skip to Main Content

الشعبۃ من الایمان

بیگم ناجیہ شعیب احمد
۔۔۔۔۔

سوئمنگ پول میں نہانے کے لیے تمام لڑکے بے تابی سے سر وقار کے ایک اشارے کے منتظر تھے۔ جوں ہی سر وقار نے اشارہ کیا وہ سب کے سب سوئمنگ پول میں ننگ دھڑنگ کود پڑے مگر عکاشہ سب سے الگ تھلگ کونے میں سر جھکائے بیٹھا رہا۔ سر وقار کے استفسار پر جب عکاشہ نے انہیں یہ حدیث مبارکہ سنائی تو وہ کچھ بھی کہنے کے قابل نہیں رہے۔
حضرت جرید ابن خویلد سے روایت ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ ران (بھی) ستر میں شامل ہے۔“

۔۔۔۔۔

سارہ کا کمرہ مہمان خواتین اور بچوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ اچانک نومولود حمنہ نے گیلے پن کا احساس ہوتے ہی ماں کو متوجہ کرنے کے لیے وقفے وقفے سے آوازیں نکالتے ہوئے بے چینی سے مسلسل ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے۔ یہ دیکھ کر سارہ کو سخت کوفت محسوس ہونے لگی، کافی دیر گزر جانے کے بعد بالآخر اس نے ساری ہمت مجتمع کر کے کہہ ہی دیا۔
”برائے مہربانی آپ سب تھوڑی دیر کے لیے کمرا خالی کر دیجیے، مجھے حمنہ کے کپڑے تبدیل کرنے ہیں۔“
یہ سنتے ہی کمرے میں کھلبلی سی مچ گئی۔ خالہ ساس نے اسے اچھنبے سے دیکھا اور ناک سکیڑتے ہوئے بولیں۔”ای نوج! کوئی شرم، حیا، ادب تمیز نام کی چیز بھی ہوتی ہے۔ اماں بنتے ہی تیور بدل لیے۔“
”خالہ جان! شرم و حیاء کی وجہ سے ہی کہہ رہی ہوں۔ آپ سب کے سامنے بچی کے کپڑے کیسے بدلوں؟“سارہ نے تحمل اور نرمی سے وجہ بتائی۔
یہ سنتے ہی بڑی بی کو تو جیسے اچھو لگ گیا۔ وہ ہاتھ نچا نچا کر دہائیاں دینے لگیں۔”ہائے زرینہ بی بی کی بہو نے اپنی انگشت بھر چھوکری کا لباس تبدیل کرنے کے لیے ہم بزرگ خواتین کو کمرہ بدر کرنے کا حکم صادر کر دیا۔“ تیز مزاج خالہ ساس نے دیگر رشتے دار خواتین کو اپنا حامی بناتے ہوئے بات کا بتنگڑ بنا ڈالا۔
”اتنی سی بات پر ہم سب کمرے سے باہر چلے جائیں۔ ہم تو تحفے تحائف سے لدے پھندے ہوئے لڑکی کی پیدائش کی مبارک باد دینے آئے تھے۔“ اب وہ ساری خواتین زور زور سے بولتے ہوئے طعنہ زنی پر اتر آئی تھیں۔
سارہ کی ساس اور نندیں چراغ پا ہوتی رشتے دار خواتین کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں اور سارہ خفت مٹانے کے لیے بے بسی سے اپنے دونوں ہاتھ ملتے ہوئے اپنی صفائیاں پیش کر رہی تھی۔ جب کہ ننھی حمنہ نے گلا پھاڑ کر رونا شروع کر دیا تھا۔

۔۔۔۔۔

زریاب کی نظریں دن بدن بے باک ہوتی جارہی ہیں۔ وہ ہر آتی جاتی عورت کو گھور گھور کر بے شرمی سے دیکھتا ہے، گانا گنگناتے ہوئے سیٹیاں بجاتا ہے۔ اشارے بازی کرتا ہے۔ یہی نہیں وہ گلی کی چھوٹی لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ خانی بھی کرتا ہے۔ یہ ساری باتیں محلے کی شریف خواتین کے منہ سے سننے کے بعد زرینہ کا دل شرم سے ڈوب مرنے کو چاہنے لگا۔ انہوں نے اپناسر پیٹ لیا۔ دس بچے پیدا کرنے کی اذیت سہنے والی ماں کو تربیت اب ناسور بن کر ڈسنے لگی تھی۔ انہوں نے بگڑے ہوئے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش جاری رکھتے ہوئے اس حدیثِ پاک کا انتخاب کیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد مصطفیﷺ نے ارشاد فرمایا: ”آنکھوں کا زنا (نامحرم عورت کی طرف) دیکھنا ہے، کانوں کا زنا (حرام آواز کا) سننا ہے، زبان کا زنا (ناجائز) کلام کرنا ہے، ہاتھ کا زنا (ناجائز) پکڑنا ہے اور پیر کا زنا (حرام کی طرف) چل کر جانا ہے اور دل خواہش کرتا ہے اور آرزو کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کر دیتی ہے۔“

۔۔۔۔۔

”میں تو حمنہ کو اپنے عکاشہ کی دلہن بناؤں گی۔“ زرینہ خاتون کی بیٹی زینت حمنہ کو کلیجے سے لگائے بڑے مان سے کہہ رہی تھی۔
”نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا زینت! مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ میری سارہ کے ساتھ تمہارے بھائی نے جو بدترین سلوک کیا،اس کے بعد نئے رشتے جوڑنے کی مزید کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔“
ماریہ چلا اٹھی تھی۔ سارہ اس کی لاڈلی بیٹی جس کی شرم و حیاء کو ان کے داماد نے اپنی انا کا مسئلہ بنا کر گھر کا ماحول جہنم بنا ڈالا تھا۔

۔۔۔۔۔

ماریہ لندن کے مادر پدر آزاد ماحول میں پلی بڑھی تھی۔ اس کے ماں باپ عیسائی تھے۔ جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی، اسے اپنے ماحول میں پھیلی بے حیائی و فحاشی سے کراہت محسوس ہونے لگی۔ اسے اپنے اردگرد باحجاب مسلمان خواتین کی شرم و حیاء بھانے لگی تھی۔ ان مسلمان لڑکیوں کا سکڑ سمٹ کر پردے میں پوشیدہ رہنا اسے بہت زیادہ متاثر کرتا۔ اس کے دل میں شدت سے باحجاب رہنے کی خواہش پروان چڑھنے لگی۔
ایسے میں پرکشش شخصیت، باریش چہرے جھکی جھکی نگاہوں کے مالک میرب کو دیکھ کر ماریہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔ میرب لندن اپنے بھائی بھابھی کے پاس رہنے آیا ہوا تھا۔ پڑوس میں ماریہ کا گھر تھا۔ ماریہ کا میرب کی بھابھی کے پاس آنا جانا تھا۔ ماریہ بھابھی کے پردے سے بہت متاثر تھی۔ ماریہ نے دل و جان سے اسلام قبول کر لیا تھا۔ جب ہی بھائی بھابھی کے کہنے پر میرب کی شادی ماریہ سے کر دی گئی۔دونوں ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔

۔۔۔۔۔

ماریہ نئی نئی دین اسلام میں داخل ہوئی تھی۔ اس نے حکمِ خداوندی کو مانتے ہوئے ہر گناہ سے توبہ کر لی تھی۔ میرب بہت اچھا شوہر ثابت ہو رہا تھا۔ وہ ایک باعمل مسلمان اور سچا امتی تھا جو سیرتِ مصطفی پر سختی سے عمل پیرا تھا۔ ماریہ بھی اپنے شوہر کی دیکھا دیکھی ہر نیک کام میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگی۔ سیرتِ طیبہ کے کئی واقعات سننے کے بعد بغیر کسی کے سکھائے سمجھائے شرم و حیاء اس کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔پھر ان کے گھر ایک ننھی سی پری سارہ نے آنکھیں کھولیں۔

۔۔۔۔۔

ماریہ ایک بہترین ماں ثابت ہوئی تھی۔ میرب بہت خوش تھا،وہ ماریہ کو نعمتِ خداوندی گردانتے ہوئے اٹھتے بیٹھتے شکر بجا لاتا۔ ماریہ نے سیرتِ طیبہ پر عملدرآمد کرتے ہوئے سارہ کی تربیت کی اور اسے شرم و حیاء کا پیکر بنانے میں اپنی جان لگا دی تھی۔

۔۔۔۔۔

زرینہ خاتون کو سارہ ایک ہی نظر میں بھا گئی تھی۔ انہوں نے ماریہ اور میرب سے اپنے زریاب کے لیے سارہ کا ہاتھ مانگ لیا۔
ماریہ نے زرینہ خاتون کے مذہبی اور باپردہ ماحول کو دیکھتے ہوئے آنکھیں بند کر کے ہاں کر دی۔ اور یوں سارہ زریاب کی دلہن بن کر زرینہ خاتون کے گھر آ گئی۔

۔۔۔۔۔

”سارہ! کون سی قیامت آ جاتی اگر تم بچی کے کپڑے سب کے سامنے بدل دیتیں۔ وہ سب صرف ہماری خوشی میں شریک ہونے آئی تھیں۔ اور ویسے بھی بیٹی پیدا کرکے تم نے کون سا تیر مارا ہے؟“
سارہ، زریاب کو حیرت سے دیکھتی رہ گئی۔ وہ جو بڑے فخر سے خود کو کلمہ گو سمجھتا تھا۔ آج اس کا باطن کھل کر سامنے آگیا تھا۔ وہ جو دوسروں کی بہن بیٹی کو بری نظروں سے دیکھتا آیا تھا،وہ اپنی بیٹی کی کیا حفاظت کرسکے گا؟
سارہ نے اپنے کلمہ گو مجازی خدا کو قائل کرنے کے لیے دھیمے لہجے میں ایک واقعہ سنانا شروع کر دیا۔
”آپ کو پتا ہے زریاب!
جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہو رہی تھی تو آپﷺ بھی قریشِ مکہ کے ساتھ پتھر اٹھا کر لا رہے ہیں۔ اور شرم وحیاء اتنی غالب ہے کہ جب آپﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ دیکھتے ہیں کہ آپﷺ ننگے کندھے پر پتھر اُٹھا کر لا رہے ہیں تو ترس کھاتے ہوئے آپﷺ کا تہبند کھول کر کندھے پر رکھ دیا۔ آپﷺ شرم کے مارے بے ہوش ہو کر گر پڑے، یہ فرماتے ہوئے کہ میری چادر مجھ پر ڈال دو۔“
سارہ نے محبت سے چور لہجے میں درود و سلام بھیجتے ہی بات ختم کرکے سر جھکا لیا۔
سارہ کے درد بھرے جملوں نے زریاب کے دل کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور عشقِ مصطفیﷺ کے سوکھے ہوئے سوتے روح میں پھوٹنے لگے اور آنکھوں سے آنسو موتیوں کی طرح ٹپکنے لگے۔ ندامت چہرے سے عیاں تھی۔
صلی اللہ علیہ وسلم

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top