

جاوید بسام

۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔کیا آپ نے کبھی بیر بہوٹیاں دیکھی ہیں۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

فاکہہ کے ابو فاروق صاحب ایک کالج میں پروفیسر تھے۔ وہ اچھے شاعر بھی تھے۔ ان کی شاعری اکثر اخبار و رسائل میں شائع ہوتی رہتی تھی۔ ان دنوں انھیں کسی کتاب کی تلاش تھی، جب کوشش کے باوجود وہ لائبریری اور دکانوں پر نہیں ملی تو وہ اتوار کے دن پرانی کتابوں کے بازار چلے گئے۔ وہاں سے انھوں نے اکثر نایاب کتابیں خریدیں تھیں۔ وہ بہت دیر تک بازار میں گھومتے رہے، لیکن کتاب نہ ملی۔ واپس آتے ہوئے انھیں خیال آیا کہ بچوں کے لیے کچھ پرانے رسالے خریدلوں۔ وہ ہر ماہ کئی نئے رسالے خریدتے تھے۔ جنھیں بچے چند دنوں میں پڑھ لیتے، چنانچہ اُنھوں نے وہاں سے کچھ پرانے رسالے خریدلیے۔ گھر آکر جب انھوں نے فاکہہ کو رسالے دیے تو وہ بہت خوش ہوئی۔

وہ بولے۔ ’’سردیوں کی چھٹیاں ہونے والی ہیں۔ یہ رسالے چھٹیوں میں پڑھنا اور بھائی کو بھی پڑھنے کے لیے دینا۔‘‘ فاکہہ نے سعادت مندی سے سر ہلایا۔

کچھ دن بعد چھٹیاں ہوگئیں۔ ان ہی دنوں فاروق صاحب اپنی ملازمت کے سلسلے میں کچھ پریشان ہوگئے۔ ان کے کالج میں کوئی مسئلہ ہوگیا تھا۔ وہ خاموش اور رنجیدہ نظر آتے تھے۔

دسمبر کا مہینہ تھا۔ پچیس دسمبر کو ان کی سالگرہ کا دن تھا۔ انھیں سالگرہ منانا اچھا نہیں لگتا تھا بلکہ وہ اسے بُرا سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’زندگی کا ایک سال کم ہونے پر خوشی منانا عجیب سی بات ہے۔‘‘ لیکن گھر والے کچھ نہ کچھ اہتمام کرہی لیتے تھے۔ اس دفعہ ان کی چالیسویں سالگرہ تھی۔ سب اسے دھوم دھام سے منانا چاہتے تھے۔ فائق کا کہنا تھا کہ وہ ابو کو اس بار سب سے الگ تحفہ دے گا۔ وہ بہت دنوں سے پیسے جمع کررہا تھا، تاکہ اچھا سا سوٹ پیس خریدسکے۔ جب کہ امی گھڑی، کف لنکس اور ٹائی دینے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ فاکہہ نے ابھی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ ابو کو کیا تحفہ دیا جائے۔ سالگرہ کا دن قریب آتا جارہا تھا۔ وہ بہت حساس آدمی تھے اور معمولی باتوں پر بھی پریشان ہوجاتے تھے۔

امی نے فاکہہ سے پوچھا: ’’تم کیا تحفہ دوگی؟‘‘

فاکہہ بولی: ’’امی! میں کوئی اچھی چیز خرید لوں گی۔‘‘

’’کیا؟ امی نے پوچھا۔ کیوں کہ وہ چاہتی تھیں کہ ایسی چیز دی جائے جس کی فاروق صاحب کو ضرورت بھی ہو۔

’’کچھ بھی۔۔۔ قریب ہی تو مارکیٹ ہے۔ میں خود ہی خریدلاؤں گی۔‘‘ فاکہہ سوچتے ہوئے بولی۔

امی اور فائق نے اسے حیرت سے دیکھا۔ فائق بولا۔ ’’امی! فاکہہ ہم سے تحفہ چھپانا چاہتی ہے۔‘‘

امی بولیں: ’’چلو ٹھیک ہے، لیکن ایسی چیز دینا جس سے تمھارے ابو خوش ہوجائیں۔‘‘ پھر اُنھوں نے کچھ چیزوں کے نام لیے۔

’’جی ہاں ضرور!‘‘فاکہہ پرزور لہجے میں بولی۔

سالگرہ سے ایک دن پہلے فاکہہ نے ایک پیکٹ دکھایا جس پر خوش نما کاغذ چڑھا تھا۔ ’’اس میں کیا ہے؟‘‘ امی نے پوچھا۔

فاکہہ بولی: ’’امی کل تک کی بات ہے، کل پتا چل جائے گا۔‘‘

’’یہ اُنھوں نے نیا طریقہ نکالا ہے۔ ہمیں معلوم ہوتا تو ہم بھی ایسا ہی کرتے۔‘‘

’’تو آپ اپنا ذہن کیوں استعمال نہیں کرتے۔‘‘ فاکہہ نے ہنس کر کہا۔ آخر سالگرہ کا دن آپہنچا۔ امی بڑا سا کیک اور دوسری چیزیں لے کر آئیں۔ ابو نے کیک کاٹا۔ سب نے ان کی لمبی عمر کے لیے دعائیں کیں۔ کھانے پینے کے بعد امی نے کہا: ’’چلو بھئی اب تحفے کھولے جائیں۔‘‘ پہلے امی کا تحفہ کھولا گیا۔ اسے دیکھ کر ابو دھیرے سے مسکراے اور شکریہ ادا کیا۔ پھر فائق کا تحفہ کھلا۔ ابو بولے۔ ’’بھئی تم نے بہت خرچہ کر ڈالا۔‘‘ اب فاکہہ کی باری آئی۔ وہ بولی میں ایک منٹ میں آتی ہوں یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ جب وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک اور چھوٹا پیکٹ تھا۔ امی حیرت سے بولیں۔ ’’یہ کیا ہے؟ تمھارا تحفہ تو یہاں رکھا ہے۔‘‘

فاکہہ مسکرا کر بولی۔ ’’اس دفعہ میں ابو کو دو تحفے دوں گی۔‘‘

’’لو پھر نئی بات!‘‘ فائق بولا۔

سب تجسس سے فاکہہ کو دیکھ رہے تھے۔ پہلے بڑا پیکیٹ کھولا گیا۔ اس میں سے ایک بہت عمدہ جوتوں کی جوڑی نکلی۔

ابو بولے: ’’بھئی آپ لوگوں نے تو میری ضرورت کا بھی خیال رکھا ہے، لیکن اس چھوٹے پیکٹ میں کیا ہے؟‘‘ فاکہہ نے پیکٹ ان کی طرف بڑھادیا۔ ابو نے اسے لیا اور کھولنے لگے، سب کی نظریں اس پر جمی تھیں۔ کاغذ ہٹا تو اندر سے ایک پرانا بچوں کا رسالہ نکلا۔ امی اور فائق کے منھ سے بے اختیار نکلا۔ ’’یہ کیسا تحفہ ہے؟‘‘

مگر ابو اسے بہت غور سے دیکھ رہے تھے ۔ان کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ وہ جنوری انیس سو ستاسی کا ’ساتھی‘ تھا۔ اس کے سرورق پر دو لڑکے نظر آرہے تھے جو کسی پرفضا مقام کی سیر کررہے تھے، ان کے پیچھے درخت اور پہاڑ بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ابو نے صفحہ پلٹا پھر ان کے منھ سے بے ساختہ نکلا۔ ’’ارے! یہ تمھارے پاس کہاں سے آیا؟‘‘ پہلے صفحے کے اوپری حصے پر قلم سے کچھ تحریر تھا۔ ابو کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا تھا۔

وہ تحریر پڑھتے ہوئے بولے: ’’فاروق احمد بقلم خود۔‘‘

وہ زور سے ہنسے۔ ’’بھئی یہ رسالہ تمھیں کہاں سے ملا؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔ فاکہہ کے جواب دینے سے پہلے امی اور فائق بولے۔ ’’آخر اس میں ہے کیا، ہمیں بھی تو بتائیں؟‘‘

فاروق صاحب نے رسالہ امی کے ہاتھ میں دے دیا۔ وہ بولیں: ’’اس پر تو آپ کا نام اور ہمارے گھر کا پتا لکھا ہے؟‘‘

فاکہہ بولی: ’’جی ہاں اور یہ ابو نے اپنے ہاتھ سے اس وقت لکھا تھا جب وہ دس سال کے تھے اور اس رسالے میں ان کی پہلی نظم شائع ہوئی تھی۔‘‘

امی تعجب سے بولیں۔ ’’لیکن یہ رسالہ پہلے تو گھر میں نظر نہیں آیا؟‘‘

’’ابو کچھ دن پہلے پرانے بازار سے لائے ہیں۔‘‘ فاکہہ نے مسکرا کر کہا۔

فاروق صاحب نے گردن ہلائی اور بولے۔ ’’ایک دفعہ میں نے اپنی کچھ کتابیں ہٹائی تھیں تو یہ رسالہ بھی ان میں مل کر چلا گیا تھا۔ بعد میں، میں اسے ڈھونڈتا رہا لیکن نہیں ملا۔ یہ عجیب اتفاق ہوا کہ اتنے عرصے بعد یہ پلٹ کر اسی گھر میں آگیا جہاں پہلی دفعہ آیا تھا۔‘‘

سب حیرانی سے ان کی باتیں سن رہے تھے۔ ابو خوش دلی سے رسالے کے صفحے پلٹ رہے تھے۔ ان کے چہرے پر خوشی رقص کررہی تھی، ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنے پرانے دور میں چلے گئے ہیں۔

فائق بولا: ’’نہ جانے اتنے عرصے میں یہ کہاں کہاں گیا ہوگا اور کس کس نے اسے پڑھا ہوگا۔‘‘

ابو بولے۔ ’’ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘ پھر رُکے اور کچھ سوچتے ہوئے بولے: ’’ہاں مجھے یاد آرہا ہے، جس دن یہ رسالہ آیا تھا خوب تیز بارش ہوئی تھی۔ جب ہمارا یہ علاقہ اتنا آباد نہیں تھا۔ پیچھے اچھا خاصا جنگل اُگا ہوا تھا۔ دوپہر میں ہم دوست وہاں نکل گئے تھے۔ بہت خوشگوار موسم تھا۔ درختوں پر پرندے چہک رہے تھے۔ ہم اُونچے نیچے پہاڑی ٹیلوں پر خوب کھیلے تھے اور ہاں ہم نے بیر بہوٹیاں بھی پکڑی تھیں۔‘‘ ابو جوش سے بولے۔

’’بیر بہوٹیاں؟‘‘ فائق کے منھ سے نکلا۔

’’یہ کیا ہوتی ہیں؟‘‘ فاکہہ نے جلدی سے پوچھا۔ امی مسکرا رہی تھیں۔

ابو بولے: ’’یہ ایک سرخ رنگ کا مکڑی جیسا کیڑا ہوتا ہے، مخمل کی طرح نرم و نازک، ہاتھ لگاؤ تو اپنے پنجے موڑ کر اس طرح ساکت ہوجاتا ہے جیسے مخمل کا ٹکڑا ہو۔ جب ایسا ہوتا تو ہم آواز لگاتے۔ ’’بیر بہوٹی، بیر بہوٹی! اپنے انجے پنجے کھول لے! کچھ دیر بعد وہ پنجے کھول کر چلنا شروع کردیتی تھیں۔‘‘

فائق بولا: ’’لیکن ہم نے تو یہ کبھی نہیں دیکھیں؟‘‘

’’ہاں اب شہروں میں یہ نظر نہیں آتیں۔ میں انھیں گھر لے آتا تھا اور ماچس کی ڈبیہ میں رکھتا تھا۔‘‘

ابو اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بہت پرجوش تھے۔ ایسا لگتا تھا وہ اپنے تمام مسائل کو بھول چکے ہیں۔ سب بہت خوش تھے اور ہنس بول رہے تھے۔ پھر ابو بولے: ’’فاکہہ تم نے ایسا تحفہ دیا ہے جس سے میرا دل تو خوش ہوا ہی۔۔۔ ساتھ ہی نئی ہمت اور حالات سے مقابلہ کرنے کی طاقت بھی پیدا ہوگئی ہے۔ تمھارا بہت بہت شکریہ۔‘‘

*۔۔۔*

 

اس تحریر کے مشکل الفاظ

سعادت مندی: نیک بختی

کف لنکس: آستین کے بٹن

ساکت: بے حرکت

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top